Pakistan

Rainfall in different parts of Pakistan

محکمہ موسمیات نے بارش اور برفباری کی پیش گوئی کردی

محکمہ موسمیات نے ملک چند مقامات پر ہلکی بارش اور پہاڑوں پر برف باری کی پیش گوئی کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات پیشگوئی کی ہے کہ ملک کے بالائی اور وسطی علاقوں میں موسم سرد اور مطلع ابر آلود رہنے کیساتھ چند مقامات پر ہلکی بارش ،بوندا باندی اور بلند پہاڑوں پرہلکی برف باری کا امکان ہے جبکہ میدانی علاقوں میں شدیددھند،سموگ چھائے رہنے کا امکان ہے۔  آج ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک جبکہ بالائی علاقوں میں مطلع جزوی ابر آلود رہے گا تاہم صبح کے اوقات میں خطہ پوٹھوہار ، بالائی خیبر پختونخوا ،کشمیر اور ملحقہ پہاڑی علاقوں میں بعض مقامات پر ہلکی بارش اور پہاڑوں پر ہلکی برف باری کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب ، خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں اور بالائی سندھ میں شدیددھند ،سموگ چھائے رہنے کا امکان ہے۔

محکمہ موسمیات نے بارش اور برفباری کی پیش گوئی کردی Read More »

پاکستان میں بڑے پیمانے پر کلین کوکنگ پروجیکٹ کا آغاز

گلوبل کاربن انویسٹمنٹس (GCI) نے Bboxx کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں پاکستان میں لاکھوں لوگوں تک صاف ستھرا کھانا پکانے کا ایک اہم اقدام شروع کیا ہے۔ GCI، UAE کی بنیاد پر ایک اہم سرمایہ کاری کی گاڑی ہے جو تبدیلی کے اثرات کے لیے موسمیاتی مالیات کی پیمائش کے لیے وقف ہے اور شیخ احمد دلموک المکتوم کے پرائیویٹ آفس کا مکمل ملکیتی ذیلی ادارہ، Bboxx کے ساتھ ایک سٹریٹجک شراکت کا اعلان کر رہا ہے، جو کہ ایک ایسا سپر پلیٹ فارم ہے جو زندگیوں کو تبدیل کرتا ہے اور اس کے ذریعے ممکنہ صلاحیتوں کو کھولتا ہے۔ صارفین کو جوڑنا اور جدید مصنوعات کی تعیناتی، خاص طور پر افریقہ میں۔ ایک ساتھ مل کر، وہ دنیا کے سب سے بڑے صاف ستھرا کھانا پکانے کے اقدامات میں سے ایک شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، جدید سمارٹ ایل پی جی (مائع پیٹرولیم گیس) ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موثر اور سستی کھانا پکانے کے حل فراہم کرنے کے لیے۔ Bboxx، ٹیکنالوجی اور اختراعی مصنوعات میں اپنی مہارت کے ساتھ، GCI کے ساتھ پاکستان میں توانائی کی غربت کے نازک مسئلے سے نمٹنے کے لیے تعاون کر رہا ہے جہاں صاف توانائی اور کھانا پکانے کے حل تک رسائی محدود ہے۔ پاکستان کو موسمی گیس کی قلت کا سامنا ہے، جو کہ قدرتی گیس کے ذخائر کی کمی ہر سال تقریباً 9 فیصد کی شرح سے بڑھ جاتا ہے۔ یہ اقدام لاکھوں ایل پی جی کوکنگ سلوشنز متعارف کرائے گا، جو ملک کے توانائی کے منظر نامے کو تبدیل کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ ایل پی جی گیس ٹینک میں ایک انقلابی پے ایز یو کک ٹیکنالوجی ہے، جو کھانا پکانے کے موثر طریقوں تک سستی رسائی کو یقینی بناتی ہے۔ “GCI اور Bboxx کے درمیان شراکت داری توانائی کی غربت سے نمٹنے اور ضروری خدمات تک رسائی کی عالمی کوششوں میں ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتی ہے۔ ساتھ ساتھ، ہم توسیع پذیر حل پیش کر رہے ہیں جو کہ سماجی اور ماحولیاتی دونوں چیلنجوں سے نمٹتے ہیں، دنیا بھر میں صاف ستھرا کھانا پکانے کے اقدامات کے لیے ایک نیا معیار قائم کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 114 ملین گھرانے کھانا پکانے کے لیے نقصان دہ اور ناکارہ ایندھن پر انحصار کرتے ہیں، جو صحت کے اہم مسائل اور ماحولیاتی انحطاط کا باعث بنتے ہیں۔ چارکول اور لکڑی، جو عام طور پر کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، LPG کے مقابلے میں 50% اور 74% زیادہ کاربن فوٹ پرنٹ رکھتی ہے، جو زیادہ موثر کھانا پکانے کے حل کی طرف منتقلی کے ماحولیاتی فوائد کو اجاگر کرتی ہے۔ Bboxx کے شریک بانی اور سی ای او منصور ہمایوں نے کہا: “GCI کے ساتھ یہ شراکت داری پاکستان کے لاکھوں لوگوں کے لیے گیم چینج کر رہی ہے – اخراج کو کم کرتے ہوئے صحت کو بہتر بنا رہی ہے – جو کہ ایک جیت ہے۔ جیسا کہ میں پاکستان میں پیدا ہوا یہ ذاتی بھی ہے کیونکہ ٹیکنالوجی اور اس طرح کی شراکت داری کے ذریعے ہم لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے قابل ہیں۔ Bboxx نے پورے افریقہ کے 11 سے زیادہ ممالک میں اپنے سمارٹ سلوشنز تعینات کیے ہیں، جس سے 3.6 ملین سے زیادہ لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ اس میں روانڈا اور DRC میں کھانا پکانے کے صاف حل کی فراہمی شامل ہے۔ اپنے 2,000 سے زیادہ پرعزم ایجنٹوں کے نیٹ ورک کے ذریعے، Bboxx ڈیٹا سے چلنے والا سپر پلیٹ فارم سالانہ تقریباً 56 ملین ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اپنی جدید اور موثر ٹیکنالوجیز کے ساتھ، Bboxx نے مٹسوبشی، شیل فاؤنڈیشن، اقوام متحدہ فاؤنڈیشن اور ٹریفیگورا جیسی عالمی اداروں کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری قائم کی ہے۔ صارفین کے لیے ان سمارٹ کوکنگ والوز کو مزید سستی بنانے کے لیے، بلیو کاربن، GCI کا متحدہ عرب امارات میں قائم ذیلی ادارہ، آرٹیکل 6 کے مطابق طریقہ کار کے تحت کاربن کریڈٹس کے ذریعے اس بہتر کھانا پکانے کی کارکردگی کے حل کو کاربن فنانس سے جوڑنے کے امکانات کو فعال طور پر تلاش کر رہا ہے۔ جیسا کہ آرٹیکل 6 کے مذاکرات COP28 میں واضح ہوتے ہیں، اس امکان کو مزید تلاش کیا جائے گا۔

پاکستان میں بڑے پیمانے پر کلین کوکنگ پروجیکٹ کا آغاز Read More »

Dera Ismail Khan Terrorist Attack on Army

دہشتگردوں کا پاک فوج پر حملہ، پاکستان کا افغانستان سے شدید احتجاج،’ ڈو مور‘ کا مطالبہ

ڈی آئی خان میں دہشتگرد حملے میں پاک فوج کے 23 جوان شہید ہو ئے ہیں جبکہ 27 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا ہے ،حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے ایک گروہ نے قبول کی ہے جس پر پاکستان نے افغانستان کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرتے ہوئے سخت احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ درابن واقعہ کی ذمہ داری تحریک جہاد پاکستان نامی گروپ نےقبول کی اور اس کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے ، دہشت گرد حملے میں سیکیورٹی فورسز کے 23 جوان شہید ہوئے، افغان ناظم الامور کو پاکستان کا احتجاج اپنی حکومت تک پہنچانے کا کہا گیا ہے، افغان حکومت تازہ دہشت گرد حملے کے ذمہ داروں کیخلاف تحقیقات اورسخت کارروائی کرے،عبوری افغان حکومت دہشت گرد حملے کی اعلٰی سطح پراعلانیہ مذمت کرے۔ دفتر خارجہ کے مطابق افغان حکومت ایسے اقدامات کرے جو نظر بھی آئیں  اور دہشتگرد حملے میں ملوث افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی قیادت کو پاکستان کے حوالے کیا جائے ،پاکستان میں دہشت گردی کیلئےافغان سرزمین کےمسلسل استعمال کو روکا جائے،آج کا حملہ خطے کے امن و سلامتی کو دہشت گردوں سے درپش خطرات کا عکاس ہے، ہمیں دہشت گردی کی لعنت کو مل کر شکست دینا ہوگی ،پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عزائم پر سختی سے قائم ہے۔ اس سے قبل آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ صبح 6 دہشت گردوں نے درابن میں سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر حملہ کیا، دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی کو چوکی سے ٹکرادیا، دہشت گردوں کے حملے میں 23 فوجی جوان شہید ہوگئے جبکہ سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تمام 6 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فوسرز نے دہشت گردوں کی چوکی پر داخل ہونے کی کوشش کوناکام بنایا گیا۔ ناکامی پر دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چوکی سے ٹکرا دی، خودکش حملہ بھی کیا گیا،دھماکوں کے نتیجے میں عمارت گر گئی۔ دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں بھی مزید 4 دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا گیا، فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 2 جوان شہید ہوگئے۔درازندہ میں خفیہ معلومات پر آپریشن کے دوران دہشت گردوں کا ٹھکانہ بھی تباہ گیا، آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے 17 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، ہلاک دہشت سیکیورٹی فورسز اور عوام پر حملوں میں ملوث تھے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق کارروائیوں کے دوران دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد برآمد بھی کیا گیا۔ علاقے میں مزید دہشت گردوں کی تلاش کیلئے آپریشنز جاری ہیں۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت ختم کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔

دہشتگردوں کا پاک فوج پر حملہ، پاکستان کا افغانستان سے شدید احتجاج،’ ڈو مور‘ کا مطالبہ Read More »

International Punjabi Film Maujaan hi Maujaan

انٹرنیشنل پنجابی فلم ’موجاں ای موجاں‘ کا پاکستان میں شاندار بزنس

لاہور: پاکستانی سینماؤں کی زینت بننے والی پاکستانی اور بھارتی پنجابی فنکاروں پر مشتمل بین الاقوامی پنجابی فلم ’موجاں ای موجاں‘ کا لاہور، کراچی، اسلام آباد سمیت ملک بھر میں بہترین بزنس جاری ہے۔  ایگنایٹ پاکستان  کے مطابق پنجابی فلم نے اب تک پاکستانی مارکیٹ میں چھ کروڑ سے زائد کما لئے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ فلم کے بزنس میں اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ 20 اکتوبر کو ریلیز ہونے والی فلم ابھی تک ویک اینڈ پر سینماؤں میں خصوصی رش سمیٹ رہی ہے اور یہ معیاری تفریح سے بھرپور فیملی فلم ہے۔ ’موجاں ای موجاں‘ میں اسٹار کامیڈین گپی گریول، بنوں ڈھلوں، کرم جیت کے ساتھ پاکستانی اسٹار کامیڈین ناصر چنیوٹی نے بھی اہم کردار کیا ہے جسے شائقین نے خاص طور پر سراہا ہے۔ آئی ایم جی سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شیخ عابد رشید نے کہا کہ ’موجاں ای موجاں‘ رواں برس کی سپر ہٹ فلم ’کیری آن جٹا تھری‘ کی طرز پر بزنس کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بہترین کہانی، عمدہ موسیقی اور سماجی پیغام سے بھرپور مکمل تفریحی فلم سے شائقین خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

انٹرنیشنل پنجابی فلم ’موجاں ای موجاں‘ کا پاکستان میں شاندار بزنس Read More »

Opium Factory in Lahore

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ چینی حکومتی اکابرین کو لگا کہ ’اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو نہ تو چین کی فوج میں لڑنے کے لیے کوئی سپاہی بچے گا نہ فوج کو ہتھیار مہیا کرنے کے لیے پیسے۔‘ برطانیہ نے افیون تیار کرنے کے لیے ہندوستان میں بنگال اور بہار میں دو وسیع و عریض فیکٹریاں قائم کی تھیں جہاں سے افیون کی تجارت کے لیے سپلائی لی جاتی۔ چین کے ساتھ یہ تجارت بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہی۔ جب یہ تجارت بند ہوئی اور دنیا افیون اور اس کے انسانی صحت اور معاشرے پر مضر اثرات سے واقف ہونا شروع ہوئی، تو بھی ہندوستان مین بنی فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ پوست کے پودے سے ملنے والے سیاہی مائل مادے افیون کی وہ خصوصیات ہیں جن سے انیسویں صدی میں تیزی سے جدت حاصل کرتی میڈیکل سائنس آشنا ہو چکی تھی۔ برطانیہ اب ہندوستان میں قائم فیکٹریوں میں وہ افیون تیار کرنے لگا جو ادویات میں استعمال ہو رہی تھی یا جس پر مزید تحقیق کی جا رہی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں درد کو کم کرنے والی دوا ’مارفین‘ ہے۔ شاید یہ مارفین ہی ہے جس کی وجہ سے افیون کو ’دنیا کے لیے انڈیا کا تحفہ‘ بھی کہا گیا۔ مختلف بیماریوں کے خلاف اور ان کے علاج کے دوران مارفین اور افیون سے ملنے والے دیگر مرکبات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کینسر کے علاج میں اس کا خاص عمل دخل ہے۔ افیون کی اسی میڈیکل خصوصیت کے پیش نظر سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد انڈیا نے اس کے حصے میں آنے والی دونوں افیون فیکٹریوں کو بند نہیں کیا۔ پاکستان کے حصے میں ایسی کوئی فیکٹری نہیں آئی تھی۔ نہ ہی ان علاقوں میں سے کوئی پاکستان کے حصے میں آیا جہاں حکومتی سرپرستی میں افیون کے لیے پوست کاشت کی جاتی تھی۔ کیا پاکستان کو افیون کی ضرورت تھی؟ یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمی جنگِ کو ختم ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کو افیون کے مرکبات اور خاص طور پر مارفین کی ضرورت تھی۔ ’ہندوستانی افیون‘ کو دنیا میں اچھی کوالٹی کی اقسام میں شمار کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں یہ زیادہ پرانی بات نہیں تھی کہ پوست ہندوستان کی چند منافع بخش فصلوں میں شمار رہی تھی۔ اس کو تجارت کے اعتبار سے بھی ایک پیسہ کمانے والی جنس کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اگر وراثت میں پاکستان کو بھی یہ ’قیمتی افیون‘ بنانے کی فیکٹریاں ملتیں تو وہ اسے برآمد کر کے منافع کما سکتا تھا اور مقامی مانگ کو بھی پورا کر سکتا تھا۔ انڈیا نے پاکستان کو ضرورت کی افیون فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ اس لیے جلد ہی پاکستان نے اپنی ایک ایسی فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا جہاں خام افیون سے ایسے ایلکلائیڈز یا مرکبات کو الگ کیا جا سکے جو ادویات کے طور پر یا ان کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ مارفین اور کوڈین وغیرہ۔ افیون بنانے کے لیے حکومتی فیکٹری کی ضرورت کیوں؟ پاکستان کی پہلی اور واحد اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری پاکستان بننے کے آس پاس ہی لاہور میں قائم کی گئی۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ ہی کے دفتر میں اس کی عمارت تعمیر کی گئی۔ قانونی طور پر وہی اس کا نظم و نسق چلانے کا ادارہ تھا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب رضوان اکرم شیروانی نے ایگنایٹ پاکستان   سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کی اس سرکاری ’اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری‘ میں اسی طرح خام افیون سے مرکبات الگ کیے جاتے تھے جیسے تقیسم سے پہلے ہندوستان کی دیگر فیکٹریوں میں ہوتا تھا۔ تاہم سوال یہ تھا کہ اگر یہ افیون ادویات میں استعمال ہوتی ہے تو اس

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ Read More »

Privatization of National Institutions

سرکاری اداروں کی نجکاری کے پیچھے کیا ایجنڈا ہے؟

گران حکومت اور وزیر نجکاری فواد حسن فواد کچھ سرکاری اداروں خصوصاً پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کر رہے ہیں۔ فواد صاحب ایک قابل بیوروکریٹ ہیں جنہیں ہماری سیاست میں ایک جانب کی طرف سے بہت ستایا گیا جبکہ دوسری جانب نے انہیں بھلا دیا۔ پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کرنے والے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے وزیر نجکاری اور نگران حکومت کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے۔ ان کا کیا ایجنڈا ہو سکتا ہے؟ آئیے کچھ اعداد و شمار کا جائزہ لیں۔ پاکستان میں پانچ ایئرلائنز ہیں جن میں سے چار نجی ہیں۔ سبھی ایک جیسا ہی کرایہ لیتے ہیں اور ایک ہی سطح کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ اس کے باوجود چار نجی ایئر لائنز تو پیسہ کماتی ہیں اور ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن دوسری جانب پی آئی اے کو گزشتہ سال 172 ارب روپے کی فروخت پر 88 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ 51 فیصد نقصان ہے اور یہ نقصان کا وہ تناسب جسے پورا کرنا مشکل ہے چاہے کوئی کتنی ہی کوشش کرلے۔ اس سے ایک سال قبل پی آئی اے کو 50 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا اور اس سے بھی ایک سال قبل 35 ارب روپے کا۔ پی آئی اے کا اب تک کا مجموعی خسارہ 717 ارب روپے ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت 900 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ 900 ارب روپے کی یہ رقم 15 آغا خان یونیورسٹی اسپتالوں، 60 لمس یونیورسٹیوں یا پورے پاکستان میں 18 ہزار اسکولوں کی تعمیر کے لیے کافی ہے۔ اس کے بجائے، ہم نے خسارے میں چلنے والے ادارے کو جاری رکھنے کا انتخاب کیا ہے جو 8 ہزار ملازمین کو نوکریاں دیتا ہے، کبھی بھی سول ایوی ایشن کے واجبات ادا نہیں کرتا اور پی ایس او کو ایندھن کی ادائیگی میں بھی ہچکچاتا ہے۔ پی آئی اے نے تمام حکومتوں اور بورڈز کے ماتحت اور ہر ایک بحالی اسکیم کے بعد خسارہ کیا ہے۔ گزشتہ 15 سال میں حکومت نے 109 ارب روپے براہ راست پی آئی اے پر خرچ کیے اور بینکوں کے 263 ارب روپے کے قرضوں کی ضمانت دی ہے۔ ہم پی آئی اے پر جتنی رقم چاہیں لگا سکتے ہیں لیکن سیدھی سی بات یہ ہے کہ پی آئی اے کو اب ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ ملازمین کی ملازمت کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایئرلائن کی جلد نجکاری پاکستانی ٹیکس دہندگان کے لیے بہت بہتر ہوگا۔ نجکاری کی بات مجھے پاکستان ریلوے پر بھی غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ پچھلے سال، حکومت نے اس کے آپریشنل نقصانات کو پورا کرنے کے لیے 45 ارب روپے اور مجموعی طور پر 70 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کے لیے اضافی 25 ارب روپے دیے۔ پاکستان ریلوے کو ایک سال پہلے 59 ارب روپے اور اس سے ایک سال پہلے 56 ارب روپے ملے۔ صرف گزشتہ 15 سالوں میں، ٹیکس دہندگان نے پاکستان ریلوے پر 783 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت تقریباً ایک ہزار ارب روپے ہے۔ ٹرک کے ذریعے ایک کلوگرام کارگو کو منتقل کرنے پر آنے والے ڈیزل کے اخراجات ٹرین کی نسبت 3 گنا زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو کے لیے ٹرکوں سے زیادہ معاوضہ لیتی ہے۔ ٹرینیں مسافروں کے سفر کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ طریقہ ہیں، پھر بھی سفر کرنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت ریلوے کے مقابلے میں طویل فاصلے کے بس کے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ تاہم، خدمات کو بہتر بنانے یا نقصانات کو کم کرنے کے بجائے، ریلوے کی بیوروکریسی چاہتی ہے کہ حکومت نئے ٹریکس کے لیے مزید 7 ارب ڈالر قرض لے اور ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالے۔ کیا ریلوے کی وزارت سوچ بچار نہیں کررہی؟ کیا ان میں اصلاحات کا کوئی عزم نہیں؟ آخر کیوں پاکستان ریلوے روڈ ٹرانسپورٹ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے جبکہ اس کی ایندھن کی لاگت روڈ ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے؟ کیا آپ اس نا اہلی اور ممکنہ طور پر بدعنوانی کا تصور کر سکتے ہیں جو شاید پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا حصہ ہے کیونکہ برسوں کی سرکاری سبسڈی کے باوجود، یہ ادارے اربوں کا نقصان کرتے رہتے ہیں اور بار بار بیل آؤٹ کا تقاضا کرتے ہیں۔ ریلوے کو چلانے کے ذریعے ہماری وزارت ریلوے اس شعبے کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے نا کہ صارفین یا ٹیکس دہندگان کے لیے۔ تاہم ریلوے کو چلانے کے بجائے اس کا کردار ریگولیٹر کا ہونا چاہیے۔ ہمیں مزید آپریٹرز کے لیے پٹریوں اور ٹرینوں دونوں کو پرائیویٹائز کرنا چاہیے جبکہ وزارت ریلوے کو ایک ریگولیٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے پٹریوں اور ٹرینوں کے لیے حفاظتی معیارات مرتب کرے اور ان کو نافذ کرے اور وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ مقرر کرے جو ٹریک مالکان ٹرینوں سے اور ٹرینیں مال برداری کے لیے اور مسافروں سے لے سکتی ہیں۔ لائسنس کی شرائط میں یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ اگر ریگولیٹنگ وزارت کو ٹریک اور ٹرینوں میں کارکردگی اور بہتر حفاظت کی ضرورت ہو تو نجی شعبے کو اپنے فنڈز سے ایسا کرنا چاہیے تاکہ کرایوں کے ذریعے معاوضہ لیا جائے۔ پھر ریلوے کی زمین پر جو کچی آبادیاں بن گئی ہیں ان کو ریگولرائز کیا جائے اور ان کی ملکیت وہاں رہنے والے غریبوں کو ہی دے دی جائے۔ بقیہ زمین کو فروخت کیا جائے تاکہ موجودہ ریلوے ملازمین کی ریٹائرمنٹ تک تنخواہوں اور مراعات کو یقینی بنایا جاسکے۔ آئیے اب پاکستان اسٹیل ملز پر غور کریں جو آٹھ سال سے بند ہے، جس کے ملازمین کو ابھی تک تنخواہ دی جا رہی۔ پاکستان اسٹیل ملز پر نیشنل بینک اور سوئی سدرن کے 100 ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔ سوئی سدرن اور نیشنل بینک آف پاکستان کی مالی حالت کو شدید خطرے میں نہ ڈالتے ہوئے ان کے دیے گئے قرضوں کی تلافی کا ایک معقول طریقہ یہ ہے کہ اسٹیل ملز کی باقی ماندہ زمین ان کے حوالے کردی جائے۔ (اسٹیل ملز کی زمین 20 ہزار ایکڑ تھی جس میں 5 ہزار ایکڑ مل کے لیے اور بقیہ زمین دیگر زیلی صنعتوں

سرکاری اداروں کی نجکاری کے پیچھے کیا ایجنڈا ہے؟ Read More »

Rumors on General election Date

الیکشن کمیشن کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں انتخابات میں تاخیر کی افواہیں کیوں؟

پاکستان میں انتخابات کے انعقاد میں غیر یقینی کا عنصر سماجی و سیاسی بیانیہ بن چکا ہے۔ ملکی سیاسی نظام اور مقتدر اداروں نے بذاتِ خود غیر یقینی کو سیاسی و سماجی بیانیہ بنانے کی کوششوں کے گاہے بہ گاہے ثبوت بھی دیے ہیں۔ یہ معاملہ سنہ 2018 کے الیکشن سے چلا آ رہا ہے۔ اُس وقت عام و خاص کا ایک بڑا طبقہ یقین سے یہ کہتا پایا جاتا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت دس سال کے لیے اقتدار میں آئی ہے۔ اس کے بعد یہ سوال اُٹھتا تھا کہ اگلا الیکشن تو پھر محض کارروائی ہی ٹھہرے گا؟ یہ بیانیہ اتنا زیادہ بنایا گیا کہ گذشتہ دِنوں آصف علی زرداری نے سینیئر صحافی حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم عمران کو نہ نکالتے تو وہ ایک فوجی کے ذریعے 2028 تک حکومت بنا لیتا۔ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد الیکشن کے انعقاد میں غیر یقینی میں شدت آئی۔ جولائی میں جب 20 صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے اور اُس میں پی ٹی آئی نے حیران کن کارکردگی دکھائی تو اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کی مقبولیت کا آغاز ہوا۔ پنجاب میں یکے بعد دیگرے وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوئے۔ پھر 14 جنوری 2023 کو پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگراں سیٹ اپ تشکیل پایا۔ 14 مئی 2023 کو پنجاب میں صوبائی انتخابات ہونا تھے، جو نہ ہوئے۔ بعدازاں قومی اسمبلی مُدت سے قبل تحلیل کر دی گئی تاکہ انتخابات کے لیے نوے دِن کا وقفہ لیا جائے مگر الیکشن کمیشن نے نوے روز کے اندر الیکشن کروانے سے معذرت کر لی۔ اس طرح الیکشن کے انعقاد میں جب آئینی مُدت کی پاسداری نہ ہو سکی تو الیکشن میں تاخیر کی غیر یقینی، یقین میں بدلتی چلی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک بھر میں مقامی سطح پر الیکشن کے حوالے سے سرگرمیاں مفقود ہیں حالانکہ الیکشن کے انعقاد کی تاریخ میں دو ماہ اور چند دِن ہی رہ گئے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے دو درخواست گزاروں نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور عام انتخابات کی تاریخ میں تاخیر کی درخواست کی ہے۔ انھوں نے اپنی درخواست میں صوبے میں سکیورٹی صوتحال اور فروری میں برف باری کا ذکر کرتے ہوئے یہ استدعا کی ہے کہ انتخابات برف باری کے بعد کرائے جائیں۔ آٹھ فروری کی تاریخ کے باوجود افواہیں کیوں؟ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں نوے روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تھی، جس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کا حکم دیا تھا۔ یوں الیکشن کمیشن اور ایوانِ صدر نے متفقہ طورپر 8 فروری کی تاریخ کا تعین کیا۔ بعد ازاں جب نوے روز کے اندر انتخابات کے کیس کو نمٹایا گیا تو چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے انتباہ کیا کہ اگر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے گئے تو ایسا کرنے والے آئین کی خلاف ورزی کے مُرتکب ہوں گے مگر اس انتباہ، الیکشن کی تاریخ اور الیکشن کمیشن کی انتخابی تیاریوں کے باوجود تاخیر کی افواہیں جنم لے چکی ہیں اور یہ بہت معنی خیز بھی ہیں۔ اس بابت سینیئرصحافی اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے بھی گذشتہ دِنوں اپنے ایک کالم میں نقطہ اُٹھایا کہ اُمید ہے پاکستان میں دو خلیجی ممالک 20 سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ انھوں نے لکھا کہ ’معاشی بہتری اگر آتی ہے تو افواہ ہے کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس افواہ کے پیچھے یہ تاثر بھی ہے کہ تحریکِ انصاف کے سیاسی اُبھار کا مکمل تدارک نہیں ہو سکا تاہم سہیل وڑائچ کے خیال میں اگر الیکشن میں تاخیر کی بابت سوچا گیا تو دو رکاوٹیں آئیں گی۔ عدالتی اور سیاسی رکاوٹ۔ الیکشن کمیشن نے گذشتہ روز میڈیا کی سطح پر پیدا ہونے والی الیکشن میں تاخیر کی خبروں کو بے بنیاد قراردیا ہے۔ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن مذکورہ افواہوں کی پُرزور تردید کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن میں تاخیر کی خبروں پر موقف کے بعد یہ افواہیں دَم توڑ جائیں گی؟ کیا یہ افواہیں الیکشن کمیشن کے کسی عمل سے پیدا ہوئیں تھیں کہ الیکشن کمیشن نے تردید کی تو یہ افواہیں دَم توڑجائیں گی؟ افواہوں نے جنم کیسے لیا اور الیکشن کمیشن کے موقف کے بعد الیکشن کے انعقاد میں وضاحت ہو گی؟ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے اہم نکتہ بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’افواہیں اس لیے پیدا ہوئیں کہ الیکشن کی تاریخ کے باوجود سیاسی جماعتوں نے نچلی سطح پر کسی طرح کی سرگرمیوں کا آغاز اس طریقے سے نہیں کیا جیسا ماضی میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ ’جیسے ہی الیکشن کی تاریخ سامنےآئی تھی، تو سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ الیکشن کا ماحول طاری کر دیتیں چونکہ ایسا نہ ہو سکا یوں اس طرح کی افواہیں پیدا ہوئیں۔‘ سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’الیکشن کمیشن نے افواہوں کی تردید کے بعد بھی یہ افواہیں اس وقت تک جنم لیتی رہیں گی۔ جب تک سیاسی جماعتیں الیکشن کا ماحول نچلی سطح پر نہیں بناتیں۔‘ تاہم الیکشن کمیشن کے سابق اور وفاقی سیکرٹری کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ’الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنا لائحہ عمل تیار کر لیا ہے اور 15 دسمبر سے پہلے انتخابی شیڈول جاری کر دیا جائے گا۔‘ لیکن تاخیر کی ان افواہوں کے پیچھے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ سینیئر تجزیہ کار اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ الیکشن میں تاخیر کی باتیں کرنے کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ ’ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ شاید یہ ’ٹیسٹ بیلون‘ کے طور پر دیکھ رہے ہوں کہ اگر یہ بات کی جائے تو عوام کے اندر کس حد تک اس کی پذیرائی ہے، لوگوں کا ردِعمل کس طرح کا ہو سکتا ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جن کو انتخابات میں کوئی زیادہ فائدہ نظر نہیں آ رہا وہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہوں۔‘ ’ابہام پیدا کرنے والے

الیکشن کمیشن کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں انتخابات میں تاخیر کی افواہیں کیوں؟ Read More »

Shadab Khan reject to Play Big Bash and T10 Cricket League

شاداب خان نے پاکستان کی خاطر کروڑوں روپے کی آفر ٹھکرا دی

  پاکستان کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر شاداب خان نے ملک کی خاطر کروڑوں روپے کی قربانی دے دی۔ قومی آل راؤنڈر شاداب خان نے آسٹریلوی بگ بیش لیگ ( بی بی ایل ) اور ابوظہبی ٹی ٹین لیگ کی جانب سے ملنے والی آفرز کو ٹھکرا دیا۔ شاداب خان کو بگ بیش لیگ کی فرنچائز ایڈیلیڈ سٹرائیکرز کی جانب سے پیشکش ملی تھی جبکہ ٹی ٹین لیگ میں بطور آئیکون پلئیر کھیلنے کی آفر بھی ہوئی تھی ، تاہم انہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کی خاطر کروڑوں روپے کی آفرز کو منع کر دیا۔ شاداب خان نے دونوں آفرز پر جواب دیا کہ ’’ پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ جاری ہے ابھی ڈومیسٹک کرکٹ کو ترجیح دینا چاہتا ہوں اور نیشنل ٹی ٹونٹی کپ کے باعث بگ بیش اور ٹی ٹین لیگ نہیں کھیل سکتا ‘‘۔ خیال رہے کہ احمد شہزاد بھی ٹی ٹین لیگ کی فرنچائز کو منع کرچکے ہیں۔

شاداب خان نے پاکستان کی خاطر کروڑوں روپے کی آفر ٹھکرا دی Read More »

Harkishan Lal

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘

آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل! 13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔ وظیفے ہی پر انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔ اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی، معاشیات اور فارسی اُن کے پسندیدہ مضامین تھے۔ جب انھوں نے بی اے میں صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو انھیں کیمبرج میں تین سالہ پڑھائی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔ کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا گابا لکھتے ہیں کہ ‘1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔ سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ بینک کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مجیٹھیا چیئرمین اور لالا ہر کشن اعزازی سیکریٹری تھے۔ لالا لاجپت رائے انارکلی لاہور میں آریا سماج مندر کے سامنے قائم اس بینک کے پہلے کھاتے دار بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی بینک کے مینیجر تھے۔ لاہور سے باہر پہلی شاخ 1900 میں راولپنڈی میں کھولی گئی اور سنہ 1904 میں بینک نے کراچی اور پشاور میں اپنی شاخیں قائم کیں۔ لالا ہرکشن لال، مجیٹھیا کے اخبار دی ٹربیون کے ٹرسٹی بھی تھے۔ انھوں نے 1901 سے 1906 تک، کئی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے قائم کیے جیسے پنجاب کاٹن پریس کمپنی، پیپلز بینک آف انڈیا، امرتسر بینک، کان پور فلور ملز، سنچری فلور ملز، صابن کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، آرے، برف خانے اور لانڈری۔ پنجاب نیشنل بینک سمیت کچھ ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ بینک پاکستان بننے سے پہلے ہی دلی منتقل ہو گیا تھا۔   لاہور میں آٹھ آنے فی یونٹ بجلی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت سرکاری دفاتر میں بجلی کی فراہمی چاہتی تھی۔ حکومت نے خود سے کئی بار اس ضمن میں کوشش کی جو ناکام رہی۔ سنہ 1910 میں اس کے لیے اشتہار دیا گیا جس میں یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ کامیاب بولی دینے والے کو لاہور شہر میں بجلی فراہم کرنے کا لائسنس بھی دیا جائے گا۔ اس اشتہار کے جواب میں بہت سی مقامی اور برطانوی کمپنیوں کے ٹینڈر آئے۔ اسی طرح کے کاروبار میں مصروف ’دلی الیکٹرک ٹرام ویز اینڈ لائٹنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے پاس لائسنس حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ تاہم اس کمپنی کے لندن آفس نے ٹینڈر واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت لالا ہرکشن لال اس کمپنی کے لوکل بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ 24 فروری 1911 کو اس فیصلے کا علم ہونے پر، لالا نے یہ کام خود ہی کرنے کا انتخاب کیا۔ ٹینڈر جمع کرانے کے لیے صرف چار دن باقی تھے۔ لالا نے اپنے بینک، پیپلز بینک آف انڈیا، کے نام پر ٹینڈر جمع کروا دیا جو اسی سال جولائی میں منظور ہو گیا۔ حکومت کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ پندرہ منٹ سے اوپر بجلی جانے پر ہر بار 25 سے 200 روپے جرمانہ ہو گا۔ فروری 1912 میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی پانچ لاکھ روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ 21 مارچ 1912 کو رجسٹرڈ ہوئی۔ لا لا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین بنے۔ تاریخ دان احمد سعید کے مطابق نومبر 1912 میں لاہور الیکڑک سپلائی کمپنی نے بجلی کی سپلائی کا سلسلہ شروع کیا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاح پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر(1908-1913) لوئی ڈین نے کیا۔ تب کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ڈین نے اپنی تقریر میں کہا: ’لاہور کو بجلی سے روشن کرنے کے منصوبے کا اعلان ہر ممکنہ جگہ کیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا شخص اس کا بیڑا اٹھائے جو عوامی جذبے سے معمور ہو۔ تاہم یہ ایک ایسا کام تھا جسے خود ہندوستانی عوام نے انجام دیا۔ بنیادی طور پر ایسا جناب ہرکشن لال کی پہل کی وجہ سے ہے کہ یہ منصوبہ اتنی کامیابی سے شروع ہوا ہے۔‘ اگرچہ سپلائی تو 18 نومبر کو شروع کردی گئی تھی لیکن لائسنس کا گزٹ نوٹیفیکیشن 25 نومبر کو ہوا۔ سرکاری عمارتوں کو سب سے پہلے بجلی دی گئی۔ کنکشن کے لیے درخواستیں تیزی سے آئیں۔ چند ماہ کے اندر (31 مارچ 1913 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک) صارفین کی تعداد 98 تک پہنچ گئی تھی۔ اگلے سال تک یہ تعداد 542 اور اس کے بعد کے سال میں یہ بڑھ کر 884 ہو گئی۔ کمپنی نہ صرف اس مختصر وقت میں تمام ابتدائی اخراجات نمٹانے میں کامیاب رہی بلکہ ساڑھے سات فیصد منافع کمانے کا اعلان بھی کیا۔   بجلی کی طلب بڑھ رہی تھی اور مشینوں کی تبدیلی بھی درکار تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں۔ اس کے باوجود کمپنی، اپنے وسائل کے محتاط استعمال سے، سال 1915-16 کے لیے نو فیصد کے منافع کا اعلان کرنے میں کامیاب رہی۔ اگلے سالوں میں یہ بڑھتا گیا۔ احمد سعید اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لاہور سے چھپنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘ Read More »

پاکستان اور کویت کے مابین 7 مفاہمتی یادداشتوں کی منظوری دیدی گئی

10نگراں وفاقی کابینہ نے پاکستان میں کویت کی جانب سے 7 منصوبوں میں ارب ڈالر سرمایہ کاری کی منظوری دے دی۔ تفصیلا تکے مطابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت نگران وفاقی کابینہ نے پاکستان اور کویت کے مابین سرمایہ کاری کے لیے 7 مفاہمتی یادداشتوں کی منظوری دی جن پر وزیر اعظم کے دورہ کویت کے دوران دستخط کیے جائیں گے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کوششوں کے نتیجے میں کویت پاکستان میں مختلف شعبوں کے 7 منصوبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کرے گا۔  وزیراعظم نے ہدایت کی کہ وفاقی سطح پر دستخط ہونے والی ان مفاہمتی یادداشتوں میں صوبوں کے ساتھ تعاون یقینی بنایا جائے تاکہ ان منصوبوں کی تکمیل جلد اور شفاف طریقے سے ہوسکے۔

پاکستان اور کویت کے مابین 7 مفاہمتی یادداشتوں کی منظوری دیدی گئی Read More »