Pakistan

کیا علی گڑھ کا نام پاکستان کی مخاصمت میں بدلا جا رہا ہے؟

پانچ نومبر کو علی گڑھ میونسپل کارپوریشن نے ایک قرارداد پاس کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ شہر کا نام علی گڑھ سے بدل کر ہری گڑھ رکھا جائے۔ یہ قرار داد بی جے پی سے تعلق رکھنے والے شہر کے میئر پرشانت سنگھال نے پیش کی جسے حتمی منظوری کے لیے لکھنو میں بی جے پی کی حکومت کو بھیج دیا گیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے یہ مطالبہ 2019 سے کیا جا رہا ہے جب الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج رکھ دیا گیا تھا۔ علی گڑھ پر پچھلے 10 سال سے بی جے پی کی حکمرانی ہے۔ انڈیا کے سابق صدر ذاکر حسین، سابق نائب صدر حامد انصاری، حسرت موہانی، اداکار نصیر الدین شاہ، نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر کا تعلق علی گڑھ سے ہی ہے۔ انڈیا نے اپنے قیام سے لے کر اب تک تقریباً 100سے زیادہ قصبوں اور شہروں کے نام تبدیل کیے ہیں جس کے پیچھے شروع میں وجوہات مختلف تھیں اور زیادہ تر شہروں کے نام تبدیل کرنے کی وجہ نو آبادیاتی نشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا تھا۔ تاہم انتہا پسند گروہ آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی بی جے پی نے ان شہروں کے تاریخی نام بھی بدلنے شروع کر رکھے ہیں جن کے پیچھے مسلم شناخت ہے۔ اس کی وجہ سے انڈیا کے سیکولر حلقے شدید تحفظات میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ 2000 سے پہلے صرف آٹھ شہروں کے نام بدلے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر کے نام تبدیل کرنے کے پیچھے حروف تہجی کی ترتیب تھی۔ مثال کے طور پر جبول پورے کو جبل پور، کاؤن پورے کو کان پور، بروڈا کو ودودا، بمبئی کو ممبئی، کوچین کو کوچی اور کلکتہ کو کولکتہ پکارا جانے لگا، مگر بعد میں جو نام بدلے گئے ان کے پیچھے دراصل ہندو توا کے نظریات تھے جو شہروں کی مسلم شناخت کی جگہ ہندو شناخت رائج کرنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی نے شہروں کے نام بدلنے کی جو روش شروع کی تھی وہ ملک کا نام بدلنے پر منتج ہو چکی ہے اور اب بی جے پی انڈیا کی بجائے سرکاری دستاویزات میں لفظ بھارت استعمال کر رہی ہے کیونکہ اسے اب آ کر معلوم ہوا کہ لفظ انڈیا کی مناسبت تو انڈس ویلی سے ہے اور یہ علاقے اب پاکستان میں آتے ہیں۔ ماضی میں مدراس کو چنائی ، دلتنگ گنج کو مدینی نگر ، میسور کو مے سورو ، بیجا پور کو ویجیا پور، گرگان کو گرو گرام ، ہوشنگ آباد کو نرمادا پورم ،اورنگ آباد کو چھترا پتی سمبھاج نگر ، عثمان آباد کو دھراشیو ،گوہاٹی کو گواٹھی ، گلشن آبادکو ناشک ، پونا کو پونے ،بھوپال کو بھوج پال، الہ آبادکو پریاگ راج ، فیض آباد کو ایودھیہ وغیرہ سے بدلنا اس کی چند مثالیں ہیں ۔ آگرہ ،جہاں تاج محل ہے ،اس کا نام بھی بدل کر اگروان یا اگروال رکھنے کی تجویز ہے۔ علی گڑھ کا تحریک پاکستان میں کردار دو قومی نظریے کا بانی سرسید احمد خان کو کہا جاتا ہے جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھی جو 1920ء میں یونیورسٹی بن گئی۔ یہی ادارہ مسلم سیاست کا محور ثابت ہوااور یہیں سے تحریک پاکستان پروان چڑھی۔مسلم لیگ کی قیادت میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ پاکستان بننے کے بعدبھی پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ، صدر ایوب خان ، چوہدری فضل الہٰی ، حبیب اللہ خان مروت ، گورنر جنرل غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین ، یہ سب علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔ قائد اعظم بھی یہاں کئی بار طلبا سے خطاب کرنے آئے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی یہ مسلم شناخت اس وقت سے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے جب سے انڈین سیاست میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا ۔ پہلے مطالبہ کیا گیا کہ یہاں سے سرسید احمد خان اور قائداعظم کی تصاویر ہٹائی جائیں،پھر مہم چلائی گئی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے لفظ مسلم ہٹایا جائے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کی سیکولر شناخت متاثر ہوتی ہے لیکن سپریم کورٹ نے 2019 میں یونیورسٹی کا نام بدلنے کی اپیل رد کر دی۔ اب علی گڑھ کا نام ہی بدلنے کی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے ۔انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے شہر کا نام علی گڑھ سے ہری گڑھ یا رام گڑھ رکھنے کا مطالبہ ساٹھ اور ستر کی دہائی سے کیا جاتا رہا ہے ۔ علی گڑھ کے نام کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ علی گڑھ کا پرانا نام کول تھا، جو بارہویں صدی تک جین مت کے ماننے والوں کا ایک شہر سمجھا جاتا تھا، یہاں جین مت کے قدیم مندر بھی موجود ہیں ۔ کول شہر کی ایک مسجد اور ٹاور کا خاکہ۔ ایک روایت کے مطابق کول کی بنیاد راجپوتوں نے 372 ق م میں رکھی تھی (کیپٹن رابن سمتھ/پبلک ڈومین) کول کی وجہ شہرت شراب کی کشید تھی۔ 1879 کے ڈسٹرکٹ گزیٹئر کے مطابق کول کا نام ایک سورمے بالا راما سے جوڑا جاتا ہے جو گنگا جمنا دو آب میں کول کے نام سے معروف تھا ۔ ایک اور روایت کے مطابق کول کی بنیاد ڈور راجپوتوں نے 372 ق م میں رکھی تھی، جب محمود غزنوی ہندوستان آیا تو تب شہر پر ہردتہ آف بورن کی حکمرانی تھی۔ قطب الدین ایبک کے دور میں کول مسلم سلطنت کا حصہ بنا ۔ غیاث الدین بلبن نے یہاں ایک مینار تعمیر تروایا جس پر سن تعمیر 1252 درج تھا جو شہر پر انگریزوں کے حملوں کے وقت تباہ ہو گیا۔ جسے بعد میں سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی تعمیر کے وقت محفوظ بنایا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میوزیم کا حصہ ہے ۔ علاؤالدین خلجی کے دور میں اسے صوبے کا درجہ ملا۔ چودہویں صدی میں ہندوستان آنے والے سیاح ابن بطوطہ کے مطابق کول ایک خوبصورت شہر ہے جو آموں کے باغات میں گھرا ہوا ہے اور اس وجہ سے اسے سبز آباد بھی کہا جاتا ہے۔ 1524 میں یہاں ابراہیم لودھی نے قلعہ بنایا ۔اکبر کے عہد میں کول صوبہ آگرہ کا حصہ

کیا علی گڑھ کا نام پاکستان کی مخاصمت میں بدلا جا رہا ہے؟ Read More »

پاکستان میں نئی الیکٹرک کار’ایم جی 4‘ متعارف کرا دی گئی

  پاکستان کی طرف سے نئی الیکٹرک کار’ایم جی 4‘ متعارف کرا دی گئی۔ اس کار کی تعارفی تقریب کراچی میں منعقد ہوئی۔ یہ گاڑی دو ماڈلز میں متعارف کرائی گئی ہے، جنہیں ’ایکسائٹ‘ (Excite)اور ’ایسنس‘(Essence)کے نام دیئے گئے ہیں۔ یہ گاڑی چین میں رواں سال جون میں متعارف کرائی جا چکی ہے۔ ایم جی فور 240ہارس پاور اور 250نیوٹن میٹر ٹارک پیدا کرتی ہے۔ اس طاقت کے ساتھ یہ گاڑی 7.2سیکنڈز میں صفر سے 100کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایم جی فور ریئر وہیل ڈرائیو سسٹم کے ساتھ لانچ کی گئی ہے، جس کے ڈیش بورڈ پر ایپل کار پلے اور اینڈرائیڈ آٹو کے ساتھ 10.25انچ کی ڈیجیٹل ٹچ سکرین دی گئی ہے۔ اس گاڑی کی بیٹری صرف 35منٹ میں 10فیصد سے 80فیصد تک چارج ہو سکتی ہے۔گاڑی کے دونوں ماڈلز مختلف بیٹری پیکس اور مختلف قیمتوں کے ساتھ متعارف کرائے گئے ہیں۔  ایم جی 4کا 51کلو واٹ آور بیٹری پیک کا حامل ماڈل ایک بار ری چارج کرنے پر350کلومیٹر سفر کرسکتا ہے او راس کی قیمت 1کروڑ 9لاکھ 99ہزار روپے ہے۔ اسی طرح ایم جی 4ایسنس کی قیمت 1کروڑ 29لاکھ 90ہزار روپے ہے، جو 64کلوواٹ بیٹری پیک کے ساتھ آتی ہے۔ اس بیٹری پیک کے ساتھ ایک ری چارج میں یہ گاڑی 450کلومیٹر سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایم جی فو پاکستان بھر میں ایم جی ڈیلرشپس پر دستیاب ہے۔

پاکستان میں نئی الیکٹرک کار’ایم جی 4‘ متعارف کرا دی گئی Read More »

کیا جو کی فصل گندم کا متبادل ہو سکتی ہے؟

  پاکستان کو وقتاً فوقتاً گندم کی قلت کا سامنا رہا ہے، جو کہ ملک کے پاس موجود زرعی وسائل کے پیش نظر افسوس کی بات ہے۔ یہ خاص طور پر حیران کن ہے کیونکہ پاکستان میں عام طور پر گندم کو نقد آور فصل سمجھا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کسان کسی دوسری فصل کے بجائے اس کا انتخاب کرنا پسند کریں گے۔ اور پھر بھی، ملک کو قلت کا سامنا ہے۔ جیسا کہ حالات کھڑے ہیں، پنجاب سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا ملک ہے، اس کے بعد سندھ اور خیبر پختونخواہ کا نمبر آتا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں تقریباً 72 فیصد بنیادی خوراک کی طلب گندم کی پیداوار سے پوری ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کو کئی قدرتی اور انسان ساختہ آب و ہوا سے متعلق آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جیسے کہ شدید بارشیں اور سیلاب، جنہوں نے فصل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان نے ابھی تک ان نقصانات کا ازالہ نہیں کیا ہے، اور یہ ملک میں گندم کی موجودہ قلت کی وضاحت کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان مستقبل کی پیداوار کے لیے متبادل فصلوں، جیسے جو، کی تلاش کرے۔ جو، ضروری امینو ایسڈز پر مشتمل پروٹین کا ایک بھرپور ذریعہ ہے، قدیم زمانے کی فصل ہے، اور اس خطے میں ہزاروں سالوں سے کاشت کی جاتی رہی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں جو ہر سال 1.5 ملین ٹن سے زیادہ جو پیدا کرتا ہے، پاکستان تقریباً 40,000 ٹن جو پیدا کرتا ہے۔ کسانوں کے لیے جو کو متبادل فصل میں تبدیل کرنے کی طرف قدم اٹھانا سمجھ میں آتا ہے۔ اس کی کٹائی کا موسم اکتوبر سے مارچ تک موسمی حالات پر منحصر ہے۔ چونکہ پاکستان پہلے ہی مسائل کا شکار ہے، جیسے کھارا پن، خشک سالی اور کاشت کے لیے میٹھے پانی کی کمی، بڑے پیمانے پر جو کی کاشت بڑھتی ہوئی آبادی کو کھانا کھلانے کے لیے ایک مناسب آپشن ہوگی۔ 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد زراعت ایک ایسا موضوع ہے جو صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اس لیے صوبائی زراعت کے تحقیقی محکموں کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو گندم کے متبادل فصل کے طور پر جو کی اقسام اگانے کی ترغیب دیں۔ پاکستان یقیناً اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی جو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اگر کوشش مخلصانہ اور پیشہ ورانہ طریقے سے ہو تو اسے برآمد بھی کر سکتا ہے۔

کیا جو کی فصل گندم کا متبادل ہو سکتی ہے؟ Read More »

Pakistan and IMF

آئی ایم ایف نے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل سیکٹرز پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی۔

اسلام آباد – بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے پر پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات کے دوران ریٹیل، ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی قرض دینے والے ادارے نے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں رواں مالی سال کے دوران ریٹیلرز پر فکسڈ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ آئی ایم ایف نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس لگانے پر اصرار کیا۔ آئی ایم ایف کے وفد کو بتایا گیا کہ زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کے لیے صوبوں سے مشاورت ضروری ہے۔ قرض دینے والے نے زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے صوبوں سے ٹائم فریم مانگنے کی تجویز دی۔ آئی ایم ایف کو ٹیکس ریگولیٹر کے دائرہ کار میں ٹیکس پالیسی اور مینجمنٹ ٹاسک فورس کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ اگر آئی ایم ایف جائزہ کے دوران پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہے تو دسمبر تک 700 ملین ڈالر کی دوسری قسط جاری کر دی جائے گی۔ نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے اس ہفتے کے دوران فریقین کے وفود کی قیادت کی اور ون آن ون ملاقاتیں کیں۔

آئی ایم ایف نے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل سیکٹرز پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی۔ Read More »

Polluttion in Lahore Smog In Punjab

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔ سموگ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک؟ نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔ ماحولیات کے اُمور پر کام کرنے والے کارکن، وکیل اور ماہر رافع عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں انڈیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 48 فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔ ’اب آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ فضائی آلودگی کی یہ قسم کس حد تک انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔‘ ’یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے‘ لاہور میں حالیہ سموگ اور فضائی آلودگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے شہریوں کی زندگی اور صحت کو کیسے متاثر کیا اس بارے میں چند رہائشیوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی تکلیف بیان کی۔ ڈیڑھ برس کی بیٹی کی والدہ سارہ ذیشان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی بُری طرح سموگ سے متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس کا گلا خراب، کھانسی، بخار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے منھ میں چھالے بھی نکل آئے ہیں اور اسے کھانے پینے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سارہ اور ان کے خاندان کی طرح لاہور شہر میں بسنے والے لاکھوں افراد سموگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امیر حمزہ جو ایک سیلز مین ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا روزگار منسلک ہی ایسے کام سے ہے جس کے لیے سارا دن گھر سے باہر رہ کر موٹر سائیکل چلانا ہوتی ہے۔ ’میں مختلف پوانٹس پر جا کر پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اور جب دن بھر کام کر کے گھر جاتا ہوں تو فضائی آلودگی اور سموگ کے باعث آنکھیں سرخ اور جلن کا شکار ہوتی ہیں۔ ابھی بھی مجھے زکام، گلا خراب اور کھانسی ہے۔ آئے روز بیمار رہنے کے باعث کام بھی متاثر ہوتا ہے۔‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے آنکھوں میں جلن اور پانی آنے کے باعث جگہ جگہ بائیک روک کر پانی سے آنکھیں دھونی پڑتی ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے۔‘ سموگ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کا مطلب کیا ہے؟ رافع عالم کے مطابق سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسیوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔ ’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘ یہ چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم یں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی شہر یا علاقے کی فضا میں موجود پی ایم 2.5 ذرات کی تعداد 25 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزا، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے وہ ان کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین فضا میں موجود مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کر کیا جاتا ہے۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ گیسیں فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘ Read More »

Elections and Controversies

کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟

انتخابی سیاست کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان کے آنے والے انتخابات میں اس پارٹی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے جس کے ساتھ نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ یہ اندازہ تازہ ووٹر لسٹوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اور لوگوں کی زندگیوں میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کی بنیاد پر لگایا جا رہا ہے۔ تو کیا نوجوان رائے دہندگان کی بڑی تعداد ان انتخابات میں واقعی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیگی یا اس مرتبہ بھی انتخابی نتائج روایتی نظام سے متاثر رہیں گے؟  کرنے والے سماجی کارکن سرور باری ان خیالات سے اتفاق نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے۔  سال 2022 میں صوبہ پنجاب کے 21 حلقوں میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی کے تجربے کی روشنی میں ان کا موقف ہے کہ پاکستان کی شہری اور دیہی آبادی اور بزرگ اور نوجوان شہریوں کی انتخابی سوچ کا فرق مٹ رہا ہے۔  ’بالکل ایسی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے جیسی 1970 میں ہوئی تھی۔ بزرگ ووٹرز اپنے ہی خاندانوں کے نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ گذشتہ انتخابات میں چھ فیصد بزرگ ووٹرز نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہوئے۔‘ ’اسی طرح شہروں کے نوجوانوں کے خیالات قصبوں اور دیہات کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی بدلتی سوچ نے شہر اور گاوں کا فرق مٹا دیا ہے۔‘ پنجاب شدید تبدیلی کی لپیٹ میں   پاکستان کی انتخابی اور حلقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار احمد اعجاز متفق ہیں کہ پاکستان کا روایتی انتخابی نظام ٹوٹنے کے قریب ہے۔ ’میرا نہیں خیال کہ اب مریم نواز یا کوئی اور سوشل میڈیا کے استعمال یا دوسرے طریقوں سے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے۔ جب عمران خان اور ان کی جماعت سوشل میڈیا کا ہتھیار استعمال کر رہے تھے اس وقت یہ انہیں ٹوئٹر کی جماعت اور ٹک ٹاک کا وزیراعظم کہتے تھے۔ اب یہ لوگ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمت عملی اپنا کر بھی کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں وقت لگتا ہے، دو تین ماہ میں کچھ نہیں ہوتا۔‘ لیکن سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹرز کی الجھن یہ ہے کہ انہیں ابھی پتہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ووٹ ڈالنا بھی ہے یا نہیں اور کس کو ڈالنا ہے۔  نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے یا گھر بیٹھیں گے  احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ نوجوان ووٹرز کو باہر نکالنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور اگر وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے تو پھر ضرور کسی بھی چیز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔  ’پچھلے آٹھ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح تقریبا 45 فیصد رہی ہے اور اس میں نوجوان ووٹروں کی شرح 30 فیصد رہی ہے یعنی وہ 15 فیصد پیچھے ہیں جو کہ اچھی صورتحال نہیں ہے۔‘ ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے انتخابات میں نوجوان مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور پہلے سے بھی کم تعداد میں ووٹ ڈالیں یا پھر اگر ان کی کوئی حوصلہ افزائی کرے تو پھر باہر نکلیں۔‘

کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟ Read More »

Pak-Afghan Couple

ہم جدا نہیں ہونا چاہتے، 15 سال سے رشتہ ازدواج میں منسلک پاکستانی خاتون کی افغان شوہر کیلئے دہائی

کراچی (این این آئی)محمد بلال نے محبت کی خاطر اپنے ملک اور بھائی بہنوں کو الوداع کہہ کر ڈیرہ غازی کی رہائشی رابعہ کے ساتھ کراچی میں گھر بسا یا، پندرہ سال سے رشتہ اذدواج میں منسلک دونوں فریقین کے لیے زندگی ایک دم مختلف ہوجائے گی یہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔محمد بلال خود تو پاکستان میں پیدا ہوئے تاہم ان کے والدین افغان مہاجرین میں سے تھے۔ محمد بلال نے بتایا کہ وہ 1988 میں کراچی میں پیدا ہوئے تاہم شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم اور نجی زندگی شدید مشکلات سے دوچار رہی البتہ کراچی نے ان کے پیٹ بھرنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور اس شہر کی بدولت بلال نے روزگار اور محبت دونوں کو حاصل کرلیا۔ انہوںنے کہاکہ رابعہ ہمارے محلے میں رہتی تھی اور اکثر گزرتے ہوئے ہماری ملاقات ہوجایا کرتی تھی، ان سے ملا تو پسند آگئیں، ماں باپ کو بتایا کہ آپ جاکر رشتے کی بات کرلیں، وہ تیار ہوگئے تاہم میرے بھائیوں نے کہا کہ اگر تم نے پاکستانی لڑکی سے شادی کی تو سمجھ لو تمہارا ہم سے اور ہماری سرزمین سے کوئی رشتہ نہیں رہے گا۔بلال نے کہا کہ اس کے بعد ان کے بھائی افغانستان چلے گئے اور انہوں نے رابعہ کے ساتھ گھر بسا لیا ، البتہ بلال کے گھر والوں کے بر عکس رابعہ کے گھر والوں کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ میرے گھر بلال کا رشتہ آیا تووالدین نے میری مرضی پوچھی، میں نے اپنے والد کو جواب دیا کہ جیسے آپ کو بہتر لگے ویسا کرلیں لیکن بلال مجھے پسند ہے۔رابعہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرے جواب پر ابو مجھے چھیڑتے ہوئے کہنے لگے کہ تمہیں یہ ہی لڑکا پسند آیا ہے۔جس پر میں نے انہیں جواب دیا کہ میں نے آپ کے سوال کا جواب دیا ہے۔ رابعہ نے بتایا کہ ہماری شادی کو پندرہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، بلال کا رشتہ قبول کرنے کی وجہ ان کا حسن اخلاق تھا اور تب سے اب تک ایک دن ایسا نہیں ہے جب بلال نے میرا اور میرے گھر والوں کا خیال نہ رکھا ہو ، میری بیوہ والدہ اور طلاق یافتہ بہن کو بلال نے ہمیشہ اپنے گھر والوں کی طرح محبت دی ہے ، یہ ہی وجہ ہے کہ جب سے غیر ملکیوں سے متعلق آپریشن شروع ہوا ہے میرے گھر والے بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور اپنے شوہر کے شناختی کارڈ کے حصول کیلئے کافی جدوجہد کر چکی ہیں تاہم کچھ حاصل نہ ہوسکا، رابعہ نے کہا کہ ایک وکیل نے ان سے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کیا اور رقم کی ادائیگی کے بعد یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا کہ یہ معاملہ حل نہیں ہوسکتا البتہ بلال نے بھی شناختی کارڈ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔بلال نے کہا کہ میں نے خبر سنی کہ پشاور ہائیکورٹ نے پاکستانی اہلیہ ہونے کی بنیاد پر ایک افغان شہری کو شناختی کارڈ بنوانے کا حکم جاری کردیا ہے، معزز عدلیہ کے فیصلے کے بعد میں نے بھی ہاتھ پاؤں مارے تاہم کوئی فائدہ نہ ہوا، مجھے افسوس یہ ہے کہ شروع میں میں نے بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا ، خبر نہیں تھی کہ پاکستان میں بغیر کارڈ کے رہنا گھر والوں سے جدائی کا سبب بن سکتا ہے۔ بلال نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے اسی ملک میں آنکھیں کھولیں اور اسی سے محبت کی ہے، قانون کے فیصلوں کے آگے خاموش ہوں لیکن حقیقت ہے کہ ہم پاکستان کے مقروض ہیں، یہ ملک ہمیں واپس بھی بھیج دے تو ہمارا ملک پاکستان ہی رہے گا۔الآصف اسکوائر کے دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے فلیٹ میں یہ گھرانہ رہائش پذیر ہے لیکن آپریشن کی وجہ سے آج کل ان کی زندگی شدید متاثر ہورہی ہے ، بلال نے کہا کہ وہ پندرہ دن سے کام پر نہیں گئے ہیں جس کمپنی میں میں کام کرتا ہوں وہ بہت عزت اور خیال کرنے والے لوگ ہیں ، کارڈ نہ ہونے کے باوجود انہوں نے مجھے اس لیے جگہ دی کہ میرا روزگار چلتا رہے،غیر ملکی افراد سے متعلق جب سے حکومت نے واپس بھیجنے کا اعلان کیا ہے تب سے کمپنی میں بھی ان افراد کو آنے کا کہا جارہا ہے جن کے پاس کارڈ ہے۔ بلال نے بتایا کہ وہ اس وجہ سے بھی گھر سے باہر نہیں جارہے کہ اگر انہیں باہر سے اٹھا کر ڈیپورٹ کردیا گیا تو بیوی بچے انہیں ڈھونڈتے رہ جائیں گے۔رابعہ اور بلال کے پانچ بچے ہیں جن کے مستقبل کو لے وہ پریشان ہیں ، اس کے علاوہ بلال کے لیے الجھن یہ ہے کہ اگر وہ واپس جاتے ہیں تو بھائی انہیں قبول نہیں کریں گے اور رکتے ہیں تو بھی ان کے لیے مشکل ہوگی۔خاتون نے آبدیدہ ہوتے ہوئے بتایا کہ میرے شوہر کے بھائیوں نے پندرہ سال کے شادی کے عرصے میں ہمیں قبول نہیں کیا انہوں نے یہاں تک دھمکی دی تھی کہ اگر تم واپس آئے تو ہم تمہیں مار دیں گے ، میں اپنے شوہر کیلئے فکر مند ہوں یہ میرا واحد سہارا ہیں، جہاں تک بات میرے جانے کی ہے تو میں کیوں جاؤں میں تو پاکستانی ہوں، وہ لوگ میرے لوگ نہیں ہیں نہ ہی افغانستان میرا وطن ہے۔محبت کی شادی کرنے والے اس جوڑے نے حکومت سے مہاجرین پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کی ہے۔

ہم جدا نہیں ہونا چاہتے، 15 سال سے رشتہ ازدواج میں منسلک پاکستانی خاتون کی افغان شوہر کیلئے دہائی Read More »

UAE

کیا پاکستان فہرست میں شامل ہے؟ متحدہ عرب امارات نے 20 ممالک کے لیے دبئی کے وزٹ ویزا پر پابندی کا اعلان کر دیا۔

دبئی – متحدہ عرب امارات نے زائد قیام اور غیر قانونی کام کرنے کی وجہ سے 20 ممالک کے شہریوں کو دبئی کا وزٹ ویزا جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ایک جرمن میڈیا آؤٹ لیٹ نے بتایا کہ یہ پابندی 20 افریقی ممالک کے شہریوں پر عائد کی گئی ہے اور یہ فوری طور پر نافذ العمل ہو گئی ہے۔ پابندی کا سامنا کرنے والے ممالک میں گھانا، سیرا لیون، سوڈان، کیمرون، نائجیریا، لائبیریا، برونڈی، جمہوریہ گنی، گیمبیا، ٹوگو، جمہوری جمہوریہ کوگنو، سینیگال، بینن، آئیوری کوسٹ، کانگو، روانڈا، برکینا فاسو، گنی بساؤ اور کوموروس یہ پیشرفت متحدہ عرب امارات کی جانب سے نئے ویزا نظام کے اعلان کے ایک ماہ بعد سامنے آئی ہے، جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ نائجیریا کے 40 سال سے کم عمر کے شہریوں کو کوئی وزٹ ویزا جاری نہیں کیا جائے گا۔ خوش قسمتی سے، پاکستانی شہری خلیجی ریاست کا سفر کرنے کے لیے وزٹ ویزا حاصل کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

کیا پاکستان فہرست میں شامل ہے؟ متحدہ عرب امارات نے 20 ممالک کے لیے دبئی کے وزٹ ویزا پر پابندی کا اعلان کر دیا۔ Read More »

Pakistan and IMF

آئی ایم ایف کا ٹیوب ویلز پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینے کا مطالبہ

اسلام آباد (این این آئی)آئی ایم ایف نے ٹیوب ویلز پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کسانوں سے سبسڈی لے کر سولرائزیشن اسکیم کی تجویز دے دی،حکومت آئی ایم ایف کی تجویز پر رواں مالی سے عملدرآمد کیلئے مشاورت کرے گی۔ ذرائع کیمطابق آئی ایم ایف نے ٹیوب ویلز پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے کسانوں کیلئے سبسڈی کی بجائے سولرائزیشن اسکیم کی تجویز دی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سے مذاکرات میں ٹیوب ویل سولرائزیشن اسکیم کو رواں مالی سال شروع کرنے پر بات چیت ہوئی ہے ،ٹیوب ویل سولرائزیشن اسکیم پر 90 ارب لاگت آئے گی،90 ارب روپے میں 30 ارب وفاق، 30 ارب صوبے اور 30 ارب ٹیوب ویل صارفین دیں گے اس حوالے سے پاکستان آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے مشاورت بھی کرے گا اس اسکیم پر عملدرآمد کی صورت میں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیوب ویلز صارفین کو سبسڈی نہیں ملے گی۔ ذرائع کے مطابق وزارت توانائی کی جانب سے آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ کاسٹ ریکورننگ ٹیرف بہتری کیلئے نیپرا بروقت اقدامات کررہا ہے۔خزانہ ڈویژن زرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے ڈسکوز، وزارت توانائی اور نیپرا کے درمیان تعاون اور فیصلوں پر جلد عملدرآمد کی بھی ہدایت کی ہے ،پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی سطح کے مزاکرات دس نومبر تک جاری رہیں جس میں مختلف وزارتوں ڈویژن کی کارکردگی اور آئندہ کی حکمت عملی جیسے امور کا جائزہ لیا جا رہا ہے

آئی ایم ایف کا ٹیوب ویلز پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینے کا مطالبہ Read More »

PML N and MQM Electoral Alliance

مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم-پاکستان کا انتخابات مل کر لڑنے کا اعلان

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آج مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم پاکستان کے مابین یہ طے پایا ہے کہ انشااللہ ہم 8 فروری کے انتخابات میں مل کر حصہ لیں گے۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان)کے وفد کی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ جب پی ڈی ایم کی پچھلی حکومت میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) نے آپس میں مذاکرات کیے تو اس وقت بھی ہم نے ایک چارٹر پر دستخط کیے تھے اور ایک بڑی انڈراسٹینڈنگ موجود رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دونوں جماعتوں کے درمیان یہ خواہش بھی موجود رہی ہے کہ دونوں جماعتیں انتخابات میں مل کر حصہ لیں، یہ بھی طے پایا ہے کہ مختلف قومی امور پر معاشی امور پر، سیاسی معاملات پر، آئینی اور قانونی معاملات پر بھی آپس میں مشاورت بھی کی جائے گی اور اس ضمن میں دونوں جانب سے کمیٹیوں کا اعلان بھی کیا جائے گا اور باقی سیاسی قوتوں سے بھی لارجر قومی مفاد میں اور مختلف امور پر بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جائیں گے اور بات چیت کی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح یہ اعلان آپ پہلے سن چکے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے پارٹی رہنماؤں سے مشورے کے بعد بشیر میمن صاحب کو پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ کا نیا صدر نامزد کیا ہے اور شاہ محمد شاہ صاحب کو مرکزی نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کی مجموعی صورتحال خاص طور پر جو سیاسی اور معاشی حالات کے بحران اور چیلنجز ہیں اس کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ صرف انتخابات لڑنا ہی نہیں ہے، انتخابات کے بعد جو حکومت بنے گی، جو پارلیمان قائم ہوگی ، اسمبلیاں بنے گی ان کے لیے جو چیلنجز ہیں کیا ان چیلنجز کو حل کرنے کے لیے ابھی سے کوئی پیشرفت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، کیا ابھی سے آپس میں بیٹھ کر مشورہ کر کے جو بنیادی مسائل ہیں پاکستان کی عوام کے ، چاہے وہ مہنگائی سے متعلق ہوں، بے روزگاری سے متعلق ہوں ، چاہے وہ مسائل غربت سے متعلق ہوں یعنی جو معیشت کے سنگین مسائل ہیں ان کے حل کے لیے جو چیلنجز ہیں اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ کوئی ایک جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ملک کے جملہ مسائل اور جو عوام کے جن مسائل میں پسے ہوئے ہیں ان سے ان کو باہر نکال سکے تو ضروری ہے کہ اس کے لیے ایک وسیع تر مفاہمت اور اشتراک عمل قائم کرنا ہے۔ چنانچہ ہمارے درمیان تو یہ طے ہوگیا یہ سیاسی اشتراک ہے 

مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم-پاکستان کا انتخابات مل کر لڑنے کا اعلان Read More »