Cricket

Shahid Khan Afridi

شاہد آفریدی کو پی سی بی میں اہم ذمہ داری ملنے کا امکان

لاہور: (دنیا نیوز) سابق کپتان شاہد خان آفریدی کی چئیرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکاء اشرف چوہدری سے اہم ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ ہیڈ کوارٹر میں چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف اور سابق کپتان شاہد آفریدی کے درمیان ہونیوالی ملاقات میں کرکٹ امور میں بہتری کے لئے بات چیت ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق کپتان شاہد آفریدی نے وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی ہدایت پر ذکاء اشرف سے ملاقات کی، شاہد آفریدی کی چند روز قبل وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات بھی ہوئی تھی ۔ ذرائع کے مطابق شاہد آفریدی کو پی سی بی میں انتہائی اہم زمداری ملنے کا امکان ہے، وزیر اعظم سے ملاقات میں شاہد آفریدی کو کرکٹ میں بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا گیا تھا۔

شاہد آفریدی کو پی سی بی میں اہم ذمہ داری ملنے کا امکان Read More »

ورلڈ کپ 2023ء: آج میزبان بھارت اور سری لنکا کے درمیان میچ پڑے گا

لاہور: (ایگنایٹ پاکستان) بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ 2023ء میں میزبان بھارت اور سری لنکا کی ٹیمیں آج آمنے سامنے آئیں گی۔ ایک روزہ کرکٹ کے عالمی ایونٹ کے 33 ویں میچ میں بھارت اور سری لنکا کی ٹیمیں پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر ڈیڑھ بجے بھارتی شہر ممبئی کے واکھنڈے کرکٹ سٹیڈیم میں اتریں گی۔ میگا ایونٹ میں دونوں ٹیموں نے اب تک 6، 6 میچز کھیلے ہیں جن میں سے بھارت نے تمام میں کامیابی حاصل کی جبکہ سری لنکا کی ٹیم صرف 2 ہی جیت پائی جبکہ 4 میں شکست کھا چکی ہے۔

ورلڈ کپ 2023ء: آج میزبان بھارت اور سری لنکا کے درمیان میچ پڑے گا Read More »

سٹیڈیئم میں ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکنے کی ویڈیو: ’پولیس اہلکار انڈیا میں سب لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتا‘

ایک سٹیڈیئم کا منظر ہے جہاں سٹینڈ میں پاکستان ٹیم کی شرٹ پہنے بیٹھا ایک نوجوان اپنے سامنے کھڑے پولیس اہلکار سے انگریزی زبان میں مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ ’میں پاکستان زندہ باد کیوں نہیں کہہ سکتا؟ بھارت ماتا کی جے ٹھیک لیکن پاکستان زندہ باد نہیں کہہ سکتے، کیوں؟‘ پولیس اہلکار بھی انگریزی میں ہی جواب دیتا ہے ’بھارت ماتا کی جے گڈ، پاکستان زندہ باد ناٹ گڈ۔‘ نوجوان کچھ غصے میں کہتا ہے کہ ’پاکستان سے آئے ہیں، پاکستان زندہ باد نہیں بولیں گے تو کیا بولیں گے بھائی؟ پاکستان کھیل رہا ہے، پاکستان زندہ باد نہیں بولوں گا تو کیا بولوں گا؟ میں ویڈیو بناتا ہوں، آپ مجھے کہو کہ میں پاکستان زندہ باد نہیں کہہ سکتا؟‘ اب پولیس والا یہ کہہ کر کہ ’آپ بیٹھ جائیں، میں اپنے افسر سے بات کرتا ہوں‘ وہاں سے نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس گفتگو پر مشتمل ویڈیو جمعے کے دن انڈیا میں کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پاکستان اور آسٹریلیا میچ کے بیچ وائرل ہوئی جس میں دعوی کیا گیا کہ بنگلورو کے ایم چناسوامی میں تعینات ایک انڈین پولیس اہلکار نے ایک پاکستانی مداح کو ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکا۔  ایگنایٹ پاکستان   اس ویڈیو کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر پایا جبکہ بنگلورو پولیس سے اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اس وجہ سے یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا اس ویڈیو میں پیش آنے والا واقعہ درست ہے اور آیا انڈین پولیس اہلکار نے کسی پاکستانی مداح کو پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرنے سے خود روکا۔ انڈین کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھی اب تک کوئی موقف سامنے نہیں آ سکا۔ تاہم یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سرحد کے دونوں اطراف سے پر خوب بحث بھی ہوئی اور لوگوں نے پولیس اہلکار کے رویے کی مذمت بھی کی۔ سوشل میڈیا پر شور: ’آئی سی سی کو تحقیقات کرنی چاہیے‘ اس ویڈیو کو شیئر کرنے والے پاکستانی صارف مومن ثاقب نے لکھا کہ ’یہ انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ بات ہے کہ میچ کے دوران لوگوں کو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے روکا جا رہا ہے۔ یہ کھیل کی روح کے منافی ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ شخص تمام انڈین شہریوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ لیکن اس کی طرف سے اس پرستار کو ایسا کرنے سے روکنے کی جو بھی وجہ بتائی گئی ہے، وہ درست نہیں ہے۔ یہ قانونا درست نہیں ہے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد لوگوں کے لیے کھیل سے لطف اندوز ہونے کا ماحول بنانا ہے۔ انھیں ہمیں اس وقت یہ احساس کرانا چاہیے کہ کرکٹ لوگوں کو ساتھ لانے کا ایک ذریعہ ہے۔اور ہر ناظر کو بین الاقوامی ٹورنامنٹ کے دوران اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کا حق ہے۔ آئی سی سی اور بی سی سی آئی کو اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہیے تاکہ ہر کوئی ورلڈ کپ کے میچوں سے لطف اندوز ہو سکے اور یہ سب کے لیے محفوظ جگہ بن سکے۔‘ پاکستانی صحافی وجاہت کاظمی نے ٹوئٹر پر لکھا: ’انڈین پولیس بنگلور سٹیڈیم میں آسٹریلیا کے خلاف میچ کے دوران پاکستانی تماشائیوں کو اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے سے روک رہی ہے، یہ انڈیا کے مزید نیچے گرنے کی سطح ہے۔‘ انڈیا میں مان امن سنگھ چنا نامی ایک صارف نے اس ویڈیو پر رد عمل دیتے ہوئے لکھا: ’کتنی احمقانہ بات ہے اور یہ سب شرمناک حد تک جا رہا ہے۔ آپ ایک پاکستانی مداح کو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے سے کیسے روک سکتے ہیں؟‘ سدھارتھ نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا: ’ذرا تصور کریں کہ اگر کسی پاکستانی سٹیڈیم میں ایک انڈین سپورٹر کو پاکستانی پولیس والے نے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے سے روکا اور اسے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے کی اجازت دی، تو کیا آپ کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی؟‘ انڈین سپورٹس جرنلسٹ وکرانت گپتا نے اس معاملے پر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہر شخص کو اپنی ٹیم کو سپورٹ کرنے کا حق ہے۔‘ ٹی ایم سی سے وابستہ ایک شخص بھرتیندو شرما نے لکھا: ’اس طرح کے واقعات کو فوری طور پر روکنا چاہیے۔ ورلڈ کپ ایک ملٹی کنٹری ٹورنامنٹ ہے جس میں اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں ہمارے ملک کے لیے شرم کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شان کی بات نہیں ہے۔ بی سی سی آئی کو سخت کارروائی کرنی چاہیے اور اس قسم کی بکواس بند کرنی چاہیے۔‘.ایک انڈین صارف نکل مہتا نے لکھا کہ ’یہ پولیس اہلکار تمام انڈین شہریوں کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا۔ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ ایک مداح کو اپنی ٹیم کے حق میں نعرے لگانے کی اجازت نہیں۔‘ چند صارفین نے پولیس اہلکار کی تعریف بھی کی اور لکھا کہ وہ اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا جبکہ بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ اس طرح کے رویے کی وجہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ انڈیا کثیر ملکی ٹورنامنٹ منعقد کرانے کے لائق جگہ نہیں ہے۔ امتیازی سلوک کے خلاف پالیسی کا سیکشن 11 کیا ہے؟ آئی سی سی اور اس کے تمام رکن ممالک کو اس سیکشن کی پاسداری کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ ایسے بینر یا اس جیسے پوسٹرر لگانا جس سے شائقین کو یہ معلوم ہو سکے کہ وہ کون سی چیزیں گراؤنڈ میں نہیں لے جا سکتے تاکہ گراؤنڈ میں داخلے سے پہلے انھیں واپس لیا جا سکے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی ایک مناسب تعداد کی سٹینڈز میں تعیناتی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مداحوں کو مانیٹر کیا جا رہا ہے، خاص طور پر حساس نوعیت کے میچز کے دوران۔ اگر کہیں کوئی غیر مناسب رویہ نظر آئے تو گراؤنڈ میں فوری اعلانات کا بندوبست کرنا بھی ضروری ہے جس کے ذریعے ایسے رویے کی مذمت کی جا سکے اور تنبیہ دی جا سکے کہ اس حوالے سے فوری کارروائی کی جائے گی۔ کسی بھی نامناسب رویے کی صورت میں تماشائی کو میچ سے نکالنے کا انتظام کرنے کا اہتمام کیا جانا

سٹیڈیئم میں ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے سے روکنے کی ویڈیو: ’پولیس اہلکار انڈیا میں سب لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتا‘ Read More »

امپائر کا وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ جس سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا

ورلڈ کپ کے گذشتہ روز کے میچ میں انڈیا نے بنگلہ دیش کے خلاف سات وکٹوں سے فتح حاصل کی۔ مگر اس دوران یہ بات زیرِ بحث رہی کہ امپائر رچرڈ کیٹلبرو کے وائیڈ نہ دینے کے فیصلے سے وراٹ کوہلی کو اپنی سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا۔ یہ اس وقت ہوا جب انڈین ٹیم دوسری اننگز میں 257 کے ہدف کا تعاقب کر رہے تھے۔ تین وکٹوں کے نقصان پر انڈیا کا سکور 255 تھا۔ انڈیا کو جیت کے لیے دو رنز درکار تھے مگر کوہلی کی سنچری میں تین رنز باقی تھے۔ بنگلہ دیشی سپنر نسیم احمد کے اوور کی پہلی گیند لیگ سائیڈ سے کیپر کے گلووز میں گئی مگر امپائر نے مسکراتے ہوئے اس پر وائیڈ کا اشارہ نہیں دیا۔ اس کے بعد کوہلی نے اوور کی تیسری گیند پر چھکا لگایا اور اپنی سنچری مکمل کر لی۔ سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے تبصرہ کیا ہے کہ کیٹلبرو کے فیصلے سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا۔ اس معاملے پر امپائر بھی تنقید کی زد میں آئے ہیں۔ کوہلی کی سنچری کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ ورلڈ کپس میں آٹھ سال بعد آنے والی کوہلی کی تیسری سنچری اور انڈیا کی یہ فتح سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہیں۔ میچ کے بعد کوہلی کے ساتھ بیٹنگ کرنے والے بلے باز کے ایل راہل نے کہا کہ وہ چاہتے تھے کوہلی سنگل نہ لیں اور اپنی سنچری مکمل کریں۔ ’وارٹ کچھ کنفیوژڈ تھے۔ انھوں نے کہا میں سنگل نہ لے کر اچھا نہیں لگوں گا۔ یہ ورلڈ کپ ہے۔ میں نہیں چاہتا یہ تاثر جائے کہ میں صرف اپنا ریکارڈ مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ پھر میں نے انھیں کہا کہ میں سنگل نہیں لوں گا۔‘ آخری اوورز میں ایسے پانچ مواقع آئے جب کوہلی اور راہل نے سنگلز نہیں لیے۔ میچ میں بہترین کھلاڑی قرار دیے جانے پر کوہلی نے مائیک پر رویندر جڈیجا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اسے آپ سے چرانے پر معذرت چاہتا ہوں۔‘ امپائر کی جانب سے وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جس پر وشال مشرا نامی صارف نے لکھا کہ ’رچرڈ کیٹلبرو کرکٹ کی تاریخ کے ایک بہترین امپائر ہیں۔‘ امپائر نے وائیڈ کیوں نہ دی؟ کوہلی کی سنچری سے قبل وائیڈ نہ دینے کے فیصلے کا ممکنہ تعلق سنہ 2022 میں ایم سی سی کے کرکٹ قواعد میں کی جانے والی تبدیلی سے ہوسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قانون بولرز کو فائدہ پہنچانے کے لیے متعارف کرایا گیا مگر شاید اس معاملے میں یہ قانون بیٹر کے فائدے میں چلا گیا۔ اس قانون میں تبدیلی سے قبل ایم سی سی لاز آف کرکٹ کی شق 22.1.1 میں وائیڈ سے متعلق فیصلہ امپائر کی ججمنٹ پر تھا۔ مارچ 2022 میں اس قانون میں معمولی تبدیلی کر کے شق 22.1.2 متعارف کرائی گئی جس کے تحت امپائر وائیڈ کا فیصلہ بیٹر کی پوزیشن کے لحاظ سے کرے گا۔ ایم سی سی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’جدید کھیل میں بیٹرز پہلے سے کہیں زیادہ بال کرائے جانے سے قبل اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ بہت ہی ناانصافی پر مبنی سمجھا جائے گا کہ اگر کسی ایسی بال کو وائیڈ قرار دیا جائے جو اس جگہ سے گزرے جہاں بلے باز پہلے کھڑا تھا۔‘ اس شق میں اس طرح تبدیلی متعارف کرائی گئی کہ اب جہاں بیٹر کھڑا ہوگا، اس سے وائیڈ کا تعین متاثر ہوگا۔ اب کوہلی کے معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ جب بولر دوڑنا شروع کرتا ہے تو کوہلی بالکل اوپن پوزیشن میں اس طرح کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ان کا فرنٹ فٹ لیگ سائیڈ کی طرف مڑ جاتا ہے اور اس وقت ان کے قریب سے بال گزرتی ہے۔ پھر جب بال وکٹ کیپر تک پہنچتی ہے تو اس دوران بھی ان کی پوزیشن میں ایک معمولی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔ اگر کوہلی اپنی جگہ پر کھڑے رہتے تو بال انھیں آ کر لگتی۔ اب ایسے میں نئے قوانین کی روشنی میں امپائر کی طرف سے اسے وائیڈ نہ قرار دینا درست فیصلہ تھا۔

امپائر کا وائیڈ نہ دینے کا فیصلہ جس سے کوہلی کو سنچری مکمل کرنے کا موقع ملا Read More »

انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں

احمد آباد کے کرکٹ سٹیڈیم میں سنیچر کو میزبان انڈیا اور اس کے روایتی حریف پاکستان ورلڈ کپ کے ایک میچ میں آمنے سامنے ہوں گے۔ اس میچ کو ٹورنامنٹ کا ’بلاک بسٹر ایونٹ‘ قرار دیا گیا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کھیل کو دیکھیں گے اور امید ہے کہ 132,000 افراد کی گنجائش والا سٹیڈیم بھی کھچا کھچ بھرا ہوگا۔ دونوں ٹیموں نے اپنے پہلے دو میچ جیت کر ٹورنامنٹ میں پراعتماد آغاز کیا ہے۔ لیکن انڈیا بمقابلہ پاکستان ایک ایسا میچ ہوتا ہے جہاں ماضی کی کارکردگی جیت کی ضامن نہیں ہوتی۔ یہ مہارت، تیاری، حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر اعصاب کی جنگ کا آخری امتحان ہوتا ہے۔ اگرچہ لاکھوں پرجوش شائقین میچ کو ایک جنگ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، مگر یہ کھلاڑیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کھیل ہی کے طور پر لیں۔ دونوں ٹیموں میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو موقعے کی مناسبت سے پرفارمنس دینے کے اہل ہیں۔ انڈیا اس مقابلے میں فیورٹ کی حیثیت سے اترے گا کیونکہ وہ ورلڈ کپ کے سات میچوں میں سے کبھی بھی کسی ایک میں بھی پاکستان سے نہیں ہارا۔ لیکن مہمانوں کے متعلق کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔  ستمبر میں ہونے والے ایشیا کپ میں دنیا کی ٹاپ ون ڈے ٹیم کے طور پر داخل ہوا تھے مگر سیمی فائنل تک پہنچنے کے بعد شکست کھا گیا۔ پر جب ان کا دن ہوتا ہے، تو پاکستان کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتا ہے۔ ان کی بیٹنگ کی صلاحیت ان کے کرشماتی کپتان بابر اعظم کے گرد گھومتی ہے، جن کے متعلق اکثر اتنی بات نہیں ہوتی جتنا کہ وہ مستحق ہیں۔ ان کا شاندار سٹروک دیکھنا کرکٹ کے شائقین کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ لیکن جو چیز انھیں خاص بناتی ہے وہ ان کی آسانی سے بیٹنگ کے گیئرز کو سوئچ کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ اپنی اننگز کو خاموشی سے آگے بڑھاتے ہیں، تقریباً ایسے جیسے وہ دوسروں کی نظروں سے چھپ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کے مخالفین کو اندازہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے، ان کا سکور 50 یا 60 تک پہنچ چکا ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی مرضی سے چوکے، چھکے مارنے لگ جاتے ہیں۔ وہ میدان میں بھی نہایت پرسکون رہتے ہیں اور پریشان نہیں ہوتے، چاہے میچ کیسا ہی چل رہا ہو۔ انڈیا کو ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں ان کی اوسط کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے، جو سنہ 2019 میں ہونے والے ورلڈ کپ کے بعد سے 70 ہے۔ اگر ان کا بلا چل گیا تو انڈیا کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ لیکن وہ انڈیا کے لیے واحد مسئلہ نہیں ہیں۔ وکٹ کیپر محمد رضوان شاندار فارم میں ہیں، انھوں نے منگل کو 131 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو سری لنکا کے 344 رنز کے ہدف کے ریکارڈ تعاقب کو یقینی بنایا۔ عبداللہ شفیق نے بھی میچ میں سنچری بنا کر بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی جگہ مضبوط کر لی ہے۔ فخر زمان اور امام الحق بھی انڈیا کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا بابر اور رضوان کے جلدی آؤٹ ہونے کی صورت میں وہ اننگز کو دوبارہ سنبھال سکتے ہیں۔ اگر انڈیا پاکستان کے ٹاپ آرڈ کو سنبھال لیتا ہے تو وہ پاکستانی مڈل آرڈر میں سمجھی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہے گا۔ لیکن اگر مہمانوں کی بیٹنگ میں کمی ہے تو ان کی بولنگ اس کو پورا کر سکتی ہے۔ پاکستان کے بولرز سری لنکا کے خلاف بہت اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے، اور ٹیم کی فیلڈنگ بھی بری رہی تھی۔ لیکن انڈیا کے خلاف میچ ایک ایسا تھیٹر ہے جہاں ہر کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی دینا چاہتا ہے۔ اور یہی وہ تحریک ہے جو ہر پاکستانی بولر چاہتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان فاسٹ بولرز بنانے کی ایک ’فیکٹری‘ ہے کیونکہ وہ مستقل طور پر ایسے فاسٹ بولرز تیار کرتا ہے جو یا تو بہت تیز ہوتے ہیں یا پھر ان میں سوئنگ کرانے کی ایسی صلاحیتیں ہیں جو تقریباً ایک آرٹ کی طرح ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کے پاس دونوں صلاحتیں ہیں۔ صحیح جگہوں پر مسلسل باؤلنگ کرنے اور بلے باز کو ریش شاٹ کھیلنے پر مجبور کرنے کی ان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ انڈیا یا تو انھیں خاموشی سے کھیلے گا یا شروع میں ہی ان پر حاوی ہونے کے لیے ان پر حملہ کرے گا۔ پاکستان کو نسیم شاہ کی کمی محسوس ہوگی کیونکہ وہ انجری کی وجہ سے باہر ہیں لیکن آفریدی کو حارث رؤف اور حسن علی کی صورت زبردست پارٹنر ملیں گے۔ ان کا سپن کا شعبہ شاداب خان اور محمد نواز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن اس بارے میں سوالات ہیں کہ کیا وہ اپنے تیز رفتار ہم منصبوں کی طرح انڈین بلے بازوں کو بھی پریشان کر سکتے ہیں۔ انڈیا کی بیٹنگ لائن اپ پاکستانی اٹیک بالخصوص سپنرز کو خاموش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کپتان روہت شرما، جنھوں نے بدھ کو افغانستان کے خلاف 63 گیندوں پر سنچری بنا کر اپنی کلاس اور تباہ کن صلاحیت کا مظاہرہ کیا، غالباً بائیں ہاتھ کے کھلاڑی ایشان کشن کے ساتھ اننگز کا آغاز کریں گے۔ لیکن ان کے باقاعدہ اوپننگ پارٹنر شبمن گل بیمار رہے تو وہ ان کی کمی ضرور محسوس کریں گے۔ گِل ٹاپ فارم میں ہیں اور ان کی کمی محسوس کی جائے گی لیکن انڈیا کے پاس ان کی جگہ لینے کے لیے کافی کھلاڑی موجود ہیں۔ روہت کو رنز بناتے دیکھتے ہوئے انڈین شائقین کو بہت خوشی ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی خوبصورت کور ڈرائیوز، گرجدار چھکوں اور بے خوف پل شاٹس سے بتایا ہے کہ وہ اچھی فارم میں ہیں۔ انڈین کپتان اکیلے ہی میچ کو پاکستان سے چھیننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک اوپنر ہیں جو جم کر کھیلتے ہیں اور میچ کے آخر تک کھیل کر اسے ختم کرنا پسند کرتے ہیں۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اس بلے باز نے سنہ 2019 میں پانچ سنچریاں بنائی تھیں، کسی بھی بلے باز

انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں Read More »

Pakstan And India two Cricket Rivals

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘

سنہ 1983 کا کرکٹ ورلڈ کپ، انڈیا کے کچھ کھلاڑیوں کے لیے سیر و تفریح کے موقع سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کرکٹر سندیپ پاٹل لکھتے ہیں کہ ’انڈیا مقابلے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ پچھلے دو کرکٹ ورلڈ کپس میں اس نے شاید ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس لیے ہم انڈیا سے روانہ ہوئے تو عملی طور پر چھٹی کے موڈ میں تھے۔ کرکٹ ہماری پہلی ترجیح نہیں تھی۔‘ مگر ہوا یہ کہ انڈیا نہ صرف سیمی فائنل میں پہنچ گیا بلکہ اس نے اپنے مقابل اور مسلسل تیسرے ورلڈ کپ کے میزبان انگلینڈ کو شکست بھی دے دی۔ انڈیا کو اب 25 جون کو لارڈز کے میدان میں فائنل میں پچھلے دو مقابلوں کے فاتح ویسٹ انڈیز کا سامنا تھا جس نے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا۔ فائنل کھیلنے کے باوجود انڈیا کو لارڈز کے دو پاس نہ ملے کرکٹ مؤرخ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ انڈیا کے سابق وزیر تعلیم سدھارتھ شنکر رے اُن دنوں نجی دورے پر انگلینڈ میں ہی موجود تھے۔ انڈیا فائنل میں پہنچا تو انھوں نے انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر این کے پی سالوے سے یہ میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ ’سالوے نے انگلش کرکٹ بورڈ (ایم سی سی) سے دو ٹکٹوں کے حصول کی درخواست کی۔ گو انڈیا فائنل کھیل رہا تھا مگر اس درخواست کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ لارڈز پر پہلا حق ایم سی سی ارکان کا ہے اور انڈین کرکٹ بورڈ کو اضافی ٹکٹ نہیں دیے جا سکتے۔‘ ’سالوے کو اس پر بہت غصہ آیا اور اس معاملے میں انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے چیئرمین ایئر چیف مارشل نور خان کی حمایت بھی مل گئی۔‘ اس پر مستزاد یہ کہ فائنل مقابلے میں ایم سی سی اراکین کے لیے گراؤنڈ میں مخصوص نشستوں میں سے آدھی خالی رہیں کیونکہ انگلینڈ کے فائنل میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ مقابلہ دیکھنے ہی نہ آئے۔ ٹکٹیں تو نہیں مل سکیں مگر کپل دیو کی قیادت میں انڈیا نے 1983کے ورلڈ کپ کا فائنل جیت لیا۔ کیوں نہ اگلے ورلڈکپ کے میزبان انڈیا اور پاکستان ہوں؟ اگلے روز لنچ پر سالوے اور نور خان پھر اکٹھے تھے۔ پیٹراوبورن پاکستانی کرکٹ کی تاریخ پر اپنی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سالوے ٹکٹیں نہ ملنے پر شدید غصے میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ کاش فائنل انڈیا میں ہوتا۔‘ نور خان فوراً بولے: ’ہم اگلا ورلڈ کپ اپنے ملکوں میں کیوں نہیں کھیل سکتے؟‘ سالوے نے فوراً نور خان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ (سالوے نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعے کو یوں ہی بیان کیا ہے۔) اوبورن لکھتے ہیں کہ ’پہلے دونوں کو اپنی اپنی حکومتوں کو قائل کرنا تھا۔ نور خان کے جنرل ضیا کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور سالوے تھے ہی (انڈیا کے وزیرِاعظم) راجیو گاندھی کی کابینہ کے وزیر۔‘ اسی سال 1983 میں نور خان نے پہلی ایشیئن کرکٹ کانفرنس کے انعقاد میں مدد کی جہاں یہ تجویز پیش کی گئی اور انڈیا، پاکستان اور سری لنکا نے جنوبی ایشیا میں ورلڈ کپ کے انعقاد کی تجویز کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ سری لنکن بورڈ کے سربراہ گامنی ڈسانائیکے نے اس شرط پر ہاں میں ہاں ملائی کہ اُن کے ملک کا اس ایونٹ میں کوئی مالیاتی حصہ نہیں ہو گا، یوں ایک طرح سے یہ انڈیا اور پاکستان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کے مشترکہ خواب کو تعبیر کریں۔ اوبورن کے مطابق ’سالوے اور نور خان نے ایشین کرکٹ کونسل بنائی۔ اس کی تشکیل میں سری لنکا نے بھی ساتھ دیا، جسے تازہ تازہ ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ ملا تھا۔ بنگلا دیش، ملائشیا اور سنگا پور دیگر بانی ارکان تھے اور سالوے اس کے پہلے صدر بنے۔ یوں عالمی کرکٹ میں ایک نئے ووٹنگ بلاک کا اضافہ ہوا۔ رسمی تجویز کا مسودہ تیار کیا گیا۔ دوسری جانب آئی سی سی نے ورلڈ کپ کی میزبانی کسی اور ملک کو دینے کی تجویز کی مخالفت میں قانونی اعتراضات کااستعمال کیا۔‘ انڈیا اور پاکستان کو اس کی توقع تھی اُس دور میں کرکٹ کا ڈھانچا بہت مختلف تھا۔ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ ’انگلش کرکٹ بورڈ کا سربراہ خود بخود آئی سی سی کا سربراہ بن جاتا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے پاس ویٹو کا اختیار تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایشیئن بلاک کی تجاویز کو ایم سی سی بغیر وضاحت کے بھی مسترد کر سکتا تھا۔‘ نور خان نے انڈیا، پاکستان جوائنٹ مینجمنٹ کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی اور این کے پی سالوے کو اس کی سربراہی کے لیے کہا جبکہ بِندرا اس کے سیکریٹری بنے۔ ’ایک غیر رسمی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر جگموہن ڈالمیا نے آئی سی سی کے لیے اپنی تجویز میں لکھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کو پوری دنیا میں گھمایا جائے اور 1987 کے بعد آسٹریلیا کو 1992 میں کپ کی میزبانی کا حق دیا جائے۔‘ اور یوں پہلی دراڑ پیدا ہوئی۔ ’آسٹریلین کرکٹ بورڈ( اے سی بی) کے چیئرمین فریڈ بینیٹ نے پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ بورڈز کو ضمانت دی کہ آسٹریلیا خفیہ رائے شماری میں اُن کی تجویز کے حق میں ووٹ دے گا۔ بینیٹ نے یقین دلایا کہ وہ اس تجویز کو ویٹو نہیں کریں گے۔‘ ’آئی سی سی میں کل ووٹ 37 تھے۔ ٹیسٹ کھیلنے والے آٹھ ممالک کے دو، دو کے حساب سے 16 ووٹ تھے اور باقی ووٹ ایسوسی ایٹ ممالک کے تھے۔ انگلینڈ آئی سی سی کے وسائل کا صرف 40 فیصد ایسوسی ایٹ ممالک کو دیتا تھا۔‘ ’آئی پی جے ایم سی نے ایسوسی ایٹ ممالک کو اس سے چار گنا ریونیو کی پیشکش کی جو انگلینڈ انھیں دے رہا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کو پانچ گنا زیادہ آمدنی کی پیشکش کی جو انگلینڈ اس وقت تک دے رہا تھا۔‘ ’نسیم حسن شاہ میز پر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر ووٹ دیا‘ آئی پی جے ایم سی نے ووٹنگ میں 16-12 سے کامیابی حاصل کی لیکن انگلینڈ نے اعتراض اٹھا دیا۔ امرت ماتھر لکھتے

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘ Read More »

ICC Mens Cricekt World Cup 2023 India

سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث

ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو گیا ہے اور لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ میچ دیکھنے والوں کی بھیڑ کہاں ہے؟ پہلا میچ گذشتہ ورلڈ کپ کی فاتح انگلینڈ اور رنر اپ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان انڈیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں جمعرات کو کھیلا گیا لیکن اکثریت میں لوگوں کے بجائے خالی سیٹیں ہی نظر آئیں۔ یہی حال جمعے کی شام پاکستان اور نیدر لینڈز کے درمیان حیدرآباد میں کھیلے جانے والے دوسرے میچ کا تھا جہاں زیادہ تر نشستیں خالی تھیں۔ بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا میں اس سے زیادہ بھیڑ تو آئی پی ایل کے میچز دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو جاتی ہے۔ تو کیا بی سی سی آئی لوگوں کو سٹیڈیم لانے میں ناکام رہی ہے؟ گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی نے ٹوئٹر پر احمد آباد میں جمعرات کو ہونے والے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں خالی سٹیڈیم کو ‘فیاسکو’ یا رسوائی قرار دیا اور بی سی سی آئی کی ٹکٹنگ کے عمل میں مبینہ شفافیت کی کمی پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ‘جب ‘بُک مائی شو’ (پلیٹ فارم) پر ٹکٹ کی فراہمی شروع ہوئی تو چند منٹوں میں ہی سارے ٹکٹ فروخت ہو گئے۔ تو پھر ایسا کیونکر ہوا کہ اتنے کم لوگ میچ دیکھنے کے لیے پہنچے؟’ ان رپورٹوں کی بنیاد پر جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ‘خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کا جشن منانے کے لیے’ بی جے پی کی جانب سے خواتین کو 40,000 ٹکٹ مفت پیش کیے گئے، مسٹر میوانی نے کہا کہ ٹکٹوں کی فروخت ستمبر کے پہلے ہفتے تک ختم ہو چکی تھی جبکہ بل آخری ہفتے میں منظور ہوا ‘تو پھر عورتوں کے لیے یہ اضافی ٹکٹ کہاں سے آئے؟’ کانگریس کے ایم ایل اے نے مزید سوال کیا کہ ‘کیا بی سی سی آئی اس طرح سے کسی ایک سیاسی پارٹی کو ٹکٹ دے سکتی ہے؟’ مسٹر میوانی نے خالی سٹیڈیم کی ایک ویڈیو اور دو تصویریں ڈال کر لکھا: ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسا گٹھ جوڑ چل رہا ہے جس نے کرکٹ کے شائقین کو طویل عرصے سے اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ ٹکٹنگ کے عمل میں کوئی شفافیت نہیں ہے جس کی وجہ سے لاتعداد شائقین مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔’ بہر حال بہت سے کرکٹرز اور صارفین نے سٹیڈیم کے خالی ہونے کی توجیہ بھی پیش کی ہے۔ سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر عرفان پٹھان نے ٹویٹ کیا کہ ’جو لوگ خالی سٹیڈیم کا رونا رو رہے ہیں وہ محروم ہو گئے ہیں، اس لیے بیکار کی ٹویٹس کر رہے ہیں۔ ورلڈ کپ انڈیا میں ہو رہا ہے اور دنیا کے بہترین سٹیڈیموں میں سے ایک میں۔ اس گھڑی کا مزا لیں اور انھیں رونے دیں۔’ جبکہ سابق انڈین اوپنر ویریندر سہواگ نے کہا ہے کہ جن میچز میں انڈیا نہ کھیل رہا ہو سکول کے طلبہ کو مفت ٹکٹ فراہم کیا جائے۔ انھوں نے لکھا کہ ’50 اوورز کے گیم میں لوگوں کی کم ہوتی دلچسپی کے مد نظر نوجوانوں کو ورلڈ کپ دیکھنے کا تجربہ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ کھلاڑی بھی بھرے ہوئے سٹیڈیم میں کھیلنے کا احساس کر سکیں۔’ پہلا میچ احمدآباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ اس سٹیڈیم میں ایک لاکھ 32 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے لیکن سوشل میڈیا پر جو حتمی تعداد پیش کی گئی ہے اس اعتبار سے بھی سٹیڈیم خالی ہی تھا۔ ریڈف کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال آئی پی ایل کے فائنل میں وہاں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی موجود تھے جبکہ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں 50 ہزار سے بھی کم تماشائی وہاں پہنچے اور اس طرح سٹیڈیم ہر وقت خالی خالی سا نظر آیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے 5 اکتوبر ہفتے کا وسط (ویک ڈے) تھا، اس لیے بھیڑ نہ پہنچ سکی تو کچھ لوگوں کے خیال میں میزبان ملک انڈیا کے نہ کھیلنے کی وجہ سے پہلے میچ میں تماشائی کم تھے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے مطابق اگر یہ میچ احمد آباد کے بجائے ممبئی کے وانکھیڑے میں کھیلا جاتا تو ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ کو بھی ناقص انتظام کے لیے نشانہ بنا رہے ہیں۔ میچ کے درمیان سینیئر صحافی پنیہ پرسون واجپئی نے لکھا: ‘کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو چکا ہے، سٹیڈیم خالی ہے۔۔۔ یہ کسی چھوٹے شہر میں ہوتا تو بہتر ہوتا۔۔۔’ انگلینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ڈینیئل ویٹ نے بھی ٹویٹ کیا کہ ‘بھیڑ کہاں ہے؟’ اس پر انڈین خاتون کرکٹر جمائمہ روڈریگس نے لکھا کہ ’انڈیا بمقابلہ پاکستان میچ کا انتظار کر رہی ہوں‘۔ انڈیا میں ورلڈ کپ اور واحد پاکستانی مداح انڈین صحافی سوہاسنی حیدر نے لکھا کہ ‘پاکستان میڈیا اور مداح ابھی تک ورلڈ کپ کے لیے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ 60 صحافیوں نے ویزے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ اس کے جواب میں کولسا نامی ایک صارف لکھتے ہیں کہ ‘اور ہم اولمپکس کا انعقاد کرنا چاہتے؟ کم از کم گجرات میں تو نہیں۔’ وقاص علی نامی ایک صارف نے لکھا: ‘ورلڈ کا بدترین آغاز۔ پہلے تو انڈیا نے پاکستانی فینز کا ویزا مسترد کر دیا، جس کا نتیہ خالی سٹیڈیمز ہیں اور اس پر بھی ڈیجیٹل سکور بورڈ بھی ٹوٹ گيا۔’ بابر اعظم نام کے ایک صارف نے لکھا کہ حیدرآباد کا سٹیڈیم اس لیے خالی رہا کہ پاکستانی مداحوں کو ویزا نہیں دیا گيا۔ یہ سب سے خراب ورلڈ کپ رہا ہے اب تک۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ سے ورلڈ کپ دیکھنے آنے والے پاکستانی مداح ’چچا کرکٹ‘ محمد بشیر کا کہنا ہے کہ وہ پورے سٹیڈیم میں اکیلے پاکستانی مداح ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود ‘میرا جوش خروش اور آواز سو ڈیڑھ سو لوگوں کے برابر ہے۔’ شکاگو میں مقیم 67 سالہ محمد بشیر نے پاکستان کا قومی پرچم اٹھا رکھا تھا اور پاکستانی ٹیم کی جرسی بھی پہن رکھی تھی۔ سٹیڈیم میں یا اس کے باہر لوگ ان کے ساتھ اگر سیلفی لیتے نظر آ رہے ہیں

سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث Read More »

ICC Mens Cricekt World Cup 2023 India

پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘

  آج (6 اکتوبر) دن ڈیڑھ بجے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم بابر اعظم کی کپتانی میں انڈیا کے شہر حیدر آباد کے راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کرکٹ ورلڈ کا پہلا میچ کھیلنے کے لیے اُترے گی تو شاید وہاں زیادہ تعداد میں پاکستانی شائقین موجود نہ ہوں کیونکہ انڈین حکومت نے اب تک پاکستانی شائقین کرکٹ کو ویزوں کا اجرا نہیں کیا ہے۔ شاید خود بابر اعظم کو بھی اس کا احساس ہے اور انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ پر بات کرتے ہوئے پاکستانی شائقین کو انڈیا کا ویزا نہ ملنے کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بہتر ہوتا کہ پاکستانی شائقین کو بھی انڈیا کا ویزا ملتا۔ شائقین نے ورلڈ کپ کے لیے بہت سی تیاریاں کر رکھی ہیں۔‘ انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ’آنے والے میچوں کے لیے پاکستانی شا‏ئقین کو ویزا دیا جائے گا اور پاکستانی ٹیم کو حیدرآباد میں سپورٹ ملے گی۔‘ بابر اعظم کی پہلی خواہش کے بارے میں تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن حیدرآباد میں کرکٹ شائقین سے بات کرنے کے بعد اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کی دوسری خواہش پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم حیدرآباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیدیم میں نیدر لینڈز کے خلاف آئی سی سی کے عالمی کپ کا پہلا میچ آج کھیلے گی جس کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں جہاں پاکستانی شائقین پر انڈیا کا ویزا نہ ملنے کی وجہ سے کسی حد تک مایوسی کا غلبہ ہے، وہیں دوسری جانب اس وقت حیدرآباد میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح ان کا استقبال کیا گیا، سٹیڈیم میں اسی طرح کی سپورٹ انھیں ملے گی۔‘ اس بات کا ایک ثبوت تو بنگلور سے خصوصی طور پر پاکستان اور نیدرلینڈز کا میچ دیکھنے کے لیے حیدرآباد تک کا سفر کرنے والے انڈین شہری نوید خان ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نوید خان کا کہنا تھا کہ ’یہ عالمی کپ دونوں ملکوں کے لیے محبت کا پیغام بنے گا، جس انداز میں پاکستان کی ٹیم کا استقبال کیا گیا وہ بہت خوش آئند ہے۔ یہ ٹورنامنٹ بہت اچھے ماحول میں ہو گا۔‘ ایک خاتون مہوا دتا نے کہا کہ ’پاکستان کی ٹیم سات برس بعد انڈیا آئی ہے اور ان کا بہت شاندار خیرمقدم ہوا ہے۔ میں دونوں ٹیموں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔ جو جیتا وہی سکندر۔‘ واضح رہے کہ پاکستان کی ٹیم حیدرآباد میں ایک ہفتے سے مقیم ہے اور اس دوران اُن کی میزبانی اور کھانے کے چرچے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ایک اور نوجوان وجاہت علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں پاکستانی ٹیم بہت مضبوط بن کر آئی ہے۔ شاہین آفریدی، حارث رؤف بہترین بولرز ہیں۔ بابر اعظم، رضوان، افتخار یہ سبھی ورلڈ کلاس کے بلے باز ہیں۔ نیدر لینڈز بھی اچھی ٹیم ہے۔ یہ میچ دلچسپ ہو گا۔‘ ’انڈیا کی پچز اچھی دکھائی دے رہی ہیں‘ پاکستان کی ٹیم اس میچ سے قبل دو وارم اپ میچ کھیل چکی ہے اور اب تک متعدد ٹریننگ سیشن بھی کر چکی ہے۔ دوسری جانب نیدر لینڈز کی ٹیم نے بھی خود کو انڈیا کے موسم اور حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خوب ٹریننگ کی ہے۔ بابر اعظم نے میچ سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیم کی سب سے بڑی طاقت بیٹنگ لائن ہے جو ٹاپ سے نیچے تک مضبوط ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بولنگ میں فاسٹ بالرز پاکستان کی حکمت عملی کی بنیاد ہیں، لیکن یہاں کی پچ پر سپنرز کو بھی فائدہ ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’حیدرآباد کی پچ سے ٹیم مانوس ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک میرا تجربہ ہے اور انڈیا میں ہونے والے میچز جو میں نے ٹی وی پر دیکھے ہیں ان کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کی پچز واقعی اچھی دکھائی دے رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ میچز بڑے سکور والے ہوں گے۔‘ جمعے کے میچ میں کتنا سکور ہو گا؟ یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ہے تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک دلچسپ میچ بن سکتا ہے اگرچہ پاکستان کے لیے نیدرلینڈز اتنا بڑا چیلنج نہیں سمجھی جا رہی۔ پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان یہ ایک روزہ میچز کا ساتواں مقابلہ ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان کی ٹیم نیدرلینڈز سے چھ بار کھیل چکی ہے اور ان سبھی میچوں میں پاکستان نے نیدر لینڈز کو شکست دی تھی۔ پاکستان نے گذشتہ برس نیدرلینڈز کے اپنے پہلے دورے کے دوران سیریز بھی اپنے نام کی تھی۔ آئی سی سی کے مطابق جب یہ دونوں ٹیمں جمعہ کو مد مقابل ہوں گی تو یہ تقریباً گذشتہ 11 برس میں پہلا موقع ہو گا جب یہ انڈیا کی سرزمین پر 50 اوورز کا ون ڈے میچ کھیل رہی ہوں گی۔ دونوں ہی ٹیموں نے 1987 سے حیدرآباد میں 50 اوورز کا ون ڈے انٹرنیشنل گیم نہیں کھیلا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حیدرآباد کی اسی پچ پر پاکستان کا آئندہ میچ 10 اکتوبر کو سری لنکا سے ہو گا اور اسی تناظر میں حیدرآباد میں بتایا ہوا وقت پاکستان کی ٹیم کے لیے کافی اہم ہے۔ سپورٹس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم مثبت اور پُراعتماد دکھائی دے رہی ہے اور اگر ابتدائی دو میچوں میں اسے مسسلسل کامیابی حاصل ہوتی ہے تو یہ اعتماد مزید مضبوط ہو گا۔ حیدرآباد میں پایا جانے والا جوش و خروش اور کرکٹ ورلڈ کپ کے آغاز سے جڑا شائقین کا ذوق و شوق اپنی جگہ تاہم انڈیا میں شائقین کی بڑی تعداد کو اس میچ کا شدت سے انتظار ہے جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان 14 اکتوبر کو احمدآباد میں ہو گا۔ لیکن احمدآباد میں انڈیا سے ہونے والے ٹاکرے سے قبل پاکستان کے لیے دونوں میچز جیتنا بہت اہم ہو گا۔

پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘ Read More »

HASSAN ALI PAKISTANI FAST BOWLER

پاکستانی کرکٹر حسن علی اور اہلیہ سمیعہ کے لیے ورلڈ کپ خاندانی ملاپ کا نادر موقع ہوگا۔

فاسٹ باؤلر کی اہلیہ 2019 میں دبئی میں شادی کے بعد سے ہریانہ میں اپنے گھر نہیں جا سکی ہیں۔ پاکستانی فاسٹ باؤلر حسن علی اور ہندوستانی شہری سامعہ آرزو نے 2019 میں دبئی کے اٹلانٹس دی پام میں شادی انجام پائی ۔ 6 اپریل 2021 کو کرکٹر نے اپنی بیٹی کی پیدائش کی خبر شیئر کی۔ ان کی شادی کے بعد سے، سامعہ اپنے آبائی ملک کا سفر نہیں کر سکیں تھیں۔    ۔ سمیعہ کے والد دو سالہ ہیلینا سے پہلی بار آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ملیں گے جب ہندوستان 14 اکتوبر کو احمد آباد میں پاکستان کے خلاف کھیلے گا۔     سامعہ آرزو کے والد کا کہناہے کہ میں “میں اپنے پوتے کو سنبھالنے کا انتظار نہیں کرسکتا”      ۔ ان کی اہلیہ نے 2021 میں پاکستان کا سفر کیا جب سمیعہ اپنے پہلے بچے کی توقع کر رہی تھیں۔ لیاقت احمد آباد میں اپنی بیٹی سے دوبارہ ملنے کی امید رکھتے ہیں۔   دادا پاکستان کے اسکواڈ کے اعلان تک خوف اور امید میں رہتے تھے۔ حسن علی کا نام ابتدائی فہرست میں شامل نہیں تھا جب پہلی بار اس کا اعلان کیا گیا تھا جب تک کہ ٹیم کے ساتھی نسیم شاہ ایشیا کپ کے دوران انجری کا شکار نہیں ہو گئے تھے۔ علی کو بعد میں آخری لمحات میں متبادل کے طور پر منتخب کیا گیا۔ چاندنی گاؤں میں رہنے والے لیاقت نے اس وقت سکون کی سانس لی جب پاکستانی ٹیم کو آخری لمحات میں سفری ویزا دیا گیا۔ ٹورنامنٹ کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے گیم کے دوران طویل انتظار کے بعد خاندان کا دوبارہ ملاپ آخرکار ہوگا۔ انڈین ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے لیاقت نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی، داماد اور پوتی کو چاندنی میں اپنے گھر پر دیکھنے کی امید رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان بہتر سیاسی تعلقات کی امید رکھتے ہیں۔ کرکٹ کے شوقین، لیاقت کوچ راہول ڈریوڈ کو ‘تعزیت’ دینا چاہتے ہیں اور اپنے پسندیدہ کھلاڑی ویرات کوہلی کے ساتھ ایک تصویر لینا چاہتے ہیں اور کہا کہ وہ اپنے داماد سے درخواست کریں گے کہ وہ اس کی مدد کریں۔

پاکستانی کرکٹر حسن علی اور اہلیہ سمیعہ کے لیے ورلڈ کپ خاندانی ملاپ کا نادر موقع ہوگا۔ Read More »

اینڈریو فلنٹوف کی حادثے کے بعد گراونڈ میں واپسی

  انگلینڈ کے سابق کرکٹر اینڈریو ‘فریڈی’ فلنٹوف نے ٹاپ گیئر کے سیٹ پر ایک حادثے کے بعد نو ماہ بعد اپنی پہلی عوامی نمائش کی ہے جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے تھے۔ 45 سالہ بلیک کیپس کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل کے دوران  انگلینڈ کی ٹیم کے ساتھ  رات کو  دیکھے گئے۔ اینڈریو  فلنٹوف  نے انگلش کھلاڑیوں کے ساتھ فیلڈنگ ڈرلز کی قیادت کی اور نیوزی لینڈ کی اننگز کے دوران انگلینڈ کی بالکونی میں اس کی ناک پر چہرے کے داغ اور ٹیپ کے ساتھ دیکھا گیا۔ سرے میں ٹاپ گیئر ٹیسٹ ٹریک پر 13 دسمبر کو ہونے والے حادثے میں فلنٹاف کو چہرے پر زخموں اور پسلیاں ٹوٹنے کے ساتھ ہسپتال لے جایا گیا۔ حادثے کے وقت وہ 210 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اوپن ٹاپ تھری وہیل مورگن سپر 3 چلا رے تھے۔

اینڈریو فلنٹوف کی حادثے کے بعد گراونڈ میں واپسی Read More »