icc mens cricket world cup india 2023

Travis Head Family abused and threatend

ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو دھمکیاں: ’کیا ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں، کرکٹ کب دھمکیوں اور گالیوں تک جا پہنچا‘

انڈیا میں منعقدہ 2023 ورلڈ کپ اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ اتوار اور سوموار کی درمیانی شب اختتام پذیر ہوا۔ آسٹریلیا کے اوپنر ٹریوس ہیڈ نے نئی تاریخ رقم کی اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے تن تنہا انڈیا کے جیت کے طوفان کا رخ موڑ دیا۔ انڈیا کی شکست سے لاکھوں انڈین مداحوں کے دل ٹوٹے اور بہت سے لوگوں نے اپنی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکالی۔ کچھ دلبرداشتہ فینز نے ٹرولنگ کرتے ہوئے ٹریوس ہیڈ کی اہلیہ اور بیٹی کو دھمکیاں بھی دی ہیں۔ کچھ لوگ اپنی بھڑاس آسٹریلین کرکٹر مچل مارش کی ایک تصویر پر بھی نکال رہے ہیں جس میں انھوں نے ورلڈ کپ ٹرافی پر اپنے دونوں پاؤں رکھے ہوئے ہیں۔ انڈیا میں کرکٹ جنون کی حد تک لوگوں کے دلوں رچا بسا ہے۔ یہاں تک کہ اسے انڈیا میں مذہب کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ بہت سے صارفین نے ٹریوس ہیڈ کو نشانہ بنایا اور انسٹا گرام پر ان کی پروفائل پر جا کر ان کی اہلیہ اور بیٹی کو جان سے مارنے اور ریپ کی دھمکیاں دی ہیں۔ واضح رہے کہ ٹریوس ہیڈ نے سیمی فائنل اور فائنل میں کل 199 رنز بنائے جو ریکارڈ ہے۔ انڈیا کی جانب سے جتنے چوکے چھکے لگے ان سے زیادہ ٹریوس ہیڈ نے اکیلے ہی چوکے چھکے لگائے۔ انڈیا کی جانب سے تمام کھلاڑیوں نے 13 چوکے اور تین چھکے لگائے جبکہ ٹریوس ہیڈ نے 15 چوکے اور چار چھکے لگائے۔ ورات کوہلی نے محمد شامی کی حمایت کی تو بعض کرکٹ مداحوں نے کوہلی کی اہلیہ اداکارہ انوشکا شرما اور ان کی بیٹی کو ریپ کی دھمکی دی تھی اے پی ایس واسی نامی ایک صارف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس کے سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ مکمل طور پر بیہودہ ہے۔ انڈین کرکٹ فینز ورلڈ کپ کی جیت کے بعد ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو ریپ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘ جبکہ پالیٹکس 2022 نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ٹریوس ہیڈ کی بیٹی صرف ایک سال کی ہے اور اسے انڈین کرکٹ فینز کی جانب سے انسٹاگرام پر موت اور ریپ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’کیا ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں۔ کرکٹ کب دھمکیوں اور گالیوں تک جا پہنچا؟ ان میں سے 99 فیصد ایک خود ساختہ قومی پارٹی کے ووٹرز ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔‘ لیکن انڈین فینز کی جانب سے اس قسم کی ٹرولنگ کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل سنہ 2021 میں جب انڈین ٹیم پاکستان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی تھی تو محمد شامی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا تھا اور انھیں بعض حلقوں نے ’غدار‘ قرار دیا تھا۔ ورات کوہلی نے ایک پریس کانفرنس میں محمد شامی کی حمایت کی جس پر بعض کرکٹ مداحوں نے کوہلی کی اہلیہ اداکارہ انوشکا شرما اور ان کی دس ماہ کی بیٹی کو ریپ کی دھمکی دی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دھمکی دینے والے شخص کو گرفتار کر لیا تھا۔ مچل مارش کی تصویر بھی زیر بحث ٹریوس ہیڈ نے ورلڈ کپ کی فتح کے بعد مچل مارش کی ایک تصویر پوسٹ کی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس تصویر کے ساتھ انھوں نے لکھا کہ ’سخت محنت کریں یہاں تک کہ کامیابی آپ کے قدموں تلے ہو۔‘ اس تصویر میں مچل مارش کے قدموں تلے وہ ورلڈ کپ ٹرافی ہے جو انھوں نے جیتی ہے۔ سینی ویب نامی ایک صارف نے آئی سی سی اور بی سی سی آئی کو ٹیگ کرتے ہوئے مچل مارش کی تصویر پوسٹ کی اور لکھا کہ ’یہ سلوک کھیل کی سالمیت کے لیے بے ادبی ہے۔ برائے مہربانی اس پر غور کریں اور اس معاملے کو مناسب طور پر سلجھائیں۔‘ بہت سے صارفین نے لکھا کہ ’یہ ورلڈ کپ ٹرافی ہے تھوڑا تو احترام دکھائیں۔‘ کرک شاہ نامی ایک صارف نے کرکٹ بورڈز، جے شاہ اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس کے خلاف کارروائی کریں کہ اس سلوک نے ہماری روایت کی توہین کی۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ جب انڈیا نے 1983 میں ورلڈ کپ جیتا تھا تو انڈین کپتان کپل دیو نے ٹرافی اپنے سر پر اٹھا رکھی تھی اور مارش نے اپنے قدموں تلے رکھی ہے، ’یہ فرق ہے ہماری اور ان کی تہذیب میں۔۔۔‘ بہت سے دوسرے صارفین نے بھی لکھا کہ مچل مارش کے صوفے پر بیٹھ کر ورلڈ کپ کو قدموں تلے رکھنے پر کوئی قباحت نہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’ان (آسٹریلیا) کی تہذیب اور ہماری تہذیب میں بہت فرق ہے‘ اس لیے اسے کوئی مسئلہ نہ بنائیں۔

ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو دھمکیاں: ’کیا ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں، کرکٹ کب دھمکیوں اور گالیوں تک جا پہنچا‘ Read More »

Indian Cricket Team Captain Rohit Sharma

ٹاس کا سکہ، پچ کی تبدیلی اور گیندوں میں ہیر پھیر: انڈین ٹیم پر لگائے گئے وہ الزامات جن پر وسیم اکرم بھی شرمندہ ہوئے

پاکستان کی ٹیم تو ورلڈ کپ سے باہر ہو چکی ہے تاہم پاکستانی شائقین ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے کو بڑے انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا نے گذشتہ روز نیوزی لینڈ کو 70 رنز سے شکست دے کر ورلڈ کپ کی تاریخ میں چوتھی مرتبہ فائنل میں جگہ بنا لی تھی۔ تاہم اس میچ سے پہلے تنازع اس وقت بنا تھا جب ایک برطانوی جریدے دی ڈیلی میل کی جانب سے ایک خبر شائع کی گئی تھی جس میں انڈیا پر سیمی فائنل کے لیے آئی سی سی کی منظوری کے بغیر پچ تبدیل کرنے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ عموماً آئی سی سی ٹورنامنٹس میں پچ کی دیکھ بھال اور اس کی نوعیت کے حوالے سے ذمہ داری آئی سی سی کی جانب سے نامزد کیے گئے آزاد نمائندے کی ہوتی ہے۔ یہ تنازع ابھی تھما نہیں تھا کہ پاکستان کے سابق کرکٹر سکندر بخت کی جانب سے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا گیا جس میں انھوں نے ٹاس کے وقت انڈین کپتان پر ٹاس کے وقت سکہ ایک مخصوص انداز میں پھینکنے کا الزام عائد کیا۔ سکندر بخت نے یہ ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے پہلے میزبان سے کہا کہ کیا میں ایک شرارت کر سکتا ہوں اور پھر کہا کہ ’وہ (روہت) ہمیشہ سکہ اچھالتا ہے اور حریف ٹیم کا کپتان کبھی فائنل نتیجہ دیکھنے نہیں جاتا۔‘ یہ ویڈیو انھوں نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے شیئر بھی کی۔ تاہم اس تنازعے کے حوالے سے بھی متعدد سابق کھلاڑیوں نے تردید بھی کی اور پاکستانی سابق کرکٹرز کی جانب سے اس قسم کے الزامات عائد کرنے پر تنقید بھی کی گئی۔ وسیم اکرم نے کہا کہ ’مجھے اس قسم کی باتیں سن کر بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔‘ اس سے قبل حسن رضا کی جانب سے بھی انڈین بولرز کو مختلف گیندیں دینے کے حوالے سے تنازع کھڑا ہوا تھا جس پر سابق کپتان وسیم اکرم سمیت کئی سابق کرکٹرز اور خود محمد شامی نے بھی وضاحت پیش کی تھی اور تنقید بھی کی تھی۔ خیال رہے کہ ورلڈ کپ کی میزبان ٹیم ہونے کا فائدہ، گراؤنڈ میں شائقین سے ملنے والی زبردست حمایت، پچ اور موسم کی اچھی معلومات وہ تمام عوامل ہیں جو انڈین ٹیم کی اس ٹورنامنٹ میں مدد کرتے آئے ہیں۔ ٹیم انڈیا کے سات سے آٹھ کھلاڑی زبردست فارم میں ہیں اور انہی وجوہات کی بنا پر سابق کوچ روی شاستری نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’(ٹیم انڈیا کے لیے) یہ ورلڈ کپ جیتنے کا صحیح وقت ہے۔‘ دوسری جانب سوشل میڈیا پر چند افراد انڈین ٹیم کی ان پے در پے کامیابیوں کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے افراد کا اعتراض خالصتاً انڈین ٹیم کی انتہائی عمدہ بولنگ پر ہے جس کا اظہار ہم نے پورے ٹورنامنٹ میں دیکھا ہے۔ ٹورنامنٹ میں انڈیا کی بہترین بولنگ اور پاکستان میں تنازع کا آغاز انڈین کرکٹ ٹیم کی مضبوط بلے بازی کی ایک طویل روایت رہی ہے لیکن رواں برس پہلی مرتبہ انڈین بولرز نے اس ٹورنامنٹ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انڈیا کے پاس محمد شامی، محمد سراج اور جسپریت بمراہ جیسے تیز بولرز ہیں جو بڑی سے بڑی مدمقابل ٹیم کو کچل کر رکھ سکتے ہیں، اور اس کا اظہار انھوں نے اس ورلڈ کپ کے لیگ میچوں میں متعدد مرتبہ کیا اور داد سمیٹی۔ اور ان کے ساتھ کلدیپ یادو اور جدیجہ جیسے دو سپنرز بھی جن کا سامنا حریف ٹیموں کے لیے پورے ٹورنامنٹ میں ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ اس لیے کرکٹ ماہرین کی متفقہ رائے یہی ہے کہ انڈین ٹیم کے پاس اب تک کا سب سے مضبوط بولنگ اٹیک موجود ہے۔ تاہم ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود انڈین بولنگ اٹیک کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کی ابتدا پاکستان سے اس وقت ہوئی جب سابق پاکستانی کرکٹر حسن رضا نے انڈین ٹیم کے سری لنکا کو 55 رنز پر آؤٹ کرنے کے بعد شکوک کا اظہار کیا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں چلنے والے حسن رضا کے انٹرویو میں انھیں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ انڈین بولرز کو دی گئی گیندوں کے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہییں۔ انڈین بولرز گیند کو زیادہ سوئنگ کر رہے ہیں۔ رضا نے دعویٰ کیا کہ میتھیوز بھی ممبئی کے میچ میں شامی کی سوئنگ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ ان کا مزید دعویٰ تھا کہ انڈین بولرز کو دوسری اننگز میں آئی سی سی یا بی سی سی آئی سے مدد مل رہی ہے اور انھیں دوسری گیند دی جا رہی ہے جو زیادہ سوئنگ کر رہی ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ تھرڈ امپائر بھی انڈین ٹیم کی مدد کر رہے ہیں۔‘ حسن رضا کا موقف تھا کہ انڈین بولرز کو شائننگ گیند ملتی ہے جو انھیں سوئنگ کرنے میں مدد دیتی ہےاور اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ وسیم اکرم کی تردید اور گیند کی تبدیلی کے بارے میں قوانین پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی اس نوعیت کے خدشات کو مضیحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور جو باتیں کر رہے ہیں وہ مضحکہ خیز ہیں جو جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔ پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے حسن رضا کی جانب سے اٹھائے گئے شکوک کا جواب دے دیا ہے۔ ایک نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں وسیم اکرم نے کہا کہ ’میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کو انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر شک ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’گیند کو منتخب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ چوتھا امپائر 12 گیندوں کے باکس کے ساتھ میدان میں آتا ہے۔ اگر ٹاس جیتنے والا کپتان پہلے بولنگ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس ٹیم کا کپتان میدان میں موجود تھرڈ امپائر کے سامنے دو گیندوں کا انتخاب کرتا ہے۔‘ اس کے بعد فیلڈ امپائر ایک گیند کو دائیں جیب میں رکھتا ہے اور دوسری گیند بائیں جیب میں، باقی گیندیں چوتھا امپائر لے جاتا ہے۔ دوسری اننگز میں بھی اسی طرح اس

ٹاس کا سکہ، پچ کی تبدیلی اور گیندوں میں ہیر پھیر: انڈین ٹیم پر لگائے گئے وہ الزامات جن پر وسیم اکرم بھی شرمندہ ہوئے Read More »

Angelo Mathews

سری لنکا کے اینجلو میتھیوز بین الاقوامی کرکٹ میں ‘ٹائم آؤٹ’ ہونے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔

شاذ و نادر ہی استعمال ہونے والے قانون کا مطلب ہے کہ کریز پر بیٹنگ کے لیے آنے والے کرکٹرز کو مقررہ وقت کے اندر اپنی پہلی گیند کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ سری لنکن بلے باز بین الاقوامی کرکٹ کے پہلے کھلاڑی بن گئے ہیں جو ورلڈ کپ میں ایک متنازعہ لمحے میں ‘ٹائم آؤٹ’ ہو گئے ہیں۔ اینجلو میتھیوز کو دہلی میں حریف بنگلہ دیش کے ساتھ ان کی ٹیم کے تصادم کے دوران آن فیلڈ امپائرز نے آؤٹ کر دیا کیونکہ وہ مطلوبہ دو منٹ کے اندر اپنی پہلی ڈلیوری کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ 35 سالہ آل راؤنڈر کریز پر کھڑے تھے، لیکن اپنی وکٹ کی طرف، اور اپنے ہیلمٹ پر پٹے سے ناخوش نظر آئے۔ بنگلہ دیش کے کپتان شکیب الحسن نے اپنی وکٹ کے لیے اپیل کی، اور اس کے بعد میتھیوز کو ایک قابل ذکر لمحے میں مارچ کرنے کے احکامات دیے گئے۔ شکیب نے اپنی اپیل واپس نہ لینے کا انتخاب کرتے ہوئے، ایک غصے میں آکر میتھیوز کو آؤٹ کر دیا، جس نے پچ چھوڑنے کے بعد غصے میں اپنا ہیلمٹ فرش پر گرا دیا۔ میتھیوز شکیب کو بتاتے نظر آئے کہ تاخیر صرف ان کے ہیلمٹ ٹوٹنے کی وجہ سے ہوئی، لیکن بنگلہ دیشی کپتان اپنا ارادہ نہیں بدلیں گے۔ اس واقعے نے شاذ و نادر ہی استعمال ہونے والے قانون کے بارے میں ایک بحث کو جنم دیا ہے – جو پہلے کبھی بین الاقوامی کرکٹ میں نافذ نہیں ہوا تھا۔ اسے فرسٹ کلاس کرکٹ میں صرف سات بار استعمال کیا گیا ہے – بشمول 2002 میں جب ایک بلے باز کا ‘ٹائم آؤٹ’ ہو گیا تھا کیونکہ وہ ابھی ویسٹ انڈیز سے پرواز پر تھا جب وہ کریز پر آوٹ ہونے والا تھا۔ سری لنکا کے چارتھ اسالنکا نے اپنی ٹیم کی اننگز کے بعد کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ میتھیوز کا آؤٹ ہونا “کرکٹ کے جذبے کے لیے اچھا نہیں ہے”۔ ورلڈ کپ کے کمنٹیٹر اور پاکستان کے سابق کپتان وقار یونس نے کہا: “میں نے جو دیکھا اس سے مجھے لطف نہیں آیا – میں ہمیشہ کھیل کی روح پر یقین رکھتا ہوں۔ “جی ہاں، کھیل کے قوانین کے اندر، وہ آؤٹ ہو سکتا ہے، لیکن مجھے کھیل کے جذبے کے لحاظ سے یہ پسند نہیں آیا۔ اپیل اور پورا ڈرامہ، میں نے سوچا کہ یہ میری پسند کے لیے بہت زیادہ ہے۔” ورلڈ کپ کے ایک اور کمنٹیٹر اور پاکستان کے سابق کپتان رمیز راجہ نے کہا: “ایک حد تک، یہ کرکٹرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کو سیکھیں اور قواعد کی روح کو سمجھیں۔ “ہم میں سے زیادہ تر ایسا نہیں کرتے، لیکن امپائرز صورتحال سے بالاتر تھے۔ یہ ایک مشکل کال تھی۔ “آپ کو یہاں قانون واپس مل گیا ہے اور آپ اس کے بارے میں مزید سمجھیں کہ آپ کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور قانون کیا ہے۔” کرکٹ کے قوانین – دنیا بھر میں کرکٹ کے قوانین – لندن میں میریلیبون کرکٹ کلب (MCC) کے ذریعہ برقرار رکھے جاتے ہیں – جو اس کھیل کے لیے ایک وقت کی گورننگ باڈی ہے۔ قوانین کے تحت، کرکٹ میں آؤٹ ہونے کے 11 طریقے ہیں، جن میں سب سے زیادہ عام ہیں: کیچ، بولڈ، وکٹ سے پہلے لیگ (ایل بی ڈبلیو)، رن آؤٹ یا اسٹمپڈ۔ تاہم، چھ دوسرے ہیں – بہت زیادہ غیر معمولی – بلے بازوں کے آؤٹ کیے جانے کے طریقے، بشمول “ٹائم آؤٹ”۔ دوسرے یہ ہیں: • میدان میں رکاوٹ ڈالنا • اپنی وکٹ کو مارو • گیند کو سنبھالنا • ریٹائرڈ آؤٹ • گیند کو دو بار مارنا ایم سی سی کے قوانین کا کہنا ہے کہ ایک بلے باز کو تین منٹ کے اندر پہلی ڈیلیوری کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے – حالانکہ اس سال کے کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے کھیل کے حالات یہ بتاتے ہیں کہ یہ دو منٹ ہے۔

سری لنکا کے اینجلو میتھیوز بین الاقوامی کرکٹ میں ‘ٹائم آؤٹ’ ہونے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔ Read More »

نیوزی لینڈ کو شکست دینے کے بعد پاکستان ٹیم سیمی فائنل کی دوڑ میں اس وقت کہاں کھڑی ہے؟

پاکستان ٹیم نے سنیچر کو نیوزی لینڈ کے خلاف انتہائی غیر معمولی انداز میں میچ جیت کر ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدوں کو برقرار رکھا ہے نیوزی لینڈ کی جانب سے 402 رنز کے ہدف کے تعاقب میں فخر زمان کی جارحانہ اور بابر اعظم کی ذمہ دارانہ اننگز کی بدولت بارش کے باعث محدود ہونے والے میچ میں پاکستان نے ڈی ایل ایس میتھڈ کے تحت میچ 21 رنز سے جیت لیا۔ یہ یقیناً ایک غیر معمولی فتح تھی جس کے بارے میں آئندہ آنے والے کئی سالوں تک بات ہوتی رہے گی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات اب بھی دوسرے میچوں کے نتائج پر منحصر ہیں۔ پوائنٹس ٹیبل پر نظر ڈالیں تو نیوزی لینڈ، پاکستان اور افغانستان اس وقت آٹھ پوائنٹس کے ساتھ بالترتیب چوتھے، پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔ یہ ترتیب ان ٹیموں کے نیٹ رن ریٹس کی بنیاد پر ہے۔ نیوزی لینڈ کا نیٹ رن ریٹ اس وقت مثبت 0.398 ہے جبکہ پاکستان کا مثبت 0.036 ہے۔ پاکستان کے بعد افغانستان کا نمبر آتا ہے جس کا نیٹ رن ریٹ منفی 0.330 ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ نے آٹھ، آٹھ میچ کھیل رکھے ہیں اور دونوں ہی ٹیموں نے اب اپنا آخری میچ کھیلنا ہے۔ نیوزی کا سری لنکا کے ساتھ میچ نو نومبر کو بینگلورو میں ہی کھیلا جائے گا۔ جبکہ پاکستان کا مقابلہ انگلینڈ سے 11 نومبر کو کولکتہ میں ہو گا۔ دوسری جانب افغانستان نے ابھی ابھی مزید دو میچ کھیلنے ہیں تاہم یہ دونوں مشکل میچ ہیں۔ افغانستان منگل سات نومبر کو آسٹریلیا سے ممبئی میں مدِ مقابل ہو گی جبکہ جنوبی افریقہ سے اس کا مقابلہ 10 نومبر کو احمد آباد میں ہو گا۔ افغانستان اب تک ٹورنامنٹ میں پاکستان، انگلینڈ، سری لنکا اور نیدر لینڈز کو شکست دے چکی ہے۔ افغانستان کو دو میچ موجود ہونے کے باوجود اپنے منفی نیٹ رن ریٹ کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے میں اگر افغانستان دو میں سے ایک میچ بھی ہارتا ہے اور 10 پوائنٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اسے پاکستان اور نیوزی لینڈ کی فتوحات کی صورت میں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس کا نیٹ رن ریٹ دونوں ٹیموں سے بہتر ہے۔ یعنی اسے جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا کے بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اگر افغانستان اپنے دونوں میچ جیتنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر جائے گا۔ ایک میچ جیتنے کی صورت میں یا تو اسے اپنا نیٹ رن ریٹ مثبت کرنا ہو گا یا پھر یہ امید کرنی ہو گی کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ اپنے میچ ہار جائیں۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ تاحال اپنے نیٹ رن ریٹ کے باعث قدرے بہتر پوزیشن پر ہے۔ اگر نیوزی لینڈ سری لنکا کو نو نومبر کو شکست دے دیتا ہے تو پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اس کی مثال کرکٹ تجزیہ کار اور اعدادوشمار کے حوالے سے مہارت رکھنے والے صحافی مظہر ارشد اس طرح دیتے ہیں کہ اگر نیوزی لینڈ نے سری لنکا کو پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 300 رنز بنا کر ایک رن سے شکست دی تو پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف میچ میں لگ بھگ 130 رنز سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق نو نومبر کو بنگلورو میں بارش کا امکان تاہم اس بارے میں بہتر اندازہ میچ کے قریب ہی لگایا جا سکے گا۔ اگر نیوزی لینڈ اور سری لنکا کا میچ بارش کے باعث نہ ہو سکا تو پاکستان کو افغانستان کی شکستوں کی امید رکھنے کے ساتھ انگلینڈ کو ہرانا ہو گا۔ پاکستان کو ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پاکستان کا میچ 11 نومبر کو ہے اس لیے میچ سے قبل پاکستان کو یہ معلوم ہو گا کہ نیٹ رن کے حوالے سے اسے کیا کرنا ہے۔ پاکستانی مداح آئندہ ہفتہ افغانستان کے دونوں میچوں کے علاوہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے سب سے اہم میچ پر نظریں جمائے رکھیں گے۔ ساتھ ہی انھیں یہ امید بھی کرنی ہو گی کہ پاکستان انگلینڈ کے خلاف اپنا میچ جیت جائے۔

نیوزی لینڈ کو شکست دینے کے بعد پاکستان ٹیم سیمی فائنل کی دوڑ میں اس وقت کہاں کھڑی ہے؟ Read More »

ورلڈ کپ 2023ء: آج میزبان بھارت اور سری لنکا کے درمیان میچ پڑے گا

لاہور: (ایگنایٹ پاکستان) بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ 2023ء میں میزبان بھارت اور سری لنکا کی ٹیمیں آج آمنے سامنے آئیں گی۔ ایک روزہ کرکٹ کے عالمی ایونٹ کے 33 ویں میچ میں بھارت اور سری لنکا کی ٹیمیں پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ڈیڑھ بجے بھارتی شہر ممبئی کے واکھنڈے کرکٹ سٹیڈیم میں اتریں گی۔ میگا ایونٹ میں دونوں ٹیموں نے اب تک 6، 6 میچز کھیلے ہیں جن میں سے بھارت نے تمام میں کامیابی حاصل کی جبکہ سری لنکا کی ٹیم صرف 2 ہی جیت پائی جبکہ 4 میں شکست کھا چکی ہے۔

ورلڈ کپ 2023ء: آج میزبان بھارت اور سری لنکا کے درمیان میچ پڑے گا Read More »

انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں

احمد آباد کے کرکٹ سٹیڈیم میں سنیچر کو میزبان انڈیا اور اس کے روایتی حریف پاکستان ورلڈ کپ کے ایک میچ میں آمنے سامنے ہوں گے۔ اس میچ کو ٹورنامنٹ کا ’بلاک بسٹر ایونٹ‘ قرار دیا گیا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کھیل کو دیکھیں گے اور امید ہے کہ 132,000 افراد کی گنجائش والا سٹیڈیم بھی کھچا کھچ بھرا ہوگا۔ دونوں ٹیموں نے اپنے پہلے دو میچ جیت کر ٹورنامنٹ میں پراعتماد آغاز کیا ہے۔ لیکن انڈیا بمقابلہ پاکستان ایک ایسا میچ ہوتا ہے جہاں ماضی کی کارکردگی جیت کی ضامن نہیں ہوتی۔ یہ مہارت، تیاری، حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر اعصاب کی جنگ کا آخری امتحان ہوتا ہے۔ اگرچہ لاکھوں پرجوش شائقین میچ کو ایک جنگ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، مگر یہ کھلاڑیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کھیل ہی کے طور پر لیں۔ دونوں ٹیموں میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو موقعے کی مناسبت سے پرفارمنس دینے کے اہل ہیں۔ انڈیا اس مقابلے میں فیورٹ کی حیثیت سے اترے گا کیونکہ وہ ورلڈ کپ کے سات میچوں میں سے کبھی بھی کسی ایک میں بھی پاکستان سے نہیں ہارا۔ لیکن مہمانوں کے متعلق کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔  ستمبر میں ہونے والے ایشیا کپ میں دنیا کی ٹاپ ون ڈے ٹیم کے طور پر داخل ہوا تھے مگر سیمی فائنل تک پہنچنے کے بعد شکست کھا گیا۔ پر جب ان کا دن ہوتا ہے، تو پاکستان کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتا ہے۔ ان کی بیٹنگ کی صلاحیت ان کے کرشماتی کپتان بابر اعظم کے گرد گھومتی ہے، جن کے متعلق اکثر اتنی بات نہیں ہوتی جتنا کہ وہ مستحق ہیں۔ ان کا شاندار سٹروک دیکھنا کرکٹ کے شائقین کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ لیکن جو چیز انھیں خاص بناتی ہے وہ ان کی آسانی سے بیٹنگ کے گیئرز کو سوئچ کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ اپنی اننگز کو خاموشی سے آگے بڑھاتے ہیں، تقریباً ایسے جیسے وہ دوسروں کی نظروں سے چھپ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کے مخالفین کو اندازہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے، ان کا سکور 50 یا 60 تک پہنچ چکا ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی مرضی سے چوکے، چھکے مارنے لگ جاتے ہیں۔ وہ میدان میں بھی نہایت پرسکون رہتے ہیں اور پریشان نہیں ہوتے، چاہے میچ کیسا ہی چل رہا ہو۔ انڈیا کو ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں ان کی اوسط کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے، جو سنہ 2019 میں ہونے والے ورلڈ کپ کے بعد سے 70 ہے۔ اگر ان کا بلا چل گیا تو انڈیا کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ لیکن وہ انڈیا کے لیے واحد مسئلہ نہیں ہیں۔ وکٹ کیپر محمد رضوان شاندار فارم میں ہیں، انھوں نے منگل کو 131 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو سری لنکا کے 344 رنز کے ہدف کے ریکارڈ تعاقب کو یقینی بنایا۔ عبداللہ شفیق نے بھی میچ میں سنچری بنا کر بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی جگہ مضبوط کر لی ہے۔ فخر زمان اور امام الحق بھی انڈیا کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا بابر اور رضوان کے جلدی آؤٹ ہونے کی صورت میں وہ اننگز کو دوبارہ سنبھال سکتے ہیں۔ اگر انڈیا پاکستان کے ٹاپ آرڈ کو سنبھال لیتا ہے تو وہ پاکستانی مڈل آرڈر میں سمجھی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہے گا۔ لیکن اگر مہمانوں کی بیٹنگ میں کمی ہے تو ان کی بولنگ اس کو پورا کر سکتی ہے۔ پاکستان کے بولرز سری لنکا کے خلاف بہت اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے، اور ٹیم کی فیلڈنگ بھی بری رہی تھی۔ لیکن انڈیا کے خلاف میچ ایک ایسا تھیٹر ہے جہاں ہر کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی دینا چاہتا ہے۔ اور یہی وہ تحریک ہے جو ہر پاکستانی بولر چاہتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان فاسٹ بولرز بنانے کی ایک ’فیکٹری‘ ہے کیونکہ وہ مستقل طور پر ایسے فاسٹ بولرز تیار کرتا ہے جو یا تو بہت تیز ہوتے ہیں یا پھر ان میں سوئنگ کرانے کی ایسی صلاحیتیں ہیں جو تقریباً ایک آرٹ کی طرح ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کے پاس دونوں صلاحتیں ہیں۔ صحیح جگہوں پر مسلسل باؤلنگ کرنے اور بلے باز کو ریش شاٹ کھیلنے پر مجبور کرنے کی ان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ انڈیا یا تو انھیں خاموشی سے کھیلے گا یا شروع میں ہی ان پر حاوی ہونے کے لیے ان پر حملہ کرے گا۔ پاکستان کو نسیم شاہ کی کمی محسوس ہوگی کیونکہ وہ انجری کی وجہ سے باہر ہیں لیکن آفریدی کو حارث رؤف اور حسن علی کی صورت زبردست پارٹنر ملیں گے۔ ان کا سپن کا شعبہ شاداب خان اور محمد نواز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن اس بارے میں سوالات ہیں کہ کیا وہ اپنے تیز رفتار ہم منصبوں کی طرح انڈین بلے بازوں کو بھی پریشان کر سکتے ہیں۔ انڈیا کی بیٹنگ لائن اپ پاکستانی اٹیک بالخصوص سپنرز کو خاموش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کپتان روہت شرما، جنھوں نے بدھ کو افغانستان کے خلاف 63 گیندوں پر سنچری بنا کر اپنی کلاس اور تباہ کن صلاحیت کا مظاہرہ کیا، غالباً بائیں ہاتھ کے کھلاڑی ایشان کشن کے ساتھ اننگز کا آغاز کریں گے۔ لیکن ان کے باقاعدہ اوپننگ پارٹنر شبمن گل بیمار رہے تو وہ ان کی کمی ضرور محسوس کریں گے۔ گِل ٹاپ فارم میں ہیں اور ان کی کمی محسوس کی جائے گی لیکن انڈیا کے پاس ان کی جگہ لینے کے لیے کافی کھلاڑی موجود ہیں۔ روہت کو رنز بناتے دیکھتے ہوئے انڈین شائقین کو بہت خوشی ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی خوبصورت کور ڈرائیوز، گرجدار چھکوں اور بے خوف پل شاٹس سے بتایا ہے کہ وہ اچھی فارم میں ہیں۔ انڈین کپتان اکیلے ہی میچ کو پاکستان سے چھیننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک اوپنر ہیں جو جم کر کھیلتے ہیں اور میچ کے آخر تک کھیل کر اسے ختم کرنا پسند کرتے ہیں۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اس بلے باز نے سنہ 2019 میں پانچ سنچریاں بنائی تھیں، کسی بھی بلے باز

انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں Read More »

ICC Mens Cricekt World Cup 2023 India

پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘

  آج (6 اکتوبر) دن ڈیڑھ بجے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم بابر اعظم کی کپتانی میں انڈیا کے شہر حیدر آباد کے راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کرکٹ ورلڈ کا پہلا میچ کھیلنے کے لیے اُترے گی تو شاید وہاں زیادہ تعداد میں پاکستانی شائقین موجود نہ ہوں کیونکہ انڈین حکومت نے اب تک پاکستانی شائقین کرکٹ کو ویزوں کا اجرا نہیں کیا ہے۔ شاید خود بابر اعظم کو بھی اس کا احساس ہے اور انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ پر بات کرتے ہوئے پاکستانی شائقین کو انڈیا کا ویزا نہ ملنے کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بہتر ہوتا کہ پاکستانی شائقین کو بھی انڈیا کا ویزا ملتا۔ شائقین نے ورلڈ کپ کے لیے بہت سی تیاریاں کر رکھی ہیں۔‘ انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ’آنے والے میچوں کے لیے پاکستانی شا‏ئقین کو ویزا دیا جائے گا اور پاکستانی ٹیم کو حیدرآباد میں سپورٹ ملے گی۔‘ بابر اعظم کی پہلی خواہش کے بارے میں تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن حیدرآباد میں کرکٹ شائقین سے بات کرنے کے بعد اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کی دوسری خواہش پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم حیدرآباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیدیم میں نیدر لینڈز کے خلاف آئی سی سی کے عالمی کپ کا پہلا میچ آج کھیلے گی جس کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں جہاں پاکستانی شائقین پر انڈیا کا ویزا نہ ملنے کی وجہ سے کسی حد تک مایوسی کا غلبہ ہے، وہیں دوسری جانب اس وقت حیدرآباد میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح ان کا استقبال کیا گیا، سٹیڈیم میں اسی طرح کی سپورٹ انھیں ملے گی۔‘ اس بات کا ایک ثبوت تو بنگلور سے خصوصی طور پر پاکستان اور نیدرلینڈز کا میچ دیکھنے کے لیے حیدرآباد تک کا سفر کرنے والے انڈین شہری نوید خان ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نوید خان کا کہنا تھا کہ ’یہ عالمی کپ دونوں ملکوں کے لیے محبت کا پیغام بنے گا، جس انداز میں پاکستان کی ٹیم کا استقبال کیا گیا وہ بہت خوش آئند ہے۔ یہ ٹورنامنٹ بہت اچھے ماحول میں ہو گا۔‘ ایک خاتون مہوا دتا نے کہا کہ ’پاکستان کی ٹیم سات برس بعد انڈیا آئی ہے اور ان کا بہت شاندار خیرمقدم ہوا ہے۔ میں دونوں ٹیموں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔ جو جیتا وہی سکندر۔‘ واضح رہے کہ پاکستان کی ٹیم حیدرآباد میں ایک ہفتے سے مقیم ہے اور اس دوران اُن کی میزبانی اور کھانے کے چرچے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ایک اور نوجوان وجاہت علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں پاکستانی ٹیم بہت مضبوط بن کر آئی ہے۔ شاہین آفریدی، حارث رؤف بہترین بولرز ہیں۔ بابر اعظم، رضوان، افتخار یہ سبھی ورلڈ کلاس کے بلے باز ہیں۔ نیدر لینڈز بھی اچھی ٹیم ہے۔ یہ میچ دلچسپ ہو گا۔‘ ’انڈیا کی پچز اچھی دکھائی دے رہی ہیں‘ پاکستان کی ٹیم اس میچ سے قبل دو وارم اپ میچ کھیل چکی ہے اور اب تک متعدد ٹریننگ سیشن بھی کر چکی ہے۔ دوسری جانب نیدر لینڈز کی ٹیم نے بھی خود کو انڈیا کے موسم اور حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خوب ٹریننگ کی ہے۔ بابر اعظم نے میچ سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیم کی سب سے بڑی طاقت بیٹنگ لائن ہے جو ٹاپ سے نیچے تک مضبوط ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بولنگ میں فاسٹ بالرز پاکستان کی حکمت عملی کی بنیاد ہیں، لیکن یہاں کی پچ پر سپنرز کو بھی فائدہ ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’حیدرآباد کی پچ سے ٹیم مانوس ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک میرا تجربہ ہے اور انڈیا میں ہونے والے میچز جو میں نے ٹی وی پر دیکھے ہیں ان کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کی پچز واقعی اچھی دکھائی دے رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ میچز بڑے سکور والے ہوں گے۔‘ جمعے کے میچ میں کتنا سکور ہو گا؟ یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ہے تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک دلچسپ میچ بن سکتا ہے اگرچہ پاکستان کے لیے نیدرلینڈز اتنا بڑا چیلنج نہیں سمجھی جا رہی۔ پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان یہ ایک روزہ میچز کا ساتواں مقابلہ ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان کی ٹیم نیدرلینڈز سے چھ بار کھیل چکی ہے اور ان سبھی میچوں میں پاکستان نے نیدر لینڈز کو شکست دی تھی۔ پاکستان نے گذشتہ برس نیدرلینڈز کے اپنے پہلے دورے کے دوران سیریز بھی اپنے نام کی تھی۔ آئی سی سی کے مطابق جب یہ دونوں ٹیمں جمعہ کو مد مقابل ہوں گی تو یہ تقریباً گذشتہ 11 برس میں پہلا موقع ہو گا جب یہ انڈیا کی سرزمین پر 50 اوورز کا ون ڈے میچ کھیل رہی ہوں گی۔ دونوں ہی ٹیموں نے 1987 سے حیدرآباد میں 50 اوورز کا ون ڈے انٹرنیشنل گیم نہیں کھیلا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حیدرآباد کی اسی پچ پر پاکستان کا آئندہ میچ 10 اکتوبر کو سری لنکا سے ہو گا اور اسی تناظر میں حیدرآباد میں بتایا ہوا وقت پاکستان کی ٹیم کے لیے کافی اہم ہے۔ سپورٹس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم مثبت اور پُراعتماد دکھائی دے رہی ہے اور اگر ابتدائی دو میچوں میں اسے مسسلسل کامیابی حاصل ہوتی ہے تو یہ اعتماد مزید مضبوط ہو گا۔ حیدرآباد میں پایا جانے والا جوش و خروش اور کرکٹ ورلڈ کپ کے آغاز سے جڑا شائقین کا ذوق و شوق اپنی جگہ تاہم انڈیا میں شائقین کی بڑی تعداد کو اس میچ کا شدت سے انتظار ہے جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان 14 اکتوبر کو احمدآباد میں ہو گا۔ لیکن احمدآباد میں انڈیا سے ہونے والے ٹاکرے سے قبل پاکستان کے لیے دونوں میچز جیتنا بہت اہم ہو گا۔

پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘ Read More »

HASSAN ALI PAKISTANI FAST BOWLER

پاکستانی کرکٹر حسن علی اور اہلیہ سمیعہ کے لیے ورلڈ کپ خاندانی ملاپ کا نادر موقع ہوگا۔

فاسٹ باؤلر کی اہلیہ 2019 میں دبئی میں شادی کے بعد سے ہریانہ میں اپنے گھر نہیں جا سکی ہیں۔ پاکستانی فاسٹ باؤلر حسن علی اور ہندوستانی شہری سامعہ آرزو نے 2019 میں دبئی کے اٹلانٹس دی پام میں شادی انجام پائی ۔ 6 اپریل 2021 کو کرکٹر نے اپنی بیٹی کی پیدائش کی خبر شیئر کی۔ ان کی شادی کے بعد سے، سامعہ اپنے آبائی ملک کا سفر نہیں کر سکیں تھیں۔    ۔ سمیعہ کے والد دو سالہ ہیلینا سے پہلی بار آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ملیں گے جب ہندوستان 14 اکتوبر کو احمد آباد میں پاکستان کے خلاف کھیلے گا۔     سامعہ آرزو کے والد کا کہناہے کہ میں “میں اپنے پوتے کو سنبھالنے کا انتظار نہیں کرسکتا”      ۔ ان کی اہلیہ نے 2021 میں پاکستان کا سفر کیا جب سمیعہ اپنے پہلے بچے کی توقع کر رہی تھیں۔ لیاقت احمد آباد میں اپنی بیٹی سے دوبارہ ملنے کی امید رکھتے ہیں۔   دادا پاکستان کے اسکواڈ کے اعلان تک خوف اور امید میں رہتے تھے۔ حسن علی کا نام ابتدائی فہرست میں شامل نہیں تھا جب پہلی بار اس کا اعلان کیا گیا تھا جب تک کہ ٹیم کے ساتھی نسیم شاہ ایشیا کپ کے دوران انجری کا شکار نہیں ہو گئے تھے۔ علی کو بعد میں آخری لمحات میں متبادل کے طور پر منتخب کیا گیا۔ چاندنی گاؤں میں رہنے والے لیاقت نے اس وقت سکون کی سانس لی جب پاکستانی ٹیم کو آخری لمحات میں سفری ویزا دیا گیا۔ ٹورنامنٹ کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے گیم کے دوران طویل انتظار کے بعد خاندان کا دوبارہ ملاپ آخرکار ہوگا۔ انڈین ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے لیاقت نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی، داماد اور پوتی کو چاندنی میں اپنے گھر پر دیکھنے کی امید رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان بہتر سیاسی تعلقات کی امید رکھتے ہیں۔ کرکٹ کے شوقین، لیاقت کوچ راہول ڈریوڈ کو ‘تعزیت’ دینا چاہتے ہیں اور اپنے پسندیدہ کھلاڑی ویرات کوہلی کے ساتھ ایک تصویر لینا چاہتے ہیں اور کہا کہ وہ اپنے داماد سے درخواست کریں گے کہ وہ اس کی مدد کریں۔

پاکستانی کرکٹر حسن علی اور اہلیہ سمیعہ کے لیے ورلڈ کپ خاندانی ملاپ کا نادر موقع ہوگا۔ Read More »