Pakistan

Arshad Sharif

صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!

ارشد کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا گیا تھا جہاں لاکھوں لوگ اس کی بات سچ مانتے تھے اس کے فالوور تھے اور یہ کسی صحافی کی معراج ہوتی ہے۔ ’ڈرائیور بھیج دوں گاڑی لانے کے لیے؟‘ ’اچھا، میری گاڑی بالکل چلنے کے قابل نہیں۔‘ ’چلیں آپ دیکھیں کیا کرنا ہے۔‘ ’اچھا ٹریلر پر بھیج دیں‘، ارشد شریف کی سرگوشی نما آواز سنائی دی۔ میں اس وقت ارشد شریف کے ڈرائنگ روم میں تھا اور ساجد گوندل کے ساتھ ارشد کے والد کی میت کو ایک چارپائی سے دوسری چارپائی پر منتقل کررہا تھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو ارشد ڈرائنگ روم کے باہر سیڑھیوں کے پاس کھڑا کسی سے دھیمے لہجے میں فون پر بات کر رہا تھا۔ ارشد کے والد نیوی سے ریئر ایڈمرل ریٹائرڈ ہوئے تھے اور صبح وفات پاگئے تھے۔ میں اس وقت ڈان نیوز ٹی وی میں بطور رپورٹر کام کر رہا تھا اور ارشد ڈان کا بیورو چیف تھا لیکن اس کا سب کے ساتھ تعلق بھائیوں والا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی ارشد کے والد کے انتقال کی خبر نیوز روم پہنچی تو ایک، دو رپورٹرز کو چھوڑ کر ہم سب ارشد کے گھر پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد پتا چلا کہ ارشد کے چھوٹے بھائی جو فوج میں میجر تھے ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ دراصل جب انہیں والد کے انتقال کی خبر ملی تو وہ اپنی کورے گاڑی میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے اور تیز رفتاری کے سبب گاڑی بے قابو ہوگئی اور ارشد کے بھائی اس اندوہناک سانحے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اور اب گھر میں ان کی میت کا انتظار تھا۔ مجھے ہمت نہ ہوئی کہ ارشد کو دلاسہ دے سکوں۔ گھر میں باپ کی لاش پڑی ہو اور چھوٹے بھائی کی لاش کا انتطار ہو، تو بھلا اس قیامت خیز گھڑی میں کوئی کسی کو کیا دلاسہ دے سکتا ہے؟ آج بھی اس لمحے کا سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ ’ایسا تو فلموں میں ہوتا ہے‘، ارشد سپاٹ لہجے میں اسد کو کہہ رہا تھا۔ اسد ڈان کے ٹیکنیکل شعبے کے سربراہ تھے۔ میں قرآن پڑھتے کن انکھیوں سے ارشد کو تک رہا تھا کہ کس بلا کا حوصلہ ہے اس شخص کا۔ اگلے دن ارشد کے بھائی کو جب تمام فوجی اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا تب بھی ارشد نے بڑے ضبط کا مظاہرہ کیا۔ ارشد ایک نڈر شخص تھا۔ یہ اس کی ہی آشیر باد تھی کہ ہم وہ خبر بھی چلا دیتے تھے جسے چلانے کا دوسرے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ میں گمشدہ افراد پر ایک پروگرام کر رہا تھا جس کے لیے شہر سے باہر جانا پڑتا تھا۔ ارشد اس وقت تک بے چین رہتا تھا جب تک میں مع عملہ واپس نہ پہنچ جاؤں۔ ایک رات جب ہم فیصل آباد سے رات گئے لوٹے تو ارشد دفتر میں میرا انتظار کررہا تھا۔ کیمرا اور دیگر سامان دفتر میں جمع کرواتے صبح کے 4 بج گئے لہٰذا میں اور ارشد ڈان کے نیوز روم میں ہی قالین پر سو گئے۔ اگلے دن اس نے مجھے تو گھر بھیج دیا مگر خود کام میں جتا رہا۔ ارشد عجز و انکساری سے بھرپور انسان تھا۔ ایک رات میں دفتر میں تھا تو معلوم ہوا ایک چینی کا پُراسرار حالات میں قتل ہوگیا ہے۔ میں نے ارشد کو فون کیا کہ چینی کا قتل ہوگیا، میں نے خبر بریک کرنی ہے لیکن کیمرا مین نہیں ہے۔ ’اچھا میں آتا ہوں‘، اس نے کہا اور تھوڑی ہی دیر میں دفتر پہنچ گیا۔ امریکا سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیورو چیف ساری رات ایک رپورٹر کے ساتھ بطور کیمرا میں کام کرتا رہا۔ ارشد میں حس مزاح بھی بہت تھی۔ ایک دن کراچی (ہیڈ آفس) سے جھاڑ کھانے کے بعد وہ نیوز روم میں سب پر برسنے لگا کہ ایک اہم خبر اسلام آباد سے مس ہوگئی تھی۔ ’کیا کر رہے ہو تم سب‘، ارشد دھاڑا۔ ریلیکس کر رہا ہوں، میں نے جواب دیا۔ ’ریلیکس کر رہے ہو‘، اس نے غصے سے پوچھا۔ بنا کسی بات کے جھاڑ کھانے کے بعد کوئی اور کیا کرسکتا ہے؟ میں نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا اور ارشد قہقہے میں لوٹ پوٹ ہوگیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ صحافت کی باریکیاں میں نے ارشد سے سیکھیں ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ ارشد کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ اس نے مجھے کئی انتہائی نازک مواقعوں پر بچایا ہے۔ ایک دوپہر میں نیوز روم میں داخل ہوا تو ارشد نے ایک خط میرے سامنے کردیا۔ یہ اسلام آباد پولیس کا خط تھا جس میں کہا گیا تھا کہ میں یعنی ڈان نیوز کا رپورٹر عاطف خان ایک تھانے میں زبردستی داخل ہوا اور اس نے ایس ایچ او انسپکٹر فیاض تنولی کو ہراساں کیا اور عاطف خان پر فلاں فلاں قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔ اس خط میں اگر ایسا لکھا ہے تو اس میں ایسی کیا بات ہے۔ پولیس ایجنسیوں کی یہ ایک اسٹینڈرڈ کارروائی ہے، میں نے بے اعتنائی سے کہا۔ دراصل ان دنوں میں نے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی خبر بریک کی تھی اور پے درپے رپورٹس کر رہا تھا۔ ایجنسیاں اور پولیس مجھ سے سخت برہم تھے۔ ارشد نے مجھے کہا کہ میں حامد میر سے بات کرکے عاصمہ جہانگیر کے پاس چلا جاؤں اور ارشد کی ان سے بات ہوگئی ہے۔ یعنی اس نے میرے لیے سارا انتظام کر رکھا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں، مجھے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے حوالے سے بننے والے کمیشن میں شامل کرلیا گیا۔ میری رپورٹس کمیشن نے شامل کیں لیکن ہوا وہی جو اس طرح کے کیسوں میں ہوتا ہے۔ کیس تو داخل دفتر ہوگیا لیکن میری گلو خلاصی ہوگئی بلکہ عدالتِ عالیہ نے پولیس کو مجھے گارڈز فراہم کرنے کی ہدایت کی جسے میں نے مسترد کردیا کہ پولیس مجھے پولیس یا ایجنسیوں سے نہیں بچا سکتی۔ اگر میں یہ کہوں کہ ڈان ٹی وی کو ڈان بنانے والا ارشد تھا تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ انگریزی سے اردو میں کامیاب منتقلی کا سہرا ارشد اور اس کی پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ ارشد کام کرنے والوں کی

صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی! Read More »

سٹیڈیئم میں ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکنے کی ویڈیو: ’پولیس اہلکار انڈیا میں سب لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتا‘

ایک سٹیڈیئم کا منظر ہے جہاں سٹینڈ میں پاکستان ٹیم کی شرٹ پہنے بیٹھا ایک نوجوان اپنے سامنے کھڑے پولیس اہلکار سے انگریزی زبان میں مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ’میں پاکستان زندہ باد کیوں نہیں کہہ سکتا؟ بھارت ماتا کی جے ٹھیک لیکن پاکستان زندہ باد نہیں کہہ سکتے، کیوں؟‘ پولیس اہلکار بھی انگریزی میں ہی جواب دیتا ہے ’بھارت ماتا کی جے گڈ، پاکستان زندہ باد ناٹ گڈ۔‘ نوجوان کچھ غصے میں کہتا ہے کہ ’پاکستان سے آئے ہیں، پاکستان زندہ باد نہیں بولیں گے تو کیا بولیں گے بھائی؟ پاکستان کھیل رہا ہے، پاکستان زندہ باد نہیں بولوں گا تو کیا بولوں گا؟ میں ویڈیو بناتا ہوں، آپ مجھے کہو کہ میں پاکستان زندہ باد نہیں کہہ سکتا؟‘ اب پولیس والا یہ کہہ کر کہ ’آپ بیٹھ جائیں، میں اپنے افسر سے بات کرتا ہوں‘ وہاں سے نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس گفتگو پر مشتمل ویڈیو جمعے کے دن انڈیا میں کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پاکستان اور آسٹریلیا میچ کے بیچ وائرل ہوئی جس میں دعوی کیا گیا کہ بنگلورو کے ایم چناسوامی میں تعینات ایک انڈین پولیس اہلکار نے ایک پاکستانی مداح کو ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکا۔  ایگنایٹ پاکستان   اس ویڈیو کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر پایا جبکہ بنگلورو پولیس سے اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اس وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس ویڈیو میں پیش آنے والا واقعہ درست ہے اور آیا انڈین پولیس اہلکار نے کسی پاکستانی مداح کو پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرنے سے خود روکا۔ انڈین کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھی اب تک کوئی موقف سامنے نہیں آ سکا۔ تاہم یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سرحد کے دونوں اطراف سے پر خوب بحث بھی ہوئی اور لوگوں نے پولیس اہلکار کے رویے کی مذمت بھی کی۔ سوشل میڈیا پر شور: ’آئی سی سی کو تحقیقات کرنی چاہیے‘ اس ویڈیو کو شیئر کرنے والے پاکستانی صارف مومن ثاقب نے لکھا کہ ’یہ انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ بات ہے کہ میچ کے دوران لوگوں کو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے روکا جا رہا ہے۔ یہ کھیل کی روح کے منافی ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ شخص تمام انڈین شہریوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ لیکن اس کی طرف سے اس پرستار کو ایسا کرنے سے روکنے کی جو بھی وجہ بتائی گئی ہے، وہ درست نہیں ہے۔ یہ قانونا درست نہیں ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد لوگوں کے لیے کھیل سے لطف اندوز ہونے کا ماحول بنانا ہے۔ انھیں ہمیں اس وقت یہ احساس کرانا چاہیے کہ کرکٹ لوگوں کو ساتھ لانے کا ایک ذریعہ ہے۔اور ہر ناظر کو بین الاقوامی ٹورنامنٹ کے دوران اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کا حق ہے۔ آئی سی سی اور بی سی سی آئی کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے تاکہ ہر کوئی ورلڈ کپ کے میچوں سے لطف اندوز ہو سکے اور یہ سب کے لیے محفوظ جگہ بن سکے۔‘ پاکستانی صحافی وجاہت کاظمی نے ٹوئٹر پر لکھا: ’انڈین پولیس بنگلور سٹیڈیم میں آسٹریلیا کے خلاف میچ کے دوران پاکستانی تماشائیوں کو اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے سے روک رہی ہے، یہ انڈیا کے مزید نیچے گرنے کی سطح ہے۔‘ انڈیا میں مان امن سنگھ چنا نامی ایک صارف نے اس ویڈیو پر رد عمل دیتے ہوئے لکھا: ’کتنی احمقانہ بات ہے اور یہ سب شرمناک حد تک جا رہا ہے۔ آپ ایک پاکستانی مداح کو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟‘ سدھارتھ نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا: ’ذرا تصور کریں کہ اگر کسی پاکستانی سٹیڈیم میں ایک انڈین سپورٹر کو پاکستانی پولیس والے نے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے سے روکا اور اسے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کی اجازت دی، تو کیا آپ کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی؟‘ انڈین سپورٹس جرنلسٹ وکرانت گپتا نے اس معاملے پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہر شخص کو اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کا حق ہے۔‘ ٹی ایم سی سے وابستہ ایک شخص بھرتیندو شرما نے لکھا: ’اس طرح کے واقعات کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔ ورلڈ کپ ایک ملٹی کنٹری ٹورنامنٹ ہے جس میں اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں ہمارے ملک کے لیے شرم کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شان کی بات نہیں ہے۔ بی سی سی آئی کو سخت کارروائی کرنی چاہیے اور اس قسم کی بکواس بند کرنی چاہیے۔‘.ایک انڈین صارف نکل مہتا نے لکھا کہ ’یہ پولیس اہلکار تمام انڈین شہریوں کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ ایک مداح کو اپنی ٹیم کے حق میں نعرے لگانے کی اجازت نہیں۔‘ چند صارفین نے پولیس اہلکار کی تعریف بھی کی اور لکھا کہ وہ اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا جبکہ بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس طرح کے رویے کی وجہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ انڈیا کثیر ملکی ٹورنامنٹ منعقد کرانے کے لائق جگہ نہیں ہے۔ امتیازی سلوک کے خلاف پالیسی کا سیکشن 11 کیا ہے؟ آئی سی سی اور اس کے تمام رکن ممالک کو اس سیکشن کی پاسداری کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ایسے بینر یا اس جیسے پوسٹرر لگانا جس سے شائقین کو یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کون سی چیزیں گراؤنڈ میں نہیں لے جا سکتے تاکہ گراؤنڈ میں داخلے سے پہلے انھیں واپس لیا جا سکے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی ایک مناسب تعداد کی سٹینڈز میں تعیناتی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مداحوں کو مانیٹر کیا جا رہا ہے، خاص طور پر حساس نوعیت کے میچز کے دوران۔ اگر کہیں کوئی غیر مناسب رویہ نظر آئے تو گراؤنڈ میں فوری اعلانات کا بندوبست کرنا بھی ضروری ہے جس کے ذریعے ایسے رویے کی مذمت کی جا سکے اور تنبیہ دی جا سکے کہ اس حوالے سے فوری کارروائی کی جائے گی۔ کسی بھی نامناسب رویے کی صورت میں تماشائی کو میچ سے نکالنے کا انتظام کرنے کا اہتمام کیا جانا

سٹیڈیئم میں ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکنے کی ویڈیو: ’پولیس اہلکار انڈیا میں سب لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتا‘ Read More »

پنجاب میں سرکاری سکولوں کو ’این جی اوز کے حوالے کرنے‘ کے خلاف اساتذہ سڑکوں پر احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

’بچے سکول جاتے ہیں مگر پڑھائی ہی نہیں ہوتی۔ استاد کہتے ہیں کہ ہماری پینشن میں کمی کرنے کے علاوہ سکولوں کو پرائیوٹ کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہڑتال جاری ہے۔‘ یہ کہنا ہے کہ شاہد خان کا جو پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے علاقے ٹینچ بھاٹہ کے رہائشی ہیں اور ان کے دو بچے مقامی سرکاری سکول کے طالب علم ہیں۔ شاہد خان کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ تو صبح اپنی مزدوری پر چلے جاتے ہیں۔ بچے سارا دن گلیوں میں کھیلتے رہتے ہیں۔ پڑھائی تو بالکل ہی ختم ہو گئی ہے۔‘ ایسی صورتحال کا سامنا صرف شاہد خان کو ہی نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کے تقریباً 47700 سرکاری سکولوں میں جانے والے تمام بچوں کے والدین کو بھی ہے۔ پنجاب کے سرکاری سکولوں کے تین لاکھ سے زائد اساتذہ کی ہڑتال اور احتجاج ہے۔ سرکاری سکول کے اساتذہ کا دعویٰ ہے کہ نگران حکومت صوبے بھر کے تقریباً دس ہزار سکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنے جا رہی ہے جس سے ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ تاہم صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے اس دعوے کو ’پراپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔ اساتذہ کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟ پنجاب ٹیچر یونین کے جنرل سیکریٹری رانا لیاقت علی نے بی سی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کا سلسلہ جون، جولائی سے شروع کیا اور ہم پُرامن احتجاج کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ نگران حکومت ہمارے مطالبات پر ہمدردی سے غور کرے گی۔ مگر انھوں نے ایم پی او قانون کے تحت اساتذہ کو جیلوں میں ڈال دیا۔ ہمارے احتجاج پر تشدد کیا جاتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں مگر حکومت پتا نہیں کیا کر رہی ہے اور کیا چاہتی ہے۔ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوں گے ہمارے لیے سکولوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہے۔‘ رانا لیاقت علی کے مطابق سرکاری سکول ٹیچرز کے تین بنیادی مطالبات ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی پینشن اور دیگر مراعات میں کمی نہ کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے ہماری پینشن اور دیگر مراعات ریٹائرمنٹ کے وقت کے بنیادی سکیل کی تنخواہ کی بنیاد پر دی جاتی تھی۔ اب حکومت اس میں کمی لاتے ہوئے ملازمت کے وقت ملنے والی پہلی بنیادی سکیل کی تنخواہ کے حساب سے مقرر کرنے جا رہی ہے۔‘ رانا لیاقت علی کہتے ہیں کہ اس سے پینشن اور دیگر مراعات کے علاوہ ریٹائرمنٹ پر دی جانے والی 12 ماہ کی تنخواہ میں ساٹھ سے ستر فیصد کی کمی پیدا ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سالانہ ترقی ہر سال یکم دسمبر کو ملتی تھی اس کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔‘ انھوں نے نگران حکومت کے اس منصوبے پر ناراضی ظاہر کی۔ رانا لیاقت علی کا دعویٰ تھا کہ نگران حکومت نے کچھ عرصہ قبل صوبہ بھر کے تقریباً دس ہزار سکولوں کو متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا تھا کہ اس میں بہتری لائے جائے۔ مگر یہ پہلا قدم تھا اب اس کے بعد ان سکولوں کو ’این جی اوز اور نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے۔‘ ’یہ صرف پراپیگنڈا ہے‘ پنجاب حکومت کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت کسی بھی سکول کو پرائیوٹ نہیں کر رہی ہے اور نہ ہی کسی سرکاری عمارت یا ادارے کو پرائیوٹ کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو صرف اور صرف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت اور نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سرکاری سکولوں کی حالت زار اور معیار کو بہتر کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ تاہم ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق نگراں وزیرا علیٰ پنجاب محسن نقوی نے صوبے کے ایک ہزار سرکاری سکول غیر سرکاری ادارے مسلم ہینڈز کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم رانا لیاقت علی کہتے ہیں کہ گورنمنٹ سکولوں کو این جی اوز اور نجی شعبے کے حوالے کرنے سے ’ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی جنم لے گی۔ حکومت کے اس اقدام سے غریب لوگوں کے بچوں سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھن جائے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ این جی اوز اور نجی شعبہ بچوں سے بے تحاشا فیس وصول کرے گا۔ ’حکومت کے سکولوں کی عمارتوں کی مالیت اربوں، کھربوں روپے سے زیادہ ہے۔ نجی شعبہ اور این جی اوز ان عمارتوں اور انتہائی قیمتی انفراسٹریکچر پر قابض ہو جائے گا۔‘ رانا لیاقت علی کا کہنا تھا کہ اس وقت صوبے میں ’ہمارے اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں دس ہزار سکولوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جس کے بعد مرحلہ وار یہ کام کیا جائے گا۔ ’اس میں کوئی شفافیت نہیں ہے۔ کچھ پتا نہیں ہے کہ حکومت کن شرائط پر یہ کام کر رہی ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ تحریری طور پر بھی ان تحفظات سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد جون، جولائی میں احتجاج شروع ہوا۔ ’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ہمارے ساتھ بات کرتی مگر اس نے ہمارے رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت پنجاب میں ستر ہزار سے زائد طالب علم سکولوں سے باہر ہیں۔ ’حکومت جو چاہے کر لے، ہم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حکومت کو پنجاب کے اساتذہ اور عوام کے ساتھ زیادتی نہیں کرنے دیں گے۔ اس کے لیے ہمارا پرامن احتجاج جاری رہے گا۔‘ کیا واقعی پنجاب کے سرکاری سکول این جی اوز کے حوالے کیے جا رہے ہیں؟ غیر سرکاری تنظیم مسلم ہینڈز کے ترجمان ریحان طاہر کے مطابق پنجاب حکومت نے مسلم ہینڈ کو سکول 2015 میں تعلیمی اداروں کے درمیان پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت دیے ہیں جس کے تحت وہ کسی بھی سرکاری انفراسٹریکچر کے مالک نہیں بنے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے سکولوں کا انتظام سنبھالا ہے، ہم عمارتوں کے مالک نہیں ہیں۔‘ ریحان طاہر کا کہنا تھا کہ سکولوں کو این جی اوز کے

پنجاب میں سرکاری سکولوں کو ’این جی اوز کے حوالے کرنے‘ کے خلاف اساتذہ سڑکوں پر احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟ Read More »

آج پاکستان میں کرنسی کی شرح تبادلہ – 20 اکتوبر 2023

کراچی – 20 اکتوبر 2023 جمعہ کو مقامی اور اوپن مارکیٹ میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ایک امریکی ڈالر کی شرحِ فروخت 279.25 روپے ریکارڈ کی گئی، جس کی شرح فروخت 282 روپے تھی۔ نوٹ: تبادلے کی شرحیں مقام اور لین دین میں شامل ایکسچینج کمپنی یا بینک کی بنیاد پر مختلف ہو سکتی ہیں۔ ذیل میں پاکستان کی کھلی منڈی میں امریکی ڈالر، یو کے پاؤنڈ سٹرلنگ، یورپی یورو، متحدہ عرب امارات درہم، سعودی ریال، اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے لیے غیر ملکی اور مقامی کرنسی کی شرح تبادلہ ہیں۔ طلب اور رسد کی بنیاد پر زر مبادلہ کی شرحیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ تاہم، فاریکس ریٹس کو پاکستان کے معیاری وقت (PST) پر صبح 9:00 بجے اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے اور یہ مارکیٹ کی قوتوں اور غیر ملکی کرنسی کے تقاضوں کی بنیاد پر تبدیلی کے تابع ہیں۔

آج پاکستان میں کرنسی کی شرح تبادلہ – 20 اکتوبر 2023 Read More »

معروف قانون دان ایس ایم ظفر لاہور میں انتقال کرگئے

  معروف قانون دان اور سابق سینیٹر ایس ایم ظفر 93 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد لاہور میں انتقال کر گئے۔ایس ایم ظفر کے صاحبزادے علی ظفر کی قانونی ٹیم کے رکن وکیل حماد خالد بٹ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایم ظفر کی نماز جنازہ کل لاہور میں ادا کی جائے گی۔سابق سینیٹر ایس ایم ظفر فوجی حکمران جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر قانون رہے تھے اور طویل عرصے تک مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری بھی رہے۔ایس ایم ظفر بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شامل ہوئے اور انہیں 2006 میں سینیٹر منتخب کیا گیا اور 2012 تک سینیٹر رہے جبکہ 2018 میں انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کردیا تھا۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اور وکیل علی ظفر ان کے صاحبزادے ہیں اور انہیں پی ٹی آئی نے سینیٹر بنایا تھا۔سینئر قانون دان کے انتقال پر امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایم ظفر غیر معمولی قانون دان اور انتہائی نفیس انسان تھے۔انہوں نے ایس ایم ظفر کے خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا۔ سابق رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر تعزیتی بیان میں کہا کہ ہم ان کے شاگرد تھے اور وہ ایک عظیم انسان تھے، ایس ایم ظفر کا انتقال پاکستانی سیاست اور پارلیمنٹ کا نقصان ہے۔  

معروف قانون دان ایس ایم ظفر لاہور میں انتقال کرگئے Read More »

پنجاب میں مزید گندم اگاؤ مہم شروع کر دی گئی۔

لاہور: غذائی تحفظ کو بڑھانے کے لیے ایک اہم اقدام کے تحت، پنجاب نے اس سال گندم کی مضبوط کاشت کے ہدف پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔ سیکرٹری زراعت، پنجاب، نادر چٹھہ نے یہ اعلان لاہور میں منعقدہ ایک اہم جائزہ اجلاس کے دوران کیا، جہاں اہم زرعی اسٹیک ہولڈرز گندم کی پیداوار اور اعلیٰ معیار کے زرعی آدانوں کی فراہمی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ اس سال پنجاب میں مجموعی طور پر 1.60 ملین ایکڑ اراضی گندم کی کاشت کے لیے وقف کی جائے گی۔ اس کوشش کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے، زرعی توسیع کے افسران اور عملہ، کسانوں کے ساتھ مل کر، کاشت سے لے کر کٹائی تک پورے عمل میں فعال طور پر شامل ہوں گے۔ چٹھہ نے گندم کی کاشت کے پورے موسم میں مارکیٹ میں اعلیٰ درجے کے زرعی سامان کی دستیابی کی ضمانت دینے میں ڈویژنل ڈائریکٹرز کے اہم کردار پر زور دیا۔ مزید برآں، محکمہ کے زیر انتظام زرعی زمینوں کی نگرانی کرنے والے فارم مینیجرز کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنی کامیابیوں کے بارے میں جامع رپورٹس فراہم کریں، جو بالآخر فارم کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اس اقدام کے ایک لازمی پہلو کے طور پر کسانوں کے لیے تکنیکی رہنمائی کو بھی اجاگر کیا گیا۔ مزید برآں، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے عوامی آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ کاشتکاروں کو محکمہ زراعت کی منظور شدہ اقسام کاشت کرنے میں رہنمائی کی جا سکے۔ یہ دھکا “گرو مور گندم کی مہم” کا حصہ ہے، جس کا مقصد فی ایکڑ گندم کی پیداوار کو بڑھانا اور ملک کی غذائی تحفظ میں حصہ ڈالنا ہے۔ میٹنگ کے دوران، سکریٹری چٹھہ نے دھان کی کٹائی اور سموگ کنٹرول کے لیے مشینی زراعت کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا تاکہ دھان کے کھیت کی تباہی سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے مسائل کو کم کیا جا سکے۔ اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل زراعت (توسیع) ڈاکٹر اشتیاق حسن، ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر فیلڈ انجینئر احمد سہیل، ڈائریکٹر ایڈاپٹیو ریسرچ چوہدری مشتاق، ڈائریکٹر زراعت توسیع ہیڈ کوارٹرز فاروق جاوید، ڈائریکٹر زراعت لاہور ڈویژن شیر محمد شراوت اور ڈائریکٹر زراعت لاہور ڈویژن کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اطلاعات پنجاب، رائے مدثر عباس سمیت دیگر افسران نے شرکت کی۔ یہ مہتواکانکشی اقدام غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے پنجاب کے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔ “Grow More Wheat Campaign” کے سامنے آنے کے ساتھ ساتھ اپ ڈیٹس کے لیے دیکھتے رہیں۔

پنجاب میں مزید گندم اگاؤ مہم شروع کر دی گئی۔ Read More »

سندھ واٹر چینلز کو جدید بنا رہا ہے۔

کراچی: سندھ میں کل 15 ڈسٹری بیوریز میں سے تین آبی ڈسٹری بیوریز کے لانگ کریسٹ وئیر (ایل سی ڈبلیوز) کو پہلی بار جدید بنایا جا رہا ہے جس کا مقصد پانی کی چوری کو روکنا، پانی کی رفتار کو بہتر بنانا اور زرعی معیشت کو تقویت دینا ہے۔ اور ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن (SWAT) پروجیکٹ۔ “ہم 15 ڈسٹری بیوریز کو جدید بنائیں گے لیکن فی الحال ہم پانی کی سپلائی کو ریگولیٹ کرنے اور ٹیل اینڈ کے کاشتکاروں کے لیے پانی کی رفتار کو بہتر بنانے کے لیے ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر تین کے لمبے کرسٹ ویرز بنانے جا رہے ہیں کیونکہ پانی کی پیمائش کے بغیر انتظام نہیں کیا جا سکتا،” سندھ ایریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (سیڈا) کے منیجنگ ڈائریکٹر پریتم داس نے اگنائٹ پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ “لمبے کرسٹ ویرز واٹر کورس کے داخلی راستے پر پانی کی سطح کو مستقل رکھیں گے۔ وہ (LCWs) تقسیم کاروں کے علاقوں کے لحاظ سے بنائے جائیں گے۔ اس کے بعد ہم کاشتکاروں کا ان پٹ حاصل کریں گے اور انہیں باقی نہروں تک پھیلا دیں گے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ایم ڈی نے نشاندہی کی کہ سیڈا کے کینال ماڈرنائزیشن پراجیکٹ کی مالیت 15 ملین ڈالر ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی محکمہ زراعت سندھ 15 ملین ڈالر کا ایک اور منصوبہ چلا رہا ہے تاکہ کسانوں کو سمارٹ سبسڈی والے بیج، جدید آلات اور نہروں کے مقررہ علاقوں میں تکنیک فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سوات میں چھ مختلف اجزاء شامل ہیں جن پر سیڈا، محکمہ زراعت سندھ اور پروجیکٹ کوآرڈینیٹنگ اینڈ مانیٹرنگ یونٹ کام کر رہے ہیں۔ “سیڈا کے چھ اجزاء میں سے ایک ہے اور یہ جزو چار ذیلی اجزاء پر مشتمل ہے جس میں اکرم واہ (نہر) کی بحالی، نہر کی جدید کاری، دائیں کنارے کی نہر کا مطالعہ اور ایریا واٹر بورڈ کی اپ گریڈیشن شامل ہے۔” تین ایریا واٹر بورڈز جو سیڈا کے تحت آتے ہیں ان میں گھوٹکی فیڈر کینال ایریا واٹر بورڈ، نارا کینال ایریا واٹر بورڈ اور لیفٹ بینک کینال ایریا واٹر بورڈ شامل ہیں جہاں سیڈا نے ابتدائی مرحلے میں ہر ایریا واٹر بورڈ سے تین ڈسٹری بیوریز منتخب کیے ہیں۔ عہدیداروں نے بتایا کہ کاشتکار پانی کے منصفانہ حصہ اور رفتار کو یقینی بنانے کے لیے ایک عرصے سے حکومت پر دباؤ ڈال رہے تھے اور کاشتکاروں کی سہولت اور پانی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے نظام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آبپاشی کے عملے کو ایل سی ڈبلیو سسٹم کے ذریعے پانی کی سطح کو برقرار رکھنا ہو گا اور اگر کسی نے بہتا ہوا پانی چوری کرنے کی کوشش کی تو پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ پرانے زمانے میں پانی کو منظم کرنے کے لیے ہیڈ گیج اور ٹیل گیج نصب کیے جاتے تھے اور پانی کی فراہمی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سندھ آبادگار بورڈ کے صدر سید محمود نواز شاہ نے کہا کہ اب، سندھ کا محکمہ آبپاشی اور خود مختار ادارہ، سیڈا، دونوں ہی پانی سے متعلق مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہیں اور ٹیل اینڈ کے کسان ہمیشہ پانی کی شدید قلت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ “مزید کیا ہے، یہ اچھی بات ہے کہ سیڈا ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر ایک موثر اور جدید پانی کا نظام متعارف کروا رہا ہے۔ ہمیں تحقیق اور ترقی پر توجہ دینی چاہیے، نظام پانی کی رفتار کو بہتر کر سکتا ہے لیکن سندھ میں ناقص گورننس کی وجہ سے پانی کی چوری سے کوئی ریلیف نہیں ملے گا جہاں چوری کو روکنا بہت مشکل ہے۔ اگر یہاں گڈ گورننس ہو تو موجودہ نظام موثر طریقے سے کام کر سکتا ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ شاہ نے کہا کہ پنجاب میں پانی کا بہتر ذخیرہ اور مشینی گیٹس (اسٹرکچر) ہیں، لیکن سندھ میں مایوس کن نظام ہے۔ دریں اثنا، نہر کی جدید کاری کے منصوبے کا 90% فنڈ ورلڈ بینک اور بقیہ 10% سندھ حکومت کے ذریعے دیا گیا ہے۔ $310 ملین مالیت کا SWAT پروجیکٹ، جو اس سال جنوری میں شروع کیا گیا تھا اور چھ سال تک جاری رہے گا، اس کا مقصد آبپاشی کے طریقوں کو جدید بنانا، سمارٹ سبسڈیز کی طرف منتقلی، کمیونٹی سے چلنے والی ترقی، زرعی پانی کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا، مربوط آبی وسائل کے انتظام کو فروغ دینا، سہولت فراہم کرنا ہے۔

سندھ واٹر چینلز کو جدید بنا رہا ہے۔ Read More »

پاکستانی صارفین کو بھی واٹس ایپ چینل بنانے تک رسائی دے دی گئی

دنیا کی سب سے بڑی انسٹنٹ میسیجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ نے پاکستانی صارفین کو بھی چینل نامی فیچر تک رسائی دے دی اور پاکستان میں صارفین 18 اکتوبر سے چینل بنانے کے فیچر کو استعمال کرنے لگے۔واٹس ایپ نے ابتدائی طور پر ’چینل‘ کا فیچر گزشتہ ماہ ستمبر کے وسط میں متعارف کراتے ہوئے اسے 150 ممالک میں پیش کیا تھا۔ پاکستان میں بھی صارفین کو شروع سے ہی چینلز کو دیکھنے کے فیچر تک رسائی دی گئی تھی لیکن پاکستانی صارفین کو چینل بنانے تک رسائی نہیں دی گئی تھی لیکن 18 اکتوبر کو پاکستانی صارفین کو واٹس ایپ پر چینل بنانے کے فیچر تک رسائی دے دی گئی۔چینل فیچر فیس بک پیج کی طرح کا ایک اکاؤنٹ ہے، جہاں کوئی بھی شخصیت یا ادارہ اپنے مواد یا تشہیر کا مواد واٹس ایپ میسیج کرسکتا ہے۔مذکورہ فیچر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ چینل کو صارفین کی جانب سے فالو بھی کیا جاسکتا ہے، تاہم صارف کا فون نمبر یا نام چینل چیٹ میں ظاہر نہیں ہوتا۔نہ ہی کوئیصارف چینل میں میسیج کا ریپلائی کر سکتا ہے، البتہ صارفین کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ چینل کے میسیج کو فارورڈ کر سکے گا۔واٹس ایپ چینل بنانے کا طریقہفون پر واٹس ایپ کھولنے کے بعد اپ ڈیٹس ٹیب پر جائیں، جہاں صارفین کی اسٹوریز نظر آتی ہیں۔اسٹوریز کے بلکل آخر میں چینلز نظر آئیں گے، وہاں چینلز کے ساتھ پلس+ کے نشان کو کلک کریں۔پلس کے نشان کو کلک کرنے کے بعد ’کریئیٹ نیو چینل‘ کا آپشن آئے گا، اسے کلک کرنے کے بعد آسانی سے چینل بنایا جا سکتا ہے۔چینل کے لنک کو دوستوں اور گروپس کے ساتھ شیئر کریں، وہ آپ کے چینل کو فالو کریں گے، وہ آپ کے چینل پر کوئی پیغام بھیج نہیں سکیں گے،وہ صرف آپ کے پیغامات وصول کریں گے۔چینل بنانے والے شخص یا ادارے کو فالو کرنے والے افراد کے فون نمبر یا نام بھی نظر نہیں آئیں گے، البتہ انہیں فالو کرنے والے افراد کی تعداد معلوم ہوجائے گی۔

پاکستانی صارفین کو بھی واٹس ایپ چینل بنانے تک رسائی دے دی گئی Read More »

سکرنڈ آپریشن میں 4 شہریوں کی ہلاکت، انکوائری میں مہلک غلطیوں کا انکشاف

گزشتہ ماہ سندھ میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ہاتھوں ماڑی جلبانی گاؤں کے چار مقامی لوگوں کے قتل کی تحقیقات کرنے والے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے بدانتظامی، غلط فہمی اور کوتاہیوں کا انکشاف کیا ہے جس کی وجہ سے معصوم لوگوں کی جانیں گئیں۔ ایگناہٹ پاکستان  کی رپورٹ کے مطابق 28 ستمبر کو سہ پہر 3 بجے کے قریب سندھ رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 60 سے 70 اہلکاروں نے ’سیکیورٹی آپریشن‘ کے لیے ضلع شہید بینظیر آباد میں واقع ماڑی جلبانی گاؤں میں چھاپہ مارا۔ اہلکاروں کے رہائشی عمارت میں داخل ہونے کے بعد مقامی لوگوں کے ساتھ کشیدگی کے نتیجے میں چار بے گناہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے، جھڑپوں میں چار سیکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے .اسی روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ واٹس ایپ پر گردش کرنے والے رینجرز کے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ آپریشن کے دوران ہائی پروفائل عسکریت پسند مارے گئے ہیں سندھ کے نگران وزیر داخلہ نے بھی واقعے کو رینجرز پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ خودکش حملہ آور کو پکڑنے کے لیے آپریشن کیا جا رہا تھا کہ ملزمان نے اہلکاروں پر حملہ کردیا۔ تاہم ان ہلاکتوں کے بعد گاؤں کے مکینوں کی جانب سے قومی شاہراہ کو بلاک کرنے کے بعد آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کیا گیا، بعد ازاں نگران وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی گئی اور واقعے کے ایک ہفتے بعد سندھ ہائی کورٹ میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کے لیے بھی درخواست دائر کی گئی تھی، ایچ آر سی پی نے 2 اکتوبر کو مقامی لوگوں سے ملاقات کے بعد اپنا فیکٹ فائنڈنگ مشن تشکیل دیا تھا۔ ایچ آر سی پی رپورٹ کے نتائج ایچ آر سی پی نے رپورٹ کیا کہ 28 ستمبر کی سہ پہر شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کے 24 سالہ طالب علم لیاقت جلبانی کو قانون نافذ کرنے والوں کی تحویل میں گاؤں لایا گیا۔ لیاقت جلبانی اس سے قبل کہاں تھا، اس حوالے سے کچھ معلوم نہیں تھا، مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس کی شناخت چھپانے کے لیے اس کا چہرہ کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ بعد میں پولیس نے ایچ آر سی پی کو بتایا کہ سیکورٹی فورسز نے اسے صرف اس لیے اٹھایا تھا تاکہ اسے گاؤں تک جانے میں مدد کے لیے بطور ’معاون‘ استعمال کیا جاسکے۔ایک مقامی عینی شاہد مٹھل جلبانی نے بتایا کہ کچھ سادہ لباس اور کچھ پولیس و رینجرز کی وردیوں میں ملبوس تقریباً 60 سے 70 قانون نافذ کرنے والے اہلکار ایک عمارت میں داخل ہوئے جہاں دیہاتیوں نے عارضی گھر بنا رکھے تھے۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو بتایا کہ وہ بجلی چوری میں ملوث لوگوں کی تلاش کر رہے ہیں، بغیر کسی وارننگ کے انہوں نے ایک شخص اللہ داد جلبانی کے گھر کی تلاشی لی، تلاشی کے دوران اللہ داد کے پڑوسی 35 سالہ سجاول جلبانی نے اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی کی۔ زبانی تکرار کے بعد سجاول جلبانی نے سیکیورٹی اہلکاروں کو للکارا، جواب میں متعدد گولیاں چلائی گئیں، تبادلے کے دوران 30 سالہ نظام دین سجاول جلبانی کو بچانے کے لیے آیا لیکن وہ بھی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا، اس کے بعد ہونے والی افراتفری کے دوران سیکیورٹی اہلکار شدید فائرنگ کی آڑ میں پیچھے ہٹ گئے، چھ دیگر دیہاتی بھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ بعد ازاں گاؤں کے دو افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 30 سالہ سارنگ، 55 سالہ اللہ داد جلبانی، 32 سالہ امام دین اور علی نواز کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، سارنگ اور علی نواز کو طبی امداد دیے جانے کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا۔ ایچ آر سی پی نے کہا کہ اگرچہ آپریشن کیے جانے کے لیے خطرے کی اصل نوعیت تاحال واضح نہیں ہے، ریاست اور قانون نافذ کرنے والے حکام کو چار شہریوں کی ہلاکت اور دیگر کے زخمی ہونے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ ایچ آر سی پی ٹیم نے یہ بھی سفارش کی کہ صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ انکوائری کمیٹی کے ذریعے واقعے کی منصفانہ، جامع اور مکمل شفافیت کے ساتھ تحقیقات کرائی جائیں۔ اس کے علاوہ لیاقت جلبانی کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے میں ملوث افراد کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جانی چاہیے، اس نے سفارش کی کہ حکومت متاثرہ خاندانوں اور لیاقت جلبانی کی مدد کرے اور انہیں معاوضہ فراہم کرے۔

سکرنڈ آپریشن میں 4 شہریوں کی ہلاکت، انکوائری میں مہلک غلطیوں کا انکشاف Read More »

بنگلہ دیشی سائنسدان نے چاول کی کاشت کا نیا طریقہ ‘پنچابریہی’ دریافت کر لیا۔

ڈاکٹر عابد چودھری نامی بنگلہ دیشی سائنسدان نے حال ہی میں پیداوار کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے جس میں ایک درخت پر مختلف موسموں کے لیے چاول کی چار اضافی اقسام کاشت کی جا سکتی ہیں۔ ڈاکٹر چودھری نے ‘پنچابریہی’ کے نام سے موسوم کیا، چاول کی پیداوار کی اس نئی قسم کو کٹائی کے بعد درخت کو مکمل طور پر ہٹانے کی ضرورت کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر چودھری نے 12 اکتوبر کی شام لندن بنگلہ پریس کلب کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں اس دریافت کے بارے میں صحافیوں کو آگاہ کیا۔ اسے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے غذائی بحران کے خاتمے کے لیے ایک تاریخی دریافت قرار دیا جا رہا ہے جو کہ قدرتی آفات سے متاثر ہے۔ آفات، سیلاب پرو ڈاکٹر چودھری کے مطابق، بنگلہ دیش ملک بھر کے کسانوں میں چاول کی کاشت کی اس تکنیک کو پھیلا کر اگلے 50 سالوں تک اپنی پوری آبادی کے لیے ممکنہ طور پر غذائی تحفظ کی ضمانت دے سکتا ہے۔ سلہٹ کے ایک علاقے میں کسانوں کے ساتھ ایک طویل عرصے تک وسیع تحقیق کرنے کے بعد، انہوں نے غیر کیمیاوی سائنسی طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے چاول کے پودوں کی پانچ اقسام دریافت کیں، چاول کی تقریباً تین ہزار اقسام کو ملا کر پانچ مختلف اقسام کے پودے لگانے کو غیر ضروری بنا دیا۔ کاشت کے لیے چاول کے پودے انہوں نے کہا کہ اس دریافت سے نہ صرف کسانوں کا وقت بلکہ ان کے پیسے کی بھی بچت ہوگی۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان کے چاول کی پیداوار کا نیا طریقہ تجارتی طور پر استعمال کیا جائے گا یا سب کو مفت تقسیم کیا جائے گا، ڈاکٹر چودھری نے کہا کہ اس معاملے پر کافی سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنی ایجاد کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کروں گا، میں اسے میرے ملک کے غریب کسانوں کودستیاب کراؤں گا۔ ” انہوں نے مزید کہا، “میری دریافت کی تجربہ گاہ سلہٹ کے ایک دلکش گاؤں میں ہے جہاں میں نے اپنے ابتدائی سال گزارے ہیں۔ وہاں میرے تحقیقی شراکت دار عاجز اور محنتی کسان تھے، جو بنگال کے پانی اور کیچڑ کی خوشبو میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہوں نے پورے دل سے میرا بھرپور ساتھ دیا۔ فیلڈ ریسرچ۔ مذہب اور سائنس ان کے دلوں میں ہم آہنگی سے موجود ہیں۔” چودھری نے دنیا کو غیر معمولی زرعی اختراعات سے نوازنے کا عہد کیا۔ انہوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ ان کی دریافت سے بنگلہ دیشی شہریوں کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی۔ “میرا ارادہ کبھی بھی اپنی ایجاد کو تجارتی فائدے کے لیے استعمال کرنا نہیں تھا۔ اس کے بجائے، میں نے اپنے ہم وطنوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اس دریافت کو بروئے کار لانے کا ارادہ کیا۔ یہ میرے وطن کے لوگوں کے لیے خوراک کی حفاظت کو مضبوط کرے،” انہوں نے کہا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ‘پنچابڑی’ کی کاشت ایک چاول کے درخت سے بورو کی ایک، دو آمن اور دو آش کی پیداوار کی اجازت دیتی ہے۔ جین سائنسدان ڈاکٹر عابد چودھری اس وقت بنگلہ دیش میں جدید حیاتیات کے سرکردہ محققین میں سے ایک ہیں۔ اس کی ایجادات میں رنگین مکئی بھی شامل ہے جو تجربہ کار سائنسدان کے مطابق کینسر سے بچنے والی ادویات کی طرح کام کر سکتی ہے۔ انہوں نے امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، اور فرانس کے ایکول نارمل سپریور سمیت معزز اداروں میں پڑھایا اور تحقیق کی ہے۔

بنگلہ دیشی سائنسدان نے چاول کی کاشت کا نیا طریقہ ‘پنچابریہی’ دریافت کر لیا۔ Read More »