icc mens cricket world cup 2023 india

Travis Head Family abused and threatend

ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو دھمکیاں: ’کیا ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں، کرکٹ کب دھمکیوں اور گالیوں تک جا پہنچا‘

انڈیا میں منعقدہ 2023 ورلڈ کپ اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ اتوار اور سوموار کی درمیانی شب اختتام پذیر ہوا۔ آسٹریلیا کے اوپنر ٹریوس ہیڈ نے نئی تاریخ رقم کی اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے تن تنہا انڈیا کے جیت کے طوفان کا رخ موڑ دیا۔ انڈیا کی شکست سے لاکھوں انڈین مداحوں کے دل ٹوٹے اور بہت سے لوگوں نے اپنی بھڑاس سوشل میڈیا پر نکالی۔ کچھ دلبرداشتہ فینز نے ٹرولنگ کرتے ہوئے ٹریوس ہیڈ کی اہلیہ اور بیٹی کو دھمکیاں بھی دی ہیں۔ کچھ لوگ اپنی بھڑاس آسٹریلین کرکٹر مچل مارش کی ایک تصویر پر بھی نکال رہے ہیں جس میں انھوں نے ورلڈ کپ ٹرافی پر اپنے دونوں پاؤں رکھے ہوئے ہیں۔ انڈیا میں کرکٹ جنون کی حد تک لوگوں کے دلوں رچا بسا ہے۔ یہاں تک کہ اسے انڈیا میں مذہب کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ بہت سے صارفین نے ٹریوس ہیڈ کو نشانہ بنایا اور انسٹا گرام پر ان کی پروفائل پر جا کر ان کی اہلیہ اور بیٹی کو جان سے مارنے اور ریپ کی دھمکیاں دی ہیں۔ واضح رہے کہ ٹریوس ہیڈ نے سیمی فائنل اور فائنل میں کل 199 رنز بنائے جو ریکارڈ ہے۔ انڈیا کی جانب سے جتنے چوکے چھکے لگے ان سے زیادہ ٹریوس ہیڈ نے اکیلے ہی چوکے چھکے لگائے۔ انڈیا کی جانب سے تمام کھلاڑیوں نے 13 چوکے اور تین چھکے لگائے جبکہ ٹریوس ہیڈ نے 15 چوکے اور چار چھکے لگائے۔ ورات کوہلی نے محمد شامی کی حمایت کی تو بعض کرکٹ مداحوں نے کوہلی کی اہلیہ اداکارہ انوشکا شرما اور ان کی بیٹی کو ریپ کی دھمکی دی تھی اے پی ایس واسی نامی ایک صارف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس کے سکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ مکمل طور پر بیہودہ ہے۔ انڈین کرکٹ فینز ورلڈ کپ کی جیت کے بعد ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو ریپ کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘ جبکہ پالیٹکس 2022 نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ٹریوس ہیڈ کی بیٹی صرف ایک سال کی ہے اور اسے انڈین کرکٹ فینز کی جانب سے انسٹاگرام پر موت اور ریپ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’کیا ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں۔ کرکٹ کب دھمکیوں اور گالیوں تک جا پہنچا؟ ان میں سے 99 فیصد ایک خود ساختہ قومی پارٹی کے ووٹرز ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔‘ لیکن انڈین فینز کی جانب سے اس قسم کی ٹرولنگ کوئی نئی بات نہیں۔ اس سے قبل سنہ 2021 میں جب انڈین ٹیم پاکستان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی تھی تو محمد شامی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا تھا اور انھیں بعض حلقوں نے ’غدار‘ قرار دیا تھا۔ ورات کوہلی نے ایک پریس کانفرنس میں محمد شامی کی حمایت کی جس پر بعض کرکٹ مداحوں نے کوہلی کی اہلیہ اداکارہ انوشکا شرما اور ان کی دس ماہ کی بیٹی کو ریپ کی دھمکی دی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دھمکی دینے والے شخص کو گرفتار کر لیا تھا۔ مچل مارش کی تصویر بھی زیر بحث ٹریوس ہیڈ نے ورلڈ کپ کی فتح کے بعد مچل مارش کی ایک تصویر پوسٹ کی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس تصویر کے ساتھ انھوں نے لکھا کہ ’سخت محنت کریں یہاں تک کہ کامیابی آپ کے قدموں تلے ہو۔‘ اس تصویر میں مچل مارش کے قدموں تلے وہ ورلڈ کپ ٹرافی ہے جو انھوں نے جیتی ہے۔ سینی ویب نامی ایک صارف نے آئی سی سی اور بی سی سی آئی کو ٹیگ کرتے ہوئے مچل مارش کی تصویر پوسٹ کی اور لکھا کہ ’یہ سلوک کھیل کی سالمیت کے لیے بے ادبی ہے۔ برائے مہربانی اس پر غور کریں اور اس معاملے کو مناسب طور پر سلجھائیں۔‘ بہت سے صارفین نے لکھا کہ ’یہ ورلڈ کپ ٹرافی ہے تھوڑا تو احترام دکھائیں۔‘ کرک شاہ نامی ایک صارف نے کرکٹ بورڈز، جے شاہ اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس کے خلاف کارروائی کریں کہ اس سلوک نے ہماری روایت کی توہین کی۔‘ ایک صارف نے لکھا کہ جب انڈیا نے 1983 میں ورلڈ کپ جیتا تھا تو انڈین کپتان کپل دیو نے ٹرافی اپنے سر پر اٹھا رکھی تھی اور مارش نے اپنے قدموں تلے رکھی ہے، ’یہ فرق ہے ہماری اور ان کی تہذیب میں۔۔۔‘ بہت سے دوسرے صارفین نے بھی لکھا کہ مچل مارش کے صوفے پر بیٹھ کر ورلڈ کپ کو قدموں تلے رکھنے پر کوئی قباحت نہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’ان (آسٹریلیا) کی تہذیب اور ہماری تہذیب میں بہت فرق ہے‘ اس لیے اسے کوئی مسئلہ نہ بنائیں۔

ٹریوس ہیڈ کی بیوی اور بیٹی کو دھمکیاں: ’کیا ہم اتنا نیچے گر گئے ہیں، کرکٹ کب دھمکیوں اور گالیوں تک جا پہنچا‘ Read More »

Indian Cricket Team Captain Rohit Sharma

ٹاس کا سکہ، پچ کی تبدیلی اور گیندوں میں ہیر پھیر: انڈین ٹیم پر لگائے گئے وہ الزامات جن پر وسیم اکرم بھی شرمندہ ہوئے

پاکستان کی ٹیم تو ورلڈ کپ سے باہر ہو چکی ہے تاہم پاکستانی شائقین ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے کو بڑے انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا نے گذشتہ روز نیوزی لینڈ کو 70 رنز سے شکست دے کر ورلڈ کپ کی تاریخ میں چوتھی مرتبہ فائنل میں جگہ بنا لی تھی۔ تاہم اس میچ سے پہلے تنازع اس وقت بنا تھا جب ایک برطانوی جریدے دی ڈیلی میل کی جانب سے ایک خبر شائع کی گئی تھی جس میں انڈیا پر سیمی فائنل کے لیے آئی سی سی کی منظوری کے بغیر پچ تبدیل کرنے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ عموماً آئی سی سی ٹورنامنٹس میں پچ کی دیکھ بھال اور اس کی نوعیت کے حوالے سے ذمہ داری آئی سی سی کی جانب سے نامزد کیے گئے آزاد نمائندے کی ہوتی ہے۔ یہ تنازع ابھی تھما نہیں تھا کہ پاکستان کے سابق کرکٹر سکندر بخت کی جانب سے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا گیا جس میں انھوں نے ٹاس کے وقت انڈین کپتان پر ٹاس کے وقت سکہ ایک مخصوص انداز میں پھینکنے کا الزام عائد کیا۔ سکندر بخت نے یہ ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے پہلے میزبان سے کہا کہ کیا میں ایک شرارت کر سکتا ہوں اور پھر کہا کہ ’وہ (روہت) ہمیشہ سکہ اچھالتا ہے اور حریف ٹیم کا کپتان کبھی فائنل نتیجہ دیکھنے نہیں جاتا۔‘ یہ ویڈیو انھوں نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے شیئر بھی کی۔ تاہم اس تنازعے کے حوالے سے بھی متعدد سابق کھلاڑیوں نے تردید بھی کی اور پاکستانی سابق کرکٹرز کی جانب سے اس قسم کے الزامات عائد کرنے پر تنقید بھی کی گئی۔ وسیم اکرم نے کہا کہ ’مجھے اس قسم کی باتیں سن کر بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔‘ اس سے قبل حسن رضا کی جانب سے بھی انڈین بولرز کو مختلف گیندیں دینے کے حوالے سے تنازع کھڑا ہوا تھا جس پر سابق کپتان وسیم اکرم سمیت کئی سابق کرکٹرز اور خود محمد شامی نے بھی وضاحت پیش کی تھی اور تنقید بھی کی تھی۔ خیال رہے کہ ورلڈ کپ کی میزبان ٹیم ہونے کا فائدہ، گراؤنڈ میں شائقین سے ملنے والی زبردست حمایت، پچ اور موسم کی اچھی معلومات وہ تمام عوامل ہیں جو انڈین ٹیم کی اس ٹورنامنٹ میں مدد کرتے آئے ہیں۔ ٹیم انڈیا کے سات سے آٹھ کھلاڑی زبردست فارم میں ہیں اور انہی وجوہات کی بنا پر سابق کوچ روی شاستری نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’(ٹیم انڈیا کے لیے) یہ ورلڈ کپ جیتنے کا صحیح وقت ہے۔‘ دوسری جانب سوشل میڈیا پر چند افراد انڈین ٹیم کی ان پے در پے کامیابیوں کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے افراد کا اعتراض خالصتاً انڈین ٹیم کی انتہائی عمدہ بولنگ پر ہے جس کا اظہار ہم نے پورے ٹورنامنٹ میں دیکھا ہے۔ ٹورنامنٹ میں انڈیا کی بہترین بولنگ اور پاکستان میں تنازع کا آغاز انڈین کرکٹ ٹیم کی مضبوط بلے بازی کی ایک طویل روایت رہی ہے لیکن رواں برس پہلی مرتبہ انڈین بولرز نے اس ٹورنامنٹ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انڈیا کے پاس محمد شامی، محمد سراج اور جسپریت بمراہ جیسے تیز بولرز ہیں جو بڑی سے بڑی مدمقابل ٹیم کو کچل کر رکھ سکتے ہیں، اور اس کا اظہار انھوں نے اس ورلڈ کپ کے لیگ میچوں میں متعدد مرتبہ کیا اور داد سمیٹی۔ اور ان کے ساتھ کلدیپ یادو اور جدیجہ جیسے دو سپنرز بھی جن کا سامنا حریف ٹیموں کے لیے پورے ٹورنامنٹ میں ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ اس لیے کرکٹ ماہرین کی متفقہ رائے یہی ہے کہ انڈین ٹیم کے پاس اب تک کا سب سے مضبوط بولنگ اٹیک موجود ہے۔ تاہم ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود انڈین بولنگ اٹیک کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کی ابتدا پاکستان سے اس وقت ہوئی جب سابق پاکستانی کرکٹر حسن رضا نے انڈین ٹیم کے سری لنکا کو 55 رنز پر آؤٹ کرنے کے بعد شکوک کا اظہار کیا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں چلنے والے حسن رضا کے انٹرویو میں انھیں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ انڈین بولرز کو دی گئی گیندوں کے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہییں۔ انڈین بولرز گیند کو زیادہ سوئنگ کر رہے ہیں۔ رضا نے دعویٰ کیا کہ میتھیوز بھی ممبئی کے میچ میں شامی کی سوئنگ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ ان کا مزید دعویٰ تھا کہ انڈین بولرز کو دوسری اننگز میں آئی سی سی یا بی سی سی آئی سے مدد مل رہی ہے اور انھیں دوسری گیند دی جا رہی ہے جو زیادہ سوئنگ کر رہی ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ تھرڈ امپائر بھی انڈین ٹیم کی مدد کر رہے ہیں۔‘ حسن رضا کا موقف تھا کہ انڈین بولرز کو شائننگ گیند ملتی ہے جو انھیں سوئنگ کرنے میں مدد دیتی ہےاور اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ وسیم اکرم کی تردید اور گیند کی تبدیلی کے بارے میں قوانین پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی اس نوعیت کے خدشات کو مضیحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور جو باتیں کر رہے ہیں وہ مضحکہ خیز ہیں جو جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔ پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے حسن رضا کی جانب سے اٹھائے گئے شکوک کا جواب دے دیا ہے۔ ایک نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں وسیم اکرم نے کہا کہ ’میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کو انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر شک ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’گیند کو منتخب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ چوتھا امپائر 12 گیندوں کے باکس کے ساتھ میدان میں آتا ہے۔ اگر ٹاس جیتنے والا کپتان پہلے بولنگ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس ٹیم کا کپتان میدان میں موجود تھرڈ امپائر کے سامنے دو گیندوں کا انتخاب کرتا ہے۔‘ اس کے بعد فیلڈ امپائر ایک گیند کو دائیں جیب میں رکھتا ہے اور دوسری گیند بائیں جیب میں، باقی گیندیں چوتھا امپائر لے جاتا ہے۔ دوسری اننگز میں بھی اسی طرح اس

ٹاس کا سکہ، پچ کی تبدیلی اور گیندوں میں ہیر پھیر: انڈین ٹیم پر لگائے گئے وہ الزامات جن پر وسیم اکرم بھی شرمندہ ہوئے Read More »

Important Cricket Match and Chances of Rain

بارش کا امکان اور نیوزی لینڈ کیخلاف سری لنکا کی فتح کی دعائیں: کرکٹ ورلڈ کپ کا ایک عام سا میچ خاص کیسے بنا؟

انڈیا میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے جہاں سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ایک جگہ بچی ہے اور تین ٹیمیں اسے پانے کی کوشش میں لگی ہیں۔ یہ تین ٹیمیں نیوزی لینڈ، پاکستان اور افغانستان ہیں اور اس وقت تینوں ٹیموں کے نیٹ رن ریٹ بھی بالترتیب اسی درجہ بندی کے تحت ہیں۔ اس صورتحال میں آج کھیلے جانے والا سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پاکستانی مداحوں کے لیے ایک مرتبہ پھر دعائیں کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس وقت پاکستان کو یا تو نیوزی لینڈ کی شکست یا پھر بارش سے امید لگانی ہو گی۔ سری لنکا پہلے ہی سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئی ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ نیوزی لینڈ پر فتح اس کی سنہ 2025 میں پاکستان میں منعقد ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں شمولیت کے امکانات بڑھا دے گی۔ خیال رہے کہ سنہ 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی میں اس ورلڈ کپ میں پاکستان کے علاوہ پہلے سات درجوں پر آنے والی ٹیمیں شامل ہوں گی۔ پاکستان بطور میزبان اس ٹورنامنٹ میں پہلے ہی شامل ہے۔ پاکستان کی بات کریں تو اسے یا تو نیوزی لینڈ کی شکست میں یا میچ بارش کے باعث نہ ہونے سے فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ یوں انگلینڈ کے خلاف آخری میچ سے پہلے نیوزی لینڈ کے آٹھ یا نو پوائنٹس ہوں گے اور پاکستان کی انگلینڈ پر فتح اسے سیمی فائنل تک پہنچا سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں افغانستان کو شکست ہو یا پھر فتح کا مارجن بڑا نہ ہو۔ اگر نیوزی لینڈ سری لنکا کو شکست دے دیتا ہے تو پھر پاکستان کو انگلینڈ کے ساتھ بھاری مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ کرکٹ کے اعداد و شمار پر مہارت رکھنے والے صحافی مظہر ارشد کے مطابق نیوزی لینڈ جتنے بھی رنز سے اپنا میچ جیتے گا اس میں 130 رنز جمع کیے جائیں گے اور پھر پاکستان کو اتنے یا اس سے زیادہ مارجن سے انگلینڈ کے خلاف میچ جیتنا ہو گا۔ لیکن اس سب کے درمیان شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آج بارش کا کتنا امکان ہے؟ بنگلورو میں بارش کا کتنا امکان؟ انڈیا کی ریاست کرناٹک میں گذشتہ ہفتے کے دوران شدید بارشوں کے باعث بینگلورو سمیت دیگر شہروں میں ییلو الرٹ جاری کیا گیا تھا تاہم انڈین محکمہ موسمیات کے مطابق نو نومبر کو دن بھر آسمان پر بادل تو رہیں گے لیکن بارش ایک سے دو مرتبہ کچھ وقت کے لیے ہو گی۔ بی بی سی ویدر پر نظر ڈالیں تو بینگلورو میں دن کے وقت میچ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے اور بعد میں بارش کا امکان ہے یعنی 11 سے چار بجے کے درمیان اور پھر شام دس بجے کے بعد بارش کا زیادہ امکان ہے۔ اگر میچ بارش کے باعث متاثر ہوتا ہے تو اوورز میں کمی واقع ہوتی ہے۔ کسی بھی ون ڈے میچ کے اوورز کم سے کم 20 اوورز تک محدود ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد اوورز اور رنز کا تعین ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت کیا جاتا ہے۔ یہ فارمولا کیا ہے، آئیے جانتے ہیں۔ ،تصویر کا ذریعہICC ڈی ایل ایس فارمولا کیا ہے؟ جب بھی کوئی کرکٹ میچ بارش سے متاثر ہو جائے تو ہم اکثر ڈکورتھ لوئس سٹرن میتھڈ کے بارے میں سنتے ہیں۔ ریاضی دان ٹونی لوئس اور ان کے ساتھی فرینک ڈک ورتھ نے مل کر یہ نظام متعارف کرایا تھا جسے پہلی بار 1992 ورلڈ کپ میں استعمال کیا گیا۔ سنہ 2014 میں آسٹریلوی پروفیسر سٹیون سٹرن نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں اور تب سے یہ ڈک ورتھ لوئس سٹرن (ڈی ایل ایس) میتھڈ کہلاتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ ریاضی کا ایک فارمولا ہے جو کسی بھی کرکٹ میچ میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے بقیہ وسائل (وکٹوں اور اوورز) کے اعتبار سے ترمیم شدہ ہدف ترمیم کا تعین کرتا ہے۔ اس فارمولے کے تحت پلیئنگ کنڈیشنز میں رد و بدل کیا جاتا ہے، یعنی مقابلے میں شریک ایک یا دونوں ٹیموں کے لیے رنز اور اوورز میں کٹوتی کی جا سکتی ہے۔ یہ فارمولا اس بات پر محیط ہے کہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے پاس دو قسم کے وسائل ہوتے ہیں، یعنی ون ڈے میچ میں 300 گیندیں اور 10 وکٹیں۔ جیسے جیسے اننگز آگے بڑھتی ہے، یہ دونوں وسائل کم ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر صفر پر جا پہنچتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ٹیم تمام 300 گیندیں یا 50 اوورز تک بیٹنگ مکمل کر لے، یا پھر اپنی تمام 10 وکٹیں کھو دے۔

بارش کا امکان اور نیوزی لینڈ کیخلاف سری لنکا کی فتح کی دعائیں: کرکٹ ورلڈ کپ کا ایک عام سا میچ خاص کیسے بنا؟ Read More »

نیوزی لینڈ کو شکست دینے کے بعد پاکستان ٹیم سیمی فائنل کی دوڑ میں اس وقت کہاں کھڑی ہے؟

پاکستان ٹیم نے سنیچر کو نیوزی لینڈ کے خلاف انتہائی غیر معمولی انداز میں میچ جیت کر ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدوں کو برقرار رکھا ہے نیوزی لینڈ کی جانب سے 402 رنز کے ہدف کے تعاقب میں فخر زمان کی جارحانہ اور بابر اعظم کی ذمہ دارانہ اننگز کی بدولت بارش کے باعث محدود ہونے والے میچ میں پاکستان نے ڈی ایل ایس میتھڈ کے تحت میچ 21 رنز سے جیت لیا۔ یہ یقیناً ایک غیر معمولی فتح تھی جس کے بارے میں آئندہ آنے والے کئی سالوں تک بات ہوتی رہے گی لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی کے امکانات اب بھی دوسرے میچوں کے نتائج پر منحصر ہیں۔ پوائنٹس ٹیبل پر نظر ڈالیں تو نیوزی لینڈ، پاکستان اور افغانستان اس وقت آٹھ پوائنٹس کے ساتھ بالترتیب چوتھے، پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔ یہ ترتیب ان ٹیموں کے نیٹ رن ریٹس کی بنیاد پر ہے۔ نیوزی لینڈ کا نیٹ رن ریٹ اس وقت مثبت 0.398 ہے جبکہ پاکستان کا مثبت 0.036 ہے۔ پاکستان کے بعد افغانستان کا نمبر آتا ہے جس کا نیٹ رن ریٹ منفی 0.330 ہے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ نے آٹھ، آٹھ میچ کھیل رکھے ہیں اور دونوں ہی ٹیموں نے اب اپنا آخری میچ کھیلنا ہے۔ نیوزی کا سری لنکا کے ساتھ میچ نو نومبر کو بینگلورو میں ہی کھیلا جائے گا۔ جبکہ پاکستان کا مقابلہ انگلینڈ سے 11 نومبر کو کولکتہ میں ہو گا۔ دوسری جانب افغانستان نے ابھی ابھی مزید دو میچ کھیلنے ہیں تاہم یہ دونوں مشکل میچ ہیں۔ افغانستان منگل سات نومبر کو آسٹریلیا سے ممبئی میں مدِ مقابل ہو گی جبکہ جنوبی افریقہ سے اس کا مقابلہ 10 نومبر کو احمد آباد میں ہو گا۔ افغانستان اب تک ٹورنامنٹ میں پاکستان، انگلینڈ، سری لنکا اور نیدر لینڈز کو شکست دے چکی ہے۔ افغانستان کو دو میچ موجود ہونے کے باوجود اپنے منفی نیٹ رن ریٹ کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے میں اگر افغانستان دو میں سے ایک میچ بھی ہارتا ہے اور 10 پوائنٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اسے پاکستان اور نیوزی لینڈ کی فتوحات کی صورت میں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ اس کا نیٹ رن ریٹ دونوں ٹیموں سے بہتر ہے۔ یعنی اسے جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا کے بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اگر افغانستان اپنے دونوں میچ جیتنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر جائے گا۔ ایک میچ جیتنے کی صورت میں یا تو اسے اپنا نیٹ رن ریٹ مثبت کرنا ہو گا یا پھر یہ امید کرنی ہو گی کہ پاکستان اور نیوزی لینڈ اپنے میچ ہار جائیں۔ دوسری جانب نیوزی لینڈ تاحال اپنے نیٹ رن ریٹ کے باعث قدرے بہتر پوزیشن پر ہے۔ اگر نیوزی لینڈ سری لنکا کو نو نومبر کو شکست دے دیتا ہے تو پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اس کی مثال کرکٹ تجزیہ کار اور اعدادوشمار کے حوالے سے مہارت رکھنے والے صحافی مظہر ارشد اس طرح دیتے ہیں کہ اگر نیوزی لینڈ نے سری لنکا کو پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 300 رنز بنا کر ایک رن سے شکست دی تو پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف میچ میں لگ بھگ 130 رنز سے فتح حاصل کرنی ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق نو نومبر کو بنگلورو میں بارش کا امکان تاہم اس بارے میں بہتر اندازہ میچ کے قریب ہی لگایا جا سکے گا۔ اگر نیوزی لینڈ اور سری لنکا کا میچ بارش کے باعث نہ ہو سکا تو پاکستان کو افغانستان کی شکستوں کی امید رکھنے کے ساتھ انگلینڈ کو ہرانا ہو گا۔ پاکستان کو ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پاکستان کا میچ 11 نومبر کو ہے اس لیے میچ سے قبل پاکستان کو یہ معلوم ہو گا کہ نیٹ رن کے حوالے سے اسے کیا کرنا ہے۔ پاکستانی مداح آئندہ ہفتہ افغانستان کے دونوں میچوں کے علاوہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے سب سے اہم میچ پر نظریں جمائے رکھیں گے۔ ساتھ ہی انھیں یہ امید بھی کرنی ہو گی کہ پاکستان انگلینڈ کے خلاف اپنا میچ جیت جائے۔

نیوزی لینڈ کو شکست دینے کے بعد پاکستان ٹیم سیمی فائنل کی دوڑ میں اس وقت کہاں کھڑی ہے؟ Read More »

امپائر کا وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ جس سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا

ورلڈ کپ کے گذشتہ روز کے میچ میں انڈیا نے بنگلہ دیش کے خلاف سات وکٹوں سے فتح حاصل کی۔ مگر اس دوران یہ بات زیرِ بحث رہی کہ امپائر رچرڈ کیٹلبرو کے وائیڈ نہ دینے کے فیصلے سے وراٹ کوہلی کو اپنی سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا۔ یہ اس وقت ہوا جب انڈین ٹیم دوسری اننگز میں 257 کے ہدف کا تعاقب کر رہے تھے۔ تین وکٹوں کے نقصان پر انڈیا کا سکور 255 تھا۔ انڈیا کو جیت کے لیے دو رنز درکار تھے مگر کوہلی کی سنچری میں تین رنز باقی تھے۔ بنگلہ دیشی سپنر نسیم احمد کے اوور کی پہلی گیند لیگ سائیڈ سے کیپر کے گلووز میں گئی مگر امپائر نے مسکراتے ہوئے اس پر وائیڈ کا اشارہ نہیں دیا۔ اس کے بعد کوہلی نے اوور کی تیسری گیند پر چھکا لگایا اور اپنی سنچری مکمل کر لی۔ سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے تبصرہ کیا ہے کہ کیٹلبرو کے فیصلے سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا۔ اس معاملے پر امپائر بھی تنقید کی زد میں آئے ہیں۔ کوہلی کی سنچری کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ ورلڈ کپس میں آٹھ سال بعد آنے والی کوہلی کی تیسری سنچری اور انڈیا کی یہ فتح سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہیں۔ میچ کے بعد کوہلی کے ساتھ بیٹنگ کرنے والے بلے باز کے ایل راہل نے کہا کہ وہ چاہتے تھے کوہلی سنگل نہ لیں اور اپنی سنچری مکمل کریں۔ ’وارٹ کچھ کنفیوژڈ تھے۔ انھوں نے کہا میں سنگل نہ لے کر اچھا نہیں لگوں گا۔ یہ ورلڈ کپ ہے۔ میں نہیں چاہتا یہ تاثر جائے کہ میں صرف اپنا ریکارڈ مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ پھر میں نے انھیں کہا کہ میں سنگل نہیں لوں گا۔‘ آخری اوورز میں ایسے پانچ مواقع آئے جب کوہلی اور راہل نے سنگلز نہیں لیے۔ میچ میں بہترین کھلاڑی قرار دیے جانے پر کوہلی نے مائیک پر رویندر جڈیجا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اسے آپ سے چرانے پر معذرت چاہتا ہوں۔‘ امپائر کی جانب سے وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جس پر وشال مشرا نامی صارف نے لکھا کہ ’رچرڈ کیٹلبرو کرکٹ کی تاریخ کے ایک بہترین امپائر ہیں۔‘ امپائر نے وائیڈ کیوں نہ دی؟ کوہلی کی سنچری سے قبل وائیڈ نہ دینے کے فیصلے کا ممکنہ تعلق سنہ 2022 میں ایم سی سی کے کرکٹ قواعد میں کی جانے والی تبدیلی سے ہوسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قانون بولرز کو فائدہ پہنچانے کے لیے متعارف کرایا گیا مگر شاید اس معاملے میں یہ قانون بیٹر کے فائدے میں چلا گیا۔ اس قانون میں تبدیلی سے قبل ایم سی سی لاز آف کرکٹ کی شق 22.1.1 میں وائیڈ سے متعلق فیصلہ امپائر کی ججمنٹ پر تھا۔ مارچ 2022 میں اس قانون میں معمولی تبدیلی کر کے شق 22.1.2 متعارف کرائی گئی جس کے تحت امپائر وائیڈ کا فیصلہ بیٹر کی پوزیشن کے لحاظ سے کرے گا۔ ایم سی سی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’جدید کھیل میں بیٹرز پہلے سے کہیں زیادہ بال کرائے جانے سے قبل اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ بہت ہی ناانصافی پر مبنی سمجھا جائے گا کہ اگر کسی ایسی بال کو وائیڈ قرار دیا جائے جو اس جگہ سے گزرے جہاں بلے باز پہلے کھڑا تھا۔‘ اس شق میں اس طرح تبدیلی متعارف کرائی گئی کہ اب جہاں بیٹر کھڑا ہوگا، اس سے وائیڈ کا تعین متاثر ہوگا۔ اب کوہلی کے معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ جب بولر دوڑنا شروع کرتا ہے تو کوہلی بالکل اوپن پوزیشن میں اس طرح کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ان کا فرنٹ فٹ لیگ سائیڈ کی طرف مڑ جاتا ہے اور اس وقت ان کے قریب سے بال گزرتی ہے۔ پھر جب بال وکٹ کیپر تک پہنچتی ہے تو اس دوران بھی ان کی پوزیشن میں ایک معمولی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ اگر کوہلی اپنی جگہ پر کھڑے رہتے تو بال انھیں آ کر لگتی۔ اب ایسے میں نئے قوانین کی روشنی میں امپائر کی طرف سے اسے وائیڈ نہ قرار دینا درست فیصلہ تھا۔

امپائر کا وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ جس سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا Read More »

انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں

احمد آباد کے کرکٹ سٹیڈیم میں سنیچر کو میزبان انڈیا اور اس کے روایتی حریف پاکستان ورلڈ کپ کے ایک میچ میں آمنے سامنے ہوں گے۔ اس میچ کو ٹورنامنٹ کا ’بلاک بسٹر ایونٹ‘ قرار دیا گیا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کھیل کو دیکھیں گے اور امید ہے کہ 132,000 افراد کی گنجائش والا سٹیڈیم بھی کھچا کھچ بھرا ہوگا۔ دونوں ٹیموں نے اپنے پہلے دو میچ جیت کر ٹورنامنٹ میں پراعتماد آغاز کیا ہے۔ لیکن انڈیا بمقابلہ پاکستان ایک ایسا میچ ہوتا ہے جہاں ماضی کی کارکردگی جیت کی ضامن نہیں ہوتی۔ یہ مہارت، تیاری، حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر اعصاب کی جنگ کا آخری امتحان ہوتا ہے۔ اگرچہ لاکھوں پرجوش شائقین میچ کو ایک جنگ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، مگر یہ کھلاڑیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کھیل ہی کے طور پر لیں۔ دونوں ٹیموں میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو موقعے کی مناسبت سے پرفارمنس دینے کے اہل ہیں۔ انڈیا اس مقابلے میں فیورٹ کی حیثیت سے اترے گا کیونکہ وہ ورلڈ کپ کے سات میچوں میں سے کبھی بھی کسی ایک میں بھی پاکستان سے نہیں ہارا۔ لیکن مہمانوں کے متعلق کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔  ستمبر میں ہونے والے ایشیا کپ میں دنیا کی ٹاپ ون ڈے ٹیم کے طور پر داخل ہوا تھے مگر سیمی فائنل تک پہنچنے کے بعد شکست کھا گیا۔ پر جب ان کا دن ہوتا ہے، تو پاکستان کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتا ہے۔ ان کی بیٹنگ کی صلاحیت ان کے کرشماتی کپتان بابر اعظم کے گرد گھومتی ہے، جن کے متعلق اکثر اتنی بات نہیں ہوتی جتنا کہ وہ مستحق ہیں۔ ان کا شاندار سٹروک دیکھنا کرکٹ کے شائقین کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ لیکن جو چیز انھیں خاص بناتی ہے وہ ان کی آسانی سے بیٹنگ کے گیئرز کو سوئچ کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ اپنی اننگز کو خاموشی سے آگے بڑھاتے ہیں، تقریباً ایسے جیسے وہ دوسروں کی نظروں سے چھپ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کے مخالفین کو اندازہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے، ان کا سکور 50 یا 60 تک پہنچ چکا ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی مرضی سے چوکے، چھکے مارنے لگ جاتے ہیں۔ وہ میدان میں بھی نہایت پرسکون رہتے ہیں اور پریشان نہیں ہوتے، چاہے میچ کیسا ہی چل رہا ہو۔ انڈیا کو ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں ان کی اوسط کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے، جو سنہ 2019 میں ہونے والے ورلڈ کپ کے بعد سے 70 ہے۔ اگر ان کا بلا چل گیا تو انڈیا کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ لیکن وہ انڈیا کے لیے واحد مسئلہ نہیں ہیں۔ وکٹ کیپر محمد رضوان شاندار فارم میں ہیں، انھوں نے منگل کو 131 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو سری لنکا کے 344 رنز کے ہدف کے ریکارڈ تعاقب کو یقینی بنایا۔ عبداللہ شفیق نے بھی میچ میں سنچری بنا کر بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی جگہ مضبوط کر لی ہے۔ فخر زمان اور امام الحق بھی انڈیا کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا بابر اور رضوان کے جلدی آؤٹ ہونے کی صورت میں وہ اننگز کو دوبارہ سنبھال سکتے ہیں۔ اگر انڈیا پاکستان کے ٹاپ آرڈ کو سنبھال لیتا ہے تو وہ پاکستانی مڈل آرڈر میں سمجھی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہے گا۔ لیکن اگر مہمانوں کی بیٹنگ میں کمی ہے تو ان کی بولنگ اس کو پورا کر سکتی ہے۔ پاکستان کے بولرز سری لنکا کے خلاف بہت اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے، اور ٹیم کی فیلڈنگ بھی بری رہی تھی۔ لیکن انڈیا کے خلاف میچ ایک ایسا تھیٹر ہے جہاں ہر کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی دینا چاہتا ہے۔ اور یہی وہ تحریک ہے جو ہر پاکستانی بولر چاہتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان فاسٹ بولرز بنانے کی ایک ’فیکٹری‘ ہے کیونکہ وہ مستقل طور پر ایسے فاسٹ بولرز تیار کرتا ہے جو یا تو بہت تیز ہوتے ہیں یا پھر ان میں سوئنگ کرانے کی ایسی صلاحیتیں ہیں جو تقریباً ایک آرٹ کی طرح ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کے پاس دونوں صلاحتیں ہیں۔ صحیح جگہوں پر مسلسل باؤلنگ کرنے اور بلے باز کو ریش شاٹ کھیلنے پر مجبور کرنے کی ان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ انڈیا یا تو انھیں خاموشی سے کھیلے گا یا شروع میں ہی ان پر حاوی ہونے کے لیے ان پر حملہ کرے گا۔ پاکستان کو نسیم شاہ کی کمی محسوس ہوگی کیونکہ وہ انجری کی وجہ سے باہر ہیں لیکن آفریدی کو حارث رؤف اور حسن علی کی صورت زبردست پارٹنر ملیں گے۔ ان کا سپن کا شعبہ شاداب خان اور محمد نواز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن اس بارے میں سوالات ہیں کہ کیا وہ اپنے تیز رفتار ہم منصبوں کی طرح انڈین بلے بازوں کو بھی پریشان کر سکتے ہیں۔ انڈیا کی بیٹنگ لائن اپ پاکستانی اٹیک بالخصوص سپنرز کو خاموش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کپتان روہت شرما، جنھوں نے بدھ کو افغانستان کے خلاف 63 گیندوں پر سنچری بنا کر اپنی کلاس اور تباہ کن صلاحیت کا مظاہرہ کیا، غالباً بائیں ہاتھ کے کھلاڑی ایشان کشن کے ساتھ اننگز کا آغاز کریں گے۔ لیکن ان کے باقاعدہ اوپننگ پارٹنر شبمن گل بیمار رہے تو وہ ان کی کمی ضرور محسوس کریں گے۔ گِل ٹاپ فارم میں ہیں اور ان کی کمی محسوس کی جائے گی لیکن انڈیا کے پاس ان کی جگہ لینے کے لیے کافی کھلاڑی موجود ہیں۔ روہت کو رنز بناتے دیکھتے ہوئے انڈین شائقین کو بہت خوشی ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی خوبصورت کور ڈرائیوز، گرجدار چھکوں اور بے خوف پل شاٹس سے بتایا ہے کہ وہ اچھی فارم میں ہیں۔ انڈین کپتان اکیلے ہی میچ کو پاکستان سے چھیننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک اوپنر ہیں جو جم کر کھیلتے ہیں اور میچ کے آخر تک کھیل کر اسے ختم کرنا پسند کرتے ہیں۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اس بلے باز نے سنہ 2019 میں پانچ سنچریاں بنائی تھیں، کسی بھی بلے باز

انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں Read More »

ICC Mens Cricekt World Cup 2023 India

سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث

ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو گیا ہے اور لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ میچ دیکھنے والوں کی بھیڑ کہاں ہے؟ پہلا میچ گذشتہ ورلڈ کپ کی فاتح انگلینڈ اور رنر اپ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان انڈیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں جمعرات کو کھیلا گیا لیکن اکثریت میں لوگوں کے بجائے خالی سیٹیں ہی نظر آئیں۔ یہی حال جمعے کی شام پاکستان اور نیدر لینڈز کے درمیان حیدرآباد میں کھیلے جانے والے دوسرے میچ کا تھا جہاں زیادہ تر نشستیں خالی تھیں۔ بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا میں اس سے زیادہ بھیڑ تو آئی پی ایل کے میچز دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو جاتی ہے۔ تو کیا بی سی سی آئی لوگوں کو سٹیڈیم لانے میں ناکام رہی ہے؟ گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی نے ٹوئٹر پر احمد آباد میں جمعرات کو ہونے والے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں خالی سٹیڈیم کو ‘فیاسکو’ یا رسوائی قرار دیا اور بی سی سی آئی کی ٹکٹنگ کے عمل میں مبینہ شفافیت کی کمی پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ‘جب ‘بُک مائی شو’ (پلیٹ فارم) پر ٹکٹ کی فراہمی شروع ہوئی تو چند منٹوں میں ہی سارے ٹکٹ فروخت ہو گئے۔ تو پھر ایسا کیونکر ہوا کہ اتنے کم لوگ میچ دیکھنے کے لیے پہنچے؟’ ان رپورٹوں کی بنیاد پر جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ‘خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کا جشن منانے کے لیے’ بی جے پی کی جانب سے خواتین کو 40,000 ٹکٹ مفت پیش کیے گئے، مسٹر میوانی نے کہا کہ ٹکٹوں کی فروخت ستمبر کے پہلے ہفتے تک ختم ہو چکی تھی جبکہ بل آخری ہفتے میں منظور ہوا ‘تو پھر عورتوں کے لیے یہ اضافی ٹکٹ کہاں سے آئے؟’ کانگریس کے ایم ایل اے نے مزید سوال کیا کہ ‘کیا بی سی سی آئی اس طرح سے کسی ایک سیاسی پارٹی کو ٹکٹ دے سکتی ہے؟’ مسٹر میوانی نے خالی سٹیڈیم کی ایک ویڈیو اور دو تصویریں ڈال کر لکھا: ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسا گٹھ جوڑ چل رہا ہے جس نے کرکٹ کے شائقین کو طویل عرصے سے اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ ٹکٹنگ کے عمل میں کوئی شفافیت نہیں ہے جس کی وجہ سے لاتعداد شائقین مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔’ بہر حال بہت سے کرکٹرز اور صارفین نے سٹیڈیم کے خالی ہونے کی توجیہ بھی پیش کی ہے۔ سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر عرفان پٹھان نے ٹویٹ کیا کہ ’جو لوگ خالی سٹیڈیم کا رونا رو رہے ہیں وہ محروم ہو گئے ہیں، اس لیے بیکار کی ٹویٹس کر رہے ہیں۔ ورلڈ کپ انڈیا میں ہو رہا ہے اور دنیا کے بہترین سٹیڈیموں میں سے ایک میں۔ اس گھڑی کا مزا لیں اور انھیں رونے دیں۔’ جبکہ سابق انڈین اوپنر ویریندر سہواگ نے کہا ہے کہ جن میچز میں انڈیا نہ کھیل رہا ہو سکول کے طلبہ کو مفت ٹکٹ فراہم کیا جائے۔ انھوں نے لکھا کہ ’50 اوورز کے گیم میں لوگوں کی کم ہوتی دلچسپی کے مد نظر نوجوانوں کو ورلڈ کپ دیکھنے کا تجربہ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ کھلاڑی بھی بھرے ہوئے سٹیڈیم میں کھیلنے کا احساس کر سکیں۔’ پہلا میچ احمدآباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ اس سٹیڈیم میں ایک لاکھ 32 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے لیکن سوشل میڈیا پر جو حتمی تعداد پیش کی گئی ہے اس اعتبار سے بھی سٹیڈیم خالی ہی تھا۔ ریڈف کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال آئی پی ایل کے فائنل میں وہاں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی موجود تھے جبکہ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں 50 ہزار سے بھی کم تماشائی وہاں پہنچے اور اس طرح سٹیڈیم ہر وقت خالی خالی سا نظر آیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے 5 اکتوبر ہفتے کا وسط (ویک ڈے) تھا، اس لیے بھیڑ نہ پہنچ سکی تو کچھ لوگوں کے خیال میں میزبان ملک انڈیا کے نہ کھیلنے کی وجہ سے پہلے میچ میں تماشائی کم تھے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے مطابق اگر یہ میچ احمد آباد کے بجائے ممبئی کے وانکھیڑے میں کھیلا جاتا تو ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ کو بھی ناقص انتظام کے لیے نشانہ بنا رہے ہیں۔ میچ کے درمیان سینیئر صحافی پنیہ پرسون واجپئی نے لکھا: ‘کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو چکا ہے، سٹیڈیم خالی ہے۔۔۔ یہ کسی چھوٹے شہر میں ہوتا تو بہتر ہوتا۔۔۔’ انگلینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ڈینیئل ویٹ نے بھی ٹویٹ کیا کہ ‘بھیڑ کہاں ہے؟’ اس پر انڈین خاتون کرکٹر جمائمہ روڈریگس نے لکھا کہ ’انڈیا بمقابلہ پاکستان میچ کا انتظار کر رہی ہوں‘۔ انڈیا میں ورلڈ کپ اور واحد پاکستانی مداح انڈین صحافی سوہاسنی حیدر نے لکھا کہ ‘پاکستان میڈیا اور مداح ابھی تک ورلڈ کپ کے لیے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ 60 صحافیوں نے ویزے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ اس کے جواب میں کولسا نامی ایک صارف لکھتے ہیں کہ ‘اور ہم اولمپکس کا انعقاد کرنا چاہتے؟ کم از کم گجرات میں تو نہیں۔’ وقاص علی نامی ایک صارف نے لکھا: ‘ورلڈ کا بدترین آغاز۔ پہلے تو انڈیا نے پاکستانی فینز کا ویزا مسترد کر دیا، جس کا نتیہ خالی سٹیڈیمز ہیں اور اس پر بھی ڈیجیٹل سکور بورڈ بھی ٹوٹ گيا۔’ بابر اعظم نام کے ایک صارف نے لکھا کہ حیدرآباد کا سٹیڈیم اس لیے خالی رہا کہ پاکستانی مداحوں کو ویزا نہیں دیا گيا۔ یہ سب سے خراب ورلڈ کپ رہا ہے اب تک۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ سے ورلڈ کپ دیکھنے آنے والے پاکستانی مداح ’چچا کرکٹ‘ محمد بشیر کا کہنا ہے کہ وہ پورے سٹیڈیم میں اکیلے پاکستانی مداح ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود ‘میرا جوش خروش اور آواز سو ڈیڑھ سو لوگوں کے برابر ہے۔’ شکاگو میں مقیم 67 سالہ محمد بشیر نے پاکستان کا قومی پرچم اٹھا رکھا تھا اور پاکستانی ٹیم کی جرسی بھی پہن رکھی تھی۔ سٹیڈیم میں یا اس کے باہر لوگ ان کے ساتھ اگر سیلفی لیتے نظر آ رہے ہیں

سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث Read More »