Pakistan

Police Officer Swindled

ریٹائر ڈ پولیس افسر کو فراڈیوں نے ایک کروڑ56لاکھ روپے کا ٹیکہ لگا دیا

ساہیوال( این این آئی) ریٹائرڈ پولیس آفیسر کو بھٹہ خشت میں حصہ ڈال کر ایک کروڑ56لاکھ روپے کی نقدی سے محروم کر دیا۔تفصیلات کے مطابق الطاف حسین کو پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعدکیش ملا تو ریٹائرڈ آفیسر نے اپنے دوستوں امانت علی اور رانا محمود کے ساتھ ایک کروڑ56لاکھ روپے حصہ بھٹہ خشت میں ڈال دیا بعد میں منافع50لاکھ48ہزار584روپے ہو گیا تو حسا ب کے بعد ملزم اپنے دو منشی جہانگیر،سعید احمد سمیت رفو چکر ہو گئے جس پر پولیس نور شاہ نے فراڈیوں امانت،رانا محمود،منشی جہانگیر،سعید منشی سمیت چار ملزموں کے خلاف الطاف حسین کی مدعیت میں مقدمہ406,471,468,467,420ت پ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ۔ ابھی تک ملزم گرفتار نہیں ہو سکے ۔

ریٹائر ڈ پولیس افسر کو فراڈیوں نے ایک کروڑ56لاکھ روپے کا ٹیکہ لگا دیا Read More »

Sindh Mail, Thar

سندھ میل: صحرائے تھر کی ریل جسے تقسیم بھی نہ روک سکی

دنیا میں عمومی طور پر ریل گاڑی محض ایک وسیلہ سفر کے طور پر دیکھی جاتی ہے لیکن برِصغیر میں ریل کی آمد کو تہذیبی واقعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وسیلہ سفر کے ساتھ یہ وسیلہ ظفر بھی ثابت ہوئی اور بقول کسے جب سے ریل چلی ہے لوگ اپنی بیٹیوں کو دُور دُور بیاہنے لگے ہیں۔ ریل نے محض فاصلے ہی نہیں سمیٹے بلکہ یہ لوک داستانوں سے لے کر شعر و ادب کا بھی حصہ بن گئی۔ ریل نے جہاں دُور دیس کے باسیوں کو ایک دوسرے سے قریب کیا وہیں اس کے چلنے سے نئی ثقافت کا آغاز ہوا۔ نہ صرف اردو ادب میں ریل اور اس کی سیٹی ایک استعارہ ہیں بلکہ مختلف علاقوں کے لوک ادب میں بھی ان علامتوں سے رنج اور خوشی جڑی ہوئی ہے۔ یہ خوشی اور غم، ملنے بچھڑنے، ہجر کی تکلیف اور وصل کے کیف آگیں لمحات کا استعارہ ہے۔ یوں ریل کا چلنا ایک ایسا واقعہ تھا جس کا بیان ہنوز جاری و ساری ہے۔ شہر کی وہ سڑک جو ریلوے اسٹیشن کی طرف مڑتی ہے اس کا ماحول ہی باقی شہر سے مختلف ہوتا ہے۔ انگریز سرکار نے صرف بڑے شہروں کو ہی ریل کے ذریعے نہیں جوڑا بلکہ چھوٹے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی آج تک اداس اور ویران کھڑے اسٹیشن یہ بتا رہے ہیں کہ کبھی یہاں بھی ریل چلتی تھی، مسافر چڑھتے اور اترتے تھے۔ اب تو ان عمارتوں میں ویرانی کی رہائش ہے لیکن کسی وقت یہاں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہوگی۔ اب جب راولپنڈی سے چلنے والی ریل کراچی تک محض چند مقامات پر رکتی ہے تو راستے میں چھوٹے اسٹیشن اس قدر تیزی سے گزر جاتے ہیں جیسے خیالات کی یلغار میں کسی اجنبی کا چہرہ گزرتا ہے۔ بس دھندلی سی یاد اور اگلی سوچ اس کو مزید دھندلا دیتی ہے۔ برطانوی راج میں ریلوے محض سرکار نے ہی نہیں چلائی بلکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت برطانوی شہری بھی یہاں سرمایہ کاری کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں پورے برِصغیر میں ریل کا جال بچھ چکا تھا۔ ریلوے کی آمد سے دُور دراز کے وہ علاقے بھی باہم مل گئے جن کا اس سے قبل تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ وہ فاصلہ جو مہینوں میں طے ہوتا تھا دنوں میں طے ہونے لگا۔ یہ احساس اور سرخوشی کہیں ریل کی تعریف میں گیتوں میں ڈھل گئی اور کہیں لوک داستانیں پٹریوں پر سفر کرنے لگیں۔ صحرائے تھر کا ذکر کیا جائے تو ذہن کے پردوں پر تاحدِ نگاہ ریت، پیاس اور افلاس کی تصویریں نمایاں ہونے لگتی ہیں لیکن برطانوی راج کی ’برکت‘ سے اس علاقے میں بھی ریل کی پٹری بچھی۔ جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا! دُور دراز تک پھیلی ریت میں جب ریل کی پٹری نظر آتی ہے تو پہلی بار حیرت ہوتی ہے، لیکن جلد ہی یہ حیرت خوشی میں بدل جاتی ہے۔ اسی سبب سے صحرا کے گیتوں میں آج بھی ریل کی یاد باقی ہے۔ ریل کی سیٹی بھلے خاموش ہوگئی ہو لیکن اس کو یاد کرکے غمزدہ ہونے والے عشاق ابھی باقی ہیں اور اس کی کہانیاں کہنے والے فنکار ہنوز سلامت ہیں۔ ریل تو بند ہوگئی مگر پٹری باقی ہے۔ عمارتوں میں گو اداسی بال کھولے سورہی ہے لیکن یہ ابھی تک اپنے پیروں پر کھڑی ہیں۔ کھوکھرا پار اور موناباؤ کے اسٹیشن سیاست کی نذر ہونے کے باوجود ابھی تک سہانی یادوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ سلامت ہیں جو کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، عمرکوٹ اور چھور سے ریل پر سوار ہوئے اور سرحد کی لکیر کے دوسری طرف جودھ پور، گجرات، بمبئی اور دہلی کے اسٹیشنوں پر جا اترے اور اسی ریل سے ہی واپس اپنی دھرتی پر آئے۔ یہ سب 50 برس اُدھر کا واقعہ ہے، درمیان میں ہجر کی ایک لمبی سیاہ رات پڑتی ہے جس میں پٹری اور اسٹیشن تو ویران اور اداس رہے مگر سرحد کے دونوں طرف آباد شہری ایک دوسرے کی ملاقات کو ترستے رہے حالانکہ کہنے کو محض چند میٹر کا فاصلہ تھا۔ پرویز مشرف دور میں جب پاک-بھارت تعلقات میں بہتری آئی تو کراچی تا جودھ پور ’تھر ایکسپریس‘ دوڑنے لگی اور لوگوں کو یوں لگا کہ یہ واقعہ پہلی بار ہورہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس راستے پر قیامِ پاکستان سے قبل بھی ٹرین چلتی تھی اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1965ء تک چلتی رہی۔ 1965ء کی جنگ کی زد میں آکر یہ بند ہوگئی۔ اس مسافر ٹرین کا نام ’سندھ میل‘ تھا اور یہ کراچی اور بمبئی کے درمیان چلا کرتی تھی۔ کہانیوں میں اس ریل کا تذکرہ ’راجہ کی ریل‘ کے نام سے بھی ملتا ہے کیونکہ اسے چلانے میں جودھ پور کے راجہ کا بھی ہاتھ تھا۔ 1843ء سے 1847ء تک سندھ کے گورنر رہنے والے چارلس جیمز نیپئر کا زمانہ سندھ کے لیے گویا مارشل لا کا زمانہ تھا۔ سندھی حکمرانوں کی شکست ہوئی اور انگریزوں کے قدم مزید مضبوط ہوئے۔ اس کی یہاں سے رخصتی کے بعد سندھ کا بمبئی سے الحاق کردیا گیا اور ہنری ایڈورڈ فریئر کی بطور کمشنر تعیناتی ہوئی۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کے نام پر کراچی کا فریئر ہال ہے۔ انہی کی دُور اندیشی کی وجہ سے کراچی کی قسمت کھلی اور یہاں سے ریل کا آغاز ہوا۔ فریئر نے حکومت سے کراچی کو بندرگاہ بنانے اور اسے زمینی راستے سے باقی ہندوستان سے ملانے کی سفارش کی۔ اجازت ملنے کے بعد سروے کا آغاز ہوا اور ابتدائی طور پر کراچی تا کوٹری لائن بچھائی گئی۔ 13 مئی 1861ء وہ یادگار دن تھا جب کراچی شہر اور کوٹری کے درمیان 169 کلومیٹر کا راستہ طے کرتے ہوئے پہلی مسافر ریل گاڑی نے اپنا سفر مکمل کیا۔ اونٹوں پر ہونے والا سفر ریل گاڑی میں بدلنا ایک انقلاب تھا جس سے نہ صرف سفر میں تیزی آئی بلکہ رہزنوں سے بھی جان چھوٹ گئی اور یہ سفر دن رات ہونے لگا۔ اگلے کچھ برس میں کوٹری سے حیدرآباد اور پھر حیدرآباد تا ملتان بھی ریل چلنی شروع ہوگئی۔ یوں کراچی کا زمینی رابطہ پورے ہندوستان سے ہوگیا اور نقل و حمل میں آسانی ہوگئی لیکن یہ رابطہ ابھی نامکمل

سندھ میل: صحرائے تھر کی ریل جسے تقسیم بھی نہ روک سکی Read More »

پنجاب میں ایک ہفتے کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار

لاہور : (ایگنایٹ پاکستان) سموگ کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر نگران حکومت کا اہم فیصلہ، پنجاب بھر میں ایک ہفتے کے لیے فیس ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے ، ہر شہری کو ایک ہفتے کے لیے ماسک پہننا ہوگا، صوبائی حکومت نے پنجاب کے سموگ سے متاثرہ اضلاع میں تمام شہریوں کے لیے چہرے کے ماسک پہننے کے لیے ایک ہفتے کے مینڈیٹ کا اعلان کیا۔ ماسک کی پابندی لاہور ڈویژن اور گوجرانوالہ ڈویژن کے اضلاع میں نافذ العمل ہوگی۔ نگراں وزیرِ اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ صحت کو ترجیح دینا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے، براہ کرم ایک محفوظ کمیونٹی کے لیے رہنما خطوط پر عمل کریں ۔ واضح رہے کہ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں آج بھی اور کئی دنوں سے فضائی آلودگی کی صورتحال خطرناک ہے، کئی شہروں میں سموگ کے باعث نزلہ زکام، بخار اور گلے میں انفیکشن کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

پنجاب میں ایک ہفتے کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار Read More »

کیا علی گڑھ کا نام پاکستان کی مخاصمت میں بدلا جا رہا ہے؟

پانچ نومبر کو علی گڑھ میونسپل کارپوریشن نے ایک قرارداد پاس کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ شہر کا نام علی گڑھ سے بدل کر ہری گڑھ رکھا جائے۔ یہ قرار داد بی جے پی سے تعلق رکھنے والے شہر کے میئر پرشانت سنگھال نے پیش کی جسے حتمی منظوری کے لیے لکھنو میں بی جے پی کی حکومت کو بھیج دیا گیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے یہ مطالبہ 2019 سے کیا جا رہا ہے جب الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج رکھ دیا گیا تھا۔ علی گڑھ پر پچھلے 10 سال سے بی جے پی کی حکمرانی ہے۔ انڈیا کے سابق صدر ذاکر حسین، سابق نائب صدر حامد انصاری، حسرت موہانی، اداکار نصیر الدین شاہ، نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر کا تعلق علی گڑھ سے ہی ہے۔ انڈیا نے اپنے قیام سے لے کر اب تک تقریباً 100سے زیادہ قصبوں اور شہروں کے نام تبدیل کیے ہیں جس کے پیچھے شروع میں وجوہات مختلف تھیں اور زیادہ تر شہروں کے نام تبدیل کرنے کی وجہ نو آبادیاتی نشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا تھا۔ تاہم انتہا پسند گروہ آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی بی جے پی نے ان شہروں کے تاریخی نام بھی بدلنے شروع کر رکھے ہیں جن کے پیچھے مسلم شناخت ہے۔ اس کی وجہ سے انڈیا کے سیکولر حلقے شدید تحفظات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ 2000 سے پہلے صرف آٹھ شہروں کے نام بدلے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر کے نام تبدیل کرنے کے پیچھے حروف تہجی کی ترتیب تھی۔ مثال کے طور پر جبول پورے کو جبل پور، کاؤن پورے کو کان پور، بروڈا کو ودودا، بمبئی کو ممبئی، کوچین کو کوچی اور کلکتہ کو کولکتہ پکارا جانے لگا، مگر بعد میں جو نام بدلے گئے ان کے پیچھے دراصل ہندو توا کے نظریات تھے جو شہروں کی مسلم شناخت کی جگہ ہندو شناخت رائج کرنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی نے شہروں کے نام بدلنے کی جو روش شروع کی تھی وہ ملک کا نام بدلنے پر منتج ہو چکی ہے اور اب بی جے پی انڈیا کی بجائے سرکاری دستاویزات میں لفظ بھارت استعمال کر رہی ہے کیونکہ اسے اب آ کر معلوم ہوا کہ لفظ انڈیا کی مناسبت تو انڈس ویلی سے ہے اور یہ علاقے اب پاکستان میں آتے ہیں۔ ماضی میں مدراس کو چنائی ، دلتنگ گنج کو مدینی نگر ، میسور کو مے سورو ، بیجا پور کو ویجیا پور، گرگان کو گرو گرام ، ہوشنگ آباد کو نرمادا پورم ،اورنگ آباد کو چھترا پتی سمبھاج نگر ، عثمان آباد کو دھراشیو ،گوہاٹی کو گواٹھی ، گلشن آبادکو ناشک ، پونا کو پونے ،بھوپال کو بھوج پال، الہ آبادکو پریاگ راج ، فیض آباد کو ایودھیہ وغیرہ سے بدلنا اس کی چند مثالیں ہیں ۔ آگرہ ،جہاں تاج محل ہے ،اس کا نام بھی بدل کر اگروان یا اگروال رکھنے کی تجویز ہے۔ علی گڑھ کا تحریک پاکستان میں کردار دو قومی نظریے کا بانی سرسید احمد خان کو کہا جاتا ہے جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھی جو 1920ء میں یونیورسٹی بن گئی۔ یہی ادارہ مسلم سیاست کا محور ثابت ہوااور یہیں سے تحریک پاکستان پروان چڑھی۔مسلم لیگ کی قیادت میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ پاکستان بننے کے بعدبھی پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ، صدر ایوب خان ، چوہدری فضل الہٰی ، حبیب اللہ خان مروت ، گورنر جنرل غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین ، یہ سب علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ قائد اعظم بھی یہاں کئی بار طلبا سے خطاب کرنے آئے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی یہ مسلم شناخت اس وقت سے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے جب سے انڈین سیاست میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا ۔ پہلے مطالبہ کیا گیا کہ یہاں سے سرسید احمد خان اور قائداعظم کی تصاویر ہٹائی جائیں،پھر مہم چلائی گئی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے لفظ مسلم ہٹایا جائے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کی سیکولر شناخت متاثر ہوتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے 2019 میں یونیورسٹی کا نام بدلنے کی اپیل رد کر دی۔ اب علی گڑھ کا نام ہی بدلنے کی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے ۔انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے شہر کا نام علی گڑھ سے ہری گڑھ یا رام گڑھ رکھنے کا مطالبہ ساٹھ اور ستر کی دہائی سے کیا جاتا رہا ہے ۔ علی گڑھ کے نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ علی گڑھ کا پرانا نام کول تھا، جو بارہویں صدی تک جین مت کے ماننے والوں کا ایک شہر سمجھا جاتا تھا، یہاں جین مت کے قدیم مندر بھی موجود ہیں ۔ کول شہر کی ایک مسجد اور ٹاور کا خاکہ۔ ایک روایت کے مطابق کول کی بنیاد راجپوتوں نے 372 ق م میں رکھی تھی (کیپٹن رابن سمتھ/پبلک ڈومین) کول کی وجہ شہرت شراب کی کشید تھی۔ 1879 کے ڈسٹرکٹ گزیٹئر کے مطابق کول کا نام ایک سورمے بالا راما سے جوڑا جاتا ہے جو گنگا جمنا دو آب میں کول کے نام سے معروف تھا ۔ ایک اور روایت کے مطابق کول کی بنیاد ڈور راجپوتوں نے 372 ق م میں رکھی تھی، جب محمود غزنوی ہندوستان آیا تو تب شہر پر ہردتہ آف بورن کی حکمرانی تھی۔ قطب الدین ایبک کے دور میں کول مسلم سلطنت کا حصہ بنا ۔ غیاث الدین بلبن نے یہاں ایک مینار تعمیر تروایا جس پر سن تعمیر 1252 درج تھا جو شہر پر انگریزوں کے حملوں کے وقت تباہ ہو گیا۔ جسے بعد میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی تعمیر کے وقت محفوظ بنایا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میوزیم کا حصہ ہے ۔ علاؤالدین خلجی کے دور میں اسے صوبے کا درجہ ملا۔ چودہویں صدی میں ہندوستان آنے والے سیاح ابن بطوطہ کے مطابق کول ایک خوبصورت شہر ہے جو آموں کے باغات میں گھرا ہوا ہے اور اس وجہ سے اسے سبز آباد بھی کہا جاتا ہے۔ 1524 میں یہاں ابراہیم لودھی نے قلعہ بنایا ۔اکبر کے عہد میں کول صوبہ آگرہ کا حصہ

کیا علی گڑھ کا نام پاکستان کی مخاصمت میں بدلا جا رہا ہے؟ Read More »

پنجاب میٹرک 2024 کے سالانہ امتحانات کی تاریخ کا اعلان

ایک اہم پیش رفت میں، چیئرمینوں کی پنجاب تعلیمی بورڈز کمیٹی نے 2024 کے میٹرک کے سالانہ امتحانات کے شیڈول کو باضابطہ طور پر سبز کر دیا ہے۔ صوبہ بھر کے طلباء بشمول بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فیصل آباد کے تحت، اپنے کیلنڈرز پر یکم مارچ 2024 کو ان اہم امتحانات کے آغاز کی تاریخ کے طور پر نشان زدہ  کر سکتے ہیں۔ ہموار اور بروقت عمل کو یقینی بنانے کے لیے حکام نے داخلے کا تفصیلی شیڈول تیار کیا ہے۔ میٹرک کے امتحان میں شرکت کے خواہشمند امیدوار 15 نومبر سے 12 دسمبر تک ایک ہی فیس کے ساتھ اپنے داخلہ فارم جمع کرا سکتے ہیں۔ جن لوگوں کو تھوڑا سا مزید وقت درکار ہے، ان کے لیے 13 دسمبر سے 25 دسمبر تک ڈبل فیس کا آپشن دستیاب ہوگا۔ تاخیر کا مشورہ نہیں دیا جاتا، کیونکہ 26 دسمبر سے 3 جنوری تک فارم جمع کرانے والوں کے لیے تین گنا فیس کا اختیار موجود ہے۔ خواہشمند طلباء کے لیے ان آخری تاریخوں پر عمل کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ 3 جنوری کو کٹ آف کے بعد کوئی داخلہ فارم نہیں لیا جائے گا۔ یہ میٹرک کے سالانہ امتحانات میں حصہ لینے کی تیاری کرنے والوں کے لیے ابتدائی منصوبہ بندی اور فوری کارروائی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ یکم مارچ 2024 کی ہم آہنگی شروع ہونے کی تاریخ کا مقصد پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز کے طلباء کے لیے ایک یکساں کھیل کا میدان بنانا ہے۔ اس یکسانیت سے امتحانی عمل کو ہموار کرنے اور طلباء کی تعلیمی قابلیت کی منصفانہ تشخیص میں تعاون کی توقع ہے۔ تعلیمی ماہرین کا خیال ہے کہ داخلہ فارم کے لیے واضح آخری تاریخ مقرر کرنا نہ صرف ایک منظم اور موثر عمل کو یقینی بناتا ہے بلکہ طلبہ کو اپنے تعلیمی سفر کی ذمہ داری لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ متعدد فیس جمع کروانے کے ادوار کی دستیابی امیدواروں کے لیے لچک فراہم کرتی ہے، ان مختلف حالات کو پورا کرتے ہوئے جن کا انہیں سامنا ہو سکتا ہے۔ جیسے ہی گھڑی 1 مارچ کی کِک آف کی طرف ٹک رہی ہے، طلباء پر زور دیا گیا کہ وہ داخلے کی مخصوص کھڑکیوں سے فائدہ اٹھائیں اور آئندہ میٹرک کے سالانہ امتحانات کے لیے تندہی سے تیاری کریں۔

پنجاب میٹرک 2024 کے سالانہ امتحانات کی تاریخ کا اعلان Read More »

داماد صاحب! سیاست کے بجائے پرفارمنس پر توجہ دیں؛ حریم کا شاہین کو مشورہ

قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان بننے پر شاہین شاہ آفریدی نے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) کا رُخ کیا جہاں اُنہوں نے شائقین کرکٹ کے لیے ایک پوسٹ جاری کی شاہین شاہ آفریدی نے کہا کہ “میں اپنی قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کی قیادت کرنے کے لیے پُرجوش ہوں، میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اور شائقین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میرے اوپر بھروسہ کیا”۔ اُنہوں نے کہا کہ “میں اپنی ٹیم اسپرٹ کو برقرار رکھنے اور کرکٹ کے میدان میں اپنی قوم کا نام روشن کرنے کے لیے پوری کوشش کروں گا، ہماری ٹیم کی کامیابی اعتماد، اتحاد اور محنت میں ہے”۔ شاہین شاہ نے مزید کہا کہ “ہم صرف ایک ٹیم نہیں بلکہ ہم ایک فیملی ہیں، ہمارے اندر بھائی چارہ ہے”۔ اس پوسٹ پر جہاں شائقین کرکٹ کی جانب سے تبصرے کیے گئے تو وہیں ٹک ٹاکر حریم شاہ ہر بار کی طرح اس بار بھی خاموش نہ رہ سکیں۔ حریم شاہ نے شاہین آفریدی کی پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “داماد صاحب! سیاست سے زیادہ اپنی پرفارمنس پر توجہ دیں”۔ واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہین آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی اور شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان مقرر کردیا جبکہ مکی آرتھر کی جگہ محمد حفیظ نئے ٹیم ڈائیرکٹر ہوں گے۔

داماد صاحب! سیاست کے بجائے پرفارمنس پر توجہ دیں؛ حریم کا شاہین کو مشورہ Read More »

پاکستان میں نئی الیکٹرک کار’ایم جی 4‘ متعارف کرا دی گئی

  پاکستان کی طرف سے نئی الیکٹرک کار’ایم جی 4‘ متعارف کرا دی گئی۔ اس کار کی تعارفی تقریب کراچی میں منعقد ہوئی۔ یہ گاڑی دو ماڈلز میں متعارف کرائی گئی ہے، جنہیں ’ایکسائٹ‘ (Excite)اور ’ایسنس‘(Essence)کے نام دیئے گئے ہیں۔ یہ گاڑی چین میں رواں سال جون میں متعارف کرائی جا چکی ہے۔ ایم جی فور 240ہارس پاور اور 250نیوٹن میٹر ٹارک پیدا کرتی ہے۔ اس طاقت کے ساتھ یہ گاڑی 7.2سیکنڈز میں صفر سے 100کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایم جی فور ریئر وہیل ڈرائیو سسٹم کے ساتھ لانچ کی گئی ہے، جس کے ڈیش بورڈ پر ایپل کار پلے اور اینڈرائیڈ آٹو کے ساتھ 10.25انچ کی ڈیجیٹل ٹچ سکرین دی گئی ہے۔ اس گاڑی کی بیٹری صرف 35منٹ میں 10فیصد سے 80فیصد تک چارج ہو سکتی ہے۔گاڑی کے دونوں ماڈلز مختلف بیٹری پیکس اور مختلف قیمتوں کے ساتھ متعارف کرائے گئے ہیں۔  ایم جی 4کا 51کلو واٹ آور بیٹری پیک کا حامل ماڈل ایک بار ری چارج کرنے پر350کلومیٹر سفر کرسکتا ہے او راس کی قیمت 1کروڑ 9لاکھ 99ہزار روپے ہے۔ اسی طرح ایم جی 4ایسنس کی قیمت 1کروڑ 29لاکھ 90ہزار روپے ہے، جو 64کلوواٹ بیٹری پیک کے ساتھ آتی ہے۔ اس بیٹری پیک کے ساتھ ایک ری چارج میں یہ گاڑی 450کلومیٹر سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایم جی فو پاکستان بھر میں ایم جی ڈیلرشپس پر دستیاب ہے۔

پاکستان میں نئی الیکٹرک کار’ایم جی 4‘ متعارف کرا دی گئی Read More »

سموگ، 18 نومبر کو لاہور، ننکانہ، شیخوپورہ گوجرانوالہ سمیت 10 اضلاع میں تعلیمی ادارے بند رہیں گے، نوٹیفکیشن جاری

  لاہور (ایگنایٹ پاکستان) پنجاب حکومت نے سموگ کے باعث ہفتہ 18 نومبر کو تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق 18 نومبر کو لاہور‘ ننکانہ صاحب‘ شیخوپورہ‘ قصور‘ گوجرانوالہ‘ گجرات سمیت دس اضلاع میں تمام سکولز‘ کالجز اور یونیورسٹیاں بند رہیں گی۔ مارکیٹیں‘ دکانیں‘ جم‘ سینما دوپہر 3 بجے کھلیںگے۔

سموگ، 18 نومبر کو لاہور، ننکانہ، شیخوپورہ گوجرانوالہ سمیت 10 اضلاع میں تعلیمی ادارے بند رہیں گے، نوٹیفکیشن جاری Read More »

گیلانی خاندان قومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے الیکشن لڑے گی، یوسف رضا گیلانی

پیپلزپارٹی رہنما یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیان میں کہا گیلانی خاندان قومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے الیکشن لڑے گی،کوئی سروکار نہیں میرے مقابلےمیں کون امیدوار آئے گا۔ ملتان میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئےکہا لیول پلئنگ فیلڈ فراہم نہ کی گئی توجمہوریت کونقصان ہوگا،میں اپنےپرانےحلقےاین اے148سےالیکشن لڑوں گا،کوئی نجومی نہیں کہ بتاسکوں پنجاب میں کتنی سیٹیں جیتیں گے۔ پیپلزپارٹی جلد اپنے منشورکا اعلان کرےگی، الیکشن میں تمام لوگوں کو یکساں مواقع ملیں گے،ہماری تمام تیاریاں مکمل ہیں،الیکشن کے بعد معاشی استحکام آئے گا۔اس وقت ملک بحرانوں کا شکار ہے،پیپلز پارٹی ہی ملک کو تمام بحرانوں کو نکال سکتی ہے۔ 9مئی میں ملوث افراد کے مستقبل کافیصلہ عدالت نےکرنا ہے۔

گیلانی خاندان قومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے الیکشن لڑے گی، یوسف رضا گیلانی Read More »

کیا جو کی فصل گندم کا متبادل ہو سکتی ہے؟

  پاکستان کو وقتاً فوقتاً گندم کی قلت کا سامنا رہا ہے، جو کہ ملک کے پاس موجود زرعی وسائل کے پیش نظر افسوس کی بات ہے۔ یہ خاص طور پر حیران کن ہے کیونکہ پاکستان میں عام طور پر گندم کو نقد آور فصل سمجھا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کسان کسی دوسری فصل کے بجائے اس کا انتخاب کرنا پسند کریں گے۔ اور پھر بھی، ملک کو قلت کا سامنا ہے۔ جیسا کہ حالات کھڑے ہیں، پنجاب سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا ملک ہے، اس کے بعد سندھ اور خیبر پختونخواہ کا نمبر آتا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں تقریباً 72 فیصد بنیادی خوراک کی طلب گندم کی پیداوار سے پوری ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کو کئی قدرتی اور انسان ساختہ آب و ہوا سے متعلق آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جیسے کہ شدید بارشیں اور سیلاب، جنہوں نے فصل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان نے ابھی تک ان نقصانات کا ازالہ نہیں کیا ہے، اور یہ ملک میں گندم کی موجودہ قلت کی وضاحت کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان مستقبل کی پیداوار کے لیے متبادل فصلوں، جیسے جو، کی تلاش کرے۔ جو، ضروری امینو ایسڈز پر مشتمل پروٹین کا ایک بھرپور ذریعہ ہے، قدیم زمانے کی فصل ہے، اور اس خطے میں ہزاروں سالوں سے کاشت کی جاتی رہی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں جو ہر سال 1.5 ملین ٹن سے زیادہ جو پیدا کرتا ہے، پاکستان تقریباً 40,000 ٹن جو پیدا کرتا ہے۔ کسانوں کے لیے جو کو متبادل فصل میں تبدیل کرنے کی طرف قدم اٹھانا سمجھ میں آتا ہے۔ اس کی کٹائی کا موسم اکتوبر سے مارچ تک موسمی حالات پر منحصر ہے۔ چونکہ پاکستان پہلے ہی مسائل کا شکار ہے، جیسے کھارا پن، خشک سالی اور کاشت کے لیے میٹھے پانی کی کمی، بڑے پیمانے پر جو کی کاشت بڑھتی ہوئی آبادی کو کھانا کھلانے کے لیے ایک مناسب آپشن ہوگی۔ 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد زراعت ایک ایسا موضوع ہے جو صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اس لیے صوبائی زراعت کے تحقیقی محکموں کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو گندم کے متبادل فصل کے طور پر جو کی اقسام اگانے کی ترغیب دیں۔ پاکستان یقیناً اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی جو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اگر کوشش مخلصانہ اور پیشہ ورانہ طریقے سے ہو تو اسے برآمد بھی کر سکتا ہے۔

کیا جو کی فصل گندم کا متبادل ہو سکتی ہے؟ Read More »