Ali Sher

Police Officer Swindled

ریٹائر ڈ پولیس افسر کو فراڈیوں نے ایک کروڑ56لاکھ روپے کا ٹیکہ لگا دیا

ساہیوال( این این آئی) ریٹائرڈ پولیس آفیسر کو بھٹہ خشت میں حصہ ڈال کر ایک کروڑ56لاکھ روپے کی نقدی سے محروم کر دیا۔تفصیلات کے مطابق الطاف حسین کو پولیس سے ریٹائرمنٹ کے بعدکیش ملا تو ریٹائرڈ آفیسر نے اپنے دوستوں امانت علی اور رانا محمود کے ساتھ ایک کروڑ56لاکھ روپے حصہ بھٹہ خشت میں ڈال دیا بعد میں منافع50لاکھ48ہزار584روپے ہو گیا تو حسا ب کے بعد ملزم اپنے دو منشی جہانگیر،سعید احمد سمیت رفو چکر ہو گئے جس پر پولیس نور شاہ نے فراڈیوں امانت،رانا محمود،منشی جہانگیر،سعید منشی سمیت چار ملزموں کے خلاف الطاف حسین کی مدعیت میں مقدمہ406,471,468,467,420ت پ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ۔ ابھی تک ملزم گرفتار نہیں ہو سکے ۔

ریٹائر ڈ پولیس افسر کو فراڈیوں نے ایک کروڑ56لاکھ روپے کا ٹیکہ لگا دیا Read More »

Increase Your Lifespan: Monthly Visits to Family, Friends Have Benefits

طویل عرصے تک زندہ رہنا چاہتے ہیں؟ ہر مہینے کم ازکم ایک بار دوستوں یا رشتے داروں سے ملنا قبل از وقت موت سے بچاے۔ے

برطانیہ کی گلاسگو یونیورسٹی کے محققین کی طرف سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق، جو لوگ زیادہ سماجی میل جول رکھتے تھے، وہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ زندہ رہتے تھے جو نہیں کرتے تھے۔ اس تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خاندان کے بزرگ افراد اور دوستوں سے مہینے میں ایک بار ملنے سے ان کی موت کے خطرے کو 39 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ سماجی تنہائی کو صحت کے مختلف مسائل سے جوڑا گیا ہے، بشمول ڈپریشن، اضطراب اور قلبی بیماری۔ تاہم، سماجی تعامل کی تمام شکلیں ہماری فلاح و بہبود کے لیے یکساں طور پر فائدہ مند نہیں ہیں۔ بی ایم سی میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں عمر بھر پر مختلف قسم کے سماجی تعامل کے اثرات کی تحقیقات کے لیے برطانیہ میں نصف ملین افراد کے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا۔ شرکاء، جن کی عمریں 37 سے 73 سال کے درمیان تھیں، سے پانچ قسم کے سماجی تعامل کے بارے میں پوچھا گیا: وہ کتنی بار اپنے کسی قریبی شخص پر اعتماد کرتے ہیں، کتنی بار وہ تنہا محسوس کرتے ہیں، کتنی بار دوست اور اہل خانہ سے ملنے جاتے ہیں، کتنی بار انہوں نے ایک میں شرکت کی۔ ہفتہ وار گروپ سرگرمی، اور آیا وہ اکیلے رہتے تھے۔ پھر انہوں نے اوسطاً 12.6 سال کے بعد ان کا سراغ لگایا اور دریافت کیا کہ ان میں سے 33,135 کی موت ہو چکی ہے۔ تحقیق نے دریافت کیا کہ تمام قسم کے سماجی رابطے موت کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں، لیکن کچھ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہم تھے. سب سے اہم عنصر دوستوں اور خاندان سے ملاقات کرنا تھا، جو موت کے 39 فیصد کم خطرے سے منسلک تھا۔ یہاں تک کہ ہر ماہ ایک دورہ خطرے کو کم کرنے کے لیے کافی تھا، اور زیادہ کثرت سے آنے جانے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ اکیلے رہنا اور دوسرے طریقوں سے الگ تھلگ رہنا، جیسے کہ ہفتہ وار گروپ سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا یا خاندان اور دوستوں سے باقاعدگی سے ملنے جانا، موت کا خطرہ 77 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ دیگر عوامل جو نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں، جیسے کہ عمر، جنس، سماجی اقتصادی حیثیت، اور تمباکو نوشی، کو محققین نے کنٹرول کیا تھا۔ محققین نے نوٹ کیا کہ یہ مطالعہ انسانی سماجی تعاملات کی پیچیدگی اور معیار کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ کہ نتائج کے بنیادی میکانزم کو سمجھنے کے لیے اضافی تحقیق کی ضرورت ہے۔ تاہم، انھوں نے یہ تجویز کیا کہ سماجی روابط کے جسمانی اور ذہنی صحت پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں، جیسے کہ تناؤ میں کمی، مدافعتی افعال میں اضافہ، اور جذباتی مدد۔ تحقیق کے مطابق، لمبی عمر کے لیے سماجی روابط اہم ہیں، اور مہینے میں ایک بار بوڑھے خاندان اور دوستوں سے ملنے سے انھیں لمبی زندگی گزارنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس مطالعہ نے مزید سماجی مداخلتوں اور معاونت کی اہمیت پر بھی زور دیا جو سماجی روابط کو آسان بناتے ہیں، خاص طور پر بوڑھے اور کمزور لوگوں کے لیے جنہیں سماجی تعلقات میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، کسی رشتہ دار یا دوست کو فون کرنے یا ملنے جانے جیسی سادہ حرکتیں ان کی صحت اور خوشی پر نمایاں اثر ڈال سکتی ہیں۔

طویل عرصے تک زندہ رہنا چاہتے ہیں؟ ہر مہینے کم ازکم ایک بار دوستوں یا رشتے داروں سے ملنا قبل از وقت موت سے بچاے۔ے Read More »

PTI Senators demands to discontinue 5000 Rupee note

کیا واقعی 5 ہزار کا نوٹ بند ہونے جا رہاہے ؟

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز کی جانب سے مہنگائی اور کرپشن کو قابو کرنے کیلئے 5 ہزار کا نوٹ بند کرنے کا مطالبہ کر دیا گیا ۔ تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے سینیٹ میں گزشتہ روز پانچ ہزار کا نوٹ بند کرنے کیلئے قرار داد پیش کی ،انہوں نے کہا کہ 5 ہزار روپے کا نوٹ سمگلنگ ، کرپشن اور دہشتگردی کی کارروائی کے دوران استعمال ہو رہاہے ،ان کا کہناتھا کہ اب تک پانچ ہزار کے 3.5 ٹریلین نوٹ جاری کیے گئے ہیں لیکن ان میں سے 2 ٹریلین نوٹ مارکیٹ میں نہیں ہیں بلکہ انہیں سنبھال کر رکھا گیا ہے ۔ محسن عزیز نے کہا کہ یہ نوٹ منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور سمگلنگ جیسے جرائم کی وجہ بن رہے ہیں جس پر روک لگائی جانی چاہیے ،جن کے پاس پانچ ہزار کا نوٹ ہے انہیں کچھ وقت دیا جائے تاکہ وہ اسے سٹیٹ بینک میں جمع کروا کر متبادل رقم حاصل کر سکیں ۔ پی ٹی آئی کے ایک اور سینیٹرولید اقبال نے محسن عزیز کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نوٹ کی سرکولیشن کو کم کرنے کیلئے ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم کو فروغ دینا چاہیے ۔ نگرانوزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے پی ٹی آئی کے سینیٹرز کے جواب میں بتایا کہ 5 ہزار روپے کے 905 ملین نوٹ جاری کیئے گئے جن میں سے 4.5 ٹریلین سرکلولیشن میں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک اپنے قوانین کے مطابق چلتاہے اور گزشتہ حکومت نے سٹیٹ بینک کو بہت زیادہ خودمختار کر دیا ہے ۔ اس سے قبل ماضی میں ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی بھی پانچ ہزار کے نوٹ کو بند کرنےکیلئے زور دیتے رہے ہیں ۔

کیا واقعی 5 ہزار کا نوٹ بند ہونے جا رہاہے ؟ Read More »

Whatsapp ChatBot AI

واٹس ایپ میں اے آئی چیٹ بوٹ کا اضافہ کردیا گیا

کیلیفورنیا: (ویب ڈیسک) میٹا کی زیر ملکیت میسجنگ پلیٹ فارم واٹس ایپ میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) چیٹ بوٹ کا اضافہ کردیا گیا۔ خیال رہے کہ ستمبر 2023 میں میٹا کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ بہت جلد واٹس ایپ میں اے آئی چیٹ بوٹ سے چیٹ کرنا ممکن ہو جائے گا، اب یہ فیچر اینڈرائیڈ ڈیوائسز کے لیے بیٹا (beta) ورژن میں متعارف کرایا گیا ہے۔ WABetaInfo کی رپورٹ کے مطابق اے آئی چیٹ بوٹ سے بات کرنے کے لیے واٹس ایپ میں ایک نیا شارٹ کٹ دیا جا رہا ہے، اگر آپ واٹس ایپ کے بیٹا ورژن کو استعمال کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ فیچر آپ کو دستیاب ہو۔ چیٹ جی پی ٹی جیسا یہ اے آئی چیٹ بوٹ کس حد تک صارفین کے لیے مددگار ہوگا، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے مگر رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس چیٹ بوٹ سے مختلف موضوعات پر مستند تفصیلات کا حصول آسان ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ واٹس ایپ پہلی میسجنگ ایپ نہیں جس میں اے آئی چیٹ بوٹ کا اضافہ کیا جا رہا ہے، اس سے قبل سنیپ چیٹ میں اسی طرح کا فیچر فروری 2023 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ 

واٹس ایپ میں اے آئی چیٹ بوٹ کا اضافہ کردیا گیا Read More »

Sindh Mail, Thar

سندھ میل: صحرائے تھر کی ریل جسے تقسیم بھی نہ روک سکی

دنیا میں عمومی طور پر ریل گاڑی محض ایک وسیلہ سفر کے طور پر دیکھی جاتی ہے لیکن برِصغیر میں ریل کی آمد کو تہذیبی واقعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وسیلہ سفر کے ساتھ یہ وسیلہ ظفر بھی ثابت ہوئی اور بقول کسے جب سے ریل چلی ہے لوگ اپنی بیٹیوں کو دُور دُور بیاہنے لگے ہیں۔ ریل نے محض فاصلے ہی نہیں سمیٹے بلکہ یہ لوک داستانوں سے لے کر شعر و ادب کا بھی حصہ بن گئی۔ ریل نے جہاں دُور دیس کے باسیوں کو ایک دوسرے سے قریب کیا وہیں اس کے چلنے سے نئی ثقافت کا آغاز ہوا۔ نہ صرف اردو ادب میں ریل اور اس کی سیٹی ایک استعارہ ہیں بلکہ مختلف علاقوں کے لوک ادب میں بھی ان علامتوں سے رنج اور خوشی جڑی ہوئی ہے۔ یہ خوشی اور غم، ملنے بچھڑنے، ہجر کی تکلیف اور وصل کے کیف آگیں لمحات کا استعارہ ہے۔ یوں ریل کا چلنا ایک ایسا واقعہ تھا جس کا بیان ہنوز جاری و ساری ہے۔ شہر کی وہ سڑک جو ریلوے اسٹیشن کی طرف مڑتی ہے اس کا ماحول ہی باقی شہر سے مختلف ہوتا ہے۔ انگریز سرکار نے صرف بڑے شہروں کو ہی ریل کے ذریعے نہیں جوڑا بلکہ چھوٹے چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی آج تک اداس اور ویران کھڑے اسٹیشن یہ بتا رہے ہیں کہ کبھی یہاں بھی ریل چلتی تھی، مسافر چڑھتے اور اترتے تھے۔ اب تو ان عمارتوں میں ویرانی کی رہائش ہے لیکن کسی وقت یہاں کی چہل پہل دیدنی ہوتی ہوگی۔ اب جب راولپنڈی سے چلنے والی ریل کراچی تک محض چند مقامات پر رکتی ہے تو راستے میں چھوٹے اسٹیشن اس قدر تیزی سے گزر جاتے ہیں جیسے خیالات کی یلغار میں کسی اجنبی کا چہرہ گزرتا ہے۔ بس دھندلی سی یاد اور اگلی سوچ اس کو مزید دھندلا دیتی ہے۔ برطانوی راج میں ریلوے محض سرکار نے ہی نہیں چلائی بلکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت برطانوی شہری بھی یہاں سرمایہ کاری کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں پورے برِصغیر میں ریل کا جال بچھ چکا تھا۔ ریلوے کی آمد سے دُور دراز کے وہ علاقے بھی باہم مل گئے جن کا اس سے قبل تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ وہ فاصلہ جو مہینوں میں طے ہوتا تھا دنوں میں طے ہونے لگا۔ یہ احساس اور سرخوشی کہیں ریل کی تعریف میں گیتوں میں ڈھل گئی اور کہیں لوک داستانیں پٹریوں پر سفر کرنے لگیں۔ صحرائے تھر کا ذکر کیا جائے تو ذہن کے پردوں پر تاحدِ نگاہ ریت، پیاس اور افلاس کی تصویریں نمایاں ہونے لگتی ہیں لیکن برطانوی راج کی ’برکت‘ سے اس علاقے میں بھی ریل کی پٹری بچھی۔ جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا! دُور دراز تک پھیلی ریت میں جب ریل کی پٹری نظر آتی ہے تو پہلی بار حیرت ہوتی ہے، لیکن جلد ہی یہ حیرت خوشی میں بدل جاتی ہے۔ اسی سبب سے صحرا کے گیتوں میں آج بھی ریل کی یاد باقی ہے۔ ریل کی سیٹی بھلے خاموش ہوگئی ہو لیکن اس کو یاد کرکے غمزدہ ہونے والے عشاق ابھی باقی ہیں اور اس کی کہانیاں کہنے والے فنکار ہنوز سلامت ہیں۔ ریل تو بند ہوگئی مگر پٹری باقی ہے۔ عمارتوں میں گو اداسی بال کھولے سورہی ہے لیکن یہ ابھی تک اپنے پیروں پر کھڑی ہیں۔ کھوکھرا پار اور موناباؤ کے اسٹیشن سیاست کی نذر ہونے کے باوجود ابھی تک سہانی یادوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ سلامت ہیں جو کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، عمرکوٹ اور چھور سے ریل پر سوار ہوئے اور سرحد کی لکیر کے دوسری طرف جودھ پور، گجرات، بمبئی اور دہلی کے اسٹیشنوں پر جا اترے اور اسی ریل سے ہی واپس اپنی دھرتی پر آئے۔ یہ سب 50 برس اُدھر کا واقعہ ہے، درمیان میں ہجر کی ایک لمبی سیاہ رات پڑتی ہے جس میں پٹری اور اسٹیشن تو ویران اور اداس رہے مگر سرحد کے دونوں طرف آباد شہری ایک دوسرے کی ملاقات کو ترستے رہے حالانکہ کہنے کو محض چند میٹر کا فاصلہ تھا۔ پرویز مشرف دور میں جب پاک-بھارت تعلقات میں بہتری آئی تو کراچی تا جودھ پور ’تھر ایکسپریس‘ دوڑنے لگی اور لوگوں کو یوں لگا کہ یہ واقعہ پہلی بار ہورہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس راستے پر قیامِ پاکستان سے قبل بھی ٹرین چلتی تھی اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی 1965ء تک چلتی رہی۔ 1965ء کی جنگ کی زد میں آکر یہ بند ہوگئی۔ اس مسافر ٹرین کا نام ’سندھ میل‘ تھا اور یہ کراچی اور بمبئی کے درمیان چلا کرتی تھی۔ کہانیوں میں اس ریل کا تذکرہ ’راجہ کی ریل‘ کے نام سے بھی ملتا ہے کیونکہ اسے چلانے میں جودھ پور کے راجہ کا بھی ہاتھ تھا۔ 1843ء سے 1847ء تک سندھ کے گورنر رہنے والے چارلس جیمز نیپئر کا زمانہ سندھ کے لیے گویا مارشل لا کا زمانہ تھا۔ سندھی حکمرانوں کی شکست ہوئی اور انگریزوں کے قدم مزید مضبوط ہوئے۔ اس کی یہاں سے رخصتی کے بعد سندھ کا بمبئی سے الحاق کردیا گیا اور ہنری ایڈورڈ فریئر کی بطور کمشنر تعیناتی ہوئی۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کے نام پر کراچی کا فریئر ہال ہے۔ انہی کی دُور اندیشی کی وجہ سے کراچی کی قسمت کھلی اور یہاں سے ریل کا آغاز ہوا۔ فریئر نے حکومت سے کراچی کو بندرگاہ بنانے اور اسے زمینی راستے سے باقی ہندوستان سے ملانے کی سفارش کی۔ اجازت ملنے کے بعد سروے کا آغاز ہوا اور ابتدائی طور پر کراچی تا کوٹری لائن بچھائی گئی۔ 13 مئی 1861ء وہ یادگار دن تھا جب کراچی شہر اور کوٹری کے درمیان 169 کلومیٹر کا راستہ طے کرتے ہوئے پہلی مسافر ریل گاڑی نے اپنا سفر مکمل کیا۔ اونٹوں پر ہونے والا سفر ریل گاڑی میں بدلنا ایک انقلاب تھا جس سے نہ صرف سفر میں تیزی آئی بلکہ رہزنوں سے بھی جان چھوٹ گئی اور یہ سفر دن رات ہونے لگا۔ اگلے کچھ برس میں کوٹری سے حیدرآباد اور پھر حیدرآباد تا ملتان بھی ریل چلنی شروع ہوگئی۔ یوں کراچی کا زمینی رابطہ پورے ہندوستان سے ہوگیا اور نقل و حمل میں آسانی ہوگئی لیکن یہ رابطہ ابھی نامکمل

سندھ میل: صحرائے تھر کی ریل جسے تقسیم بھی نہ روک سکی Read More »

پنجاب میں ایک ہفتے کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار

لاہور : (ایگنایٹ پاکستان) سموگ کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر نگران حکومت کا اہم فیصلہ، پنجاب بھر میں ایک ہفتے کے لیے فیس ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے ، ہر شہری کو ایک ہفتے کے لیے ماسک پہننا ہوگا، صوبائی حکومت نے پنجاب کے سموگ سے متاثرہ اضلاع میں تمام شہریوں کے لیے چہرے کے ماسک پہننے کے لیے ایک ہفتے کے مینڈیٹ کا اعلان کیا۔ ماسک کی پابندی لاہور ڈویژن اور گوجرانوالہ ڈویژن کے اضلاع میں نافذ العمل ہوگی۔ نگراں وزیرِ اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ صحت کو ترجیح دینا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے، براہ کرم ایک محفوظ کمیونٹی کے لیے رہنما خطوط پر عمل کریں ۔ واضح رہے کہ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں آج بھی اور کئی دنوں سے فضائی آلودگی کی صورتحال خطرناک ہے، کئی شہروں میں سموگ کے باعث نزلہ زکام، بخار اور گلے میں انفیکشن کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

پنجاب میں ایک ہفتے کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار Read More »

کیا علی گڑھ کا نام پاکستان کی مخاصمت میں بدلا جا رہا ہے؟

پانچ نومبر کو علی گڑھ میونسپل کارپوریشن نے ایک قرارداد پاس کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ شہر کا نام علی گڑھ سے بدل کر ہری گڑھ رکھا جائے۔ یہ قرار داد بی جے پی سے تعلق رکھنے والے شہر کے میئر پرشانت سنگھال نے پیش کی جسے حتمی منظوری کے لیے لکھنو میں بی جے پی کی حکومت کو بھیج دیا گیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے یہ مطالبہ 2019 سے کیا جا رہا ہے جب الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج رکھ دیا گیا تھا۔ علی گڑھ پر پچھلے 10 سال سے بی جے پی کی حکمرانی ہے۔ انڈیا کے سابق صدر ذاکر حسین، سابق نائب صدر حامد انصاری، حسرت موہانی، اداکار نصیر الدین شاہ، نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر کا تعلق علی گڑھ سے ہی ہے۔ انڈیا نے اپنے قیام سے لے کر اب تک تقریباً 100سے زیادہ قصبوں اور شہروں کے نام تبدیل کیے ہیں جس کے پیچھے شروع میں وجوہات مختلف تھیں اور زیادہ تر شہروں کے نام تبدیل کرنے کی وجہ نو آبادیاتی نشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا تھا۔ تاہم انتہا پسند گروہ آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی بی جے پی نے ان شہروں کے تاریخی نام بھی بدلنے شروع کر رکھے ہیں جن کے پیچھے مسلم شناخت ہے۔ اس کی وجہ سے انڈیا کے سیکولر حلقے شدید تحفظات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ 2000 سے پہلے صرف آٹھ شہروں کے نام بدلے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر کے نام تبدیل کرنے کے پیچھے حروف تہجی کی ترتیب تھی۔ مثال کے طور پر جبول پورے کو جبل پور، کاؤن پورے کو کان پور، بروڈا کو ودودا، بمبئی کو ممبئی، کوچین کو کوچی اور کلکتہ کو کولکتہ پکارا جانے لگا، مگر بعد میں جو نام بدلے گئے ان کے پیچھے دراصل ہندو توا کے نظریات تھے جو شہروں کی مسلم شناخت کی جگہ ہندو شناخت رائج کرنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی نے شہروں کے نام بدلنے کی جو روش شروع کی تھی وہ ملک کا نام بدلنے پر منتج ہو چکی ہے اور اب بی جے پی انڈیا کی بجائے سرکاری دستاویزات میں لفظ بھارت استعمال کر رہی ہے کیونکہ اسے اب آ کر معلوم ہوا کہ لفظ انڈیا کی مناسبت تو انڈس ویلی سے ہے اور یہ علاقے اب پاکستان میں آتے ہیں۔ ماضی میں مدراس کو چنائی ، دلتنگ گنج کو مدینی نگر ، میسور کو مے سورو ، بیجا پور کو ویجیا پور، گرگان کو گرو گرام ، ہوشنگ آباد کو نرمادا پورم ،اورنگ آباد کو چھترا پتی سمبھاج نگر ، عثمان آباد کو دھراشیو ،گوہاٹی کو گواٹھی ، گلشن آبادکو ناشک ، پونا کو پونے ،بھوپال کو بھوج پال، الہ آبادکو پریاگ راج ، فیض آباد کو ایودھیہ وغیرہ سے بدلنا اس کی چند مثالیں ہیں ۔ آگرہ ،جہاں تاج محل ہے ،اس کا نام بھی بدل کر اگروان یا اگروال رکھنے کی تجویز ہے۔ علی گڑھ کا تحریک پاکستان میں کردار دو قومی نظریے کا بانی سرسید احمد خان کو کہا جاتا ہے جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھی جو 1920ء میں یونیورسٹی بن گئی۔ یہی ادارہ مسلم سیاست کا محور ثابت ہوااور یہیں سے تحریک پاکستان پروان چڑھی۔مسلم لیگ کی قیادت میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ پاکستان بننے کے بعدبھی پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ، صدر ایوب خان ، چوہدری فضل الہٰی ، حبیب اللہ خان مروت ، گورنر جنرل غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین ، یہ سب علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ قائد اعظم بھی یہاں کئی بار طلبا سے خطاب کرنے آئے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی یہ مسلم شناخت اس وقت سے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے جب سے انڈین سیاست میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا ۔ پہلے مطالبہ کیا گیا کہ یہاں سے سرسید احمد خان اور قائداعظم کی تصاویر ہٹائی جائیں،پھر مہم چلائی گئی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے لفظ مسلم ہٹایا جائے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کی سیکولر شناخت متاثر ہوتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے 2019 میں یونیورسٹی کا نام بدلنے کی اپیل رد کر دی۔ اب علی گڑھ کا نام ہی بدلنے کی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے ۔انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے شہر کا نام علی گڑھ سے ہری گڑھ یا رام گڑھ رکھنے کا مطالبہ ساٹھ اور ستر کی دہائی سے کیا جاتا رہا ہے ۔ علی گڑھ کے نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ علی گڑھ کا پرانا نام کول تھا، جو بارہویں صدی تک جین مت کے ماننے والوں کا ایک شہر سمجھا جاتا تھا، یہاں جین مت کے قدیم مندر بھی موجود ہیں ۔ کول شہر کی ایک مسجد اور ٹاور کا خاکہ۔ ایک روایت کے مطابق کول کی بنیاد راجپوتوں نے 372 ق م میں رکھی تھی (کیپٹن رابن سمتھ/پبلک ڈومین) کول کی وجہ شہرت شراب کی کشید تھی۔ 1879 کے ڈسٹرکٹ گزیٹئر کے مطابق کول کا نام ایک سورمے بالا راما سے جوڑا جاتا ہے جو گنگا جمنا دو آب میں کول کے نام سے معروف تھا ۔ ایک اور روایت کے مطابق کول کی بنیاد ڈور راجپوتوں نے 372 ق م میں رکھی تھی، جب محمود غزنوی ہندوستان آیا تو تب شہر پر ہردتہ آف بورن کی حکمرانی تھی۔ قطب الدین ایبک کے دور میں کول مسلم سلطنت کا حصہ بنا ۔ غیاث الدین بلبن نے یہاں ایک مینار تعمیر تروایا جس پر سن تعمیر 1252 درج تھا جو شہر پر انگریزوں کے حملوں کے وقت تباہ ہو گیا۔ جسے بعد میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی تعمیر کے وقت محفوظ بنایا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میوزیم کا حصہ ہے ۔ علاؤالدین خلجی کے دور میں اسے صوبے کا درجہ ملا۔ چودہویں صدی میں ہندوستان آنے والے سیاح ابن بطوطہ کے مطابق کول ایک خوبصورت شہر ہے جو آموں کے باغات میں گھرا ہوا ہے اور اس وجہ سے اسے سبز آباد بھی کہا جاتا ہے۔ 1524 میں یہاں ابراہیم لودھی نے قلعہ بنایا ۔اکبر کے عہد میں کول صوبہ آگرہ کا حصہ

کیا علی گڑھ کا نام پاکستان کی مخاصمت میں بدلا جا رہا ہے؟ Read More »

مرد میں ڈپریشن کی کیا علامات ہیں؟

اکثر اوقات مردوں سے توقعات اور سماج میں ان کا روایتی کردار ایسا ہے جس کے باعث مرد اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں کسی سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ پاکستان میں روایتی طور پر مردوں کو عام طور پر کمانے کے لیے گھر سے باہر بھیجا جاتا ہے اور مضبوط، بااثر ہونے کی نظر ہی سے دیکھا جاتا ہے اور ساتھ ہی بچپن سے انہیں سکھایا جاتا ہے کہ کسی کے سامنے رونا نہیں ہے اور جذبات کا اظہار نہیں کرنا، جس کے نتیجے میں مستقبل میں اکثر اوقات مرد ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔ دوسری جانب سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سینٹرز کے اعدادوشمار کے مطابق مردوں کے مقابلے خواتین ڈپریشن کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ تاہم امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے ہیلتھ میگزین میں شائع ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر والد کو ڈپریشن جیسے مسائل کا سامنا ہے تو بچے میں جذباتی یا طرز عمل کے مسائل پیدا ہونے میں 70 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگلی نسل کو اس مرض سے بچانے کے لیے اس کا علاج اور مرض کی علامات کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے، اگرچہ مردوں کی شرح کم ہے لیکن اس مرض کو نظرانداز نہیں کرسکتے اس لیے آج یہاں ہم مردوں میں ڈپریشن کی علامات جاننے کی کوشش کریں گے۔ مردوں میں ڈپریشن کی جسمانی علامات ڈپریشن میں مبتلا مرد میں سب سے پہلے جسمانی علامات ظاہر ہوتی ہیں، اگرچہ ڈپریشن کو دماغی صحت سے جوڑا جاتا ہے لیکن اس کی علامات جسمانی طور پر بھی واضح ہوتی ہیں۔ مردوں میں ڈپریشن کی کچھ عام جسمانی علامات میں سینے کی جکڑن، ہاضمے کے مسائل جیسے گیس، اسہال اور قبض، سر درد، ہارمونل مسائل، دل کی دھڑکن تیز ہونا، تیزی سے وزن میں کمی (اور بعض اوقات وزن میں اضافہ) شامل ہیں۔ مردوں میں ڈپریشن کی ذہنی علامات ڈپریشن کی ذہنی علامات مردوں میں دوسری جنس کے لوگوں کے مقابلے میں مختلف طریقے سے ظاہر ہو سکتی ہیں، جس سے ڈپریشن کا پتا لگانا مشکل ہو سکتا ہے۔ مردوں میں ڈپریشن کی کچھ عام ذہنی علامات میں کام پر توجہ مرکوز کرنے میں مشکل کا سامنا، یادداشت کے مسائل، نیند کے مسائل، خودکشی کے خیالات شامل ہیں۔ مردوں میں ڈپریشن کی جذباتی علامات جب زیادہ تر لوگ ’ڈپریشن‘ کا لفظ سنتے ہیں تو وہ اداس یا تنہائی پسند شخص تصور کرتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، کچھ لوگ میں اس کے علاوہ بھی علامات ہوسکتی ہیں۔ ان میں اضطراب، ہمیشہ غصہ آنا، دوستوں، خاندانوں سے دور رہنا، ناامیدی، کام میں دلچسپی کی کمی اور بے چینی جیسی علامات شامل ہیں۔ کچھ مرد ڈپریشن کی علامات کو اس لیے بھی نظرانداز کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں اس کے بارے میں معلوم ہی نہیں، دوسری طرف جو افراد ان علامات کو پہنچان لیتے ہیں وہ معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے علاج کرانے سے کتراتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جب مردوں کو ڈپریشن کی علامات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ طویل وقت تک دفتر یا دیگر کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ڈپریشن کی تشخیص اور علاج آپ کی زندگی بچانے میں مدد کرسکتا ہے، ڈپریشن کے علاج میں اکثر مریض سے بات چیت بھی شامل ہے جسے ٹاک تھراپی کہتے ہیں، اس کے علاوہ ڈاکٹرز کلینکل تھراپی بھی تجویز کرتے ہیں، اس کے لیے جلد از جلد ماہر نفسیات سے رجوع کرنا بے حد ضروری ہے۔

مرد میں ڈپریشن کی کیا علامات ہیں؟ Read More »

غزہ کےسکول پراسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری،200 سے زائد فلسطینی شہید

غزہ میں الفخورہ اسکول پراسرائیلی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے200 سے زائدفلسطینی شہید ہوگئے۔جبکہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے الشفا اسپتال کو زبردستی خالی کر الیا۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی طیاروں کی غزہ میں الفخورہ اسکول پروحشیانہ بمباری کے نتیجے میں200 سے زائدفلسطینی شہید ہوگئے، شہید ہونیوالوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ادھر اسرائیلی فوج نے غزہ کا الشفا اسپتال زبردستی خالی کرا لیا۔ مریضوں،طبی عملے اور پناہ گزینون کو بندوق کی نوک پر اسپتال سے نکال دیا گیا۔جبکہ شدید زخمیوں اور نومولود بچوں کو ریڈ کراس کے حوالے کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کے صلاح الدین روڈ پرمہاجرین کا تانتا بندھ گیا، شمالی غزہ اور خان یونس پر بمباری سے سو سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے۔ جبکہ شہدا کی مجموعی تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کر گئی۔  الشفا اسپتال کے ایک ڈاکٹر نےعرب ٹی وی الجزیرہ کو بتایا کہ انہیں بندوق کی نوک پر اسپتال چھوڑنے پر مجبور کیا گیا،چلنے پھرنے کے قابل زخمیوں اور پناہ گزینوں کوخان یونس بھیج دیا گیا ،الشفا اسپتال میں صرف شدید زخمی اور نومولود بچے رہ گئے ہیں،جنہیں کسی اور اسپتال منتقل کرنے کے لیے ریڈ کراس سے رابطہ کیا گیا ہے جبکہ اسپتال میں ہر طرف اسرائیلی اسنائپرز تعینات کیے گئے ہیں. دوسری جانب امریکی صدرجوبائیڈن نے کہا ہے غزہ سے شہریوں کی زبردستی نقل مکانی نہیں ہونی چاہیے،بین الاقوامی برادری کو غزہ کیلئے طویل مدتی طریقہ کارطے کرنا چاہیے،غزہ اور مغربی کنارے کو ایک ہی حکومتی ڈھانچے کے تحت دوبارہ متحد ہونا چاہیے۔

غزہ کےسکول پراسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری،200 سے زائد فلسطینی شہید Read More »

پنجاب میٹرک 2024 کے سالانہ امتحانات کی تاریخ کا اعلان

ایک اہم پیش رفت میں، چیئرمینوں کی پنجاب تعلیمی بورڈز کمیٹی نے 2024 کے میٹرک کے سالانہ امتحانات کے شیڈول کو باضابطہ طور پر سبز کر دیا ہے۔ صوبہ بھر کے طلباء بشمول بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن فیصل آباد کے تحت، اپنے کیلنڈرز پر یکم مارچ 2024 کو ان اہم امتحانات کے آغاز کی تاریخ کے طور پر نشان زدہ  کر سکتے ہیں۔ ہموار اور بروقت عمل کو یقینی بنانے کے لیے حکام نے داخلے کا تفصیلی شیڈول تیار کیا ہے۔ میٹرک کے امتحان میں شرکت کے خواہشمند امیدوار 15 نومبر سے 12 دسمبر تک ایک ہی فیس کے ساتھ اپنے داخلہ فارم جمع کرا سکتے ہیں۔ جن لوگوں کو تھوڑا سا مزید وقت درکار ہے، ان کے لیے 13 دسمبر سے 25 دسمبر تک ڈبل فیس کا آپشن دستیاب ہوگا۔ تاخیر کا مشورہ نہیں دیا جاتا، کیونکہ 26 دسمبر سے 3 جنوری تک فارم جمع کرانے والوں کے لیے تین گنا فیس کا اختیار موجود ہے۔ خواہشمند طلباء کے لیے ان آخری تاریخوں پر عمل کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ 3 جنوری کو کٹ آف کے بعد کوئی داخلہ فارم نہیں لیا جائے گا۔ یہ میٹرک کے سالانہ امتحانات میں حصہ لینے کی تیاری کرنے والوں کے لیے ابتدائی منصوبہ بندی اور فوری کارروائی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ یکم مارچ 2024 کی ہم آہنگی شروع ہونے کی تاریخ کا مقصد پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز کے طلباء کے لیے ایک یکساں کھیل کا میدان بنانا ہے۔ اس یکسانیت سے امتحانی عمل کو ہموار کرنے اور طلباء کی تعلیمی قابلیت کی منصفانہ تشخیص میں تعاون کی توقع ہے۔ تعلیمی ماہرین کا خیال ہے کہ داخلہ فارم کے لیے واضح آخری تاریخ مقرر کرنا نہ صرف ایک منظم اور موثر عمل کو یقینی بناتا ہے بلکہ طلبہ کو اپنے تعلیمی سفر کی ذمہ داری لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ متعدد فیس جمع کروانے کے ادوار کی دستیابی امیدواروں کے لیے لچک فراہم کرتی ہے، ان مختلف حالات کو پورا کرتے ہوئے جن کا انہیں سامنا ہو سکتا ہے۔ جیسے ہی گھڑی 1 مارچ کی کِک آف کی طرف ٹک رہی ہے، طلباء پر زور دیا گیا کہ وہ داخلے کی مخصوص کھڑکیوں سے فائدہ اٹھائیں اور آئندہ میٹرک کے سالانہ امتحانات کے لیے تندہی سے تیاری کریں۔

پنجاب میٹرک 2024 کے سالانہ امتحانات کی تاریخ کا اعلان Read More »