Solar Projects

Corruption in Solar Panels

سولر پینل کی آڑ میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے ذمہ دار 6 نجی بینک ہیں، ایف بی آر

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے سولر پینلز درآمد کرنے کی آڑ میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ذمہ داری بینکوں پر عائد کر دی ہے اور کہا کہ 6 مقامی بینکوں نے مشکوک ترسیلات کو روکنے کیلئے درکار شرائط پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا۔ سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کسٹمز حکام نے سولر پینل کی امپورٹ کی آڑ میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ذمہ داری 6 نجی بینکوں پر عائد کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ  اسٹیٹ بینک نے بھی بینکوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ سینٹ کمیٹی نے مرکزی بینک سے آئندہ اجلاس میں تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ ایف بی آر کی تحقیقات میں 63 درآمدکنندگان کا سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں اوورانوائسنگ کے ذریعے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے تحقیقات میں سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں منی لانڈرنگ کرنے والے 63 درآمد کندگان کا سراغ لگالیا ہے۔ ایف بی آر نے مزید انکشاف کیا ہے کہ منی لانڈرنگ بینکوں کے ذریعے کی گئی جبکہ اسٹیٹ بینک حکام کا کہنا ہے کہ نجی بینکوں کو جرمانہ کیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آرکا کہنا ہے کہ ملک میں انکم ٹیکس دہندگان ایک کروڑ 14 لاکھ ہیں جبکہ 3 لاکھ 55 لاکھ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں گزشتہ ایک سال میں مقامی ٹیکسوں سے 60 فیصد جبکہ درآمدات سے 40 فیصد وصولی ہوئی ہے، رواں سال ڈائریکٹ ٹیکس کی وصولی 46 فیصد ہو گئی ہے۔ رواں مالی سال میں 20 لاکھ نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں رجسٹر کرنے کی کوشش کی جائے گی، جس کیلئے ساڑھے 4 لاکھ لوگوں بارے مکمل معلومات ہیں جبکہ ساڑھے 5 لاکھ کی معلومات نادرا نے فراہم کر دی ہیں۔ بدھ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس کمیٹی کے سربراہ چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ہوا، جس میں کسٹمز حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ سولر پینل درآمد کرنے کی آڑ میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیس پر اکتوبر 2022 میں تحقیقات شروع ہوئیں، زائد انوائسنگ میں 63 درآمد کندہ ملوث پائے گئے۔ حکام نے بتایا کہ منی لانڈرنگ بینکوں کے ذریعے کی گئی سولر پینلز کی درآمد پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ کسٹمز حکام کے پاس تو صرف درآمد کی جی ڈی آتی ہے باقی رقم تو بینک کے ذریعے جاتی ہے پشاور کی دو اور کوئٹہ کے تین درآمد کنندہ منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ ایف بی آر تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ چھ بینکوں کے ذریعے رقم ملک سے باہر بھیجی گئی، بینکوں نے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کی ہدایات کے برخلاف کیش رقم جمع کروانے والے افراد کی چھان بین نہیں کی، چین سے درآمدی مال کی دیگر ممالک میں خلاف قانون ادائیگی کی کمیٹی نے ایف بی آر کی تحقیقات کو سراہا ۔ کمیٹی نے مرکزی بینک کی طرف سے بینکوں کیخلاف کارروائی نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں جبکہ چیئرمین ایف بی آر نے مزید کہا کہ یہ ساری معلومات ڈسٹرکٹ ٹیکس افسران کو مزید کارروائی کیلئے فراہم کر دی ہیں۔ اجلاس میں سینٹر مصدق ملک نے کہا کہ میں تیسرے اجلاس میں شرکت کر رہا ہوں مگر حکام جواب دینے کو تیار نہیں ہیں، جس پر کمیٹی کے سربراہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ میں نے گزشتہ اجلاس میں ایف آئی اے کو کیس کی تحقیقات کیلئے تجویز دی تھی جبکہ کسٹمز حکام نے کمیٹی کے شرکاء کو بتایا کہ اس کیس پر اکتوبر 2022 میں تحقیقات شروع ہوئی اوور انوائسنگ میں 63 درآمد کندہ ملوث پائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ بینکوں کے ذریعے کی گئی سولر پینلز کی درآمد پر کوئی ٹیکس نہیں ہے ہمارے پاس تو صرف درآمد کی جی ڈی آتی ہے باقی رقم تو بینک کے ذریعے جاتی ہے۔ سینٹر مصدق ملک نے کہا کہ کسٹمز کے پاس ہر طرح کی مصنوعات کی درآمدی قیمت ہوتی ہے ۔ اس پر کسٹمز حکام نے بتایا کہ کسٹمز حکام صرف درآمدی مال کو دیکھتے ہیں انکو پتہ نہیں ہوتا کہ کتنی رقم باہر بھجوائی گئی۔ اس پر قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سربراہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایف بی آر کی سولر پینلز میں منی لانڈرنگ کی تازہ رپورٹ میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس موقع پر اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ ہم نے بینکوں کو جرمانہ کیا ہے جس پر رکن کمیٹی مصدق ملک نے کہا کہ جو رپورٹ ہمیں دی گئی ہے اس میں کسی بینک کا نام نہیں دیا گیا۔ رکن کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ سولر پینلز اس وقت درآمد ہوئے جب ضروری اشیاء کی درآمد پر بھی پابندی تھی۔ اس پر مصدق ملک نے کہا کہ اس رپورٹ میں بنیادی الزام یہ تھا کہ ملک سے درآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کی گئی۔ کمیٹی کے سربراہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس معاملے پر تیسری دفعہ اجلاس کر رہے ہیں مگر کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہی جس پر کسٹمز حکام نے کہا کہ سولر پینلز کی درآمد ڈیوٹی اور ٹیکس فری ہے، کسٹمز حکام کو مال چیک کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

سولر پینل کی آڑ میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے ذمہ دار 6 نجی بینک ہیں، ایف بی آر Read More »

سیکیورٹی خدشات: سعودی فرم کا کہنا ہے کہ شمسی منصوبوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے انکار۔

اسلام آباد: باخبر ذرائع نے ایگنایٹ  پاکستان کو بتایا کہ سعودی فرم M/s ACWA مبینہ طور پر سیکیورٹی خدشات اور کچھ اہم عوامل کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان میں شمسی منصوبوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے قاصر ہے۔ تفصیلات کا اشتراک کرتے ہوئے، ذرائع نے بتایا، ریاض میں پاکستان کے سفیر نے حال ہی میں چیئرمین ACWA پاور، محمد ابونایانان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں پاکستان میں سعودی سفیر بھی موجود تھے۔ ACWA پاور پاور جنریشن اور واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹس کے پورٹ فولیو کا ایک ڈویلپر، سرمایہ کار اور آپریٹر ہے جس کی موجودگی 12 ممالک میں ہے جن کے پاور سیکٹر کا پورٹ فولیو $74.8 بلین سے زیادہ ہے اور اس کی صلاحیت 50 GW سے زیادہ پاور اور 7.6 ملین ہے۔ پاکستانی سفیر کے مطابق، ACWA پاور پاکستان کے سولر سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی لیکن اس کی کوششیں سیکیورٹی خدشات اور کچھ اہم فعال عوامل کی عدم موجودگی، خاص طور پر بنیادی ٹیرف کی کمی، G-to-G کے لیے قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکیں۔ تعاون، زمین، بجلی کی ادائیگی کی صلاحیت اور گرڈ کے ساتھ رابطے کا مسئلہ۔ وزارت خارجہ نے دلیل دی کہ یہ سعودی حکومت کے لیے بہت اہم اقدام ہے اور ولی عہد ایم بی ایس خود اس میں دلچسپی رکھتے ہیں، جس کا ذکر انہوں نے اکتوبر 2022 میں سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ اس ہائی پروفائل تجویز کو آگے بڑھانے کے لیے، چیئرمین ابونایان نے سفیر کی وزارت توانائی میں توجہ مرکوز ملاقاتوں اور بریفنگ کے لیے پاکستان کا ایک تحقیقی دورہ کرنے کی درخواست پر اتفاق کیا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے سفیر نے پاور ڈویژن اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو پیشگی تیاریوں کی تجویز دی ہے تاکہ اس دورے کو نتیجہ خیز بنایا جا سکے۔ K-Electric (KE) نے M/s ACWA Power کے ذریعے تیار کیے جانے والے 3,000 میگاواٹ کے قابل تجدید توانائی (RE) منصوبوں سے بجلی حاصل کرنے اور حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جو بنیادی طور پر سعودی عرب پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ کے ای، پاکستان میں واحد نجی اور عمودی طور پر مربوط یوٹیلیٹی کمپنی ہونے کے ناطے، کراچی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے لیے ذمہ دار ہے، اس طرح 3.4 ملین سے زائد صارفین کو خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔ کے ای اپنی پاور ویلیو چین کی اینڈ ٹو اینڈ پلاننگ کے لیے پابند ہے اور اپنے سروس ایریا کے لیے منصوبہ ساز کے فرائض انجام دیتا ہے۔ ACWA پاور ایک عالمی سرمایہ کاری اور ہولڈنگ کمپنی ہے جس کا صدر دفتر ریاض، سعودی عرب میں ہے۔ توانائی اور پانی کے شعبوں میں مضبوط موجودگی کے ساتھ، ACWA پاور متعدد ممالک میں کام کرتی ہے، بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، مصر، مراکش، عمان، اور دیگر۔ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سید مونس عبداللہ علوی کی طرف سے وفاقی حکومت کو لکھے گئے خط کے مطابق، کے الیکٹرک نے ایک مضبوط طویل المدتی ترقیاتی منصوبہ بنایا ہے جس میں آر ای پروجیکٹس کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ حوالہ جات. RE جنریشن پراجیکٹس کی ترقی کے ای کی طویل المدتی جنریشن پلاننگ کی حکمت عملی کا سنگ بنیاد ہے، جو کہ کئی RE پر مبنی اقدامات کی ترقی کے عمل میں ہے۔ CEO KE کا کہنا ہے کہ اپنے RE فٹ پرنٹ کو مزید بڑھانے کے لیے، KE کا خیال ہے کہ ACWA Power کے ساتھ مشغولیت، ایک مضبوط ترقیاتی کمپنی اور اسپانسر پاکستان میں بڑے پیمانے پر RE منصوبوں کی تیزی سے ترقی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ACWA نے پہلے پاکستانی مارکیٹ میں قدم رکھنے کی کوشش کی تھی جہاں اس نے حکومت پاکستان کے ساتھ 2019 میں مفاہمت کی ایک یادداشت (ایم او یو) کی تھی جس میں سولر اور ونڈ انرجی سیکٹر میں $4 بلین کی سرمایہ کاری شامل تھی۔ بدقسمتی سے، مختلف رکاوٹوں کے عوامل کی وجہ سے ماضی کی دلچسپی کو پورا نہیں کیا جا سکا۔ تاہم، کے ای کو یقین ہے کہ وہ ACWA پاور کو قائل کر سکتا ہے کہ وہ RE پروجیکٹس تیار کرنے کے لیے اپنی دلچسپی پر نظر ثانی کرے تاکہ پاکستان KE کو بجلی فروخت کرے، اور اس کے مشترکہ پارٹنر کے طور پر کام کرے۔

سیکیورٹی خدشات: سعودی فرم کا کہنا ہے کہ شمسی منصوبوں پر معاہدوں پر دستخط کرنے سے انکار۔ Read More »