Latest News

Latest News

Lahore Collision of Vehicle in DHA

لاہور میں گاڑی کی ٹکر سے چھ افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟

پاکستان کے شہر لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں حال ہی میں ایک گاڑی کی ٹکر سے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کے ہلاک ہونے کے واقعے کے مقدمے میں پولیس نے ملزم کے خلاف قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف یہ دونوں دفعات مرنے والوں کے لواحقین کی درخواست پر مقدمے میں شامل کی گئی ہیں۔ تاہم ملزم کے وکیل نے پولیس کے اس اقدام کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے فیز 7 میں گذشتہ سنیچر کو ایک تیز رفتار گاڑی نے دوسری گاڑی کو ٹکر ماری، جس میں سوار ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ابتدا میں پولیس کا کہنا تھا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کو چلانے والا کم عمر ڈرائیور تھا جو گاڑی چلانے یا لائسنس رکھنے کا اہل نہیں تھا۔ اس وقت پولیس نے اس واقعے کو ٹریفک حادثہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر درج کی تھی، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 279 اور 322 لگائی گئی تھیں۔ یہ دفعات ٹریفک حادثے کی صورت میں دیت کے حوالے سے ہیں۔ اس میں ملزم کے باآسانی رہا ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ خیال رہے کہ اس مقدمے میں اس وقت پولیس نے پی پی سی کی دفعہ 320 نہیں شامل کی تھی۔ دفعہ 320 کے تحت ’لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہوئے نقصان کرنے کی صورت میں ملزم کو دیت کے ساتھ ساتھ دس سال تک سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘ اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟ اس واقعے کا مقدمہ تھانہ ڈیفنس سی سے کاہنہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق مقدمے میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات مدعی مقدمہ کی درخواست پر شامل کی گئی ہیں جنھوں نے پولیس کو نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ ہلاک ہونے والے چھ افراد میں سے ایک کے والد رفاقت علی مدعی مقدمہ ہیں۔ لاہور پولیس کے مطابق انھوں نے نئی معلومات میں پولیس کو بتایا ہے کہ واقعے سے قبل ملزم کی ان کے بیٹے سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔ مدعی نے پولیس کو بتایا ہے کہ ’میرے بیٹے نے اور میں نے گاڑیاں روک کر ملزم کو منع کیا تھا کہ وہ ہماری گاڑیوں کا پیچھا نہ کرے کیونکہ وہ کافی فاصلہ سے اس گاڑی کا تعاقب کر رہا تھا جس میں خواتین بھی سوار تھیں۔’ مدعی نے پولیس کو بتایا کہ منع کرنے پر ملزم نے ان کو دھمکایا اور ان کا تعاقب جاری رکھا۔ مدعی کے مطابق اس کے بعد ہی ملزم نے تیز رفتاری سے اپنی گاڑی کی ٹکر اس گاڑی کو ماری جس میں ان کا بیٹا اور خاندان کے پانچ دیگر افراد سوار تھے۔ مدعی مقدمہ نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ ملزم اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ دو افراد گاڑی میں اور بھی سوار تھے؟ کیا ملزم کو کم عمر ملزم تصور کیا جا رہا ہے؟ پولیس کی طرف سے نئی دفعات مقدمے میں شامل کرنے کے خلاف ملزم نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ان کے وکیل کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کی عمر 17 سال کے لگ بھگ ہے اور اس لیے وہ قانونی طور پر جووینائل یا کم عمر ملزم تصور ہونے چاہئیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست میں ملزم کے وکیل نے موقف اپنایا ہے کہ ‘یہ واقعہ ایک ٹریفک حادثہ تھا جو پولیس اپنی پہلی ایف آئی آر میں کہہ چکی ہے اور ٹریفک حادثے کے نتیجے میں چھ لوگوں کی اموات ہوئی۔’ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلی محسن نقوی کے حکم پر پولیس نے ایف آئی آر میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کی ہیں۔ ‘پولیس کے اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے اور ملزم کو اس کے تمام آئینی حقوق فراہم کیے جائیں۔’ انھوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان حقوق میں منصفانہ ٹرائل کا بنیادی حق بھی شامل ہے۔ ‘جووینائل ہونے کے ناطے ملزم کو جووینائل عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور اسی جیل میں رکھا جانا چاہیے تاہم ایسا نہیں کیا گیا جو ملزم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘ عدالت نے ان کی درخواست پر پولیس سے جواب طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ ملزم 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں قید ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق ملزم کی حقیقی عمر کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں، جس وجہ سے پولیس ان کی عمر کا تعین کرنے کے لیے ٹیسٹ کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کم عمر بچے ڈرائیونگ کیوں کرتے ہیں؟ پاکستان یا لاہور میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں کوئی کم عمر ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے حادثے کا سبب بنا ہوا۔ لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز نے ایگنایٹ پاکستان  سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کم عمر ڈرائیورز لاہور پولیس کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک پولیس 20 ہزار سے زیادہ کم عمر ڈرائیورز کے چالان کر چکی ہے۔ ’ان میں زیادہ تر کاریں اور موٹر سائیکلیں وغیرہ شامل ہیں اور اس نوعیت کے جرائم زیادہ تر شہر کے پوش علاقوں سے سامنے آتے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر واقعات میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم عمر ڈرائیورز وہ ہوتے ہیں جو شوقیہ گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں۔ ’یہ ممکن نہیں کہ سکول آنے جانے والے بچوں کے لیے پرائیویٹ یا پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی نہ ہو۔ یہ زیادہ تر وہ بچے ہوتے ہیں جو شوق سے ڈرائیونگ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے تو اس میں کوئی مجبوری کا عنصر بظاہر نہیں ہوتا۔‘ سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز نے بتایا کہ ٹریفک پولیس اس حوالے کم عمر ڈرائیورز کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی مہمات چلاتی رہتی ہے جو اس نوعیت کے جرائم کو روکنے کا ایک طریقہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ لاہور میں 70 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں ہیں جبکہ دوسری

لاہور میں گاڑی کی ٹکر سے چھ افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟ Read More »

Indian Cricket Team Captain Rohit Sharma

ٹاس کا سکہ، پچ کی تبدیلی اور گیندوں میں ہیر پھیر: انڈین ٹیم پر لگائے گئے وہ الزامات جن پر وسیم اکرم بھی شرمندہ ہوئے

پاکستان کی ٹیم تو ورلڈ کپ سے باہر ہو چکی ہے تاہم پاکستانی شائقین ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے کو بڑے انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا نے گذشتہ روز نیوزی لینڈ کو 70 رنز سے شکست دے کر ورلڈ کپ کی تاریخ میں چوتھی مرتبہ فائنل میں جگہ بنا لی تھی۔ تاہم اس میچ سے پہلے تنازع اس وقت بنا تھا جب ایک برطانوی جریدے دی ڈیلی میل کی جانب سے ایک خبر شائع کی گئی تھی جس میں انڈیا پر سیمی فائنل کے لیے آئی سی سی کی منظوری کے بغیر پچ تبدیل کرنے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ عموماً آئی سی سی ٹورنامنٹس میں پچ کی دیکھ بھال اور اس کی نوعیت کے حوالے سے ذمہ داری آئی سی سی کی جانب سے نامزد کیے گئے آزاد نمائندے کی ہوتی ہے۔ یہ تنازع ابھی تھما نہیں تھا کہ پاکستان کے سابق کرکٹر سکندر بخت کی جانب سے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا گیا جس میں انھوں نے ٹاس کے وقت انڈین کپتان پر ٹاس کے وقت سکہ ایک مخصوص انداز میں پھینکنے کا الزام عائد کیا۔ سکندر بخت نے یہ ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے پہلے میزبان سے کہا کہ کیا میں ایک شرارت کر سکتا ہوں اور پھر کہا کہ ’وہ (روہت) ہمیشہ سکہ اچھالتا ہے اور حریف ٹیم کا کپتان کبھی فائنل نتیجہ دیکھنے نہیں جاتا۔‘ یہ ویڈیو انھوں نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے شیئر بھی کی۔ تاہم اس تنازعے کے حوالے سے بھی متعدد سابق کھلاڑیوں نے تردید بھی کی اور پاکستانی سابق کرکٹرز کی جانب سے اس قسم کے الزامات عائد کرنے پر تنقید بھی کی گئی۔ وسیم اکرم نے کہا کہ ’مجھے اس قسم کی باتیں سن کر بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔‘ اس سے قبل حسن رضا کی جانب سے بھی انڈین بولرز کو مختلف گیندیں دینے کے حوالے سے تنازع کھڑا ہوا تھا جس پر سابق کپتان وسیم اکرم سمیت کئی سابق کرکٹرز اور خود محمد شامی نے بھی وضاحت پیش کی تھی اور تنقید بھی کی تھی۔ خیال رہے کہ ورلڈ کپ کی میزبان ٹیم ہونے کا فائدہ، گراؤنڈ میں شائقین سے ملنے والی زبردست حمایت، پچ اور موسم کی اچھی معلومات وہ تمام عوامل ہیں جو انڈین ٹیم کی اس ٹورنامنٹ میں مدد کرتے آئے ہیں۔ ٹیم انڈیا کے سات سے آٹھ کھلاڑی زبردست فارم میں ہیں اور انہی وجوہات کی بنا پر سابق کوچ روی شاستری نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’(ٹیم انڈیا کے لیے) یہ ورلڈ کپ جیتنے کا صحیح وقت ہے۔‘ دوسری جانب سوشل میڈیا پر چند افراد انڈین ٹیم کی ان پے در پے کامیابیوں کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے افراد کا اعتراض خالصتاً انڈین ٹیم کی انتہائی عمدہ بولنگ پر ہے جس کا اظہار ہم نے پورے ٹورنامنٹ میں دیکھا ہے۔ ٹورنامنٹ میں انڈیا کی بہترین بولنگ اور پاکستان میں تنازع کا آغاز انڈین کرکٹ ٹیم کی مضبوط بلے بازی کی ایک طویل روایت رہی ہے لیکن رواں برس پہلی مرتبہ انڈین بولرز نے اس ٹورنامنٹ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انڈیا کے پاس محمد شامی، محمد سراج اور جسپریت بمراہ جیسے تیز بولرز ہیں جو بڑی سے بڑی مدمقابل ٹیم کو کچل کر رکھ سکتے ہیں، اور اس کا اظہار انھوں نے اس ورلڈ کپ کے لیگ میچوں میں متعدد مرتبہ کیا اور داد سمیٹی۔ اور ان کے ساتھ کلدیپ یادو اور جدیجہ جیسے دو سپنرز بھی جن کا سامنا حریف ٹیموں کے لیے پورے ٹورنامنٹ میں ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ اس لیے کرکٹ ماہرین کی متفقہ رائے یہی ہے کہ انڈین ٹیم کے پاس اب تک کا سب سے مضبوط بولنگ اٹیک موجود ہے۔ تاہم ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود انڈین بولنگ اٹیک کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کی ابتدا پاکستان سے اس وقت ہوئی جب سابق پاکستانی کرکٹر حسن رضا نے انڈین ٹیم کے سری لنکا کو 55 رنز پر آؤٹ کرنے کے بعد شکوک کا اظہار کیا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں چلنے والے حسن رضا کے انٹرویو میں انھیں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ انڈین بولرز کو دی گئی گیندوں کے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہییں۔ انڈین بولرز گیند کو زیادہ سوئنگ کر رہے ہیں۔ رضا نے دعویٰ کیا کہ میتھیوز بھی ممبئی کے میچ میں شامی کی سوئنگ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ ان کا مزید دعویٰ تھا کہ انڈین بولرز کو دوسری اننگز میں آئی سی سی یا بی سی سی آئی سے مدد مل رہی ہے اور انھیں دوسری گیند دی جا رہی ہے جو زیادہ سوئنگ کر رہی ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ تھرڈ امپائر بھی انڈین ٹیم کی مدد کر رہے ہیں۔‘ حسن رضا کا موقف تھا کہ انڈین بولرز کو شائننگ گیند ملتی ہے جو انھیں سوئنگ کرنے میں مدد دیتی ہےاور اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ وسیم اکرم کی تردید اور گیند کی تبدیلی کے بارے میں قوانین پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی اس نوعیت کے خدشات کو مضیحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور جو باتیں کر رہے ہیں وہ مضحکہ خیز ہیں جو جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔ پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے حسن رضا کی جانب سے اٹھائے گئے شکوک کا جواب دے دیا ہے۔ ایک نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں وسیم اکرم نے کہا کہ ’میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کو انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر شک ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’گیند کو منتخب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ چوتھا امپائر 12 گیندوں کے باکس کے ساتھ میدان میں آتا ہے۔ اگر ٹاس جیتنے والا کپتان پہلے بولنگ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس ٹیم کا کپتان میدان میں موجود تھرڈ امپائر کے سامنے دو گیندوں کا انتخاب کرتا ہے۔‘ اس کے بعد فیلڈ امپائر ایک گیند کو دائیں جیب میں رکھتا ہے اور دوسری گیند بائیں جیب میں، باقی گیندیں چوتھا امپائر لے جاتا ہے۔ دوسری اننگز میں بھی اسی طرح اس

ٹاس کا سکہ، پچ کی تبدیلی اور گیندوں میں ہیر پھیر: انڈین ٹیم پر لگائے گئے وہ الزامات جن پر وسیم اکرم بھی شرمندہ ہوئے Read More »

غزہ کے نیچے موجود حماس کی خفیہ سرنگوں کی بھول بھلیاں جو اسرائیل کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں

سرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کے جواب میں غزہ کی پٹی کے نیچے تعمیر کی گئی سرنگوں کی خفیہ بھول بھلیوں کے کچھ حصوں پر حملہ کر رہا ہے۔ اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ترجمان نے جمعرات کو ایک ویڈیو میں کہا کہ ’سمجھیں کہ غزہ کی پٹی میں شہریوں کے لیے ایک پرت ہے اور پھر حماس کے لیے دوسری پرت۔ ہم اس دوسری پرت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حماس نے بنائی ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ غزہ کے شہریوں کے لیے بنائے گئے بنکر نہیں ہیں۔ یہ صرف حماس اور دیگر دہشت گردوں کے لیے ہیں تاکہ وہ اسرائیل پر راکٹ داغتے، کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے اور دہشت گردوں کو اسرائیل میں داخل کرتے رہیں۔‘ سرنگوں کے اس نیٹ ورک کے حجم کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، جسے اسرائیل نے ’غزہ میٹرو‘ کا نام دیا ہے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسے علاقے کے نیچے پھیلی ہوئی ہیں جو صرف 41 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹر چوڑا ہے۔ 2021 میں ہونے والی لڑائی کے بعد، اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے فضائی حملوں میں 100 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرنگوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس دوران حماس نے دعویٰ کیا کہ اس کی سرنگیں 500 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور صرف پانچ فیصد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار کو تناظر میں رکھنے کے لیے جانیں کہ لندن کا انڈر گراؤنڈ ٹرین سسٹم 400 کلومیٹر لمبا ہے اور زیادہ تر زمین سے اوپر ہے۔ غزہ میں سرنگوں کی تعمیر کا عمل سنہ 2005 میں اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے انخلا سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا لیکن دو سال بعد حماس کی جانب سے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس میں تیزی لائی گئی، جس کی وجہ سے اسرائیل اور مصر نے حفاظتی وجوہات کی بنا پر سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا شروع کی۔ اپنے عروج پر، مصری سرحد کے نیچے چلنے والی تقریباً 2500 سرنگوں کو حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے تجارتی سامان، ایندھن اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ 2010 کے بعد غزہ کے لیے اس سمگلنگ کی اہمیت اس وقت کم ہو گئی، جب اسرائیل نے اپنی کراسنگ کے ذریعے سامان درآمد کرنے کی اجازت دینا شروع کی۔ مصر نے بعد میں ان سرنگوں کو پانی چھوڑ کر یا تباہ کر کے سمگلنگ کا سلسلہ بند کر دیا۔ حماس اور دیگر دھڑوں نے اسرائیلی افواج پر حملوں کے لیے بھی سرنگیں کھودیں۔ 2006 میں، عسکریت پسندوں نے اسرائیل کے ساتھ سرحد کے نیچے ایسی ہی ایک سرنگ کا استعمال کرتے ہوئے دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا اور تیسرے فوجی گیلاد شالیت کو پکڑ لیا، جسے انھوں نے پانچ سال تک قید رکھا۔ 2013 میں، اسرائیلی فوج نے ایک 1.6 کلومیٹر لمبی، 18 میٹر گہری ایسی سرنگ دریافت کی جس میں کنکریٹ کی چھت اور دیواریں تھیں اور جو غزہ کی پٹی سے اسرائیلی کبوتز کے قریب تک جاتی تھی۔ اگلے سال اسرائیل نے غزہ میں ایک بڑی فضائی اور زمینی کارروائی کے لیے سرحد کے نیچے ایسی ’دہشت گردی کی سرنگوں‘ کی موجودگی اور استعمال کو بطور حوالہ استعمال کرنے کی بات کی۔ آئی ڈی ایف نے کہا کہ اس کے فوجیوں نے جنگ کے دوران 30 سے زائد سرنگوں کو تباہ کیا لیکن عسکریت پسندوں کا ایک گروپ حملہ کرنے کے لیے ایک سرنگ کو استعمال کرنے میں کامیاب رہا جس میں چار اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ زیر زمین جنگ کی ماہر اور اسرائیل کی ریخمین یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر ڈیفنی رچمنڈ باراک کے مطابق ’سرحد کے آر پار بنائی گئی سرنگیں شکل میں بہت بنیادی ہوتی ہیں، یعنی انھیں بمشکل محفوظ بنایا جاتا ہے۔ وہ ایک بار استعمال کے مقصد کے لیے کھودی جاتی ہیں اور ان کا مقصد ’اسرائیلی سرزمین پر حملہ کرنا‘ ہوتا ہے۔‘ ان کے مطابق ’غزہ کے اندر کی سرنگیں مختلف ہیں کیونکہ حماس انھیں مستقل بنیادوں پر استعمال کر رہی ہے۔ وہ شاید زیادہ دیر تک قیام کے لیے زیادہ آرام دہ ہیں۔ وہ یقینی طور پر طویل اور پائیدار موجودگی کے لیے بنائی گئی ہیں۔‘ ’رہنما وہاں چھپے ہوئے ہیں، ان کے پاس کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز ہیں، وہ انھیں نقل و حمل اور مواصلات کی لائنوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ بجلی، روشنی اور ریل کی پٹریوں سے لیس ہیں۔ آپ ان میں گھوم پھر سکتے ہیں اور آرام سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ حماس نے حالیہ برسوں میں سرنگوں کی تعمیر اور جنگ کے فن میں کمال حاصل کر لیا ہے۔ انھوں نے حلب میں شامی باغی جنگجوؤں اور موصل میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کی حکمت عملیوں کا مشاہدہ کر کے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘ خیال کیا جاتا ہے کہ غزہ کے اندر سرنگیں سطح سے 30 میٹر (100 فٹ) نیچے ہیں اور ان کے داخلی دروازے مکانات، مساجد، اسکولوں اور دیگر عوامی عمارتوں کی نچلی منزلوں پر واقع ہیں تاکہ عسکریت پسند نشاندہی سے بچ سکیں۔ اس نیٹ ورک کی تعمیر کی قیمت مقامی آبادی نے بھی ادا کی ہے۔ اسرائیلی فوج حماس پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے غزہ کو ملنے والی لاکھوں ڈالر کی امداد اور ماضی کی لڑائیوں میں تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر نو کے لیے دیے گئے لاکھوں ٹن سیمنٹ کو سرنگوں کی تعمیر میں استعمال کیا۔ یہ عین ممکن ہے کہ اسرائیل میں گذشتہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے حملوں کے دوران حماس کے عسکریت پسندوں کی طرف سے سرحد کے آر پار بنائی گئی سرنگ کا استعمال کیا گیا ہو۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ کفار عزہ کے کبوتز کے قریب ایک سرنگ کا دہانہ دریافت ہوا ہے۔ اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ سرنگ زیر زمین کنکریٹ کی رکاوٹ کے نیچے بنائی گئی ہو گی جس میں جدید ترین اینٹی ٹنل ڈٹیکشن سینسر لگے ہوں گے جو اسرائیل نے 2021 کے آخر میں نصب کر لیے تھے۔ ڈاکٹر ڈیفنی باراک کا کہنا ہے کہ یہ ایک دھچکا ہوگا لیکن

غزہ کے نیچے موجود حماس کی خفیہ سرنگوں کی بھول بھلیاں جو اسرائیل کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں Read More »

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ تو دے دی ہے لیکن ابھی شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ تاہم اکثر سیاسی جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے ٹکٹ کے حصول میں دلچسپی رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرنی شروع کر دی ہیں۔ سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے تین نومبر کو جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے پانچ دسمبر تک درخواستیں طلب کیں ہیں۔ یہ درخواستیں عام انتخابات میں حصہ لینے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی امیدوار اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور سیاسی جماعت اس کی مقبولیت اور دیگر پہلووں کا جائزہ لے کر اسے ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلے کرتی ہے۔ لیکن جہاں قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں جیسے کہ پیپلز پارٹی اس درخواست کے ساتھ قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے 40 ہزار اور صوبائی اسمبلی کے لیے 30 ہزار روپے کا بینک ڈرافٹ بھیجنے کی ہدایت دے رہی ہیں، ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے قومی اور صوبائی حلقوں کے درخواست گزاروں کے لیے بلترتیب ڈیڑھ اور ایک لاکھ کی فیس مقرر کی ہے۔ سابق حکمراں جماعت اور اس بار کی مبینہ طور پر فیورٹ سمجھی جانے والی مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی کی نشست کے ٹکٹ کے لیے دو لاکھ اور صوبائی کے لیے ایک لاکھ روپے کی ٹکٹ فیس مقرر کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی غریب آدمی اپنے جیسے عوام کے مسائل کے حل کے لیے اگر انتخابات میں حصہ لینے کا سوچتا ہے تو اسے پہلے تو یہ بڑی رقم جمع کرانا ہوگی بعد میں انتخابی مہم کے اخراجات تو الگ ہیں۔ کیا بلوچستان کا کویی غریب آدھی الیکشن میں حصہ لے سکے گا؟ باپ پارٹی نے اقومی اخبارات میں مہنگے اشتہارات کے ذریعے درخوستیں طلب کی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے درخواستیں اس سال مارچ کو طلب کی تھیں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا امکان موجود تھا۔ پارٹی نے یہ درخواستیں سابق صدر آصف علی زرداری کے نام بھیجنے کا کہا اور ساتھ میں شناختی کارڈ کی کاپی اور رابطہ نمبر کا تقاضہ بھی کیا۔ اس حوالے سے سینیئر صحافی نے ایگنایٹ پاکستان  کو بتایا کہ ‘غریب کو الیکشن لڑنا ہے تو چندا اور ادھار لینا ہوگا کیونکہ صوبائی ہو یا قومی اسمبلی کی ہر نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے لاکھوں کی فیس بطور رجسٹریشن کے دینا ہو گی۔ جس کا مطلب ہے کہ مسائل۔ بدحالی کا شکار غریب خود سیاست میں آکر اپنے جیسوں کی قسمت بدلنے کا خوب تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکے گا۔‘

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟ Read More »

Health Minister Fails to produce reslults because of disputes in caretake setup

سندھ کی نگران کابینہ اختلافات، وزیرصحت ہسپتال بہتر کرنے میں ناکام رہے، نگراں وزیراعلیٰ

سندھ کے نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر نے صوبائی نگران وزیر صحت کی جانب سے مداخلت کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر سعد خالد نیاز ہسپتالوں کی صورت حال بہتر کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جسٹس (ر) مقبول باقر اور ڈاکٹر سعد خالد نیاز کے درمیان اختلافات اربوں روپے کے ٹینڈر کی منسوخی پر پیدا ہوئے جو گہرے ہوگئے ہیں۔ ڈان کو ذرائع نے بتایا کہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر(جے پی ایم سی)، گمبٹ ہسپتال اور لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز ہسپتال کے لیے 4 روبوٹک سسٹمز کی خریداری سے متعلق ٹینڈر گزشتہ ماہ نگران وزیر صحت نے اس لیے منسوخ کر دیا تھا کہ روبوٹک نظام انتہائی مہنگا ہوتا ہے اور معمول کی سرجریز کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بااثر جماعت ٹینڈر کے عمل میں ملوث تھیں اور مخصوص حلقے مبینہ طور پر نگران وزیرصحت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ بظاہر نگران وزیراعلیٰ بھی وزیرصحت کے اعتراض پر مطمئن نہیں تھے اور منگل کو انہوں نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کا دورہ کیا اور وہاں پر روبوٹک سرجری کے بارے میں بریفنگ بھی لی۔ اس حوالے سے مزید بتایا کہ سینئر حکومتی عہدیداروں نے وزیرصحت کو بتایا کہ وہ اپنا فیصلہ تبدیل کریں کیونکہ ٹینڈر کا عمل پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں شروع ہوگیا تھا اور نگران حکومت اس طرح کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ بعد ازاں بدھ کو نگران وزیرصحت نے ایک بیان جاری کیا کہ روبوٹک سسٹم کی خریداری روکنے کا فیصلہ ماہر سرجنز کی آرا کی روشنی میں کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا کہ روبوٹک سسٹم کی خریداری میں خامیاں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ میں نے نگران وزیراعلیٰ کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا یہاں تک کہ پھر انہوں نے معاملے میں مداخلت کی اور وزیراعلیٰ نے یک طرفہ فیصلہ کیا اور ایس آئی یوٹی چلے گئے اور صورت حال سے ہمیں لاعلم رکھا۔ دوسری جانب نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر کی جانب سے جمعرات کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ’محکموں کے اچانک دوروں سے ثابت ہو اکہ ڈاکٹر سعد نیاز ہسپتالوں کو بہتر کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں‘۔ بیان میں کہا گیا کہ نگران وزیرصحت ہسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے کے بجائے ایس آئی یو ٹی جیسے عظیم ادارے پر تنقید کی اور بدنیتی کی بنیاد پر جائزہ اجلاس تین مرتبہ ملتوی کروایا تاکہ اُن کی ناقص کارکردگی کا جائزہ نہ لیا جاسکے۔ نگران وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ ’وزیرصحت اپنے بیان میں جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ کوئی مہذب یا پیشہ ور ڈاکٹر یا وزیر استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، جس طرح کی غلط بیانی کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جھوٹ کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی‘۔ انہوں نے کہا کہ جب نگران وزیر صحت سے جواب طلب کیا گیا تو وہ بے بنیاد اور جھوٹے بیانات پر اُتر آئے اور آئین و قانون کی پامالی پر بضد ہیں اور اپنی ناکامی پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔ ترجمان وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئین و قانون کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ تمام صوبائی محکموں کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے اُن کو وقتاً فوقتاً ہدایات دینے کے پابند ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا کہ ’وزیرصحت محکمہ صحت میں اپنی مرضی کا سیکریٹری لگا کر اپنا ذاتی ایجنڈا چلانا چاہتے ہیں‘۔ مزید بتایا گیا کہ نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے عوام کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی، آئین، قانون اور قواعد و ضوابط کی پابندی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

سندھ کی نگران کابینہ اختلافات، وزیرصحت ہسپتال بہتر کرنے میں ناکام رہے، نگراں وزیراعلیٰ Read More »

Indian Ex Navy Officers sentence to death by Qatar Government

بھارت نے قطر میں اپنےسابق نیوی افسروں کی سزائے موت کیخلاف اپیل دائرکردی

بھارت نے گزشتہ ماہ قطری عدالت کی جانب سے اپنی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو دی جانے والی سرائے موت کیخلاف اپیل دائر کردی۔ انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ ہندوستانی بحریہ کے ان 8 سابق افسران تک دوسری سفارتی رسائی مل گئی ہے، جنہیں قطر ی عدالت نے 7 نومبر کو موت کی سزا سنائی تھی۔   یہ بھی پڑھیں :۔قطر میں 8 بھارتی فوجیوں کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت  ترجمان ارندم باگچی کے مطابق قطر کی عدالت کا فیصلہ رازدارانہ ہے اور اسے قانونی ٹیم کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔اور اس فیصلے کیخلاف بھارت کی جانب سے ایک اپیل دائر کی گئی ہے،اور بھارت انہیں قانونی امداد فراہم کرتا رہے گا،معاملہ بہت ہی حساس نوعیت کا ہے اس لیے اس حوالے سے قیاس آرائیوں سے مکمل گریز کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ بھارتی بحریہ کے سابق اہلکاروں پر اطالوی ساختہ جدید ترین آبدوزیں خریدنے سے متعلق قطر کے خفیہ پروگرام کی تفصیلات ایک ملک کو فراہم کرنے کا الزام ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی بحریہ کےان سابق افسران میں کمانڈر (ر) پورنیندو تیواری، کیپٹن (ر) نوتیج سنگھ گل، کمانڈر (ر) بیرندر کمار ورما، کیپٹن (ر) سوربھ وششت، کمانڈر (ر) سوگناکر پکالا، کمانڈر (ر) امیت ناگپال، کمانڈر (ر) امیت ناگپال اور سیلر راگیش شامل ہیں ۔

بھارت نے قطر میں اپنےسابق نیوی افسروں کی سزائے موت کیخلاف اپیل دائرکردی Read More »

Pakistan and IMF

آئی ایم ایف نے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل سیکٹرز پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی۔

اسلام آباد – بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے پر پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات کے دوران ریٹیل، ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی قرض دینے والے ادارے نے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں رواں مالی سال کے دوران ریٹیلرز پر فکسڈ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ آئی ایم ایف نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس لگانے پر اصرار کیا۔ آئی ایم ایف کے وفد کو بتایا گیا کہ زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کے لیے صوبوں سے مشاورت ضروری ہے۔ قرض دینے والے نے زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے صوبوں سے ٹائم فریم مانگنے کی تجویز دی۔ آئی ایم ایف کو ٹیکس ریگولیٹر کے دائرہ کار میں ٹیکس پالیسی اور مینجمنٹ ٹاسک فورس کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ اگر آئی ایم ایف جائزہ کے دوران پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہے تو دسمبر تک 700 ملین ڈالر کی دوسری قسط جاری کر دی جائے گی۔ نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے اس ہفتے کے دوران فریقین کے وفود کی قیادت کی اور ون آن ون ملاقاتیں کیں۔

آئی ایم ایف نے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل سیکٹرز پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی۔ Read More »

Polluttion in Lahore Smog In Punjab

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔ سموگ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک؟ نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔ ماحولیات کے اُمور پر کام کرنے والے کارکن، وکیل اور ماہر رافع عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں انڈیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 48 فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔ ’اب آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ فضائی آلودگی کی یہ قسم کس حد تک انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔‘ ’یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے‘ لاہور میں حالیہ سموگ اور فضائی آلودگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے شہریوں کی زندگی اور صحت کو کیسے متاثر کیا اس بارے میں چند رہائشیوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی تکلیف بیان کی۔ ڈیڑھ برس کی بیٹی کی والدہ سارہ ذیشان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی بُری طرح سموگ سے متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس کا گلا خراب، کھانسی، بخار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے منھ میں چھالے بھی نکل آئے ہیں اور اسے کھانے پینے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سارہ اور ان کے خاندان کی طرح لاہور شہر میں بسنے والے لاکھوں افراد سموگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امیر حمزہ جو ایک سیلز مین ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا روزگار منسلک ہی ایسے کام سے ہے جس کے لیے سارا دن گھر سے باہر رہ کر موٹر سائیکل چلانا ہوتی ہے۔ ’میں مختلف پوانٹس پر جا کر پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اور جب دن بھر کام کر کے گھر جاتا ہوں تو فضائی آلودگی اور سموگ کے باعث آنکھیں سرخ اور جلن کا شکار ہوتی ہیں۔ ابھی بھی مجھے زکام، گلا خراب اور کھانسی ہے۔ آئے روز بیمار رہنے کے باعث کام بھی متاثر ہوتا ہے۔‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے آنکھوں میں جلن اور پانی آنے کے باعث جگہ جگہ بائیک روک کر پانی سے آنکھیں دھونی پڑتی ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے۔‘ سموگ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کا مطلب کیا ہے؟ رافع عالم کے مطابق سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسیوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔ ’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘ یہ چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم یں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی شہر یا علاقے کی فضا میں موجود پی ایم 2.5 ذرات کی تعداد 25 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزا، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے وہ ان کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین فضا میں موجود مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کر کیا جاتا ہے۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ گیسیں فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘ Read More »

Israel airstrikes on Ghaza

غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی کون سے ممالک حمایت کر رہے ہیں، کون مخالف ہے اور کون خاموش؟

غزہ میں جیسے جیسے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور حالات خراب ہو رہے ہیں، غزہ پر اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی رائے عامہ کو تیزی سے تقسیم کر رہا ہے۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے فوراً بعد بہت سے ممالک نے ابتدا میں اسرائیل کی حمایت کی تھی تاہم اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملوں اور حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کیے جانے والے بڑے زمینی حملوں کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بعض ممالک نے جنگ کے حوالے سے اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی ہے۔ اس تنازع پر موجودہ بین الاقوامی بحث کا مرکز اب جنگ بندی کا مسئلہ ہے۔ 27 اکتوبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیلی افواج اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان ’فوری اور پائیدار جنگ بندی‘کا مطالبہ کیا گیا۔ اُردن کی جانب سے پیش کی جانے والی جنگ بندی کی اس قرارداد کے حق میں 120، مخالفت میں 14 ووٹ آئے جبکہ 45 ممالک نے ووٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو ’قابل نفرت‘ قرار دیا ہے جب کہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے بعد میں جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اب آپریشن روکنا حماس کے سامنے ’ہتھیار ڈالنا‘ جیسا ہو گا۔ اس بیان کے بعد سے کچھ ممالک نے اسرائیل پر اپنی تنقید بڑھا دی ہے جبکہ بہت سے ممالک نے اپنے سفیروں کو یا تو اسرائیل سے واپس بُلا لیا ہے یا اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ یہاں تک کہ جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والے امریکہ نے بھی اپنا مؤقف نرم کر لیا ہے اور اس حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے لڑائی میں ’وقفے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل حماس جنگ کے بارے میں دنیا بھر کے ممالک نے کیا کہا ہے اور اقوام متحدہ میں انھوں نے کس کی حمایت اور کس کی مخالفت میں ووٹ دیے۔ واضح رہے کہ یہ تمام خیالات مختلف حکومتوں کے ہیں اور بعض دیگر ممالک میں ان خیالات کے بارے میں عوامی جذبات نمایاں طور پر مختلف ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کہاں کھڑا ہے؟ امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے اسرائیل کا دوبارہ دورہ کیا ہے اور انسانی بنیادوں میں جنگ بندی کی درخواست کی ہے بعض مغربی ممالک کی حکومتوں نے جنگ کے آغاز سے ہی کُھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ حماس کے حملوں کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کے ابتدائی بیانات اس بات کی تصدیق ہیں کہ واشنگٹن اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ یہ یقینی بنائے گا کہ ’اسرائیل اپنے شہریوں کا خیال رکھے۔‘ تاہم 2 نومبر کو ایک انتخابی مہم کے پروگرام میں جب صدر بائیڈن سے ایک شخص نے جنگ بندی کے لیے جرح شروع کر دی تو انھوں نے جنگ میں توقف یعنی وقفے کی بات کہی۔ بعد میں وائٹ ہاؤس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جنگ میں کوئی بھی وقفہ عارضی نوعیت کا ہو گا۔ وائٹ ہاؤس نے عرب اور دیگر ممالک کی جانب سے مکمل جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔ وائٹ ہاؤس کی اس وضاحت کے اگلے ہی دن امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفے پر زور دینے اور غزہ میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات پر بات چیت کرنے کے لیے تل ابیب کے اپنے دوسرے دورے پر روانہ ہوئے۔ بلنکن نے تل ابیب میں نتن یاہو اور دیگر سینیئر رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’امریکہ اس بات پر قائل ہے اور مجھے لگتا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے ہمارا یقین مزید مضبوط ہوا ہے کہ اس کا بہترین راستہ اور شاید واحد راستہ بھی یہ ہے کہ دو اقوام کے لیے دو (الگ الگ) ملک ہوں۔‘ یورپی ممالک لندن میں دسیوں ہزار لوگ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے متعدد مظاہروں میں شریک ہوئے ہیں کینیڈا اور برطانیہ کے وزرائے اعظم نے بھی اس جنگ پر اپنے ابتدائی ردعمل میں ’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق‘ کی حمایت پر زور دیا تھا تاہم دونوں ریاستوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ حالیہ ہفتوں میں دسیوں ہزار فلسطینی حامی مظاہرین نے سینٹرل لندن کے مظاہروں میں شرکت کی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ’حماس کے حملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے‘ لیکن مختلف رکن ممالک میں جنگ بندی کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ جرمنی اور اٹلی نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی ہے لیکن انھوں نے اقوام متحدہ کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سپین اور فرانس جیسے دیگر ممالک نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ فرانس ’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا حامی ہے‘ لیکن اب انھوں نے اپنی پوزیشن میں قدرے تبدیلی کی ہے۔ یہ تبدیلی شاید غزہ کے شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں آئی ہے۔ میکخواں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’غزہ میں حماس اور شہری آبادی کے درمیان فرق کیا جانا ضروری ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت ہے تاکہ سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی حفاظت اور دہشت گردوں کے خلاف بہتر ہدف پر مبنی کارروائیاں ممکن ہوں۔‘ مشرق وسطیٰ مشرق وسطیٰ کی بیشتر ریاستوں نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے اور بہت سے ممالک نے اسرائیل کے فوجی آپریشن کی شدید مذمت کی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے ابتدا میں حماس کے حملوں کی مذمت کی تھی کیونکہ یہ دونوں ممالک ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم گذشتہ ہفتے بحرین نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور بحرین میں اسرائیلی سفیر ملک چھوڑ کر

غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی کون سے ممالک حمایت کر رہے ہیں، کون مخالف ہے اور کون خاموش؟ Read More »

police islamabad ICT

بہارہ کہو پولیس کو ڈاکوؤں نے یرغمال بنا کر ساتھی چھڑوا لیا

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی دارالحکومت کے علاقے بہارہ کہو پولیس کو ڈاکوؤں نے یرغمال بنا کر ساتھی چھڑوا لیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس نے اپنی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کیخلاف درج کر لیا ، ایف آئی آر کے مطابق ملزم ڈکیتی کی واردات میں بہارہ کہو پولیس کے پاس جسمانی ریمانڈ پر تھا، ملزم نے بتایا کہ اس کے پیٹ میں شدید درد ہے۔ پولیس ملزم کو لے کر پولی کلینک اسپتال کی جانب لے کر روانہ ہوئی ، مری روڈ پر پولیس موبائل کا ٹائر پنکچر ہوا، پولیس ٹائر تبدیل کرنے کے لیے رکی، اس دوران ملزم کے 5 نقاب پوش مسلح ساتھی آئے اور اسلحہ کے زور پر ساتھی کو لے کر فرار ہو گئے۔ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم سنگین نوعیت کی متعدد وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔

بہارہ کہو پولیس کو ڈاکوؤں نے یرغمال بنا کر ساتھی چھڑوا لیا Read More »