Polluttion in Lahore Smog In Punjab

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔ سموگ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک؟ نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔ ماحولیات کے اُمور پر کام کرنے والے کارکن، وکیل اور ماہر رافع عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں انڈیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 48 فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔ ’اب آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ فضائی آلودگی کی یہ قسم کس حد تک انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔‘ ’یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے‘ لاہور میں حالیہ سموگ اور فضائی آلودگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے شہریوں کی زندگی اور صحت کو کیسے متاثر کیا اس بارے میں چند رہائشیوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی تکلیف بیان کی۔ ڈیڑھ برس کی بیٹی کی والدہ سارہ ذیشان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی بُری طرح سموگ سے متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس کا گلا خراب، کھانسی، بخار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے منھ میں چھالے بھی نکل آئے ہیں اور اسے کھانے پینے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سارہ اور ان کے خاندان کی طرح لاہور شہر میں بسنے والے لاکھوں افراد سموگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امیر حمزہ جو ایک سیلز مین ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا روزگار منسلک ہی ایسے کام سے ہے جس کے لیے سارا دن گھر سے باہر رہ کر موٹر سائیکل چلانا ہوتی ہے۔ ’میں مختلف پوانٹس پر جا کر پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اور جب دن بھر کام کر کے گھر جاتا ہوں تو فضائی آلودگی اور سموگ کے باعث آنکھیں سرخ اور جلن کا شکار ہوتی ہیں۔ ابھی بھی مجھے زکام، گلا خراب اور کھانسی ہے۔ آئے روز بیمار رہنے کے باعث کام بھی متاثر ہوتا ہے۔‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے آنکھوں میں جلن اور پانی آنے کے باعث جگہ جگہ بائیک روک کر پانی سے آنکھیں دھونی پڑتی ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے۔‘ سموگ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کا مطلب کیا ہے؟ رافع عالم کے مطابق سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسیوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔ ’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘ یہ چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم یں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی شہر یا علاقے کی فضا میں موجود پی ایم 2.5 ذرات کی تعداد 25 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزا، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے وہ ان کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین فضا میں موجود مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کر کیا جاتا ہے۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ گیسیں فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘ Read More »

Israel airstrikes on Ghaza

غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی کون سے ممالک حمایت کر رہے ہیں، کون مخالف ہے اور کون خاموش؟

غزہ میں جیسے جیسے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور حالات خراب ہو رہے ہیں، غزہ پر اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی رائے عامہ کو تیزی سے تقسیم کر رہا ہے۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے فوراً بعد بہت سے ممالک نے ابتدا میں اسرائیل کی حمایت کی تھی تاہم اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملوں اور حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کیے جانے والے بڑے زمینی حملوں کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بعض ممالک نے جنگ کے حوالے سے اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی ہے۔ اس تنازع پر موجودہ بین الاقوامی بحث کا مرکز اب جنگ بندی کا مسئلہ ہے۔ 27 اکتوبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیلی افواج اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان ’فوری اور پائیدار جنگ بندی‘کا مطالبہ کیا گیا۔ اُردن کی جانب سے پیش کی جانے والی جنگ بندی کی اس قرارداد کے حق میں 120، مخالفت میں 14 ووٹ آئے جبکہ 45 ممالک نے ووٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو ’قابل نفرت‘ قرار دیا ہے جب کہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے بعد میں جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اب آپریشن روکنا حماس کے سامنے ’ہتھیار ڈالنا‘ جیسا ہو گا۔ اس بیان کے بعد سے کچھ ممالک نے اسرائیل پر اپنی تنقید بڑھا دی ہے جبکہ بہت سے ممالک نے اپنے سفیروں کو یا تو اسرائیل سے واپس بُلا لیا ہے یا اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ یہاں تک کہ جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والے امریکہ نے بھی اپنا مؤقف نرم کر لیا ہے اور اس حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے لڑائی میں ’وقفے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل حماس جنگ کے بارے میں دنیا بھر کے ممالک نے کیا کہا ہے اور اقوام متحدہ میں انھوں نے کس کی حمایت اور کس کی مخالفت میں ووٹ دیے۔ واضح رہے کہ یہ تمام خیالات مختلف حکومتوں کے ہیں اور بعض دیگر ممالک میں ان خیالات کے بارے میں عوامی جذبات نمایاں طور پر مختلف ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کہاں کھڑا ہے؟ امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے اسرائیل کا دوبارہ دورہ کیا ہے اور انسانی بنیادوں میں جنگ بندی کی درخواست کی ہے بعض مغربی ممالک کی حکومتوں نے جنگ کے آغاز سے ہی کُھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ حماس کے حملوں کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کے ابتدائی بیانات اس بات کی تصدیق ہیں کہ واشنگٹن اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ یہ یقینی بنائے گا کہ ’اسرائیل اپنے شہریوں کا خیال رکھے۔‘ تاہم 2 نومبر کو ایک انتخابی مہم کے پروگرام میں جب صدر بائیڈن سے ایک شخص نے جنگ بندی کے لیے جرح شروع کر دی تو انھوں نے جنگ میں توقف یعنی وقفے کی بات کہی۔ بعد میں وائٹ ہاؤس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جنگ میں کوئی بھی وقفہ عارضی نوعیت کا ہو گا۔ وائٹ ہاؤس نے عرب اور دیگر ممالک کی جانب سے مکمل جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔ وائٹ ہاؤس کی اس وضاحت کے اگلے ہی دن امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفے پر زور دینے اور غزہ میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات پر بات چیت کرنے کے لیے تل ابیب کے اپنے دوسرے دورے پر روانہ ہوئے۔ بلنکن نے تل ابیب میں نتن یاہو اور دیگر سینیئر رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’امریکہ اس بات پر قائل ہے اور مجھے لگتا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے ہمارا یقین مزید مضبوط ہوا ہے کہ اس کا بہترین راستہ اور شاید واحد راستہ بھی یہ ہے کہ دو اقوام کے لیے دو (الگ الگ) ملک ہوں۔‘ یورپی ممالک لندن میں دسیوں ہزار لوگ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے متعدد مظاہروں میں شریک ہوئے ہیں کینیڈا اور برطانیہ کے وزرائے اعظم نے بھی اس جنگ پر اپنے ابتدائی ردعمل میں ’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق‘ کی حمایت پر زور دیا تھا تاہم دونوں ریاستوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ حالیہ ہفتوں میں دسیوں ہزار فلسطینی حامی مظاہرین نے سینٹرل لندن کے مظاہروں میں شرکت کی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ’حماس کے حملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے‘ لیکن مختلف رکن ممالک میں جنگ بندی کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ جرمنی اور اٹلی نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی ہے لیکن انھوں نے اقوام متحدہ کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سپین اور فرانس جیسے دیگر ممالک نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ فرانس ’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا حامی ہے‘ لیکن اب انھوں نے اپنی پوزیشن میں قدرے تبدیلی کی ہے۔ یہ تبدیلی شاید غزہ کے شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں آئی ہے۔ میکخواں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’غزہ میں حماس اور شہری آبادی کے درمیان فرق کیا جانا ضروری ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت ہے تاکہ سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی حفاظت اور دہشت گردوں کے خلاف بہتر ہدف پر مبنی کارروائیاں ممکن ہوں۔‘ مشرق وسطیٰ مشرق وسطیٰ کی بیشتر ریاستوں نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے اور بہت سے ممالک نے اسرائیل کے فوجی آپریشن کی شدید مذمت کی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے ابتدا میں حماس کے حملوں کی مذمت کی تھی کیونکہ یہ دونوں ممالک ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم گذشتہ ہفتے بحرین نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور بحرین میں اسرائیلی سفیر ملک چھوڑ کر

غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی کون سے ممالک حمایت کر رہے ہیں، کون مخالف ہے اور کون خاموش؟ Read More »

police islamabad ICT

بہارہ کہو پولیس کو ڈاکوؤں نے یرغمال بنا کر ساتھی چھڑوا لیا

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی دارالحکومت کے علاقے بہارہ کہو پولیس کو ڈاکوؤں نے یرغمال بنا کر ساتھی چھڑوا لیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس نے اپنی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کیخلاف درج کر لیا ، ایف آئی آر کے مطابق ملزم ڈکیتی کی واردات میں بہارہ کہو پولیس کے پاس جسمانی ریمانڈ پر تھا، ملزم نے بتایا کہ اس کے پیٹ میں شدید درد ہے۔ پولیس ملزم کو لے کر پولی کلینک اسپتال کی جانب لے کر روانہ ہوئی ، مری روڈ پر پولیس موبائل کا ٹائر پنکچر ہوا، پولیس ٹائر تبدیل کرنے کے لیے رکی، اس دوران ملزم کے 5 نقاب پوش مسلح ساتھی آئے اور اسلحہ کے زور پر ساتھی کو لے کر فرار ہو گئے۔ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم سنگین نوعیت کی متعدد وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔

بہارہ کہو پولیس کو ڈاکوؤں نے یرغمال بنا کر ساتھی چھڑوا لیا Read More »

Love Marriage

18 سالہ نوجوان کی 35 سالہ لڑکی سے شادی کے چرچے

مکوآنہ ( این این آئی )پنجاب کے شہر فیصل آباد میں 18 سالہ نوجوان نے 35 سالہ کزن سے پسند کی شادی کرلی جس کے انٹرنیٹ پر خوب چرچے ہیں۔ فیصل آباد کے شہزاد اور کومل نے بتایا کہ ان کی شادی کوئی آسان نہیں تھی، عمروں کے فرق کے باعث دونوں میاں بیوی کیلئے اپنے گھروالوں کو منانا خاصا دقت طلب رہا۔35 سالہ کومل نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ‘شہزاد اور میں آپس میں کزن ہیں، شہزاد کو مجھ سے محبت ہوئی اور پھر میں بھی ان سے محبت کرنے لگی جس کے بعد ہم دونوں نے شادی کرلیکومل کے مطابق ‘پہلے مجھے لگتا تھا کہ ان کی عمر مجھ سے چھوٹی ہے لیکن جب شہزاد نے مجھے پروپوز کیا تو میں بھی ان سے محبت کرنے لگ گئی، دوستوں نے بھی کہا کہ شہزادکی عمر چھوٹی ہے لیکن پھر میں نے سوچا جب پیار کیا تو ڈرنا کیسا، یوں سمجھیں کہ شادی سے پہلے کئی رکاوٹیں آئیں لیکن ہم نے اپنی فیملیز کو منالیا، میں شہزاد کو پیار سے مٹھو کہتی ہوں۔ دوسری جانب شہزاد نے بتایا کہ ‘پورے خاندان میں مجھے صرف کومل ہی اچھی لگتی تھی اور میں ان سے ہی محبت کرتا تھا یہ مجھے بہت شریف اور پیاری لگتی تھیں، ساری رات مجھے انہی کی یاد آتی تھی میں ان کو پیار سے پنکی بلاتا ہوں۔شہزاد نے بتا یا کہ ‘جب میں نے گھروالوں کو بتایا کہ میں کومل سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو گھر میں مجھے مارا پیٹا لیکن میں نے نہیں مانی شادی کے بعد اب سارے گھر والے خوش ہیںـ

18 سالہ نوجوان کی 35 سالہ لڑکی سے شادی کے چرچے Read More »

Important Cricket Match and Chances of Rain

بارش کا امکان اور نیوزی لینڈ کیخلاف سری لنکا کی فتح کی دعائیں: کرکٹ ورلڈ کپ کا ایک عام سا میچ خاص کیسے بنا؟

انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ایک جگہ بچی ہے اور تین ٹیمیں اسے پانے کی کوشش میں لگی ہیں۔ یہ تین ٹیمیں نیوزی لینڈ، پاکستان اور افغانستان ہیں اور اس وقت تینوں ٹیموں کے نیٹ رن ریٹ بھی بالترتیب اسی درجہ بندی کے تحت ہیں۔ اس صورتحال میں آج کھیلے جانے والا سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستانی مداحوں کے لیے ایک مرتبہ پھر دعائیں کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس وقت پاکستان کو یا تو نیوزی لینڈ کی شکست یا پھر بارش سے امید لگانی ہو گی۔ سری لنکا پہلے ہی سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ نیوزی لینڈ پر فتح اس کی سنہ 2025 میں پاکستان میں منعقد ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں شمولیت کے امکانات بڑھا دے گی۔ خیال رہے کہ سنہ 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی میں اس ورلڈ کپ میں پاکستان کے علاوہ پہلے سات درجوں پر آنے والی ٹیمیں شامل ہوں گی۔ پاکستان بطور میزبان اس ٹورنامنٹ میں پہلے ہی شامل ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو اسے یا تو نیوزی لینڈ کی شکست میں یا میچ بارش کے باعث نہ ہونے سے فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ یوں انگلینڈ کے خلاف آخری میچ سے پہلے نیوزی لینڈ کے آٹھ یا نو پوائنٹس ہوں گے اور پاکستان کی انگلینڈ پر فتح اسے سیمی فائنل تک پہنچا سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں افغانستان کو شکست ہو یا پھر فتح کا مارجن بڑا نہ ہو۔ اگر نیوزی لینڈ سری لنکا کو شکست دے دیتا ہے تو پھر پاکستان کو انگلینڈ کے ساتھ بھاری مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ کرکٹ کے اعداد و شمار پر مہارت رکھنے والے صحافی مظہر ارشد کے مطابق نیوزی لینڈ جتنے بھی رنز سے اپنا میچ جیتے گا اس میں 130 رنز جمع کیے جائیں گے اور پھر پاکستان کو اتنے یا اس سے زیادہ مارجن سے انگلینڈ کے خلاف میچ جیتنا ہو گا۔ لیکن اس سب کے درمیان شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آج بارش کا کتنا امکان ہے؟ بنگلورو میں بارش کا کتنا امکان؟ انڈیا کی ریاست کرناٹک میں گذشتہ ہفتے کے دوران شدید بارشوں کے باعث بینگلورو سمیت دیگر شہروں میں ییلو الرٹ جاری کیا گیا تھا تاہم انڈین محکمہ موسمیات کے مطابق نو نومبر کو دن بھر آسمان پر بادل تو رہیں گے لیکن بارش ایک سے دو مرتبہ کچھ وقت کے لیے ہو گی۔ بی بی سی ویدر پر نظر ڈالیں تو بینگلورو میں دن کے وقت میچ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے اور بعد میں بارش کا امکان ہے یعنی 11 سے چار بجے کے درمیان اور پھر شام دس بجے کے بعد بارش کا زیادہ امکان ہے۔ اگر میچ بارش کے باعث متاثر ہوتا ہے تو اوورز میں کمی واقع ہوتی ہے۔ کسی بھی ون ڈے میچ کے اوورز کم سے کم 20 اوورز تک محدود ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد اوورز اور رنز کا تعین ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ فارمولا کیا ہے، آئیے جانتے ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہICC ڈی ایل ایس فارمولا کیا ہے؟ جب بھی کوئی کرکٹ میچ بارش سے متاثر ہو جائے تو ہم اکثر ڈکورتھ لوئس سٹرن میتھڈ کے بارے میں سنتے ہیں۔ ریاضی دان ٹونی لوئس اور ان کے ساتھی فرینک ڈک ورتھ نے مل کر یہ نظام متعارف کرایا تھا جسے پہلی بار 1992 ورلڈ کپ میں استعمال کیا گیا۔ سنہ 2014 میں آسٹریلوی پروفیسر سٹیون سٹرن نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں اور تب سے یہ ڈک ورتھ لوئس سٹرن (ڈی ایل ایس) میتھڈ کہلاتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ ریاضی کا ایک فارمولا ہے جو کسی بھی کرکٹ میچ میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے بقیہ وسائل (وکٹوں اور اوورز) کے اعتبار سے ترمیم شدہ ہدف ترمیم کا تعین کرتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت پلیئنگ کنڈیشنز میں رد و بدل کیا جاتا ہے، یعنی مقابلے میں شریک ایک یا دونوں ٹیموں کے لیے رنز اور اوورز میں کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ یہ فارمولا اس بات پر محیط ہے کہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے پاس دو قسم کے وسائل ہوتے ہیں، یعنی ون ڈے میچ میں 300 گیندیں اور 10 وکٹیں۔ جیسے جیسے اننگز آگے بڑھتی ہے، یہ دونوں وسائل کم ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر صفر پر جا پہنچتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ٹیم تمام 300 گیندیں یا 50 اوورز تک بیٹنگ مکمل کر لے، یا پھر اپنی تمام 10 وکٹیں کھو دے۔

بارش کا امکان اور نیوزی لینڈ کیخلاف سری لنکا کی فتح کی دعائیں: کرکٹ ورلڈ کپ کا ایک عام سا میچ خاص کیسے بنا؟ Read More »

Sikh Yatra Booking Portal

پاکستان میں پہلی بار مذہبی سیاحتی پروگرام کا آغاز، ‘سکھ یاترا بکنگ پورٹل’ کا افتتاح

لاہور: (ایگنایٹ پاکستان) پاکستان میں پہلی بار مذہبی سیاحتی پروگرام کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا، وزیراعلیٰ پنجاب نے”سکھ یاترا بکنگ پورٹل“ کا افتتاح کیا۔ “سکھ یاترابکنگ پورٹل” کے ذریعے دنیا بھر سے سکھ یاتری آن لائن ہوٹل بکنگ کی سہولت حاصل کر سکیں گے، پورٹل کے ذریعے آمدورفت کے لئے گاڑی کا انتخاب بھی کیا جا سکے گا جبکہ سکیورٹی سروسز ہائر کرنا بھی ممکن ہوگا، ٹورز کے دوران سکھ یاتریوں کو وی آئی پی کا درجہ حاصل ہوگا۔ اس حوالےسے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ سکھ یاتریوں کی بھرپور مہمان نوازی کی جائے گی، سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے پر کوئی دشوار ی نہیں ہوگی، پنجاب میں مذہبی ٹورازم کے فروغ کے لئے ٹورازم پولیس کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ پورٹل کے قیام پر ممبر پربندھک کمیٹی ڈاکٹر ممبال سنگھ نے کہا کہ “سکھ یاترابکنگ پورٹل” کے قیام پر وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا شکریہ ادا کرتے ہیں، سکھ یاتری سال میں 4 مرتبہ پاکستان آتے ہیں، اب بہت آسانی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آنے والے سکھ یاتری محبتوں کو فراموش نہیں کر سکتے، پاکستان سے واپس جانے والے سکھ یاتری پیار کے گن گاتے ہوئے بے لوث سفارتکار بن جاتے ہیں، وزیراعلیٰ محسن نقوی نے سکھ یاتریوں کیلئے “سکھ یاترا بکنگ پورٹل” قائم کر کے دل جیت لئے۔ صوبائی وزیر اطلاعات و سیاحت عامر میر، چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان، انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور، سیکرٹریز ٹورازم، اطلاعات، کمشنر لاہور، سی سی پی او، ایم ڈی ٹی ڈی سی پی، جی ایم ٹی ڈی سی پی اور ایڈیشنل سیکرٹری وقف املاک بورڈ اس موقع پر موجود تھے۔ سکھ برادری کی ممتاز شخصیات چیئرمین پاکستان گوردوارہ پربندھک کمیٹی سردار امیر سنگھ، ڈاکٹرممبال سنگھ، گوپال سنگھ چاولہ، سردار رنجیت سنگھ، سردار سربیت سنگھ، جنم سنگھ، کلیان سنگھ کلیان، مہندر سنگھ، سردار بشان سنگھ اور سردار گوبند سنگھ نے بھی پورٹل کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔

پاکستان میں پہلی بار مذہبی سیاحتی پروگرام کا آغاز، ‘سکھ یاترا بکنگ پورٹل’ کا افتتاح Read More »

Nallay Wala

علی بخش: علامہ اقبال کے ’ملازمِ خاص‘ جن کی پاکستان میں الاٹ ہونے والی زمین پر قبضہ ہوا

پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ سے لگ بھگ دو کلومیٹر کے فاصلے پر کھرڑیانوالہ روڈ پر چک نمبر 188 ’رب نَلے والا‘ واقع ہے۔ علامہ اقبال کے’خادمِ خاص‘ علی بخش اسی گاؤں کے قبرستان میں دفن ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہاں پر گزارے اور یہیں دو جنوری 1969 کو اُن کی وفات ہوئی۔ اس گاؤں کی آبادی سڑک کے دونوں اطراف پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں انڈیا کے شہر ہوشیار پور سے نقل مکانی کر کے آنے والے چند خاندان بھی آباد ہیں اور علی بخش کا خاندان بھی ان میں سے ایک ہے۔ علی بخش کون تھے اور یہاں کیسے پہنچے؟ علی بخش کے چھوٹے بھائی کا نام مہر دین تھا۔ مہر دین کے بیٹے محمد اقبال (یعنی علی بخش کے بھتیجے) کو علی بخش نے اپنا بیٹا بنایا اور پالا پوسا۔ محمد اقبال کے بیٹے زاہد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارا خاندان ضلع ہوشیارپور کے علاقہ اٹل گڑھ میں رہتا تھا جہاں گھر میں غربت تھی۔ لاہور میں ایک گھڑی ساز نے ہمارے دادا علی بخش کو کام کے سلسلے میں لاہور بلوایا تھا۔ایک روز جب علی بخش علامہ اقبال کے پاس پہنچے تو انھوں نے دیکھ کر کہا ’منڈیا تو کم کر لیئں گا‘ (یعنی لڑکے تم کام کر لوگے؟)۔ اس وقت علی بخش کی عمر لگ بھگ 11، 12 سال تھی۔ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’اپنا گریباں چاک‘ میں لکھا ہے کہ ’علی بخش نے غالباً 1900 میں میرے والد کے پاس ملازمت اختیار کی۔ سنہ 1905 میں جب میرے والد تعلیم کی خاطر انگلستان گئے تو انھیں اپنے بھائی شیخ عطا محمد کے پاس چھوڑ گئے۔‘ ’مگر وہ زیادہ عرصہ ان کے ساتھ نہ رہے اور بعد ازاں 1908 میں جب میرے والد واپس آئے اور وکالت شروع کی تو ان کو دوبارہ بلا لیا۔‘ آج جس گھر میں زاہد اقبال اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہیں، یہ لگ بھگ ایک کنال جگہ پر مشتمل ہے۔ یہ جگہ علی بخش نے خرید کر خود گھر بنایا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اسی چک میں آ کر قیام پذیر ہو گئے تھے جہاں ان کو زرعی زمین الاٹ ہوئی تھی۔ ’علی بخش میں تمھارے لیے ولایت سے میم لاؤں گا‘ جاوید اقبال اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ ’علی بخش نے ساری عمر شادی نہ کی‘ تاہم علی بخش کے خاندان کے مطابق ایسا نہیں تھا۔ زاہد اقبال کے مطابق ’علی بخش نے شادی کی مگر ان کی بیوی جلد ہی فوت ہو گئیں، البتہ انھوں نے کبھی دوسری شادی نہ کی۔‘ زاہد اقبال نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’اگر دادا جی (علی بخش) دوسری شادی کر لیتے تو علامہ صاحب کی خدمت کون کرتا۔ وہ اُن کو مذاق میں کہتے تھے علی بخش! تمھارے لیے ولایت سے میم لاؤں گا۔ ہمارے خاندان والے بتاتے ہیں کہ دادا جی، علامہ صاحب سے دوسری شادی کی بات کرتے رہتے تھے۔‘ علامہ اقبال کی وفات کے بعد اُن کی فیملی نے علی بخش کا کتنا خیال رکھا؟ زاہد اقبال بتاتے ہیں کہ ’آفتاب اقبال، دادا جی کو یومِ اقبال پر کراچی بلایا کرتے تھے مگر ہمارا رابطہ جاوید اقبال کی فیملی سے نہیں۔ البتہ آفتاب اقبال کے بیٹے آزاد اقبال چک میں آتے ہیں اور دادا جی کی قبر پر فاتحہ بھی کرتے ہیں۔‘ آفتاب اقبال کے بیٹے آزاد اقبال جو بیرون ملک مقیم ہیں، نے ہمیں بتایا کہ ’میرے لیے بڑی خوشی کا مقام تھا جب میں علی بخش کی فیملی کے ہاں گیا تھا۔ میں مستقبل قریب میں دوبارہ اُن کے ہاں جانے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔‘ علامہ اقبال کے چاہنے والوں میں سے آپ کے خاندان سے کن کا رابطہ زیادہ رہا؟ اس سوال کے جواب میں زاہد اقبال کا کہنا ہے ’صوفی برکت علی کا ہمارے ہاں آنا جانا زیادہ تھا۔ میرے والد کی وفات تک کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا، بعد میں کوئی نہ آیا۔‘ علامہ اقبال کے کبوتر اور استعمال کی اشیا علامہ اقبال کو کبوتروں سے خاص اُنسیت تھی۔ علی بخش نے جب اپنا گھر بنوایا تو وہاں بھی کبوتر رکھے، جو آج بھی موجود ہیں۔ زاہد اقبال نے علامہ اقبال کی چھڑی، چائے کا کپ، دو چاندی کے کڑے اور سر پر باندھنے والا کپڑا جو بہت نفاست سے محفوظ کیے ہوئے تھے، کی بابت بتایا کہ ’یہ ساری چیزیں علامہ صاحب نے داداجی کو دی تھیں۔ چاندی کے کڑے ولایت سے لائے تھے۔ ہم نے سر پر باندھنے والے کپڑے کو آج تک اس غرض سے نہیں دھویا کہ اس پر علامہ صاحب کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں۔‘ زاہد اقبال نے بتایا کہ ’جب راتوں کو علامہ صاحب لکھتے لکھتے تھک جاتے تو میرے دادا کو بلاتے اور کہتے کہ ایکسرسائز والی مشین لاؤ، اس سے وہ اپنی انگلیوں کو سہلاتے۔‘ مذکورہ ساری اشیا جو علامہ اقبال کے استعمال میں تھیں اور اب علی بخش کے خاندان کے پاس محفوظ ہیں اور اس کی تصدیق آزاد اقبال نے بھی کی۔ چک کا وہ شخص جس کو علی بخش کی باتیں یاد ہیں اس گاؤں کے پرانے رہائشی محمد رفیق ایک دربار کے متولی ہیں۔ دربار سے ملحقہ قبرستان میں ہی علی بخش مدفون ہیں۔ محمد رفیق کے مطابق انھوں نے علی بخش کا اخیر زمانہ دیکھ رکھا ہے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’میری تاریخ پیدائش تو 1943 کی ہے مگر شناختی کارڈ پر 1947 ہے۔ میں نے لڑکپن اور جوانی میں بابا غلام محمد اور بابا انور شاہ جو دونوں سگے بھائی تھے، کے تکیے پر علی بخش کو بیٹھے دیکھا اور ان کی باتیں بھی سُنی ہوئی ہیں۔‘ واضح رہے کہ بابا غلام محمد اور بابا انور شاہ کے دربار میں ایک قدیمی بوہڑ کا پیڑ ہے جس کے نیچے گاؤں کے بزرگوں کی محفلیں جما کرتی تھیں۔ ،تصویر کا کیپشنمحمد رفیق کو علی بخش کی چند باتیں یاد ہیں اور ان کے مطابق وہ علی بخش کو مل چکے ہیں محمد رفیق نے بتایا کہ ’میں جانوروں کا چارا کاٹ کر لایا کرتا اور تکیہ میں رُکتا تو علی بخش بعض مرتبہ وہاں بیٹھے ہوتے۔ مجھے اُن کی چند

علی بخش: علامہ اقبال کے ’ملازمِ خاص‘ جن کی پاکستان میں الاٹ ہونے والی زمین پر قبضہ ہوا Read More »

Elections and Controversies

کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟

انتخابی سیاست کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان کے آنے والے انتخابات میں اس پارٹی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے جس کے ساتھ نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ یہ اندازہ تازہ ووٹر لسٹوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اور لوگوں کی زندگیوں میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کی بنیاد پر لگایا جا رہا ہے۔ تو کیا نوجوان رائے دہندگان کی بڑی تعداد ان انتخابات میں واقعی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیگی یا اس مرتبہ بھی انتخابی نتائج روایتی نظام سے متاثر رہیں گے؟  کرنے والے سماجی کارکن سرور باری ان خیالات سے اتفاق نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے۔  سال 2022 میں صوبہ پنجاب کے 21 حلقوں میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی کے تجربے کی روشنی میں ان کا موقف ہے کہ پاکستان کی شہری اور دیہی آبادی اور بزرگ اور نوجوان شہریوں کی انتخابی سوچ کا فرق مٹ رہا ہے۔  ’بالکل ایسی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے جیسی 1970 میں ہوئی تھی۔ بزرگ ووٹرز اپنے ہی خاندانوں کے نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ گذشتہ انتخابات میں چھ فیصد بزرگ ووٹرز نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہوئے۔‘ ’اسی طرح شہروں کے نوجوانوں کے خیالات قصبوں اور دیہات کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی بدلتی سوچ نے شہر اور گاوں کا فرق مٹا دیا ہے۔‘ پنجاب شدید تبدیلی کی لپیٹ میں   پاکستان کی انتخابی اور حلقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار احمد اعجاز متفق ہیں کہ پاکستان کا روایتی انتخابی نظام ٹوٹنے کے قریب ہے۔ ’میرا نہیں خیال کہ اب مریم نواز یا کوئی اور سوشل میڈیا کے استعمال یا دوسرے طریقوں سے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے۔ جب عمران خان اور ان کی جماعت سوشل میڈیا کا ہتھیار استعمال کر رہے تھے اس وقت یہ انہیں ٹوئٹر کی جماعت اور ٹک ٹاک کا وزیراعظم کہتے تھے۔ اب یہ لوگ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمت عملی اپنا کر بھی کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں وقت لگتا ہے، دو تین ماہ میں کچھ نہیں ہوتا۔‘ لیکن سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹرز کی الجھن یہ ہے کہ انہیں ابھی پتہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ووٹ ڈالنا بھی ہے یا نہیں اور کس کو ڈالنا ہے۔  نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے یا گھر بیٹھیں گے  احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ نوجوان ووٹرز کو باہر نکالنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور اگر وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے تو پھر ضرور کسی بھی چیز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔  ’پچھلے آٹھ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح تقریبا 45 فیصد رہی ہے اور اس میں نوجوان ووٹروں کی شرح 30 فیصد رہی ہے یعنی وہ 15 فیصد پیچھے ہیں جو کہ اچھی صورتحال نہیں ہے۔‘ ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے انتخابات میں نوجوان مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور پہلے سے بھی کم تعداد میں ووٹ ڈالیں یا پھر اگر ان کی کوئی حوصلہ افزائی کرے تو پھر باہر نکلیں۔‘

کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟ Read More »

ہونڈا نے اپنی پہلی الیکٹرک سائیکل کی نقاب کشائی کی۔

ہونڈا اپنی پہلی الیکٹرک سائیکل،   کانسیپٹ کو ڈیبیو کر کے تقریباً ہر دوسرے بڑے آٹوموٹو مینوفیکچررز کی پلے بک سے ایک صفحہ نکال رہا ہے۔ اس موٹر سائیکل کو ابھی ٹوکیو میں جاپان موبیلٹی شو میں دکھایا گیا تھا، جہاں اس نے جاپانی موٹرسائیکل کمپنیوں اور کار سازوں کی جانب سے کئی دیگر مستقبل اور/یا برانڈ کو وسیع کرنے والے ڈیبیو میں شمولیت اختیار کی۔ Honda e-MTB کانسیپٹ ایک ڈاون ہل الیکٹرک بائیک کی طرح لگتا ہے اور کافی حد تک حقیقت پسندانہ ڈیزائن کو برقرار رکھتا ہے۔ کچھ ای-بائیک کے تصورات کے برعکس جو کافی دور کی بات ہے، ہونڈا درحقیقت کچھ ایسی نظر آتی ہے جو پیداوار تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ حال ہی میں ای-بائیک کے تصورات میں ایک امید افزا رجحان ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے کچھ ڈیزائن ایک دن پیداوار کی طرف ایک راستہ دیکھ سکتے ہیں۔ ای بائیک مبینہ طور پر موجودہ بروز مڈ ڈرائیو موٹر استعمال کرتی ہے، یعنی ہونڈا کو پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں تھی (معذرت، میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں)۔ موجودہ ای-بائیک پرزوں کا استعمال کرتے ہوئے، ہونڈا موٹر سائیکل کی مجموعی ظاہری شکل اور ساختی ڈیزائن پر زیادہ توجہ مرکوز کر سکتا ہے، جس سے موٹر سائیکل کے پرزے ان کمپنیوں پر چھوڑے جا سکتے ہیں جو انہیں کئی دہائیوں سے تیار کر رہی ہیں۔

ہونڈا نے اپنی پہلی الیکٹرک سائیکل کی نقاب کشائی کی۔ Read More »

Corono Affects the Mental health

کورونا کے بعد ادھیڑ عمر افراد کی دماغی صلاحیت متاثر ہونے کا انکشاف

ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد ادھیڑ عمر اور خصوصی طور پر 50 سال یا اس سے زائدالعمر افراد کی دماغی صلاحیت سخت متاثر ہوئی ہے، ان کی یادداشت کمزور پڑ چکی ہے۔ کورونا کی وبا دسمبر 2019 کے اختتام پر چین سے شروع ہوئی تھی، جس نے دنیا بھر کو لپیٹ میں لے لیا تھا اور اسے 50 لاکھ سے زائد اموات ہوئی تھیں اور تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے۔ کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد پہلی بار دنیا کے متعدد ممالک میں کاروبار زندگی کئی ماہ تک مفلوج رہا، لاک ڈاؤن نافذ کرکے نقل و حرکت کو محدود کردیا گیا تھا، تاہم 2023 کی پہلی سہ ماہی میں عالمی ادارہ صحت نے کورونا کو ہیلتھ ایمرجنسی سے نکال دیا تھا۔ کورونا کے حوالے سے ہونے والی متعدد تحقیقات سے یہ ثابت ہو چکا تھا کہ اس کے ذہن پر شدید منفی اثرات پڑتے ہیں اور ذہن غیر فعال بن جاتا ہے۔ تاہم اب برطانیہ میں کی جانے والی منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا کے بعد ادھیڑ عمر افراد کی دماغی صلاحیت ہمیشہ کے لیے متاثر ہوچکی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے دوران کورونا کے دور میں وبا سےمتاثر ہونے والے افراد سے سوالات کرکے ان کی ذہنی فعالیت جانچی گئی۔ ماہرین نے رضاکاروں سے متعدد سوالات کرنے سمیت ان کے مختلف ٹیسٹس بھی کیے اور ان کی یادداشت کو جانچنے کے علاوہ ان کے ذہن کی فعالیت کو بھی پرکھا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ ادھیڑ عمر افراد اور خصوصی طور پر 50 سال اور اس سے زائد العمر افراد کورونا کے پہلے سال ذہنی طور پر شدید متاثر ہوئے، جس وجہ سے ان میں نہ صرف ڈر، خوف اور ڈپریشن کی سطح بڑھ گئی بلکہ ان کی ذہنی فعالیت بھی متاثر ہوئی۔ اسی طرح کورونا کے دوسرے سال بھی لوگوں کی ذہنی صحت سخت متاثر ہوئی، وبا سے متعلق پھیلنے والی خوفناک معلومات، تنہائی میں وقت گزارنے اور کاروبار زندگی مفلوج ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ذہنی صحت سخت متاثر ہوئی، جس سے 50 سال اور اس زائد العمر افراد کی یادداشت بھی شدید متاثر ہوئی۔ ماہرین کے مطابق کورونا کی وبا سے وہ افراد ذہنی طور پر زیادہ متاثر ہوئے، جن کا ذہن پہلے سے ہی تھوڑا غیر فعال تھا، یعنی ان میں پہلے ہی یادداشت کے مسائل تھے۔

کورونا کے بعد ادھیڑ عمر افراد کی دماغی صلاحیت متاثر ہونے کا انکشاف Read More »