خیبرپختونخوا کا وہ علاقہ جہاں غیر قانونی طور پر پانی سے سونا نکالنے کا کام کیا جاتا ہے

صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ کی تحصیل نظام پور کے 30 سالہ سعید محمد اور اُن کے دوست وقاص ڈیوٹی کا وقت ختم ہونے کے بعد واپس گھر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ شدید سردی میں میلے کپڑے، تن پر پرانا پھٹا کوٹ اور پاؤں میں پلاسٹک کے چپل، اس حالت میں وہ دریائے اباسین کی ریت چھان کر سونا نکالنے کا کام کرتے ہیں۔ سعید محمد کو روزانہ کی بنیاد پر پندرہ سو روپے مل جاتے ہیں لیکن اُن کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ کام خطرے سے خالی نہیں کیونکہ یہ غیر قانونی ہے۔ نوشہرہ کے ڈپٹی کمشنر خالد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ نظام پور میں پچھلے دو سال سے بڑے پیمانے پر دریائے سندھ یا اباسین سے بڑی مشینری کی مدد سے سونا نکالنے کا کام ہو رہا ہے تاہم کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں۔ چھتیس گاؤں پر مشتمل نظام پور ضلع نوشہر کی تحصیل جہانگیرہ کا علاقہ ہے جس کی آبادی تقریباً تین لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا ذریعہ کمائی علاقے میں قائم فوجی سیمنٹ فیکٹری اور سکیورٹی اداروں میں نوکریاں، ٹرانسپورٹ اور ملائیشیا میں محنت مزدری کرنا ہے تاہم پچھلے دو سال سے گاؤں سے گزرنے والے دریائے سندھ سے سونا نکلنے سے مقامی سطح پر کاروبار کے مواقع بڑھ چکے ہیں۔ مقامی لوگ کسی نہ کسی طریقے سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں تاہم اس حوالے سے جب بحیثیت صحافی آپ کسی سے بات کرتے ہیں تووہ آپ کو کسی سرکاری ادارے کا اہلکار سمجھ کر خاموشی اختیار کر لیتا ہے اور یہی مشورہ دیتا ہے کہ یہ کام غیر قانونی طور پر ہو رہا ہے اور ’بڑے لوگ‘ اس میں ملوث ہیں۔ مشینری کرائے پر لے کر دریا سے سونا نکالنے کا کام اختر جان (فرضی نام) پچھلے چھ ماہ سے بھاری مشینری کو کرائے پر لے کر دریا سے سونا نکالنے میں مصروف ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ نظام پور کے دوست نے مشورہ دیا کہ آپ کچھ پیسے لا کر دن کے حساب سے لاکھوں روپے کما سکتے ہیں اور اس وجہ سے یہی کام شروع کر دیا لیکن بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ اختر جان کے بقول انھوں نے ابتدا میں تین چھوٹی ایکسیویٹر مشینوں کو چار چار لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر لیا جبکہ کام کے لیے بیس مزدور بھی بھرتی کر لیے اور دریا کے کنارے پڑی ریت سے کام کا آغاز کیا لیکن سونے کی کم مقدار کی وجہ سے ہر ہفتے پندرہ سے بیس لاکھ روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ اُنھوں نے مزید بتایا کہ چھوٹی مشینری کی بجائے اٹھارہ اٹھارہ لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر مزید تین بڑی ایکسیویٹر مشینیں پنجاب سے منگوائی گئیں جو دریا کے بیج سے ریت اُٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اس اقدام سے اُن کی آمدن میں اضافہ بھی ہوا تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید بتانے سے گریز کیا۔ سعید اللہ (فرضی نام) پہلے تعمیراتی شعبے سے وابستہ رہے ہیں لیکن آٹھ ماہ پہلے اُنھوں نے بھی چار کروڑ روپے کی بھاری مشینری خرید کر اسے ایک مقامی ٹھیکیدار کو نصف آمدن کے حساب سے سونا نکالنے کے کام کے لیے اُن کے حوالے کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ابتدائی دہ ماہ میں تو انھوں نے کچھ نہیں کمایا اور اوپر سے پولیس نے چھاپہ مار کر ڈیڑھ کروڑ کی مشینری بھی قبضے میں لی اور پانچ مزدوروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ بندے عدالت سے ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں تاہم مشینری اب بھی پولیس کے پاس ہے۔ اُن کے بقول اس کام کے دوران بہت سے مسائل تو ہیں جن میں حکومت کی طرف سے سخت اقدامات اور دریا میں مشینری کا ڈوبنا وغیرہ لیکن اس شعبے میں اپنی کروڑوں کی سرمایہ کاری کے بعد وہ اس کام کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ سونا نکالنے کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟ ضلع نوشہرہ میں دریائے سندھ سے غیر قانونی طور پر سونا نکالنے کی روک تھام کے لیے محکمہ معدنیات اور ضلعی انتظامیہ مشترکہ طورپر کارروائیاں کر رہے ہیں۔ خالد خٹک نے بی بی سی کو بتایا کہ نوشہرہ سے گزرنے والے دریائے سندھ اور دریائے کابل سے غیر قانونی طور پر سونا نکالنے کا کام کافی پرانا ہے لیکن سنہ 2022 میں بھاری اور جدید مشینری کا استعمال شروع ہوا اور رواں سال اس میں کافی اضافہ ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ سونے کی غیر قانونی مائیننگ کی روک تھام کے لیے نظام پورمیں واقع سیمنٹ فیکٹری کے قریب پولیس اور محکمہ معدنیات کی مشترکہ چیک پوسٹ بھی قائم کر دی گئی اور محکمہ معدنیات کی درخواست پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ اُن کے بقول غیر قانونی کام میں ملوث افراد کے خلاف 858 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ اُنھوں کہا کہ اب تک 825 افراد گرفتار کیے گئے ہیں جن سے ستر لاکھ روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ 12 ایکسیویٹر، سات گاڑیا ں اور 20 موٹر سائیکلوں سمیت مختلف قسم کے آلات بھی قبضے میں لیے گئے ہیں۔ حکومت کی کارروائیوں کے باوجود بھی دریا سے سونا نکالنے کا کام کم ہونے کی بجائے اس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ خالد خٹک کا کہنا ہے کہ اس غیر قانونی دھندے کی روک تھام کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کی جاتی ہیں تاہم اس میں بنیادی ذمہ داری محکمہ معدنیات کی ہے کہ وہ اسے لیز یا آکشن کرانے کے لیے اقدامات کریں تاکہ قومی خزانے کو ہونے والے نقصان کی روک تھام ہو سکے۔ ڈپٹی کمشنر خالد خٹک نے کہا کہ جہاں پر سونا نکالا جا رہا ہے وہ نوشہر کے صدرمقام سے کافی دور ہے جبکہ دوسری جانب بہت بڑے علاقے میں یہ سرگرمیاں ہوتی ہیں، جہاں پر پہنچنا مشکل ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جب تک اس کے لیے متعلقہ ادارے اسے قانونی طور پر نکالنے کے لیے کارروائی نہیں کرتے تو یہ غیر قانونی عمل جاری رہے گا۔ اس حوالے سے صوبائی محکمہ معدنیات کے ڈائریکٹرجنرل کا موقف جانے کے لیے رابطے

خیبرپختونخوا کا وہ علاقہ جہاں غیر قانونی طور پر پانی سے سونا نکالنے کا کام کیا جاتا ہے Read More »