Pakistan

Honda ELectric Bike Introduce in Pakistan

ہونڈا کا پاکستان میں الیکٹرک بائیک متعارف کرانے کا اعلان

 اسلام آباد: اٹلس ہونڈا نے پاکستان میں کاروبار کے 60 برس مکمل ہونے پر الیکٹرک بائیک “ ای بین لے” متعارف کرانے کا اعلان کردیا۔ اس بات کا اعلان جاپانی برانڈ ہونڈا نے پاکستان میں کاروبار کے 60 برس منعقد ہونے پر شیخوپورہ میں قائم فیکٹری میں منعقدہ تقریب میں کیا۔ اس موقع کو یادگار بنانے کے لیے منعقد کی گئی اس خصوصی تقریب میں ایگزیکٹو وائس پریذیڈیٹ ہونڈا موٹر کمپنی شنجی  آئویاما، چیف آفیسر موٹرسائیکل اینڈ پاور پراڈکٹس نوریاکی ابے اور ایشین ہونڈا موٹر کمپنی کے صدر اور سی ای او توشیوکوواہارا نے شرکت کی۔ اٹلس ہونڈا کے چیف آفیسر موٹرسائیکل اینڈ پاور پراڈکٹس نوریاکی ابے نے ہونڈا کی الیکٹرک موٹرسائیکل ہونڈا “ای بینلے” آزمائشی بنیادوں پر پاکستان میں متعارف کرانے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہونڈا کی مصنوعات پاکستان کی آبادی کے بڑے طبقے کی روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں، ہونڈا پاکستانی معاشرے اور صارفین کے فیڈ بیک کو سمجھتے ہوئے ان کی ضرورتوں کے مطابق نئی مصنوعات متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ہونڈا کا پاکستان میں الیکٹرک بائیک متعارف کرانے کا اعلان Read More »

سیکیورٹی خدشات: سعودی فرم کا کہنا ہے کہ شمسی منصوبوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے انکار۔

اسلام آباد: باخبر ذرائع نے ایگنایٹ  پاکستان کو بتایا کہ سعودی فرم M/s ACWA مبینہ طور پر سیکیورٹی خدشات اور کچھ اہم عوامل کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان میں شمسی منصوبوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے قاصر ہے۔ تفصیلات کا اشتراک کرتے ہوئے، ذرائع نے بتایا، ریاض میں پاکستان کے سفیر نے حال ہی میں چیئرمین ACWA پاور، محمد ابونایانان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان میں سعودی سفیر بھی موجود تھے۔ ACWA پاور پاور جنریشن اور واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹس کے پورٹ فولیو کا ایک ڈویلپر، سرمایہ کار اور آپریٹر ہے جس کی موجودگی 12 ممالک میں ہے جن کے پاور سیکٹر کا پورٹ فولیو $74.8 بلین سے زیادہ ہے اور اس کی صلاحیت 50 GW سے زیادہ پاور اور 7.6 ملین ہے۔ پاکستانی سفیر کے مطابق، ACWA پاور پاکستان کے سولر سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی لیکن اس کی کوششیں سیکیورٹی خدشات اور کچھ اہم فعال عوامل کی عدم موجودگی، خاص طور پر بنیادی ٹیرف کی کمی، G-to-G کے لیے قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکیں۔ تعاون، زمین، بجلی کی ادائیگی کی صلاحیت اور گرڈ کے ساتھ رابطے کا مسئلہ۔ وزارت خارجہ نے دلیل دی کہ یہ سعودی حکومت کے لیے بہت اہم اقدام ہے اور ولی عہد ایم بی ایس خود اس میں دلچسپی رکھتے ہیں، جس کا ذکر انہوں نے اکتوبر 2022 میں سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس ہائی پروفائل تجویز کو آگے بڑھانے کے لیے، چیئرمین ابونایان نے سفیر کی وزارت توانائی میں توجہ مرکوز ملاقاتوں اور بریفنگ کے لیے پاکستان کا ایک تحقیقی دورہ کرنے کی درخواست پر اتفاق کیا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے سفیر نے پاور ڈویژن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو پیشگی تیاریوں کی تجویز دی ہے تاکہ اس دورے کو نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ K-Electric (KE) نے M/s ACWA Power کے ذریعے تیار کیے جانے والے 3,000 میگاواٹ کے قابل تجدید توانائی (RE) منصوبوں سے بجلی حاصل کرنے اور حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جو بنیادی طور پر سعودی عرب پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ کے ای، پاکستان میں واحد نجی اور عمودی طور پر مربوط یوٹیلیٹی کمپنی ہونے کے ناطے، کراچی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے لیے ذمہ دار ہے، اس طرح 3.4 ملین سے زائد صارفین کو خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔ کے ای اپنی پاور ویلیو چین کی اینڈ ٹو اینڈ پلاننگ کے لیے پابند ہے اور اپنے سروس ایریا کے لیے منصوبہ ساز کے فرائض انجام دیتا ہے۔ ACWA پاور ایک عالمی سرمایہ کاری اور ہولڈنگ کمپنی ہے جس کا صدر دفتر ریاض، سعودی عرب میں ہے۔ توانائی اور پانی کے شعبوں میں مضبوط موجودگی کے ساتھ، ACWA پاور متعدد ممالک میں کام کرتی ہے، بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، مصر، مراکش، عمان، اور دیگر۔ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سید مونس عبداللہ علوی کی طرف سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط کے مطابق، کے الیکٹرک نے ایک مضبوط طویل المدتی ترقیاتی منصوبہ بنایا ہے جس میں آر ای پروجیکٹس کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ حوالہ جات. RE جنریشن پراجیکٹس کی ترقی کے ای کی طویل المدتی جنریشن پلاننگ کی حکمت عملی کا سنگ بنیاد ہے، جو کہ کئی RE پر مبنی اقدامات کی ترقی کے عمل میں ہے۔ CEO KE کا کہنا ہے کہ اپنے RE فٹ پرنٹ کو مزید بڑھانے کے لیے، KE کا خیال ہے کہ ACWA Power کے ساتھ مشغولیت، ایک مضبوط ترقیاتی کمپنی اور اسپانسر پاکستان میں بڑے پیمانے پر RE منصوبوں کی تیزی سے ترقی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ACWA نے پہلے پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھنے کی کوشش کی تھی جہاں اس نے حکومت پاکستان کے ساتھ 2019 میں مفاہمت کی ایک یادداشت (ایم او یو) کی تھی جس میں سولر اور ونڈ انرجی سیکٹر میں $4 بلین کی سرمایہ کاری شامل تھی۔ بدقسمتی سے، مختلف رکاوٹوں کے عوامل کی وجہ سے ماضی کی دلچسپی کو پورا نہیں کیا جا سکا۔ تاہم، کے ای کو یقین ہے کہ وہ ACWA پاور کو قائل کر سکتا ہے کہ وہ RE پروجیکٹس تیار کرنے کے لیے اپنی دلچسپی پر نظر ثانی کرے تاکہ پاکستان KE کو بجلی فروخت کرے، اور اس کے مشترکہ پارٹنر کے طور پر کام کرے۔

سیکیورٹی خدشات: سعودی فرم کا کہنا ہے کہ شمسی منصوبوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے انکار۔ Read More »

عمران خان کو آج جوڈیشل کمپلیکس میں پیش کیے جانے کا امکان

اسلام آباد پولیس نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے کے سلسلے میں آج فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کی خصوصی عدالت میں پیش کرنے کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے۔ ایگنایٹ  پاکستان  کی رپورٹ کے مطابق اڈیالہ جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی کو سخت سیکیورٹی میں عدالت لایا جائے گا، ایس یو وی گاڑیاں، پولیس موبائلیں اور بکتر بند گاڑیاں ہمراہ ہوں گی۔ ذرائع نے بتایا کہ ’اعلیٰ حکام‘ سے گرین سگنل ملنے کے بعد ٹیم تشکیل دی گئی ہے، آدھی رات تک حتمی فیصلہ کرلیا جائے گا، چیئرمین پی ٹی آئی کو ممکنہ طور پر پشاور روڈ اور سری نگر ہائی وے کے ذریعے جوڈیشل کمپلیکس لایا جائے گا۔ پولیس کو جوڈیشل کمپلیکس، ریڈ زون کے اندر اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی سمیت تمام متعلقہ پلان تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

عمران خان کو آج جوڈیشل کمپلیکس میں پیش کیے جانے کا امکان Read More »

Harkishan Lal

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘

آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل! 13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔ وظیفے ہی پر انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔ اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی، معاشیات اور فارسی اُن کے پسندیدہ مضامین تھے۔ جب انھوں نے بی اے میں صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو انھیں کیمبرج میں تین سالہ پڑھائی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔ کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا گابا لکھتے ہیں کہ ‘1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔ سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ بینک کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مجیٹھیا چیئرمین اور لالا ہر کشن اعزازی سیکریٹری تھے۔ لالا لاجپت رائے انارکلی لاہور میں آریا سماج مندر کے سامنے قائم اس بینک کے پہلے کھاتے دار بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی بینک کے مینیجر تھے۔ لاہور سے باہر پہلی شاخ 1900 میں راولپنڈی میں کھولی گئی اور سنہ 1904 میں بینک نے کراچی اور پشاور میں اپنی شاخیں قائم کیں۔ لالا ہرکشن لال، مجیٹھیا کے اخبار دی ٹربیون کے ٹرسٹی بھی تھے۔ انھوں نے 1901 سے 1906 تک، کئی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے قائم کیے جیسے پنجاب کاٹن پریس کمپنی، پیپلز بینک آف انڈیا، امرتسر بینک، کان پور فلور ملز، سنچری فلور ملز، صابن کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، آرے، برف خانے اور لانڈری۔ پنجاب نیشنل بینک سمیت کچھ ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ بینک پاکستان بننے سے پہلے ہی دلی منتقل ہو گیا تھا۔   لاہور میں آٹھ آنے فی یونٹ بجلی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت سرکاری دفاتر میں بجلی کی فراہمی چاہتی تھی۔ حکومت نے خود سے کئی بار اس ضمن میں کوشش کی جو ناکام رہی۔ سنہ 1910 میں اس کے لیے اشتہار دیا گیا جس میں یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ کامیاب بولی دینے والے کو لاہور شہر میں بجلی فراہم کرنے کا لائسنس بھی دیا جائے گا۔ اس اشتہار کے جواب میں بہت سی مقامی اور برطانوی کمپنیوں کے ٹینڈر آئے۔ اسی طرح کے کاروبار میں مصروف ’دلی الیکٹرک ٹرام ویز اینڈ لائٹنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے پاس لائسنس حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ تاہم اس کمپنی کے لندن آفس نے ٹینڈر واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت لالا ہرکشن لال اس کمپنی کے لوکل بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ 24 فروری 1911 کو اس فیصلے کا علم ہونے پر، لالا نے یہ کام خود ہی کرنے کا انتخاب کیا۔ ٹینڈر جمع کرانے کے لیے صرف چار دن باقی تھے۔ لالا نے اپنے بینک، پیپلز بینک آف انڈیا، کے نام پر ٹینڈر جمع کروا دیا جو اسی سال جولائی میں منظور ہو گیا۔ حکومت کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ پندرہ منٹ سے اوپر بجلی جانے پر ہر بار 25 سے 200 روپے جرمانہ ہو گا۔ فروری 1912 میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی پانچ لاکھ روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ 21 مارچ 1912 کو رجسٹرڈ ہوئی۔ لا لا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین بنے۔ تاریخ دان احمد سعید کے مطابق نومبر 1912 میں لاہور الیکڑک سپلائی کمپنی نے بجلی کی سپلائی کا سلسلہ شروع کیا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاح پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر(1908-1913) لوئی ڈین نے کیا۔ تب کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ڈین نے اپنی تقریر میں کہا: ’لاہور کو بجلی سے روشن کرنے کے منصوبے کا اعلان ہر ممکنہ جگہ کیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا شخص اس کا بیڑا اٹھائے جو عوامی جذبے سے معمور ہو۔ تاہم یہ ایک ایسا کام تھا جسے خود ہندوستانی عوام نے انجام دیا۔ بنیادی طور پر ایسا جناب ہرکشن لال کی پہل کی وجہ سے ہے کہ یہ منصوبہ اتنی کامیابی سے شروع ہوا ہے۔‘ اگرچہ سپلائی تو 18 نومبر کو شروع کردی گئی تھی لیکن لائسنس کا گزٹ نوٹیفیکیشن 25 نومبر کو ہوا۔ سرکاری عمارتوں کو سب سے پہلے بجلی دی گئی۔ کنکشن کے لیے درخواستیں تیزی سے آئیں۔ چند ماہ کے اندر (31 مارچ 1913 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک) صارفین کی تعداد 98 تک پہنچ گئی تھی۔ اگلے سال تک یہ تعداد 542 اور اس کے بعد کے سال میں یہ بڑھ کر 884 ہو گئی۔ کمپنی نہ صرف اس مختصر وقت میں تمام ابتدائی اخراجات نمٹانے میں کامیاب رہی بلکہ ساڑھے سات فیصد منافع کمانے کا اعلان بھی کیا۔   بجلی کی طلب بڑھ رہی تھی اور مشینوں کی تبدیلی بھی درکار تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں۔ اس کے باوجود کمپنی، اپنے وسائل کے محتاط استعمال سے، سال 1915-16 کے لیے نو فیصد کے منافع کا اعلان کرنے میں کامیاب رہی۔ اگلے سالوں میں یہ بڑھتا گیا۔ احمد سعید اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لاہور سے چھپنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘ Read More »

Pakistan Tehreek e Insaf (PTI) Facing difficulties in Election Campaign

نگران حکومت کے تمام جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے دعووں کے باوجود پی ٹی آئی کو انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کیوں؟

’جلسہ گاہ جانے والے تمام راستوں پر پولیس نے رکاوٹیں لگا رکھی تھیں۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ’اوپر سے‘ آرڈر ہے کہ پی ٹی آئی کو جلسہ نہ کرنے دیا جائے۔ جلسہ تو ہم نے اپنی حکمت عملی سے کامیابی سے کر لیا لیکن اس کے فوری بعد پولیس نے گرفتاریاں بھی کیں اور گھروں پر چھاپے مارنے شروع کر دیے۔‘ یہ کہنا ہے تحریک انصاف کے ضلعی صدر عنایت اللہ خٹک کا جنھوں نے اتوار کے روز خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں ورکر کنوینشن کا انعقاد کیا تھا تاہم مقامی انتظامیہ نے جلسے کے بعد ان سمیت درجنوں پارٹی ورکرز کے خلاف انسداد دہشت گردی سمیت مختلف دفعات میں مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں روکنے کے لیے گولیاں تک چلائی گئیں، ورکرز کو مارا پیٹا اور دھمکایا گیا لیکن ہم نے جلسہ گاہ تک پہنچنے کی حکمت عملی پر عمل کر کے کامیابی سے جلسہ کیا۔ جس کے بعد کرک کے ہر تھانے میں ہمارے خلاف دہشت گردی کا پرچہ کاٹ کر ایف آئی آر درج کر لی گئی۔‘ عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم اور عوامی رابطوں میں تیزی آئی ہے تو وہیں 2018 کے عام انتخابات میں اقتدار حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو جلسے یا کنوینشن کی اجازت ملنا ہی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے یوں تو دو ٹوک کہا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں مساوی مواقع یعنی ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے مواقع حاصل ہیں لیکن زمینی حقائق ان کے بیان کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو انٹرویو میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کسی نے کسی جماعت کو نہ سیاسی جلسوں سے روکا نہ کسی اور سرگرمی سے۔ نو مئی کے توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ کے باعث کچھ لوگ قانون کا سامنا کر رہے ہیں، کچھ قید کاٹ رہے ہیں تو یہ قانونی کارروائیاں ہیں اور میرے اختیار سے باہر ہیں۔‘ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اگر نظر ڈالیں تو ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری چترال، دیر بالا اور ایبٹ آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مشغول نظر آ رہے ہیں۔ دوسرے منظر میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف صوبہ بلوچستان سمیت مختلف علاقوں میں پارٹی تنظیم سازی اور رابطوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم پر نظر ڈالیں تو انھیں جلسے جلوس سمیت عوامی اجتماعات کی اجازت ملتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جانا بھی معمول ہے۔ اس کی حالیہ مثال گزشتہ دو روز کے دوران خیبرپختونخوا کے علاقے دیر بالا اور کرک میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسوں میں دیکھی گئی۔ آخر ملک کے نگران وزیر اعظم کے اعلان کے باوجود دیگر جماعتوں کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی مہم کے لیے مشکلات کا سامنا کیوں ہے۔ ہم نے اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن پہلے پی ٹی آئی کے کرک اور دیر بالا میں جلسوں کے بارے میں جان لیں۔ تحریک انصاف کے ضلعی صدر عنایت اللہ خٹک کے مطابق کرک میں جگہ جگہ پولیس کارکنوں کو روک رہی تھی ’رکاوٹوں کے باعث پلان بی تیار تھا جس پر عمل کر کے جلسہ گاہ پہنچے‘ پی ٹی آئی ضلع دیر کے صدرعنایت خٹک نے بتایا کہ انھوں نے سات نومبر کو مقامی انتظامیہ کو تحریری درخواست دی تھی کہ انھیں ٹاون ہال کرک میں 26 نومبر کو ورکرز کنوینشن کی اجازت کے لیے این او سی جاری کیا جائے تاہم دو ہفتے تک انھوں نے جواب نہ دیا جس کے بعد انھوں نے یاد دہانی کے لیے پھر درخواست دی جس پر انتظامیہ نے جواب دیتے ہوئے معذرت کر لی اور پھر پارٹی ورکرز کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جانے لگے۔ عنایت خٹک نے بتایا کہ ’پولیس نے جلسے والے دن پورا علاقہ بلاک کر دیا۔ مرکزی روڈ بھی بند کر دی لیکن ہم نے ان کو جلسہ گاہ لانے کی حکمت عملی بنا رکھی تھی جس کے تحت ہم دو بجے کے قریب جلسہ گاہ تک آئے۔ اس دوران ورکرز کو روکنے کے لیے پولیس نے گولیاں تک چلائیں ہم تعداد میں بہت ذیادہ تھے اس لیے پھر پولیس پیچھے ہٹ گئی۔‘ ’جلسہ کامیابی سے ہوا تاہم جیسے ہی ہمارے لوگ نکل کر گئے انھوں نے پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔‘ پی ٹی آئی کرک کے ایک اور ضلعی عہدیدار مزمل احمد اتوار کے جلسہ کےانتظامات میں پیش پیش تھے۔ بی بی سی سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ صبح آٹھ بجے سے ہی پولیس نے علاقےکا محاصرہ شروع کر دیا تھا اور اسی علاقے میں 12 بجے جماعت اسلامی کا ایک جلسہ ہوا جس کے ختم ہوتے ہی علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ ’جلسہ کرنے کا ہمارا پلان بی اور پلان سی تیار تھا جس کے تحت رکاوٹوں کے باوجود ہم جلسہ گاہ کے قریب پہنچ گئے۔ ہماری تعداد زیادہ تھی جس پر پولیس نے پحچھے ہٹ کر راستہ دے دیا۔ ہم نے پر امن طریقے سے جلسہ کیا۔ جیسے ہی ورکرز باہر نکلے پھر انھوں نے پکڑنا شروع کر دیا۔‘ پی ٹی آئی رہنما مزمل احمد کے مطابق اس وقت تک کرک کے مختلف تھانوں میں پی ٹی آئی کے 600 کے قریب کارکنان پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمے درج کیے جا چکے ہیں جبکہ 50 سے زائد کارکنان بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔ کرک میں تحریک انصاف کے جلسے سے ملتے جلتے حالات سنیچر کو دیر بالا میں بھی دیکھنے کو ملے تھے جہاں ورکرز کنوینشن کا انعقاد کیا گیا تاہم ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس کنوینشن کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ دیر بالا میں ورکرز کنوینشن کا انعقاد روکنے کے لیے پولیس کی

نگران حکومت کے تمام جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے دعووں کے باوجود پی ٹی آئی کو انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کیوں؟ Read More »

Azam Khan Pakistani Cricketer

اعظم خان کو جرمانہ، جماعت اسلامی کھلاڑی کے حق میں سڑکوں پر نکل آئی

پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیشنل ٹی ٹوینٹی کپ کے میچ کے دوران بیٹ پر فلسطین کا جھنڈا لگا کر کھیلنے پر اعظم خان پر میچ فیس کا 50 فیصد جرمانہ عائد کیا تھا جس کے بعد پاکستانی ان کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور پی سی بی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے ۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اعظم خان پر جرمانہ عائد کرنے کے خلاف جماعت اسلامی کے یوتھ ونگ کی جانب سے نیشنل سٹیڈیم کے مین گیٹ پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے اعظم خان کے حق میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور کھلاڑی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دکھائی دیئے ،مظاہرین نے پی سی بی کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ذکاء اشرف سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کرتے رہے ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضاطہ بیان جاری نہیں کیا گیاہے ۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی پی سی بی کو خوب تنقید کا سامنا ہے اور دن بھر ‘ شیم آن پی سی بی ‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا ۔

اعظم خان کو جرمانہ، جماعت اسلامی کھلاڑی کے حق میں سڑکوں پر نکل آئی Read More »

Anwar ul Haq Caretaker Prime Minister of Pakistan

پاکستان، یو اے ای میں 20 سے 25 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے: وزیر اعظم

ابوظہبی: (دنیا نیوز) نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 20 سے 25 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط ہو گئے۔ متحدہ عرب امارات سے خصوصی پیغام میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ معاہدوں سے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے معاشی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی استحکام اور سٹریٹیجک تعاون کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ نگران وزیراعظم نے کہا کہ دوستی اور تعاون کے ایک نئے دور کے آغاز پر پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان شیخ زید بن سلطان النہیان نے 70 کی دہائی میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ انہوں نے بتایا کہ آج شیخ محمد بن زیدالنہیان نے دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی جہت دی ہے، دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب میں آرمی چیف نے بھی شرکت کی۔ انوار الحق کاکڑ نے بتایا کہ سمجھوتوں پر دستخط کی تقریب میں وفاقی وزرا اور یو اے ای کے وزرا نے بھی شرکت کی، ان سمجھوتوں کے معیشت پر مثبت اثرات جلد سامنے آئیں گے۔ معاہدوں کی تفصیلات پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان توانائی، پورٹ آپریشنز پراجیکٹس، ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ، فوڈ سکیورٹی، لاجسٹکس، معدنیات اور بینکنگ اینڈ فنانشل سروسز کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے تعاون سے متعلق مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ متحدہ عرب امارات پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا، اس تاریخی انویسٹمنٹ سے پاکستان میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہو گی، انویسٹمنٹ سے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (SIFC) کے تحت مختلف اقدامات کو پورا کرنے میں مدد بھی ملے گی۔

پاکستان، یو اے ای میں 20 سے 25 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے: وزیر اعظم Read More »

Sahir Lodhi an Actor,Host and RJ

ٹرولنگ سے فرق نہیں پڑتا لیکن جب بیٹی کو گالی دی گئی تو میڈیا سے نفرت ہونے لگی، ساحر لودھی

میزبان اور اداکار ساحر لودھی نے سوشل میڈیا ٹرولنگ پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں لوگوں کی تنقید سے کبھی کوئی فرق نہیں پڑا لیکن ایک بار کسی نے میری 2 سالہ بیٹی کو گالی دی تھی جس کے بعد مجھے میڈیا سے نفرت ہونے لگی۔ ساحر لودھی مارننگ شوز، رمضان ٹرانسمیشن اور گیم شو کی میزبانی کرنے اور اپنے مخصوص انداز بیان کے حوالے سے مشہور ہیں، انہیں زیادہ تر لوگ ’پاکستان کے شاہ رخ خان‘ کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ ماضی میں ساحر لودھی کو ان کی میزبانی اور اداکاری پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، ان کی فلم ’راستہ‘ کے بعد کئی بار لوگوں نے ان پر بولی وڈ اداکار شاہ رخ خان کی کاپی کرنے کا بھی الزام لگایا۔ تاہم ساحر لودھی نے کبھی کسی تنقید کا جواب یا ردعمل نہیں دیا۔ انہوں نے کچھ وقت کے لیے اداکاری کے شعبے سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، اس دوران انہوں نے ایسٹرو فزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ ایکسکیوز می میں شرکت کی جہاں انہوں نے سوشل میڈیا ٹرولنگ، عامر لیاقت سے دوستی، شاہ رخ خان سے ملاقات اور دیگر مختلف موضوعات کے حوالے سے گفتگو کی۔ پوڈکاسٹ کے شروع میں انہوں نے بتایا کہ انٹرٹینمنٹ کا انہیں بچپن سے شوق تھا، ’بچپن سے شان کی فلمیں دیکھتا تھا، میرا خیال نہیں کہ میری اور شان کی عمر میں زیادہ فرق ہوگا مگر میں ان کا بہت بڑا مداح تھا، مجھے لگتا ہے کہ اگر پاکستان میں کسی کا غلط استعمال کیا گیا ہے تو وہ شان ہیں، وہ اب تک کے سب سے زیادہ ورسٹائل اداکار ہیں، میں آج بھی ان کی تمام فلمیں دیکھتا ہوں۔‘ ساحر لودھی نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ تین چار سال سے ٹی وی پر کام نہیں کیا لیکن اب وہ دوبارہ ایک نئے شو کے ساتھ واپس آنے والے ہیں، تاہم انہوں نے شو کے حوالے سے مزید تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔ ’عامر لیاقت کا انتقال ہوا تو لگا میں نے اپنا بھائی کھو دیا‘ ساحر لودھی نے نامور ٹی وی شو میزبان اور اسکالر مرحوم عامر لیاقت کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے بہت اچھے دوست تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں ان کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں جو دوسرے لوگ نہیں جانتے، جب عامر لیاقت کا انتقال ہوا تو مجھے لگا کہ میں نے ایک بھائی اور دوست کھو دیا ہے، میری ان سے انتقال سے 15 دن پہلے ملاقات ہوئی تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ہمیشہ دو لوگوں پر فخر رہا، ڈاکٹر عامر لیاقت اور امجد صابری، وہ سچے دوست تھے، ڈاکٹر عامر لیاقت کو اگر اپنے شو میں بلانا ہوتا تو وہ صرف ایک کال کے فاصلے پر تھے، میں ہر جمعرات کو ان کی قبر پر جاتا ہوں۔‘ ساحرلودھی نے کہا کہ ’ہم نے بہت سے لوگوں کے ساتھ بہت کچھ غلط کیا ہے، ہم اتنے نیک بن جاتے ہیں کہ دوسروں کو پرکھنے لگ جاتے ہیں، میں نے بہت سے لوگوں کو ڈاکٹر عامر لیاقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھا ہے، ہمیں کسی کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہیے، ہم سب انسان ہیں، ہم سب غلطیاں کرتے ہیں، میرے ساتھ بھی بہت کچھ ہوا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ڈاکٹر عامر لیاقت کو لوگوں میں پیسے بانٹتے ہوئے دیکھا ہے۔‘ ساحر لودھی نے اپنی خوبصورتی اور چہرے پر جدید طریقے کے ماسک اور بوٹوکس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں چہرے پر قدرتی چیزیں استعمال کرتا ہوں، شائستہ لودھی مجھے زبردستی لے جاتی ہیں کہ میں اپنے چہرے کا کوئی ٹریٹمنٹ کروا لوں۔‘ سوشل میڈیا ٹرولنگ پر بات کرتے ہوئے ساحر لودھی نے کہا کہ ’میں اور شائستہ ایسی باتوں پر توجہ نہیں دیتے، ہم چار بھائی بہن جب ایک ساتھ بیٹھتے ہیں تو لوگوں کی تنقید پر تبصرہ نہیں کرتے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’کوئی لاکھ بار بُرا بھلا کہہ لے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ایک بار میری 2 سالہ بیٹی کو کسی نے گالی دی تھی جس کے بعد مجھے میڈیا سے نفرت ہونے لگی۔‘ ’راستہ‘ اچھی فلم تھی، اب نئی فلم بنانے جارہا ہوں’ ساحر لودھی نے اپنی فلم ’راستہ‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے کسی نے فلم کی کہانی سنائی، مجھے وہ سُن کر اچھی لگی، لیکن جب فلم بنی تو بہت ساری چیزیں خراب ہوگئیں، کہانی کو بہت تبدیل کردیا گیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجموعی طور پر مجھے فلم راستہ کبھی بُری نہیں لگی، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ فلم کو مزید بہتر ہونا چاہیے تھا۔‘ فلم راستہ میں اپنے کردار کے بارے میں ساحر لودھی نے کہا کہ ’اس کردار کے لیے دیگر اداکاروں کو بھی آفر ہوئی تھی لیکن آدھی فلم کی شوٹنگ ہوچکی تھی اس لیے فلم کی دوبارہ شوٹنگ کرنا مشکل تھا۔‘ ساحر لودھی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ ایک بار پھر نئی فلم بنانے والے ہیں۔ ’شاہ رخ خان کے اسٹائل کو کاپی کرنے کی کوشش نہیں کی‘ بولی وڈ اسٹار شاہ رخ خان سے موازنہ کرنے کے سوال پر ساحر لودھی نے کہا کہ اگر آپ کو 18 سالوں میں میرا کام نظر نہیں آیا تو میں آپ کو کبھی نظر نہیں آؤں گا، شاہ رخ خان اور میرا کام بالکل الگ ہے۔ انہوں نے شاہ رخ خان سے ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب میری شاہ رخ خان سے ملاقات ہوئی تو ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’آپ بہت good looking ہیں‘، جس پر میں نے کہا کہ ’آپ بھی ہیں‘، جس پر شاہ رخ نے کہا کہ ’جی بالکل ہم دو ہی تو ہیں۔‘ ٹی وی میزبان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے شاہ رخ خان سے ان کے والد سے متعلق ایک سوال پوچھا تھا، میں نے ان سے پوچھا کہ ’کیا آپ کو کبھی محسوس ہوا ہے کہ آپ نے ان کی جگہ لے

ٹرولنگ سے فرق نہیں پڑتا لیکن جب بیٹی کو گالی دی گئی تو میڈیا سے نفرت ہونے لگی، ساحر لودھی Read More »

A Great Comedian Umar Sharif

عمر شریف کی بیوہ کے شوہر کی بیماری اور موت سے متعلق ہوشربا انکشافات

کامیڈی کے بے تاج بادشاہ عمر شریف کی دوسری برسی کے موقع پر ان کی دوسری بیوی زرین عمر نے اداکار کی بیماری اور موت سمیت ان کی بیٹی کے غیر قانونی گردوں کی پیوندکاری سے متعلق ہوشربا انکشافات کرکے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔ عمر شریف 4 اکتوبر 2021 کو پاکستان سے امریکا لے جاتے ہوئے جرمنی میں انتقال کر گئے تھے، اس وقت بتایا گیا تھا کہ انہیں امراض قلب، گردوں اور ذیابیطس کی بیماری ہے۔ اب ان کی موت کے دو سال بعد ان کی بیوہ زرین عمر نے ان کی بیماری اور موت سمیت دیگر معاملات پر انکشافات کرکے نیا پنڈورا باکس کھول دیا۔ زرین عمر نے ’سما ٹی وی‘ کے کرائم پروگرام میں بات کرتے ہوئے نہ صرف عمر شریف کی بیماری بلکہ ان کی اکلوتی صاحبزادی حرا عمر کی موت اور ان کی غیر قانونی گردوں کی پیوندکاری سے متعلق بھی نئے انکشافات کردیے۔ پروگرام میں زرین عمر نے دعویٰ کیا کہ عمر شریف کی اکلوتی صاحبزادی کی غیر قانونی پیوندکاری ان کے بیٹے جواد عمر نے کروائی۔ انہوں نے بتایا کہ عمر شریف نے اس وقت کے وفاقی وزرا اور پنجاب حکومت کے وزرا سمیت اعلیٰ عہدیداروں سے بھی مدد طلب کی جب کہ بیٹے جواد عمر کا گردہ بہن کے ساتھ میچ کر گیا تھا لیکن انہوں نے گردہ عطیہ نہیں کیا۔ ان کے مطابق جس وقت حرا عمر ڈائلاسز پر تھیں تب عمر شریف کچھ پروگرامات کرنے کے لیے امریکا گئے اور وہ بیٹی کے اکاؤنٹ میں ایک کروڑ روپے جمع کرواکر گئے، پیچھے سے بیٹے جواد عمر نے اسمگلر ڈاکٹر فاروق سے مل کر غیر قانونی پیوندکاری کے انتظامات کیے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ جواد عمر نے اسمگلر ڈاکٹر کو 30 سے 35 لاکھ روپے دیے، بقیہ رقم خود رکھی اور بہن کو ٹرانسپلانٹ کے لیے ڈاکٹروں کے کہنے پر لاہور سے آزاد کشمیر منتقل کیا، جہاں ایک کمرے میں حرا ترین کا آپریشن کرکے انہیں فوری طور پر وہاں سے نکال دیا گیا۔ ان کے ساتھ پروگرام میں موجود سما ٹی وی کے بیورو چیف نے بتایا کہ حرا ترین کو آزاد کشمیر سے واپس لے کر آنے کے بعد ان کی طبیعت خراب ہوگئی، جنہیں جواد عمر نجی ہسپتال میں لے گئے، جہاں انتظامیہ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا کہ ان کے پاس غیر قانون پیوندکاری کا مریض آیا ہے۔ ٹی وی چینل کے بیورو چیف کے مطابق ان کی مداخلت پر ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں نے فوری طور کارروائی معطل کی اور مریض کا علاج کرنے کی اجازت دی لیکن بدقسمتی سے حرا عمر کی طبیعت بہت خراب ہوگئی اور وہ رات تک انتقال کر گئیں۔ بیوہ کے مطابق جب وہ اور عمر شریف امریکا میں تھے تب انہیں حرا کے انتقال کی خبر دی گئی اور وہ فوری طور پر واپس آئے۔ پروگرام کے دوران زرین عمر نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بیٹے جواد عمر نے والد کے ساتھ ایک اور دھوکا بھی کیا اور غلطی بیان کرواکے حرا کا نکاح ان کے بوائے فرینڈ مسیحی لڑکے سے کروادیا اور اداکار کو جھوٹ بولا کہ لڑکے نےہی حرا کے لیے گردہ عطیہ کیا ہے اور انہوں نے نکاح کی شرط پر گردہ دیا تھا۔ زرین عمر نے الزام عائد کیا کہ بیٹے نے والد کے ساتھ جھوٹ پر جھوٹ بولے اور بہن کو اپنا گردہ عطیہ کرنے کے بجائے ان کا غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کرواکر انہیں موت کے منہ میں جھونکا۔ اسی دوران سما ٹی وی کے بیورو چیف نے دعویٰ کیا کہ بعد عمر شریف کے صاحبزادے نے ٹرانسپلانٹ کرنے والے ڈاکٹرز سے مزید پیسے لے کر انہیں پہچاننے سے ہی انکار کردیا اور اسمگلر سزا سے بچ گئے۔ عمر شریف کی زندگی کے لیے ڈاکٹروں نے 20 دن دیے تھے پروگرام کے دوران زرین عمر نے بتایا کہ بیٹی کی موت کے بعد عمر شریف بیمار رہنے لگے تھے، انہیں شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا تھا، جس کے بعد انہیں جب علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا تو انہوں نے انہیں بیرون ملک لے جانے کا مشورہ دیا۔ زرین عمر کے مطابق کراچی کے نجی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے واضح کیا تھا کہ انہیں جو مسئلہ لاحق ہے، اس کا آپریشن پاکستان میں نہیں ہوسکتا، اس کے لیے یہاں نہ تو معالج موجود ہیں اور نہ ہی آلات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے جرمنی، سعودیہ اور امریکا میں سے کسی ایک ملک لے جانے کا مشورہ دیا تھا لیکن بعد ازاں میڈیا پر خبریں آنے کے بعد بھارت کے ڈاکٹروں نے انہیں وہاں آنے کی دعوت دی تھی اور وہاں عمر شریف کو لے جاتے تو شاید وہ بچ سکتے تھے، کیوں کہ بھارت سب سے قریب تھا۔ زرین عمر نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ بیٹے کی غفلت اور نخروں کی وجہ سے ہی عمر شریف کو بیرون ملک لے جانے میں تاخیر ہوئی اور جواد عمر نے ہی ضد کرکے کہا کہ والد کو امریکا لے جانا ہے، جس وجہ سے تمام انتظامات میں تاخیر اور مشکل ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی پہنچنے سے قبل ہی عمر شریف بے ہوش ہوچکے تھے اور ڈاکٹروں نے انہیں امریکا منتقل کرنے سے انکار کرتے ہوئے انہیں جرمنی میں ہی رکھا، جہاں وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ زرین عمر نے عمر شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک منتقل کیے جانے کے معاملے پر ہونے والی تاخیر اور مشکلات کا ذمہ دار بھی جواد عمر کو قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ ان کی جانب سے کھڑی کی گئی مشکلات کی تحقیق کے لیے تفتیش کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ والد کی انتقال کے بعد جواد عمر امریکا منتقل ہو چکے ہیں۔

عمر شریف کی بیوہ کے شوہر کی بیماری اور موت سے متعلق ہوشربا انکشافات Read More »

Diseae is Spreading in China

چین میں پھیلنے والی بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے نہ یہ نئی وبا ہے، عالمی ادارہ صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین میں پھیلنے والی نمونیا طرز کی نئی بیماری سے متعلق ایک بار پھر وضاحت کی ہے کہ اس کا پھیلاؤ اتنا زیادہ نہیں ہے، جتنا کورونا سے قبل ایسی بیماریوں کا پھیلاؤ چین میں ہوتا تھا۔ ساتھ ہی عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اب تک کی سامنے آنے والی معلومات کے مطابق اس بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے نہ یہ کسی نئی وبا کی طرح ہے۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق وبائی امراض سے متعلق عالمی ادارے کی ڈائریکٹر ماریا وین کا کہنا تھا کہ نئی بیماری سے زیادہ تر ایسے بچے متاثر ہو رہے ہیں، جنہوں نے کورونا کی پابندیوں کے دوران خود کو انتہائی محدود کردیا تھا۔ ادارے کے مطابق چین میں ایسی ہی بیماریاں کورونا سے قبل زیادہ پیمانے پر پھیلتی دکھائی دیتی تھیں جب کہ ایسی ہی بیماریاں دیگر ممالک میں بھی ہر دو یا تین سال بعد پھیلتی دکھائی دیتی ہیں لیکن مذکورہ بیماری نئی وبا کی طرح نہیں ہے۔ عالمی ادارے صحت کا کہنا تھا کہ کورونا سے قبل بھی چین میں ایسی بیماریاں پھیلی تھیں اور ان کا پھیلاؤ حالیہ بیماری سے زیادہ تھا۔ رپورٹ میں چینی اور عالمی ادارہ صحت کے حکام کے گزشتہ چند دن میں سامنے آنے والے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چین میں پھیلنے والی نئی بیماری کا پھیلاؤ اتنا زیادہ متعدی نہیں۔ خیال رہے کہ چین میں اکتوبر کے اختتام سے نمونیا سے ملتی جلتی پراسرار بیماری کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور ابتدائی طور پر اس سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ تاہم چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے رواں ماہ 13 نومبر کو مذکورہ پراسرار بیماری کو سانس کی بیماری قرار دیتے ہوئے اس میں اضافے کی اطلاع دی تھی۔ بعد ازاں 19 نومبر کو آن لائن میڈیکل کمیونٹی پروگرام فار مانیٹرنگ ایمرجنگ ڈیزیزز (PRoMED) کی جانب سے شمالی چین کے علاقوں میں کئی بچوں میں نمونیا کی ایک قسم کی اطلاع دی گئی، جس متعلق بتایا گیا کہ ڈاکٹرز بیماری کی تشخیص نہیں کرسکے۔ لیکن دو روز قبل بھی عالمی ادارہ صحت نے چین میں پھیلنے والی نئی بیماری کو غیر معمولی قرار نہیں دیا تھا اور اب ادارے نے ایک بار پھر کہا ہے کہ یہ نئی وبا نہیں

چین میں پھیلنے والی بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے نہ یہ نئی وبا ہے، عالمی ادارہ صحت Read More »