Sports

Ranatunga accusess Jay shah of controling Srilanka Cricket Board

راناٹنگا کا جے شاہ پر ’سری لنکن کرکٹ چلانے‘ کا الزام، پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک انڈین کرکٹ بورڈ سے ناراض کیوں؟

آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ اختتام کو پہنچ گیا۔ اگرچہ انڈیا ٹرافی نہیں جیت سکا لیکن اس نے پورے ٹورنامنٹ پر اپنا غلبہ جمائے رکھا۔ کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں جہاں انڈیا اور آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی دیکھی گئی وہیں کرکٹ کمیونٹی کے درمیان اختلافات بھی سامنے آئے۔ خاص طور پر انڈین کرکٹ بورڈ کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا کے ہمسایہ ممالک بی سی سی آئی سے ناراض ہیں؟ افغانستان اور نیپال کے علاوہ جنوبی ایشیائی کرکٹ کھیلنے والے تین دیگر ممالک پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے سابق کھلاڑیوں اور منتظمین نے حالیہ دنوں میں بی سی سی آئی سے کھل کر ناراضی کا اظہار کیا۔ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا ہوا کیا۔ جے شاہ راناٹنگا کے نشانے پر سری لنکا کے سابق کرکٹر ارجونا راناٹنگا نے حال ہی میں بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ پر سری لنکن کرکٹ بورڈ (ایس ایل سی) کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس الزام کے بعد سری لنکن حکومت کو نہ صرف باضابطہ طور معافی مانگنی پڑی بلکہ رانا ٹنگا کے اس بیان پر حکومت کو وضاحت بھی جاری کرنی پڑی۔ سری لنکن کرکٹ بورڈ پہلے ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا لیکن ورلڈ کپ میں اپنی ٹیم کی شکست کے بعد ہنگامہ آرائی اور حکومتی مداخلت کے باعث آئی سی سی نے سری لنکن بورڈ کی رکنیت معطل کر دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق راناٹنگا نے جے شاہ پر سری لنکن کرکٹ پر دباؤ ڈالنے کا الزام ’ٹروتھ ود چموڈیتھا‘ نامی ٹاک شو کے دوران لگایا تھا۔ کرکٹ کپتان سے سیاست دان بننے والے رانا ٹنگا سری لنکا کی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں انھوں نے کہا کہ ’سری لنکن کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں اور جے شاہ کے درمیان تعلقات کی وجہ سے بی سی سی آئی کو لگتا ہے کہ وہ سری لنکن کرکٹ کو کچل سکتے ہیں اور اس کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’سری لنکن کرکٹ جے شاہ چلا رہے ہیں۔ جے شاہ کے دباؤ کی وجہ سے سری لنکن کرکٹ خراب ہو رہی ہے۔‘ جے شاہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں۔ سری لنکن حکومت نے رانا ٹنگا کے بیان کے بعد باضابطہ طور پر افسوس کا اظہار کیا اور اس پر معذرت بھی کی۔ وزیر کاچن وجے سیکرا نے پارلیمنٹ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ایشین کرکٹ کونسل کے صدر یا دیگر ممالک کو ان کے ادارے کی خامیوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘ آئی سی سی ورلڈ کپ یا بی سی سی آئی ٹورنامنٹ؟ عام طور پر آئی سی سی ایونٹس میں دنیا بھر سے شائقین اپنی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ لیکن بہت سے پاکستانی شائقین کو ویزا دینے سے انکار کی وجہ سے 14 اکتوبر کو احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں انڈیا اور پاکستان کے میچ میں انڈین شائقین کی بھرمار کی وجہ سے صرف ایک ’نیلا سمندر‘ دیکھا گیا۔ میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کے ڈائریکٹر مکی آرتھر نے کہا تھا کہ ’سچ کہوں تو یہ آئی سی سی ایونٹ کی طرح نہیں لگ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ دو طرفہ سیریز ہو، گویا یہ بی سی سی آئی کا ایونٹ ہو۔‘ انھوں نے کہا کہ میں نے مائیک پر ’دل دل پاکستان‘ کو شاذ و نادر ہی سنا گیا جو پاکستان کے کھیلوں کے مقابلوں کا اہم جزو تصور ہوتا ہے۔ ، اس کے علاوہ کچھ سابق کرکٹرز نے بھی ٹاس اور پچ کے حوالے سے اس گمان کا اظہار کیا کہ انڈیا غلط طریقوں اور راستوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ گو کہ ان دونوں مُلکوں کے کرکٹرز کے لیے اس طرح کی باتیں کہنا کوئی نئی بات نہیں لیکن حالیہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ برصغیر کے دو بڑے کرکٹ بورڈز کے درمیان رسہ کشی بڑھ گئی ہے۔ اس سے قبل پی سی بی نے وضاحت طلب کی تھی کہ آئی سی سی رقم کی تقسیم کیسے کرتی ہے۔ اس کے بعد چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے اعتراف کیا کہ انڈیا کو زیادہ حصہ ملنا چاہیے کیونکہ یہ کرکٹ کا ’مالیاتی انجن‘ ہے تاہم انھوں نے مجوزہ ریونیو ماڈل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ایشیا کپ اور پی سی بی کی مشکلات ورلڈ کپ سے ٹھیک پہلے ایشیا کپ کے دوران دونوں ہمسایہ ممالک کے بورڈز کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔ گزشتہ سال پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کے حقوق دیے گئے تھے لیکن بی سی سی آئی نے سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔ رواں سال 28 مئی کو بی سی سی آئی نے سری لنکا، افغانستان اور بنگلہ دیش کے کرکٹ بورڈز کے صدور کو آئی پی ایل فائنل دیکھنے کے لیے مدعو کیا تھا۔ اس دوران انھوں نے ایشیا کپ اور ایشیا کرکٹ کونسل کے دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ایشیا کپ کے شیڈول میں تبدیلی کر دی گئی۔ سری لنکن کرکٹ بورڈ نے بی سی سی آئی کی حمایت کی اور پی سی بی ایشین کرکٹ میں اکیلا رہ گیا۔ ابتدائی طور پر پی سی بی نے کہا تھا کہ ’ٹورنامنٹ کا انعقاد متحدہ عرب امارات میں ہونا چاہیے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو مشترکہ میزبانی کرنی چاہیے۔‘ لیکن سری لنکا اور بنگلہ دیش نے متحدہ عرب امارات میں گرم موسم کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور بالآخر پی سی بی کو سری لنکا کو ایشیا کپ کی مشترکہ میزبانی کے لیے قائل کرنا پڑا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق سربراہ نجم سیٹھی نے بھی ایکس پر ایک طویل پوسٹ لکھی جس میں اے سی سی کے سربراہ اور بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ کو نشانہ بنایا گیا۔ جے شاہ نے ایک بیان جاری کر کے اس کا جواب دیا۔ تمام مستقل اراکین اور میڈیا رائٹس

راناٹنگا کا جے شاہ پر ’سری لنکن کرکٹ چلانے‘ کا الزام، پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک انڈین کرکٹ بورڈ سے ناراض کیوں؟ Read More »

سٹیڈیئم میں ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکنے کی ویڈیو: ’پولیس اہلکار انڈیا میں سب لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتا‘

ایک سٹیڈیئم کا منظر ہے جہاں سٹینڈ میں پاکستان ٹیم کی شرٹ پہنے بیٹھا ایک نوجوان اپنے سامنے کھڑے پولیس اہلکار سے انگریزی زبان میں مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ’میں پاکستان زندہ باد کیوں نہیں کہہ سکتا؟ بھارت ماتا کی جے ٹھیک لیکن پاکستان زندہ باد نہیں کہہ سکتے، کیوں؟‘ پولیس اہلکار بھی انگریزی میں ہی جواب دیتا ہے ’بھارت ماتا کی جے گڈ، پاکستان زندہ باد ناٹ گڈ۔‘ نوجوان کچھ غصے میں کہتا ہے کہ ’پاکستان سے آئے ہیں، پاکستان زندہ باد نہیں بولیں گے تو کیا بولیں گے بھائی؟ پاکستان کھیل رہا ہے، پاکستان زندہ باد نہیں بولوں گا تو کیا بولوں گا؟ میں ویڈیو بناتا ہوں، آپ مجھے کہو کہ میں پاکستان زندہ باد نہیں کہہ سکتا؟‘ اب پولیس والا یہ کہہ کر کہ ’آپ بیٹھ جائیں، میں اپنے افسر سے بات کرتا ہوں‘ وہاں سے نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس گفتگو پر مشتمل ویڈیو جمعے کے دن انڈیا میں کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پاکستان اور آسٹریلیا میچ کے بیچ وائرل ہوئی جس میں دعوی کیا گیا کہ بنگلورو کے ایم چناسوامی میں تعینات ایک انڈین پولیس اہلکار نے ایک پاکستانی مداح کو ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکا۔  ایگنایٹ پاکستان   اس ویڈیو کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر پایا جبکہ بنگلورو پولیس سے اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اس وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس ویڈیو میں پیش آنے والا واقعہ درست ہے اور آیا انڈین پولیس اہلکار نے کسی پاکستانی مداح کو پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرنے سے خود روکا۔ انڈین کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھی اب تک کوئی موقف سامنے نہیں آ سکا۔ تاہم یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سرحد کے دونوں اطراف سے پر خوب بحث بھی ہوئی اور لوگوں نے پولیس اہلکار کے رویے کی مذمت بھی کی۔ سوشل میڈیا پر شور: ’آئی سی سی کو تحقیقات کرنی چاہیے‘ اس ویڈیو کو شیئر کرنے والے پاکستانی صارف مومن ثاقب نے لکھا کہ ’یہ انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ بات ہے کہ میچ کے دوران لوگوں کو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے روکا جا رہا ہے۔ یہ کھیل کی روح کے منافی ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ شخص تمام انڈین شہریوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ لیکن اس کی طرف سے اس پرستار کو ایسا کرنے سے روکنے کی جو بھی وجہ بتائی گئی ہے، وہ درست نہیں ہے۔ یہ قانونا درست نہیں ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد لوگوں کے لیے کھیل سے لطف اندوز ہونے کا ماحول بنانا ہے۔ انھیں ہمیں اس وقت یہ احساس کرانا چاہیے کہ کرکٹ لوگوں کو ساتھ لانے کا ایک ذریعہ ہے۔اور ہر ناظر کو بین الاقوامی ٹورنامنٹ کے دوران اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کا حق ہے۔ آئی سی سی اور بی سی سی آئی کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے تاکہ ہر کوئی ورلڈ کپ کے میچوں سے لطف اندوز ہو سکے اور یہ سب کے لیے محفوظ جگہ بن سکے۔‘ پاکستانی صحافی وجاہت کاظمی نے ٹوئٹر پر لکھا: ’انڈین پولیس بنگلور سٹیڈیم میں آسٹریلیا کے خلاف میچ کے دوران پاکستانی تماشائیوں کو اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے سے روک رہی ہے، یہ انڈیا کے مزید نیچے گرنے کی سطح ہے۔‘ انڈیا میں مان امن سنگھ چنا نامی ایک صارف نے اس ویڈیو پر رد عمل دیتے ہوئے لکھا: ’کتنی احمقانہ بات ہے اور یہ سب شرمناک حد تک جا رہا ہے۔ آپ ایک پاکستانی مداح کو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟‘ سدھارتھ نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا: ’ذرا تصور کریں کہ اگر کسی پاکستانی سٹیڈیم میں ایک انڈین سپورٹر کو پاکستانی پولیس والے نے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے سے روکا اور اسے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کی اجازت دی، تو کیا آپ کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی؟‘ انڈین سپورٹس جرنلسٹ وکرانت گپتا نے اس معاملے پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہر شخص کو اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کا حق ہے۔‘ ٹی ایم سی سے وابستہ ایک شخص بھرتیندو شرما نے لکھا: ’اس طرح کے واقعات کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔ ورلڈ کپ ایک ملٹی کنٹری ٹورنامنٹ ہے جس میں اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں ہمارے ملک کے لیے شرم کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شان کی بات نہیں ہے۔ بی سی سی آئی کو سخت کارروائی کرنی چاہیے اور اس قسم کی بکواس بند کرنی چاہیے۔‘.ایک انڈین صارف نکل مہتا نے لکھا کہ ’یہ پولیس اہلکار تمام انڈین شہریوں کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ ایک مداح کو اپنی ٹیم کے حق میں نعرے لگانے کی اجازت نہیں۔‘ چند صارفین نے پولیس اہلکار کی تعریف بھی کی اور لکھا کہ وہ اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا جبکہ بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس طرح کے رویے کی وجہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ انڈیا کثیر ملکی ٹورنامنٹ منعقد کرانے کے لائق جگہ نہیں ہے۔ امتیازی سلوک کے خلاف پالیسی کا سیکشن 11 کیا ہے؟ آئی سی سی اور اس کے تمام رکن ممالک کو اس سیکشن کی پاسداری کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ایسے بینر یا اس جیسے پوسٹرر لگانا جس سے شائقین کو یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کون سی چیزیں گراؤنڈ میں نہیں لے جا سکتے تاکہ گراؤنڈ میں داخلے سے پہلے انھیں واپس لیا جا سکے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی ایک مناسب تعداد کی سٹینڈز میں تعیناتی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مداحوں کو مانیٹر کیا جا رہا ہے، خاص طور پر حساس نوعیت کے میچز کے دوران۔ اگر کہیں کوئی غیر مناسب رویہ نظر آئے تو گراؤنڈ میں فوری اعلانات کا بندوبست کرنا بھی ضروری ہے جس کے ذریعے ایسے رویے کی مذمت کی جا سکے اور تنبیہ دی جا سکے کہ اس حوالے سے فوری کارروائی کی جائے گی۔ کسی بھی نامناسب رویے کی صورت میں تماشائی کو میچ سے نکالنے کا انتظام کرنے کا اہتمام کیا جانا

سٹیڈیئم میں ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکنے کی ویڈیو: ’پولیس اہلکار انڈیا میں سب لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتا‘ Read More »

Great Imran Khan and KapilGreat Pakistan Cricket Team Captain Imran Khan and India Cricket Team Captain Kapil dev of 1987 Dev

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا

ہ 1955 کی بات ہے۔ ادیب اور مترجم سوم آنند انھی دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کا ایک ٹیسٹ میچ لاہورمیں تھا اور نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے اعلان ہوا کہ جو شخص بھی میچ دیکھنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا چار روز کا ویزا بغیر کسی تاخیرکے حاصل کر سکتا ہے۔ ’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘ سوم آنند کا اپنا بچپن لاہور میں گزرا تھا چنانچہ انھیں اس شہر سے اُنس تھا۔ ’پاکستان کو ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ انڈیا کی سفارش پر ملا‘ پاکستان سنہ 1948 میں امپیریل کرکٹ کانفرنس (موجودہ آئی سی سی) کا رُکن بنا تھا، مگر وہ ’فُل ممبر‘ نہیں تھا، بنتا تو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا اہل ہوتا۔ علی خان کی تحقیق کے مطابق غیرمنقسم ہندوستان 1926 میں آئی سی سی کا مکمل رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کو آئی سی سی میں مکمل داخلے کے لیے تقسیم کے بعد 5 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ علی خان لکھتے ہیں کہ آئی سی سی کی رکنیت حاصل کرنے کی پاکستان کی ابتدائی دو کوششیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اِس بنیاد پر رد کر دیں کہ اس ’قوم کو ابھی ناقابل تسخیر مشکلات پر قابو پانا ہے۔ تاہم تیسری کوشش پر اینتھونی ڈی میلو (اُس وقت کے انڈین کرکٹ بورڈ کے صدر) کی سفارش پر پاکستان کو 1952 میں مکمل رکنیت دے دی گئی۔‘ آئی سی سی رکنیت کے حصول کے بعد اُسی سال انڈیا دلی میں پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پہلی ٹیم تھی۔ علی خان لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ تقسیم کی ہولناکیوں کے بعد عوام سے عوام کے رابطے کا پہلا حقیقی موقع تھا۔ دونوں ٹیموں کے کپتان تقسیم سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دونوں لاہور کے مشہور کریسنٹ کلب کے لیے کھیل چکے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار (پاکستان) اور لالا امرناتھ (انڈیا) دونوں نے کرکٹ لاہور کےمنٹو پارک کے میدانوں میں سیکھی تھی۔ وہ ایک ہی زبان بولتے تھے۔ مہمان نوازی لالا امرناتھ تو پاکستانی کرکٹرز کا استقبال کرنے دلی ٹرین سٹیشن بھی گئے۔ امرناتھ کی سوانح عمری کے مطابق ’جہاں کسی کو دشمنی کی توقع تھی وہاں صرف دوستی تھی۔‘ ٹیم کے ایک رکن وقار حسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’ٹیم کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال ایسی تھی کہ دشمنی ہوا میں بکھر گئی۔‘ پانچ ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز انڈیا دو ایک سے جیت گیا جبکہ دو میچ برابر رہے۔ دلی ٹیسٹ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی کے علاوہ تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ ڈیبیو ٹیسٹ تھا۔ کاردار اور الٰہی اس سے قبل غیرمنقسم ہندوستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے تھے۔ لکھنئو میں دوسرا ٹیسٹ تھا۔ لکھاری اور کرکٹر نجم لطیف کے مطابق پاکستانی ٹیم ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں کشش رکھتی تھی۔ ’اس کی بڑی وجہ نوجوان بلے باز حنیف محمد تھے۔ پاکستانی ٹیم رائل ہوٹل میں ٹھہری تھی۔ قریب ہی سے اسلامیہ کالج کے طلبا نے حنیف کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لابی پر دھاوا بول دیا۔‘ ’فضل محمود نے بیگم کی بات مانی‘ لکھنئو پہنچنے سے پہلے پاکستان کے فاسٹ بولرفضل محمود کے لیے ان کی اہلیہ کا ٹیلی گرام آ چکا تھا کہ وہ کم ازکم سات وکٹ ضرور لیں۔ ’پٹ سن کی مَیٹنگ پر کھیلے گئے اس میچ میں فضل محمود نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یوں، ان کے میچ کے اعداد و شمار تھے: 92 رنز کے عوض 12 وکٹیں۔ نذر محمد نے ناقابل شکست 124 رنز بنائے۔ اس طرح پاکستان نے انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کر اپنی پہلی جیت سمیٹی۔‘ لکھنؤ کا ہجوم کھلاڑیوں کا مذاق بھی شستہ اُردو زبان میں اڑا رہا تھا۔ وقارحسن اپنی سوانح عمری میں ایک خاص تبصرہ کو واضح طور پر یاد کرتے ہیں کہ جب وہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کر رہے تھے تو طلبا کے ایک گروپ نے ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں کہا: ’اجی قبلہ، آپ اگر رخ ِزیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے۔‘ انڈین ٹیم کی ہار پر انڈیا میں حملہ تاہم نجم لطیف لکھتے ہیں کہ تقریباً 25000 کا یہ ہجوم انڈیا کی شکست کو ہضم نہ کر سکا۔ ’انھوں نے انڈین کھلاڑیوں کے کیمپوں پر حملہ کر کے انھیں آگ لگا دی۔ انھوں نے اس بس کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے جو انڈین کھلاڑیوں کو واپس ان کے ہوٹل لے جانے والی تھی۔ انڈین کھلاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور وہ بڑی مشکل سے خود کو بچا کر اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘ بیگم اختر کی دعائیں پاکستانی ٹیم کے لیے واپس رائل ہوٹل میں، فضل محمود نے دیکھا کہ نذرمحمد تیار ہو کر کہیں جانے کی جلدی میں ہیں۔ فضل کے پوچھنے پر نذر نے بتایا کہ وہ ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی کو آداب کہنے جا رہے ہیں۔ فضل بھی جانے کو تیار ہو گئے۔ نجم لطیف لکھتے ہیں کہ دونوں ان کے گھر پہنچے اور بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ کچھ وقت تک جب وہ نہ آئیں تو فضل نے ملازم سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ’جواب ملا کہ وہ اگلے کمرے میں نماز پڑھ رہی ہیں۔ فضل اور نذر دونوں اٹھ کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں بیگم اختر تھیں۔ جائے نماز پر اپنے ہی خیالوں میں مگن تھیں۔ فضل اور نذر نے مخاطب کیا۔ وہ ان کو دیکھ کر چونک گئیں اور کہنے لگی ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو میچ جیتنے کے لیے کھیلنا چاہیے۔ میں یہاں آپ کی جیت کے لیے دعا کر رہی ہوں۔‘ فضل نے آگے کی طرف جھک کر کہا: ’آپ کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں۔ ہم جیت گئے ہیں۔ پاکستان جیت گیا۔‘ ’یہ بڑی خبر سُن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے ان کی آنکھوں میں خوشی

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا Read More »