غازی علم الدین شہیدؒ
لاہور: (صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی) اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آنے والی اس دنیائے فانی میں اگر کوئی سب سے قیمتی سرمایہ ہے تو وہ فقط ’’محبت ِرسول ﷺ‘‘ہی ہے، یہ ایسا خوبصورت اور انمول سرمایہ ہے کہ جسے ’’فنا‘‘ نہیں بلکہ ’’بقا‘‘ہی بقا ہے۔ بطور مسلمان ہونا، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اپنے دامن میں محبت رسول عربیﷺ کے گوہر نایاب کو سمیٹا جائے، کیونکہ اللہ کے حبیب ﷺ سے محبت ایمان کی شرط ِ اوّل ہے، رسولِ کریم ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا کہ جب تک وہ اپنے مال، اولاد، والدین اور دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرتا ہو‘‘۔ رحمت عالمﷺ کی اِس پیاری امت میں آپ ﷺ سے محبت کرنے والے اور ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے قربان ہونے والے روشن ستاروں کی طرح چمکتے دمکتے عاشقان رسولﷺ ہر دور میں ہی دنیا کے ماتھے کا جھومر رہے ہیں، اُمت مسلمہ کے یہ وہ عظیم مرد مجاہد ہوتے ہیں کہ جو ہمیشہ کیلئے امر ہوتے ہوئے حقیقی معنوں میں رب ِقدوس کی عطا کردہ زندگی با مقصد بنا جاتے ہیں۔ غازی علم دین شہیدؒ بھی انہی ستاروں میں سے ایک روشن ستارہ ہیں جنہوں نے گستاخ رسول ہندو راجپال کو جہنم واصل کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ یہ مرد ِمجاہد اور عاشق رسول 4 دسمبر 1908ء بروز جمعرات اندرون شہر لاہور میں پیدا ہوئے، آپؒ کے والد طالح محمد بڑھئی کا کام کرتے تھے، علم دینؒ ابھی ماں کی گود میں ہی تھے کہ ایک روز اُن کے دروازہ پر ایک فقیر نے دستک دی اور صدا لگائی، آپؒ کی والدہ نے آپؒ کو اٹھائے ہوئے، اس سوال کرنے والے کو حسبِ استطاعت کچھ دینے کیلئے گئیں، جب اللہ کے اُس بندے کی نظر آپؒ پر پڑی تو اللہ والے نے آپؒ کی والدہ سے کہا کہ ’’تیرا یہ بیٹا بڑے نصیب والا ہے، اللہ نے تم پر بہت بڑا احسان کیا ہے تم اس بچے کو سبز کپڑے پہنایا کرو‘‘۔ علم دین قدرے بڑے ہوئے تو آپؒ کے والد نے آپؒ کو محلہ کی ایک مسجد میں داخل کروا دیا، غازی علم دین تعلیمی سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکے اور آپ کے والد اپنے ساتھ کام پر لے جانے لگے ،زندگی کے شب و روز ہنسی خوشی بسر ہوتے رہے، جب آپؒ جوان ہوئے تو ماموں کی بیٹی سے منگنی کر دی گئی، انہی دنوں ایک ہندو پبلشر راجپال نے حضور اقدسﷺ کی شانِ مقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ناقابلِ برداشت خیالات پر مبنی کتاب شائع کی، جس کی اشاعت پر ہندوستان بھر کے مسلمان آگ بگولہ ہوتے ہوئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھے۔ اس سلسلہ میں عبدالعزیز اور اللہ بخش نے بدبخت راجپال کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو کی مگر ناکام رہے، عدالت نے حملہ کرنے کے جرم میں دونوں کو سخت سزائیں دیں، انگریزوں کی حکومت تھی، انگریز اور ہندو مسلم دشمنی کی بنا پر ایک ہی ڈگر کے مسافر تھے اور راجپال اور اس کی مکروہ کتاب کی اشاعت کے تحفظ کرنے میں پیش پیش تھے، اس کے علاوہ مولوی نور الحق مرحوم (جو اخبار ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ کے مالک تھے) نے اخبار میں راجپال کے خلاف لکھا تو اُنہیں بھی دو ماہ کی سزا کے ساتھ ایک ہزار روپیہ جرمانہ کیا گیا۔ مسلمان جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے کر رہے تھے، جلسے جلوس اور اخبارات خبروں سے بھرپور تھے،غالباً 31 مارچ یا یکم اپریل تھا کہ غازی علم دین شہیدؒ نے اپنے بڑے بھائی شیخ محمد دین کے ساتھ ایک جلسہ میں نوجوان مقرر کو سُنا، جو راجپال اور اُس کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کے دکھ کا اظہار کر رہا تھا اور مسلمانوں کو بیدار کر رہا تھا کہ جاگو مسلمانو جاگو! بد بخت راجپال واجب القتل ہے، ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں قربان کر دو‘‘۔ تقریر کے ان سنہری الفاظ نے علم دین شہیدؒ کے قلب و روح میں ایک ہلچل سی مچا دی، ان الفاظ کی گونج لئے ہوئے گھر پہنچے اور گستاخِ رسول کو قتل کرنے کا عہد کیا۔ 6 اپریل 1929ء کو انار کلی سے ایک چھری خریدی اور اُسے خوب تیز کروا کر عشرت پبلشنگ ہاؤس کے سامنے واقع دفتر پہنچے کہ راجپال بھی اپنی کار میں وہاں آ گیا، بدبخت راجپال کو دیکھتے ہی علم دینؒ کی آنکھوں میں خون اُتر آیا، راجپال کی حفاظت کے لئے حکومت نے پولیس تعینات کر رکھی تھی لیکن اس وقت راجپال کی ہر دوار یاترا سے واپسی کی اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے پولیس اہلکار حفاظت کیلئے ابھی نہیں پہنچے تھے۔ راجپال اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنی آمد کی اطلاع دینے کیلئے فون کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ عظیم مردِ مجاہد غازی علم دینؒ دفتر کے اندر داخل ہوگئے، اُس وقت راجپال کے دو ملازم کیدار ناتھ اور بھگت رام موجود تھے لیکن اُن دونوں کی موجودگی علم دین کے جذبے کے آگے بے دم ہو کر رہ گئی اور اُنؒ کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی، علم دینؒ نے چھری کے پے در پے وار کرتے ہوئے بدبخت راجپال کو جہنم واصل کر دیا، بعد میں علم دین کو گرفتار کر لیا گیا اور دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ 10 اپریل ساڑھے دس بجے مسٹر لوائسٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی، استغاثہ کی طرف سے ایشر داس کورٹ ڈی ایس پی پیش ہوا، جبکہ علم دینؒ کی طرف سے مسٹر فرخ حسین بیرسٹر اور خواجہ فیروز الدین بیرسٹر رضا کارانہ طور پر پیش ہوئے اور اُن کی معاونت کیلئے ڈاکٹر اے آر خالد نے اپنی خدمات سر انجام دیں۔ 22 مئی 1929ء کو سیشن جج لاہور نے علم دینؒ کو سزائے موت کا حکم سنایا، 15 جولائی کو غازی علم دینؒ کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی، جس کی سماعت جسٹس براڈ وے وجسٹس جانسن نے کی اور 17 جولائی کو یہ اپیل خارج کر دی گئی جس کے خلاف پریوی کونسل میں کوشش کی گئی، جو
غازی علم الدین شہیدؒ Read More »