افغانستان میں زلزلے سے 320 افراد کی ہلاکت کا خدشہ

  اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق، ہفتہ کو ملک کے مغرب میں 6.3 شدت کے دو زلزلے آئے۔ اقوام متحدہ نے ابتدائی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 320 بتائی تھی لیکن بعد میں کہا کہ اس تعداد کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ مقامی حکام کا اندازہ ہے کہ 100 افراد ہلاک اور 500 زخمی ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کی اسی تازہ کاری کے مطابق۔ یو ایس جی ایس نے رپورٹ کیا کہ زلزلے کا مرکز ہرات شہر سے تقریباً 25 میل شمال مغرب میں تھا اور اس کے بعد 5.5 شدت کا آفٹر شاک آیا۔ اس کی ویب سائٹ پر نقشے میں بتایا گیا ہے کہ اس علاقے میں سات زلزلے آئے ہیں۔ افغانستان کی ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی وزارت کے ملا جان صائق نے کہا کہ یہ اعداد و شمار صوبہ ہرات کے ضلع زندہ جان سے ملنے والی رپورٹوں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زلزلے نے فراہ اور بادغیس کے صوبوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے جہاں سے بڑے پیمانے پر مکانات کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں تاہم ابھی تک جانی نقصان کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔ افغان ہلال احمر کے ترجمان عرفان اللہ شرافزوئی نے کہا کہ ہنگامی ٹیمیں اور رضاکار متاثرین کی مدد کے لیے ہرات جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں شہر میں سینکڑوں لوگوں کو اپنے گھروں اور دفاتر کے باہر گلیوں میں دکھایا گیا ہے۔ رہائشی عبدالشکور صمادی نے کہا کہ وہ اور اس کا خاندان اپنے گھر کے اندر تھے اور زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے – انہوں نے مزید کہا کہ اس کے رشتہ دار چیخنے لگے اور باہر بھاگے اور اب واپس آنے سے ڈر رہے ہیں۔ “تمام لوگ گھروں سے باہر ہیں، گھر، دفاتر اور دکانیں سب خالی ہیں اور مزید زلزلوں کا خدشہ ہے۔” ایک اور رہائشی، نسیمہ نے کہا کہ زلزلے کے متعدد جھٹکوں نے ہرات میں خوف و ہراس پھیلا دیا، انہوں نے مزید کہا: “لوگ اپنے گھر چھوڑ کر چلے گئے، ہم سب سڑکوں پر ہیں۔” اقتصادی امور کے لیے طالبان کی جانب سے مقرر کیے گئے نائب وزیر اعظم عبدالغنی برادر نے ہرات اور بادغیس میں متاثرین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ سال جون میں افغانستان میں دو دہائیوں کے سب سے مہلک زلزلے میں کم از کم 1,000 افراد ہلاک اور 1,500 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

افغانستان میں زلزلے سے 320 افراد کی ہلاکت کا خدشہ Read More »

حماس کے راکٹ حملوں میں 40 اسرائیلی ہلاک، 700 سے ز ائد زخمی، اسرائیل کے جوابی حملوں میں 161 فلسطینی ہلاک 1000 زخمی

  اسرائیل کی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغے جانے اور زمینی حملوں کے بعد کم از کم 40 اسرائیلی ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں 161 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ اسے پہلے اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے غزہ کی پٹی میں راکٹوں کے حملوں کے جواب میں اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عسکریت پسند گروپ حماس سے تعلق رکھنے والے درجنوں مسلح افراد غزہ کی پٹی سے اچانک حملے میں جنوبی اسرائیل میں گھس آئے۔ جس کے بعد اسرائیلی میڈیا پر یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس نے کچھ اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے۔ خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘ یورپی ڈیپلومیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کی خبروں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ بین القوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یرغمال بنائے جانے والوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔‘ اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں حماس کے اہداف پر جوابی فضائی حملے کیے ہیں۔ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے غزہ سے اسرائیل پر راکٹ داغے۔ حماس کے رہنما محمد دیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے۔ ‘ اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ ’متعدد دہشت گرد‘ غزہ سے اسرائیلی علاقے میں گھس آئے ہیں۔ اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کا اجلاس مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے ہوگا اور آئی ڈی ایف نے حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی‘۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق جنوبی اسرائیل کے مختلف مقامات پر اسرائیلی اور فلسطینی افواج کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ ان کے عوام کو ’آبادکاروں اور قابض فوجیوں کی دہشت‘ کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت‘ ہے۔ انھوں نے فلسطینی عوام کے اس حق پر زور دیا کہ وہ آبادکاروں کی ’دہشت گردی اور قابض افواج‘ کے خلاف اپنا دفاع کریں۔ فلسیطینی صدر رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق اسرائیل کے ایک حکومتی اہلکار نے بتایا ہے کہ ’فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے منظم انداز میں کیے جانے والے اس حالیہ حملے کے بعد اسرائیل میں اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا آغاز کیا جا رہا ہے کہ جس میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کیسے اسرائیلی خفیہ ایجنسی اس کے بارے میں پتہ لگانے میں ناکام ہوئی۔‘ مصنف اور صحافی گیڈون لیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کے خیال میں فلسطینیوں کے ساتھ کوئی تصفیہ اب پہنچ سے باہر ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں گھر سے باہر نکلا، سڑکیں ویران تھیں۔‘ ریستوراں، کیفے سب کچھ بند پڑے ہیں اور فضا خوف سے بھری ہوئی ہے۔‘ صحافی گیڈون لیوی نے مزید کہا کہ ’جب پہلا راکٹ گرا تو میں پارک میں جاگنگ کر رہا تھا، ااس وقت شور شرابہ دہلا دینے والا تھا۔‘ عالمی ردِ عمل فلسطین کے عسکریت پسند گروہ کی جانب سے اسرئیل پر ہونے والے حملے پر عالمی دُنیا کی جانب سے بھی رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ فرانس کے صدر ایمنول میکرون نے اسرائیل پر ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اُنھوں نے ’ان حملوں میں نشانہ بننے والے لوگوں اُن کے اہل خانہ اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔‘ جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’عام شہریوں کے خلاف راکٹ اور مزائل داغنے کے اس سلسلے کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔‘ یورپی کمشن کی چیئرمین نے اسرائیل پر ہونے والے اس حملے کو ’دہشت گردی کی ایک انتہائی گھناؤنی شکل قرار دیا۔‘ امریکہ کی جانب سے بھی فریقین پر حالات کو معمول پر لانے کے لیے زور دیا گیا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ کے مطابق ’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘ پورے جنوبی اسرائیل میں سائرن بج رہے ہیں جسےہ کی صبح تل ابیب کے بڑے علاقے میں سنا جا سکتا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی فائر فائٹرز اشکیلون شہر میں آگ بجھانے میں لگے ہیں جبکہ جلی ہوئی گاڑیوں سے دھویں کے گہرے مرغولے اٹھ رہے ہیں۔ اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کی جانب سے ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے ’دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد‘ اسرائیلی علاقے میں گھس آئی ہے اور آس پاس کے علاقوں کے رہائشیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں۔ اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ’انھوں نے اب تک حماس کے 17 کمپاؤنڈز اور چار مراکز پر حملے کیے ہیں۔‘ بی بی سی نے اسرائیلی دفاعی افواج کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔ ہمارے نامہ نگار رشید ابوالعوف نے غزہ پٹی سے بتایا ہے کہ ’چھت پر اپنی پوزیشن سے میں مشرق، جنوب، شمال، ہر جگہ سے راکٹ داغے جاتے دیکھ سکتا ہوں۔‘ حماس ٹی وی کا کہنا ہے کہ

حماس کے راکٹ حملوں میں 40 اسرائیلی ہلاک، 700 سے ز ائد زخمی، اسرائیل کے جوابی حملوں میں 161 فلسطینی ہلاک 1000 زخمی Read More »

فری لانسنگ کے ذریعے تعلیمی اخراجات اٹھانے والے پاکستانی طلبہ کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟

حال ہی میں سکھر کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے اپنے طلبہ کو بذریعہ ای میل وارننگ دی کہ ’اگر کوئی فری لانس کام کرتا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ دینا پڑے گا۔‘ طلبہ نے فوراً اس تنبیہ کی شدید مخالفت کی، جیسے کرن خان نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ یونیورسٹی میں ’فوٹو کاپی ہی اتنی مہنگی ہے۔ فیس کے علاوہ اتنی اسائنمنٹس اور نوٹس کے پیسے انھی کاموں سے پورے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی بالغ کو روزمرہ کے خرچوں کے لیے پیسے کمانے سے نہیں روک سکتا۔‘ ادارے کی وارننگ کے بعد کرن کی طرح کئی لوگوں نے ناراضی ظاہر کی۔ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ ’اگر ان کو طلبہ کی اتنی فکر ہے تو انھیں اپنی فیس کم کر دینی چاہیے۔‘ مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثرہ کئی پاکستانیوں کے لیے پیسے کمانا فری لانسنگ کے ذریعے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ پاکستانی طلبہ پڑھائی کے دوران فری لانسنگ کرنے پر کیوں مجبور؟ آئی بی اے کی تنبیہ پر اکثر طلبہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ایک تعلیمی ادارہ طلبہ کو آمدن کمانے اور خود کفیل ہونے سے کیسے روک سکتا ہے۔ ہم نے سکھر میں آئی بی اے کی انتظامیہ سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ’یہ ای میل طلبہ کو ایک وارننگ کے طور پر بھیجی گئی تھی کیونکہ پوری کلاس لیب میں فری لانسنگ کرنے میں مصروف تھی جبکہ ٹیچر کلاس میں انتظار کر رہے تھے۔‘ واضح رہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی ہے کہ طلبہ کے لیے 75 فیصد حاضری لازمی ہے۔ ادارے نے اس ای میل کو جلد ہی واپس لے لیا اور اب سٹوڈنٹس کو بتایا گیا ہے کہ وہ ’ایک مخصوص وقت میں فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔‘ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر طلبہ اپنی پڑھائی کے دوران کام کیوں کرتے ہیں۔ پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے طالبعلم داؤد قیوم کہتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران ہونے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ ’میں پشاور میں عینک اور بچوں کے کھلونے وغیرہ روڈ کنارے یا فُٹ پاتھ پہ بیچتا ہوں اور اس سے اپنے ہاسٹل کا خرچہ نکالتا ہوں۔ دن میں تقریباً تین سو سے پانچ سو تک کماتا ہوں۔‘ لیکن اُن کا خیال ہے کہ تعلیم کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ داؤد کے بقول ’یہ تعلیم پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ اُن کے دماغ میں یہ چل رہا ہوتا ہے کہ شام کو روٹی کیسے ملے گی۔ وہ خرچہ اور فیس وغیرہ کہاں سے پورا کریں گے۔ تو اس کی وجہ سے آدھا دماغ کام کی طرف جاتا ہے۔‘ دنیا بھر میں بیشتر طلبہ اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مختلف کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ رجحان عام ہے۔ ماضی میں اکثر سٹوڈنٹس کی پہلی ترجیح اپنے اور دوسروں کے گھروں یا سینٹرز میں جا کے ٹیوشن دینا ہوتی تھی۔ البتہ اب دور بدل گیا ہے اور انٹرنیٹ نے بہت سے مواقع پیدا کر دیے ہیں۔ طلبہ فری لانسنگ کے مختلف کاموں کے ذریعے پیسے بنا رہے ہیں۔ کچھ طلبہ سیلز پرسن ہیں تو کچھ بطور فوڈ ڈیلیوری رائیڈر کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو رائیڈ ہیلنگ ایپس کے ساتھ ڈرائیونگ کر کے آمدن حاصل کرتے ہیں۔ کیا پارٹ ٹائم کام کرنے سے پڑھائی متاثر ہوتی ہے؟ بیشتر طلبہ کا خیال ہے کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران ہی خود کفیل ہو کر اپنے والدین پر پڑنے والے معاشی بوجھ کو بانٹنا چاہتے ہیں۔ لیکن ملازمت کی وجہ سے اُن کی پڑھائی کا کتنا حرج ہوتا ہے؟ کراچی کی ایک مقامی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے سٹوڈنٹ انس الرحمان بطور ٹیچر ایک ادارے میں پڑھاتے بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی اُن کی اپنی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔ ’جیسے ایک ایسا وقت بھی آیا کہ میرے سٹوڈنٹس کا پرچہ تھا اور میرے اپنے بھی امتحانات چل رہے تھے۔‘ گھر میں ہی ٹیوشنز دینے والی کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے نام ظاہر کیے بنا کہا کہ ’اگر کام نہیں کر رہی ہوتی تو ظاہر سی بات ہے ٹائم زیادہ بچتا اور ہم اپنی سٹڈیز پہ زیادہ توجہ دے سکتے۔‘ کراچی کی محمد علی جناح یونیورسٹی میں گریجویشن کی ایک طالبہ بولیں کہ ’بیکنگ کا بہت زیادہ شوق ہے جو میں کر نہیں پاتی کیونکہ ٹائم مینیج نہیں ہو پاتا۔‘ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ آیا جاب کرنے والے طلبہ کو اپنے تعلیمی ادارے کی کتنی سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ تاریخ کی سٹوڈنٹ کائنات بلوچ کراچی یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سینٹر فار یورپ کی طالبہ ہیں۔ خوش قسمتی سے اُنھیں بطور ریسرچ اسسٹنٹ ایک سرکاری ادارے میں کام مل گیا اور اُن کے تعلیمی ادارے نے اُنھیں مکمل سپورٹ کیا۔ اُن کے ٹیچرز نے دیگر طلبہ کو اپنے کلاس نوٹس کائنات سے شیئر کرنے کی تلقین کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں ریسرچر ہوں، مجھے سائٹ پہ جانا پڑتا ہے۔ کانفرنسز ہوتی ہیں، اُن کی تیاری کرنی پڑتی ہے تو ایسے میں میرے تعلیمی ادارے کی طرف سے سپورٹ ملی۔‘ لیکن تھکا دینے والے سفر، پراجیکٹس اور اسائنمنٹس کی وجہ سے روزانہ ایک رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ یہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ اسی طرح محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کے ایک طالبِ علم آفاق احمد نے بتایا کہ ’یونیورسٹی کی بہت بڑی سپورٹ ہوتی ہے جیسے جب ہماری رجسٹریشن ہوتی ہے تو ہم ایڈوائزر کو بتا دیتے ہیں کہ ہم ساتھ ساتھ جاب بھی کر رہے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ کافی تعاون کرتے ہیں۔‘ پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ لڑکیوں کو ایک مخصوص وقت کے بعد ہاسٹل سے باہر رہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کے بقول ’ہاسٹل میں رہتے ہوئے ہم فری لانس کام کرتی ہیں لیکن ہاسٹل سے باہر ہم جاب نہیں کرسکتیں۔‘ ’اگر یہی سٹوڈنٹس کسی ایک کے بجائے کسی گروپ کو یا ٹیوشن سینٹر میں پڑھانے لگیں تو اُن کی پریزینٹیشن کی صلاحیت بھی بہتر ہوسکتی ہے۔ اُن میں سٹیج کا سامنا کرنے کی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے۔‘ دنیا تیزی سے بدل رہی

فری لانسنگ کے ذریعے تعلیمی اخراجات اٹھانے والے پاکستانی طلبہ کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ Read More »

پنجابی ہپ ہاپ سنگرز جن کا کریئر انڈیا کینیڈا تنازعے میں پِس رہا ہے

کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے ممکنہ طور پر انڈین اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد گذشتہ ماہ جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تو اس تناظرمیں انڈیا کے پنجابی ریپرشوبھنیت سنگھ کا انڈیا کا دورہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اس دورے کو ملتوی کرنے کی وجہ ایک تنازع تھا جو ایک پرانی سوشل میڈیا پوسٹ پر شروع ہوا جس میں انھوں نے انڈیا کا غلط نقشہ شیئر کیا ہوا تھا۔ کینیڈا میں شوبھ کے نام سے پہچانے والے سنگر پر خالصتان (سکھوں کاعلیحدہ وطن کے مطالبے) کی حمایت کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ خالصتان انڈیا میں ایک حسّاس موضوع ہے اور 1980 کی دہائی میں اس تحریک میں شدت آنے سے پرتشدد مظاہرے بھی سامنے آئے تھے۔ کینیڈا میں انڈیا کی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں اور اسی لیے اسے پنجابی موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ فنکار نہ صرف اپنا وقت اور فن دونوں ممالک میں بانٹتے کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے کینیڈا سے انڈیا کا سفر ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے جہاں ان فنکاروں کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ چنانچہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے جب یہ کہا گیا کہ ان کا ملک ان ’قابل اعتماد الزامات‘ کی تحقیقات کررہا ہے جو سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے انڈیا کا تعلق جوڑ رہے ہیں تو اس سفارتی محاذ نے دونوں ممالک کو اپنا گھر کہنے والے موسیقاروں کو پریشان کردیا ہے۔ واضح رہے کہ انڈیا نے کینیڈا کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم اس بیان کے بعد سے انڈیا نے کینیڈا کے شہریوں کو ویزا جاری کرنا بند کر دیا ہے۔ پنجابی ریپرشوبھنیت سنگھ عرف شوبھ نے لوگوں سے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ ہر پنجابی کو علیحدگی پسند یا ملک دشمن قرار دینے سے گریز کریں تاہم اس کے بعد سے اب انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور بات صرف تنقید پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ شوبھ کو اپنا پسندیدہ فنکار کہنے والے انڈین کرکٹر ویرات کوہلی سمیت بعض انڈین کرکٹرز نے سوشل میڈیا پر ان کو فالو کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح لاکھوں ’فین فالوورز‘ رکھنے والے ایک اور انڈین نژاد کینیڈین ریپراے پی ڈھلون کو بھی اس وقت سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے شبھ کے کنسرٹ کے منسوخ ہونے کے بعد اپنی پوسٹ میں سنگرز پر ہر بارشک و شبہہ کرنے کے بارے میں پوسٹ کیا۔ شوبھ اور ڈھلون دونوں کینیڈا کے نوجوان ہپ ہاپ موسیقاروں میں شامل ہیں جنھوں نے پچھلی ایک دہائی کے دوران پنجابی میوزک انڈسٹری کو عروج پر پہنچایا ہے۔ ان کے فنک، ہپ ہاپ اور ہارڈ راک میں پیش کیے گئے میوزک میں پنجابی دھنوں اور منظر کشی کے ساتھ ساتھ سکھوں کی ثقافت کا رنگ موجود ہے جو نہ صرف سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے بلکہ یہی افرادیت انھیں اکثر بین الاقوامی میوزک چارٹس میں شامل رکھتی ہے۔ اس سال کے آغاز میں اداکار اور گلوکاردلجیت دوسانجھ نے کیلیفورنیا کے مشہور میوزک فیسٹیول کوچیلا میں پرفارم کرنے والے پہلے پنجابی سنگر کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ ’جو ہو رہا ہے وہ خالصتاً سیاسی اور ثقافت کو دبانے کی زندہ مثال ہے‘ موسیقی کی صنعت سے منسلک افراد اور ماہرین دہلی اور اوٹاوا کے درمیان تنازع کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کشیدہ صورت حال نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہت متاثر کیا ہے۔ رولنگ سٹون انڈیا کی سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر نرمیکا سنگھ کا اس ساری صورت حال پر کہنا ہے کہ ’جب بھی دو ممالک کے درمیان کوئی تنازع سامنے آتا ہے چاہے وہ کم سطح کا ہو یا سخت نوعیت کا، اس صورت حال میں سب سے ذیادہ متاثر ہونے والی چیز ثقافتی تجارت (کلچرل ٹریڈ) ہے، جس کی مثال ہم نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ دیکھی ہے۔‘ واضح رہے کہ انڈین اور پاکستانی موسیقاروں اور فلم سازوں کے درمیان ثقافتی تعاون گذشتہ چند سالوں سے منقطع ہے۔ تاہم لوگوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اس کے مقابلے میں انڈیا اور کینیڈا کے درمیان پنجابی میوزک انڈسٹری کئی ذیادہ گنا متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ پنجابی نغمہ نگار پالی گدرباہا اس معاملے کو خالص سیاسی قرار دیتے ہیں۔ ’جو کچھ بھی یہ ہو رہا ہے وہ خالصتاً سیاسی ہے اور ثقافت کو دبانے کی زندہ مثال ہے۔‘ پالی گدرباہا کے مطابق ’ سننے والے اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ سفارتی سطح پر کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں اور پنجابی موسیقی ہمیشہ پیش کرتی ہے۔‘ اس بیان کی نشاندہی 2022 کے وہ اعداد و شمار کرتے ہیں جو میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارم سپاٹی فائی نے سب سے ذیادہ سنے جانے والے گانوں کے حوالے سے جاری کیے تھے۔ ’شائقین ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں جو پنجابی موسیقی کا خاصہ ہے‘ میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارم سپاٹی فائی کے مطابق 2022 میں انڈیا میں سب سے زیادہ سٹریم کیے جانے والے ہر 10 میں سے چار گانے پنجابی تھے اور ان میں ڈھلون اور گرندرگل سمیت انڈین نژاد کینیڈین سنگرز کے ٹریک شامل تھے۔ ان کے مطابق یہ ڈیٹا بہت متاثر کن ہونے کے ساتھ ساتھ انڈیا میں ہونے والی ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے جہاں بالی وڈ گانے روایتی طور پر میوزک چارٹس پر حاوی رہتے تھے۔ ’میوزک کے شائقین کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ سفارتی سطح پر کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں جو پنجابی موسیقی کا خاصہ ہے۔‘ مقبول پنجابی موسیقی کی نوعیت خود بھی ان دوہری ثقافتوں سے متاثر ہوئی ہے جہاں سے یہ موجود ہے۔ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں امر سنگھ چمکیلا جیسے پنجابی لوک گلوکار کینیڈا میں سکھوں میں بہت مقبول تھے۔ دلیر مہندی جیسے موسیقار کا وہاں کا دورہ ایک معمول کا حصہ تھا۔ جیسے جیسے کمیونٹی میں

پنجابی ہپ ہاپ سنگرز جن کا کریئر انڈیا کینیڈا تنازعے میں پِس رہا ہے Read More »

ICC Mens Cricekt World Cup 2023 India

سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث

ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو گیا ہے اور لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ میچ دیکھنے والوں کی بھیڑ کہاں ہے؟ پہلا میچ گذشتہ ورلڈ کپ کی فاتح انگلینڈ اور رنر اپ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان انڈیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں جمعرات کو کھیلا گیا لیکن اکثریت میں لوگوں کے بجائے خالی سیٹیں ہی نظر آئیں۔ یہی حال جمعے کی شام پاکستان اور نیدر لینڈز کے درمیان حیدرآباد میں کھیلے جانے والے دوسرے میچ کا تھا جہاں زیادہ تر نشستیں خالی تھیں۔ بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا میں اس سے زیادہ بھیڑ تو آئی پی ایل کے میچز دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو جاتی ہے۔ تو کیا بی سی سی آئی لوگوں کو سٹیڈیم لانے میں ناکام رہی ہے؟ گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی نے ٹوئٹر پر احمد آباد میں جمعرات کو ہونے والے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں خالی سٹیڈیم کو ‘فیاسکو’ یا رسوائی قرار دیا اور بی سی سی آئی کی ٹکٹنگ کے عمل میں مبینہ شفافیت کی کمی پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ‘جب ‘بُک مائی شو’ (پلیٹ فارم) پر ٹکٹ کی فراہمی شروع ہوئی تو چند منٹوں میں ہی سارے ٹکٹ فروخت ہو گئے۔ تو پھر ایسا کیونکر ہوا کہ اتنے کم لوگ میچ دیکھنے کے لیے پہنچے؟’ ان رپورٹوں کی بنیاد پر جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ‘خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کا جشن منانے کے لیے’ بی جے پی کی جانب سے خواتین کو 40,000 ٹکٹ مفت پیش کیے گئے، مسٹر میوانی نے کہا کہ ٹکٹوں کی فروخت ستمبر کے پہلے ہفتے تک ختم ہو چکی تھی جبکہ بل آخری ہفتے میں منظور ہوا ‘تو پھر عورتوں کے لیے یہ اضافی ٹکٹ کہاں سے آئے؟’ کانگریس کے ایم ایل اے نے مزید سوال کیا کہ ‘کیا بی سی سی آئی اس طرح سے کسی ایک سیاسی پارٹی کو ٹکٹ دے سکتی ہے؟’ مسٹر میوانی نے خالی سٹیڈیم کی ایک ویڈیو اور دو تصویریں ڈال کر لکھا: ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسا گٹھ جوڑ چل رہا ہے جس نے کرکٹ کے شائقین کو طویل عرصے سے اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ ٹکٹنگ کے عمل میں کوئی شفافیت نہیں ہے جس کی وجہ سے لاتعداد شائقین مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔’ بہر حال بہت سے کرکٹرز اور صارفین نے سٹیڈیم کے خالی ہونے کی توجیہ بھی پیش کی ہے۔ سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر عرفان پٹھان نے ٹویٹ کیا کہ ’جو لوگ خالی سٹیڈیم کا رونا رو رہے ہیں وہ محروم ہو گئے ہیں، اس لیے بیکار کی ٹویٹس کر رہے ہیں۔ ورلڈ کپ انڈیا میں ہو رہا ہے اور دنیا کے بہترین سٹیڈیموں میں سے ایک میں۔ اس گھڑی کا مزا لیں اور انھیں رونے دیں۔’ جبکہ سابق انڈین اوپنر ویریندر سہواگ نے کہا ہے کہ جن میچز میں انڈیا نہ کھیل رہا ہو سکول کے طلبہ کو مفت ٹکٹ فراہم کیا جائے۔ انھوں نے لکھا کہ ’50 اوورز کے گیم میں لوگوں کی کم ہوتی دلچسپی کے مد نظر نوجوانوں کو ورلڈ کپ دیکھنے کا تجربہ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ کھلاڑی بھی بھرے ہوئے سٹیڈیم میں کھیلنے کا احساس کر سکیں۔’ پہلا میچ احمدآباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ اس سٹیڈیم میں ایک لاکھ 32 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے لیکن سوشل میڈیا پر جو حتمی تعداد پیش کی گئی ہے اس اعتبار سے بھی سٹیڈیم خالی ہی تھا۔ ریڈف کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال آئی پی ایل کے فائنل میں وہاں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی موجود تھے جبکہ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں 50 ہزار سے بھی کم تماشائی وہاں پہنچے اور اس طرح سٹیڈیم ہر وقت خالی خالی سا نظر آیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے 5 اکتوبر ہفتے کا وسط (ویک ڈے) تھا، اس لیے بھیڑ نہ پہنچ سکی تو کچھ لوگوں کے خیال میں میزبان ملک انڈیا کے نہ کھیلنے کی وجہ سے پہلے میچ میں تماشائی کم تھے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے مطابق اگر یہ میچ احمد آباد کے بجائے ممبئی کے وانکھیڑے میں کھیلا جاتا تو ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ کو بھی ناقص انتظام کے لیے نشانہ بنا رہے ہیں۔ میچ کے درمیان سینیئر صحافی پنیہ پرسون واجپئی نے لکھا: ‘کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو چکا ہے، سٹیڈیم خالی ہے۔۔۔ یہ کسی چھوٹے شہر میں ہوتا تو بہتر ہوتا۔۔۔’ انگلینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ڈینیئل ویٹ نے بھی ٹویٹ کیا کہ ‘بھیڑ کہاں ہے؟’ اس پر انڈین خاتون کرکٹر جمائمہ روڈریگس نے لکھا کہ ’انڈیا بمقابلہ پاکستان میچ کا انتظار کر رہی ہوں‘۔ انڈیا میں ورلڈ کپ اور واحد پاکستانی مداح انڈین صحافی سوہاسنی حیدر نے لکھا کہ ‘پاکستان میڈیا اور مداح ابھی تک ورلڈ کپ کے لیے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ 60 صحافیوں نے ویزے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ اس کے جواب میں کولسا نامی ایک صارف لکھتے ہیں کہ ‘اور ہم اولمپکس کا انعقاد کرنا چاہتے؟ کم از کم گجرات میں تو نہیں۔’ وقاص علی نامی ایک صارف نے لکھا: ‘ورلڈ کا بدترین آغاز۔ پہلے تو انڈیا نے پاکستانی فینز کا ویزا مسترد کر دیا، جس کا نتیہ خالی سٹیڈیمز ہیں اور اس پر بھی ڈیجیٹل سکور بورڈ بھی ٹوٹ گيا۔’ بابر اعظم نام کے ایک صارف نے لکھا کہ حیدرآباد کا سٹیڈیم اس لیے خالی رہا کہ پاکستانی مداحوں کو ویزا نہیں دیا گيا۔ یہ سب سے خراب ورلڈ کپ رہا ہے اب تک۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ سے ورلڈ کپ دیکھنے آنے والے پاکستانی مداح ’چچا کرکٹ‘ محمد بشیر کا کہنا ہے کہ وہ پورے سٹیڈیم میں اکیلے پاکستانی مداح ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود ‘میرا جوش خروش اور آواز سو ڈیڑھ سو لوگوں کے برابر ہے۔’ شکاگو میں مقیم 67 سالہ محمد بشیر نے پاکستان کا قومی پرچم اٹھا رکھا تھا اور پاکستانی ٹیم کی جرسی بھی پہن رکھی تھی۔ سٹیڈیم میں یا اس کے باہر لوگ ان کے ساتھ اگر سیلفی لیتے نظر آ رہے ہیں

سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث Read More »

پاکستان میں گھی اور کھانا پکانے کے تیل کی قیمتوں میں واضع کمی

لاہور – عبوری حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز پر گھی کے تمام برانڈز کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے، مہنگائی سے تنگ لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے جو خوراک اور ایندھن کی ریکارڈ بلند قیمتیں ادا کر رہے ہیں۔ ایک اہم پیش رفت میں، مشہور گھی برانڈز کی قیمت 60 روپے کم کرکے 394 روپے فی کلو کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل گھی 455 روپے میں دستیاب تھا، غیر معروف برانڈز کی قیمتیں ریکارڈ بلندی پر منڈلا رہی تھیں۔ اسی طرح بحران زدہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہونے کے باوجود کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی کمی کی گئی ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) نے پیر کو رپورٹ کیا کہ گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے ستمبر 2023 کے دوران صارفین کی قیمتوں کے اشاریہ (CPI) پر مبنی افراط زر بڑھ کر 31.4 فیصد ہو گیا۔ پی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ (اگست) کے دوران مہنگائی بڑھ کر 27.4 فیصد ہو گئی تھی جبکہ ستمبر 2022 کے دوران یہ 23.2 ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر، افراط زر ستمبر 2023 میں بڑھ کر 2.0 فیصد ہو گیا جب کہ پچھلے مہینے میں 1.7 فیصد اضافہ ہوا اور ستمبر 2022 میں 1.2 فیصد کی کمی ہوئی۔فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

پاکستان میں گھی اور کھانا پکانے کے تیل کی قیمتوں میں واضع کمی Read More »

Petroleum prices slashed down

پیٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی متوقع

ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی کا امکان ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی توقع ہے، فی بیرل 7 ڈالر کی ممکنہ کمی کے ساتھ۔ یہ کمی خلیجی منڈی میں ظاہر ہوتی ہے جہاں خام تیل کی قیمتیں 92 ڈالر فی بیرل اور عالمی مارکیٹ میں گر کر 84 ڈالر فی بیرل پر آ گئی ہیں۔ بین الاقوامی نرخوں کے مطابق پاکستان میں 16 اکتوبر سے پیٹرول کی قیمتوں میں تقریباً 22 روپے فی لیٹر کی نمایاں کمی متوقع ہے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی کا امکان ہے۔ مزید برآں، جب ڈالر کی شرح سے تبدیل کیا جائے تو پاکستان میں ایک بیرل تیل کی موجودہ قیمت 26,220 روپے کے لگ بھگ ہے۔ یہ 15 ستمبر کو 29,898 روپے فی بیرل کی قیمت سے نمایاں کمی ہے۔ واضح رہے کہ 30 ستمبر کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے کمی کی تھی جس کے بعد نئی قیمت 323 روپے 38 پیسے فی لیٹر ہوگئی تھی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل بھی 11 روپے سستا کر دیا گیا، نئی قیمت 318.18 روپے مقرر کی گئی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی شرح تبادلہ میں بھی حال ہی میں 20 روپے سے زیادہ کی کمی دیکھی گئی ہے۔ مزید برآں، تقریباً 23 دن پہلے، مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی خاطر خواہ آمد تھی۔ اگر حکومت اضافی ٹیکس لگانے سے گریز کرتی ہے تو پیٹرولیم کی قیمتوں میں یہ کمی ممکنہ طور پر عوام کو نمایاں ریلیف دے سکتی ہے۔

پیٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی متوقع Read More »

پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے کا رجحان جاری، انٹربینک میں امریکی ڈالر کی گراوٹ کا شکار

پاکستانی روپے نے اپنی متاثر کن بحالی کا سلسلہ جاری رکھا کیونکہ ڈالر کی قدر میں مزید 1.07 روپے کی ریکارڈ کمی ہوئی، جو انٹر بینک ایکسچینج میں 282.55 روپے پر ٹریڈ کر رہا تھا، جو مسلسل 23ویں روز گراوٹ کا نشان ہے۔ پاکستانی روپیہ سعودی ریال کے مقابلے مضبوط ہو گیا۔ یہ گزشتہ مہینوں کے مقابلے میں شرح مبادلہ میں نمایاں بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔ انٹربینک ٹریڈنگ میں پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنے اضافے کا رجحان جاری رکھتا ہے، جمعرات کو 283.70 روپے تک پہنچ گیا۔ اوپن مارکیٹ ریٹ میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ایک روپے کی کمی کے ساتھ امریکی کرنسی کی قیمت 284 روپے تک پہنچ گئی۔ دوسری طرف، پاکستان کے کل عوامی قرضوں کا تناسب مالی سال 22 میں 36.9 فیصد سے بڑھ کر مالی سال 23 میں 38.3 فیصد ہو گیا۔ مالی سال 2023 کے لیے وزارت خزانہ کے سالانہ قرضوں کا جائزہ اور پبلک ڈیبٹ بلیٹن، جون 2023 کے آخر تک کل عوامی قرض 49.2 ٹریلین روپے کے مقابلے میں 62.88 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال 2022 کے دوران 13.64 ٹریلین روپے کا اضافہ ہے۔ -23 پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی مخلوط حکومت کے تحت۔ مالی سال 23 میں، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کو فراہم کی جانے والی کل بقایا ضمانتیں بھی بڑھ کر 3.5 ٹریلین روپے تک پہنچ گئیں، جو مالی سال 22 میں 2.9 ٹریلین روپے سے زیادہ تھیں۔ پورے FY23 کے دوران، حکومت نے PKR 584 بلین کی نئی اور رول اوور گارنٹی جاری کیں، جو کہ GDP کا 0.7% بنتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تیل اور گیس کے شعبے کو دی گئی ضمانتوں میں نمایاں اضافہ ہوا، جو مالی سال 22 میں 52 ارب روپے سے بڑھ کر مالی سال 23 میں 166 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے کا رجحان جاری، انٹربینک میں امریکی ڈالر کی گراوٹ کا شکار Read More »

State of Pakistan Agriculture

ریاست پاکستان کی زراعت 2023

پاکستان بزنس کونسل کی رپورٹ ‘دی اسٹیٹ آف پاکستانز ایگریکلچر 2023’ پاکستان کے زرعی شعبے کو درپیش مسائل  اور ملک میں زرعی ترقی کو متاثر کرنے والے اہم عوامل پر بحث کی ہے۔ ان میں شامل ہیں: ٹیکنالوجی، پانی، بیج، جانوروں کی بیماریوں کی مالی امداد اور خوراک۔ رپورٹ ان موضوعاتی شعبوں پر پانچ پالیسی پیپرز تشکیل دیتی ہے اور زرعی ترقی کے لیے درج ذیل پالیسی ترجیحات تجویز کرتی ہے: اعلی عالمی زرعی اجناس کی قیمتوں کا شکار ہونے سے فائدہ اٹھانے والے کی طرف منتقل کریں۔ پاکستان کو زراعت میں 4 فیصد حقیقی جی ڈی پی کی نمو حاصل کرنے کے لیے، اسے فصلوں کی پیداوار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خوراک کے درآمد کنندہ سے خوراک کے برآمد  کنندہ کی طرف منتقل ہو۔ نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے سیڈ ایکٹ میں ترمیم کریں۔ پاکستان کی زراعت میں طویل مدتی ترقی کے امکانات کا مرکز بہتر بیج ہے۔ بیج کی نشوونما میں بنیادی رکاوٹ قانونی اور ریگولیٹری نظام ہے جو نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ لہٰذا، سیڈ ایکٹ میں ترمیم کی جانی چاہیے تاکہ معروف نجی بیج کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا سکے اور بیج کے ضابطے کے لیے نقطہ نظر کو بیج سیکٹر کو کنٹرول کرنے سے لے کر کسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی طرف منتقل ہونا چاہیے۔ مزید برآں، پیمانے کے حصول کے لیے ہائبرڈ بیج کی مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ پانی کی بچت اور زراعت میں مزید ترقی حاصل کرنے کے لیے پھلوں اور سبزیوں کی کاشت شدہ زمین کو 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد تک بڑھایا جائے۔ اگر اس تجارت میں عالمی کھلاڑیوں کو پھلوں اور سبزیوں کی برآمد کے لیے پاکستان کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے تو کولڈ چین کے بنیادی ڈھانچے میں سنجیدہ سرمایہ کاری کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ کسان اس یقین دہانی کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں کہ ان کے پھل اور سبزیوں کو اتارے جانے کی ضمانت دی جائے گی اور اس یقین کے ساتھ کہ یہ پیداوار آخری صارفین کے راستے میں نہیں مرے گی۔ یہ تبدیلی صرف پیداوار میں اضافے کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ عالمی خریداروں کی ٹریس ایبلٹی اور پائیداری کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے پروسیسرز اور کاشتکاروں کے درمیان مضبوط روابط استوار کریں۔ زراعت میں پاکستان کی اپنی مثالیں ملتی ہیں جہاں پروسیسرز نے کسانوں کے ساتھ پسماندہ انضمام کیا ہے۔ زرعی اجناس کی اعلیٰ قیمت والی مصنوعات میں پروسیسنگ ہی زراعت کو اگلی سطح پر لے جاتی ہے۔ پاکستان کی زرعی جی ڈی پی کو بڑھانے کے لیے پیداواری علاقوں میں زرعی پروسیسنگ میں سرمایہ کاری ایک ترجیح ہے۔ زراعت میں ترقی حاصل کرنے کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی میں ایکویٹی سرمایہ لگائیں۔ زرعی ٹیکنالوجی میں اپ گریڈ جیسے جدید فارم مشینری، سائلو سٹوریج، پھلوں اور سبزیوں کے لیے کول چینز، پولٹری کے لیے کنٹرولڈ شیڈ، اعلی کارکردگی والے آبپاشی کے نظام وغیرہ، صرف قرض کے ذریعے حاصل کرنا مشکل ہے، اس لیے ایکویٹی پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے۔ زرعی برآمدات بڑھانے کے لیے پاکستان کے آبپاشی کے نظام کو اپ گریڈ کریں۔ صحت سے متعلق زراعت پانی کی درست ترسیل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مزید برآں، پاکستان کے آبپاشی کے نظام سے پانی کی غیرمتوقعیت نہ صرف میکانائزیشن کی طرف منتقلی کو نقصان پہنچاتی ہے، بلکہ یہ سیلابی آبپاشی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس کی وجہ سے کھیتی میں پانی کا بہت زیادہ ضیاع ہوتا ہے۔ پاکستان کے آبپاشی کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آبپاشی کے نظام میں پانی کے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان اور پانی کی ترسیل سے جڑی غیر یقینی صورتحال کو کم کیا جا سکے۔ انڈس ایکویفر کا دوبارہ چارج کرنے کا ایک سست ذریعہ ہے اور یہ اب پاکستان کے کسانوں کو دستیاب پانی کا نصف حصہ بناتا ہے۔ اس لیے اسے محفوظ رکھنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے آبپاشی کے نظام کو پانی کے بہتر اکاؤنٹنگ اور بہتر واٹر گورننس کو اپنا کر درست کیا جائے- دونوں سیاسی طور پر چارج شدہ سرگرمیاں ہیں لیکن اعتماد پیدا کرنے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ مزید برآں، زرعی برآمدات میں اضافے کے لیے پانی کا معیار بھی ضروری ہے۔ کسانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں اور حیاتیاتی خطرات کے اثرات سے بچانے کے لیے دستیاب رسک ٹرانسفر میکانزم کا استعمال کریں۔ 2022 کے تباہ کن ہیٹ ویو اور بائبل کے سیلاب نے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مضبوط، عالمی سطح پر قبول شدہ ادارہ جاتی میکانزم کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ اس بوجھ کو بیمہ کنندگان پر منتقل کرنے کے لیے متوقع قیمت پر دستیاب رسک ٹرانسفر میکانزم کو استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لائیو سٹاک نے پاکستان کے زرعی شعبے میں ترقی کی ہے لیکن اس میں ترقی کے مزید امکانات موجود ہیں۔ جیسا کہ پولٹری سیکٹر کی ترقی کی رفتار نے ظاہر کیا ہے، جدید جینیات والے جانوروں کے لیے جدید خوراک ضروری ہے۔ بیماریوں کے پھیلنے کی بہتر نگرانی اور انتظام جانوروں کی صحت اور معاشی قدر کی حفاظت کر سکتا ہے۔ مکمل ویکسینیشن نظام کے ساتھ بیماریوں سے پاک زون مویشیوں پر مبنی برآمدات کے ستون ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ فصل کی پیداوار اور جانوروں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، ہر ایک کاشتکار کی قیمت بھی گر جاتی ہے۔ یہ کم افراط زر، کاشتکاروں کے لیے زیادہ منافع، اور برآمد کنندگان کے لیے بہتر مسابقت کے حوالے سے زرعی ترقی کے عظیم وعدے کا حامل ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے کاروباری برادری، مالیاتی شعبے، حکومتوں، عطیہ دہندگان اور کاشتکاروں کی جانب سے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔ ویڈیو: پاکستان میں زراعت کی اصلاح | خوراک کی مہنگائی کیوں ہے؟ زراعت میں ترقی سے دولت کا حصول دیہی پاکستان میں خوشحالی کا بنیادی راستہ ہے جہاں پاکستان کی زیادہ تر غربت رہتی ہے۔ ٹکنالوجی کا تعارف دیہی منظر نامے میں بہتر تنخواہ والی ملازمتیں پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن جن کی ملازمتیں بے گھر ہو جاتی ہیں

ریاست پاکستان کی زراعت 2023 Read More »

Ishtehkam-i-Pakistan Party (IPP) Registered Political Party

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے استحکم پاکستان پارٹی کو رجسٹر کر لیا۔

اسلام آباد / مظفرآباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کے مطابق، استخام پاکستان پارٹی (IPP) کو باضابطہ طور پر ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کر لیا گیا ہے، جس سے اس کے لیے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ جمعرات کو ای سی پی کے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ آئی پی پی کو الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 208 اور 209 (3) کے تحت رجسٹر کیا گیا ہے، جسے الیکشن رولز 2017 کے رول 158 (2) کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس اقدام سے ای سی پی میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی کل تعداد 172 ہو گئی ہے۔     آئی پی پی کے علاوہ، کمیشن نے حال ہی میں مزید تین جماعتوں کو رجسٹر کیا ہے: قدمین سندھ، پاکستان کیسان لیبر پارٹی اور تحریک احساس پاکستان۔ استخام پاکستان پارٹی کو پی ٹی آئی کے ناراض رہنما اور شوگر بیرن جہانگیر ترین نے جون میں قائم کیا تھا، جو کبھی پی ٹی آئی سربراہ کے قریبی ساتھی رہ چکے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی عدالت نے پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے علاقائی چیپٹر کو غیر قانونی قرار دے دیا ڈان سے بات کرتے ہوئے، آئی پی پی کے انفارمیشن سیکرٹری ڈاکٹر اعوان نے اپنی پارٹی کو “موجودہ گھٹن والے سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کا سانس” قرار دیا۔ علیحدہ طور پر، ای سی پی نے سندھ اور بلوچستان کے چیف سیکریٹریز کو خطوط لکھے ہیں جس میں انہیں سابق صوبائی کابینہ کے اراکین اور سیاسی رہنماؤں سے پروٹوکول اور سیکیورٹی مراعات واپس لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سندھ کے اعلیٰ بیوروکریٹ ڈاکٹر محمد فخر عالم کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صوبے کے سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، ایم این ایز اور ایم پی اے کو سرکاری گھر خالی کرنے اور سرکاری گاڑیوں کا استعمال بند کرنے کو یقینی بنائیں۔ تین دن میں تعمیل رپورٹ بھی طلب کر لی گئی ہے۔ سی ایس بلوچستان شکیل قادر خان کو تین دن میں اہم بیوروکریٹس کے تبادلوں کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ان میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ترقیات)، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری اور ہوم اینڈ فنانس کے سیکرٹریز شامل ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی سپریم کورٹ نے پارٹیوں کی رجسٹریشن کالعدم قرار دے دی۔ ایک اور پیشرفت میں، آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے علاقائی الیکشن کمیشن کی جانب سے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے علاقائی چیپٹرز کی رجسٹریشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ چیف جسٹس صداقت حسین راجہ، جسٹس میاں عارف حسین، جسٹس سردار محمد اعجاز اور جسٹس خالد رشید چوہدری پر مشتمل لارجر بینچ نے ان جماعتوں کی جانب سے حال ہی میں منتخب ہونے والے کونسلرز کو انتخابات کے دوران پارٹی ڈسپلن کی مبینہ خلاف ورزی پر جاری کیے گئے ‘شوکاز’ نوٹس بھی منسوخ کر دیے۔ مقامی حکومتوں کے اداروں کی مخصوص نشستیں اور سربراہان۔ 20 صفحات پر مشتمل فیصلہ – جنوری اور مارچ کے درمیان مظفر آباد اور راولاکوٹ کے کچھ کونسلرز کی طرف سے دائر کی گئی چار درخواستوں پر – جمعرات کو کھلی عدالت میں سنایا گیا۔ بنچ نے نشاندہی کی کہ موجودہ AJK الیکشنز ایکٹ 2020 نے سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کا طریقہ کار وضع کیا ہے اور AJK آئین کے آرٹیکل 4 (4) (7) کے مطابق ہر ریاستی رعایا کو پارٹی بنانے کا حق دیا گیا ہے۔ مروجہ قانون کے مطابق پارٹی کا ممبر بننا۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ایکٹ کی دفعہ 128 میں واضح طور پر سیاسی جماعت بنانے اور رجسٹر کرنے کے عمل کا تعین کیا گیا ہے۔ بینچ نے مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور پی پی پی کے ریکارڈ کا جائزہ لیا اور نوٹ کیا کہ اگرچہ وہ دیگر شرائط کے علاوہ لازمی انٹرا پارٹی انتخابات سمیت طے شدہ معیار کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے، لیکن انہیں پارٹی میں “عارضی” رجسٹریشن دی گئی۔ پہلی جگہ اور اس کے بعد باقاعدہ رجسٹریشن۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے استحکم پاکستان پارٹی کو رجسٹر کر لیا۔ Read More »