Casualities

Tractors Stunts

’پیارے پنجابیو ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں‘

دنیا بھر میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کوئی نہ کوئی ٹرینڈ چلنے کی ریت غیر معمولی نہیں ہے۔ کسی دور میں ’آئس بکٹ‘ چیلنج کا ٹرینڈ چل نکلا تو کبھی ’ٹین ایئرز‘ چیلنج نے سوشل میڈیا صارفین کو اپنے حصار میں لیے رکھا۔ مگر کچھ ممالک میں سوشل میڈیا پر خطرناک سٹنٹس کرنے کے ٹرینڈز بھی دیکھنے آئے اور بعدازاں ان سٹنٹس کرنے والوں نے نہ صرف اس سے اپنے فالورز اور ویوز کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ اس کے ذریعے آمدن بھی کمائی۔ ایسا ہی ایک خطرناک ٹرینڈ آج کل انڈیا کے صوبے پنجاب میں چل رہا ہے جہاں پنجابی کسان اپنے ٹریکٹرز پر خطرناک سٹنٹس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس خطرناک رحجان نے مقامی سطح پر اس قدر مقبولیت حاصل کر لی ہے کہ اب یہ سوشل میڈیا سے نکل کر مقامی سطح پر منعقدہ میلوں ٹھیلوں کا بھی حصہ بن گئے ہیں۔ حال ہی میں انڈین پنجاب کے شہر گرداس پور کے علاقے فتح گڑھ میں ایک مقامی میلے میں ٹریکٹر سٹنٹ کرتے ہوئے ایک 29 سالہ سکھ مندیپ نامی نوجوان کی موت ہو گئی۔ وہ میلے میں ٹریکٹر کو بنا ڈرائیور کے صرف پچھلے پہیوں پر گھمانے کا کرتب دکھا رہے تھے اور جب وہ اس ٹریکٹر کو کنٹرول کرنے کے لیے اس پر سوار ہونے لگے تو گھومتے ٹریکٹر کی زد میں آ کر شدید زخمی ہوئے اور بعدازاں ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی 30 سیکنڈ کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ مندیپ سنگھ کو ٹریکٹر پر خطرناک کرتب کرنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ ان کے انسٹاگرام پر 14 ہزار کے قریب فالوورز تھے اور وہ گذشتہ چھ سالوں سے یوٹیوب پر اپنی کرتبوں کی ویڈیوز بھی اپ لوڈ کر رہے تھے۔ انھوں نے اس سے قبل مختلف پنجابی گانوں کی ویڈیوز کے لیے بھی سٹنٹ کیے ہیں۔ اس واقعے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے ٹریکٹرز کے خطرناک سٹنٹ یا کرتب کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اس بارے میں لکھا کہ ’پیارے پنجابیو، ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں، پنجاب میں ٹریکٹر اور متعلقہ آلات کے ساتھ کسی بھی قسم کے سٹنٹ یا خطرناک کرتب پر پابندی ہے۔‘ ٹریکٹرز سٹنٹ کا رجحان کیا ہے؟ اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر انڈین پنجاب میں ٹریکٹروں پر کرتبوں کے رجحان پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ بہت سے لوگ اسے مکمل طور پر روکنے کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جیسے جیسے پنجاب میں ٹریکٹر سٹنٹس کا رجحان بڑھا ہے، اسی طرح یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا پر بہت سے سٹنٹ پرفارمرز اور ان کی ویڈیوز اور ان کے سامعین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔’ ’ریبل ولاگ‘ نامی یوٹیوب چینل چلانے والے ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ رجحان گذشتہ چھ سات سال سے شروع ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ صرف پنجاب میں ایسے سٹنٹس کرنے والے افراد کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ترم سنگھ بھی اپنے ٹریکٹر پر کرتب کرتے ہیں۔ ان کے یوٹیوب چینل پر تقریباً 75 ہزار سبسکرائبر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے موسیقار کے طور پر کام کرتے تھے اور دو سال پہلے سے بطور پروفیشنل اسٹنٹ مین کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھیں سٹنٹس کرنے کے لیے فلم ’فاسٹ اینڈ فیوریس‘ سے تحریک ملی، یہ ایک مونسٹر ٹرک سٹنٹ ہے جسے غیر ملکیوں نے کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سٹنٹس کرنے سے پہلے مناسب حفاظتی معلومات کا ہونا اور مخصوص ہدایات پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔‘ ٹریکٹر سٹنٹس کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ ترم سنگھ نے کہا کہ یہ ٹرینڈ سب سے پہلے پنجاب کے ایک اسٹنٹ مین نے شروع کیا جس کا نام ’ہیپی مہالا‘ ہے۔ انھوں نے بڑے ایونٹس میں سٹنٹ بھی کیے، ان کی ویڈیوز بہت مشہور ہوئیں۔ ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ اس رجحان میں گذشتہ چار پانچ برسوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ مشہور ہونے یا اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے اس طرف آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ ٹریکٹر گاڑیوں کے مقابلے سستے ہیں اس لیے لوگوں کے لیے کرتب دکھانے کے لیے ٹریکٹر خریدنا آسان ہے۔ ترم سنگھ بتاتے ہیں کہ یہ سٹنٹ اکثر کبڈی کپ یا گاؤں کے میلوں کے دوران کروائیں جاتے ہیں، بعض اوقات صرف منتظمین ہی سٹنٹ کراتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہر سٹنٹ مین 15 منٹ کا سٹنٹ کرنے کے 15 ہزار سے 60 ہزار روپے تک وصول کرتا ہے۔ ٹریکٹر سٹنٹ کے دوران حادثات کی وجہ کیا؟ ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک خطرناک کام ہے۔ کہ بہت سے لوگ بغیر تربیت کے کرتب کرتے ہیں یا مقبولیت حاصل کرنے کے بعد حفاظتی اقدامات کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے حادثات عام ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ہم کرتب کرتے وقت ٹریکٹر سے نہ اتریں۔ جب ہمیں اترنا ہوتا ہے تو ہم اس کی رفتار کو کم کر کے اترتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ سٹنٹ کے لیے استعمال ہونے والے ٹریکٹر میں حفاظت کے لحاظ سے خصوصی تبدیلیاں کی جانی چاہییں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس امکان پر عمل کرتے ہیں جو زمین پر ہو سکتا ہے، کیونکہ زمین پر فیصلہ کرنے کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے۔ بیلوں کی جگہ ٹریکٹروں نے لے لی پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر راونکی رام کہتے ہیں کہ اوزار یا دیہی پیشوں سے متعلق کھیل شروع سے ہی دیہی معاشرے میں موجود ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے پنجاب کے دیہاتوں میں چنجھیاں ہوا کرتی تھیں، جن میں پہلوان اونچی چھلانگ لگاتے یا دیگر کرتب دکھاتے، اس کے ساتھ ساتھ بیلچہ اٹھانے یا اس طرح کے سٹنٹ کرنا ثقافت کا حصہ تھا۔ جدید دور میں بھی ٹریکٹر کو کھینچنے یا ٹریکٹر کو اپنے اوپر سے گزرنے جیسی حرکتیں ہوتی رہی ہیں۔ پہلے کسان اپنے بیلوں سے بہت پیار کرتے تھے،

’پیارے پنجابیو ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں‘ Read More »

Power outages in Palestine

غزہ میں بجلی کی بندش: ’ہمارے پاس جلانے کے لیے موم بتیاں بھی نہیں‘

اسرائیل کی جانب سے غزہ کی بجلی منقطع کرنے کے بعد جبالیہ کے شمالی علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے والی 36 سالہ فلسطینی خاتون فاطمہ علی کا کہنا ہے کہ بجلی کے بغیر ان کی پہلی رات ناقابل برداشت تھی۔ عمارتوں پر گرنے والے اسرائیلی گولوں کی دھماکوں نے اسے تقریباً ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’غزہ اب مکمل اندھیرے میں ہے۔‘ وہ خوف سے کانپ رہی ہیں۔ فاطمہ لرزتی ہوئی آواز میں کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس جلانے کے لیے موم بتیاں بھی نہیں ہیں۔ دکانیں بند ہیں اور ہمارے پاس صرف ایک چھوٹی سی ایل ای ڈی ٹارچ ہے جو عام طور پر صرف پانچ گھنٹے چلتی ہے۔‘ وہ بجلی کی فراہمی کے بغیر صورتحال کو ’غیر انسانی‘ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ بجلی کی کمی پینے اور نہانے کے لیے پانی کی فراہمی کو متاثر کرتی ہے۔ ’بجلی نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس پانی نہیں پہنچایا جائے گا۔‘ اسرائیل کی طرف سے نو اکتوبر کو غزہ کا مکمل محاصرہ کرنے کے حکم کے دو دن بعد تقریباً دوپہر دو بجے پوری پٹی کی بجلی منقطع کر دی گئی تھی۔ فاطمہ اور ان کے بوڑھے والدین اس وقت پانی کے دو چھوٹے ڈرموں پر انحصار کر رہے ہیں جو انھوں نے اسرائیلی حملے سے پہلے ذخیرہ کیے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بجلی نہ ہونے کا مطلب ریفریجریشن نہیں، اس لیے کھانے کی فراہمی بھی محدود ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’فریج میں کھانا بالکل خراب ہو گیا ہے اور ہم نے اسے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے خاندان کو دن میں پانچ بار نماز کے لیے وضو کرنا بھی بہت مشکل ہو رہا ہے۔ ’ہم صرف تھائم اور زیتون پر انحصار کر رہے ہیں‘ بجلی کے منقطع ہونے کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فاطمہ اور ان کی عمارت میں مقیم تقریباً ان کے تمام پڑوسی اپنی کم ہوتی خوراک اور پانی کے ذخیرے کو زیادہ سے زیادہ دیر تک برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ جو جنگ شروع ہونے سے پہلے ہمارے پاس بچا ہوا تھوڑا سا ذخیرہ تھا۔ ہم صرف تھائم اور زیتون پر انحصار کر رہے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ’میرے بھانجے اور بھانجی جو میرے بہن بھائیوں کے ساتھ اسی عمارت میں دوسری منزلوں پر رہتے ہیں، وہ سب سے زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘ فاطمہ روتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کس طرح ان بچوں کے لیے کھیلنے یا اپنے بچپن سے لطف اندوز ہونے کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ ’یہ تباہ کن جنگ ہے‘ جب میں شمال مشرقی غزہ میں جبالیہ کے گنجان پناہ گزین کیمپ میں پہنچا تو لوگ اپنے تباہ شدہ گھروں سے بھاگ رہے تھے۔ سب سے زیادہ خوش قسمت لوگ اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کمبل یا کپڑے پکڑ سکے تھے۔ میرے لیے اس کیمپ میں زندگی تقریباً ناممکن لگتی ہے، کیونکہ اسے بار بار اسرائیلی گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جبالیہ پناہ گزین کیمپ کے اندر بھی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ کیمپ کے وسط میں روتے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ ’ہمارے پاس نہ پانی ہے، نہ کھانا، اور نہ ہی ہوا ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں ’یہ کیسی زندگی ہے؟‘ ان کے ساتھ کھڑا ایک اور شخص چیختا ہے کہ ’یہ کوئی عام جنگ نہیں، یہ تباہی کی جنگ ہے۔‘ کیمپ میں موجود درجنوں فلسطینی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ صورت حال سنگین ہے۔ ستر کے پیٹے میں ایک فلسطینی ابو صقر ابو روکبہ اپنے تینوں بچے کھو چکے ہیں۔ انھوں نے روتے ہوئے مجھے اپنا حال بیان کیا کہ ’میں نے اپنا سارا خاندان کھو دیا ہے۔ جب میں اپنے بچوں کو دفنانے کے لیے قبرستان گیا اور واپس آیا تو دیکھا کہ میرا گھر مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کہاں جاؤں۔‘ کیمپ میں موجود افراد میں سے کچھ دوسرے علاقوں میں ہونے والے بم دھماکوں سے بچنے کے بعد چند دن پہلے یہاں پہنچے تھے۔ لیلیٰ (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ غزہ کی پٹی کے شمال مشرقی کنارے پر واقع بیت حنون سے آئی تھیں اور انھیں جبالیہ میں بھی ایک بدتر صورتحال کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کو کھو دیا ہے۔ میرے باقی بچے شدید زخمی ہیں۔‘ وہ اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہر روز ہمیں گولہ باری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر ایک دن۔‘ غزہ میں خوراک کا ذخیرہ ختم ہو رہا ہے خوراک اور پانی کی کمی پر بے گھر افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی خوراک کے محدود سٹاک اور خیراتی اداروں پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ امکان ہے اگلے ہفتے کے اوائل تک سپلائی ختم ہو جائے گی۔ کچھ کو پانی کی کم سے کم فراہمی کے لیے قریبی کنوؤں کا سہارا لینا ہو گا۔ دوسرے لوگ روایتی طریقے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جیسے موم بتیاں روشن کرنا تاکہ وہ رات کو دیکھنے کے قابل ہو سکیں کیونکہ غزہ میں بجلی منقطع ہے۔ ایندھن کی کمی کا سامنا پاور جنریٹرز چلانے کے لیے ایندھن تلاش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے، جو کبھی جبالیہ پناہ گزین کیمپ کو برسوں سے اپنا واحد گھر سمجھتے تھے۔ اوپر آسمان میں سیاہ دھوئیں کے بادل اڑتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی صبح بارود کی تیز بو سے شروع ہوتی ہے جو ان کے ناک کو بند کر دیتی اور انھیں کھانسی کرتی ہے۔ فضلہ پروسیسنگ کی سہولیات بجلی کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ میں نے تاریک اور بھیڑ والے کیمپ کے ارد گرد چہل قدمی کی اور دیکھا کہ کچرے کے ڈھیر بڑھنے لگے ہیں اور بہت دور تک پھیل رہے ہیں۔ جبالیہ کیمپ کے گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ وہ

غزہ میں بجلی کی بندش: ’ہمارے پاس جلانے کے لیے موم بتیاں بھی نہیں‘ Read More »

Afghanistan Earthquake destruction

افغانستان کا زلزلہ: 6.3 شدت کے زلزلے کے بعد 1000 کی نظر ثانی شدہ تعداد کی اطلاع

افغان حکام نے بدھ کے روز ہفتے کے آخر میں مغربی ہرات میں آنے والے زلزلوں کے سلسلے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں طور پر کمی کر کے تقریباً 1,000 کر دیا ہے۔ طالبان حکومت نے اصل میں کہا تھا کہ سنیچر کے 6.3 شدت کے زلزلے میں 2,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، جس کا مرکز ہرات شہر کے شمال مغرب میں دیہی برادریوں پر تھا۔ ابتدائی زلزلے کے بعد کئی طاقتور آفٹر شاکس آئے۔ صحت عامہ کے وزیر قلندر عباد نے بدھ کے روز متاثرہ افراد کی تعداد کو کم کر کے 1000 کے قریب کر دیا، اس الجھن کی وجہ علاقے کے دور دراز ہونے اور بچاؤ کی کوششوں میں شامل ایجنسیوں کی طرف سے دوہری رپورٹنگ ہے۔ عباد نے کابل میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ “ہمارے پاس پہلے واقعے سے 1,000 سے زیادہ لوگ شہید ہو چکے ہیں۔” آج کے 6.3 کی شدت کے زلزلے میں 1 ہلاک، 100 سے زائد زخمی بدھ کی صبح اسی علاقے میں 6.3 کی شدت کا ایک اور زلزلہ آیا، جہاں ہزاروں لوگ چوتھی رات کھلے میں گزار رہے تھے۔ ریاستہائے متحدہ کے جیولوجیکل سروے نے بتایا کہ زلزلہ مقامی وقت کے مطابق صبح 5:10 بجے (12:40 GMT) پر اتھلی گہرائی میں آیا، اس کا مرکز ہرات شہر سے تقریباً 29 کلومیٹر شمال میں تھا۔ زلزلے، لیکن ہفتے کے آخر میں آنے والی تباہی 25 سال سے زائد عرصے میں جنگ سے تباہ حال ملک پر حملہ کرنے کے لیے بدترین تھی۔ افغانستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر گھر مٹی سے بنے ہیں اور لکڑی کے سہارے کے کھمبوں کے ارد گرد بنائے گئے ہیں، جس میں اسٹیل یا کنکریٹ کی کمک کا راستہ بہت کم ہے۔ کثیر نسل کے توسیع شدہ خاندان عام طور پر ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں، یعنی سنگین زلزلے کمیونٹیز کو تباہ کر سکتے ہیں۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد بڑے پیمانے پر غیر ملکی امداد کے انخلا کے ساتھ افغانستان پہلے ہی ایک سنگین انسانی بحران کا شکار ہے۔ ایران کے ساتھ سرحد پر واقع صوبہ ہرات میں تقریباً 1.9 ملین افراد آباد ہیں اور اس کی دیہی برادریاں برسوں سے خشک سالی کا شکار ہیں۔

افغانستان کا زلزلہ: 6.3 شدت کے زلزلے کے بعد 1000 کی نظر ثانی شدہ تعداد کی اطلاع Read More »

حماس کے راکٹ حملوں میں 40 اسرائیلی ہلاک، 700 سے ز ائد زخمی، اسرائیل کے جوابی حملوں میں 161 فلسطینی ہلاک 1000 زخمی

  اسرائیل کی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغے جانے اور زمینی حملوں کے بعد کم از کم 40 اسرائیلی ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں 161 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ اسے پہلے اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے غزہ کی پٹی میں راکٹوں کے حملوں کے جواب میں اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عسکریت پسند گروپ حماس سے تعلق رکھنے والے درجنوں مسلح افراد غزہ کی پٹی سے اچانک حملے میں جنوبی اسرائیل میں گھس آئے۔ جس کے بعد اسرائیلی میڈیا پر یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس نے کچھ اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے۔ خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘ یورپی ڈیپلومیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کی خبروں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ بین القوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یرغمال بنائے جانے والوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔‘ اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں حماس کے اہداف پر جوابی فضائی حملے کیے ہیں۔ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے غزہ سے اسرائیل پر راکٹ داغے۔ حماس کے رہنما محمد دیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے۔ ‘ اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ ’متعدد دہشت گرد‘ غزہ سے اسرائیلی علاقے میں گھس آئے ہیں۔ اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کا اجلاس مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے ہوگا اور آئی ڈی ایف نے حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی‘۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق جنوبی اسرائیل کے مختلف مقامات پر اسرائیلی اور فلسطینی افواج کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ ان کے عوام کو ’آبادکاروں اور قابض فوجیوں کی دہشت‘ کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت‘ ہے۔ انھوں نے فلسطینی عوام کے اس حق پر زور دیا کہ وہ آبادکاروں کی ’دہشت گردی اور قابض افواج‘ کے خلاف اپنا دفاع کریں۔ فلسیطینی صدر رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق اسرائیل کے ایک حکومتی اہلکار نے بتایا ہے کہ ’فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے منظم انداز میں کیے جانے والے اس حالیہ حملے کے بعد اسرائیل میں اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا آغاز کیا جا رہا ہے کہ جس میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کیسے اسرائیلی خفیہ ایجنسی اس کے بارے میں پتہ لگانے میں ناکام ہوئی۔‘ مصنف اور صحافی گیڈون لیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کے خیال میں فلسطینیوں کے ساتھ کوئی تصفیہ اب پہنچ سے باہر ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں گھر سے باہر نکلا، سڑکیں ویران تھیں۔‘ ریستوراں، کیفے سب کچھ بند پڑے ہیں اور فضا خوف سے بھری ہوئی ہے۔‘ صحافی گیڈون لیوی نے مزید کہا کہ ’جب پہلا راکٹ گرا تو میں پارک میں جاگنگ کر رہا تھا، ااس وقت شور شرابہ دہلا دینے والا تھا۔‘ عالمی ردِ عمل فلسطین کے عسکریت پسند گروہ کی جانب سے اسرئیل پر ہونے والے حملے پر عالمی دُنیا کی جانب سے بھی رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ فرانس کے صدر ایمنول میکرون نے اسرائیل پر ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اُنھوں نے ’ان حملوں میں نشانہ بننے والے لوگوں اُن کے اہل خانہ اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔‘ جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’عام شہریوں کے خلاف راکٹ اور مزائل داغنے کے اس سلسلے کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔‘ یورپی کمشن کی چیئرمین نے اسرائیل پر ہونے والے اس حملے کو ’دہشت گردی کی ایک انتہائی گھناؤنی شکل قرار دیا۔‘ امریکہ کی جانب سے بھی فریقین پر حالات کو معمول پر لانے کے لیے زور دیا گیا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ کے مطابق ’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘ پورے جنوبی اسرائیل میں سائرن بج رہے ہیں جسےہ کی صبح تل ابیب کے بڑے علاقے میں سنا جا سکتا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی فائر فائٹرز اشکیلون شہر میں آگ بجھانے میں لگے ہیں جبکہ جلی ہوئی گاڑیوں سے دھویں کے گہرے مرغولے اٹھ رہے ہیں۔ اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کی جانب سے ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے ’دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد‘ اسرائیلی علاقے میں گھس آئی ہے اور آس پاس کے علاقوں کے رہائشیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں۔ اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ’انھوں نے اب تک حماس کے 17 کمپاؤنڈز اور چار مراکز پر حملے کیے ہیں۔‘ بی بی سی نے اسرائیلی دفاعی افواج کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔ ہمارے نامہ نگار رشید ابوالعوف نے غزہ پٹی سے بتایا ہے کہ ’چھت پر اپنی پوزیشن سے میں مشرق، جنوب، شمال، ہر جگہ سے راکٹ داغے جاتے دیکھ سکتا ہوں۔‘ حماس ٹی وی کا کہنا ہے کہ

حماس کے راکٹ حملوں میں 40 اسرائیلی ہلاک، 700 سے ز ائد زخمی، اسرائیل کے جوابی حملوں میں 161 فلسطینی ہلاک 1000 زخمی Read More »

Mastung Attack Balochistan Pakistan

‘مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، ‘

مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، لاشیں اور زخمی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے تھے‘   ’وہاں جو صورتحال تھی وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایسے سمجھ لیں کہ قیامت کا منظر تھا۔ لاشیں اور زخمی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے ہوئے تھے، کسی کا سر نہیں تھا تو کسی کے ہاتھ پاؤں نہیں تھے۔‘ یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے دھماکے کے ایک عینی شاہد برکت علی کا۔ مستونگ شہرمیں کوڑا خان روڈ پر واقع مدینہ مسجد کے سامنے لوگ عید میلاد النبی کے سلسلے میں نکلنے والے ایک جلوس میں شرکت کے لیے اکھٹے ہو رہے تھے جب زوردار دھماکہ ہوا۔ مستونگ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رشید محمدشہی نے بتایا کہ دھماکے میں 52 افراد ہلاک جبکہ 70 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق زخمیوں میں سے 52 افراد کو سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹرمنتقل کیا گیا جبکہ بعض زخمیوں کو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا۔ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ میر زبیر احمد جمالی نے ٹراما سینٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ انسپیکٹر جنرل پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے کیا جانے والا ایک واقعہ ہے۔ عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟   مستونگ سے تعلق رکھنے والے برکت علی اُن لوگوں میں شامل تھے جو کہ عیدمیلاد النبی کی جلوس میں شرکت کے لیے مدینہ مسجد پہنچے تھے۔ وہ خود تو اس دھماکے کے نتیجے میں محفوظ رہے تاہم جائے وقوعہ سے زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو ایمبولینسوں میں منتقل کرنے کے دوران اُن کے کپڑے خون آلود ہو گئے جبکہ وہ غم کی شدت سے نڈھال تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ دھماکے کی جگہ سے کچھ فاصلے پر تھے اسی لیے وہ بچ گئے لیکن وہاں جو حالات تھے وہ بالکل ناقابل بیان تھے۔ ’آج میں نے قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دھماکے کے بعد جب حواس بحال ہوئے تو سامنے بہت درد ناک مناظر تھے، ہر طرف لاشیں اور زخمی پڑے ہوئے تھے۔‘ اس واقعے کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں افراد عید میلاد النبی کے جلوس کا حصہ ہیں۔ جلوس میں موجود گاڑی پر نعتیہ کلام بلند آواز سے چل رہا تھا جبکہ بہت سے شرکا کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے۔ اسی دوران ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے اور انسانی اعضا فضا میں بلند ہوتے ہیں۔ بی بی سی اس ویڈیو کی آذادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ سیف اللہ بھی اسی جلوس کا حصہ تھے اور وہ دھماکے کے بعد اپنے زخمی ہونے والے بھائی کے ہمراہ ٹراما سینٹر کوئٹہ آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ اس واقعہ میں ہلاک ہوئے ہیں ان میں سے 10 کے قریب ان کے رشتہ دار ہیں۔ سیف اللہ کا کہنا تھا کہ ’ہم جلوس کی روانگی کے انتظار میں تھے کہ اس دوران زور دار دھماکہ ہوا۔ میں دھماکے کی جگہ سے لگ بھگ ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلے پر تھا اس وجہ سے دھماکے کی زد میں نہیں آیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ جس مسجد کے سامنے یہ دھماکہ ہوا اس کے خطیب بھی اس واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جن زخمیوں کو ٹراما سینٹر لایا گیا تھا ان میں جامعہ مدینہ کے مدرس مولانا شیر احمد حبیبی بھی شامل تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عید میلاد النبی کا جلوس بڑی دھوم دھام کے ساتھ اپنی منزل کی جانب روانہ ہونے والا تھا جب دھماکہ ہوا۔ ہمارے ساتھی درود کا ورد کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔‘ سرفراز ساسولی دھماکے کا نشانہ بننے والے جلوس کی سکیورٹی پرمامور تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جلوس سے ایک ڈیڑھ کلومیٹرکے فاصلے پر تھے اور جلوس کے راستے کو کلیئر کرنے کے کام میں مصروف تھے جب انھیں دھماکے کی آواز سنائی دی۔ انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ دور ہونے کی وجہ سے وہ تو محفوظ رہے لیکن جلوس میں ہونے کی وجہ سے ان کے دو بھائی اس میں زخمی ہوئے۔دھماکے کی نوعیت کے بارے میں حکام کا کیا کہنا ہے ؟ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ میر زبیر جمالی نے سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے بارے میں تحقیقات جاری ہیں لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ ایک خود کش دھماکہ تھا۔ بلوچستان پولیس کے انسپیکٹر جنرل عبدالخالق شیخ نے بتایا کہ ’مستونگ میں پہلے بھی سکیورٹی آپریشن ہو رہے ہیں اور ہماری جوٹیمیں وہاں کام کر رہی ہیں انھوں نے بہت ساری مفید معلومات حاصل کی ہیں جن کی روشنی میں مزید آپریشن کیے جائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ مستونگ کہاں واقع ہے؟ مستونگ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ سے متصل جنوب میں واقع ایک ضلع ہے۔ یہ مقام پر یہ دھماکہ ہوا وہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ ضلع مستونگ کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پرمشتمل ہے۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے ضلع مستونگ میں بھی بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ضلٰع مستونگ میں رواں مہینے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ پربم حملہ ہوا تھا جس میں حافظ حمداللہ سمیت 13افراد زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ مستونگ کے علاقے کانک میں 2018 کے عام انتخابات سے قبل بھی ایک بڑا دھماکہ ہوا تھا جس میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 125سے زائد افراد ہلاک اور بہت بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے۔ مستونگ میں رونما ہونے والے واقعات میں سے بعض کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں جبکہ بعض کہ ذمہ داری مذہبی شدت پسندتنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔ تاہم اس واقعے کی ذمہ داری فی الحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان

‘مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، ‘ Read More »