International

خیبرپختونخوا کا وہ علاقہ جہاں غیر قانونی طور پر پانی سے سونا نکالنے کا کام کیا جاتا ہے

صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ کی تحصیل نظام پور کے 30 سالہ سعید محمد اور اُن کے دوست وقاص ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے کے بعد واپس گھر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ شدید سردی میں میلے کپڑے، تن پر پرانا پھٹا کوٹ اور پاؤں میں پلاسٹک کے چپل، اس حالت میں وہ دریائے اباسین کی ریت چھان کر سونا نکالنے کا کام کرتے ہیں۔ سعید محمد کو روزانہ کی بنیاد پر پندرہ سو روپے مل جاتے ہیں لیکن اُن کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ کام خطرے سے خالی نہیں کیونکہ یہ غیر قانونی ہے۔ نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنر خالد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ نظام پور میں پچھلے دو سال سے بڑے پیمانے پر دریائے سندھ یا اباسین سے بڑی مشینری کی مدد سے سونا نکالنے کا کام ہو رہا ہے تاہم کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں۔ چھتیس گاؤں پر مشتمل نظام پور ضلع نوشہر کی تحصیل جہانگیرہ کا علاقہ ہے جس کی آبادی تقریباً تین لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا ذریعہ کمائی علاقے میں قائم فوجی سیمنٹ فیکٹری اور سکیورٹی اداروں میں نوکریاں، ٹرانسپورٹ اور ملائیشیا میں محنت مزدری کرنا ہے تاہم پچھلے دو سال سے گاؤں سے گزرنے والے دریائے سندھ سے سونا نکلنے سے مقامی سطح پر کاروبار کے مواقع بڑھ چکے ہیں۔ مقامی لوگ کسی نہ کسی طریقے سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں تاہم اس حوالے سے جب بحیثیت صحافی آپ کسی سے بات کرتے ہیں تووہ آپ کو کسی سرکاری ادارے کا اہلکار سمجھ کر خاموشی اختیار کر لیتا ہے اور یہی مشورہ دیتا ہے کہ یہ کام غیر قانونی طور پر ہو رہا ہے اور ’بڑے لوگ‘ اس میں ملوث ہیں۔ مشینری کرائے پر لے کر دریا سے سونا نکالنے کا کام اختر جان (فرضی نام) پچھلے چھ ماہ سے بھاری مشینری کو کرائے پر لے کر دریا سے سونا نکالنے میں مصروف ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ نظام پور کے دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کچھ پیسے لا کر دن کے حساب سے لاکھوں روپے کما سکتے ہیں اور اس وجہ سے یہی کام شروع کر دیا لیکن بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اختر جان کے بقول انھوں نے ابتدا میں تین چھوٹی ایکسیویٹر مشینوں کو چار چار لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر لیا جبکہ کام کے لیے بیس مزدور بھی بھرتی کر لیے اور دریا کے کنارے پڑی ریت سے کام کا آغاز کیا لیکن سونے کی کم مقدار کی وجہ سے ہر ہفتے پندرہ سے بیس لاکھ روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ چھوٹی مشینری کی بجائے اٹھارہ اٹھارہ لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر مزید تین بڑی ایکسیویٹر مشینیں پنجاب سے منگوائی گئیں جو دریا کے بیج سے ریت اُٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اس اقدام سے اُن کی آمدن میں اضافہ بھی ہوا تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید بتانے سے گریز کیا۔ سعید اللہ (فرضی نام) پہلے تعمیراتی شعبے سے وابستہ رہے ہیں لیکن آٹھ ماہ پہلے اُنھوں نے بھی چار کروڑ روپے کی بھاری مشینری خرید کر اسے ایک مقامی ٹھیکیدار کو نصف آمدن کے حساب سے سونا نکالنے کے کام کے لیے اُن کے حوالے کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ابتدائی دہ ماہ میں تو انھوں نے کچھ نہیں کمایا اور اوپر سے پولیس نے چھاپہ مار کر ڈیڑھ کروڑ کی مشینری بھی قبضے میں لی اور پانچ مزدوروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ بندے عدالت سے ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں تاہم مشینری اب بھی پولیس کے پاس ہے۔ اُن کے بقول اس کام کے دوران بہت سے مسائل تو ہیں جن میں حکومت کی طرف سے سخت اقدامات اور دریا میں مشینری کا ڈوبنا وغیرہ لیکن اس شعبے میں اپنی کروڑوں کی سرمایہ کاری کے بعد وہ اس کام کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ سونا نکالنے کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟ ضلع نوشہرہ میں دریائے سندھ سے غیر قانونی طور پر سونا نکالنے کی روک تھام کے لیے محکمہ معدنیات اور ضلعی انتظامیہ مشترکہ طورپر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ خالد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ نوشہرہ سے گزرنے والے دریائے سندھ اور دریائے کابل سے غیر قانونی طور پر سونا نکالنے کا کام کافی پرانا ہے لیکن سنہ 2022 میں بھاری اور جدید مشینری کا استعمال شروع ہوا اور رواں سال اس میں کافی اضافہ ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ سونے کی غیر قانونی مائیننگ کی روک تھام کے لیے نظام پورمیں واقع سیمنٹ فیکٹری کے قریب پولیس اور محکمہ معدنیات کی مشترکہ چیک پوسٹ بھی قائم کر دی گئی اور محکمہ معدنیات کی درخواست پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ اُن کے بقول غیر قانونی کام میں ملوث افراد کے خلاف 858 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ اُنھوں کہا کہ اب تک 825 افراد گرفتار کیے گئے ہیں جن سے ستر لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ 12 ایکسیویٹر، سات گاڑیا ں اور 20 موٹر سائیکلوں سمیت مختلف قسم کے آلات بھی قبضے میں لیے گئے ہیں۔ حکومت کی کارروائیوں کے باوجود بھی دریا سے سونا نکالنے کا کام کم ہونے کی بجائے اس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ خالد خٹک کا کہنا ہے کہ اس غیر قانونی دھندے کی روک تھام کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کی جاتی ہیں تاہم اس میں بنیادی ذمہ داری محکمہ معدنیات کی ہے کہ وہ اسے لیز یا آکشن کرانے کے لیے اقدامات کریں تاکہ قومی خزانے کو ہونے والے نقصان کی روک تھام ہو سکے۔ ڈپٹی کمشنر خالد خٹک نے کہا کہ جہاں پر سونا نکالا جا رہا ہے وہ نوشہر کے صدرمقام سے کافی دور ہے جبکہ دوسری جانب بہت بڑے علاقے میں یہ سرگرمیاں ہوتی ہیں، جہاں پر پہنچنا مشکل ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جب تک اس کے لیے متعلقہ ادارے اسے قانونی طور پر نکالنے کے لیے کارروائی نہیں کرتے تو یہ غیر قانونی عمل جاری رہے گا۔ اس حوالے سے صوبائی محکمہ معدنیات کے ڈائریکٹرجنرل کا موقف جانے کے لیے رابطے

خیبرپختونخوا کا وہ علاقہ جہاں غیر قانونی طور پر پانی سے سونا نکالنے کا کام کیا جاتا ہے Read More »

آئیں پل بنائیں۔

  دوسگے بھائیوں کے بڑے بڑے زرعی فارم ساتھ ساتھ واقع تھے دونوں چالیس سال سے ایک دوسرے سے اتفاق سے رہ رہے تھے اگر کسی کو اپنے کھیتوں کیلئے کسی مشینری یا کام کی زیادتی کی وجہ سے زرعی مزدوروں کی ضرورت پڑتی تو وہ بغیر پوچھے بلا ججھک ایک دوسرے کے وسائل استعمال کرتے تھے ۔ لیکن ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور کسی معمولی سی بات سے پیدا ہونے والا یہ اختلاف ایسا بڑھا کہ ان میں بول چال تک بند ہو گئی اور چند ہفتوں بعد ایک صبح ایسی بھی آ گئی کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے گالی گلوچ پر اتر آ ئے اور پھر چھوٹے بھائی نے غصے میں اپنا بلڈوزر نکالا اور شام تک اس نے دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھاڑی کھود کر اس میں دریا کا پانی چھوڑ دیا۔ اگلے ہی دن ایک ترکھان کا وہاں سے گزر ہوا تو بڑے بھائی نے اسے آواز دے کر اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے اس نے کل بلڈو زر سے میر ے اور اپنے گھروں درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھاڑی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا دو کیونکہ میں اس کا گھر تو دور کی بات ہے اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا اور دیکھو مجھے یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔ ترکھان نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سے ضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں۔موقع دیکھنے کے بعد ترکھان اور بڑا بھائی ساتھ واقع ایک بڑے قصبہ میں گئے اور تین چار متعلقہ مزدوروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گئے ترکھان نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور اپنا کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔ صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ،وہ قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں ایک بہترین پل بنا ہوا تھا جہاں اسکے چھوٹے بھائی نے گہری کھاڑی کھود دی تھی۔جونہی وہ اس پل پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑا کبھی کھاڑی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتا رہا اور پھر اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری چند سیکنڈ بعد دونوں بھائی نپے تلے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے پل کے درمیان آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور پھر دونوں بھائیوں نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے ایک دوسرے کو پوری شدت سے بھینچتے ہوئے گلے لگا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے اور دور کھڑا ہوا ترکھان یہ منظر دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ بڑے بھائی کی نظر جونہی ترکھان کی طرف اٹھی جو اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا اورکہا کہ وہ کچھ دن ہمارے پاس ٹھہر جائے لیکن ترکھان یہ کہہ کر چل دیا کہ اسے ابھی اور بہت سے”پُل “ بنانے ہیں۔ برائے مہربانی کوشش کریں کہ لوگوں کے درمیان پل بنائیں دیواریں نہ بنائیں۔

آئیں پل بنائیں۔ Read More »

بوائے فرینڈ کی جہیز میں بی ایم ڈبلیو کار کی ڈیمانڈ؛ لیڈی ڈاکٹر نے خودکشی کرلی

نئی دہلی: بھارتی ریاست کیرالہ میں نوجوان لیڈی ڈاکٹر نے جہیز کے بے جا مطالبے پر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کیرالہ کی رہائشی ڈاکٹر شاہانہ اپنے ہم جماعت ڈاکٹر ای اے رویس سے محبت کرتی تھیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب شاہانہ نے رویس سے رشتہ مانگنے گھر والوں کو بھیجنے کا کہا تو لڑکے کا اصل روپ سامنے آگیا۔ شاہانہ کے والد بیرون ملک ملازمت کرتے تھے لیکن ان کا انتقال دو سال قبل ہی ہوگیا تھا۔ شاہانہ اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ رہ رہی تھی اور ساتھ ہی ملازمت کرکے گھر کی ذمہ داریاں پوری کرتی تھی۔ ای اے رویس نے اپنے گھر والوں کو رشتہ مانگنے کے لیے تو بھیج دیا لیکن آخری لمحات میں جہیز کی ڈیمانڈ کردی اور مطالبات پورے نہ ہونے پر شادی منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دیدی۔ شاہانہ کی والدہ نے جہیز میں بھاری سونا، 15 ایکڑ زمین اور بی ایم ڈبلیو کار کا مطالبہ پورا کرنے سے معذوری ظاہر کی تو ڈاکٹر ای اے رویس اور اس کے والدین نے شادی منسوخ کردی۔ ڈاکٹر شاہانہ کو اپنے بوائے فرینڈ کے اس رویے نے غمزدہ کردیا اور دل برداشتہ ہوکر انھوں نے خودکشی کرلی۔ لاش کے پاس سے ملنے والی تحریر میں لکھا تھا کہ شادی کے نام پر ہرکوئی بس پیسا چاہتا ہے۔ پولیس نے جہیز مانگنے پر ڈاکٹر اے ای رویس کو حراست میں لے لیا جب کہ وزیر صحت نے بھی رپورٹ طلب کرکے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

بوائے فرینڈ کی جہیز میں بی ایم ڈبلیو کار کی ڈیمانڈ؛ لیڈی ڈاکٹر نے خودکشی کرلی Read More »

Gurpatwant Singh Pannun Sikh Leader Khalistan Movement

مودی سرکار مجھے ہرصورت قتل کرنے کے در پر ہے، خالصتان رہنما

واشنگٹن: سکھ علیحدگی پسند رہنما گرپتونت سنگھ نے کہا ہے کہ امریکا میں قتل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد بھارت اب بھی مجھے ہر صورت قتل کرنے  کے در پے ہے اور سازش تیار کر رہا ہے۔   عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت سے علیحدگی اور آزاد وطن کے قیام کی سرگرم جماعت خالصتان تحریک کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا ہے کہ وہ قتل کی سازشوں اور دھمکیوں کو پروا نہ کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔   گرپتونت سنگھ پنوں نے مزید کہا کہ امریکا میں میرے قتل کی سازش پکڑی گئی جس کا انکشاف واشنگٹن پوسٹ میں کیا گیا تھا اور امریکی انٹیلی جنس ادارے کی بروقت مداخلت سے مودی سرکار اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔   سکھ رہنما نے مزید کہا کہ  امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ سے ثابت ہوگیا کہ میرے قتل کی سازش میں مودی حکومت شامل ہے۔ یہ امریکی رپورٹ نہیں بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر فرد جرم ہے۔ گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا کہ یہ مودی سرکار کی غلط فہمی ہے کہ میرے قتل سے خالصتان تحریک ختم ہو جائے گی۔ بھارت یاد رکھے کہ خالصتان تحریک آزاد وطن کے حصول تک جاری رہے گی۔ یاد رہے کہ امریکا میں سکھ رہنما کے قتل کی را کی ساش بے نقاب پونے پر امریکی انٹیلی جنس کی مدد سے چیک ری پبلک سے نکھل گپتا کو گرفتار کیا تھا اور فرد جرم بھی عائد کردی گئی۔

مودی سرکار مجھے ہرصورت قتل کرنے کے در پر ہے، خالصتان رہنما Read More »

Harkishan Lal

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘

آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل! 13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔ وظیفے ہی پر انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔ اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی، معاشیات اور فارسی اُن کے پسندیدہ مضامین تھے۔ جب انھوں نے بی اے میں صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو انھیں کیمبرج میں تین سالہ پڑھائی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔ کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا گابا لکھتے ہیں کہ ‘1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔ سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ بینک کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مجیٹھیا چیئرمین اور لالا ہر کشن اعزازی سیکریٹری تھے۔ لالا لاجپت رائے انارکلی لاہور میں آریا سماج مندر کے سامنے قائم اس بینک کے پہلے کھاتے دار بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی بینک کے مینیجر تھے۔ لاہور سے باہر پہلی شاخ 1900 میں راولپنڈی میں کھولی گئی اور سنہ 1904 میں بینک نے کراچی اور پشاور میں اپنی شاخیں قائم کیں۔ لالا ہرکشن لال، مجیٹھیا کے اخبار دی ٹربیون کے ٹرسٹی بھی تھے۔ انھوں نے 1901 سے 1906 تک، کئی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے قائم کیے جیسے پنجاب کاٹن پریس کمپنی، پیپلز بینک آف انڈیا، امرتسر بینک، کان پور فلور ملز، سنچری فلور ملز، صابن کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، آرے، برف خانے اور لانڈری۔ پنجاب نیشنل بینک سمیت کچھ ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ بینک پاکستان بننے سے پہلے ہی دلی منتقل ہو گیا تھا۔   لاہور میں آٹھ آنے فی یونٹ بجلی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت سرکاری دفاتر میں بجلی کی فراہمی چاہتی تھی۔ حکومت نے خود سے کئی بار اس ضمن میں کوشش کی جو ناکام رہی۔ سنہ 1910 میں اس کے لیے اشتہار دیا گیا جس میں یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ کامیاب بولی دینے والے کو لاہور شہر میں بجلی فراہم کرنے کا لائسنس بھی دیا جائے گا۔ اس اشتہار کے جواب میں بہت سی مقامی اور برطانوی کمپنیوں کے ٹینڈر آئے۔ اسی طرح کے کاروبار میں مصروف ’دلی الیکٹرک ٹرام ویز اینڈ لائٹنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے پاس لائسنس حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ تاہم اس کمپنی کے لندن آفس نے ٹینڈر واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت لالا ہرکشن لال اس کمپنی کے لوکل بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ 24 فروری 1911 کو اس فیصلے کا علم ہونے پر، لالا نے یہ کام خود ہی کرنے کا انتخاب کیا۔ ٹینڈر جمع کرانے کے لیے صرف چار دن باقی تھے۔ لالا نے اپنے بینک، پیپلز بینک آف انڈیا، کے نام پر ٹینڈر جمع کروا دیا جو اسی سال جولائی میں منظور ہو گیا۔ حکومت کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ پندرہ منٹ سے اوپر بجلی جانے پر ہر بار 25 سے 200 روپے جرمانہ ہو گا۔ فروری 1912 میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی پانچ لاکھ روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ 21 مارچ 1912 کو رجسٹرڈ ہوئی۔ لا لا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین بنے۔ تاریخ دان احمد سعید کے مطابق نومبر 1912 میں لاہور الیکڑک سپلائی کمپنی نے بجلی کی سپلائی کا سلسلہ شروع کیا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاح پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر(1908-1913) لوئی ڈین نے کیا۔ تب کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ڈین نے اپنی تقریر میں کہا: ’لاہور کو بجلی سے روشن کرنے کے منصوبے کا اعلان ہر ممکنہ جگہ کیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا شخص اس کا بیڑا اٹھائے جو عوامی جذبے سے معمور ہو۔ تاہم یہ ایک ایسا کام تھا جسے خود ہندوستانی عوام نے انجام دیا۔ بنیادی طور پر ایسا جناب ہرکشن لال کی پہل کی وجہ سے ہے کہ یہ منصوبہ اتنی کامیابی سے شروع ہوا ہے۔‘ اگرچہ سپلائی تو 18 نومبر کو شروع کردی گئی تھی لیکن لائسنس کا گزٹ نوٹیفیکیشن 25 نومبر کو ہوا۔ سرکاری عمارتوں کو سب سے پہلے بجلی دی گئی۔ کنکشن کے لیے درخواستیں تیزی سے آئیں۔ چند ماہ کے اندر (31 مارچ 1913 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک) صارفین کی تعداد 98 تک پہنچ گئی تھی۔ اگلے سال تک یہ تعداد 542 اور اس کے بعد کے سال میں یہ بڑھ کر 884 ہو گئی۔ کمپنی نہ صرف اس مختصر وقت میں تمام ابتدائی اخراجات نمٹانے میں کامیاب رہی بلکہ ساڑھے سات فیصد منافع کمانے کا اعلان بھی کیا۔   بجلی کی طلب بڑھ رہی تھی اور مشینوں کی تبدیلی بھی درکار تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں۔ اس کے باوجود کمپنی، اپنے وسائل کے محتاط استعمال سے، سال 1915-16 کے لیے نو فیصد کے منافع کا اعلان کرنے میں کامیاب رہی۔ اگلے سالوں میں یہ بڑھتا گیا۔ احمد سعید اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لاہور سے چھپنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘ Read More »

بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزارنا والدین اور بچوں دونوں کیلئے فائدہ مند

تعطیلات کو بچوں کے ساتھ معیاری وقت کے طور پر گزارنا نہ صرف بچوں کے لیے مفید نہیں بلکہ والدین کی صحت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں: 1) جذباتی بہبود: والدین اور بچوں کا ایک ساتھ وقت گزارنا جذباتی رشتے کو فروغ دیتا ہے اور تعلقات کو مزید مضبوط بناتا ہے۔ یہ والدین اور بچوں دونوں کے لیے خوشی میں اضافہ، ذہنی تناؤ میں کمی اور تکمیل کے احساس کا باعث بنتا ہے۔ 2) ذہنی صحت: بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزارنا مقصد کو زیادہ واضح اور خوشی کا احساس فراہم کرتا ہے جس سے والدین اور بچوں کی ذہنی صحت پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ اس دوران چنچل سرگرمیوں یا گفتگو میں مشغول ہونا موڈ کو بہتر کرتا ہے اور اضطراب یا افسردگی کو کم کرتا ہے۔ ) جسمانی سرگرمی: بیرونی سرگرمیوں، کھیلوں میں حصہ لینا یا صرف بچوں کے ساتھ کھیلنا جسمانی سرگرمی کی سطح کو بڑھاتا ہے۔ یہ والد اور بچوں دونوں کے لیے بہتر جسمانی صحت کو فروغ دیتا ہے، جس سے مجموعی فٹنس اور تندرستی میں مدد ملتی ہے۔ 4) تناؤ میں کمی: بچوں کے آس پاس رہنا اکثر ہنسی، تفریح ​​اور چنچل پن کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو تناؤ کو دور کرنے کا کام کرتا ہے۔ بچوں کے ساتھ بات چیت والدیں کیلئے کام سے متعلق تناؤ میں کمی لاسکتا ہے اور روزمرہ کے معمولات سے وقفے کا بہتر استعمال ہوسکتا ہے۔ 5) بہتر رابطہ: ایک ساتھ وقت گزارنا کھلے ماحول میں مواصلات یعنی براہ راست رابطے کی اجازت دیتا ہے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ اس سے فیملی میں جذباتی وابستگی مضبوط ہوتی ہے اور بچوں کی جذباتی نشوونما کے لیے معاون ماحول پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ) مثالی شخصیت اور سیکھنے کے مواقع: وہ والد جو اپنے بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزارتے ہیں اکثر زندگی کے اہم اسباق، اقدار اور مہارتیں اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ بچے مشاہدہ کرکے سیکھتے ہیں، اور مثبت رول ماڈلنگ ان کی نشوونما پر دیرپا اثر ڈالتی ہے۔ 7) اعتماد پر مبنی رشتہ: تعطیلات کو بچوں کے ساتھ معیاری وقت کے طور پر گزارنا مضبوط تعلقات استوار کرنے میں مدد دیتا ہے اور تحفظ اور اعتماد کی فضا قائم کرتا ہے۔ یہ جو بچوں کی صحت مند نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ 8) والدین کی صلاحیتیں: بچوں کے ساتھ وقت گزارنے سے والدین ان کی ضروریات، دلچسپیوں اور چیلنجوں کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ تفہیم والدین کی بہتر مہارتوں اور زیادہ موثر رہنمائی میں معاون ہے۔

بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزارنا والدین اور بچوں دونوں کیلئے فائدہ مند Read More »

وزن میں کمی کے انجیکشن کے صحت کے خطرات: آپ کو کیا جاننے کی ضرورت ہے۔

32 سال کی میڈی اس وقت شدید بیمار پڑ گئیں جب انھوں نے انسٹاگرام سے خریدے گئے جعلی سیمگلوٹائیڈ انجیکشن کو استعمال کیا۔ اس انجیکشن میں اوزیمپک نامی دوا ہوتی ہے اور بی بی سی کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے کچھ گروہ سیمگلوٹائیڈ کو بغیر کسی نسخے کے وزن کم کرنے والی دوا کے طور پر فروخت کر رہے تھے۔ بی بی سی کی تحقیقات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ انجیکشن برطانیہ کے کئی شہروں جیسے مانچسٹر اور لیورپول کے بیوٹی سیلون میں بھی فروخت کی جاتی ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج کے لیے تجویز کردہ دوا وزیمپک کی مانگ پچھلے کچھ برسوں میں آسمان کو چھونے لگی ہے۔ بہت سے اخبارات نے اس دوا کو وزن کم کرنے کے لیے ہالی ووڈ کے ’خفیہ علاج‘ کے طور پر پیش کیا۔ یہ دوا خون میں شوگر لیول کو کم کرتی ہے اور ہاضمے کے عمل کو بھی سست کرتی ہے۔ اس دوا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں نے وزن کم کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کی سپلائی میں مسائل ہوئے جبکہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اس دوا کی قلت ہوئی۔ برطانیہ کی فارمیسیوں میں جب اس دوا کے حصول کے لیے جدوجہد جاری تھی تو دوسری ہی جانب سیمگلوٹائیڈ پر مشتمل ’ڈائیٹ کٹس‘ فروخت کرنے والی ایک آن لائن مارکیٹ پنپنے لگی۔ ان کٹس کو ڈاک کے ذریعے ڈیلیور کیا جاتا تھا۔ ان کٹس میں عام طور پر سوئیاں اور دو شیشیاں ہوتی تھیں۔ ایک شیشی میں سفید پاؤڈر اور دوسرے میں ایک محلول ہوتا تھا۔ یہ کٹ میڈی کو بذریعہ ڈاک اس وقت پہنچائی گئی، جب انھوں نے کسی تقریب میں جانے سے پہلے بہت کم وقت میں اپنا وزن کم کرنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈنے کے لیے انسٹاگرام پر تلاش شروع کی۔ میڈی نے ہمیں بتایا کہ ’مجھے وزن کم کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنے جسم کو آسانی سے بدل سکتے ہیں۔‘ میڈی کا رابطہ ’لپ کنگ‘ نامی ایک کمپنی سے ہوا۔ ’لپ کنگ‘ کی انسٹاگرام پروفائل دبلی پتلی جسامت والی خواتین کی تصاویر اور صارفین کے ایسے ٹیکسٹ پیغامات کے سکرین شاٹس سے بھری ہوئی ہے، جس میں کمپنی کی پروڈکٹس کو سراہا گیا ہے۔ میڈی نے انھیں آزمانے کا فیصلہ کیا۔ کمپنی مالک جارڈن پارکے کے ساتھ کچھ پیغامات کے تبادلے اور 200 پاؤنڈ ٹرانسفر کرنے کے بعد میڈی کو 10 ملی گرام سیمگلوٹائیڈ بھیجا گیا میڈی کو واٹس ایپ پر ایک ویڈیو بھی موصول ہوئی، جس میں دوائیوں کو مکس کرنے اور انجیکشن لگانے کے طریقے کے بارے میں ہدایات کے ساتھ ساتھ انھیں صحت کے حکام کی تجویز کردہ مقدار سے زیادہ خوراک لینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ پہلے انجیکشن کے فوراً بعد ہی میڈی ’انتہائی بیمار ہو گئیں اور قے کرنے لگیں۔‘ جارڈن پارکے نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے میڈی کو بتایا کہ قے آنا معمول کی بات ہے۔ چند ہفتے بعد جب میڈی کو متلی آنا کم ہوئی تو میڈی نے دوبارہ اس دوا کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس بار انھوں نے اسے رات کو سونے سے پہلے لیا۔ میڈی کہتی ہیں کہ ’میں قے کی وجہ سے بیدار ہو گئی۔ یہ انتہائی خوفناک تھا۔ میں ساری رات قے کرتی رہی، یہاں تک کہ قے میں خون اور سفید جھاگ بھی آنے لگا۔ وہ اگلی صبح ایمرجنسی گئیں، جہاں ان کے جسم میں پانی کی کمی کا علاج کیا گیا۔ ’میں نے سوچا میں مر جاؤں گی۔ میں اپنی ماں کے سامنے بھی رو پڑی۔ میں بہت غصے میں بھی تھی کیونکہ کسی نے بھی مجھے اس کے مضر اثرات کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے طور پر بھی تحقیق کی لیکن میں نے دیکھا کہ کسی کو بھی اتنی تکلیف نہیں ہو رہی، جتنی مجھے ہو رہی تھی۔‘ ذرائع    نے اس معاملے میں جارڈن پارکے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جارڈن پارکے ان بہت سے غیر قانونی فروخت کنندگان میں سے ایک ہیں، جو سوشل میڈیا کے ذریعے سیمگلوٹائیڈ بیچتے ہیں۔ ان ادویات میں اصل میں کیا ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے بغیر لائسنس کے مختلف فروخت کنندگان سے سیمگلوٹائیڈ کو خریدا اور ان مصنوعات کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا۔ لیبارٹری نتائج میں ہر نمونے کی ساخت میں تضادات ظاہر ہوئے۔ اگرچہ زیادہ تر مصنوعات میں سیمگلوٹائیڈ ہوتا ہے، لیکن متعدد فروخت کنندگان کی جانب سے فراہم کی جانے والی بوتلوں میں کوئی فعال اجزا نہیں ہوتے اور تقریباً سبھی، بشمول ’لپ کنگ‘ پروفائل سے خریدی گئی بوتلوں میں بھی، اُن پر لکھی مکمل خوراک موجود نہیں۔ برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے تحت اوزیمپک صرف ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے دستیاب ہے۔ ایک اور دوا ’ویگووی‘ جسے خاص طور پر موٹاپے کے علاج کے لیے تجویز کیا جاتا ہے لیکن این ایچ ایس کی تجاویز کے مطابق اسے بھی صرف ایسے لوگوں کو تجویز کیا جا سکتا ہے جن کا باڈی ماس انڈیکس (BMI) کم از کم 35 ہو۔ دوا ساز کمپنی نووو نورڈسک وہ واحد کمپنی ہے، جو سیماگلوٹائیڈ فروخت کرنے کی مجاز ہے لیکن فی الحال یہ جعلی ورژن کی آن لائن فروخت کے خلاف لڑ رہی ہے۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ’جعلی سیمگلوٹائیڈ فروخت کرنے والی ویب سائٹس، اشتہارات یا سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو شناخت کرنے اور انھیں ہٹانے کے لیے کام کر رہی ہے‘ اور یہ بھی کہ وہ ’کاپی رائٹس کی خلاف ورزی، مجرمانہ نیٹ ورکس اور غیر قانونی طور پر اس کی مصنوعات کی فروخت پر تحقیق کر رہی ہے۔‘ لیکن بی بی سی کو یہ بھی پتا چلا ہے کہ کچھ ایسے فروخت کنندگان، جن کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پروفائلز کو بلاک کر دیا گیا، اکثر نئے ناموں سے نئے پلیٹ فارم بنا کر اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ ماہر قانون گیرارڈ ہینراٹے بتاتے ہیں کہ ’آپ ایک لیبل پر بہت سی چیزیں فروخت کر سکتے ہیں۔

وزن میں کمی کے انجیکشن کے صحت کے خطرات: آپ کو کیا جاننے کی ضرورت ہے۔ Read More »

اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے بدلے چار روزہ جنگ بندی پراتفاق

قطر : (ایگنایٹ پاکستان) قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں عارضی وقفے کا اعلان کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کردیا ۔ قطر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفہ کیا جائے گا، جنگ میں وقفے کا آغاز 24گھنٹے کے اندر ہوگا۔ قطری وزارت خارجہ کاکہنا ہے کہ معاہدے کے تحت درجنوں فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔ معاہدے کے تحت حماس اپنے پہلے مرحلے میں تقریباً 50 اسرائیلی خواتین اور بچوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں اسرائیل تقریباً 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، ان میں زیادہ تر خواتین اور نابالغ ہیں۔ اس میں اسرائیل کی طرف سے مصر سے روزانہ 300 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دینا اور جنگ روکنے کے دورن مزید ایندھن غزہ میں داخل کرنا شامل ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں حماس کئی دنوں تک جنگ بندی میں توسیع کے بدلے درجنوں اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر سکتی ہے۔ حماس کے ساتھ غزہ کے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری آج صبح اسرائیل کابینہ نے جنگ میں وقفے کی منظوری دی تھی ، کابینہ کے اجلاس میں اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ مشکل لیکن درست ہے۔  اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں حماس کی قید میں موجود 50 افراد کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور عارضی جنگ بندی کےمعاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ حماس کیساتھ جنگ جاری رکھنے کا اعلان  اسرائیل نے جنگ بندی کے خاتمے کے فوراً بعد غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے ، کابینہ اجلاس میں اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی مدد سے عارضی جنگ بندی اور حماس کے پاس قید یرغمالیوں کی رہائی اور عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچے ہیں لیکن اسرائیل اپنا مشن جاری رکھے گا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس سے قبل حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی جانب سے بھی جنگ بندی معاہدے کے قریب پہنچنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔  حماس نے اپنے بیان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ خیال رہے کہ قطر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کے ساتھ یرغمالیوں اور اسرائیلی تحویل میں لیے گئے فلسطینیوں کی رہائی سے متعلق کئی دنوں سے مذاکرات جاری تھے۔ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد صدربائیڈن کا   مؤقف امریکا کے صدر جوبائیڈن نے جنگ بندی معاہدے میں کردار ادا کرنے پر امیرِ قطر اور مصر کے صدر کا شکریہ ادا کیا ہے ، امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ معاہدے کے تمام پہلوؤں پر مکمل طور پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ میں وقفے کے لیے اسرائیلی صدر اور ان کی حکومت کے عزم کو سراہتا ہوں۔ یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی گزشتہ روز اشارہ دیاتھا کہ اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کے بدلے حماس کے زیر حراست قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ اور عارضی جنگ بندی اب بہت قریب ہے۔ دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 14 ہزار تک پہنچ گئی ہے، جبکہ 33 ہزار سے زائد زخمی ہیں جن میں دوتہائی خواتین اور بچے شامل ہیں ۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے بدلے چار روزہ جنگ بندی پراتفاق Read More »

International Cricket Council ammended its rule for both mens and women cricket match

آئی سی سی نے کرکٹ قوانین میں اہم ترامیم کر دیں

انٹر نیشنل کرکٹ کونسل نے انٹر نیشنل کرکٹ قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے مینز او ر ویمنز آفیشل کی میچ فیس برابر کر دی ہے ۔ ویمنزکرکٹ کےمیچ میں آفیشل کو بھی مینزکرکٹ جتنی میچ فیس ملےگی ،ٹی ٹوئنٹی اورون ڈے میں اوورز کےدوران اسٹاپ واٹچ کااستعمال کیاجائےگا، میچ میں تین باراوورزکےدرمیان ساٹھ سیکنڈ سےزیادہ وقت لینےپرپانچ رنزکی پینلٹی  لگائی جائے گی ۔ آئی سی سی کے مطابق پچ یا آٶٹ فیلڈ کوپانچ سال کےعرصےمیں پانچ یا چھہ ڈی میرٹ پوائنٹ  ملنے پرگراٶنڈ کاانٹرنیشنل سٹیٹس ختم کردیاجائے گا۔

آئی سی سی نے کرکٹ قوانین میں اہم ترامیم کر دیں Read More »

کیا علی گڑھ کا نام پاکستان کی مخاصمت میں بدلا جا رہا ہے؟

پانچ نومبر کو علی گڑھ میونسپل کارپوریشن نے ایک قرارداد پاس کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ شہر کا نام علی گڑھ سے بدل کر ہری گڑھ رکھا جائے۔ یہ قرار داد بی جے پی سے تعلق رکھنے والے شہر کے میئر پرشانت سنگھال نے پیش کی جسے حتمی منظوری کے لیے لکھنو میں بی جے پی کی حکومت کو بھیج دیا گیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے یہ مطالبہ 2019 سے کیا جا رہا ہے جب الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج رکھ دیا گیا تھا۔ علی گڑھ پر پچھلے 10 سال سے بی جے پی کی حکمرانی ہے۔ انڈیا کے سابق صدر ذاکر حسین، سابق نائب صدر حامد انصاری، حسرت موہانی، اداکار نصیر الدین شاہ، نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر کا تعلق علی گڑھ سے ہی ہے۔ انڈیا نے اپنے قیام سے لے کر اب تک تقریباً 100سے زیادہ قصبوں اور شہروں کے نام تبدیل کیے ہیں جس کے پیچھے شروع میں وجوہات مختلف تھیں اور زیادہ تر شہروں کے نام تبدیل کرنے کی وجہ نو آبادیاتی نشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا تھا۔ تاہم انتہا پسند گروہ آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی بی جے پی نے ان شہروں کے تاریخی نام بھی بدلنے شروع کر رکھے ہیں جن کے پیچھے مسلم شناخت ہے۔ اس کی وجہ سے انڈیا کے سیکولر حلقے شدید تحفظات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ 2000 سے پہلے صرف آٹھ شہروں کے نام بدلے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر کے نام تبدیل کرنے کے پیچھے حروف تہجی کی ترتیب تھی۔ مثال کے طور پر جبول پورے کو جبل پور، کاؤن پورے کو کان پور، بروڈا کو ودودا، بمبئی کو ممبئی، کوچین کو کوچی اور کلکتہ کو کولکتہ پکارا جانے لگا، مگر بعد میں جو نام بدلے گئے ان کے پیچھے دراصل ہندو توا کے نظریات تھے جو شہروں کی مسلم شناخت کی جگہ ہندو شناخت رائج کرنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی نے شہروں کے نام بدلنے کی جو روش شروع کی تھی وہ ملک کا نام بدلنے پر منتج ہو چکی ہے اور اب بی جے پی انڈیا کی بجائے سرکاری دستاویزات میں لفظ بھارت استعمال کر رہی ہے کیونکہ اسے اب آ کر معلوم ہوا کہ لفظ انڈیا کی مناسبت تو انڈس ویلی سے ہے اور یہ علاقے اب پاکستان میں آتے ہیں۔ ماضی میں مدراس کو چنائی ، دلتنگ گنج کو مدینی نگر ، میسور کو مے سورو ، بیجا پور کو ویجیا پور، گرگان کو گرو گرام ، ہوشنگ آباد کو نرمادا پورم ،اورنگ آباد کو چھترا پتی سمبھاج نگر ، عثمان آباد کو دھراشیو ،گوہاٹی کو گواٹھی ، گلشن آبادکو ناشک ، پونا کو پونے ،بھوپال کو بھوج پال، الہ آبادکو پریاگ راج ، فیض آباد کو ایودھیہ وغیرہ سے بدلنا اس کی چند مثالیں ہیں ۔ آگرہ ،جہاں تاج محل ہے ،اس کا نام بھی بدل کر اگروان یا اگروال رکھنے کی تجویز ہے۔ علی گڑھ کا تحریک پاکستان میں کردار دو قومی نظریے کا بانی سرسید احمد خان کو کہا جاتا ہے جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھی جو 1920ء میں یونیورسٹی بن گئی۔ یہی ادارہ مسلم سیاست کا محور ثابت ہوااور یہیں سے تحریک پاکستان پروان چڑھی۔مسلم لیگ کی قیادت میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ پاکستان بننے کے بعدبھی پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ، صدر ایوب خان ، چوہدری فضل الہٰی ، حبیب اللہ خان مروت ، گورنر جنرل غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین ، یہ سب علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ قائد اعظم بھی یہاں کئی بار طلبا سے خطاب کرنے آئے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی یہ مسلم شناخت اس وقت سے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے جب سے انڈین سیاست میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا ۔ پہلے مطالبہ کیا گیا کہ یہاں سے سرسید احمد خان اور قائداعظم کی تصاویر ہٹائی جائیں،پھر مہم چلائی گئی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے لفظ مسلم ہٹایا جائے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کی سیکولر شناخت متاثر ہوتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے 2019 میں یونیورسٹی کا نام بدلنے کی اپیل رد کر دی۔ اب علی گڑھ کا نام ہی بدلنے کی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے ۔انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے شہر کا نام علی گڑھ سے ہری گڑھ یا رام گڑھ رکھنے کا مطالبہ ساٹھ اور ستر کی دہائی سے کیا جاتا رہا ہے ۔ علی گڑھ کے نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ علی گڑھ کا پرانا نام کول تھا، جو بارہویں صدی تک جین مت کے ماننے والوں کا ایک شہر سمجھا جاتا تھا، یہاں جین مت کے قدیم مندر بھی موجود ہیں ۔ کول شہر کی ایک مسجد اور ٹاور کا خاکہ۔ ایک روایت کے مطابق کول کی بنیاد راجپوتوں نے 372 ق م میں رکھی تھی (کیپٹن رابن سمتھ/پبلک ڈومین) کول کی وجہ شہرت شراب کی کشید تھی۔ 1879 کے ڈسٹرکٹ گزیٹئر کے مطابق کول کا نام ایک سورمے بالا راما سے جوڑا جاتا ہے جو گنگا جمنا دو آب میں کول کے نام سے معروف تھا ۔ ایک اور روایت کے مطابق کول کی بنیاد ڈور راجپوتوں نے 372 ق م میں رکھی تھی، جب محمود غزنوی ہندوستان آیا تو تب شہر پر ہردتہ آف بورن کی حکمرانی تھی۔ قطب الدین ایبک کے دور میں کول مسلم سلطنت کا حصہ بنا ۔ غیاث الدین بلبن نے یہاں ایک مینار تعمیر تروایا جس پر سن تعمیر 1252 درج تھا جو شہر پر انگریزوں کے حملوں کے وقت تباہ ہو گیا۔ جسے بعد میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی تعمیر کے وقت محفوظ بنایا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میوزیم کا حصہ ہے ۔ علاؤالدین خلجی کے دور میں اسے صوبے کا درجہ ملا۔ چودہویں صدی میں ہندوستان آنے والے سیاح ابن بطوطہ کے مطابق کول ایک خوبصورت شہر ہے جو آموں کے باغات میں گھرا ہوا ہے اور اس وجہ سے اسے سبز آباد بھی کہا جاتا ہے۔ 1524 میں یہاں ابراہیم لودھی نے قلعہ بنایا ۔اکبر کے عہد میں کول صوبہ آگرہ کا حصہ

کیا علی گڑھ کا نام پاکستان کی مخاصمت میں بدلا جا رہا ہے؟ Read More »