Killing

bhupinder singh arrested for accused of killing

بھارت کے معروف اداکار نے فائرنگ کر کے ایک شخص کو قتل اور تین کو زخمی کر دیا

  بھارت کے معروف اداکار نے لڑائی کے دوران فائرنگ کرتے ہوئے اپنے ہمسائے کو قتل اور تین افراد کو زخمی کر دیاہے ، پولیس نے موقع پر پہنچ کر اداکار کو حراست میں لیتے ہوئے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے ۔ بھارتی میڈیا کے مطابق گزشتہ ماہ اداکار بھوپندر سنگھ اور اُن کے پڑوسی گردیپ سنگھ  کے درمیان درختوں کی کٹائی پر جھگڑا ہوا تھا جس کی شکایت گردیپ سنگھ نے 19 نومبر کو پولیس اسٹیشن میں درج کروائی تھی لیکن پولیس نے اُن کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اب حال ہی میں اداکار بھوپندر سنگھ اور اُن کے پڑوسی کے درمیان ایک بار پھر درختوں کی کٹائی پر جھگڑا ہوا، جس کے بعد اداکار اور اُن کے ساتھیوں نے پڑوسی کے خاندان پر فائرنگ شروع کردی۔اس فائرنگ کے نتیجے میں پڑوسی گردیپ سنگھ، اُن کی اہلیہ اور ایک بیٹا شدید زخمی ہوئے جن کی حالت تشویشناک ہے اور اسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ گردیپ سنگھ کا 23 سالہ بیٹا گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا۔ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے اداکار بھوپندر سنگھ اور اُن کے ایک ساتھی کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ دیگر دو ملزمان کی تلاش جاری ہے۔واضح رہے کہ بھوپندر سنگھ نے کئی بھارتی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں جن میں ‘یہ پیار نہ ہوگا کم’، ‘ایک حسینہ تھی’، ‘مدھوبالا’، ‘اِک عشق اِک جنون’، ‘تیرے شہر میں’ سمیت دیگر ڈرامے شامل ہیں، ڈراموں کے علاوہ اُنہوں نے چند فلموں میں بھی کام کیا ہے۔

بھارت کے معروف اداکار نے فائرنگ کر کے ایک شخص کو قتل اور تین کو زخمی کر دیا Read More »

Sikh Leader Killing Plan failed in USA

امریکہ میں سِکھ رہنما کے قتل کا منصوبہ ناکام، انڈیا کو وارننگ

نیویارک (این این آئی)امریکی حکومت نے نیو یارک میں مقیم سِکھ علیحدگی پسند رہنما گْرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کا مبینہ منصوبہ ناکام بنا دیا ہے۔برطانوی روزنامے ‘فنانشل ٹائمز’ کے مطابق صدر جو بائیڈن کی حکومت نے انڈین حکومت کو اْن کے اس منصوبے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر انتباہ بھی جاری کیا ہے۔ برطانوی اخبار نے متعدد ذرائع سے ہونے والی بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘خالصتان’ کے حامی رہنما گْرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کا منصوبہ امریکی حکام کی مداخلت کی وجہ سے ناکام ہوا۔تاہم اخبار کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ قتل کا مبینہ منصوبہ امریکی حکومت کی مداخلت کے بعد ناکام ہوا ہے یا فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے ناکام بنایا ہے۔یہ اطلاعات ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہیں جب تقریباً دو ماہ قبل کینیڈا کے وزیراعظم جسٹس ٹروڈو نے برٹش کولمبیا میں قتل ہونے والے ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نِجر کے قتل کا الزام انڈین حکومت پر عائد کیا تھا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گْرپتونت سنگھ پنوں کے قتل کے مبینہ منصوبے کے حوالے سے امریکہ نے یہ اطلاعات ‘اپنے اتحادیوں’ کے ساتھ بھی شیئر کی تھیں۔خیال رہے کہ گْرپتونت سنگھ پنوں علیحدگی پسند سِکھ تحریک ‘خالصتان’ کے وکیل ہیں۔ ان کا نام حال ہی میں اْس وقت بھی سامنے آیا تھا جب انہوں نے سوشل میڈیا پر انڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔انڈیا ‘خالصتان’ تحریک کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے اور اسے ایک ‘دہشت گرد تنظیم’ بھی قرار دے چکا ہے۔ انڈیا کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے گْرپتونت سنگھ پنوں کے خلاف ایئر انڈیا فلائٹس کو مبینہ طور پر دھمکانے پر ایک مقدمہ بھی درج کیا ہے۔ گْرپتونت سنگھ پنوں نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ وہ امریکی حکومت کو ‘انڈین ایجنٹس سے میری زندگی کو لاحق خطرات جیسے معاملات’ کو دیکھنے کی ذمہ داری نبھانے دینا چاہتے ہیں۔اْن کا کہنا تھا کہ ‘امریکی سرزمین پر ایک امریکی شہری کی جان کو خطرہ امریکہ کی خودمختاری کے لیے چیلنج ہے۔ مجھے بھروسہ ہے کہ صدر بائیڈن کی حکومت ایسے کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔فنانشل ٹائمز نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ امریکی پراسیکیوٹرز نے نیویارک ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک ملزم پر فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی شروع کردی ہے۔رپورٹ کے مطابق جس شخص کو اس قتل کے مبینہ منصوبے کے حوالے سے ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے وہ امریکہ سے پہلے ہی روانہ ہو چکا ہے۔انڈین حکومت کی جانب سے ان الزامات پر تاحال کوئی ردِعمل نہیں دیا گیا ہے۔

امریکہ میں سِکھ رہنما کے قتل کا منصوبہ ناکام، انڈیا کو وارننگ Read More »

ELENA ZAKHARENKA

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسکا اعتراف جرم

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسے اعتراف جرم کے باوجود بری کر دیا گیا یوری گاروسکی نے بیلاروس میں ایک ’ہٹ سکواڈ‘ کا حصہ ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ یہ وہ سکواڈ تھا جس نے ملک کی اپوزیشن کے اہم رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا تھا لیکن اس اعتراف کے باوجود انھیں سزا نہیں ہوئی اور عدالت نے انھیں بری کر دیا۔ گذشتہ ہفتے سوئٹزرلینڈ میں مقدمے کی سماعت کے دوران سپیشل فورسز کے اس سابق فوجی نے سنہ 1999 میں تین افراد کے اغوا اور قتل کے بارے میں تفصیلی بیان دیا۔ تاہم انھوں نے ان افراد کے قتل کا حکم دینے کے الزام کی تردید کی ہے۔ جب وہ اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو عدالت میں ان سے کچھ فاصلے پر پیچھے قتل ہونے والے سیاستدانوں کی بیٹیاں بیٹھ کر یہ کارروائی خود سن اور دیکھ رہی تھیں۔ ان سیاستدانوں کی بیٹیوں نے اپنے سر سے شفقت کا سایہ چھیننے والوں کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے 24 برس جدوجہد کی۔ تاہم جمعرات کو عدالت نے تمام کارروائی کے بعد یوری گاروسکی کو بری کر دیا۔ حیرت انگیز فیصلے میں جج نے کہا کہ اعترافی بیان دینے والے بیلاروسی ملزم کے مختلف بیانات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ان جبری گمشدگیوں اور قتل کے پیچھے بیلا روسی حکام کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔ تاہم جج کے مطابق عدالت کو شک سے بالاتر ثبوتوں کے ساتھ اس بات پر مطمئن نہیں کیا جا سکا کہ یوری گاروسکی اس مقدمے میں مجرم ہیں۔ والیریا کراسوسکایا، جن کے والد اناتولی لاپتہ افراد میں سے ایک ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ فیصلہ ’انتہائی مضیحکہ خیز‘ اور عقل کے منافی ہے۔ اعتراف جرم اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب سنہ 2019 میں اس سابق فوجی نے خود صحافیوں سے رابطہ کر کے انکشاف کیا کہ وہ ملک کے سابق وزیرداخلہ یوری زیخارینکو، حـزب اختلاف کے رہنما وکٹر گونچر اور معروف بزنس مین ایناتولے کراسووسکی کے اغوا میں ملوث ہے۔ اس وقت یوری گاروسکی سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ لینے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ حکام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ سچ بتا رہے ہیں۔ انھیں شاید یہ امید تھی کہ تشہیر سے انھیں کچھ تحفظ بھی مل سکے گا کیونکہ ایک برس قبل وہ بیلاروس میں ایک کار حادثے کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد وہ دو ہفتے تک کوما میں رہے تھے۔ ابھی بھی وہ ایک چھڑی کے سہارے چلتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ حادثہ انھیں جان سے مارنے کی کوشش تھی۔ اس مقدمے سے جڑے ہوئے کرداروں کے لیے یوری گاروسکی کی کہانی سچ کے قریب تھی۔ دو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بیلا روسی اشخاص کی بیٹیوں نے سوئس وکلا کے کے ذریعے اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت ٹرائل شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ یوری کو قید کرنے کے بعد ان سے تحقیقات کی گئیں اور پھر ان پر فرد جرم عائد کیا گیا۔ لاپتہ باپ والیریا کراسوسکایا کو آج بھی یاد ہے کہ وہ 24 سال پہلے آدھی رات کو جاگ رہی تھیں کہ ان کی ماں نے پولیس، ہسپتالوں اور شہر کے مردہ خانے کو فون کیا کیونکہ ان کے شوہر واپس گھر نہیں آئے تھے۔ اناتولی، الیگزینڈر لوکاشینکو کے ناقد وکٹر گونچار کے ساتھ ’منسک‘ شہر کے ایک حمام میں گئے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب الیگزینڈر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے۔ اگلی صبح والیریا کی ماں کو جائے وقوعہ پر خون کے دھبے اور ٹوٹا ہوا شیشہ ملا۔ ان کے شوہر اپنے دوست سمیت غائب ہو چکے تھے۔ گھر والوں کو اناتولی کراسوسکی کی لاش کبھی نہ مل سکی۔ ’آپ نہیں جانتے، کیا وہ زندہ ہیں یا نہیں؟ اور اگر وہ مر گئے ہیں تو پھر کیسے اور اب ان کی لاش کہاں ہے‘؟ والیریا کے ان سوالات سے متاثرہ خاندانوں کے کرب کا اندازہ ہوتا ہے۔ والیریا کے مطابق ’آپ یہ باب بند نہیں کر سکتے، اس لیے آپ اس کے ساتھ جینا سیکھ لیں۔ لیکن یہ بہت مشکل ہے۔‘ والیریا سوئٹزرلینڈ کی عدالت میں یوری گاروسکی کو سننے گئی تھیں کہ کس طرح ان کی سپیشل فورسز یونٹ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ وکٹر گونچار کے ساتھ ان کے والد کو حراست میں لے کر انھیں شہر سے باہر لے جائیں۔ اپنے پہلے بیان کے برعکس سابق فوجی یوری گاروسکی نے عدالتی کارروائی کے دوران متعدد بار اپنی صفائی میں یہ کہا کہ انھوں نے گولی نہیں چلائی اور نہ ہی گاڑی سے بندوق نکالی تھی۔ قید کی صعوبت دیکھ کر اب وہ اس سارے مقدمے میں اپنے کردار کو کم سے کم کر رہے تھے۔ لیکن انھوں نے اغوا اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ ان کے مطابق انھوں نے وکٹر گونچار کا منھ زمین پر پٹخ دیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ’منسک‘ کی سرحد پر دو افراد کو پیٹھ میں گولی ماری گئی تھی۔ یوری گاروسکی نے کہا کہ انھوں نے لاشوں کو ایک گڑھے میں دفن کرنے میں مدد کی، جو پہلے سے کھودا گیا تھا۔ اس کے بعد ان کے کپڑے جلا دیے گئے تھے۔ اس کا انداز سفاکانہ تھا۔ والیریا نے یہ سب غور سے سنا، ہر نکتے کو وہ لکھ رہی تھیں۔ ایک دوست انھیں تسلی بھی دے رہے تھے۔ انھوں نے اس عدالتی سماعت سے قبل مجھے بتایا کہ ’اگرچہ میں بالکل نارمل اور خوشگوار زندگی گزار رہی ہوں، پھر بھی مجھے اپنے والد کی گمشدگی کا خیال جھنجھوڑتا ہے۔ ’جب بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ عام بات ہے۔ لیکن میں ہلکا محسوس کرنا چاہتی ہوں‘۔ ’انھوں نے کہا کھانا لگا دیں، بس میں گھر پہنچ ہی گیا ہوں‘ ایلینا زخارینکا کے لیے یہ پہلا موقع نہیں تھا جب انھوں نے چونکا دینے والا بیان سنا ہو۔ جن صحافیوں سے یوری گاروسکی نے پہلی بار خود اپنی کہانی سنانے کے لیے رابطہ

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسکا اعتراف جرم Read More »