Disease

Diseae is Spreading in China

چین میں پھیلنے والی بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے نہ یہ نئی وبا ہے، عالمی ادارہ صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین میں پھیلنے والی نمونیا طرز کی نئی بیماری سے متعلق ایک بار پھر وضاحت کی ہے کہ اس کا پھیلاؤ اتنا زیادہ نہیں ہے، جتنا کورونا سے قبل ایسی بیماریوں کا پھیلاؤ چین میں ہوتا تھا۔ ساتھ ہی عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اب تک کی سامنے آنے والی معلومات کے مطابق اس بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے نہ یہ کسی نئی وبا کی طرح ہے۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق وبائی امراض سے متعلق عالمی ادارے کی ڈائریکٹر ماریا وین کا کہنا تھا کہ نئی بیماری سے زیادہ تر ایسے بچے متاثر ہو رہے ہیں، جنہوں نے کورونا کی پابندیوں کے دوران خود کو انتہائی محدود کردیا تھا۔ ادارے کے مطابق چین میں ایسی ہی بیماریاں کورونا سے قبل زیادہ پیمانے پر پھیلتی دکھائی دیتی تھیں جب کہ ایسی ہی بیماریاں دیگر ممالک میں بھی ہر دو یا تین سال بعد پھیلتی دکھائی دیتی ہیں لیکن مذکورہ بیماری نئی وبا کی طرح نہیں ہے۔ عالمی ادارے صحت کا کہنا تھا کہ کورونا سے قبل بھی چین میں ایسی بیماریاں پھیلی تھیں اور ان کا پھیلاؤ حالیہ بیماری سے زیادہ تھا۔ رپورٹ میں چینی اور عالمی ادارہ صحت کے حکام کے گزشتہ چند دن میں سامنے آنے والے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چین میں پھیلنے والی نئی بیماری کا پھیلاؤ اتنا زیادہ متعدی نہیں۔ خیال رہے کہ چین میں اکتوبر کے اختتام سے نمونیا سے ملتی جلتی پراسرار بیماری کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور ابتدائی طور پر اس سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ تاہم چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے رواں ماہ 13 نومبر کو مذکورہ پراسرار بیماری کو سانس کی بیماری قرار دیتے ہوئے اس میں اضافے کی اطلاع دی تھی۔ بعد ازاں 19 نومبر کو آن لائن میڈیکل کمیونٹی پروگرام فار مانیٹرنگ ایمرجنگ ڈیزیزز (PRoMED) کی جانب سے شمالی چین کے علاقوں میں کئی بچوں میں نمونیا کی ایک قسم کی اطلاع دی گئی، جس متعلق بتایا گیا کہ ڈاکٹرز بیماری کی تشخیص نہیں کرسکے۔ لیکن دو روز قبل بھی عالمی ادارہ صحت نے چین میں پھیلنے والی نئی بیماری کو غیر معمولی قرار نہیں دیا تھا اور اب ادارے نے ایک بار پھر کہا ہے کہ یہ نئی وبا نہیں

چین میں پھیلنے والی بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے نہ یہ نئی وبا ہے، عالمی ادارہ صحت Read More »

’ڈسلیکسیا‘ کیا ہے؟ جس میں مولانا طارق جمیل کے بیٹے مبتلا تھے

  معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کے صاحبزادے عاصم جمیل نے 29 اور 30 اکتوبر کی درمیانی شب خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی تھی، جس کی تصدیق ان کے اہل خانہ نے بھی کی تھی۔ ابتدائی طور پر یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ نامعلوم افراد نے مولانا طارق جمیل کے صاحبزادے کو قتل کردیا لیکن اہل خانہ نے ایسی خبروں کی تردید کردی تھی۔ عاصم جمیل کے بھائی نے ویڈیو بیان میں بتایا تھا کہ ان کے بھائی ذہنی بیماری میں مبتلا تھے اور ان کا علاج جاری تھا جب کہ آخری 6 مہینے میں ان کی بیماری کی شدت بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے بھائی کی بیماری کی وضاحت نہیں کی تھی، تاہم ساتھ ہی بتایا تھا کہ ان کے بھائی بچپن سے شدید ڈپریشن کا شکار رہے تھے۔ لیکن بعد ازاں بیٹے کی نماز جنازہ اور تدفین کے وقت مولانا طارق جمیل نے ان کی بیماری اور موت پر مختصر تقریر کی اور تھی اور کہا تھا کہ وہ ان کے سب سے صالح بیٹے تھے۔ مولانا طارق جمیل نے تصدیق کی کہ ان کے بیٹے ’ڈسلیکسیا‘  کے مرض  میں مبتلا تھے اور وہ لکھ پڑھ نہیں پائے تھے، کیوں کہ انہیں حروف کی پہچان نہیں تھی۔ ان کے مطابق ان کے بیٹے نے نہ تو مذہبی تعلیم حاصل کی اور نہ ہی دنیاوی تعلیم حاصل کی لیکن وہ گھنٹوں تک ان سے باتیں کرتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ انہیں اپنا خدا کے پاس جانا ہے۔ مولانا طارق جمیل کی جانب سے بیٹے کی بیماری ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) بتائے جانے کے بعد بعض افراد پریشان بھی دکھائی دیے اور یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ مذکورہ بیماری کیا ہے؟ ہم یہاں ’ڈسلیکسیا‘ سے متعلق مختصر وضاحت پیش کر رہے ہیں۔ ’ڈسلیکسیا‘ کیا ہے؟ اس بیماری کو زیادہ تر لوگ مسئلہ سمجھتے ہیں، اسے بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا جب کہ بہت سارے لوگ اس کی علامات ہی نہیں سمجھ پاتے۔ اس بیماری کا براہ راست تعلق حروف کو پہچاننے، پڑھنے اور لکھنے میں مشکلات سے ہے اور اسے کئی سال قبل ’ورڈ بلائنڈنیس‘ یا ’ریڈنگ ڈس ایبلٹی‘ بھی کہا جاتا تھا لیکن پھر 1968 میں اس کے لیے پہلی بار ’ڈسلیکسیا‘  کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ عام طور پر اس بیماری کی علامات اس وقت سامنے آتی ہے جب بولنے کی عمر کو پہنچتا ہے اور ان کی جانب سے بول نہ پانے کو ’ڈسلیکسیا‘ کی ابتدائی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم بچوں کی جانب سے بول نہ پانے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں اور اس وقت کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ’ڈسلیکسیا    کی زیادہ تر کھل کر علامات اس وقت سامنے آتی ہیں جب بچے اسکول جانا شروع کرتے ہیں اور وہیں انہیں حروف کو پہچاننے، لکھنے اور پڑھنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات سب سے پہلے بچوں کے اساتذہ نوٹ کرتے ہیں لیکن زیادہ تر استادوں کو یہ علم نہیں کہ بچوں کی جانب سے درست انداز میں پڑھائی نہ کرپانے کی ایک وجہ ’ڈسلیکسیا‘ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں بھی لازمی نہیں کہ بچوں کو پڑھائی میں مشکلات کو ’ڈسلیکسیا‘ سے جوڑا جائے، تاہم ایسی صورت حال میں ماہر ڈاکٹرز سے رجوع کیا جانا چاہئیے۔ ’ڈسلیکسیا‘ کے درست تشخیص کے لیے ماہر امراض اطفال سمیت اعصابی اور دماغی بیماریوں کے ماہرین کے پاس جایا جاسکتا ہے۔ ’ڈسلیکسیا‘ ہونے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں بعض جینیاتی بھی ہوتی ہیں اور بعض نیورو کے مسائل بھی ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ بعض بچوں میں اس بیماری کی شدت سنگین ہو اور اس کی علامات بھی انتہائی خطرناک ہوں۔ عام طور پر ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات اتنی شدید اور خطرناک نہیں ہوتیں اور آغاز میں ہی بچوں میں ایسے مسائل سامنے آنے کے بعد ڈاکٹرز سے رجوع کرنے پر علامات ختم ہوجاتی ہیں لیکن بعض مرتبہ والدین کی جانب سے ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات کو نظر انداز کرنے سے بیماری میں شدت بھی آ سکتی ہے۔ ’ڈسلیکسیا‘  کا کوئی علاج موجود نہیں، البتہ ماہرین صحت اس کی علامات اور شدت کو دیکھتے ہوئے دیگر ادویات سے اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’ڈسلیکسیا‘ کے شکار بچوں کے ساتھ ایک اور ناانصافی یہ ہوتی ہے کہ والدین اور دیگر افراد انہیں کم عقل اور نالائق سمجھ کر پڑھ نہ پانے پر انہیں ڈانٹتے دکھائی دیتے ہیں اور ان پر غصے کا اظہار کیا جاتا ہے، جس وجہ سے ایسے بچوں میں مایوسی بڑھ سکتی ہے۔

’ڈسلیکسیا‘ کیا ہے؟ جس میں مولانا طارق جمیل کے بیٹے مبتلا تھے Read More »