Cancer

Frank Caprio the American Judge a victim of Cancer

دنیا کے سب سے زیادہ رحم دل کہے جانےوالے جج فرینک کیپریو سرطان کا شکار ہوگئے

دنیا کے سب سے زیادہ رحم دل کہے جانے والے امریکی جج فرینک کیپریو سرطان کا شکار ہوگئے۔ عالمی میڈیا میں  شائع ہونےو الی رپورٹوں کے  مطابق امریکی ریاست رہوڈ آئی لینڈ کے دارالحکومت پروویڈینس کی میونسپل کورٹ سے رواں برس جنوری  میں چیف جج کے طور پر ریٹائر ہونے والے فرینک کیپریو لبلبے کے سرطان کا شکار ہوگئے ہیں۔ 87 سالہ جج نے انسٹاگرام پر جاری کی گئی  جذباتی ویڈیو میں اپنی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے  لوگوں سے اپنی صحت یابی کے لیے  دعاؤں کی اپیل کی ہے۔ فرینک کیپریو نے اپنی ویڈیو میں بتایا کہ اس مرض کا انکشاف ان کی سالگرہ ( 24 نومبر ) کے قریب  ہوا چنانچہ اس بار یہ سالگرہ ان کے لیے ماضی سے  بہت مختلف ہے۔ سابق چیف جج  کے مطابق بوسٹن کے ڈانا فاربر کینسر انسٹی  ٹیوٹ اور روڈ آئی لینڈ کی میڈیکل ٹیم ان کا علاج کررہی ہےا ور وہ اس موذی مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ فرینک کیپریو 1985 سے جنوری 2023 تک پروویڈینس کی میونسپل  کورٹ کے جج اور پھر چیف  جج رہے۔ ان کی عدالت میں ٹریفک، پارکنگ وغیرہ جیسے مسائل سے متعلق مقدمات سنے جاتے تھے۔ ان مقدمات کے دوران  فرینک کیپریو دل چسپ ریمارکس اور رولنگز دیتے تھے۔ ان کا رویہ ہمدردانہ ہوتا تھا جس کی وجہ سے وہ مقبول ہوتے چلے گئے، اور پھر ان کی عدالتی کارروائی پر مبنی ایک ٹیلی ویژن شو کا آغاز ہوا جس کا ٹائٹل ’ کاٹ ان پروویڈنس‘ تھا۔ اس شو میں عدالتی کارروائی دکھائی جاتی تھی۔ بتدریج یہ ٹیلی ویـژن سیریز مقبول ہوتی چلی گئی اور چیف جج فرینک کیپریو اپنے ریمارکس اور ملزمان کے ساتھ ہمدردانہ رویے کی وجہ سے عوام الناس کے دلوں میں گھر  کرتے چلے گئے۔ فرینک کیپریو کے ہمدردانہ رویے کی وجہ سے انہیں دنیا کا سب سے زیادہ رحم دل جج کہا جانے لگا۔ فرینک کیپریو نے کئی اعزازات بھی حاصل کیے۔ ستمبر 2023 میں انہیں متحدہ عرب امارات میں منعقدہ  دسویں  شارجہ گورنمنٹ کمیونی کیشن ایوارڈ میں ’ بیسٹ سوشل امپیکٹ ڈرائیور‘ کا اعزاز دیا گیا۔ ریٹائرڈ چیف جج نے اپنے ویڈیو پیغام میں اپنے چاہنےو الوں سے اپیل کی ہے کہ ان  کی صحت کے لیے دعا کریں۔ ان کی ویڈیو کے ردعمل میں دنیا بھر سے  مداح ان  کی جلد صحت یابی کے لیے دعائیہ کلمات پر مبنی پیغامات پوسٹ کررہے ہیں۔

دنیا کے سب سے زیادہ رحم دل کہے جانےوالے جج فرینک کیپریو سرطان کا شکار ہوگئے Read More »

Opium Factory in Lahore

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ چینی حکومتی اکابرین کو لگا کہ ’اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو نہ تو چین کی فوج میں لڑنے کے لیے کوئی سپاہی بچے گا نہ فوج کو ہتھیار مہیا کرنے کے لیے پیسے۔‘ برطانیہ نے افیون تیار کرنے کے لیے ہندوستان میں بنگال اور بہار میں دو وسیع و عریض فیکٹریاں قائم کی تھیں جہاں سے افیون کی تجارت کے لیے سپلائی لی جاتی۔ چین کے ساتھ یہ تجارت بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہی۔ جب یہ تجارت بند ہوئی اور دنیا افیون اور اس کے انسانی صحت اور معاشرے پر مضر اثرات سے واقف ہونا شروع ہوئی، تو بھی ہندوستان مین بنی فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ پوست کے پودے سے ملنے والے سیاہی مائل مادے افیون کی وہ خصوصیات ہیں جن سے انیسویں صدی میں تیزی سے جدت حاصل کرتی میڈیکل سائنس آشنا ہو چکی تھی۔ برطانیہ اب ہندوستان میں قائم فیکٹریوں میں وہ افیون تیار کرنے لگا جو ادویات میں استعمال ہو رہی تھی یا جس پر مزید تحقیق کی جا رہی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں درد کو کم کرنے والی دوا ’مارفین‘ ہے۔ شاید یہ مارفین ہی ہے جس کی وجہ سے افیون کو ’دنیا کے لیے انڈیا کا تحفہ‘ بھی کہا گیا۔ مختلف بیماریوں کے خلاف اور ان کے علاج کے دوران مارفین اور افیون سے ملنے والے دیگر مرکبات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کینسر کے علاج میں اس کا خاص عمل دخل ہے۔ افیون کی اسی میڈیکل خصوصیت کے پیش نظر سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد انڈیا نے اس کے حصے میں آنے والی دونوں افیون فیکٹریوں کو بند نہیں کیا۔ پاکستان کے حصے میں ایسی کوئی فیکٹری نہیں آئی تھی۔ نہ ہی ان علاقوں میں سے کوئی پاکستان کے حصے میں آیا جہاں حکومتی سرپرستی میں افیون کے لیے پوست کاشت کی جاتی تھی۔ کیا پاکستان کو افیون کی ضرورت تھی؟ یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمی جنگِ کو ختم ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کو افیون کے مرکبات اور خاص طور پر مارفین کی ضرورت تھی۔ ’ہندوستانی افیون‘ کو دنیا میں اچھی کوالٹی کی اقسام میں شمار کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں یہ زیادہ پرانی بات نہیں تھی کہ پوست ہندوستان کی چند منافع بخش فصلوں میں شمار رہی تھی۔ اس کو تجارت کے اعتبار سے بھی ایک پیسہ کمانے والی جنس کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اگر وراثت میں پاکستان کو بھی یہ ’قیمتی افیون‘ بنانے کی فیکٹریاں ملتیں تو وہ اسے برآمد کر کے منافع کما سکتا تھا اور مقامی مانگ کو بھی پورا کر سکتا تھا۔ انڈیا نے پاکستان کو ضرورت کی افیون فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ اس لیے جلد ہی پاکستان نے اپنی ایک ایسی فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا جہاں خام افیون سے ایسے ایلکلائیڈز یا مرکبات کو الگ کیا جا سکے جو ادویات کے طور پر یا ان کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ مارفین اور کوڈین وغیرہ۔ افیون بنانے کے لیے حکومتی فیکٹری کی ضرورت کیوں؟ پاکستان کی پہلی اور واحد اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری پاکستان بننے کے آس پاس ہی لاہور میں قائم کی گئی۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ ہی کے دفتر میں اس کی عمارت تعمیر کی گئی۔ قانونی طور پر وہی اس کا نظم و نسق چلانے کا ادارہ تھا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب رضوان اکرم شیروانی نے ایگنایٹ پاکستان   سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کی اس سرکاری ’اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری‘ میں اسی طرح خام افیون سے مرکبات الگ کیے جاتے تھے جیسے تقیسم سے پہلے ہندوستان کی دیگر فیکٹریوں میں ہوتا تھا۔ تاہم سوال یہ تھا کہ اگر یہ افیون ادویات میں استعمال ہوتی ہے تو اس

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ Read More »