ڈسکہ: ابھرتا ہوا زرعی آلات کا مرکز

 پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے کم قیمت پر تیار کردہ مشینیں۔ ڈسکہ: ڈسکہ میں تیار کردہ زرعی آلات تمام صوبوں میں فروخت کیے جاتے ہیں اور زمبابوے، موزمبیق، افغانستان اور دیگر ممالک کو بھی برآمد کیے جاتے ہیں۔ ایگنایٹ پاکستان سے بات کرتے ہوئے ڈسکہ انجینئرنگ اینڈ انڈسٹریل ایسوسی ایشن کے صدر آصف باجوہ اور سینئر نائب صدر عثمان اقبال مغل نے کہا کہ وہ اپنی مصنوعات کے ذریعے پاکستان کو عالمی زرعی منڈی میں متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈسکہ میں زرعی آلات کی صنعت سب سے پرانی صنعتوں میں سے تھی، جسے لندن کے بعد پہلا ڈیزل انجن تیار کرنے کا سہرا بھی دیا گیا تھا۔ ایک مقامی کمپنی نے ایک جدید ترین مشین تیار کی ہے جس کی لاگت تقریباً 10 لاکھ روپے ہے اور یہ ایک ساتھ ہل، ہیرو، ڈسک ہیرو، سیڈ ڈرل مشین اور لیولر کا کام کرتی ہے۔ یہ روزانہ تقریباً آٹھ ایکڑ زمین کی تیاری اور بوائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مقامی کسان قاضی نعیم اللہ نے کہا کہ یہ مشین نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ یہ بیک وقت چھ مختلف کردار ادا کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس سے وقت اور پیسہ دونوں کی بچت ہوتی ہے، کیونکہ روایتی طریقوں سے ایک ایکڑ زمین کی تیاری میں 22 لیٹر ڈیزل خرچ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیڈر مشین صرف نو لیٹر ڈیزل استعمال کرتی ہے۔ مزید برآں، فصل کی باقیات کو جلانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سیڈر باقیات کو سبز کھاد میں توڑ دیتا ہے، جو جنگلی حیات کی حفاظت کرتا ہے اور سموگ کو کم کرتا ہے۔ اسی طرح ایک زیرو ٹیلیج سیڈ ڈرل مشین جس کی مارکیٹ قیمت 400,000 روپے ہے، بغیر تیاری کے بیج اور فصل کی باقیات کو ڈرل کرتی ہے اور اسے گندم، مکئی، مٹر اور چنے کی بوائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میں روزانہ 20 ایکڑ اراضی پر ڈرل اور بیج لگانے کی صلاحیت بھی ہے۔ مشین نے کئی ایوارڈز جیتے ہیں۔ زمین کی تیاری میں استعمال ہونے والی ایک عام مشین روٹاویٹر بھی مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے اور 400,000 روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ زمین کی تیاری میں استعمال ہونے والی مشینوں میں ڈسک ہیرو کی قیمت 700,000 روپے، ڈسک ہل کی قیمت 350,000 روپے ہے اور ڈسک اور بلیڈ مقامی مارکیٹ میں 100,000 روپے میں دستیاب ہیں۔ چار انچ مٹی تک ہل چلانے کے لیے ڈسک ہیرو کا استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ ڈسک کا استعمال سات انچ تک ہل چلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایک کسان نے کہا کہ دونوں زمین کی زرخیزی اور پیداواری صلاحیت میں نمایاں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، شہر میں تیار کردہ آٹو لیزر لینڈ لیولر زرعی آلات میں خاص اہمیت کا حامل ہے جس کی مارکیٹ ویلیو 10 لاکھ روپے ہے۔ صنعت کے رہنماؤں نے کہا کہ ہر کسان کو پانی کی سطح اور بیج کی گہرائی کو کنٹرول کرنے کے لیے سال میں ایک بار لیزر لیولنگ کرنی چاہیے۔ ایک ترقی پسند کسان جام صہیب حسن جو کہ ضلع جھنگ میں بطور کمرشل بنیادوں زرعی خدمات فراہم کرتے  ہیں انہوں  نے بتایا کہ کاشتکاروں کے آباؤ اجداد دستی طور پر کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن اب آلات نے وقت کی بچت کے ساتھ مزید کام کرنے میں مدد کی ہے۔

ڈسکہ: ابھرتا ہوا زرعی آلات کا مرکز Read More »

جب پنڈت کشور لال کی چتا کو آگ نے نہ چھوا

پنڈت نول کشور کو کیوں دفن کیا گیا  اس کی چتا پر کئی ٹین گھی کے ڈالے گئے تھے لیکن چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی . وہ کوئی عام ہندو نہیں تھا انڈیا کا بہت بڑا نام تھا. اس لئے اس کی چتا کو آگ نہ لگنے والے واقعے کی خبر منٹوں میں پورے انڈیا میں پھیل گئی .  لوگ جوق در جوق شمشان گھاٹ پہنچنے لگے . اس کی جامع مسجد دلی کے امام بخاری سے بہت دوستی تھی امام صاحب بھی یہ واقعہ سن کر فورآ شمشان گھاٹ پہنچے . انہوں نے اس کے لواحقین کو سمجھایا کہ اس کی ارتھی کو آگ نہیں لگے گی چاہے پورے ھندوستان کا گھی اس پر ڈال دو . بہتر یہی ہے اسے دفنا دو.  لہذا پہلی بار ایک ہندو کو جلائے بغیر شمشان گھاٹ کے اندر ہی دفن کرنا پڑا . اس کی ارتھی کو آگ کیوں نہیں لگ رہی تھی ؟ اس کو آگ کیسے جلا سکتی ہے جس نے قرآن کا احترام مسلمانوں سے بھی بڑھ کر کیا ھو . کیسے؟ چلیے تاریخ کے صفحوں کو پلٹتے ہیں  تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے . پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے. دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوسکا. نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی. دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا. وقت گزرتا رھا طباعت و اشاعت کا کام جاری رھا۔ پھر برصغیر کی تقسیم ھوئی۔ مسلمان ھندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے۔ نول کشور جی بھی لاھور سے ترک سکونت کرکے نئی دلی انڈیا چلے گئے۔  ان کے ادارے نے دلی مین بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وھی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔نول کشور جی بوڑھے ھوگئے اور اب گھر پر آرام کرنے لگے جبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسہ اسی طرح قائم رکھا۔  آخرکار نول کشور جی کا وقت آخر آ گیا اور وہ انتقال کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ھاں پہنچے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ھونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے۔ ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا ۔ چتا پر گھی ڈال کر آگ لگائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ھوا۔ نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رھی تھی۔چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود۔ یہ ایک ناممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔ پہلے کبھی ایسا نہین ھوا تھا۔ لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہین لگ رھی۔  مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رھے تھے اور حیران و پریشان تھے۔ یہ خبر جب جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شماشان گھاٹ پہنچے۔ نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔  اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔ امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتے ھوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہین ھو پائے گی۔ اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ھے جیسے احترام کیا ھے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ھی نہیں سکے گی چاھے آپ پورے ھندوستان کا تیل گھی چتا پر ڈال دیں۔  اس لئے بہتر ھے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئیے۔ چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتے ھوئے نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ھندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا ۔ میں نہیں جانتا اس  ہندو   کا آخرت میں کیا انجام ھوگا لیکن اتنا جان گیا ہوں کہ دنیا میں اس کو آگ لگانا ناممکن ہو گیا تھا کیا آخرت میں آگ اس کے سامنے بے بس ھو جائے گی؟۔  میں یہ بھی سوچ رھا ھوں ایک ہندو احترام قران میں اس دنیا کی آگ سے محفوظ رہا ہم  اس کتاب پر ایمان لانے والے اگر اس کی صحیح قدر کریں گے تو یہ آگ ھمیں جہنم کی آگ سے کیوں نہیں بچائے گی؟۔  انشااللہ میرا ایمان ہے ضرور بچائے گی۔۔۔۔۔

جب پنڈت کشور لال کی چتا کو آگ نے نہ چھوا Read More »

زیرالتواتمام پاسپورٹس آئندہ چند روزمیں جاری کئےجانے کاامکان

بروقت پرنٹنگ کیلئےاضافی افرادی قوت سمیت پرنٹنگ مشینیں24گھنٹےفعال تکنیکی مسائل کےباعث ملک بھرمیں پاسپورٹ ڈیلیوری میں تاخیر کے معاملے میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے ، اور اب زیرالتواتمام پاسپورٹس آئندہ چندروزمیں جاری کئےجانےکاامکان ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق فاسٹ ٹریک درخواستوں کےحامل پاسپورٹس کابیک لاگ ختم ہوگیا،اور آج سےپاسپورٹ مقررہ مدت میں ہی فراہم کئےجائیں گے،ارجنٹ پاسپورٹ کابیک لاگ بھی2سے3روزمیں ختم ہونےکاامکان ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ امیگریشن اینڈپاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے نارمل پاسپورٹس کی بروقت فراہمی کیلئےپرنٹنگ کیلئےاضافی اقدامات کیے گئے ہیں ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارسپورٹس کی بروقت فراہمی کیلئے کیے گئے اقدامات کے تحت بروقت پرنٹنگ کیلئےاضافی افرادی قوت سمیت پرنٹنگ مشینیں24گھنٹےفعال ہیں۔ واضح رہے کہ محکمہ پاسپورٹ کے پاس نئے پاسپورٹس کیلئے لیمینیشن پیپر مبینہ طور پرختم ہوگئے تھے۔ جس کی وجہ سے درخواست گزاروں کو پاسپورٹ کے حصول کیلئے طویل انتظار کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ بیرون ملک عمرہ، علاج اور تعلیم کے لیے جانے کے خواہشمند شہری مشکل میں پھنس گئے تھے۔

زیرالتواتمام پاسپورٹس آئندہ چند روزمیں جاری کئےجانے کاامکان Read More »

Price hike Of Gas

گیس کی قیمتوں میں 194 فیصد تک اضافے کی منظوری

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گیس کی قیمتوں میں 194 فیصد تک کے نمایاں اضافے کی منظوری دے دی، جس کا اطلاق یکم نومبر سے ہوگا۔ ایگنایٹ پاکستان  کی  کے مطابق اس کے علاوہ صارفین ماہانہ فکسڈ چارجز کی مد میں 3900 فیصد کا غیرمعمولی اضافہ بھی دیکھیں گے، نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے ای سی سی کا اجلاس طلب کیا، جہاں پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے تمام شعبوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافے منظوری دی گئی۔ سمری کے مطابق گیس کی قیمتوں میں نظرثانی یکم جولائی 2022 سے ہونی تھی، تاہم مسلم لیگ (ن) کی زیرسربراہی اتحادی حکومت نے اس فیصلے کو مؤخر کر کے اس حساس معاملے کو نگران حکومت کے لیے چھوڑ دیا تھا، ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل پہلے ہی جولائی تا ستمبر کے دوران 46 ارب روپے کا خسارہ رپورٹ کر چکی ہیں۔ پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے بھی ماہانہ فکسڈ چارجز 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کر دیے گئے ہیں، دیگر گھریلو صارفین کے لیے دو مختلف سلیب بنائے گئے ہیں، پہلی کیٹیگری میں 1.5 ایچ ایم 3 تک گیس استعمال کرنے والوں کے لیے فکسڈ چارجز 460 روپے سے بڑھا کر ایک ہزار روپے کر دیے گئے ہیں، دوسری کیٹیگری میں 1.5 ایچ ایم 3 سے زائد استعمال کرنے والے صارفین کے چارجز 460 روپے سے بڑھا کر 2000 روپے کر دیے گئے ہیں۔ پیٹرولیم ڈویژن کے تخمینے کے مطابق ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر ہر سال 5 سے 7 فیصد کم ہو رہے ہیں۔ پروٹیکٹڈ صارفین جو گھریلو صارفین کا 57 فیصد بنتے ہیں، ان کے لیے ٹیرف میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، تاہم ان کے ماہانہ فکسڈ چارجز نمایاں طور پر بڑھائے گئے ہیں، جو موجودہ 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کر دیے گئے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کیٹیگری کے لیے سالانہ بل میں 150 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ دیگر گھریلو صارفین کے لیے گیس کے نرخوں میں نمایاں اضافے کی منظوری دی گئی ہے، 0.25 ایچ سی ایم تک کی کھپت کے لیے نرخ 50 فیصد سے بڑھ کر 300 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو، 0.6 ایچ سی ایم کے لیے 600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو، اور ایک ایچ سی ایم تک کے لیے 150 فیصد اضافے سے ایک ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو ہو جائیں گے۔ سب سے نمایاں 173 فیصد کا اضافہ 3 ایچ سی ایم تک سلیب میں کیا گیا ہے، جس کی قیمتیں موجودہ گیارہ سو روپے سے بڑھ کر 3 ہزار روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ جائیں گی۔ زیادہ استعمال کرنے والوں کے لیے ایک چوتھائی اضافہ کر کے ٹیرف ایک ہزار 600 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کر 2 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ کمرشل صارفین کے لیے 136 فیصد کا نمایاں اضافے کی منظوری دی گئی ہے، جس کے بعد اس کی فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت 3 ہزار 900 روپے ہو گئی ہے، سیمنٹ فیکٹریوں اور سی این جی اسٹیشنوں کے لیے 193 فیصد اور 144 فیصد سے زیادہ اضافے کی توقع ہے، جس کے بعد ان کے لیے ٹیرف 4 ہزار 400 روپے ہو جائے گا۔

گیس کی قیمتوں میں 194 فیصد تک اضافے کی منظوری Read More »

نواز شریف نے لاہور پاور شو میں عورت مارچ کے منتظمین کی ناراضگی کا اظہار کیا

لاہور – پاکستان کے تین بار وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے چار سال خود ساختہ جلاوطنی گزارنے کے بعد ملکی سیاست میں ڈرامائی واپسی کی۔ تجربہ کار سیاست دان نے ایک غیر سنجیدہ تقریر کی، جس کا مقصد تمام حصوں کو اکٹھا کرنا تھا لیکن وہ غلط قدموں پر اتر گئے، پی ٹی آئی کی خواتین کو گانا اور رقص کے طور پر گاتے ہوئے معزول وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ہونے والے جلسوں میں ہجوم کو چارج کیا گیا، جو کہ سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اب 2 ماہ سے زیادہ کے لیے۔ مینار پاکستان پر اپنے خطاب میں شریف نے اپنی پارٹی کے کارکنوں اور پی ٹی آئی کے حامیوں کے درمیان موازنہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاور شوز میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے والوں کے مقابلے مسلم لیگ ن کی خواتین کارکنان بہت خاموشی سے سن رہی ہیں۔ تجربہ کار سیاستدان کے تبصروں نے سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے مختلف قسم کے ردعمل کو جنم دیا کیونکہ ان کا کلپ وائرل ہوا تھا۔ ان کے تبصروں پر بحث کے درمیان، سالانہ عورت مارچ کے کراچی ایڈیشن کے منتظمین نے نواز شریف پر تنقید کی۔ سوشل میڈیا پر عورت مارچ کے ہینڈل میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نے خواتین کی سیاسی سرگرمیوں پر ’سستا شاٹ‘ لیا ہے۔ خواتین کو ‘اچھے’ اور ‘برے’ کے درمیان تقسیم کرنا پتھر کے زمانے کا رواج ہے، اور رقص کے شوقین ہونے کی وجہ سے خواتین کے کردار پر تبصرے کرنا بے عزتی ہے۔ ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے۔ ’’ہم نواز کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بدگمانی کے غار سے نکلیں اور اپنے خیالات کا جائزہ لیں۔‘‘

نواز شریف نے لاہور پاور شو میں عورت مارچ کے منتظمین کی ناراضگی کا اظہار کیا Read More »

Ghaza Poetess

غزہ کی معروف شاعرہ بھی اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئیں

غزہ (این این آئی)غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں معروف مصنفہ، شاعرہ اور ناول نگار حبا ابوندا بھی شہید ہوگئی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کی معروف مصنفہ حبا ابوندا نے اپنی شہادت سے ایک روز قبل سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا تھا جس میں اْنہوں کہا تھا کہ ” اگر ہم مرجائیں تو جان لیں کہ ہم ثابت قدم ہیں اور ہم سچے ہیں”۔32 سالہ مصنفہ حبا ابوندا کو اپنے ناول ”آکسیجن ازناٹ فاردی ڈیڈ”سے شہرت ملی تھی جبکہ سوشل میڈیا پر حبا ابوندا کا ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہورہا ہے۔ وائرل ویڈیو میں حبا ابوندا سوال کر رہی ہیں کہ ”ہم کس جہنم میں رہ رہے ہیں؟ ایسا کیسے کب تک چلے گا؟”اس سے قبل اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں وہ 12 سالہ فلسطینی یوٹیوبر عونی الدوس بھی شہید ہوگیا تھا جو یوٹیوب پر ایک لاکھ سبسکرائبرز مکمل ہونے کا خواب سجائے ہوا تھا۔عونی الدوس نے غزہ پر اسرائیلی حملوں سے کچھ عرصہ قبل ہی یوٹیوب پر اپنا چینل بنایا تھا، وہ اپنے چینل پر ”گیمنگ ویڈیوز” اپ لوڈ کرتے تھے اور اْن کا خواب تھا کہ وہ ایک مشہور اور کامیاب انسان بنیں۔

غزہ کی معروف شاعرہ بھی اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئیں Read More »

Dengue Fever

ڈینگی کو ختم کرنے والی پہلی دوا کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن

مچھر کے کاٹنے سے ہونے والے بخار یا بیماری ڈینگی کو ختم کرنے کے لیے بنائی گئی دنیا کی پہلی دوا کی آزمائش کے ابتدائی نتائج سے بخار ختم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈینگی بخار مچھروں کی ایک قسم Aedes کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو خود ڈینگی وائرس سے متثر ہوتا ہے اور کاٹنے کے بعد خون میں وائرس کو منتقل کردیتا ہے۔ مگر یہ بیماری ایک سے دوسرے فرد میں براہ راست نہیں پھیلتی لیکن اب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ڈینگی کا سبب بننے والے مچھر وائرس کو پھیلانے کے لیے طاقتور بن چکے ہیں۔ ڈینگی کے زیادہ تر کیسز ایشیائی اور افریقی ممالک میں رپورٹ ہوتے ہیں اور پاکستان کا شمار بھی اس سے متاثر ہونے والے جنوبی ایشیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ س وقت ڈینگی کے علاج کے لیے کوئی خصوصی گولی، کیپسول، سیرپ یا ویکسین دستیاب نہیں ہے، البتہ ڈاکٹرز مختلف ادویات سے اس کا علاج کرتے ہیں۔ لیکن اب ملٹی نیشنل کمپنی ’جانسن اینڈ جانسن‘ کی جانب سے تیار کردہ اینٹی وائرل دوا کی آزمائش کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن آئے ہیں۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق شکاگو میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جانسن اینڈ جانسن کے ماہرین نے تیار کردہ گولیوں کی آزمائش کے ابتدائی نتائج پیش کیے، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ گولیوں کے استعمال سے بخار ختم ہوگیا۔ ماہرین نے کانفرنس میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کمپنی نے ڈینگی کو ختم کرنے کے لیے اینٹی وائرل گولیاں تیار کی ہیں، جن کی 10 افراد پر آزمائش کی گئی۔ ماہرین کے مطابق آزمائشی پروگرام کے لیے 10 صحت مند رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں، جنہیں پہلے ڈینگی بخار میں مبتلا کیا گیا، جس کے بعد انہیں دو گروپوں میں تقسیم کرکے 21 دن تک ان کا علاج کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق 10 میں سے 6 رضاکاروں کو تیار کردہ نئی اینٹی وائرل گولیاں دی گئیں اور انہیں یومیہ 21 دن تک گولیاں کھانے کا کہا گیا جب کہ دوسرے افراد کو مصنوعی دوا دی گئی۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ 21 دن بعد گولیاں کھانے والے افراد میں ڈینگی ختم ہوچکا تھا جب کہ ان کے بلڈ پلازما اور مدافعتی نظام سے بھی ڈینگی وائرس نکل چکا تھا۔ ماہرین کے مطابق علاج کے بعد 85 دن بعد دوبارہ ان افراد کے ٹیسٹ کیے گئے تو بھی ان میں ڈینگی کی تشخیص نہیں ہوئی جب کہ دوسرے رضاکار جنہیں مصنوعی دوا دی گئی تھی، ان میں ڈینگی پایا گیا۔ ماہرین نے بتایا کہ ابتدائی نتائج حوصلہ بخش آنے کے بعد اب مذکورہ گولیاں کی دوسری آزمائش شروع کی جائے گی، جس کے لیے زیادہ رضاکار اور زیادہ وقت درکار ہوگا۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ اینٹی وائرل گولیوں کی دوسری آزمائش افریقہ، امریکا اور ایشیا کے متعدد ممالک میں 6 ماہ تک کی جائے گی اور ممکنہ طور پر آزمائش کو ایک سال کے اندر شروع کیا جائے گا۔ اگر مذکورہ گولیوں کی آزمائش کے دوسرے مرحلے کے نتائج بھی حوصلہ کن آئے تو ان گولیوں کو تیسری اور آخری بڑی آزمائش میں آمایا جائے گا، تاہم اس سارے عمل میں مزید دو سال کا وقت لگ سکتا ہے۔

ڈینگی کو ختم کرنے والی پہلی دوا کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن Read More »

Arshad Sharif

صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!

ارشد کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا گیا تھا جہاں لاکھوں لوگ اس کی بات سچ مانتے تھے اس کے فالوور تھے اور یہ کسی صحافی کی معراج ہوتی ہے۔ ’ڈرائیور بھیج دوں گاڑی لانے کے لیے؟‘ ’اچھا، میری گاڑی بالکل چلنے کے قابل نہیں۔‘ ’چلیں آپ دیکھیں کیا کرنا ہے۔‘ ’اچھا ٹریلر پر بھیج دیں‘، ارشد شریف کی سرگوشی نما آواز سنائی دی۔ میں اس وقت ارشد شریف کے ڈرائنگ روم میں تھا اور ساجد گوندل کے ساتھ ارشد کے والد کی میت کو ایک چارپائی سے دوسری چارپائی پر منتقل کررہا تھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو ارشد ڈرائنگ روم کے باہر سیڑھیوں کے پاس کھڑا کسی سے دھیمے لہجے میں فون پر بات کر رہا تھا۔ ارشد کے والد نیوی سے ریئر ایڈمرل ریٹائرڈ ہوئے تھے اور صبح وفات پاگئے تھے۔ میں اس وقت ڈان نیوز ٹی وی میں بطور رپورٹر کام کر رہا تھا اور ارشد ڈان کا بیورو چیف تھا لیکن اس کا سب کے ساتھ تعلق بھائیوں والا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی ارشد کے والد کے انتقال کی خبر نیوز روم پہنچی تو ایک، دو رپورٹرز کو چھوڑ کر ہم سب ارشد کے گھر پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد پتا چلا کہ ارشد کے چھوٹے بھائی جو فوج میں میجر تھے ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ دراصل جب انہیں والد کے انتقال کی خبر ملی تو وہ اپنی کورے گاڑی میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے اور تیز رفتاری کے سبب گاڑی بے قابو ہوگئی اور ارشد کے بھائی اس اندوہناک سانحے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اور اب گھر میں ان کی میت کا انتظار تھا۔ مجھے ہمت نہ ہوئی کہ ارشد کو دلاسہ دے سکوں۔ گھر میں باپ کی لاش پڑی ہو اور چھوٹے بھائی کی لاش کا انتطار ہو، تو بھلا اس قیامت خیز گھڑی میں کوئی کسی کو کیا دلاسہ دے سکتا ہے؟ آج بھی اس لمحے کا سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ ’ایسا تو فلموں میں ہوتا ہے‘، ارشد سپاٹ لہجے میں اسد کو کہہ رہا تھا۔ اسد ڈان کے ٹیکنیکل شعبے کے سربراہ تھے۔ میں قرآن پڑھتے کن انکھیوں سے ارشد کو تک رہا تھا کہ کس بلا کا حوصلہ ہے اس شخص کا۔ اگلے دن ارشد کے بھائی کو جب تمام فوجی اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا تب بھی ارشد نے بڑے ضبط کا مظاہرہ کیا۔ ارشد ایک نڈر شخص تھا۔ یہ اس کی ہی آشیر باد تھی کہ ہم وہ خبر بھی چلا دیتے تھے جسے چلانے کا دوسرے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ میں گمشدہ افراد پر ایک پروگرام کر رہا تھا جس کے لیے شہر سے باہر جانا پڑتا تھا۔ ارشد اس وقت تک بے چین رہتا تھا جب تک میں مع عملہ واپس نہ پہنچ جاؤں۔ ایک رات جب ہم فیصل آباد سے رات گئے لوٹے تو ارشد دفتر میں میرا انتظار کررہا تھا۔ کیمرا اور دیگر سامان دفتر میں جمع کرواتے صبح کے 4 بج گئے لہٰذا میں اور ارشد ڈان کے نیوز روم میں ہی قالین پر سو گئے۔ اگلے دن اس نے مجھے تو گھر بھیج دیا مگر خود کام میں جتا رہا۔ ارشد عجز و انکساری سے بھرپور انسان تھا۔ ایک رات میں دفتر میں تھا تو معلوم ہوا ایک چینی کا پُراسرار حالات میں قتل ہوگیا ہے۔ میں نے ارشد کو فون کیا کہ چینی کا قتل ہوگیا، میں نے خبر بریک کرنی ہے لیکن کیمرا مین نہیں ہے۔ ’اچھا میں آتا ہوں‘، اس نے کہا اور تھوڑی ہی دیر میں دفتر پہنچ گیا۔ امریکا سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیورو چیف ساری رات ایک رپورٹر کے ساتھ بطور کیمرا میں کام کرتا رہا۔ ارشد میں حس مزاح بھی بہت تھی۔ ایک دن کراچی (ہیڈ آفس) سے جھاڑ کھانے کے بعد وہ نیوز روم میں سب پر برسنے لگا کہ ایک اہم خبر اسلام آباد سے مس ہوگئی تھی۔ ’کیا کر رہے ہو تم سب‘، ارشد دھاڑا۔ ریلیکس کر رہا ہوں، میں نے جواب دیا۔ ’ریلیکس کر رہے ہو‘، اس نے غصے سے پوچھا۔ بنا کسی بات کے جھاڑ کھانے کے بعد کوئی اور کیا کرسکتا ہے؟ میں نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا اور ارشد قہقہے میں لوٹ پوٹ ہوگیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ صحافت کی باریکیاں میں نے ارشد سے سیکھیں ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ ارشد کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ اس نے مجھے کئی انتہائی نازک مواقعوں پر بچایا ہے۔ ایک دوپہر میں نیوز روم میں داخل ہوا تو ارشد نے ایک خط میرے سامنے کردیا۔ یہ اسلام آباد پولیس کا خط تھا جس میں کہا گیا تھا کہ میں یعنی ڈان نیوز کا رپورٹر عاطف خان ایک تھانے میں زبردستی داخل ہوا اور اس نے ایس ایچ او انسپکٹر فیاض تنولی کو ہراساں کیا اور عاطف خان پر فلاں فلاں قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔ اس خط میں اگر ایسا لکھا ہے تو اس میں ایسی کیا بات ہے۔ پولیس ایجنسیوں کی یہ ایک اسٹینڈرڈ کارروائی ہے، میں نے بے اعتنائی سے کہا۔ دراصل ان دنوں میں نے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی خبر بریک کی تھی اور پے درپے رپورٹس کر رہا تھا۔ ایجنسیاں اور پولیس مجھ سے سخت برہم تھے۔ ارشد نے مجھے کہا کہ میں حامد میر سے بات کرکے عاصمہ جہانگیر کے پاس چلا جاؤں اور ارشد کی ان سے بات ہوگئی ہے۔ یعنی اس نے میرے لیے سارا انتظام کر رکھا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں، مجھے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے حوالے سے بننے والے کمیشن میں شامل کرلیا گیا۔ میری رپورٹس کمیشن نے شامل کیں لیکن ہوا وہی جو اس طرح کے کیسوں میں ہوتا ہے۔ کیس تو داخل دفتر ہوگیا لیکن میری گلو خلاصی ہوگئی بلکہ عدالتِ عالیہ نے پولیس کو مجھے گارڈز فراہم کرنے کی ہدایت کی جسے میں نے مسترد کردیا کہ پولیس مجھے پولیس یا ایجنسیوں سے نہیں بچا سکتی۔ اگر میں یہ کہوں کہ ڈان ٹی وی کو ڈان بنانے والا ارشد تھا تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ انگریزی سے اردو میں کامیاب منتقلی کا سہرا ارشد اور اس کی پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ ارشد کام کرنے والوں کی

صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی! Read More »

ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی

یہ آٹھ اگست 1963 کی بات ہے جب ایک ٹرین گلاسگو سے اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ صبح تین بج کر تیس منٹ پر ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے اسے روکا اور وہ 26 لاکھ پاؤنڈ کی دولت لے اڑے۔ 60 برس قبل 26 لاکھ پاؤنڈ کی مالیت آج کے پچاس لاکھ پاؤنڈ کے برابر ہے۔ اس واقعے کو اب 60 برس گزر چکے ہیں لیکن اس ڈکیتی کی یاد اب بھی برطانوی افراد کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس ڈکیتی کو بعد میں ’دی گریٹ ٹرین رابری‘ یا عظیم ٹرین ڈکیتی کا نام دیا گیا۔ اس واقعے پر متعدد فلمیں اور ڈرامہ سیریل بنائے جا چکے ہیں۔ یہ بدنامِ زمانہ ڈکیتی آج بھی اکثر افراد کے لیے ایک افسانے کی طرح ہے۔ ڈکیتوں نے اس کی منصوبہ بندی کیسے کی؟ اس دن کیا ہوا اور اس کے بعد ڈکیتوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ وہ سوال ہیں جو سب کے ذہنوں میں گردش کرتے رہے۔ یہ 15 لوگوں کا گینگ تھا اور بروس رینلڈز اس کے سرغنہ تھے۔ انھیں ریلوے کے ایک ملازم کی جانب سے تمام معلومات بتائی جا رہی تھیں لیکن اس اہلکار کی شناخت آج تک نہیں کی جا سکی۔ اس اہلکار کی جانب سے دی گئی معلومات کی بنیاد پر بروس نے ڈکیتی کی منصوبہ بندی کی۔ انھوں نے ریلوے سگنلز کے نظام میں تبدیلی کی اور ٹرین کو بکنگھم شائر کے پاس روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈکیتوں نے اس دوران اسلحہ یا پستولوں کا استعمال نہیں کیا لیکن انھوں نے ٹرین ڈرائیور کے سر پر سلاخ سے ضرب لگائی۔ ڈرائیور بچ تو گیا لیکن کبھی بھی مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہو سکا یہ منصوبہ کیسے بنایا گیا؟ بروس رینلڈز اس ڈکیتی کے سرغنہ اور منصوبہ ساز تھے۔ انھوں نے گلاسگو سے آنے والی ٹرین کو روکنا تھا۔ ایک سکیورٹی افسر جو اس ٹرین میں موجود رقم کے بارے میں معلومات رکھتے تھے اور اس کو محفوظ رکھنے کے لیے کیے گئے انتظامات کے بارے میں بھی جانتے تھے گینگ کے لوگوں کو سب کچھ بتا رہے تھے۔ برائن فیلڈ نے اس سکیورٹی افسر کو گورڈن گوڈی اور رانلڈ ’بسٹر‘ ایڈورڈز سے ملوایا جو اس گینگ کا حصہ تھے۔ اس ڈکیتی کی منصوبہ بندی کرنے میں کئی ماہ لگ گئے۔ بروس رینلڈز، گورڈن گوڈی، بسٹر ایڈورڈز اور چارلی ولسن اس گینگ کے سب سے اہم اراکین تھے۔ وہ جرائم کی دنیا میں نئے نہیں تھے لیکن انھیں کسی ٹرین کو روک کر اس پر ڈکیتی کرنے کا تجربہ ہرگز نہیں تھا۔ اس لیے اس کے لیے دیگر گینگز کی مدد لی گئی۔ اس گینگ میں ٹامی وسبی، باب ویلش اور جم ہسی شامل تھے۔ اس گینگ کو ’ساؤتھ کوسٹ ریڈرز گینگ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور انھیں ٹرینوں پر ڈکیتی کرنے کا تجربہ تھا۔ اس کے بعد کچھ اور لوگوں کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنایا گیا اور یوں اس ٹیم میں 16 افراد تھے۔ اس ٹرین میں کیا تھا؟ اس ٹرین کا نام ’رولنگ پوسٹ آفس‘ رکھا گیا۔ اس کے ذریعے خط، پارسل، منی آرڈر اور کیش ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جاتا تھا۔ اس ٹرین میں عملے کے کل 72 افراد تھے اور اس میں 12 کوچز تھیں۔ وہ سٹیشن سے پارسل اور خطوط کے بیگ ٹرین پر لوڈ کرتے اور جب ٹرین چل رہی ہوتی اس دوران انھیں ترتیب دیتے۔ ٹرین کو کسی صورت نہ روکنے کے لیے اس میں بڑے بڑے ہُک لگائے جاتے اور ان پر بیگ لٹکا دیے جاتے اور بعد میں ان میں سے یہ خطوط اور پارسل اندر رکھ لیے جاتے۔ اس ٹرین میں انجن سے منسلک ایک بوگی میں رقم رکھی جاتی تھی۔ عام طور پر ٹرین میں تین لاکھ پاؤنڈ کی رقم منتقل کی جاتی تھی لیکن سات اگست 1963 کو کیونکہ بینک کی چھٹی تھی اس لیے اس پر 26 لاکھ پاؤنڈ کی رقم موجود تھی ٹرین کو کیسے روکا گیا؟ ڈکیتوں نے پٹڑی پر موجود سگنل کو گلوّز کے ذریعے ڈھانپ دیا اور بیٹری سے چلنے والی سرخ لائٹس کے ذریعے ٹرین کو روکنے کا اشارہ کیا۔ ٹرین ڈرائیور جیک ملر نے جب سرخ سگنل دیکھا تو انھوں نے آٹھ اگست کی صبح لگ بھگ تین بجے ٹرین روک دی۔ انھیں اس بات کی امید نہیں تھی کہ ٹرین کو ایسے راستے میں روکا جائے گا۔ اس لیے وہ اور ان کے اسسٹنٹ ڈیوڈ وھٹبی ٹرین سے اترے اور قریبی سٹیشن کال کرنے کے لیے ٹریک پر لگے فون کی جانب بڑھے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ کسی نے ٹیلی فون لائن ہی کاٹ دی ہے۔ جب تک ڈیوڈ واپس آئے تو ڈکیت انجن کیبن میں داخل ہو چکے تھے۔ جیک ملر نے جب ایک ڈکیت کو روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے ان کے سر پر سلاخ دے ماری۔ ڈکیتوں کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ اس کوچ کو باقی ٹرین سے علیحدہ کر کے اسے برڈگو پول لے جائیں جو وہاں سے صرف آٹھ سو میٹر دور تھا اور پھر رقم لوٹ کر نکل جائیں۔ اس کے لیے وہ ایک ریٹائرڈ ٹرین ڈرائیور بھی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے لیکن ڈکیتی کے وقت انھیں احساس ہوا کہ اس ڈرائیور کو یہ جدید قسم کی ٹرین چلانے کا تجربہ نہیں ہے۔ اس وقت تک ڈکیتوں نے پچھلی بوگیوں میں جا کر تمام اہلکاروں کو ایک طرف کونے میں بٹھا لیا تھا، دو سکیورٹی گارڈز کو باندھ دیا گیا۔ اب ان بوریوں کو خالی کرنے کی باری تھی جن میں دولت موجود تھی۔ اس ٹرین کی پہلی بوگی میں 128 بوریاں تھیں۔ انھوں نے پہلے اس میں سے 120 بوریاں نکالیں اور ایک ایک کر کے انھیں پل کے نیچے کھڑے ٹرک میں خالی کرنے لگے۔ صرف تیس منٹ میں انھوں نے یہ ڈکیتی مکمل کر لی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مزید دو ٹرکس مختلف سمتوں میں بھیجے تاکہ عینی شاہدین کو بیوقوف بنایا جا سکے۔ پیسوں سے بھرے بیگ خالی کرنے کے بعد ڈکیتوں نے ایک سنسان سڑک پکڑی۔ اس دوران پولیس ریڈیو کے ذریعے سننے کی کوشش کر رہی تھی کہ انھیں کوئی معلومات ملتی ہیں یا نہیں۔ ڈکیت ایسپس لیدرسلیڈ فارم صبح چار بج کر

ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی Read More »

Soup

کیا مرچ اور سبزیوں کی مدد سے تیار کردہ چکن سوپ واقعی نزلہ زکام سے لڑنے میں مدد دیتا ہے؟

  موسمِ سرما میں اگر سردی لگنے کے باعث گھر کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو دوا کے علاوہ صدیوں سے رائج ایک آزمودہ نسخہ اُن کے لیے چکن سوپ کا پیالہ تیار کرنا ہے۔ بیماری کے علاوہ بھی پاکستان میں سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ہر گلی محلے میں چکن سوپ کے سٹال لگ جاتے ہیں اور لوگ گرم گرم سوپ کے پیالے کو سردی کے توڑ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عملی طور پر ہر ثقافت اور ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ چکن ’سوپ‘ کے فوائد پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکہ میں یہ عام طور پر نوڈلز کے ساتھ بنایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں نوڈلز کے بغیر۔ لیکن جب سوپ کو بطور علاج یا دوا استعمال کیا جانا ہو تو اس کی ترکیب ہر علاقے اور وہاں کے ذائقے کے مطابق اور مختلف ہو جاتی ہے۔ چکن سوپ کا استعمال 60 ویں صدی عیسوی سے ہو رہا ہے۔ پیڈانیئس ڈیوسکورائڈز ایک معروف فوجی سرجن تھے جو رومن بادشاہ نیرو کے ماتحت بھی خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔ اُن کی پانچ جلدوں پر مشتمل طبی انسائیکلوپیڈیا سے دنیا بھر کے طبیب اور حکیم گذشتہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک مستفید ہوتے رہے ہیں۔ لیکن کیا اس بات پر یقین کرنے اور اس کی حمایت کرنے کے لیے کوئی سائنس شواہد موجود ہیں کہ سوپ ہماری صحت کے لیے فائدہ مند ہے؟ یا کیا چکن سوپ صرف ایک آرام دہ غذا کے طور پر کام کرتا ہے۔ بہتر بھوک، بہتر ہاضمہ ایک رجسٹرڈ ماہر غذائیت کی حیثیت سے میں چکن سوپ کے فوائد سے اچھی طرح واقف ہوں۔ جب میں سانس کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو دیکھتا ہوں تو اُن میں بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیں جن میں کھانے پینے کی رغبت بہت کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید بیماریاں انسانی جسم میں سوزش کے عمل کو متحرک کرتی ہیں جو بھوک کو کم کر سکتی ہیں۔ کھانے کی خواہش کا نہ ہونا یا کوئی بھی چیز کھانے کا دل نہ کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شخص کو وہ غذائی اجزا نہیں مل پا رہے جن کی انھیں ضرورت ہے، اور یہ امر مدافعتی نظام اور بیماری سے صحتیابی کے لیے بہتر نہیں ہے۔ لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ چکن سوپ کا ’امامی‘ ذائقہ بڑھتی ہوئی بھوک کو متحرک کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ ایک مطالعے کے شرکا کا کہنا تھا کہ محققین کی جانب سے شامل کیے گئے امامی ذائقے والے سوپ کو چکھنے کے بعد انھیں بھوک محسوس ہوئی۔ سوپ کو جو چیز منفرد ذائقہ دیتی ہے وہ ’امامی‘ ہے (امامی بنیادی طور پر پائے جانے والے چار ذائقوں میٹھا، نمکین، کھٹا اور کڑوا کے بعد ایک پانچواں ذائقہ ہے اور یہ ذائقہ عمومی طور پر جاپان میں بنائے جانے والے کھانوں میں پایا جاتا ہے، جیسا کے سوپ میں)۔ امینو ایسڈ پروٹین کے بلڈنگ بلاکس ہیں، اور امینو ایسڈ گلوٹامیٹ امامی ذائقے والے کھانوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم، تمام امامی غذائیں گوشت یا مرغی نہیں ہیں۔ پنیر، مشروم، میسو اور سویا کی چٹنی بھی اس میں موجود ہیں۔ جیسا کہ مطالعے پتہ چلتا ہے کہ یہی امامی ذائقہ چکن سوپ کی شفایابی کی خصوصیات کے لیے اہم ہے۔ دیگر تجزیوں میں کہا گیا ہے کہ امامی غذائی اجزا ہاضمے کو بھی بہتر بنا سکتی ہیں۔ ایک بار جب ہمارا دماغ ہماری زبان پر ذائقہ کو پرکھنے والے ریسیپٹرز کے ذریعے امامی کو محسوس کرتا ہے تو جسم ہاضمہ کی نالی کو پروٹین کو زیادہ آسانی سے جذب کرنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ سانس کے انفیکشن کو معدے کی علامات کے ساتھ منسلک نہیں کرتے، لیکن بچوں میں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فلو وائرس نے پیٹ میں درد، متلی، قے اور اسہال کی علامات میں اضافہ کیا ہے۔ سوزش اور ناک کی بندش کو کم کر سکتا ہے جسم میں سوزش ہونا کسی بھی چوٹ یا بیماری کا قدرتی ردعمل ہوتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب خون کے سفید خلیات شفا یابی میں مدد کے لیے متاثرہ ٹشوز میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ جب یہ سوزش کا عمل جسم میں سانس کی اوپری نالی میں ہوتا ہے، تو یہ عام زکام اور فلو کی علامات پیدا کرتا ہے، جیسے بھری ہوئی یا بہنے والی ناک، چھینک، کھانسی، اور بلغم۔ اس کے برعکس، ناک کے راستے میں سفید خون کے خلیات کی کم سرگرمی سوزش کو کم کر سکتی ہے۔ تحقیق سے دلچسپ بات یہ پتہ چلتی ہے کہ چکن سوپ سفید خون کے خلیات کی تعداد کو کم کر سکتا ہے جو سوزش والے ٹشوز میں سفر کرتے ہیں۔ یہ نیوٹروفلس کی صلاحیت کو براہ راست روکتا ہے، جو سفید خون کے خلیات کی ایک قسم ہے، سوجن والے ٹشو میں منتقل ہونے کے لیے۔ اہم اجزا چکن سوپ کے پرسکون اور شفا بخش اثرات کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے، اس کے اجزا پر غور کرنا ضروری ہے۔ تمام چکن سوپ غذائیت بخش شفا بخش خصوصیات سے بھرے ہوئے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر نوڈلز کے ساتھ اور اس کے بغیر الٹرا پروسیسڈ ڈبہ بند ورژن میں گھریلو ورژن میں پائے جانے والے بہت سے اینٹی آکسائیڈنٹس کی کمی ہوتی ہے۔ زیادہ تر ڈبہ بند ورژن عملی طور پر سبزیوں سے خالی ہیں۔ سوپ کے گھریلو ورژن میں اہم غذائی اجزا وہ ہیں جو ان اقسام کو ڈبہ بند اقسام سے الگ کرتے ہیں۔ چکن جسم کو انفیکشن سے لڑنے کے لیے پروٹین کا ایک مکمل ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ سبزیاں وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسائیڈنٹس کی ایک وسیع رینج فراہم کرتی ہیں۔ اگر سوپ امریکی طرز پر تیار کیا جائے تو نوڈلز آسانی سے ہضم ہونے والا کاربوہائیڈریٹ ذریعہ فراہم کرتی ہیں جو آپ کا جسم میں توانائی اور بحالی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ چکن سوپ کی گرمی بھی مدد کر سکتی ہے۔ مائع حالت میں کسی بھی خوراک کو پینے اور بخارات کو سونگھنے سے ناک اور سانس کی نالیوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، جس سے بلغم کی شکایت کم ہوتی ہے۔ صرف گرم

کیا مرچ اور سبزیوں کی مدد سے تیار کردہ چکن سوپ واقعی نزلہ زکام سے لڑنے میں مدد دیتا ہے؟ Read More »