Pakistan

Opium Factory in Lahore

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ چینی حکومتی اکابرین کو لگا کہ ’اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو نہ تو چین کی فوج میں لڑنے کے لیے کوئی سپاہی بچے گا نہ فوج کو ہتھیار مہیا کرنے کے لیے پیسے۔‘ برطانیہ نے افیون تیار کرنے کے لیے ہندوستان میں بنگال اور بہار میں دو وسیع و عریض فیکٹریاں قائم کی تھیں جہاں سے افیون کی تجارت کے لیے سپلائی لی جاتی۔ چین کے ساتھ یہ تجارت بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہی۔ جب یہ تجارت بند ہوئی اور دنیا افیون اور اس کے انسانی صحت اور معاشرے پر مضر اثرات سے واقف ہونا شروع ہوئی، تو بھی ہندوستان مین بنی فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ پوست کے پودے سے ملنے والے سیاہی مائل مادے افیون کی وہ خصوصیات ہیں جن سے انیسویں صدی میں تیزی سے جدت حاصل کرتی میڈیکل سائنس آشنا ہو چکی تھی۔ برطانیہ اب ہندوستان میں قائم فیکٹریوں میں وہ افیون تیار کرنے لگا جو ادویات میں استعمال ہو رہی تھی یا جس پر مزید تحقیق کی جا رہی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں درد کو کم کرنے والی دوا ’مارفین‘ ہے۔ شاید یہ مارفین ہی ہے جس کی وجہ سے افیون کو ’دنیا کے لیے انڈیا کا تحفہ‘ بھی کہا گیا۔ مختلف بیماریوں کے خلاف اور ان کے علاج کے دوران مارفین اور افیون سے ملنے والے دیگر مرکبات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کینسر کے علاج میں اس کا خاص عمل دخل ہے۔ افیون کی اسی میڈیکل خصوصیت کے پیش نظر سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد انڈیا نے اس کے حصے میں آنے والی دونوں افیون فیکٹریوں کو بند نہیں کیا۔ پاکستان کے حصے میں ایسی کوئی فیکٹری نہیں آئی تھی۔ نہ ہی ان علاقوں میں سے کوئی پاکستان کے حصے میں آیا جہاں حکومتی سرپرستی میں افیون کے لیے پوست کاشت کی جاتی تھی۔ کیا پاکستان کو افیون کی ضرورت تھی؟ یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمی جنگِ کو ختم ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کو افیون کے مرکبات اور خاص طور پر مارفین کی ضرورت تھی۔ ’ہندوستانی افیون‘ کو دنیا میں اچھی کوالٹی کی اقسام میں شمار کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں یہ زیادہ پرانی بات نہیں تھی کہ پوست ہندوستان کی چند منافع بخش فصلوں میں شمار رہی تھی۔ اس کو تجارت کے اعتبار سے بھی ایک پیسہ کمانے والی جنس کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اگر وراثت میں پاکستان کو بھی یہ ’قیمتی افیون‘ بنانے کی فیکٹریاں ملتیں تو وہ اسے برآمد کر کے منافع کما سکتا تھا اور مقامی مانگ کو بھی پورا کر سکتا تھا۔ انڈیا نے پاکستان کو ضرورت کی افیون فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ اس لیے جلد ہی پاکستان نے اپنی ایک ایسی فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا جہاں خام افیون سے ایسے ایلکلائیڈز یا مرکبات کو الگ کیا جا سکے جو ادویات کے طور پر یا ان کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ مارفین اور کوڈین وغیرہ۔ افیون بنانے کے لیے حکومتی فیکٹری کی ضرورت کیوں؟ پاکستان کی پہلی اور واحد اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری پاکستان بننے کے آس پاس ہی لاہور میں قائم کی گئی۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ ہی کے دفتر میں اس کی عمارت تعمیر کی گئی۔ قانونی طور پر وہی اس کا نظم و نسق چلانے کا ادارہ تھا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب رضوان اکرم شیروانی نے ایگنایٹ پاکستان   سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کی اس سرکاری ’اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری‘ میں اسی طرح خام افیون سے مرکبات الگ کیے جاتے تھے جیسے تقیسم سے پہلے ہندوستان کی دیگر فیکٹریوں میں ہوتا تھا۔ تاہم سوال یہ تھا کہ اگر یہ افیون ادویات میں استعمال ہوتی ہے تو اس

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ Read More »

Election Commission of Pakistan

عام انتخابات: الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز، آر اوز کی فہرست مرتب کر لی

اسلام آباد: (ایگنایٹ پاکستان ) عام انتخابات کی تیاریاں تیزی سے جاری، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈی آر اوز اور آر اوز کی فہرست مرتب کر لی۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن حکام نے بیوروکریسی کے افسران کی بطور ڈی آر او اور آر اوز تقرری کا نوٹیفکیشن تیار کر لیا، حکام نے تمام افسران سے فرداً فرداً رابطہ کر کے کنفرمیشن کے بعد فہرست تیار کی۔ الیکشن کمیشن حکام نے فہرست کمیشن کو بھجوا دی، کمیشن کی منظوری کے بعد آج نوٹیفکیشن جاری ہونے کا امکان ہے، الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز اور آر اوز کی ٹریننگ کا مجوزہ شیڈول بھی تیار کر لیا۔ ذرائع کے مطابق ڈی آر اوز کو ایک روزہ ٹریننگ صوبائی الیکشن کمیشن کے آفس میں دی جائے گی، ریٹرننگ افسران کو ڈویژنل آفس میں ٹریننگ دی جائے گی، صوبائی الیکشن کمشنرز ڈی آر اوز سے حلف لیں گے۔ ڈی آر اوز اپنے اپنے اضلاع کے آر اوز سے حلف لیں گے، تمام اضلاع کے ڈی سیز کو ڈی آر اوز اور قومی اسمبلی کے لیے آر اوز اے ڈی سی کو تعینات کیا جا رہا ہے اور اسسٹنٹ کمشنرز کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر آر اوز لگایا جا رہا ہے۔

عام انتخابات: الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز، آر اوز کی فہرست مرتب کر لی Read More »

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا امکان

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے زیراثر مقامی مارکیٹ میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت میں 5.49 ڈالر فی بیرل کی کمی دیکھنے میں آئی ہے، پٹرول کی فی بیرل قیمت 94.95 ڈالر جبکہ ڈیزل کی قیمت 5.13 ڈالر کم ہو کر 100.05 ڈالر کی سطح پر آ چکی ہے۔ آئل مارکیٹنگ کپمنیوں کے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 13 اور ڈیزل کی قیمت میں 15 روپے فی لٹر کمی کا امکان ہے۔ یاد رہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی ممکنہ نئی قیمتوں سے متعلق حتمی فیصلہ دسمبر کی 15 تاریخ کو کرے گی

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا امکان Read More »

Health Insurance

ہیلتھ انشورنس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کا فیصلہ

اسلام آباد (این این آئی)ہیلتھ انشورنس پروگرام کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کا فیصلہ کرلیا گیا۔تفصیلات کے مطابق ہیلتھ انشورنس پروگرام کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے یکم جنوری سے ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے سالانہ 4 ہزار 350 روپے کٹوتی ہوگی۔سیکرٹری خزانہ مجاہد شیردل کے مطابق ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کی منظوری ہوچکی ہے، ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے پریمیئم کی کٹوتی ہوگی، میاں بیوی کے سرکاری ملازم ہونے پر ایک کی تنخواہ کی کٹوتی ہوگی۔

ہیلتھ انشورنس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کا فیصلہ Read More »

Ahad Raza Mir and Sajal Ali parted their ways

اداکارہ ریشم نے احد رضا میر اور سجل کی شادی ختم ہونے کی تصدیق کردی

پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ ریشم نے مشہور اداکارہ سجل علی اور احد رضا میر کی شادی ختم ہونے کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان سوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ ریشم نے کسی پوڈ کاسٹ میں شریک ہوئیں،جس میں اُن سے معروف شوبز شخصیات کی شادی ختم ہونے کےحوالے سے سوال کیا گیا،جس کے جواب میں انہوں نے سجل اور احد کی شادی کا تذکرہ بھی کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ سجل انھیں بہت پسند ہیں اُن کی شادی ختم ہونے کا دکھ ہے۔ اداکارہ کا مزید کہنا تھا کہ آج کل شادیوں کی عمر صرف ڈیڑھ یا دوسال ہی ہے، انڈسٹری میں 8 سے زائد جوڑیوں کی شادیاں ٹوٹیں ہیں،جن کا مجھے بہت دکھ ہے،میں اپنے ساتھی فنکاروں سے بہت مانوس ہوں۔ خیال رہے کہ اداکارہ سجل علی اور احد رضا میر مارچ 2020 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے،انکی جوڑی شوبز انڈسٹری کی پسندیدہ جوڑیوں میں سے ایک تھی۔

اداکارہ ریشم نے احد رضا میر اور سجل کی شادی ختم ہونے کی تصدیق کردی Read More »

Bilawal Bhutto Zardari addressing the people

میاں صاحب سلیکشن نہیں، الیکشن جیت کر آؤ: بلاول بھٹو کا چیلنج

تیمر گرہ: (ایگنایٹ  پاکستان) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے نوازشریف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں صاحب سلیکشن نہیں الیکشن جیت کر آؤ۔ تیمر گرہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ رائیونڈ کا وزیراعظم چاہتا ہے مجھے چوتھی بار سلیکٹ کیا جائے، جو تین بار فیل ہوا وہ چوتھی بار کونسا تیر مارے گا، میاں صاحب انہی سے ٹکرائے جنہوں نے دو تہائی اکثریت دلائی، میاں صاحب نے ایک بار پھر حکومت دلوانے والوں سے لڑنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چوتھی باری ملی تو میاں صاحب وہی روایتی پرانی سیاست کریں گے، ہم تین بار بھگت چکے، اب چوتھی بار بھگتنا پڑے گا، میاں صاحب جن سے دو تہائی اکثریت مانگ رہے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کدھر سے دیں، اگر اکثریت ملی تو پھر نقصان آپ کا ہوگا۔ سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ زمان پارک کے وزیراعظم نے عوام سے جھوٹے وعدے کئے تھے، زمان پارک کے وزیراعظم کے دور میں انتقامی سیاست عروج پر تھی، ایک سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ الیکشن جیت کر مخالفین سے انتقام لے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ زمان پارک، رائے ونڈ والا ہمارا کوئی سیاسی مخالف نہیں، ہمارا مقابلہ مہنگائی،غربت، بے روزگاری سے ہے، وعدہ ہے بھٹو کا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ پورا کریں گے، ہم شہید محترمہ کے خواب کو پورا کریں گے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کا مزید کہنا تھا کہ عوام نے ساتھ دیا تو پیپلزپارٹی حکومت بنائے گی، پیپلزپارٹی نے ہمیشہ الیکشن کا مطالبہ کیا اور سلیکشن کے خلاف کام کیا، میاں صاحب چیلنج کرتا ہوں سلیکشن سے نہیں الیکشن لڑ کر آئیں۔

میاں صاحب سلیکشن نہیں، الیکشن جیت کر آؤ: بلاول بھٹو کا چیلنج Read More »

PAKISTAN TELECOMMUNICATION AUTHORITY evaluate the service delivery of cellular companies

موبائل فون کمپنیوں کی سروسزکا معیار جانچنے کیلئے کئے گئے سروے کی رپورٹ جاری

پی ٹی اے نے ملک کے سترہ شہروں میں موبائل فون کمپنیوں کی سروسز کا معیار جانچنے کیلئے کئے گئے سروے کی رپورٹ جاری کردی۔ ترجمان پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے مطابق سروے خیبرپختونخوا،پنجاب، سندھ اور گلگت بلتستان کے سترہ شہروں میں کرایا گیا۔ جس کے دوران ان علاقوں میں موبائل فون پر آواز، نیٹ ورک کوریج، ایس ایم ایس اور براڈ بینڈ و ڈیٹا سروسز کا معیار چیک کیا گیا۔  ترجمان کے مطابق سروے کے دوران موبائل فون آپریٹروں کی اپ لوڈنگ اور ڈاؤن لوڈنگ کی رفتار معیار کے مطابق پائی گئی۔ گزشتہ سروے کے مقابلے میں نیٹ ورک اور ویب پیج لوڈنگ کے وقت میں کافی بہتری دیکھی گئی تاہم کچھ علاقوں میں موبائل فونز پر آواز کا معیار لائسنس میں درج معیار سے کم پایا گیا۔  ترجمان پی ٹی اے کے مطابق موبائل فون آپریٹرز کو لائسنس کے معیار کے مطابق سروسز مزید بہتر بنانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

موبائل فون کمپنیوں کی سروسزکا معیار جانچنے کیلئے کئے گئے سروے کی رپورٹ جاری Read More »

Privatization of National Institutions

سرکاری اداروں کی نجکاری کے پیچھے کیا ایجنڈا ہے؟

گران حکومت اور وزیر نجکاری فواد حسن فواد کچھ سرکاری اداروں خصوصاً پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کر رہے ہیں۔ فواد صاحب ایک قابل بیوروکریٹ ہیں جنہیں ہماری سیاست میں ایک جانب کی طرف سے بہت ستایا گیا جبکہ دوسری جانب نے انہیں بھلا دیا۔ پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کرنے والے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے وزیر نجکاری اور نگران حکومت کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے۔ ان کا کیا ایجنڈا ہو سکتا ہے؟ آئیے کچھ اعداد و شمار کا جائزہ لیں۔ پاکستان میں پانچ ایئرلائنز ہیں جن میں سے چار نجی ہیں۔ سبھی ایک جیسا ہی کرایہ لیتے ہیں اور ایک ہی سطح کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ اس کے باوجود چار نجی ایئر لائنز تو پیسہ کماتی ہیں اور ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن دوسری جانب پی آئی اے کو گزشتہ سال 172 ارب روپے کی فروخت پر 88 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ 51 فیصد نقصان ہے اور یہ نقصان کا وہ تناسب جسے پورا کرنا مشکل ہے چاہے کوئی کتنی ہی کوشش کرلے۔ اس سے ایک سال قبل پی آئی اے کو 50 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا اور اس سے بھی ایک سال قبل 35 ارب روپے کا۔ پی آئی اے کا اب تک کا مجموعی خسارہ 717 ارب روپے ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت 900 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ 900 ارب روپے کی یہ رقم 15 آغا خان یونیورسٹی اسپتالوں، 60 لمس یونیورسٹیوں یا پورے پاکستان میں 18 ہزار اسکولوں کی تعمیر کے لیے کافی ہے۔ اس کے بجائے، ہم نے خسارے میں چلنے والے ادارے کو جاری رکھنے کا انتخاب کیا ہے جو 8 ہزار ملازمین کو نوکریاں دیتا ہے، کبھی بھی سول ایوی ایشن کے واجبات ادا نہیں کرتا اور پی ایس او کو ایندھن کی ادائیگی میں بھی ہچکچاتا ہے۔ پی آئی اے نے تمام حکومتوں اور بورڈز کے ماتحت اور ہر ایک بحالی اسکیم کے بعد خسارہ کیا ہے۔ گزشتہ 15 سال میں حکومت نے 109 ارب روپے براہ راست پی آئی اے پر خرچ کیے اور بینکوں کے 263 ارب روپے کے قرضوں کی ضمانت دی ہے۔ ہم پی آئی اے پر جتنی رقم چاہیں لگا سکتے ہیں لیکن سیدھی سی بات یہ ہے کہ پی آئی اے کو اب ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ ملازمین کی ملازمت کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایئرلائن کی جلد نجکاری پاکستانی ٹیکس دہندگان کے لیے بہت بہتر ہوگا۔ نجکاری کی بات مجھے پاکستان ریلوے پر بھی غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ پچھلے سال، حکومت نے اس کے آپریشنل نقصانات کو پورا کرنے کے لیے 45 ارب روپے اور مجموعی طور پر 70 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کے لیے اضافی 25 ارب روپے دیے۔ پاکستان ریلوے کو ایک سال پہلے 59 ارب روپے اور اس سے ایک سال پہلے 56 ارب روپے ملے۔ صرف گزشتہ 15 سالوں میں، ٹیکس دہندگان نے پاکستان ریلوے پر 783 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت تقریباً ایک ہزار ارب روپے ہے۔ ٹرک کے ذریعے ایک کلوگرام کارگو کو منتقل کرنے پر آنے والے ڈیزل کے اخراجات ٹرین کی نسبت 3 گنا زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو کے لیے ٹرکوں سے زیادہ معاوضہ لیتی ہے۔ ٹرینیں مسافروں کے سفر کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ طریقہ ہیں، پھر بھی سفر کرنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت ریلوے کے مقابلے میں طویل فاصلے کے بس کے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ تاہم، خدمات کو بہتر بنانے یا نقصانات کو کم کرنے کے بجائے، ریلوے کی بیوروکریسی چاہتی ہے کہ حکومت نئے ٹریکس کے لیے مزید 7 ارب ڈالر قرض لے اور ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالے۔ کیا ریلوے کی وزارت سوچ بچار نہیں کررہی؟ کیا ان میں اصلاحات کا کوئی عزم نہیں؟ آخر کیوں پاکستان ریلوے روڈ ٹرانسپورٹ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے جبکہ اس کی ایندھن کی لاگت روڈ ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے؟ کیا آپ اس نا اہلی اور ممکنہ طور پر بدعنوانی کا تصور کر سکتے ہیں جو شاید پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا حصہ ہے کیونکہ برسوں کی سرکاری سبسڈی کے باوجود، یہ ادارے اربوں کا نقصان کرتے رہتے ہیں اور بار بار بیل آؤٹ کا تقاضا کرتے ہیں۔ ریلوے کو چلانے کے ذریعے ہماری وزارت ریلوے اس شعبے کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے نا کہ صارفین یا ٹیکس دہندگان کے لیے۔ تاہم ریلوے کو چلانے کے بجائے اس کا کردار ریگولیٹر کا ہونا چاہیے۔ ہمیں مزید آپریٹرز کے لیے پٹریوں اور ٹرینوں دونوں کو پرائیویٹائز کرنا چاہیے جبکہ وزارت ریلوے کو ایک ریگولیٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے پٹریوں اور ٹرینوں کے لیے حفاظتی معیارات مرتب کرے اور ان کو نافذ کرے اور وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ مقرر کرے جو ٹریک مالکان ٹرینوں سے اور ٹرینیں مال برداری کے لیے اور مسافروں سے لے سکتی ہیں۔ لائسنس کی شرائط میں یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ اگر ریگولیٹنگ وزارت کو ٹریک اور ٹرینوں میں کارکردگی اور بہتر حفاظت کی ضرورت ہو تو نجی شعبے کو اپنے فنڈز سے ایسا کرنا چاہیے تاکہ کرایوں کے ذریعے معاوضہ لیا جائے۔ پھر ریلوے کی زمین پر جو کچی آبادیاں بن گئی ہیں ان کو ریگولرائز کیا جائے اور ان کی ملکیت وہاں رہنے والے غریبوں کو ہی دے دی جائے۔ بقیہ زمین کو فروخت کیا جائے تاکہ موجودہ ریلوے ملازمین کی ریٹائرمنٹ تک تنخواہوں اور مراعات کو یقینی بنایا جاسکے۔ آئیے اب پاکستان اسٹیل ملز پر غور کریں جو آٹھ سال سے بند ہے، جس کے ملازمین کو ابھی تک تنخواہ دی جا رہی۔ پاکستان اسٹیل ملز پر نیشنل بینک اور سوئی سدرن کے 100 ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔ سوئی سدرن اور نیشنل بینک آف پاکستان کی مالی حالت کو شدید خطرے میں نہ ڈالتے ہوئے ان کے دیے گئے قرضوں کی تلافی کا ایک معقول طریقہ یہ ہے کہ اسٹیل ملز کی باقی ماندہ زمین ان کے حوالے کردی جائے۔ (اسٹیل ملز کی زمین 20 ہزار ایکڑ تھی جس میں 5 ہزار ایکڑ مل کے لیے اور بقیہ زمین دیگر زیلی صنعتوں

سرکاری اداروں کی نجکاری کے پیچھے کیا ایجنڈا ہے؟ Read More »

جعلی طریقے سے اراضی منتقل کرنے کے الزام میں تحصیلدار گرفتار

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) نے جعلی طریقے سے اراضی منتقل کرنے کے الزام میں تحصیلدار غلام مرتضٰی چانڈیو کو اسلام آباد سے گرفتار کر لیا۔ ترجمان کے مطابق ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے فوت شدہ شخص کے نام پلاٹ جعلی دستخط اور انگوٹھے کے ذریعے انتقال کرنے میں ملوث تحصیلدار غلام مرتضٰی چانڈیو کو گرفتار کیا ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ ملزم نے پلاٹ کے مالک کا جعلی بائیو میٹرک استعمال کرتے ہوئے موضع پنڈ پڑیاں میں دس مرلے کے پلاٹ کا انتقال کیا تھا۔ ملزم کی جانب سے استعمال کئے گئے بائیومیٹرک کی تصدیق نادرا سے کروائی گئی جو کہ جعلی ثابت ہوئی، پلاٹ کے مالک کا انتقال 2013 میں ہوا تھا۔ ملزم کو اسلام آباد سے گرفتار کرکے تفتیش کا آغاز کردیا ہے جبکہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

جعلی طریقے سے اراضی منتقل کرنے کے الزام میں تحصیلدار گرفتار Read More »

Dead body Found in Bahawalpur Zoo

بہاولپور؛ چڑیا گھرمیں ٹائیگرز کے پنجرے سے ملی لاش ورثا کے حوالے کردی گئی

بہاولپور کے چڑیا گھر میں ٹائیگرز کے پنجرے سے ملی لاش ورثا کے حوالے کردی گئی۔  تفصیلات کے مطابق بلاول کے والد نے بہاولپور پہنچ کر لاش کو شناخت کیا۔لواحقین نے کہا وہ کوئی قانونی کارروائی نہیں چاہتے۔جبکہ پولیس کی جانب سے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔ اسی حوالے سے ڈی سی ظہیر انورکہتے ہیں کہ بلاول پنجرے تک کیسے پہنچا؟ اس پر جیوفینسنگ کروارہے ہیں،بلاول گیٹ سے چڑیا گھر نہیں داخل ہوا،متوفی کی سموں کی جیو فینسنگ کروای ہے،چیزیں سامنے اجائینگی کہ وہ کیوں گیا اورکیسے گیا،خود گیا یا کسی کی ایما پرگیا،بہت سی چیزیں ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ چڑیا گھر میں ٹائیگرز کے پنجرے سےلاش ملنے کا واقعہ تشویشناک ہے۔ضلعی انتظامیہ کے مطابق تمام متعلقہ ادارے تفتیش اور تحقیق میں مصروف ہیں۔

بہاولپور؛ چڑیا گھرمیں ٹائیگرز کے پنجرے سے ملی لاش ورثا کے حوالے کردی گئی Read More »