Young

SHORT Nap in a day

درمیانی عمر میں جوان نظر آنا آپ کے اپنے ہاتھ میں

دنیا بھر میں لوگ درمیانی عمر یا بڑھاپے میں جوان نظر آنے کے لیے ہزاروں، لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر اس بات کا احساس نہیں کرپاتے کہ جھریوں سے نجات، بالوں کا گرنا اور ایج اسپاٹس پر کریمیں اور لوشن کچھ خاص اثرات مرتب نہیں کرتے۔ بلکہ اپنی اصل عمر سے کم نظر آنا درحقیقت لوگوں کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ لائیبنز ریسرچ انسٹیٹوٹ فار انوائرمنٹل میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ انسانی جلد میں آنے والی تیس فیصد تبدیلیاں جینز جبکہ 70 فیصد ماحولیاتی عناصر جیسے سورج کی شعاعوں اور فضائی آلودگی کے باعث آتی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر میں اضافہ صرف کسی ایک عضو پر اثرات مرتب نہیں کرتا، بلکہ یہ پورے جسم پر اثرانداز ہوتا ہے، باہری تبدیلیوں کو بڑھاپے کے عمل سے جوڑا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق زیادہ چربی والی غذائیں، الکحل اور تمباکو نوشی کا استعمال، سورج کی روشنی میں بہت زیادہ گھومنا جسم پر حیاتیاتی تناﺅ بڑھانے کا باعث بنتا ہے، جس سے ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے۔ نوجوان جسم اس نقصان کی جلد مرمت کرلیتا ہے مگر درمیانی عمر میں ایسا ہونا لگ بھگ ناممکن ہوجاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر بڑھنا جسم کے لیے تناﺅ سے نمٹنے کی صلاحیت کم سے کم تر کرتا چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ڈی این اے میں آنے والی تبدیلیاں جسمانی خلیات کو تباہ کرنے لگتی ہیں اور ہر عضو پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ ایسا ہونے پر جلد پر دو نمایاں اثرات نظر آتے ہیں، ایک تو رنگت میں تبدیلی آتی ہے یا ایج اسپاٹس نمودار ہوتے ہیں، دوسرے جلد کی لچک میں کمی آنے سے جھریاں نمودار ہوجاتی ہیں۔ اگر ماحولیاتی عناصر کا اثر بڑھنے لگے تو یہ جھریاں زیادہ گہری ہونے لگتی ہیں جبکہ ٹشوز کے لیے ضروری جز کولیگن کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ تمباکو نوشی اور الکحل بڑھاپے کی جانب سفر کو بہت زیادہ تیز کرنے والے عناصر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر شخص جینیاتی طور پر الگ ہوتا ہے اور مختلف اشیاءکے اثرات مختلف ہوسکتے ہیں، جیسے تمباکو نوشی کے کسی عادی فرد کی عمر سو سال سے زائد ہوسکتی ہے مگر یہ واضح ہے کہ یہ عادت حیاتیاتی گھڑی کے لیے تباہ کن ہوتی ہے جو جوانی میں ہی بڑھاپے کے اثرات طاری کردیتا ہے۔

درمیانی عمر میں جوان نظر آنا آپ کے اپنے ہاتھ میں Read More »

Elections and Controversies

کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟

انتخابی سیاست کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان کے آنے والے انتخابات میں اس پارٹی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے جس کے ساتھ نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ یہ اندازہ تازہ ووٹر لسٹوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اور لوگوں کی زندگیوں میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کی بنیاد پر لگایا جا رہا ہے۔ تو کیا نوجوان رائے دہندگان کی بڑی تعداد ان انتخابات میں واقعی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیگی یا اس مرتبہ بھی انتخابی نتائج روایتی نظام سے متاثر رہیں گے؟  کرنے والے سماجی کارکن سرور باری ان خیالات سے اتفاق نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے۔  سال 2022 میں صوبہ پنجاب کے 21 حلقوں میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی کے تجربے کی روشنی میں ان کا موقف ہے کہ پاکستان کی شہری اور دیہی آبادی اور بزرگ اور نوجوان شہریوں کی انتخابی سوچ کا فرق مٹ رہا ہے۔  ’بالکل ایسی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے جیسی 1970 میں ہوئی تھی۔ بزرگ ووٹرز اپنے ہی خاندانوں کے نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ گذشتہ انتخابات میں چھ فیصد بزرگ ووٹرز نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہوئے۔‘ ’اسی طرح شہروں کے نوجوانوں کے خیالات قصبوں اور دیہات کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی بدلتی سوچ نے شہر اور گاوں کا فرق مٹا دیا ہے۔‘ پنجاب شدید تبدیلی کی لپیٹ میں   پاکستان کی انتخابی اور حلقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار احمد اعجاز متفق ہیں کہ پاکستان کا روایتی انتخابی نظام ٹوٹنے کے قریب ہے۔ ’میرا نہیں خیال کہ اب مریم نواز یا کوئی اور سوشل میڈیا کے استعمال یا دوسرے طریقوں سے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے۔ جب عمران خان اور ان کی جماعت سوشل میڈیا کا ہتھیار استعمال کر رہے تھے اس وقت یہ انہیں ٹوئٹر کی جماعت اور ٹک ٹاک کا وزیراعظم کہتے تھے۔ اب یہ لوگ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمت عملی اپنا کر بھی کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں وقت لگتا ہے، دو تین ماہ میں کچھ نہیں ہوتا۔‘ لیکن سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹرز کی الجھن یہ ہے کہ انہیں ابھی پتہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ووٹ ڈالنا بھی ہے یا نہیں اور کس کو ڈالنا ہے۔  نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے یا گھر بیٹھیں گے  احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ نوجوان ووٹرز کو باہر نکالنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور اگر وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے تو پھر ضرور کسی بھی چیز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔  ’پچھلے آٹھ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح تقریبا 45 فیصد رہی ہے اور اس میں نوجوان ووٹروں کی شرح 30 فیصد رہی ہے یعنی وہ 15 فیصد پیچھے ہیں جو کہ اچھی صورتحال نہیں ہے۔‘ ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے انتخابات میں نوجوان مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور پہلے سے بھی کم تعداد میں ووٹ ڈالیں یا پھر اگر ان کی کوئی حوصلہ افزائی کرے تو پھر باہر نکلیں۔‘

کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟ Read More »