International

مرد میں ڈپریشن کی کیا علامات ہیں؟

اکثر اوقات مردوں سے توقعات اور سماج میں ان کا روایتی کردار ایسا ہے جس کے باعث مرد اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں کسی سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ پاکستان میں روایتی طور پر مردوں کو عام طور پر کمانے کے لیے گھر سے باہر بھیجا جاتا ہے اور مضبوط، بااثر ہونے کی نظر ہی سے دیکھا جاتا ہے اور ساتھ ہی بچپن سے انہیں سکھایا جاتا ہے کہ کسی کے سامنے رونا نہیں ہے اور جذبات کا اظہار نہیں کرنا، جس کے نتیجے میں مستقبل میں اکثر اوقات مرد ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔ دوسری جانب سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سینٹرز کے اعدادوشمار کے مطابق مردوں کے مقابلے خواتین ڈپریشن کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ تاہم امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے ہیلتھ میگزین میں شائع ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر والد کو ڈپریشن جیسے مسائل کا سامنا ہے تو بچے میں جذباتی یا طرز عمل کے مسائل پیدا ہونے میں 70 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگلی نسل کو اس مرض سے بچانے کے لیے اس کا علاج اور مرض کی علامات کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے، اگرچہ مردوں کی شرح کم ہے لیکن اس مرض کو نظرانداز نہیں کرسکتے اس لیے آج یہاں ہم مردوں میں ڈپریشن کی علامات جاننے کی کوشش کریں گے۔ مردوں میں ڈپریشن کی جسمانی علامات ڈپریشن میں مبتلا مرد میں سب سے پہلے جسمانی علامات ظاہر ہوتی ہیں، اگرچہ ڈپریشن کو دماغی صحت سے جوڑا جاتا ہے لیکن اس کی علامات جسمانی طور پر بھی واضح ہوتی ہیں۔ مردوں میں ڈپریشن کی کچھ عام جسمانی علامات میں سینے کی جکڑن، ہاضمے کے مسائل جیسے گیس، اسہال اور قبض، سر درد، ہارمونل مسائل، دل کی دھڑکن تیز ہونا، تیزی سے وزن میں کمی (اور بعض اوقات وزن میں اضافہ) شامل ہیں۔ مردوں میں ڈپریشن کی ذہنی علامات ڈپریشن کی ذہنی علامات مردوں میں دوسری جنس کے لوگوں کے مقابلے میں مختلف طریقے سے ظاہر ہو سکتی ہیں، جس سے ڈپریشن کا پتا لگانا مشکل ہو سکتا ہے۔ مردوں میں ڈپریشن کی کچھ عام ذہنی علامات میں کام پر توجہ مرکوز کرنے میں مشکل کا سامنا، یادداشت کے مسائل، نیند کے مسائل، خودکشی کے خیالات شامل ہیں۔ مردوں میں ڈپریشن کی جذباتی علامات جب زیادہ تر لوگ ’ڈپریشن‘ کا لفظ سنتے ہیں تو وہ اداس یا تنہائی پسند شخص تصور کرتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، کچھ لوگ میں اس کے علاوہ بھی علامات ہوسکتی ہیں۔ ان میں اضطراب، ہمیشہ غصہ آنا، دوستوں، خاندانوں سے دور رہنا، ناامیدی، کام میں دلچسپی کی کمی اور بے چینی جیسی علامات شامل ہیں۔ کچھ مرد ڈپریشن کی علامات کو اس لیے بھی نظرانداز کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں اس کے بارے میں معلوم ہی نہیں، دوسری طرف جو افراد ان علامات کو پہنچان لیتے ہیں وہ معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے علاج کرانے سے کتراتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جب مردوں کو ڈپریشن کی علامات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ طویل وقت تک دفتر یا دیگر کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ڈپریشن کی تشخیص اور علاج آپ کی زندگی بچانے میں مدد کرسکتا ہے، ڈپریشن کے علاج میں اکثر مریض سے بات چیت بھی شامل ہے جسے ٹاک تھراپی کہتے ہیں، اس کے علاوہ ڈاکٹرز کلینکل تھراپی بھی تجویز کرتے ہیں، اس کے لیے جلد از جلد ماہر نفسیات سے رجوع کرنا بے حد ضروری ہے۔

مرد میں ڈپریشن کی کیا علامات ہیں؟ Read More »

ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والا دنیا کا سب سے بڑا خاندان

میزورام: (ویب ڈیسک) بھارت میں ایک ایسا گھر ہے جس کی چھت کے نیچے ایک ہی خاندان کے 199 افراد بسیرا کرتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاست میزورام کے گاؤں بکتونگ میں دنیا کے سب سے بڑے خاندان کا گھر ہے جس کے 199 افراد ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں۔ زیونا اس فیملی کے سرپرست تھے جن کی 38 بیویاں، 89 بچے اور 36 پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں رہتے ہیں۔ زیونا کا انتقال 2021 میں 76 سال کی عمر میں ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی وجہ سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوا۔ تاہم ان کا خاندان بکتونگ کی پہاڑیوں میں تعمیر کئے گئے کمپلیکس زیونا میں ایک ہی چھت کے نیچے رہ رہا ہے، زیونا کے کچھ بچے شادی شدہ ہیں اور کچھ کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں ہیں، خاندان کے ارکان کی تعداد اب 199 ہے۔ یہ تمام افراد دن میں دو بار کھانے کے موقع پر اپنے گھر کے گریٹ ہال میں جمع ہوتے ہیں اور اس وقت یہ گھر کے ڈائننگ روم سے زیادہ ایک مصروف کینٹین کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے، اراکین روزانہ کام کاج سے لے کر خوراک اور مالیات تک سب کچھ آپس میں بانٹتے ہیں۔ زیونا کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وہ زیونا کی میراث کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں

ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والا دنیا کا سب سے بڑا خاندان Read More »

Love Marriage

18 سالہ نوجوان کی 35 سالہ لڑکی سے شادی کے چرچے

مکوآنہ ( این این آئی )پنجاب کے شہر فیصل آباد میں 18 سالہ نوجوان نے 35 سالہ کزن سے پسند کی شادی کرلی جس کے انٹرنیٹ پر خوب چرچے ہیں۔ فیصل آباد کے شہزاد اور کومل نے بتایا کہ ان کی شادی کوئی آسان نہیں تھی، عمروں کے فرق کے باعث دونوں میاں بیوی کیلئے اپنے گھروالوں کو منانا خاصا دقت طلب رہا۔35 سالہ کومل نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ ‘شہزاد اور میں آپس میں کزن ہیں، شہزاد کو مجھ سے محبت ہوئی اور پھر میں بھی ان سے محبت کرنے لگی جس کے بعد ہم دونوں نے شادی کرلیکومل کے مطابق ‘پہلے مجھے لگتا تھا کہ ان کی عمر مجھ سے چھوٹی ہے لیکن جب شہزاد نے مجھے پروپوز کیا تو میں بھی ان سے محبت کرنے لگ گئی، دوستوں نے بھی کہا کہ شہزادکی عمر چھوٹی ہے لیکن پھر میں نے سوچا جب پیار کیا تو ڈرنا کیسا، یوں سمجھیں کہ شادی سے پہلے کئی رکاوٹیں آئیں لیکن ہم نے اپنی فیملیز کو منالیا، میں شہزاد کو پیار سے مٹھو کہتی ہوں۔ دوسری جانب شہزاد نے بتایا کہ ‘پورے خاندان میں مجھے صرف کومل ہی اچھی لگتی تھی اور میں ان سے ہی محبت کرتا تھا یہ مجھے بہت شریف اور پیاری لگتی تھیں، ساری رات مجھے انہی کی یاد آتی تھی میں ان کو پیار سے پنکی بلاتا ہوں۔شہزاد نے بتا یا کہ ‘جب میں نے گھروالوں کو بتایا کہ میں کومل سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو گھر میں مجھے مارا پیٹا لیکن میں نے نہیں مانی شادی کے بعد اب سارے گھر والے خوش ہیںـ

18 سالہ نوجوان کی 35 سالہ لڑکی سے شادی کے چرچے Read More »

Nallay Wala

علی بخش: علامہ اقبال کے ’ملازمِ خاص‘ جن کی پاکستان میں الاٹ ہونے والی زمین پر قبضہ ہوا

پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ سے لگ بھگ دو کلومیٹر کے فاصلے پر کھرڑیانوالہ روڈ پر چک نمبر 188 ’رب نَلے والا‘ واقع ہے۔ علامہ اقبال کے’خادمِ خاص‘ علی بخش اسی گاؤں کے قبرستان میں دفن ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہاں پر گزارے اور یہیں دو جنوری 1969 کو اُن کی وفات ہوئی۔ اس گاؤں کی آبادی سڑک کے دونوں اطراف پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں انڈیا کے شہر ہوشیار پور سے نقل مکانی کر کے آنے والے چند خاندان بھی آباد ہیں اور علی بخش کا خاندان بھی ان میں سے ایک ہے۔ علی بخش کون تھے اور یہاں کیسے پہنچے؟ علی بخش کے چھوٹے بھائی کا نام مہر دین تھا۔ مہر دین کے بیٹے محمد اقبال (یعنی علی بخش کے بھتیجے) کو علی بخش نے اپنا بیٹا بنایا اور پالا پوسا۔ محمد اقبال کے بیٹے زاہد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارا خاندان ضلع ہوشیارپور کے علاقہ اٹل گڑھ میں رہتا تھا جہاں گھر میں غربت تھی۔ لاہور میں ایک گھڑی ساز نے ہمارے دادا علی بخش کو کام کے سلسلے میں لاہور بلوایا تھا۔ایک روز جب علی بخش علامہ اقبال کے پاس پہنچے تو انھوں نے دیکھ کر کہا ’منڈیا تو کم کر لیئں گا‘ (یعنی لڑکے تم کام کر لوگے؟)۔ اس وقت علی بخش کی عمر لگ بھگ 11، 12 سال تھی۔ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’اپنا گریباں چاک‘ میں لکھا ہے کہ ’علی بخش نے غالباً 1900 میں میرے والد کے پاس ملازمت اختیار کی۔ سنہ 1905 میں جب میرے والد تعلیم کی خاطر انگلستان گئے تو انھیں اپنے بھائی شیخ عطا محمد کے پاس چھوڑ گئے۔‘ ’مگر وہ زیادہ عرصہ ان کے ساتھ نہ رہے اور بعد ازاں 1908 میں جب میرے والد واپس آئے اور وکالت شروع کی تو ان کو دوبارہ بلا لیا۔‘ آج جس گھر میں زاہد اقبال اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہیں، یہ لگ بھگ ایک کنال جگہ پر مشتمل ہے۔ یہ جگہ علی بخش نے خرید کر خود گھر بنایا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اسی چک میں آ کر قیام پذیر ہو گئے تھے جہاں ان کو زرعی زمین الاٹ ہوئی تھی۔ ’علی بخش میں تمھارے لیے ولایت سے میم لاؤں گا‘ جاوید اقبال اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ ’علی بخش نے ساری عمر شادی نہ کی‘ تاہم علی بخش کے خاندان کے مطابق ایسا نہیں تھا۔ زاہد اقبال کے مطابق ’علی بخش نے شادی کی مگر ان کی بیوی جلد ہی فوت ہو گئیں، البتہ انھوں نے کبھی دوسری شادی نہ کی۔‘ زاہد اقبال نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’اگر دادا جی (علی بخش) دوسری شادی کر لیتے تو علامہ صاحب کی خدمت کون کرتا۔ وہ اُن کو مذاق میں کہتے تھے علی بخش! تمھارے لیے ولایت سے میم لاؤں گا۔ ہمارے خاندان والے بتاتے ہیں کہ دادا جی، علامہ صاحب سے دوسری شادی کی بات کرتے رہتے تھے۔‘ علامہ اقبال کی وفات کے بعد اُن کی فیملی نے علی بخش کا کتنا خیال رکھا؟ زاہد اقبال بتاتے ہیں کہ ’آفتاب اقبال، دادا جی کو یومِ اقبال پر کراچی بلایا کرتے تھے مگر ہمارا رابطہ جاوید اقبال کی فیملی سے نہیں۔ البتہ آفتاب اقبال کے بیٹے آزاد اقبال چک میں آتے ہیں اور دادا جی کی قبر پر فاتحہ بھی کرتے ہیں۔‘ آفتاب اقبال کے بیٹے آزاد اقبال جو بیرون ملک مقیم ہیں، نے ہمیں بتایا کہ ’میرے لیے بڑی خوشی کا مقام تھا جب میں علی بخش کی فیملی کے ہاں گیا تھا۔ میں مستقبل قریب میں دوبارہ اُن کے ہاں جانے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔‘ علامہ اقبال کے چاہنے والوں میں سے آپ کے خاندان سے کن کا رابطہ زیادہ رہا؟ اس سوال کے جواب میں زاہد اقبال کا کہنا ہے ’صوفی برکت علی کا ہمارے ہاں آنا جانا زیادہ تھا۔ میرے والد کی وفات تک کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا، بعد میں کوئی نہ آیا۔‘ علامہ اقبال کے کبوتر اور استعمال کی اشیا علامہ اقبال کو کبوتروں سے خاص اُنسیت تھی۔ علی بخش نے جب اپنا گھر بنوایا تو وہاں بھی کبوتر رکھے، جو آج بھی موجود ہیں۔ زاہد اقبال نے علامہ اقبال کی چھڑی، چائے کا کپ، دو چاندی کے کڑے اور سر پر باندھنے والا کپڑا جو بہت نفاست سے محفوظ کیے ہوئے تھے، کی بابت بتایا کہ ’یہ ساری چیزیں علامہ صاحب نے داداجی کو دی تھیں۔ چاندی کے کڑے ولایت سے لائے تھے۔ ہم نے سر پر باندھنے والے کپڑے کو آج تک اس غرض سے نہیں دھویا کہ اس پر علامہ صاحب کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں۔‘ زاہد اقبال نے بتایا کہ ’جب راتوں کو علامہ صاحب لکھتے لکھتے تھک جاتے تو میرے دادا کو بلاتے اور کہتے کہ ایکسرسائز والی مشین لاؤ، اس سے وہ اپنی انگلیوں کو سہلاتے۔‘ مذکورہ ساری اشیا جو علامہ اقبال کے استعمال میں تھیں اور اب علی بخش کے خاندان کے پاس محفوظ ہیں اور اس کی تصدیق آزاد اقبال نے بھی کی۔ چک کا وہ شخص جس کو علی بخش کی باتیں یاد ہیں اس گاؤں کے پرانے رہائشی محمد رفیق ایک دربار کے متولی ہیں۔ دربار سے ملحقہ قبرستان میں ہی علی بخش مدفون ہیں۔ محمد رفیق کے مطابق انھوں نے علی بخش کا اخیر زمانہ دیکھ رکھا ہے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’میری تاریخ پیدائش تو 1943 کی ہے مگر شناختی کارڈ پر 1947 ہے۔ میں نے لڑکپن اور جوانی میں بابا غلام محمد اور بابا انور شاہ جو دونوں سگے بھائی تھے، کے تکیے پر علی بخش کو بیٹھے دیکھا اور ان کی باتیں بھی سُنی ہوئی ہیں۔‘ واضح رہے کہ بابا غلام محمد اور بابا انور شاہ کے دربار میں ایک قدیمی بوہڑ کا پیڑ ہے جس کے نیچے گاؤں کے بزرگوں کی محفلیں جما کرتی تھیں۔ ،تصویر کا کیپشنمحمد رفیق کو علی بخش کی چند باتیں یاد ہیں اور ان کے مطابق وہ علی بخش کو مل چکے ہیں محمد رفیق نے بتایا کہ ’میں جانوروں کا چارا کاٹ کر لایا کرتا اور تکیہ میں رُکتا تو علی بخش بعض مرتبہ وہاں بیٹھے ہوتے۔ مجھے اُن کی چند

علی بخش: علامہ اقبال کے ’ملازمِ خاص‘ جن کی پاکستان میں الاٹ ہونے والی زمین پر قبضہ ہوا Read More »

Rashmika Mandana Video goes Viral

بولی وڈ اداکارہ رشمیکا مندانا کی جعلی ویڈیو وائرل

بولی وڈ اداکارہ رشمیکا مندانا نے واضح کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو ان کی نہیں ہے بلکہ وہ آرٹیفشل انٹیلی جنس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ جعلی ویڈیو ہے۔ رشمیکا مندانا کے نام سے ایک مختصر ویڈیو 5 اور 6 نومبر کو بھارتی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس پر لوگوں نے اداکارہ کے بولڈ انداز پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ وائرل ہونے والی مختصر ویڈیو میں ایک خاتون کو لفٹ سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور ویڈیو میں مذکورہ خاتون نے انتہائی تنگ اور مختصر لباس پہن رکھا ہوتا ہے۔ For your convenienceTHE ORIGINAL FT RASHMIKA MANDANNA deepfake edit.#deepfake pic.twitter.com/wibrW6umLP — Liz/Barsha (@debunk_misinfos) November 5, 2023 ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون کا چہرہ اداکارہ رشمیکا مندانا سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے اور لوگوں نے ویڈیو دیکھنے کے بعد اداکارہ کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ تاہم جلد ہی صحافیوں اور فیکٹ چیکرز نے سوشل میڈیا صارفین کو بتایا کہ مذکورہ ویڈیو رشمیکا مندانا کی نہیں بلکہ وہ کسی اور کی ویڈیو ہے، جسے اس قدر ایڈٹ کرکے بنایا گیا کہ اسے دیکھتے ہی ویڈیو کے اصلی ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ صحافی ابھیشک نے وائرل ویڈیو شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ ویڈیو رشمیکا مندانا کی نہیں بلکہ زارا پٹیل نامی بھارتی نژاد خاتون کی ہے، جسے ڈیپ فیک کے طور پر ایڈٹ کیا گیا۔ انہوں نے ڈیپ فیک ویڈیوز بنانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا اور ان کی ٹوئٹ کو بولی وڈ ’بگ بی‘ امیتابھ بچن نے بھی ری ٹوئٹ کرتے ہوئے جعلی ویڈیوز بنانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں رشمیکا مندانا نے بھی انسٹاگرام اسٹوری میں واضح کیا کہ وائرل ہونے والی ویڈیو ان کی نہیں ہے بلکہ اسے ایڈٹ کرکے ان کی ویڈیو بتاکر شیئر کیا گیا۔ ان کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والی خاتون کے چہرے کو ان کے چہرے سے تبدیل کیا گیا۔ رشمیکا مندانا نے کہا کہ اگر یہی ویڈیو اس وقت بنائی جاتی جب وہ اسکول اور کالج کی طالبہ تھیں تو یقینی طور پر ان کے لیے ایسی جھوٹی ویڈیو کا دباؤ برداشت کرنا ناممکن ہوتا لیکن اب وہ ایسی جھوٹی ویڈیوز کے دباؤ کو برداشت کر سکتی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس طرح کی جعلی ویڈیوز بنانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ ایسے لوگ کسی بھی لڑکی یا خاتون کی جعلی ویڈیوز بناکر انہیں پریشان نہ کرسکیں۔

بولی وڈ اداکارہ رشمیکا مندانا کی جعلی ویڈیو وائرل Read More »

سستی گاڑی خریدنےکےچکر میں سالا بہنوئی اغواء5 کروڑ تاوان کا مطالبہ

سستی گاڑی خریدنے کے چکر میں راولپنڈی کے رہائشی دو افرادگاڑی خریدنے کیلئےملتان جانے والے ہنی ٹریپ کا شکار ہوگئے۔ رپورٹس کے مطابق ملتان سے سستی گاڑی خریدنے کیلئے جانے والے رافع ذوالفقار اور اُس کے بہنوئی نعمان بشیر کو اغواء کر لیا گیا۔ اغواء کاروں نے اہلخانہ سے پانچ کروڑ تاوان مانگ لیا۔ عدم ادائیگی پرمغویوں کے قتل کی دھمکی دے دی۔ تھانہ ریس کورس پولیس نے اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔  تھانہ ریس کورس پولیس نے مقدمہ درج کرلیا، اغواء کا تاوان کی دفعہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ مقدمہ مغوی رافع ذوالفقار کی بہن عطیہ نائید کی مدعیت میں درج کیا گیا ۔مقدمہ کے متن میں رافع ذوالفقار کی بہن عطیہ نائید نے لکھوایا کہ 20 سالہ مغوی رافع ذوالفقار بہنوئی نعمان بشیر کےہمراہ گاڑی خریدنےگئےتھے۔ خیال رہے کہ پہلے بھی اِسی چکر میں ایک شخص قتل ہوچکا ہےکچے کے علاقہ سے بازیاب ہونے والے نزاکت علی نے ارشد مغل کے قتل بارے حقائق پیش کر دیئےاورتاوان دے کر واپس گھر آئے تھے۔

سستی گاڑی خریدنےکےچکر میں سالا بہنوئی اغواء5 کروڑ تاوان کا مطالبہ Read More »

پاک فوج جنوبی وزیرستان میں 41 ہزار ایکڑ بنجر اراضی پر کاشتکاری کے منصوبے کا آغاز کرے گی

لیفٹیننٹ جنرل سردار حسن اظہر حیا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے خطے کی زرعی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور خوراک میں خود کفالت کو فروغ دینے کی امید ہے۔   پشاور: پاک فوج جنوبی وزیرستان کے علاقے زرملم میں 1000 ایکڑ اراضی پر زرعی فارمنگ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگلے چند سالوں میں کاشتکاری کے رقبے کو بڑھایا جائے گا اور 41,000 ایکڑ اراضی کو کاشتکاری کے لیے موزوں بنایا جائے گا۔ توقع ہے کہ اس منصوبے سے خطے کی زرعی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور خوراک میں خود کفالت کو فروغ ملے گا۔ اس نمائندے کو کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل سردار حسن اظہر حیات سے ان کے دفتر میں بات کرنے کا موقع ملا جنہوں نے کہا کہ پاک فوج خیبر پختونخوا میں زرعی کاشتکاری کو بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ جنرل نے کہا کہ پاک فوج نے جنوبی وزیرستان کے علاقے زرملان میں 41 ہزار ایکڑ اراضی پر کاشتکاری کا منصوبہ بنایا ہے جو کہ برسوں سے بنجر تھی۔ ان کا خیال تھا کہ خیبرپختونخوا میں معدنیات، پن بجلی، زراعت اور سیاحت میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں جن سے صوبے کے وسائل میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے صوبے میں معدنیات، زراعت، پن بجلی اور سیاحت میں سرمایہ کاری لانے کے لیے سول حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو مزید سہولیات فراہم کرکے روزگار کے مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ جنرل سردار حسن اظہر حیات عوام اور مسلح افواج کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کے لیے مختلف کمیونٹیز تک پہنچنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ طلباء، اساتذہ، علماء اور معاشرے کے دیگر طبقات بالخصوص ضم شدہ اضلاع کے لوگوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ کے پی حکومت کے ایک اہلکار نے کہا، “مسلح افواج اور صوبائی حکومت کے تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں۔” صوبائی حکومت نے مسلح افواج کی مدد سے غیر قانونی موبائل سمز، دھماکہ خیز مواد، بھتہ خوری، ہنڈی، غیر قانونی اسلحہ، اسمگلنگ، جعلی دستاویزات، منشیات کی سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ اہلکار نے مزید کہا: “غیر قانونی سرگرمیوں کی مؤثر روک تھام کے لیے، متعلقہ وفاقی اور صوبائی محکمے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں مل کر کام کر رہی ہیں۔”

پاک فوج جنوبی وزیرستان میں 41 ہزار ایکڑ بنجر اراضی پر کاشتکاری کے منصوبے کا آغاز کرے گی Read More »

Google Adsense

گوگل ایڈ سینس پر کمائی کا طریقہ تبدیل کرنے کا اعلان

  سب سے بڑی انٹرنیٹ سرچ انجن ’گوگل‘ نے ویب سائٹس پر اشتہارات کی کمائی کا طریقہ کار تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے طریقے سے اشتہارات چلانے والے صارفین کی کمائی بہتر ہوگی۔ گوگل کی جانب سے بلاگ پوسٹ میں بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر سال نو کے موقع پر یعنی 2024 کے آغاز میں گوگل ایڈ سینس پر کمائی کا طریقہ تبدیل کردیا جائے گا۔ کمپنی کے مطابق اس وقت ویب سائٹس پر اشتہارات دکھانے والے افراد اور کمپنیوں کو ’کلک‘ پر پیسے ملتے ہیں جب کہ نئے طریقے کے تحت صارفین کو اشتہارات کو ویب سائٹس پر آویزاں کرنے یا دکھانے پر پیسے ملیں گے، جسے ’امپریشن پیمنٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ’پر امپریشن پیمنٹ‘ کا مطلب یہ ہے کہ ویب سائٹس مالکان کو ہر امپریشن یعنی پیج ویو پر پیسے ملیں گے، عام طور پر گوگل ایک ہزار پیج ویوز کے حساب سے پیمنٹ فراہم کرتا ہے، تاہم بعض ویب سائٹس میں پیج ویوز کی تعداد کم یا زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ اس وقت تک گوگل ایڈ سینس پر ’پر کلک پیمنٹ‘ کا طریقہ رائج ہے، یعنی ویب سائٹس مالکان کو گوگل اس وقت پیمنٹ ادا کرتا ہے، جتنی بار ان کے پیج کو کلک کیا جاتا ہے لیکن نئے طریقے کے تحت ویب سائٹ کے کسی بھی حصے یا پیج پر اشتہار نظر آنے پر پیسے ادا کیے جائیں گے۔ نئے طریقے کے تحت ویب سائٹس مالکان کو کوئی تبدیلی نہیں کرنی پڑے گی، گوگل اپنے خود کار نظام کے تحت اشتہارات کو ویب سائٹس پر آویزاں کرے گا۔ ساتھ ہی گوگل نے واضح کیا کہ نئے طریقہ کار کے تحت اگرچہ آمدنی آسان اور بہتر ہوجائے گی لیکن ویب سائٹس مالکان کی کمائی کے حصے میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، انہیں اتنا ہی اشتہارات کمائی کا 68 فیصد حصہ ملے گا۔ اس وقت گوگل ایڈ سینس پر مونیٹائز ویب سائٹس کو اشتہارات کی کمائی کی مد میں 68 فیصد حصہ ملتا ہے، باقی 32 فیصد حصہ گوگل لیتا ہے۔ گوگل کسی بھی کمپنی سے اشتہارات دکھانے کے پیسے کلک یا پیج ویوز کے حساب سے لیتا ہے، یعنی کمپنیز کو بھی اتنے ہی پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں، جتنی بار ان کا اشتہار دیکھا جاتا ہے۔ گوگل ایڈ سینس کیا ہے؟ گوگل ایڈ سینس ویب سائٹس کو مونیٹائز کرنے کا طریقہ ہے، یعنی یہ پیسے کمانے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ گوگل ایڈ سینس پر ویب سائٹ کو رجسٹرڈ کرنے کے لیے ویب سائٹ مالک کو جی میل پر اکاؤنٹ کھول کر ’ایڈ سینس‘ میں جاکر اپنی معلومات فراہم کرنے پڑتی ہے، اس کے بعد گوگل مذکورہ ویب سائٹس کا جائزہ لے کر اسے اشتہارات کے لیے قابل قبول یا مسترد کرنے کا فیصلہ سناتا ہے۔ گوگل کی جانب سے ویب سائٹ کو قابل قبول قرار دیے جانے کے بعد اس پر اشتہارات دکھانے کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے اور ہر ویب سائٹ پر اس کے علاقے اور پڑھنے والے افراد کی پسند کے مطابق اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔ گوگل ایڈ سینس کو 2003 میں متعارف کرایا گیا تھا اور اس وقت دنیا بھر کی ویب سائٹس اس طریقہ کار سے سالانہ اربوں ڈالر کی کمائی کر رہی ہیں اور ہزاروں پاکستانی ویب سائٹس بھی اس سے کمائی کر رہی ہیں۔

گوگل ایڈ سینس پر کمائی کا طریقہ تبدیل کرنے کا اعلان Read More »

Earthquake

نیپال اور بھارت میں زلزلہ، ریکٹر اسکیل پر شدت 6.4 ریکارڈ

نیپال اور شمالی بھارت میں 6.4 شدت کے زلزلے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نیپال اور شمالی بھارت کے کئی علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے،  زلزلے کے جھٹکے نئی دہلی تک محسوس ہوئے، جس کے باعث لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق زلزلے کی شدت 6.4 تھی، 11.32 منٹ پر آنیوالے زلزلے کی گہرائی 10 کلو میٹر تھی۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق بھارت میں آنیوالے زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت 5.6 ریکارڈ کی گئی، زلزلے کا مرکز نیپال کا سرحدی علاقہ جملا تھا، زلزلے کی گہرائی 17.9 کلو میٹر تھی۔ واضح رہے کہ 2015ء میں نیپال میں خوفناک زلزلے میں 8 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے جبکہ دارالحکومت کٹھمنڈو سمیت کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر املاک تباہ ہوئی تھیں۔

نیپال اور بھارت میں زلزلہ، ریکٹر اسکیل پر شدت 6.4 ریکارڈ Read More »

Kidnapped and Murdered

اغوا اور قتل کی سازش جس میں پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے’اللہ اکبر‘ کے نعروں کا استعمال کیا گیا

انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں ایک بڑے ٹیکسٹائل تاجر کے نابالغ بیٹے کے اغوا اور قتل کے معاملے میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان نے پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے مذہبی نعروں کا استعمال کیا۔ پولیس نے واقعے میں ملوث تینوں ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تاجر کے بیٹے کے اغوا اور قتل میں اس کی ٹیوشن ٹیچر جو پہلے اسے گھر میں پڑھانے آتی تھی اور اس کے دوست ملوث تھے۔ ٹیوشن ٹیچر رچیتا وتس، اس کے دوست پربھات شکلا اور پربھات کے دوست شیوا کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا تھا کہ قتل کے بعد ملزمان نے 30 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا اور اس واقعے سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پولیس کے ہاتھ لگی ہے۔ مذہبی نعروں کا استعمال طالب علم کے قتل کے بعد گرفتار ملزمان نے تاجر کے گھر خط بھیج کر 30 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق اس خط میں ’اللہ‘ اور ’اللہ اکبر‘ جیسے الفاظ اور نعرے لکھے گئے تھے۔ خط میں مذہبی نعروں کے بارے میں پولیس نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملزم پربھات شکلا، شیوا اور ٹیوشن ٹیچر رچیتا نے پولس کی توجہ ہٹانے کے لیے خط میں ایک خاص مذہب سے متعلق نعرے لکھے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پربھات شکلا نے اپنے دوستوں شیوا اور رچیتا کے ساتھ مل کر قتل کی سازش رچی تھی اور قتل کے بعد کسی کو ان پر شک نہ ہو انھوں نے تاجر کے گھر اغوا اور تاوان کی رقم کا مطالبہ کرتے ہوئے خط بھیجا تھا۔ یہ معمہ کیسے حل ہوا؟ پولیس نے بتایا ہے کہ پیر کی شام 4.30 بجے نابالغ طالب علم اپنی کوچنگ کے لیے گھر سے نکلا تھا اور معمول کے مطابق جب وہ گھر واپس نہیں آیا تو گھر والوں نے پہلے طالب علم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد رات 9.45 بجے طالب علم کے اہل خانہ نے کانپور کے رائے پوروا پولیس سٹیشن میں لاپتہ بچے کی اطلاع دی اور پولیس نے طالب علم کے والد کی شکایت پر مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دیں۔ پولیس کے مطابق ملزم پربھات شکلا کو معلوم تھا کہ تاجر کا بیٹا روزانہ شام چار بجے کوچنگ کے لیے سواروپ نگر جاتا تھا۔ اس لیے اس نے واردات کو انجام دینے کے لیے پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔ ’پیر کے روز، اس نے ایک پولیس چوکی کے قریب تاجر کے بیٹے سے اپنے گھر کے لیے لفٹ مانگی اور بعد میں اسے کولڈ ڈرنک پلائی جس میں نشہ آور چیز تھی‘ پولیس کے مطابق ’بعد میں، وہ تاجر کے بیٹے کو اپنے گھر کے قریب ایک کمرے میں لے گیا اور گلا دبا کر اس کا قتل کر دیا۔ قتل کے بعد ملزم نے تاجر کو تاوان کے لیے خط لکھا۔‘ قتل کا محرک؟ تحقیقات کی بنیاد پر پولیس کا کہنا ہے کہ اس پورے واقعے کی منصوبہ بندی پربھات اور اس کی گرل فرینڈ رچیتا نے کی تھی۔ لیکن قتل کی وجہ کیا تھی؟ کیونکہ ملزم نے طالب علم کے قتل کے بعد تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں پولیس کا کہنا ہے کہ ’ملزم پربھات کو طالب علم اور اس کی ٹیوشن ٹیچر رچیتا کے درمیان دوستی پسند نہیں تھی۔ اس کی وجہ سے اس نے یہ سازش رچی اور پھر اس میں رچیتا اور اس کے دوست شیوا کو شامل کیا۔‘ پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے مقتول طالب علم کا موبائل فون بھی برآمد کر لیا ہے اور اس سے مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔ سکیورٹی گارڈ کی ذہانت سے ملزمان پکڑے گئے مقتول طالب علم کے ماموں نے بتایا کہ ان کی بہن نے اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے انھیں گھر بلایا تھا۔ علاقے کے سکیورٹی گارڈ نے مقتول طالب علم کے ماموں کو بتایا کہ ایک شخص سکوٹر پر آیا تھا اور متوفی کے گھر خط پہنچانے کی درخواست کی تھی۔ گارڈ نے اس آدمی کی بات سننے سے انکار کر دیا اور اس سے کہا کہ وہ خود جا کر خط گھر پر دے آئے۔ گارڈ نے اس سکوٹر کا نمبر نوٹ کر لیا تھا۔ اس کے بیان کی بنیاد پر پولیس نے سکوٹر کے مالک پربھات شکلا کو پکڑ لیا۔ ولیس نے بتایا کہ جس شخص نے یہ خط متوفی کے گھر پہنچایا وہ پربھات کا دوست شیوا تھا۔ کانپور کے ٹیکسٹائل تاجر کے بیٹے کے قتل سے ناراض کانپور ٹیکسٹائل کمیٹی کے اہلکاروں نے کینڈل مارچ نکالا۔ تاجروں نے پولیس انتظامیہ سے ملزمان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کانپور ٹیکسٹائل کمیٹی کے سینیئر نائب صدر رومیت سنگھ ساگاری نے کہا کہ ’ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ انھیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ انھیں موت کی سزا دی جائے۔‘ طالب علم کے ماموں نے یہ بھی کہا کہ ’میں یوگی آدتیہ ناتھ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ انھیں سخت ترین سزا دی جائے، انھیں موت کی سزا دی جائے۔‘

اغوا اور قتل کی سازش جس میں پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے’اللہ اکبر‘ کے نعروں کا استعمال کیا گیا Read More »