بجلی مزید مہنگی ہونے کا امکان، صارفین پر 40 ارب کا اضافی بوجھ

 اسلام آباد: بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کیے جانے کا امکان ہے، جس سے صارفین پر 40 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ ایگنایٹ  پاکستان  کے مطابق بجلی کی قیمت میں 3 روپے 53 پیسے فی یونٹ اضافے کا امکان ہے۔ یہ اضافہ اکتوبر 2023ء کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگا گیا ہے، جس پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سی پی پی اے کی درخواست پر آج سماعت کی۔ مزید یہ بھی پڑھیں عالمی بنک کی مخالفت کے باوجود بجلی مہنگی  فیول پرائس اور بقایا جات کی مد میں سی پی پی اے کی درخواست پر بجلی کی قیمت میں من و عن اضافے کی صورت میں جی ایس ٹی سمیت بجلی صارفین پر تقریباً 40 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ نیپرا کے مطابق سی پی پی اے کی درخواست پر سماعت مکمل ہو چکی ہے۔ اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ جاری کیا جائے گا

بجلی مزید مہنگی ہونے کا امکان، صارفین پر 40 ارب کا اضافی بوجھ Read More »

پی ڈی ایم حکومت کے دوران جی ڈی پی ’منفی 0.17 ہو گئی‘

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی سابقہ حکومت میں مالی سال 2023 کے دوران پاکستان کی خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) 0.29 فیصد اضافے کے بعد 0.17 فیصد گھٹ گئی، جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت میں مالی سال 2022 کے دوران پہلے کے مقابلے میں معمولی بڑھ گئی۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کی باضابطہ طور پر تصدیق نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے کی، اس کے علاوہ پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر 2024) کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 2.13 فیصد ہونے کی منظوری بھی دی، عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی سخت ڈیڈلائن کے تحت حکومت نے پہلی بار سہ ماہی بنیادوں پر معاشی کارکردگی کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نئے بنیادی سال 16-2015 کا استعمال کرتے ہوئے جاری کیے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے اسٹرکچرل بینچ مارک کے تحت حکومت پابند تھی کہ پاکستان ادارہ شماریات مالی سال 2024 کی پہلی سہ ماہی اور مالی سال 2023 کے نظرثانی شدہ اعداد و شمار نومبر کے آخر تک جاری کرے گا، نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے نتیجہ اخر کیا کہ مالی سال 2024 کی پہلی سہ ماہی میں معیشت بحال ہوئی اور مالی سال 2023 کی پہلی سہ ماہی کے 0.96 فیصد کے مقابلے میں 2.13 فیصد بڑھی۔ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے مالی سال 2022 کے دوران جی ڈی پی کی رفتار میں 6.17 فیصد حتمی اضافے کی منظوری بھی دی، جو مئی کے سابقہ اندازوں کے مطابق 6.1 فیصد تھی، اس کی وجہ شعبہ زراعت میں شرح نمو 4.27 فیصد سے معمولی بڑھ کر 4.28 فیصد ہوئی، اسی طرح صنعتی اور سروسز سیکٹر میں بھی بہتری ہوئی۔ حتمی اعداد و شمار کے مطابق صنعتوں کی نمو 6.83 فیصد سے بڑھ کر 6.95 فیصد اور سروسز کی 6.59 فیصد سے بڑھ کر 6.66 فیصد ہوگئی، اس طرح کان کنی اور کھدائی (منفی 7 سے کم ہو کر منفی 6.58 رہی)اور بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی (3.14 فیصد تو 3.8 فیصد) صنعتی سرگرمیوں میں بہتری کا باعث بنی، خدمات میں بہتری بنیادی طور پر انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن (16.32 فیصد سے 17.96 فیصد تک) اور تعلیم 5.66 فیصد سے 5.85 فیصد تک ہے۔ دوسری جانب، مالی سال 2023 کی نظر ثانی شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو منفی 0.17 فیصد رہی، مئی میں ابتدائی طور پر اس کے 0.29 فیصد سے بڑھنے کا اندازہ لگایا گیا تھا، نظرثانی شدہ اعداد و شمار کے مطابق زراعت نے 1.55 فیصد کے مقابلے میں 2.25 فیصد کی نمایاں بہتری دکھائی۔ گنے کی پیداوار میں کمی (9 کروڑ 10 لاکھ سے 8 کروڑ 80 لاکھ) کے باوجود اہم فصلیں منفی 3.20 کے بجائے 0.42 فیصد بڑھی، جس کی وجہ گندم کی پیداوار (2 کروڑ 76 لاکھ ٹن سے بڑھ کر 2 کروڑ 82 لاکھ ٹن) اور مکئی کی پیداوار (ایک کروڑ 2 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 10 لاکھ ٹن) کا بڑھنا ہے۔

پی ڈی ایم حکومت کے دوران جی ڈی پی ’منفی 0.17 ہو گئی‘ Read More »

Electric Bike in Punjab on Subsidy

پنجاب ملازمین کے لیے جلد ہی الیکٹرک بائیکس لانچ کرے گا: وزیر

نگران پنجاب حکومت سموگ کی خطرناک سطح سے نمٹنے کے لیے الیکٹرک بائیکس لانچ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اس بات کا انکشاف نگران صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور لائیو سٹاک ابراہیم حسن مراد نے کیا۔ وزیر کے مطابق، حکومت اپنے ملازمین کو لیز پر الیکٹرک بائک فراہم کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ای بائک کے متعارف ہونے سے مہنگے ایندھن پر انحصار کم کرنے اور شہروں میں ماحول کی حفاظت میں مدد ملے گی۔ مراد نے الیکٹرک وہیکل پالیسی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کی تیاری کو مراعات فراہم کرکے، پاکستان عالمی ای وی مارکیٹ میں کافی حصہ حاصل کر سکتا ہے۔ انہوں نے ای بائک کو روایتی نقل و حمل کا ایک سستا اور ماحول دوست متبادل قرار دیا۔ وزیر نے مزید کہا کہ صوبائی حکام نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ ابراہیم حسن مراد نے کہا کہ ماحول کو آلودہ کرنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن اگلے ماہ تک جاری رہے گا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل نگراں وزیراعلیٰ پنجاب نے طلباء کے لیے سبسڈی پر 10 ہزار الیکٹرک بائیکس دینے کا اعلان کیا تھا۔

پنجاب ملازمین کے لیے جلد ہی الیکٹرک بائیکس لانچ کرے گا: وزیر Read More »

Honda ELectric Bike Introduce in Pakistan

ہونڈا کا پاکستان میں الیکٹرک بائیک متعارف کرانے کا اعلان

 اسلام آباد: اٹلس ہونڈا نے پاکستان میں کاروبار کے 60 برس مکمل ہونے پر الیکٹرک بائیک “ ای بین لے” متعارف کرانے کا اعلان کردیا۔ اس بات کا اعلان جاپانی برانڈ ہونڈا نے پاکستان میں کاروبار کے 60 برس منعقد ہونے پر شیخوپورہ میں قائم فیکٹری میں منعقدہ تقریب میں کیا۔ اس موقع کو یادگار بنانے کے لیے منعقد کی گئی اس خصوصی تقریب میں ایگزیکٹو وائس پریذیڈیٹ ہونڈا موٹر کمپنی شنجی  آئویاما، چیف آفیسر موٹرسائیکل اینڈ پاور پراڈکٹس نوریاکی ابے اور ایشین ہونڈا موٹر کمپنی کے صدر اور سی ای او توشیوکوواہارا نے شرکت کی۔ اٹلس ہونڈا کے چیف آفیسر موٹرسائیکل اینڈ پاور پراڈکٹس نوریاکی ابے نے ہونڈا کی الیکٹرک موٹرسائیکل ہونڈا “ای بینلے” آزمائشی بنیادوں پر پاکستان میں متعارف کرانے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہونڈا کی مصنوعات پاکستان کی آبادی کے بڑے طبقے کی روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں، ہونڈا پاکستانی معاشرے اور صارفین کے فیڈ بیک کو سمجھتے ہوئے ان کی ضرورتوں کے مطابق نئی مصنوعات متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ہونڈا کا پاکستان میں الیکٹرک بائیک متعارف کرانے کا اعلان Read More »

سیکیورٹی خدشات: سعودی فرم کا کہنا ہے کہ شمسی منصوبوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے انکار۔

اسلام آباد: باخبر ذرائع نے ایگنایٹ  پاکستان کو بتایا کہ سعودی فرم M/s ACWA مبینہ طور پر سیکیورٹی خدشات اور کچھ اہم عوامل کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان میں شمسی منصوبوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے قاصر ہے۔ تفصیلات کا اشتراک کرتے ہوئے، ذرائع نے بتایا، ریاض میں پاکستان کے سفیر نے حال ہی میں چیئرمین ACWA پاور، محمد ابونایانان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان میں سعودی سفیر بھی موجود تھے۔ ACWA پاور پاور جنریشن اور واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹس کے پورٹ فولیو کا ایک ڈویلپر، سرمایہ کار اور آپریٹر ہے جس کی موجودگی 12 ممالک میں ہے جن کے پاور سیکٹر کا پورٹ فولیو $74.8 بلین سے زیادہ ہے اور اس کی صلاحیت 50 GW سے زیادہ پاور اور 7.6 ملین ہے۔ پاکستانی سفیر کے مطابق، ACWA پاور پاکستان کے سولر سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی لیکن اس کی کوششیں سیکیورٹی خدشات اور کچھ اہم فعال عوامل کی عدم موجودگی، خاص طور پر بنیادی ٹیرف کی کمی، G-to-G کے لیے قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکیں۔ تعاون، زمین، بجلی کی ادائیگی کی صلاحیت اور گرڈ کے ساتھ رابطے کا مسئلہ۔ وزارت خارجہ نے دلیل دی کہ یہ سعودی حکومت کے لیے بہت اہم اقدام ہے اور ولی عہد ایم بی ایس خود اس میں دلچسپی رکھتے ہیں، جس کا ذکر انہوں نے اکتوبر 2022 میں سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس ہائی پروفائل تجویز کو آگے بڑھانے کے لیے، چیئرمین ابونایان نے سفیر کی وزارت توانائی میں توجہ مرکوز ملاقاتوں اور بریفنگ کے لیے پاکستان کا ایک تحقیقی دورہ کرنے کی درخواست پر اتفاق کیا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے سفیر نے پاور ڈویژن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو پیشگی تیاریوں کی تجویز دی ہے تاکہ اس دورے کو نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ K-Electric (KE) نے M/s ACWA Power کے ذریعے تیار کیے جانے والے 3,000 میگاواٹ کے قابل تجدید توانائی (RE) منصوبوں سے بجلی حاصل کرنے اور حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جو بنیادی طور پر سعودی عرب پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ کے ای، پاکستان میں واحد نجی اور عمودی طور پر مربوط یوٹیلیٹی کمپنی ہونے کے ناطے، کراچی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے لیے ذمہ دار ہے، اس طرح 3.4 ملین سے زائد صارفین کو خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔ کے ای اپنی پاور ویلیو چین کی اینڈ ٹو اینڈ پلاننگ کے لیے پابند ہے اور اپنے سروس ایریا کے لیے منصوبہ ساز کے فرائض انجام دیتا ہے۔ ACWA پاور ایک عالمی سرمایہ کاری اور ہولڈنگ کمپنی ہے جس کا صدر دفتر ریاض، سعودی عرب میں ہے۔ توانائی اور پانی کے شعبوں میں مضبوط موجودگی کے ساتھ، ACWA پاور متعدد ممالک میں کام کرتی ہے، بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، مصر، مراکش، عمان، اور دیگر۔ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سید مونس عبداللہ علوی کی طرف سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط کے مطابق، کے الیکٹرک نے ایک مضبوط طویل المدتی ترقیاتی منصوبہ بنایا ہے جس میں آر ای پروجیکٹس کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ حوالہ جات. RE جنریشن پراجیکٹس کی ترقی کے ای کی طویل المدتی جنریشن پلاننگ کی حکمت عملی کا سنگ بنیاد ہے، جو کہ کئی RE پر مبنی اقدامات کی ترقی کے عمل میں ہے۔ CEO KE کا کہنا ہے کہ اپنے RE فٹ پرنٹ کو مزید بڑھانے کے لیے، KE کا خیال ہے کہ ACWA Power کے ساتھ مشغولیت، ایک مضبوط ترقیاتی کمپنی اور اسپانسر پاکستان میں بڑے پیمانے پر RE منصوبوں کی تیزی سے ترقی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ACWA نے پہلے پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھنے کی کوشش کی تھی جہاں اس نے حکومت پاکستان کے ساتھ 2019 میں مفاہمت کی ایک یادداشت (ایم او یو) کی تھی جس میں سولر اور ونڈ انرجی سیکٹر میں $4 بلین کی سرمایہ کاری شامل تھی۔ بدقسمتی سے، مختلف رکاوٹوں کے عوامل کی وجہ سے ماضی کی دلچسپی کو پورا نہیں کیا جا سکا۔ تاہم، کے ای کو یقین ہے کہ وہ ACWA پاور کو قائل کر سکتا ہے کہ وہ RE پروجیکٹس تیار کرنے کے لیے اپنی دلچسپی پر نظر ثانی کرے تاکہ پاکستان KE کو بجلی فروخت کرے، اور اس کے مشترکہ پارٹنر کے طور پر کام کرے۔

سیکیورٹی خدشات: سعودی فرم کا کہنا ہے کہ شمسی منصوبوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے انکار۔ Read More »

عمران خان کو آج جوڈیشل کمپلیکس میں پیش کیے جانے کا امکان

اسلام آباد پولیس نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے کے سلسلے میں آج فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کی خصوصی عدالت میں پیش کرنے کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے۔ ایگنایٹ  پاکستان  کی رپورٹ کے مطابق اڈیالہ جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی کو سخت سیکیورٹی میں عدالت لایا جائے گا، ایس یو وی گاڑیاں، پولیس موبائلیں اور بکتر بند گاڑیاں ہمراہ ہوں گی۔ ذرائع نے بتایا کہ ’اعلیٰ حکام‘ سے گرین سگنل ملنے کے بعد ٹیم تشکیل دی گئی ہے، آدھی رات تک حتمی فیصلہ کرلیا جائے گا، چیئرمین پی ٹی آئی کو ممکنہ طور پر پشاور روڈ اور سری نگر ہائی وے کے ذریعے جوڈیشل کمپلیکس لایا جائے گا۔ پولیس کو جوڈیشل کمپلیکس، ریڈ زون کے اندر اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی سمیت تمام متعلقہ پلان تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

عمران خان کو آج جوڈیشل کمپلیکس میں پیش کیے جانے کا امکان Read More »

Harkishan Lal

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘

آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل! 13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔ وظیفے ہی پر انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔ اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی، معاشیات اور فارسی اُن کے پسندیدہ مضامین تھے۔ جب انھوں نے بی اے میں صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو انھیں کیمبرج میں تین سالہ پڑھائی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔ کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا گابا لکھتے ہیں کہ ‘1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔ سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ بینک کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مجیٹھیا چیئرمین اور لالا ہر کشن اعزازی سیکریٹری تھے۔ لالا لاجپت رائے انارکلی لاہور میں آریا سماج مندر کے سامنے قائم اس بینک کے پہلے کھاتے دار بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی بینک کے مینیجر تھے۔ لاہور سے باہر پہلی شاخ 1900 میں راولپنڈی میں کھولی گئی اور سنہ 1904 میں بینک نے کراچی اور پشاور میں اپنی شاخیں قائم کیں۔ لالا ہرکشن لال، مجیٹھیا کے اخبار دی ٹربیون کے ٹرسٹی بھی تھے۔ انھوں نے 1901 سے 1906 تک، کئی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے قائم کیے جیسے پنجاب کاٹن پریس کمپنی، پیپلز بینک آف انڈیا، امرتسر بینک، کان پور فلور ملز، سنچری فلور ملز، صابن کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، آرے، برف خانے اور لانڈری۔ پنجاب نیشنل بینک سمیت کچھ ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ بینک پاکستان بننے سے پہلے ہی دلی منتقل ہو گیا تھا۔   لاہور میں آٹھ آنے فی یونٹ بجلی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت سرکاری دفاتر میں بجلی کی فراہمی چاہتی تھی۔ حکومت نے خود سے کئی بار اس ضمن میں کوشش کی جو ناکام رہی۔ سنہ 1910 میں اس کے لیے اشتہار دیا گیا جس میں یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ کامیاب بولی دینے والے کو لاہور شہر میں بجلی فراہم کرنے کا لائسنس بھی دیا جائے گا۔ اس اشتہار کے جواب میں بہت سی مقامی اور برطانوی کمپنیوں کے ٹینڈر آئے۔ اسی طرح کے کاروبار میں مصروف ’دلی الیکٹرک ٹرام ویز اینڈ لائٹنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے پاس لائسنس حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ تاہم اس کمپنی کے لندن آفس نے ٹینڈر واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت لالا ہرکشن لال اس کمپنی کے لوکل بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ 24 فروری 1911 کو اس فیصلے کا علم ہونے پر، لالا نے یہ کام خود ہی کرنے کا انتخاب کیا۔ ٹینڈر جمع کرانے کے لیے صرف چار دن باقی تھے۔ لالا نے اپنے بینک، پیپلز بینک آف انڈیا، کے نام پر ٹینڈر جمع کروا دیا جو اسی سال جولائی میں منظور ہو گیا۔ حکومت کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ پندرہ منٹ سے اوپر بجلی جانے پر ہر بار 25 سے 200 روپے جرمانہ ہو گا۔ فروری 1912 میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی پانچ لاکھ روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ 21 مارچ 1912 کو رجسٹرڈ ہوئی۔ لا لا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین بنے۔ تاریخ دان احمد سعید کے مطابق نومبر 1912 میں لاہور الیکڑک سپلائی کمپنی نے بجلی کی سپلائی کا سلسلہ شروع کیا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاح پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر(1908-1913) لوئی ڈین نے کیا۔ تب کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ڈین نے اپنی تقریر میں کہا: ’لاہور کو بجلی سے روشن کرنے کے منصوبے کا اعلان ہر ممکنہ جگہ کیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا شخص اس کا بیڑا اٹھائے جو عوامی جذبے سے معمور ہو۔ تاہم یہ ایک ایسا کام تھا جسے خود ہندوستانی عوام نے انجام دیا۔ بنیادی طور پر ایسا جناب ہرکشن لال کی پہل کی وجہ سے ہے کہ یہ منصوبہ اتنی کامیابی سے شروع ہوا ہے۔‘ اگرچہ سپلائی تو 18 نومبر کو شروع کردی گئی تھی لیکن لائسنس کا گزٹ نوٹیفیکیشن 25 نومبر کو ہوا۔ سرکاری عمارتوں کو سب سے پہلے بجلی دی گئی۔ کنکشن کے لیے درخواستیں تیزی سے آئیں۔ چند ماہ کے اندر (31 مارچ 1913 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک) صارفین کی تعداد 98 تک پہنچ گئی تھی۔ اگلے سال تک یہ تعداد 542 اور اس کے بعد کے سال میں یہ بڑھ کر 884 ہو گئی۔ کمپنی نہ صرف اس مختصر وقت میں تمام ابتدائی اخراجات نمٹانے میں کامیاب رہی بلکہ ساڑھے سات فیصد منافع کمانے کا اعلان بھی کیا۔   بجلی کی طلب بڑھ رہی تھی اور مشینوں کی تبدیلی بھی درکار تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں۔ اس کے باوجود کمپنی، اپنے وسائل کے محتاط استعمال سے، سال 1915-16 کے لیے نو فیصد کے منافع کا اعلان کرنے میں کامیاب رہی۔ اگلے سالوں میں یہ بڑھتا گیا۔ احمد سعید اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لاہور سے چھپنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘ Read More »

Pakistan Tehreek e Insaf (PTI) Facing difficulties in Election Campaign

نگران حکومت کے تمام جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے دعووں کے باوجود پی ٹی آئی کو انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کیوں؟

’جلسہ گاہ جانے والے تمام راستوں پر پولیس نے رکاوٹیں لگا رکھی تھیں۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ’اوپر سے‘ آرڈر ہے کہ پی ٹی آئی کو جلسہ نہ کرنے دیا جائے۔ جلسہ تو ہم نے اپنی حکمت عملی سے کامیابی سے کر لیا لیکن اس کے فوری بعد پولیس نے گرفتاریاں بھی کیں اور گھروں پر چھاپے مارنے شروع کر دیے۔‘ یہ کہنا ہے تحریک انصاف کے ضلعی صدر عنایت اللہ خٹک کا جنھوں نے اتوار کے روز خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں ورکر کنوینشن کا انعقاد کیا تھا تاہم مقامی انتظامیہ نے جلسے کے بعد ان سمیت درجنوں پارٹی ورکرز کے خلاف انسداد دہشت گردی سمیت مختلف دفعات میں مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں روکنے کے لیے گولیاں تک چلائی گئیں، ورکرز کو مارا پیٹا اور دھمکایا گیا لیکن ہم نے جلسہ گاہ تک پہنچنے کی حکمت عملی پر عمل کر کے کامیابی سے جلسہ کیا۔ جس کے بعد کرک کے ہر تھانے میں ہمارے خلاف دہشت گردی کا پرچہ کاٹ کر ایف آئی آر درج کر لی گئی۔‘ عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم اور عوامی رابطوں میں تیزی آئی ہے تو وہیں 2018 کے عام انتخابات میں اقتدار حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو جلسے یا کنوینشن کی اجازت ملنا ہی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے یوں تو دو ٹوک کہا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں مساوی مواقع یعنی ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے مواقع حاصل ہیں لیکن زمینی حقائق ان کے بیان کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو انٹرویو میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کسی نے کسی جماعت کو نہ سیاسی جلسوں سے روکا نہ کسی اور سرگرمی سے۔ نو مئی کے توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ کے باعث کچھ لوگ قانون کا سامنا کر رہے ہیں، کچھ قید کاٹ رہے ہیں تو یہ قانونی کارروائیاں ہیں اور میرے اختیار سے باہر ہیں۔‘ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اگر نظر ڈالیں تو ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری چترال، دیر بالا اور ایبٹ آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مشغول نظر آ رہے ہیں۔ دوسرے منظر میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف صوبہ بلوچستان سمیت مختلف علاقوں میں پارٹی تنظیم سازی اور رابطوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم پر نظر ڈالیں تو انھیں جلسے جلوس سمیت عوامی اجتماعات کی اجازت ملتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جانا بھی معمول ہے۔ اس کی حالیہ مثال گزشتہ دو روز کے دوران خیبرپختونخوا کے علاقے دیر بالا اور کرک میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسوں میں دیکھی گئی۔ آخر ملک کے نگران وزیر اعظم کے اعلان کے باوجود دیگر جماعتوں کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی مہم کے لیے مشکلات کا سامنا کیوں ہے۔ ہم نے اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن پہلے پی ٹی آئی کے کرک اور دیر بالا میں جلسوں کے بارے میں جان لیں۔ تحریک انصاف کے ضلعی صدر عنایت اللہ خٹک کے مطابق کرک میں جگہ جگہ پولیس کارکنوں کو روک رہی تھی ’رکاوٹوں کے باعث پلان بی تیار تھا جس پر عمل کر کے جلسہ گاہ پہنچے‘ پی ٹی آئی ضلع دیر کے صدرعنایت خٹک نے بتایا کہ انھوں نے سات نومبر کو مقامی انتظامیہ کو تحریری درخواست دی تھی کہ انھیں ٹاون ہال کرک میں 26 نومبر کو ورکرز کنوینشن کی اجازت کے لیے این او سی جاری کیا جائے تاہم دو ہفتے تک انھوں نے جواب نہ دیا جس کے بعد انھوں نے یاد دہانی کے لیے پھر درخواست دی جس پر انتظامیہ نے جواب دیتے ہوئے معذرت کر لی اور پھر پارٹی ورکرز کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جانے لگے۔ عنایت خٹک نے بتایا کہ ’پولیس نے جلسے والے دن پورا علاقہ بلاک کر دیا۔ مرکزی روڈ بھی بند کر دی لیکن ہم نے ان کو جلسہ گاہ لانے کی حکمت عملی بنا رکھی تھی جس کے تحت ہم دو بجے کے قریب جلسہ گاہ تک آئے۔ اس دوران ورکرز کو روکنے کے لیے پولیس نے گولیاں تک چلائیں ہم تعداد میں بہت ذیادہ تھے اس لیے پھر پولیس پیچھے ہٹ گئی۔‘ ’جلسہ کامیابی سے ہوا تاہم جیسے ہی ہمارے لوگ نکل کر گئے انھوں نے پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔‘ پی ٹی آئی کرک کے ایک اور ضلعی عہدیدار مزمل احمد اتوار کے جلسہ کےانتظامات میں پیش پیش تھے۔ بی بی سی سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ صبح آٹھ بجے سے ہی پولیس نے علاقےکا محاصرہ شروع کر دیا تھا اور اسی علاقے میں 12 بجے جماعت اسلامی کا ایک جلسہ ہوا جس کے ختم ہوتے ہی علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ ’جلسہ کرنے کا ہمارا پلان بی اور پلان سی تیار تھا جس کے تحت رکاوٹوں کے باوجود ہم جلسہ گاہ کے قریب پہنچ گئے۔ ہماری تعداد زیادہ تھی جس پر پولیس نے پحچھے ہٹ کر راستہ دے دیا۔ ہم نے پر امن طریقے سے جلسہ کیا۔ جیسے ہی ورکرز باہر نکلے پھر انھوں نے پکڑنا شروع کر دیا۔‘ پی ٹی آئی رہنما مزمل احمد کے مطابق اس وقت تک کرک کے مختلف تھانوں میں پی ٹی آئی کے 600 کے قریب کارکنان پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمے درج کیے جا چکے ہیں جبکہ 50 سے زائد کارکنان بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔ کرک میں تحریک انصاف کے جلسے سے ملتے جلتے حالات سنیچر کو دیر بالا میں بھی دیکھنے کو ملے تھے جہاں ورکرز کنوینشن کا انعقاد کیا گیا تاہم ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس کنوینشن کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ دیر بالا میں ورکرز کنوینشن کا انعقاد روکنے کے لیے پولیس کی

نگران حکومت کے تمام جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے دعووں کے باوجود پی ٹی آئی کو انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کیوں؟ Read More »

Sky Lightening killed number of peple

بھارت میں آسمانی بجلی گرنے سے 24 افراد ہلاک اور 23 زخمی

نئی دہلی(این این آئی) بھارتی ریاست گجرات میں میں دو روز سے گرج چمک کے ساتھ بارش، طوفان اور کچھ علاقوں میں ژالہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ ان واقعات میں 2 درجن افراد ہلاک اور تقریبا اتنے ہی زخمی ہوچکے ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست گجرات میں 24 گھنٹوں میں 144 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ طوفانی بارشوں نے کئی مکانات کو تباہ کردیا جب کہ مال مویشی کو بھی نقصان پہنچا۔ دوپہر کے بعد سے بارشوں کا سلسلہ تھم گیا ہے لیکن بھارتی محکمہ موسمیات نے گجرات کے کچھ علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کی پیشن گوئی کی ہے۔آسمانی بجلی گرنے کے واقعات زیادہ تر کھیتوں اور میدانی علاقوں میں پیش آئے۔ ان علاقوں میں بارشوں کے دوران آسمانی بجلی گرنے کے واقعات عام ہیں تاہم پہلی بار اتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ریاستی حکومت نے آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں جانی اور مالی نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے سروے کمیٹی تشکیل دیدی ہے جس کی بنائی گئی رپورٹ کی بنیاد پر متاثرین کی مالی مدد کی جائے گی۔

بھارت میں آسمانی بجلی گرنے سے 24 افراد ہلاک اور 23 زخمی Read More »

Lavish Wedding Ceremony in Air

بھارتی ارب پتی تاجر کی بیٹی کی فضاؤں میں پُر تعیش شادی

 دبئی: بھارتی ارب پتی تاجر دلیپ پوپلے کی بیٹی ودھی پوپلے فضاؤں میں شادی کے بندھن میں بندھ گئی۔ دبئی میں مقیم بھارتی ارب پتی تاجر تاجر دلیپ پولے کی بیٹی ودھی پوپلے اور انکے دوست ہردیش سینانی کی شادی غیر روایتی انداز میں گزشتہ جمعہ کو فضاؤں میں انجام پائی جس کیلئے خصوصی طور پر بوئنگ 747 طیارہ تیار کیا گیا تھا۔ شادی کیلئے دلہا دلہن تقریباً 350 مہمانوں کے ہمراہ جہاز میں سوار ہوئے اور دبئی سے عمان تک تین گھنٹے کا سفر کیا۔ پرواز میں ہی دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا عہد و پیمان کیا۔ شادی کیلئے دلہن ودھی نے روایتی سرخ لہنگا پہن رکھا تھا جس پر سونے کی بھاری کڑھائی موجود تھی جبکہ دولہا ہردیش نے کریم رنگ کی شیروانی پہن رکھی تھی۔ مہمانوں میں قریبی عزیزوں کے علاوہ، دوست احباب اور میڈیا بھی شامل تھا جن کی تواضع سیون اسٹار کھانوں سے کی گئی جس میں روٹی، مکھن، سبزی، جلفریزی، مشروم پلاؤ، پالک پنیر اور دال مسالہ شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ‘آسمان میں شادی’ پوپلے خاندان میں ایک سیکوئل ہے جو تقریباً 30 سال بعد دوبارہ دہرایا گیا ہے۔ 1994 میں پہلی بار دلیپ پوپلے نے اپنی محبوبہ سنیتا سے دوران پرواز شادی کی تھی۔ دلیپ اور سنیتا کی شادی ‘ہوائی بندھن’ یا ‘ویڈنگ ان دی ایئر’ کے طور پر مشہور ہوئی تھی جس کیلئے ایئربس A310 نے ممبئی سے احمد آباد کے لیے اڑان بھری تھی۔ واضح رہے کہ پوپلے خاندان متحدہ عرب امارات اور بھارت میں زیورات اور ہیروں کی دکانوں کا مالک ہے جس کے بھارت اور بیرون ملک اربوں روپے کے اثاثے ہیں۔

بھارتی ارب پتی تاجر کی بیٹی کی فضاؤں میں پُر تعیش شادی Read More »