آئیں پل بنائیں۔

  دوسگے بھائیوں کے بڑے بڑے زرعی فارم ساتھ ساتھ واقع تھے دونوں چالیس سال سے ایک دوسرے سے اتفاق سے رہ رہے تھے اگر کسی کو اپنے کھیتوں کیلئے کسی مشینری یا کام کی زیادتی کی وجہ سے زرعی مزدوروں کی ضرورت پڑتی تو وہ بغیر پوچھے بلا ججھک ایک دوسرے کے وسائل استعمال کرتے تھے ۔ لیکن ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور کسی معمولی سی بات سے پیدا ہونے والا یہ اختلاف ایسا بڑھا کہ ان میں بول چال تک بند ہو گئی اور چند ہفتوں بعد ایک صبح ایسی بھی آ گئی کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے گالی گلوچ پر اتر آ ئے اور پھر چھوٹے بھائی نے غصے میں اپنا بلڈوزر نکالا اور شام تک اس نے دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھاڑی کھود کر اس میں دریا کا پانی چھوڑ دیا۔ اگلے ہی دن ایک ترکھان کا وہاں سے گزر ہوا تو بڑے بھائی نے اسے آواز دے کر اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے اس نے کل بلڈو زر سے میر ے اور اپنے گھروں درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھاڑی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا دو کیونکہ میں اس کا گھر تو دور کی بات ہے اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا اور دیکھو مجھے یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔ ترکھان نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سے ضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں۔موقع دیکھنے کے بعد ترکھان اور بڑا بھائی ساتھ واقع ایک بڑے قصبہ میں گئے اور تین چار متعلقہ مزدوروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گئے ترکھان نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور اپنا کام ہم پر چھوڑ دیں۔ ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔ صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ،وہ قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں ایک بہترین پل بنا ہوا تھا جہاں اسکے چھوٹے بھائی نے گہری کھاڑی کھود دی تھی۔جونہی وہ اس پل پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑا کبھی کھاڑی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتا رہا اور پھر اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری چند سیکنڈ بعد دونوں بھائی نپے تلے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے پل کے درمیان آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور پھر دونوں بھائیوں نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے ایک دوسرے کو پوری شدت سے بھینچتے ہوئے گلے لگا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے اور دور کھڑا ہوا ترکھان یہ منظر دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ بڑے بھائی کی نظر جونہی ترکھان کی طرف اٹھی جو اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا اورکہا کہ وہ کچھ دن ہمارے پاس ٹھہر جائے لیکن ترکھان یہ کہہ کر چل دیا کہ اسے ابھی اور بہت سے”پُل “ بنانے ہیں۔ برائے مہربانی کوشش کریں کہ لوگوں کے درمیان پل بنائیں دیواریں نہ بنائیں۔

آئیں پل بنائیں۔ Read More »

Rainfall in different parts of Pakistan

محکمہ موسمیات نے بارش اور برفباری کی پیش گوئی کردی

محکمہ موسمیات نے ملک چند مقامات پر ہلکی بارش اور پہاڑوں پر برف باری کی پیش گوئی کی ہے۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات پیشگوئی کی ہے کہ ملک کے بالائی اور وسطی علاقوں میں موسم سرد اور مطلع ابر آلود رہنے کیساتھ چند مقامات پر ہلکی بارش ،بوندا باندی اور بلند پہاڑوں پرہلکی برف باری کا امکان ہے جبکہ میدانی علاقوں میں شدیددھند،سموگ چھائے رہنے کا امکان ہے۔  آج ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک جبکہ بالائی علاقوں میں مطلع جزوی ابر آلود رہے گا تاہم صبح کے اوقات میں خطہ پوٹھوہار ، بالائی خیبر پختونخوا ،کشمیر اور ملحقہ پہاڑی علاقوں میں بعض مقامات پر ہلکی بارش اور پہاڑوں پر ہلکی برف باری کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب ، خیبر پختونخوا کے میدانی علاقوں اور بالائی سندھ میں شدیددھند ،سموگ چھائے رہنے کا امکان ہے۔

محکمہ موسمیات نے بارش اور برفباری کی پیش گوئی کردی Read More »

Premature Whitening of Hairs

وقت سے پہلے بال سفید ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

وقت سے پہلے بالوں کے سفید ہوجانے کی وجوہات جاننے کیلیے کیے گئے تحقیقی مطالعات میں بتایا گیا ہے کہ طرز زندگی بالخصوص سگریٹ نوشی بھی قبل از وقت بالوں کے سفید ہوجانے کی اہم وجہ ہے۔ انسان کے بال قدرتی طور پر ادھیڑ عمری میں سفید ہونے لگتے ہیں، تاہم بہت سے نوجوانوں میں بھی سفید بالوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اردن یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کی گئی تحقیق میں تمباکو نوشی اور 30 سال کی عمر سے پہلے بالوں میں سفیدی در آنے کے مابین  تعلق پایا گیا ہے۔ محققین کے مطابق تمباکو میں شامل مضر صحت کیمیکلز کی وجہ سے خلیوں اور بافتوں میں آکسیجن کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے جو بالوں کی رنگت کو برقرار رکھنے والے خلیوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں وقت سے پہلے ہی انسان کے بالوں میں سفیدی نمودار ہونے لگتی ہے۔ تمباکو نوشی کے علاوہ  کھانے پینے کی عادات بھی بالوں کے سفید ہونے میں اہم  کردار ادا کرتی ہیں۔ کچھ غذائی اجزا بالخصوص وٹامن بی 12، ڈی تھری، کیلشیئم اور معدنیات جیسے تانبا، فولاد اور زنک کی کمی کا تعلق بھی جوان العمری میں بالوں کے سفید ہوجانے کے ساتھ  پایا گیا ہے۔ مذکورہ بالا غذائی اجزا میلانن نامی مادے کی پیدائش کے عمل  کیلیے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں جو بالوں کی رنگت کا ذمے دار ہے۔ تحقیقی مطالعات میں یہ پتاچلا کہ جن افراد میں ان غذائی عناصر کی سطح کم تھی ان کے بال وقت سے پہلے سفید ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بالوں کی صحت کے لیے خوراک بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ بالوں کو صحت مند رکھنے کے لیے روزہ مرہ خوراک میں مذکورہ بالا غذائی اجزا کو شامل رکھنا بہت ضروری ہے۔ محققین کے مطابق ذہنی دباؤ بھی وقت سے پہلے بالوں کے سفید ہونے کا ایک سبب ہے۔ اس کے علاوہ نیند اور جسم میں پانی کی کمی سے بھی بال کم عمری میں اپنی سیاہ رنگت سے محروم ہوسکتے ہیں، کیونکہ نیند کا پورا نہ ہونا اور جسم میں پانی کی کمی مجموعی طور پر انسانی صحت کو متاثر کرتی ہے جس کا اثر بالوں کی صحت پر بھی پڑتا ہے۔

وقت سے پہلے بال سفید ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ Read More »

Elections and Controversies

انتخابات اور تنازعات

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) انتخابات کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو ختم کرتے ہوئے عام انتخابات کا شیڈول نا صرف جاری ہو چکا ہے بلکہ اس پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔ ملک بھر میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی وصولی شروع ہو چکی ہے جو 22 دسمبر تک جاری رہے گی، سپریم کورٹ آف پاکستان نے عام انتخابات کی راہ میں حائل تمام آئینی اور قانونی رکاوٹیں دور کر دیں۔ ماضی میں حلقہ بندیوں سے متعلق ہائیکورٹس کے فیصلے انتخابی عمل کو شدید متاثر کرتے رہے مگر اس مرتبہ عدالت عظمیٰ نے ایک اصول طے کر دیا ہے کہ انتخابی شیڈول آنے کے بعد انتخابی عمل کو ڈی ریل نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ حلقہ بندیوں سے متعلق اپیلیں انتخابات کے بعد سنی جائینگی، حلقہ بندیوں کے مسائل عام انتخابات سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، صرف یہی نہیں بلکہ انتخابی شیڈول آنے سے قبل بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے بیوروکریسی کے زیر انتظام انتخابات کرانے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو بحال کر دیا تھا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار عمیر نیازی کو توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے واضح پیغام دیا گیا کہ انتخابی عمل کو ڈی ریل کرنے والے کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف کارروائی ہو گی۔ سپریم کورٹ نے عام انتخابات کی 8 فروری 2024 کی تاریخ کو پتھر پر لکیر قرار دینے کے دعوے کو سچ کر دکھایا اور اپنے کہے کا پہرا دیا مگر وکلا کی چار بڑی تنظیمیں یعنی پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن حلقہ بندیوں اور لیول پلئنگ فیلڈ کے معاملے پر میدان کود پڑیں اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے خلاف اعلامیے جاری کر دیئے۔ چاروں وکلا تنظیموں نے سکندر سلطان راجہ کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انکی موجودگی میں شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے، تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، آبادی کے تناسب سے حلقہ بندیاں درست طریقے سے نہیں کی گئیں، جہلم ، گوجرانوالہ اور ضلع راولپنڈی سمیت کئی اضلاع کی نشستوں کی تقسیم میں عدم توازن رکھا گیا۔ آبادی کے تناسب سے موجودہ حلقہ بندیاں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھا رہی ہیں مگر پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے، ان سیاسی جماعتوں کو شاید اس بات کا ادراک ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا اس مرحلے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد کیلئے مشکلا ت پیدا کر سکتا ہے۔ ترجمان تحریک انصاف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریک انصاف انتخابات کو التوا کا شکار کرنے کی کسی بھی کوشش کا حصہ نہیں بنے گی۔ وکلا تنظیموں کے یہ الزامات کیا واقعی جائز ہیں؟ سب سے پہلے تو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو لیول پلئنگ فیلڈ مل رہی ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک پاکستان تحریک انصاف شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ اسے اپنے امیدوار کھڑے کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ نگران کابینہ میں موجودہ کئی شخصیات پر الزام لگایا جا چکا ہے کہ ان کا تعلق ن لیگ سے ہے جبکہ سابق نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے الیکشن شیڈول جاری ہونے سے چند گھنٹے قبل استعفیٰ دے کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تاکہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ لیا جا سکے، حالانکہ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت نگران کابینہ کا کوئی بھی رکن آنے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ سرفراز بگٹی کی سیاسی قسمت کا فیصلہ تو ریٹرننگ افسر یا اسکے بعد عدالتیں کرینگی جبکہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد کا معاملہ الیکشن کمیشن میں آیا، الیکشن کمیشن کئی ہفتوں بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ احد چیمہ گزشتہ کابینہ کا حصہ رہے آئندہ عام انتخابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، نگران حکومتوں میں سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والی شخصیات کی اس حد تک موجودگی پہلے نہیں دیکھی گئی۔ دوسری جانب ایگزیکٹو سے لئے گئے ریٹرننگ افسران کا معاملہ ہے، اگرچہ اب اسکے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک ایسے وقت میں حلقہ بندیوں کی تکمیل اور ریٹرننگ افسروں کی تعیناتی کی ہے کہ ان پر نظر ثانی کا نتیجہ انتخابات کے بروقت انعقاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے نا صرف ریٹرننگ افسران سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا بلکہ حلقہ بندیوں سے متعلق درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حلقوں سے متعلق اعتراضات کو الیکشن کے بعد سنا جائے گا۔ مگر یہ الیکشن کمیشن اور ایگزیکٹو سے لئے گئے ریٹرننگ افسران کا امتحان ہے کہ وہ عام انتخابات کا انعقاد ناصرف شفاف طریقے سے کرائیں بلکہ یہ شفاف نظر بھی آنے چاہئیں ورنہ زہر آلود سیاسی ماحول میں کسی بھی قسم کا منفی تاثر جلتی پر تیل کا کام کر سکتا ہے اور ایک مرتبہ پھر سیاسی عدم استحکام اور سیاسی انتشار کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ لیول پلئنگ فیلڈ سے جڑا ایک معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر چکا ہے اور تحریک انصاف سے پارٹی انتخابات سے متعلق 40 سوالات کے جوابات مانگے گئے ہیں، اگر اس کیس کے منفی اثرات تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے پر آتے ہیں تو یہ سوال بھی اٹھے گا کہ کیا دیگر سیاسی جماعتوں کے انتخابات کو جانچنے کا پیمانہ بھی یہی ہے یا نہیں۔ ان سوالات اور اعتراضات کو نظر انداز کر کے انتخابات تو ہو جائیں گے مگر 8 فروری 2024 کے بعد ملک میں سیاسی استحکام لانا شاید ایک خواب ہی رہے گا ملک جسکا اب متحمل نہیں ہو سکتا۔ 

انتخابات اور تنازعات Read More »

PTI Election Symbol is Back

تحریک انصاف ’’بلے ‘‘کے نشان سے محروم

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ’’بلے ‘‘ کا انتخابی نشان واپس لے لیا۔ تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں5رکنی بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کے حکم پر پی ٹی آئی کی انٹراپارٹی انتخابات اور انتخابی نشان ’’بلا ‘‘الاٹ کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔  الیکشن کمیشن کےرکن اکرام اللہ خان کی جانب سے تحریر کیے گئے 11صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہرسیاسی جماعت کیلئے شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے ضروری ہیں،الیکشن کمیشن کے حکم پر پی ٹی آئی نے 2 دسمبر کوانٹرا پارٹی انتخابات منعقد کرائے، الیکشن کمیشن نےپی ٹی آئی کے 10 جون 2022 کےانٹرا پارٹی انتخابات کوبھی کالعدم قراردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سرخرو کیافارن فنڈنگ کیس میں بھی ہماری8سال کی جد و جہد تھی ،اکبر ایس بابر  ای سی پی کے مطابق پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو کئی فریقین نے چیلنج کیا، اورالیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹرا پارٹی الیکشن پر سوالات اٹھائے، پولیٹیکل فنانس ونگ نے پی ٹی آئی کےچیف الیکشن کمشنرپربھی سنگین اعتراضات اٹھائے، پولیٹیکل فنانس ونگ نے سوالات پر مشتمل سوالنامہ پی ٹی آئی کو دیا،،پی ٹی آئی کےنومنتخب چیئرمین نےالیکشن کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا، جبکہ پولیٹیکل فنانس ونگ نے الیکشن ریکارڈ پر سنگین اعتراضات اٹھائے۔  ای سی پی فیصلے کے مطابق نیازاللہ نیازی کا بطور چیف الیکشن کمشنر تقرر پی ٹی آئی آئین کےآرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔عمر ایوب کو آئینی طور پر پارٹی کا سیکرٹری جنرل تعینات نہیں کیا گیا،عمر ایوب چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی کی تقرری کرنےکے مجاذ نہیں تھے،اور دستیاب ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر جمال اکبر انصاری ہیں اوران کےپی ٹی آئی چیف الیکشن کمشنرکےعہدے سےمستعفیٰ یاہٹانےکاریکارڈ نہیں۔ ’ ’ ہم فیصلہ تسلیم نہیں کرتے ‘‘ بیرسٹر گوہر کا آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی آئین کےسیکشن 9 کےمطابق چیف الیکشن کمشنرکےعہدے کی معیاد5 سال ہے،فیڈرل الیکشن کمیشن کو نیشنل کونسل دو تہائی اکثریت سے ہٹا سکتی ہے،پی ٹی آئی نےتسلیم کیاچیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلئےقانونی طریقہ کارنہیں اپنایاگیا،عمرایوب کو پارٹی کی کسی آئینی باڈی کی جانب سےسیکرٹری جنرل منتخب نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق چیف الیکشن کمشنرتقررکرنےکا 28 نومبرکانوٹیفکیشن کوئی قانون حیثیت نہیں رکھتا، تمام عہدیداران بشمول چیئرمین اپنی مدت مکمل کر چکے تھے،پی ٹی آئی آئین کےتحت پارٹی کےعہدیداروں کی مدت میں اضافہ نہیں کیاجاسکتا، لہٰذادستیاب ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر ہیں۔ پی ٹی آئی وفد کی ملاقات :لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر الیکشن کمیشن نے شکایات کا نوٹس لے لیا ای سی پی نے فیصلے میں کہا کہ عمرایوب کے بطور پارٹی سیکرٹری جنرل تقرر کاکوئی نوٹیفکیشن پیش نہیں کیاجاسکا، پی ٹی آئی آئین کےتحت پارٹی چیئرمین بھی عہدیداروں کی مدت میں اضافہ نہیں کرسکتے۔پی ٹی آئی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں ناکام رہی، تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعد م قرار دیئے جاتے ہیں اور ’’ بلے ‘‘ کا انتخابی نشان واپس لیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کی درخواست پر آج فیصلہ کرنے کا حکم  دیا تھا۔ متنازعہ انٹرپارٹی الیکشن اورانتخابی نشان کا معاملہ، پی ٹی آئی عدالت سے ریلیف لینے میں ناکام پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ اگر 22 دسمبر تک الیکشن کمیشن انتخابی نشان جاری نہیں کرے گا تو پی ٹی آئئ کے تمام امیدوار آزاد تصور ہوں گے۔ پشاور کی عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے فیصلہ جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے نوٹس کیخلاف درخواست نمٹا دی۔پشاورہائی کے جسٹس ایس ایم عتیق شاہ پرمشتمل دو رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ جاری کیا۔  سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کی لیول پلئنگ فیلڈ کی درخواست پرتحریری فیصلہ جاری دو صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کے خلاف درخواستوں پر22 دسمبر تک فیصلہ جاری کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

تحریک انصاف ’’بلے ‘‘کے نشان سے محروم Read More »

Rice straw Burning is contributing in Smog

کسان اصل مجرم نہیں۔

یہ بحث مسلسل جاری ہے کہ پنجاب میں چاول کی فصل کی باقیات کو جلانا سموگ کا بنیادی سبب ہے۔ ہر سال پالیسی سازی کے میدان میں آنے والے لوگ ساری ذمہ داری کاشتکاروں پر ڈال دیتے ہیں جس کے نتیجے میں کسانوں کو سموگ کا بنیادی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں پوری قوم کے بیمار ہونے کا الزام کسانوں پر آتا ہے۔ پالیسی سازوں کے علاوہ، شہری رہائشی بھی سموگ کے ابھرنے کی وجہ پنجاب میں چاول کے پرندے جلانے کو قرار دیتے ہیں۔ لاہور کا معاملہ بہت سنگین ہے کیونکہ اس نے مسلسل تین سال تک دنیا کے آلودہ ترین شہر کی حیثیت برقرار رکھی۔ اس سے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں کسانوں کے نقطہ نظر سے جوابی حقائق کو پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تفصیلات میں غوطہ لگانے سے پہلے، آئیے موجودہ شواہد کا جائزہ لیں۔ سموگ سے متعلق دو دستاویزی ثبوت آج تک دستیاب ہیں۔ پہلی تحقیق (فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن) نے 2018-19 میں کی تھی جس میں پورے پنجاب کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ یہ مطالعہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فصلوں کی باقیات کو جلانے سے سموگ میں صرف 20 فیصد حصہ ہوتا ہے، جب کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے، جو کہ 43 فیصد اخراج کا باعث بنتا ہے، اس کے بعد صنعت 25 فیصد اور پاور سیکٹر 12 فیصد ہے۔ لاہور پر خصوصی توجہ کے ساتھ دوسرا ثبوت 2022 میں دی اربن یونٹ کی طرف سے تیار کیا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاول کی فصل کو جلانے سے شہر میں سموگ میں صرف 4 فیصد حصہ ہوتا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ سیکٹر بنیادی مجرم کے طور پر ابھرتا ہے، جو 83 فیصد کے لیے ذمہ دار ہے۔ اخراج کی. ان نتائج سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پورے پنجاب میں اور یہاں تک کہ لاہور میں بھی اسموگ کا بنیادی حصہ زراعت کا شعبہ نہیں ہے۔ ایک اور غلط فہمی ہے جس کی اصلاح کی ضرورت ہے کہ سموگ صرف سردیوں کے مہینوں میں ہوتی ہے، خاص طور پر خریف کے آخری دو مہینوں میں جب چاول کی کٹائی ہو رہی ہوتی ہے۔ جبکہ IQAir کے تاریخی اعداد و شمار پورے سال ملک کی فضا میں ذرات کی مسلسل موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا، کس طرح اکیلے کسانوں کو ماحول میں سال بھر کے ذرات کی موجودگی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ صرف مون سون کی وجہ سے جولائی اور اگست کے مہینوں میں ہوا تھوڑی زیادہ سانس لینے کے قابل ہو جاتی ہے۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسان اس بایوماس کو کیوں جلاتے رہتے ہیں؟ بظاہر، وہ چاول کے پرندے کو اس کی سمجھی لاگت کی تاثیر اور اگلی فصل کے لیے فوری زمین کی منظوری کی وجہ سے جلاتے ہیں۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ کسانوں کو ان پٹ اور آؤٹ پٹ دونوں بازاروں میں قیمتوں میں بگاڑ کی وجہ سے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ پیداواری منڈی میں وہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ کم قیمت پر بھی اپنی فصل فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت، جب وہ آؤٹ پٹ مارکیٹ کی بگاڑ سے نمٹ رہے ہیں، انہیں اگلی فصل کے لیے زمین تیار کرنی ہوگی۔ زمین کی تیاری کے مرحلے پر وہ ان پٹ مارکیٹ کے مسائل سے نمٹتے ہیں مثال کے طور پر، کھاد کی قیمت ہمیشہ اس وقت بڑھ جاتی ہے جب انہیں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بلیک مارکیٹنگ کی مشق ان پٹ کی قیمتوں کو خطرناک حد تک اونچی سطح پر لے جاتی ہے۔ اس سے اگلی فصل کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور وہ پچھلی فصل پر کم منافع کماتے ہیں۔ اس منظر نامے میں وہ اس فوری اور لاگت سے موثر زمین کی منظوری کے طریقہ کار کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس فصل کی باقیات کو جلانے کی سماجی لاگت میں ماحولیاتی اور صحت کے اثرات کے ساتھ ساتھ بعد کی فصلوں کے لیے مٹی کے غذائی اجزاء میں کمی بھی شامل ہے، جو کاشتکاروں کے لیے وقتی فائدے کو پورا کرتی ہے۔ چاول کی فصل کی باقیات کو جلانے سے CO (کاربن مونو آکسائیڈ) پیدا ہوتا ہے جس کا اخراج میں سب سے بڑا اور براہ راست حصہ ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف SO2 (سلفر ڈائی آکسائیڈ) ایندھن کے دہن کے ذریعے خارج ہوتا ہے، جس میں سلفر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جو زمین کے انتظام کے طریقوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ لہٰذا، فصلوں کی باقیات کو جلانے سے نمٹنا ایک کثیر جہتی چیلنج ہے جو ایک جامع اور مسلسل نقطہ نظر کا تقاضا کرتا ہے۔ تکنیکی ترقی، پالیسی اصلاحات، مالی ترغیبات، اور کمیونٹی کی شمولیت کو یکجا کر کے، پائیدار زرعی طریقوں کو فروغ دیتے ہوئے اس مسئلے کو کم کرنے اور ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے امکانات ہیں۔ ابتدائی طور پر، سلفر سے پاک ایندھن کی درآمد یا مقامی ریفائننگ کو ترجیح دینا، یا جن میں سلفر کا مواد کم سے کم ہے، میکانائزڈ زرعی طریقوں سے اخراج کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔ یہ قدم زرعی مشینری کے ذریعے پیدا ہونے والی آلودگی کو روکنے کے لیے اہم ہے۔ سموگ سے نمٹنے کے لیے اگرچہ زرعی شعبے کی جانب سے کسانوں کو مستحکم ان پٹ اور آؤٹ پٹ مارکیٹ کی فراہمی سے وہ بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔ کچھ منصوبے ایسے ہیں جو ختم ہو گئے۔ مثال کے طور پر، حکومت نے تقریباً 5000 مشینیں جیسے ہیپی سیڈرز کو سبسڈی والے نرخوں پر فراہم کرنے کا اعلان کیا، لیکن آج تک تقریباً 500 مشینیں ہی تقسیم کی گئی ہیں، جس کا نتیجہ بہت کم ہے۔ لاہور میں ایک فلائی اوور کی تعمیر کے لیے مختص کیے گئے مالی وسائل سے پنجاب بھر میں چاول کی باقیات کو جلانے کے عمل سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی ہدایت کی جا سکتی تھی۔ مزید برآں، چاول کی فصلوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے مقامی طور پر تیار کردہ مشینوں کو ترغیبی فریم ورک میں شامل کرنا ان کے اثرات کو بڑھا سکتا ہے۔ چاول کے کھونٹے کے ٹکڑے کرنے والے اور خوش

کسان اصل مجرم نہیں۔ Read More »

Dawood Ibrahim Underworld Don

داؤد ابراہیم کون ہیں؟

داؤد ابراہیم قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اہلکار ابراہیم کاسکر کے گھر پیدا ہوئے لیکن اپنے مستقبل کے لیے انھوں نے قانون شکنی کا راستہ چنا اور ممبئی شہر کے جنوبی حصہ میں واقع ٹمکر سٹریٹ اور محمد علی روڈ کے ایک معمولی بھتہ خور سے جرائم پشہ دنیا کے بے تاج بادشاہ بن گئے۔ داؤد کے والد ممبئی پولیس میں ایک کانسٹیبل تھے۔ لیکن ایک فلمی کہانی کی طرح داؤد نے اپنے لیے جرائم کی دنیا کا انتخاب کیا۔ ہفتہ وار بھتے کی وصولی کے ساتھ انھوں نے منشیات کا کاروبار شروع کیا اور اپنے مخالفین کو رفتہ رفتہ راستے سے ہٹا کر وہ ممبئی کے ڈان بن گئے۔ ابتدا میں ان کا تعلق حاجی مستان اور کریم لالہ سے بھی رہا۔ اسّی کی دہائی میں جرائم کی دنیا میں حاجی مستان کا طوطی بولتا تھا اور انھوں نے داؤد ابراہیم کے سر پر ہاتھ رکھا۔ مقامی طور پر وہ اس وقت مشہور ہوئے جب ان پر ممبئی کے دو داداؤں عالم زیب اور امیرزادہ کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ اسّی کی دہائی میں ممبئی پولیس نے داؤد ابراہیم کو گرفتار کر لیا تاہم بعد میں ضمانت پر رہا ہو کر وہ دبئی فرار ہو گئے۔ مبینہ طور پر دبئی میں انھوں نے سونے کی سمگلنگ میں ہاتھ ڈالا، بالی وڈ کی فلمی صنعت میں سرمایا لگایا، اور جائیداد بنانا شروع کیا۔ اس وقت تک عام لوگ ان کے نام سے اس قدر واقف نہیں تھے۔ تاہم سال 1993 میں ممبئی میں ہونے والے بارہ دھماکوں کے بعد ان کو اس وقت شہرت ملی جب ممبئی پولیس نے الزام لگایا کہ ان دھماکوں کے پیچھے ٹائیگر میمن اور داؤد ابراہیم کا ہاتھ ہے۔ اس وقت داؤد ابراہم دبئی میں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ممبئی میں ان کے دست راست چھوٹا راجن سے ان کے تعلقات انہی دھماکوں کے بعد ختم ہوگئے تھے۔ چھوٹا راجن پر بعد میں تھائی لینڈ میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ داؤد ابراہیم کا نمبر دو ’چھوٹا شکیل‘ ہے جن کے گروہ میں ابو سالم شامل تھے۔ تاہم بعد میں ابو سالم ان سے الگ ہوگئے تھے۔ گذشتہ سال پرتگال کی پولیس نےاعلان کیا تھا کہ اس نے ابوسالم کو گرفتار کر لیا ہے۔ بھارتی پولیس کے مطابق ابو سالم بمبئی میں 1993 میں ہونے والے بم دھماکوں کے بڑے ملزم ہیں۔ ان دھماکوں میں دو سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ داؤدابراہیم کے دیگر قابل اعتماد ساتھیوں میں ان کے بھائی انیس ابراہیم بھی شامل ہیں۔ ان کے ایک اور بھائی اقبال کاسکر کو دبئی پولیس نے بھارت ڈیپورٹ کر دیا تھا جہاں وہ ممبئی جیل میں ہیں۔ ممبئی پولیس کے مطابق داؤد ابراہیم اور چھوٹا شکیل کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستانی حکام نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔

داؤد ابراہیم کون ہیں؟ Read More »

Dawood Ibrahim death speculations

دل کا دورہ، کورونا، دماغ میں رسولی اور اب زہر۔۔۔ انڈیا کو مطلوب داؤد ابراہیم دوبارہ خبروں میں کیوں

انڈیا میں سوشل میڈیا پر گذشتہ 48 گھنٹے سے داؤد ابراہیم کا نام ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے اور انھیں ’زہر دیے جانے‘ یا اُن کی ’کراچی میں موت‘ کی غیرمصدقہ خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے انڈین سوشل میڈیا اور روایتی مقامی میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو جتنے منھ اتنی باتیں کی مثال سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔ داؤد ابراہیم کے حوالے سے ان ٹرینڈز کی ابتدا دراصل دو روز قبل اس وقت ہوئی جب مقامی میڈیا پر انڈیا کو مختلف جرائم میں مطلوب انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کو زہر دینے جیسی خبروں نے گردش شروع کی۔ یہ غیرمصدقہ دعوے کیے گئے کہ زہر خورانی کے بعد داؤد کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کراچی کے ہسپتال میں ان کی موجودگی کے کسی دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی اور انڈین میڈیا میں بھی یہ بات صرف دعوؤں تک محدود ہے۔ اتوار کی شام پاکستان میں انٹرنیٹ کی جزوی معطلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور انٹرنیٹ ڈاؤن ہونے کو بھی داؤد ابراہیم کے معاملے سے جوڑ دیا گیا۔ ایک معروف انڈین صحافی نے تو یہاں تک لکھا کہ انھیں ان کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ’ابھی اُن (داؤد) کی روح پرواز نہیں کی،‘ جس پر انھیں ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ انڈر ورلڈ ڈان اور ممبئی دھماکوں میں انڈیا کو انتہائی مطلوب داؤد ابراہیم لگ بھگ گذشتہ تین دہائیوں سے انڈین میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور اتنے ہی عرصے سے وہ مفرور بھی ہیں۔ ان کے بارے میں انڈیا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں مقیم ہیں تاہم پاکستان نے ہمیشہ اس نوعیت کے الزامات اور دعوؤں کی تردید کی ہے۔ انڈین میڈیا نے ’ذرائع‘ کے حوالے سے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھیں سخت حفاظتی انتظامات کے تحت ہسپتال کے ایک فلور پر رکھا گيا ہے جہاں اُن کے علاوہ کوئی دوسرا مریض نہیں ہے اور مخصوص اہلکار اور خاندان کے انتہائی قریبی لوگوں کو ہی ان تک رسائی حاصل ہے۔ تاہم انڈین اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے داؤد ابراہیم کے مبینہ معتمد خاص چھوٹا شکیل کے حوالے سے اس خبر کی تردید شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’داؤد بھائی کی موت کی افواہ بے بنیاد ہے۔ وہ سو فیصد فٹ ہیں۔‘ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق چھوٹا شکیل نے بتایا کہ اُن کے متعلق ’شرپسندانہ مقاصد کے تحت وقتاً فوقتاً افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔‘ مہاراشٹر اسمبلی میں تین ہفتے سے داؤد ابراہیم کا ذکر گذشتہ تین ہفتے سے مہاراشٹر کی اسمبلی میں بھی داؤد ابراہیم کا نام گونج رہا ہے اور اس کی وجہ ریاستی وزیر گریش مہاجن کی سنہ 2017 کی ایک تصویر ہے جس میں وہ مبینہ طور پر داؤد ابراہیم کے خاندان کے ایک فرد کی شادی میں شریک نظر آ رہے ہیں۔ اس معاملے کو لے کر حزب اختلاف نے سوموار کو اسمبلی کے سرمائی شیشن کا بائیکاٹ کر دیا اور مطالبہ کیا کہ گریش مہاجن کو برخاست کیا جائے۔ اس سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان نتیش رانے نے بھی اسمبلی کے فلور پر اس حوالے سے دعوے کیے تھے جس کے بعد مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنوس نے اس معاملے کی چھان پھٹک کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔ دل کا دورہ، کورونا، دماغ میں رسولی اور اب زہر خورانی سے موت داؤد ابراہیم کا کسی نہ کسی حوالے سے انڈین میڈیا میں موجود رہنا کوئی نئی بات نہیں اور اُن کی موت سے متعلق دعوے تو کافی پرانے ہیں۔ سنہ 2020 میں ایسی میڈیا رپورٹس سامنے آئیں جس میں کہا گیا کہ داؤد ابراہیم اور ان کی اہلیہ کووڈ 19 کا شکار ہوئیں اور کورونا ہی کے باعث داؤد ابراہیم کی موت ہو گئی ہے۔ تاہم اس خبر کی تردید داؤد کے بھائی انیس ابراہیم نے یہ کہتے ہوئے کی اُن کی فیملی میں کسی کو بھی کووڈ نہیں ہوا ہے۔ اس سے قبل سنہ 2017 میں داؤد کو دل کا دورہ پڑنے سے موت کا شکار ہونے کی بات سامنے آئی تھی اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انھیں کراچی کے ایک ہسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں ان کی موت ہو گئی۔ سنہ 2017 میں ہی دماغ میں موجود رسولی کے باعث بھی داؤد کی موت کی خبر بھی میڈیا کی زینت بنی۔ اسی طرح اس سے ایک سال قبل سنہ 2016 میں سوشل میڈیا پر خبر گردش کرنے لگی کہ داؤد ابراہیم کو گینگرین ہوا ہے اور ہائی بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر کے نتیجے میں ان کی ٹانگوں کو خون کی فراہمی نہیں ہو پا رہی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کو شاید ان کی ٹانگیں کاٹنا پڑیں اور دعویٰ اس وقت بھی یہی تھا کہ داؤد کراچی میں زیر علاج ہیں۔ تاہم یہ سب دعوؤں تک ہی محدود رہا اور کبھی اس ضمن میں کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ داؤد ابراہیم سے متعلق معاملے کو پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار میں آنے والی کمی نے بھی ہوا دی۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اتوار کی شب ورچوئل جلسے کا انعقاد کیا تھا اور اسی دورانیے میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی سپیڈ میں تعطل آیا تھا۔ تاہم انٹرنیٹ کے اسی مسئلے کو بہت سے انڈین صارفین نے ’داؤد ابراہیم کی موت کو راز‘ رکھنے سے تعبیر کیا۔ بہت سے صارفین نے ’نامعلوم افراد کی جانب سے زہر دیے جانے‘ کی بات کہتے ہوئے میمز شیئر کی اور نامعلوم شخص کے طور انڈیا کے وزیر اعظم مودی کی ویڈیو کلپس اور تصاویر شیئر کیں جبکہ بعضے نے انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں۔ آریا سنگھ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ہر انتخاب سے پہلے پاکستان میں مقیم ڈان کے مرنے کی خبر آ جاتی ہے۔۔۔ (ماضی میں) چار بار اعلان ہو چکا ہے کہ داؤد ابراہیم مارا گيا ہے۔ پچھلی بار 2019 کے انتخابات میں مار دیا گیا تھا اب پھر 2024 کے انتخابات سے قبل۔‘ خیال رہے کہ انڈیا میں سنہ 2024 میں عام انتخابات ہونے ہیں۔

دل کا دورہ، کورونا، دماغ میں رسولی اور اب زہر۔۔۔ انڈیا کو مطلوب داؤد ابراہیم دوبارہ خبروں میں کیوں Read More »

جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے ٹک ٹاک ایپ کا استعمال حرام قرار دیدیا

  کراچی کی جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے ٹک ٹاک ایپ کا استعمال حرام قرار دے دیا۔   جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن سے جاری فتوے کے مطابق ٹک ٹاک ایپ میں ناجائز تفریح ہے، خواتین بیہودہ ویڈیو بناتی ہیں،مرد اور زن کے رقص کی ویڈیوز ہوتی ہیں،جو فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔  فتوے کے مطابق نوجوان اور بوڑھے بھی پیسہ کمانے کیلئے غلط ویڈیوز بناتے ہیں،یہ امور شرعاً ناجائز ہیں جن میں پڑنے والا گناہوں کی طرف چلا جاتا ہے،اس بنیاد پر ٹک ٹاک ایپ کا استعمال ممنوع ہے۔

جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے ٹک ٹاک ایپ کا استعمال حرام قرار دیدیا Read More »

iphone pricess

آئی فون خریدنے کے خواہشمندوں کیلئے خوشخبری، قیمتیں کم ہو گئیں

ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن نے مختلف استعمال شدہ اور تجدید شدہ موبائل فونز کے لیے کسٹم ویلیوز پر نظر ثانی کرتے ہوئے بھاری کمی کر دی ہے ،اس میں  خاص طور پر ایپل آئی فون کے 14 پلس کی مختلف ماڈلز پر توجہ دی گئی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق128 جی بی ایپل آئی فون 14 پلس کی کسٹم ویلیو کم کر کے 774 ڈالر کر دی گئی ہے جبکہ اس سے قبل یہ 910 ڈالر تھی جس میں واضح کمی لائی گئی ہے ۔ 256 جی بی آئی فون 14 پلس پر عائد ہونے والی کسٹم ویلیو کم کرتے ہوئے 859 ڈالر مقرر کر دی گئی ہے جبکہ اس سے قبل ایک ہزار 10 ڈالر وصول کی جارہی تھی، اس بھاری کمی کو صارفین کی جانب سے خوش آئند قرار دیا گیاہے ۔ 512 جی بی ایپل آئی فون 14 پلس کی کسٹم ویلیو 1210 ڈالر سے کم کرتے ہوئے ایک ہزار 29 ڈالر مقر ر کر دی گئی ہے ۔  یہ اقدام ملک میں موبائل فون کی مارکیٹ ویلیو کے ساتھ کسٹم ویلیو کو ہم آہنگ کرنے کی جاری کوششوں کے ایک حصے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ان کسٹم ویلیوز پر نظر ثانی کا فیصلہ مختلف مارکیٹوں کے باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کیا گیا تاکہ ملک میں موبائل فون ڈیوائسز کی موجودہ قیمتوں کی زیادہ درست عکاسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ توقع ہے کہ اس اقدام سے صارفین  کو فائدہ پہنچے گا ۔

آئی فون خریدنے کے خواہشمندوں کیلئے خوشخبری، قیمتیں کم ہو گئیں Read More »