Death Sentence

Indian Ex Navy Officers sentence to death by Qatar Government

بھارت نے قطر میں اپنےسابق نیوی افسروں کی سزائے موت کیخلاف اپیل دائرکردی

بھارت نے گزشتہ ماہ قطری عدالت کی جانب سے اپنی بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو دی جانے والی سرائے موت کیخلاف اپیل دائر کردی۔ انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ ہندوستانی بحریہ کے ان 8 سابق افسران تک دوسری سفارتی رسائی مل گئی ہے، جنہیں قطر ی عدالت نے 7 نومبر کو موت کی سزا سنائی تھی۔   یہ بھی پڑھیں :۔قطر میں 8 بھارتی فوجیوں کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت  ترجمان ارندم باگچی کے مطابق قطر کی عدالت کا فیصلہ رازدارانہ ہے اور اسے قانونی ٹیم کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔اور اس فیصلے کیخلاف بھارت کی جانب سے ایک اپیل دائر کی گئی ہے،اور بھارت انہیں قانونی امداد فراہم کرتا رہے گا،معاملہ بہت ہی حساس نوعیت کا ہے اس لیے اس حوالے سے قیاس آرائیوں سے مکمل گریز کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ بھارتی بحریہ کے سابق اہلکاروں پر اطالوی ساختہ جدید ترین آبدوزیں خریدنے سے متعلق قطر کے خفیہ پروگرام کی تفصیلات ایک ملک کو فراہم کرنے کا الزام ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی بحریہ کےان سابق افسران میں کمانڈر (ر) پورنیندو تیواری، کیپٹن (ر) نوتیج سنگھ گل، کمانڈر (ر) بیرندر کمار ورما، کیپٹن (ر) سوربھ وششت، کمانڈر (ر) سوگناکر پکالا، کمانڈر (ر) امیت ناگپال، کمانڈر (ر) امیت ناگپال اور سیلر راگیش شامل ہیں ۔

بھارت نے قطر میں اپنےسابق نیوی افسروں کی سزائے موت کیخلاف اپیل دائرکردی Read More »

Ghazi ilm Ud din Shaheed

غازی علم الدین شہیدؒ

لاہور: (صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی) اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آنے والی اس دنیائے فانی میں اگر کوئی سب سے قیمتی سرمایہ ہے تو وہ فقط ’’محبت ِرسول ﷺ‘‘ہی ہے، یہ ایسا خوبصورت اور انمول سرمایہ ہے کہ جسے ’’فنا‘‘ نہیں بلکہ ’’بقا‘‘ہی بقا ہے۔ بطور مسلمان ہونا، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اپنے دامن میں محبت رسول عربیﷺ کے گوہر نایاب کو سمیٹا جائے، کیونکہ اللہ کے حبیب ﷺ سے محبت ایمان کی شرط ِ اوّل ہے، رسولِ کریم ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا کہ جب تک وہ اپنے مال، اولاد، والدین اور دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرتا ہو‘‘۔ رحمت عالمﷺ کی اِس پیاری امت میں آپ ﷺ سے محبت کرنے والے اور ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے قربان ہونے والے روشن ستاروں کی طرح چمکتے دمکتے عاشقان رسولﷺ ہر دور میں ہی دنیا کے ماتھے کا جھومر رہے ہیں، اُمت مسلمہ کے یہ وہ عظیم مرد مجاہد ہوتے ہیں کہ جو ہمیشہ کیلئے امر ہوتے ہوئے حقیقی معنوں میں رب ِقدوس کی عطا کردہ زندگی با مقصد بنا جاتے ہیں۔ غازی علم دین شہیدؒ بھی انہی ستاروں میں سے ایک روشن ستارہ ہیں جنہوں نے گستاخ رسول ہندو راجپال کو جہنم واصل کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ یہ مرد ِمجاہد اور عاشق رسول 4 دسمبر 1908ء بروز جمعرات اندرون شہر لاہور میں پیدا ہوئے، آپؒ کے والد طالح محمد بڑھئی کا کام کرتے تھے، علم دینؒ ابھی ماں کی گود میں ہی تھے کہ ایک روز اُن کے دروازہ پر ایک فقیر نے دستک دی اور صدا لگائی، آپؒ کی والدہ نے آپؒ کو اٹھائے ہوئے، اس سوال کرنے والے کو حسبِ استطاعت کچھ دینے کیلئے گئیں، جب اللہ کے اُس بندے کی نظر آپؒ پر پڑی تو اللہ والے نے آپؒ کی والدہ سے کہا کہ ’’تیرا یہ بیٹا بڑے نصیب والا ہے، اللہ نے تم پر بہت بڑا احسان کیا ہے تم اس بچے کو سبز کپڑے پہنایا کرو‘‘۔ علم دین قدرے بڑے ہوئے تو آپؒ کے والد نے آپؒ کو محلہ کی ایک مسجد میں داخل کروا دیا، غازی علم دین تعلیمی سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکے اور آپ کے والد اپنے ساتھ کام پر لے جانے لگے ،زندگی کے شب و روز ہنسی خوشی بسر ہوتے رہے، جب آپؒ جوان ہوئے تو ماموں کی بیٹی سے منگنی کر دی گئی، انہی دنوں ایک ہندو پبلشر راجپال نے حضور اقدسﷺ کی شانِ مقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ناقابلِ برداشت خیالات پر مبنی کتاب شائع کی، جس کی اشاعت پر ہندوستان بھر کے مسلمان آگ بگولہ ہوتے ہوئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھے۔ اس سلسلہ میں عبدالعزیز اور اللہ بخش نے بدبخت راجپال کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو کی مگر ناکام رہے، عدالت نے حملہ کرنے کے جرم میں دونوں کو سخت سزائیں دیں، انگریزوں کی حکومت تھی، انگریز اور ہندو مسلم دشمنی کی بنا پر ایک ہی ڈگر کے مسافر تھے اور راجپال اور اس کی مکروہ کتاب کی اشاعت کے تحفظ کرنے میں پیش پیش تھے، اس کے علاوہ مولوی نور الحق مرحوم (جو اخبار ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ کے مالک تھے) نے اخبار میں راجپال کے خلاف لکھا تو اُنہیں بھی دو ماہ کی سزا کے ساتھ ایک ہزار روپیہ جرمانہ کیا گیا۔ مسلمان جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے کر رہے تھے، جلسے جلوس اور اخبارات خبروں سے بھرپور تھے،غالباً 31 مارچ یا یکم اپریل تھا کہ غازی علم دین شہیدؒ نے اپنے بڑے بھائی شیخ محمد دین کے ساتھ ایک جلسہ میں نوجوان مقرر کو سُنا، جو راجپال اور اُس کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کے دکھ کا اظہار کر رہا تھا اور مسلمانوں کو بیدار کر رہا تھا کہ جاگو مسلمانو جاگو! بد بخت راجپال واجب القتل ہے، ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں قربان کر دو‘‘۔ تقریر کے ان سنہری الفاظ نے علم دین شہیدؒ کے قلب و روح میں ایک ہلچل سی مچا دی، ان الفاظ کی گونج لئے ہوئے گھر پہنچے اور گستاخِ رسول کو قتل کرنے کا عہد کیا۔ 6 اپریل 1929ء کو انار کلی سے ایک چھری خریدی اور اُسے خوب تیز کروا کر عشرت پبلشنگ ہاؤس کے سامنے واقع دفتر پہنچے کہ راجپال بھی اپنی کار میں وہاں آ گیا، بدبخت راجپال کو دیکھتے ہی علم دینؒ کی آنکھوں میں خون اُتر آیا، راجپال کی حفاظت کے لئے حکومت نے پولیس تعینات کر رکھی تھی لیکن اس وقت راجپال کی ہر دوار یاترا سے واپسی کی اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے پولیس اہلکار حفاظت کیلئے ابھی نہیں پہنچے تھے۔ راجپال اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنی آمد کی اطلاع دینے کیلئے فون کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ عظیم مردِ مجاہد غازی علم دینؒ دفتر کے اندر داخل ہوگئے، اُس وقت راجپال کے دو ملازم کیدار ناتھ اور بھگت رام موجود تھے لیکن اُن دونوں کی موجودگی علم دین کے جذبے کے آگے بے دم ہو کر رہ گئی اور اُنؒ کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی، علم دینؒ نے چھری کے پے در پے وار کرتے ہوئے بدبخت راجپال کو جہنم واصل کر دیا، بعد میں علم دین کو گرفتار کر لیا گیا اور دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ 10 اپریل ساڑھے دس بجے مسٹر لوائسٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی، استغاثہ کی طرف سے ایشر داس کورٹ ڈی ایس پی پیش ہوا، جبکہ علم دینؒ کی طرف سے مسٹر فرخ حسین بیرسٹر اور خواجہ فیروز الدین بیرسٹر رضا کارانہ طور پر پیش ہوئے اور اُن کی معاونت کیلئے ڈاکٹر اے آر خالد نے اپنی خدمات سر انجام دیں۔ 22 مئی 1929ء کو سیشن جج لاہور نے علم دینؒ کو سزائے موت کا حکم سنایا، 15 جولائی کو غازی علم دینؒ کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی، جس کی سماعت جسٹس براڈ وے وجسٹس جانسن نے کی اور 17 جولائی کو یہ اپیل خارج کر دی گئی جس کے خلاف پریوی کونسل میں کوشش کی گئی، جو

غازی علم الدین شہیدؒ Read More »

قطر نے انڈین بحریہ کے آٹھ سابق افسران کو سزائے موت سُنا دی: ’ہم فیصلے پر شدید صدمے میں ہیں،‘ انڈیا

قطر کی ایک عدالت نے گذشتہ سال اگست میں دوحہ سے گرفتار کیے جانے والے انڈین بحریہ کے آٹھ سابق اہلکاروں کو سزائے موت سنا دی ہے مگر ان کو کن الزامات کے تحت یہ سزا سنائی گئی ہے فی الحال اس کی تفصیل جاری نہیں کی گئی ہے۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ’ہم سزائے موت کے فیصلے سے شدید صدمے میں ہیں اور عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘ انڈیا کے وزارت خارجہ نے مزید کہا ہے کہ ’اس کیس کی کارروائی کی خفیہ نوعیت کی وجہ سے اس موقع پر مزید کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہو گا۔‘ بیان کے مطابق ’ہم اس کیس کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور اس کی پیروی کر رہے ہیں۔ ہم (گرفتار افراد کے لیے) تمام قونصلر اور قانونی مدد جاری رکھیں گے۔ ہم اس فیصلے کو قطری حکام کے ساتھ بھی اٹھائیں گے۔‘ ماضی میں گرفتار کیے گئے افراد کی شناخت کمانڈر (ریٹائرڈ) پورنیندو تیواری، کیپٹن (ریٹائرڈ) نوتیج سنگھ گل، کمانڈر (ریٹائرڈ) بیرندر کمار ورما، کیپٹن (ریٹائرڈ) سوربھ وششت، کمانڈر (ریٹائرڈ) سوگناکر پکالا، کمانڈر (ریٹائرڈ) امیت ناگپال، کمانڈر (ریٹائرڈ) امیت ناگپال اور سیلر راگیش کے طور پر ظاہر کی گئی تھی۔ سزا پانے والے انڈین بحریہ کے سابق اہلکار دوحہ میں قائم ’الظاہرہ العالمی کنسلٹینسی اینڈ سروسز‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ یہ کمپنی قطر کی بحریہ کو تربیت اور ساز و سامان فراہم کرتی ہے۔ یہ کمپنی مبینہ طور پر ایک عمانی شہری کی ملکیت ہے، جو رائل عمانی فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ سکواڈرن لیڈر ہیں، انھیں بھی آٹھ انڈین افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعدازاں تفتیش کے بعد انھیں نومبر میں رہا کر دیا گیا تھا۔ کمپنی کی ویب سائٹ پر اسے قطر کی وزرات دفاع، سکیورٹی اور دوسری حکومتی ایجنسیوں کا ’مقامی بزنس پارٹنر‘ بتایا گیا ہے۔ اسے دفاعی آلات چلانے اور ان کی مرمت اور دیکھ بھال کا سپیشلسٹ بتایا گیا ہے۔ اس ویب سائٹ میں کمپنی کے اعلی اہلکاروں اور ان کے عہدے کی فہرست بھی دی گئی تھی جس میں کئی انڈین شہریوں کے نام بھی شامل تھے۔ تاہم بعدازاں یہ ویب سائیٹ انٹرنیٹ پر قابل رسائی نہیں رہی تھی۔ ان میں کچھ اہلکار اپنی انڈین بحریہ کی ملازمت کے دوران آبدوزوں کے پراجیکٹ پر کام کر چکے ہیں۔ ان سبھی اہلکاروں کو گذشتہ سال 30 اگست کو حراست میں لیا گیا تھا اور ستمبر سے یہ سبھی جیل میں ہیں۔ خبروں کے مطابق انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ گذشتہ ہفتے انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے بتایا تھا کہ اس کیس کی آخری اور ساتویں سماعت 3 اکتوبر کو ہوئی تھی لیکن انھوں نے اس ضمن میں مزید تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ نہ ہی قطر اور نہ ہی انڈیا نے اِن 8 افراد پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات کے بارے میں عوامی طور پر فی الحال کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے، تاہم انڈین میڈیا نے نامعلوم ذرائع سے خبر دی تھی کہ انڈین شہریوں پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ خبروں کی زینت اس وقت بنا تھا جب گذشتہ سال 25 اکتوبر کو ڈاکٹر میتو بھارگو نام کی ایک خاتون نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’انڈین بحریہ کے آٹھ سابق اہلکار، جنھوں نے مادر وطن کی خدمت کی ہے، گذشتہ 57 دنوں سے دوحہ میں غیر قانونی حراست/قید میں ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں حکومت اور متعلقہ حکام سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ جلد ضروری اقدامات کرے اور ان اہلکاروں کو کسی تاخیر کے بغیر قطر سے رہا کروا کر انڈیا لائے۔‘ قطر میں 70,000 سے زیادہ انڈین کام کرتے ہیں اور انڈین وزارت خارجہ کے مطابق انڈیا میں مائع قدرتی گیس کی کل سپلائی کا نصف سے زیادہ حصہ قطر سے آتا ہے۔ سال 2020-21 میں قطر کے ساتھ انڈیا کی باہمی تجارت 9.21 ارب ڈالر تھی جبکہ قطر میں 6000 سے زیادہ بڑی اور چھوٹی انڈین کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں آٹھ انڈین شہریوں، جو کہ نیوی کے سابق افسران بھی ہیں، کی گرفتاری نے اُن کے اہلخانہ کو حیران کر دیا تھا۔‘ اس سے قبل گرفتار کیے گئے کیپٹن (ر) نوتیج سنگھ گل کے بھائی نودیپ گل نے بیان دیا تھا کہ ’ہم ہاتھ جوڑ کر قطر کی حکومت اور اپنے ملک کی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کو جلد از جلد ملک واپس لانے کی اجازت دی جائے۔‘ جبکہ 64 سالہ گرفتار کمانڈر (ریٹائرڈ) پورنیندو تیواری کی بہن میتو بھارگوا نے کہا کہ ان کی 84 سالہ والدہ اس صورتحال پر بہت پریشان ہیں۔ جبکہ ایک ٹویٹ میں انڈین بحریہ کے سابق چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل (ر) ارون پرکاش نے انڈیا کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس معاملے کے پیش نظر قطر کی حکومت سے تعلقات پر نظر ثانی کرے۔

قطر نے انڈین بحریہ کے آٹھ سابق افسران کو سزائے موت سُنا دی: ’ہم فیصلے پر شدید صدمے میں ہیں،‘ انڈیا Read More »