Pakistan

Military Coup 12th October 1999

’ریلیکس میجر، گولی مت چلانا‘: 12 اکتوبر کی یادیں

ویسے تو پاکستان کی بری فوج نے جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں بارہ اکتوبر کی شام وزیراعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا لیکن اس حکومت میں شامل بعض اہم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھیں کئی ہفتے پہلے ایسی اطلاعات مل چکی تھیں کہ فوجی سربراہ نے حکومت پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ 14 ستمبر 1999 کا ہے جس کی تفصیل اس وقت کی نواز شریف کابینہ کے اہم ترین رکن اور وزیر اطلاعات مشاہد حسین نے بی بی سی کو بتائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف بطور وزیرِ اعظم، متعدد وزرا (جن میں مشاہد حسین سید خود بھی شامل تھے) اور دیگر حکام کے ہمراہ سکردو گئے جہاں انھیں لینے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف اور فوج کی اعلیٰ کمانڈ کے افسران موجود تھے۔ مشاہد حسین کے مطابق وہیں طے ہوا کہ شام کو محفل منعقد ہو گی جس میں پرانے گانے گائے اور سنے جائیں گے۔ ’اُسی خوشگوار محفل کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھ موجود فوج کے دیگر افسران نے ’نواز شرف زندہ باد‘ کے نعرے بھی لگائے۔‘ سینیٹر مشاہد حسین بتاتے ہیں کہ اس دوران انھوں نے نوٹ کیا کہ راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود، جن کے ماتحت شمالی علاقہ جات بھی آتے تھے، وہاں موجود نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر انھوں نے جنرل پرویز مشرف سے پوچھا کہ جنرل محمود کہاں ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ راولپنڈی میں مصروفیات کی بنا پر نہیں آ سکے۔ مشاہد حسین کہتے ہیں کہ عموماً ایسا نہیں ہوتا، اس وقت یہ واضح ہو گیا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی تمام تر پلاننگ ہو چکی تھی اور اگر سکردو میں کسی وجہ سے بات بگڑ جاتی اور جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کر لیا جاتا تو متبادل پلان پنڈی سے بغاوت کرنے کا تھا۔ مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ستمبر 1999 کے دوران وزیرِ اعظم ہاؤس کا گارڈ بھی تبدیل کر دیا گیا اور 111 بریگیڈ، جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی فوجی بغاوت کے دوران یہ بریگیڈ سب سے پہلے حاضر ہوتی ہے، اس کا کمانڈر تبدیل کر دیا گیا تھا۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ اگست کے اواخر اور ستمبر کے اوائل میں چند سیاسی و سماجی کارکنان، جن میں انسانی حقوق کے کارکنان اور وکلا بھی شامل تھے، سے مبینہ طور پر پاکستان کی افواج سے منسلک اہلکاروں نے بات کی اور اس دوران انھیں بتایا گیا کہ حکومت جانے والی ہے اور کیا آپ نئی حکومت میں بطور وزیر شامل ہونا پسند کریں گے؟ مشاہد حسین کے مطابق دونوں طرف سے تیاری مکمل تھی۔ اور میاں نواز شریف کو بھی سمجھ آ چکا تھا کہ موجودہ حالات میں گزارا نہیں ہو سکتا۔ لیکن انتظار اس بات کا تھا، کہ پہل کون کرے گا؟ سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف اس تاثر کی تردید کرتے رہے ہیں کہ انھوں نے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کیا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ نواز شریف کے خلاف فوج نے ایک ادارے کے طور پر ایکشن لیا تھا اور اس کی وجہ اپنے سربراہ کی غیر منصفانہ اور غیر شفاف برطرفی کی کوشش تھی۔ فوجی بغاوت کیسے ہوئی؟ 12 اکتوبر 1999 کے روز بی بی سی کے اس وقت کے نامہ نگار ظفر عباس اسلام آباد سے چھٹیاں لے کر کراچی آئے ہوئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں ‘میں کراچی میں بیٹھا خبریں سن رہا تھا اور خبریں سنتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ نواز شریف نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جنرل مشرف کو ان کہ عہدے سے ہٹا دیا جائے اور ان کی جگہ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیا الدین کو فوج کا سربراہ بنا دیا جائے۔ اب یہ اپنے طور پر بھی خاصی بڑی خبر تھی۔ اور اس وقت مجھے افسوس بھی ہو رہا تھا کہ میں اس وقت کیوں چھٹی پر ہوں۔‘ ظفر عباس کے مطابق تھوڑی دیر بعد سرکاری نشریاتی چینل یعنی پاکستانی ٹیلی ویژن کی نشریات بند ہو گئی اور ایک اعلان چلنے لگا کہ تھوڑی دیر بعد سروس بحال ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں ‘صحافی ہونے کے ناطے مجھے اندازہ ہوا کہ گڑبڑ بہت زیادہ ہے۔ میں نے اپنے ساتھی اور صحافی ادریس بختیار سے رابطہ کیا اور ہم دونوں نے طے کیا کہ فوری طور پر کراچی سے معلومات اکٹھی کی جائیں۔ اسی وقت ہمیں پتا چلا کہ جنرل مشرف کولمبو سے کراچی واپس آ رہے ہیں لہذا ہم دونوں نے طے کیا کہ کراچی ایئرپورٹ جانا چاہیے۔‘ ظفر عباس کے مطابق کراچی ایئرپورٹ پہنچنے پر بھی صورتحال واضح نہیں ہوئی ’یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نواز شریف انچارج ہیں یا فوج؟‘ تاہم ‘اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف اور وزیرِ اعظم نواز شریف کے درمیان شدید قسم کا تناؤ ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ‘اسی دوران مختلف قسم کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔ اسی دوران حالات کو بہتر کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بھی بنا دیا گیا تھا۔‘ ‘جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید حالات بہتر ہوں۔ لیکن کشیدگی کی صورتحال ایسی تھی کہ کافی لوگوں کو لگ رہا تھا کہ شاید اس کا کوئی حل نہ نکل پائے۔‘ ظفر عباس کہتے ہیں کہ پھر جب 12 اکتوبر کا واقعہ ہوا تو تمام باتیں کھل کر سامنے آ گئیں کہ ایک طرف نواز شریف نے غالباً یہ طے کر لیا تھا کہ وہ فوج کے سربراہ کو ہٹا دیں گے اور اس کے ردعمل میں پاکستان کی فوج نے جنرل مشرف کے ملک میں نہ ہونے کے باوجود ٹیک اوور کا فیصلہ کر لیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اس سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ فوج نے بھی طے کر لیا تھا کہ اگر نواز شریف کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں چاہے جنرل

’ریلیکس میجر، گولی مت چلانا‘: 12 اکتوبر کی یادیں Read More »

Great Imran Khan and KapilGreat Pakistan Cricket Team Captain Imran Khan and India Cricket Team Captain Kapil dev of 1987 Dev

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا

ہ 1955 کی بات ہے۔ ادیب اور مترجم سوم آنند انھی دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کا ایک ٹیسٹ میچ لاہورمیں تھا اور نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے اعلان ہوا کہ جو شخص بھی میچ دیکھنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا چار روز کا ویزا بغیر کسی تاخیرکے حاصل کر سکتا ہے۔ ’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘ سوم آنند کا اپنا بچپن لاہور میں گزرا تھا چنانچہ انھیں اس شہر سے اُنس تھا۔ ’پاکستان کو ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ انڈیا کی سفارش پر ملا‘ پاکستان سنہ 1948 میں امپیریل کرکٹ کانفرنس (موجودہ آئی سی سی) کا رُکن بنا تھا، مگر وہ ’فُل ممبر‘ نہیں تھا، بنتا تو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا اہل ہوتا۔ علی خان کی تحقیق کے مطابق غیرمنقسم ہندوستان 1926 میں آئی سی سی کا مکمل رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کو آئی سی سی میں مکمل داخلے کے لیے تقسیم کے بعد 5 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ علی خان لکھتے ہیں کہ آئی سی سی کی رکنیت حاصل کرنے کی پاکستان کی ابتدائی دو کوششیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اِس بنیاد پر رد کر دیں کہ اس ’قوم کو ابھی ناقابل تسخیر مشکلات پر قابو پانا ہے۔ تاہم تیسری کوشش پر اینتھونی ڈی میلو (اُس وقت کے انڈین کرکٹ بورڈ کے صدر) کی سفارش پر پاکستان کو 1952 میں مکمل رکنیت دے دی گئی۔‘ آئی سی سی رکنیت کے حصول کے بعد اُسی سال انڈیا دلی میں پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پہلی ٹیم تھی۔ علی خان لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ تقسیم کی ہولناکیوں کے بعد عوام سے عوام کے رابطے کا پہلا حقیقی موقع تھا۔ دونوں ٹیموں کے کپتان تقسیم سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دونوں لاہور کے مشہور کریسنٹ کلب کے لیے کھیل چکے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار (پاکستان) اور لالا امرناتھ (انڈیا) دونوں نے کرکٹ لاہور کےمنٹو پارک کے میدانوں میں سیکھی تھی۔ وہ ایک ہی زبان بولتے تھے۔ مہمان نوازی لالا امرناتھ تو پاکستانی کرکٹرز کا استقبال کرنے دلی ٹرین سٹیشن بھی گئے۔ امرناتھ کی سوانح عمری کے مطابق ’جہاں کسی کو دشمنی کی توقع تھی وہاں صرف دوستی تھی۔‘ ٹیم کے ایک رکن وقار حسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’ٹیم کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال ایسی تھی کہ دشمنی ہوا میں بکھر گئی۔‘ پانچ ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز انڈیا دو ایک سے جیت گیا جبکہ دو میچ برابر رہے۔ دلی ٹیسٹ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی کے علاوہ تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ ڈیبیو ٹیسٹ تھا۔ کاردار اور الٰہی اس سے قبل غیرمنقسم ہندوستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے تھے۔ لکھنئو میں دوسرا ٹیسٹ تھا۔ لکھاری اور کرکٹر نجم لطیف کے مطابق پاکستانی ٹیم ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں کشش رکھتی تھی۔ ’اس کی بڑی وجہ نوجوان بلے باز حنیف محمد تھے۔ پاکستانی ٹیم رائل ہوٹل میں ٹھہری تھی۔ قریب ہی سے اسلامیہ کالج کے طلبا نے حنیف کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لابی پر دھاوا بول دیا۔‘ ’فضل محمود نے بیگم کی بات مانی‘ لکھنئو پہنچنے سے پہلے پاکستان کے فاسٹ بولرفضل محمود کے لیے ان کی اہلیہ کا ٹیلی گرام آ چکا تھا کہ وہ کم ازکم سات وکٹ ضرور لیں۔ ’پٹ سن کی مَیٹنگ پر کھیلے گئے اس میچ میں فضل محمود نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یوں، ان کے میچ کے اعداد و شمار تھے: 92 رنز کے عوض 12 وکٹیں۔ نذر محمد نے ناقابل شکست 124 رنز بنائے۔ اس طرح پاکستان نے انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کر اپنی پہلی جیت سمیٹی۔‘ لکھنؤ کا ہجوم کھلاڑیوں کا مذاق بھی شستہ اُردو زبان میں اڑا رہا تھا۔ وقارحسن اپنی سوانح عمری میں ایک خاص تبصرہ کو واضح طور پر یاد کرتے ہیں کہ جب وہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کر رہے تھے تو طلبا کے ایک گروپ نے ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں کہا: ’اجی قبلہ، آپ اگر رخ ِزیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے۔‘ انڈین ٹیم کی ہار پر انڈیا میں حملہ تاہم نجم لطیف لکھتے ہیں کہ تقریباً 25000 کا یہ ہجوم انڈیا کی شکست کو ہضم نہ کر سکا۔ ’انھوں نے انڈین کھلاڑیوں کے کیمپوں پر حملہ کر کے انھیں آگ لگا دی۔ انھوں نے اس بس کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے جو انڈین کھلاڑیوں کو واپس ان کے ہوٹل لے جانے والی تھی۔ انڈین کھلاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور وہ بڑی مشکل سے خود کو بچا کر اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘ بیگم اختر کی دعائیں پاکستانی ٹیم کے لیے واپس رائل ہوٹل میں، فضل محمود نے دیکھا کہ نذرمحمد تیار ہو کر کہیں جانے کی جلدی میں ہیں۔ فضل کے پوچھنے پر نذر نے بتایا کہ وہ ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی کو آداب کہنے جا رہے ہیں۔ فضل بھی جانے کو تیار ہو گئے۔ نجم لطیف لکھتے ہیں کہ دونوں ان کے گھر پہنچے اور بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ کچھ وقت تک جب وہ نہ آئیں تو فضل نے ملازم سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ’جواب ملا کہ وہ اگلے کمرے میں نماز پڑھ رہی ہیں۔ فضل اور نذر دونوں اٹھ کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں بیگم اختر تھیں۔ جائے نماز پر اپنے ہی خیالوں میں مگن تھیں۔ فضل اور نذر نے مخاطب کیا۔ وہ ان کو دیکھ کر چونک گئیں اور کہنے لگی ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو میچ جیتنے کے لیے کھیلنا چاہیے۔ میں یہاں آپ کی جیت کے لیے دعا کر رہی ہوں۔‘ فضل نے آگے کی طرف جھک کر کہا: ’آپ کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں۔ ہم جیت گئے ہیں۔ پاکستان جیت گیا۔‘ ’یہ بڑی خبر سُن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے ان کی آنکھوں میں خوشی

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا Read More »

پاکستان سے بیرون ممالک جانے والے بھکاریوں کے گروہ: ’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک ملتی ہے‘

رواں ماہ 5 اکتوبر کو دو خواتین اور دو مردوں پر مشتمل ایک گروپ مبینہ طور پر بھیک مانگنے کی غرض سے عمرہ زائرین بن کر سعودی عرب جانے کے لیے لاہور کے علامہ اقبال ائیرپورٹ پر پہنچا۔ پنجاب کے ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے بھکاریوں کے اس ’منظم گروہ‘ میں نسرین بی بی، اُن کے چچا اسلم، چچی پروین اور بھائی عارف شامل تھے۔ یہ چاروں قریبی رشتہ دار سہانے خواب لیے ایئرپورٹ پر واقع ایف آئی اے امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے۔ نسرین بی بی اس سے پہلے 16 مرتبہ جبکہ پروین نو مرتبہ پاکستان سے باہر عمرہ کی ادائیگی یا زیارتوں پر جانے کے بہانے بھیک مانگنے کے لیے سعودی عرب، ایران اور عراق جا چکی تھیں۔ اسلم اور عارف اگرچہ سعودی عرب تو پہلی بار جا رہے تھے لیکن ماضی میں وہ متعدد مرتبہ ایران اور عراق زیارتوں کے بہانے بھیک مانگنے کے لیے سفر کر چکے تھے۔ ایف آئی اے امیگریشن پر تعینات اہلکاروں نے ان چاروں افراد سے پوچھ گچھ کے بعد انھیں جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا اور ’ٹریفکنگ اِن پرسن ایکٹ 2018‘ کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے انھیں گرفتار کر لیا۔ ایف آئی آر کے مطابق دوران تفتیش چاروں ملزمان نے اعتراف کیا کہ وہ سعودی عرب عمرہ زائرین کے بھیس میں جا رہے تھے حالانکہ ان کا اصل مقصد وہاں جا کر بھیک مانگنا تھا۔ بی بی سی کو دستیاب ایف آئی آر کے متن کے مطابق یہ تمام ملزمان پہلے بھی سعودی عرب، ایران اور عراق بھیک مانگنے کی غرض سے جا چکے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان اور ان کے ایجنٹ جہاں زیب کے درمیان موبائل پر بھیجے گئے پیغامات سے بھی اس گروہ کے باہر کے ممالک میں جا کر بھیک مانگنے کے شواہد ملے ہیں اور ان کے موبائلز فرانزک کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔ نسرین بی بی اور پروین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا جبکہ دیگر دونوں ملزمان محمد اسلم اور عارف مزید پوچھ گچھ کے لیے حوالات میں بند ہیں۔ نو اکتوبر کو مقامی عدالت میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر بی بی سی نے نسرین بی بی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’کیا ہمیں اس طرح پکڑنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، کیا اس ملک میں لوگ بھوک سے نہیں مر رہے، کیا روزی کمانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔‘ نسرین بی بی کے مطابق ’ایسی گرفتاریوں سے یہ کام رُکنے والا نہیں۔ ہم غریبوں کو تو آرام سے پکڑ لیا، کیا کبھی کسی طاقتور کو بھی پکڑا ہے یہاں۔‘ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا بیرون ملک جا کر بھیک مانگنے سے پاکستان کی بدنامی نہیں ہوتی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’پہلے کون سے جھنڈے لگے ہیں۔‘ واضح رہے کہ حال ہی میں وزارت اوورسیز پاکستانی کے سیکریٹری ذوالفقار حیدر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ بیرون ملک گرفتار ہونے والے 90 فیصد بھیک مانگنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یہ دعویٰ سامنے آنے کے بعد بی بی سی کی تحقیق سے علم ہوا کہ ایک منظم طریقے سے پاکستان میں موجود ایجنٹ بھکاریوں یا ضرورت مند افراد کو اس مقصد کے تحت مشرق وسطیٰ کے ممالک، خصوصاً سعودی عرب، ایران اور عراق بھجواتے ہیں جہاں بھیک سے حاصل ہونے والی رقم میں اِن ایجنٹس کو بھی حصہ ملتا ہے۔ تاہم حال ہی میں سعودی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر پاکستانی حکومت سے باضابطہ شکایت کے بعد وفاقی وزارت داخلہ کو اس مسئلے کا تدارک کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں جس کے نتیجے میں نسرین بی بی اور ان کا خاندان گرفتار ہوا۔ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مطابقحالیہ دنوں میں ملتان اور سیالکوٹ سے چند گروہ گرفتار ہوئے ہیں جو لوگوں کو عمرے کے بہانے سعودی عرب لے کر جاتے ہیں اور اب تک آف لوڈ ہو کر گرفتار ہونے والوں کی تعداد 37 ہے۔ ’پہلی بار سعودی عرب جا رہے تھے‘ شخص بھی فیس بُک اور واٹس ایپ کے ذریعے اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو واٹس ایپ پر تمام تر تفصیلات مہیا کر دیتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ پاکستان سے کئی افراد مزدوری کرنے کی غرض سے ان ایجنٹس سے رابطہ کرتے ہیں اور جو لوگ کوئی کام نہیں جاتے، انھیں ایجنٹس بھیک مانگنے کی آفر کرتے ہیں۔ ایجنٹ نے بتایا کہ ’پاکستان سے ہر کوئی مزدوری کی غرض سے نہیں جاتا۔ اس لیے ان کو کچھ مختلف آفر کرنا پڑتا ہے۔‘ ’خواتین اور بچوں کو بھی اس گروہ کا حصہ بنانا پڑتا ہے تاکہ پہلے عمرے یا زیارت کے لیے ویزا حاصل کیا جا سکے اور پھر انھیں مکہ اور مسجدِ نبوی کے سامنے بٹھایا جا سکے۔‘ پاکستانی بھکاریوں کے بارے میں کیسے پتہ چلا؟   بی بی سی نے ان سرکاری دستاویزات تک رسائی حاصل کی ہے جو سعودی عرب کی حکومت نے اس اہم مسئلے پر پاکستان کی حکومت کے ساتھ شئیر کی تھیں۔ بی بی سی کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق 16 جون 2023 کو سعودی عرب کی حکومت نے وزیر اعظم آفس کو سعودی عرب میں بھیک مانگنے، جسم فروشی، منشیات کی سمگلنگ اور سفری دستاویزات میں جعل سازی جیسے بڑھتے ہوئے جرائم میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا۔ بی بی سی کی معلومات کے مطابق سعودی عرب کی باضابطہ شکایت کے بعد وزیر اعظم آفس نے وزارت داخلہ اور اس کے ذیلی اداروں، بشمول ایف آئی اے، کو ہدایات جاری کیں جس کے بعد ایف آئی اے نے سعودی عرب سمیت دیگر مشرق وسطی ممالک جانے والے پاکستانیوں کی تمام ہوائی اڈوں پر پروفائلنگ شروع کر دی۔ سیکریٹری وزارت اوورسیز پاکستانی ذوالفقار حیدر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انھیں سعودی عرب، ایران اور عراق کی جانب سے مطلع کیا گیا تھا جس کے بعد معلومات کو رپورٹ کی شکل میں پیش کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’پھر ایف آئی اے کو حرکت میں لانا پڑا۔ جیسا کہ آپ سب کو پتا ہے اس وقت ایف آئی اے

پاکستان سے بیرون ممالک جانے والے بھکاریوں کے گروہ: ’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک ملتی ہے‘ Read More »

پنجاب میں سرکاری سکولوں کی نجکاری کے اقدام پر تنازعہ کھڑا ہو گیا۔

  پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (SED) اساتذہ کی انجمنوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنے کے باوجود راولپنڈی ڈویژن میں 350 سرکاری سکولوں کی نجکاری کی جانب تیزی سے آگے بڑھنے کی وجہ سے آگ کی زد میں ہے۔ نجکاری کے اس اقدام میں تمام اثاثے شامل ہیں، جن میں قیمتی جائیدادیں، کھیل کے میدان، اور اچھی طرح سے لیس لیبارٹریز شامل ہیں، جن کی مجموعی مالیت کا تخمینہ اربوں روپے ہے۔ جیسے ہی یہ سرکاری اسکول نجی شعبے کے کنٹرول میں منتقل ہوں گے، حکومت ان پر اپنا براہ راست اختیار مکمل طور پر ختم کردے گی۔ اس متنازعہ فیصلے کے بارے میں مبینہ طور پر راولپنڈی ڈویژن کے چار اضلاع یعنی راولپنڈی، اٹک، چکوال اور جہلم کے حکام کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، راولپنڈی ڈویژن سمیت پنجاب بھر میں لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کی خدمت کرنے والے کل 1,000 اے کلاس ہائی اسکول، ایک غیر منافع بخش تنظیم ‘مسلم ہینڈز’ کو منتقل کرنے کے لیے مختص ہیں۔ اس این جی او کے حوالے کیے جانے والے اسکولوں کی فہرست  پہلے ہی تیار کی جا چکی ہے۔ ان پیش رفت کے ردعمل میں اساتذہ کی کئی سرکردہ انجمنوں بشمول پنجاب ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن، پنجاب ٹیچرز یونین، ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن، پنجاب ایس ای ایس ایسوسی ایشن اور آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی ہے۔ انہوں نے احتجاج اور ریلیوں کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس شدت کے پالیسی فیصلوں کو قانون سازی سے مشروط کیا جانا چاہیے۔ پنجاب اسمبلی کی عدم موجودگی کے پیش نظر ان کا موقف ہے کہ ایسے فیصلوں پر جلد بازی نہیں کی جانی چاہیے۔ پنجاب ٹیچرز یونین کے مرکزی رہنما شاہد مبارک نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایک طنزیہ متبادل تجویز کیا: سرکاری سکولوں کی منتقلی کے بجائے نگران حکومت خود ‘مسلم ہینڈز’ کے حوالے کر دی جائے۔پنجاب میں نجکاری کی بحث بدستور متنازعہ ہے

پنجاب میں سرکاری سکولوں کی نجکاری کے اقدام پر تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ Read More »

Wheat Sowing is about to start in Pakistan.

کاشت کاری کی کامیابی: زراعت کے شعبے کو نیویگیٹ کرنے کی حکمت عملی

مسابقت، پیداواری صلاحیت اور برآمدات کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کراچی: پاکستان ایک زرعی معیشت ہے، اور زراعت کے شعبے میں فصلیں، مویشی، ماہی گیری اور جنگلات شامل ہیں۔ زراعت کا جی ڈی پی کا تقریباً 25 فیصد حصہ ہے، اور پاکستان گندم، کپاس، گنا، آم، کھجور، چاول اور نارنگی پیدا کرنے والے دنیا میں سرفہرست ہے۔ زراعت کا شعبہ نہ صرف خوراک کی مقامی طلب کو پورا کرتا ہے بلکہ ملک کی برآمدی آمدنی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق، 2023-24 میں زرعی برآمدات کی مالیت 5.2 بلین ڈالر تھی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہے۔ اہم زرعی برآمدات میں چاول، پھل، سبزیاں، کاٹن یارن، کچی کپاس، مچھلی اور مچھلی کی تیاری شامل ہیں۔ زرعی برآمدات میں اضافہ بہتر پیداواری صلاحیت، بہتر قیمتوں اور عالمی منڈی میں بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے ہوا۔ پاکستان نے نئی ٹیکنالوجیز اپنا کر اپنے زرعی شعبے کو جدید بنانے، پانی کے انتظام کو بہتر بنانے، بیج کے معیار کو بہتر بنانے، اعلیٰ قیمت والی فصلوں کے لیے کاشت شدہ زمین کو پھیلانے، پروسیسرز اور کاشتکاروں کے درمیان روابط کو مضبوط بنانے اور زرعی پروسیسنگ کے لیے مراعات فراہم کرنے کے لیے بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان میں اگائی جانے والی بڑی فصلوں میں چاول، گنا اور کپاس گھریلو استعمال اور برآمد دونوں کے لیے اہم ہیں۔ چاول گندم کے بعد دوسری سب سے اہم غذائی فصل ہے اور کل کاشت شدہ رقبہ کا تقریباً 10% ہے۔ پاکستان چاول کی مختلف اقسام پیدا کرتا ہے، بشمول باسمتی، جو اپنی خوشبو اور معیار کے لیے مشہور ہے۔ پاکستان میں مالی سال 2022-23 (FY23) کے دوران ریکارڈ 9 ملین ٹن چاول کی پیداوار متوقع ہے، جبکہ FY22 کے دوران 8.9 ملین ٹن چاول کی پیداوار ہوئی تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس ریکارڈ پیداوار میں بہتر موسمی حالات کلیدی کردار ادا کریں گے۔ پاکستان نے 2020-21 میں 2.2 بلین ڈالر مالیت کا 3.9 ملین ٹن چاول برآمد کیا، جو اسے دنیا کا 10 واں سب سے بڑا چاول برآمد کرنے والا ملک بنا۔ گنے کی کاشت تقریباً 13 فیصد رقبہ پر ہوتی ہے اور اسے چینی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ ایتھنول اور دیگر ضمنی مصنوعات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے 2020-21 میں 67.1 ملین ٹن گنے کی پیداوار کی، جو اسے دنیا کا پانچواں بڑا گنے پیدا کرنے والا ملک بنا۔ تاہم، کم چینی کی وصولی کی شرح اور پیداوار کی زیادہ لاگت کی وجہ سے، پاکستان کو اپنی مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے چینی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ 2023-24 میں چینی کی پیداوار 7.05 ملین ٹن رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو 23-2022 کے تخمینہ سے 3 فیصد زیادہ ہے۔ یہ معمولی اضافہ سیلاب سے تباہ شدہ فصل 2022-23 کے مقابلے میں کاٹے گئے گنے کے رقبے میں بحالی کی توقعات کی وجہ سے ہے۔ کپاس سب سے اہم نقدی فصل ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے خام مال کا ایک بڑا ذریعہ ہے، جو کل برآمدات کا تقریباً 60 فیصد ہے۔ پاکستان نے 2020-21 میں 4.8 ملین ٹن کپاس کی پیداوار کی، جو اسے دنیا کا پانچواں بڑا کپاس پیدا کرنے والا ملک بنا۔ تاہم، فی ہیکٹر کم پیداوار اور کیڑوں کے زیادہ حملے کی وجہ سے، پاکستان کو اپنی مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑتی ہے۔ 2023-24 میں کپاس کی پیداوار 36 فیصد سے 5.3 ملین گانٹھوں تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ سیلاب سے تباہ شدہ فصل 2022-23 کے بعد، پیداوار کو رجحان میں واپس آنا چاہیے، جبکہ مسابقتی فصلوں سے بہتر منافع رقبے کی توسیع کو محدود کر دے گا۔ پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ پانی کی کمی کا شکار ممالک میں سے ایک ہے، جہاں فی کس پانی کی دستیابی 1,000 کیوبک میٹر سے کم ہے۔ آبپاشی کے پانی کا بنیادی ذریعہ دریائے سندھ کا نظام ہے، جو اوپر والے علاقوں میں برف پگھلنے اور بارش پر منحصر ہے۔ تاہم، آب و ہوا کی تبدیلی، بارش کے نمونوں میں تغیر، اور گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے، پانی کی دستیابی زیادہ غیر یقینی اور بے ترتیب ہوتی جا رہی ہے۔ مزید برآں، پانی کے انتظام کے غیر موثر طریقوں، عمر رسیدہ انفراسٹرکچر، اور ناقص گورننس کی وجہ سے، پانی کی ایک بڑی مقدار نقل و حمل اور تقسیم میں ضائع یا ضائع ہو جاتی ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پانی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے سالانہ 12 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان کا زرعی شعبہ کم میکانائزیشن، فرسودہ ٹیکنالوجی اور کمزور توسیعی خدمات سے نمایاں ہے۔ یو ایس ڈپارٹمنٹ آف کامرس کی ایک رپورٹ کے مطابق، صرف 50% کسان ٹریکٹر استعمال کرتے ہیں، جب کہ 10% سے کم دیگر فارم مشینری جیسے ہارویسٹر، پلانٹر اور اسپرے استعمال کرتے ہیں۔ بہتر بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات جیسے جدید آلات کا استعمال بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ مزید برآں، کریڈٹ، معلومات اور منڈیوں تک رسائی کی کمی کی وجہ سے، بہت سے کسان نئی ٹیکنالوجیز اور طریقوں کو اپنانے سے قاصر ہیں جو ان کی پیداواری صلاحیت اور آمدنی کو بڑھا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے مرکزی حریف شہباز شریف کی حکومت معاشی بحران سے نمٹنے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور تجارتی پالیسی کے بارے میں مختلف خیالات رکھتی ہے۔ مالیاتی استحکام کے اقدامات، جیسے سبسڈی میں کمی اور محصولات میں اضافہ، نے پیداواری لاگت میں اضافہ کیا ہے اور کسانوں کے منافع کو کم کیا ہے۔ 2022 کے سیلاب نے فصلوں اور بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں 20 سال سے زائد عرصے میں پہلی بار زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوئی۔ ورلڈ بینک کا تخمینہ ہے کہ مالی سال 23 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.4 فیصد تک کم ہو جائے گی، اور غربت بڑھ کر 37.2 فیصد ہو جائے گی۔ ان چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے، پاکستان کو مسلسل میکرو مالیاتی اور ساختی اصلاحات کو نافذ کرنے، اپنی مسابقت اور پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے اور اپنی زرعی برآمدات کو

کاشت کاری کی کامیابی: زراعت کے شعبے کو نیویگیٹ کرنے کی حکمت عملی Read More »

کسانوں کو اکتوبر کے وسط تک تیاری کرنے کا مشورہ دیا۔

وزارت کی طرف سے منظور شدہ اقسام چکوال-50، NARC-2009، PARC-2009، دھرابی-2011، پاکستان-2013، اور دیگر ہیں۔ فیصل آباد: زرعی ماہرین نے سفارش کی ہے کہ کاشتکار بمپر پیداوار حاصل کرنے کے لیے اکتوبر کے وسط سے گندم کی کاشت شروع کرنے کے لیے اپنی زمین تیار کریں۔ وزارت زراعت (زراعت کی توسیع) کے ترجمان نے ہفتہ کو کہا کہ اکتوبر کے وسط سے نومبر کے آخر تک کا عرصہ گندم کی کاشت کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔ اس لیے کاشتکار اپنی زمینیں تیار کریں اور گندم کی منظور شدہ اقسام کاشت کے لیے استعمال کریں۔ وزارت کی جانب سے جن اقسام کی منظوری دی گئی ہے ان میں چکوال-50، این اے آر سی-2009، پی اے آر سی-2009، دھرابی-2011، پاکستان-2013، سحر-2006، گلیکسی-2013 شامل ہیں۔ مزید برآں، ترجمان نے کاشتکاروں کو مشورہ دیا کہ وہ صحت مند اور اعلیٰ معیار کے بیج لگانے سے پہلے بیج کی چھانٹی کا استعمال کریں، یہ کہتے ہوئے کہ معیاری بیج زیادہ پیداوار کے لیے بہت ضروری ہیں۔ مزید یہ کہ انہوں نے ڈی اے پی کھاد کے ڈیڑھ تھیلے استعمال کرنے کا مشورہ دیا اور یوریا پر مبنی کھاد کے استعمال سے پہلے 2 سے 3 تھیلے پانی دینے کا مشورہ دیا، انہوں نے مزید کہا کہ اچھی کوالٹی کی پیداوار کے لیے سلفیٹ آف پوٹاش (ایس او پی) کا ایک تھیلا بھی لگانا چاہیے۔

کسانوں کو اکتوبر کے وسط تک تیاری کرنے کا مشورہ دیا۔ Read More »

دفتر خارجہ نے جج کے بیٹے کی پروٹوکول کی درخواست مسترد کر دی۔

سینئر ایڈیشنل لاہور ہائی کورٹ رجسٹرار نے دفتر خارجہ  کو خط ارسال کیا کہ موجودہ جج کے بیٹے کو پروٹوکول کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اسلام آباد: دفتر خارجہ نے ہفتے کے روز لاہور ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کو بین الاقوامی دورے پر پروٹوکول فراہم کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ سینئر ایڈیشنل لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے دفتر خارجہ کو خط بھیجا تھا کہ وہ موجودہ جج کے بیٹے کو پروٹوکول کی سہولیات فراہم کرے۔ خط کے جواب میں وزارت نے لاہور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار ارم ایاز کو آگاہ کیا کہ متعلقہ قوانین کے مطابق ججز کے اہل خانہ پروٹوکول کی سہولیات کے حقدار نہیں ہیں۔ جوابی خط کی کاپی رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھی ارسال کر دی گئی۔ لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے ہفتے کے روز پروٹوکول سہولیات کی درخواست کے حوالے سے میڈیا کی جانب سے معاملے کو اجاگر کرنے کے بعد خط واپس لینے کے لیے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا۔

دفتر خارجہ نے جج کے بیٹے کی پروٹوکول کی درخواست مسترد کر دی۔ Read More »

پاکستان نے اسرائیل فلسطین تنازع میں زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینےپر زور دیا ہے۔

  دفتر خارجہ    نے اسرائیل اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان حالیہ کشیدگی میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اسلام آباد: مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستان نے ہفتے کے روز زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا، عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ دشمنی کے خاتمے، شہریوں کے تحفظ اور دیرپا امن کے حصول کے لیے اکٹھے ہوں۔ علاقہ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں ابھرتی ہوئی صورتحال اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مخاصمت کے بھڑکنے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ممتاز زہرہ بلوچ نے خطے میں “بڑھتی ہوئی صورتحال کی انسانی قیمت” پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ پر پاکستان کا موقف مستقل رہا ہے اور خطے میں پائیدار امن کی کلید کے طور پر دو ریاستی حل کی وکالت کرتا ہے۔ ممتاز نے “عالمی قانون اور متعلقہ اقوام متحدہ اور او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ، جامع اور دیرپا حل کی اہمیت پر زور دیا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک قابل عمل، خودمختار اور متصل ریاست فلسطین قائم کی جانی چاہیے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف (یروشلم) ہو۔ یہ موقف طویل عرصے سے جاری تنازعے کا پرامن حل تلاش کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں سے ہم آہنگ ہے۔ بیان میں بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دشمنی کے خاتمے، شہریوں کے تحفظ اور مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے حصول کی حمایت کے لیے اکٹھے ہوں۔ فوری کارروائی کا مطالبہ اسرائیل فلسطین تنازعہ کے پرامن حل کے لیے پاکستان کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایک بیان میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق تنازع کے دیرینہ پرامن حل کے لیے کام کرے۔ صدر علوی نے مزید خونریزی اور انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا: ’’میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بہت فکر مند ہوں۔‘‘ فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے، علوی نے کہا، “فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعہ لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا۔” نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مشرق وسطیٰ کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ’’فلسطین کے سوال‘‘ کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تشدد سے دل شکستہ ہے، جو مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔ ہم شہریوں کے تحفظ اور تحمل پر زور دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن دو ریاستی حل میں مضمر ہے جس میں ایک قابل عمل، متصل، خودمختار ریاست فلسطین، جس کی بنیاد 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر رکھی گئی تھی، جس کے دل میں القدس الشریف ہے،” وزیراعظم نے سماجی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ میں کہا۔ میڈیا پلیٹ فارم ایکس۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے صدر شہباز شریف نے زور دے کر کہا کہ پائیدار امن تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل کی جانب سے فلسطینی سرزمین سے “ناجائز قبضہ” ختم کر دیا جائے، دنیا پر زور دیا کہ وہ دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ “اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کا خاتمہ، فلسطینی سرزمین پر آبادکاری کی توسیع، اور معصوم فلسطینیوں کے خلاف ظلم خطے میں امن، انصاف اور خوشحالی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں،” سابق وزیر اعظم نے X پر پوسٹ کیا۔ “میں آج کے واقعات سے حیران نہیں ہوں۔ جب اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے حق خودارادیت اور ریاست کے جائز حق سے محروم کر رہا ہے تو اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ روزانہ اشتعال انگیزیوں، قابض افواج اور آباد کاروں کے حملوں اور مسجد اقصیٰ اور عیسائیت اور اسلام کے دیگر مقدس مقامات پر چھاپوں کے بعد اور کیا ہے؟ اس نے سوال کیا. “دنیا کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پائیدار امن کی ضرورت ہے: فلسطینی سرزمین پر قبضہ ختم کرنا، مشرقی یروشلم کے ساتھ فلسطینی ریاست کو اس کا دارالحکومت تسلیم کرنا، اور فلسطینیوں کی آزادی اور خودمختاری کے حق کو برقرار رکھنا،” مسلم لیگ (ن) کے صدر نے جاری رکھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بڑھتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے لیے عالمی برادری سے مداخلت کا مطالبہ کیا۔ “میں اسرائیلی قابض افواج اور فلسطینیوں کے درمیان مخاصمت کے سنگین اضافے پر گہری تشویش کا شکار ہوں۔ پاکستان بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ/او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل کے لیے کھڑا ہے۔ اس موقف کی ہم نے مسلسل وکالت کی ہے جس میں OIC کے CFM کے چیئر کی حیثیت سے میری مدت ملازمت بھی شامل ہے،” سابق وزیر خارجہ نے X پر کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ “مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے قیام کے لیے عالمی برادری کے اکٹھے ہونے اور تمام دشمنیوں کو روکنے اور شہریوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔” پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کیا۔ پاکستانی عوام کی ہمدردیاں اور دعائیں فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ سابق صدر نے بیان میں کہا کہ فلسطینی عوام طویل عرصے سے جبر اور بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فلسطینی عوام کے لیے آواز اٹھائے۔ جماعت اسلامی (جے آئی) نے اسرائیل کے خلاف فلسطین کے مزاحمتی جنگجوؤں کی حمایت کا اعلان کیا اور انہیں اس اقدام پر مبارکباد دی۔ ایک بیان میں، جماعت نے کہا کہ امت فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے جدوجہد پر “سلام” پیش کرتی ہے، اور مزید کہا کہ مسلم دنیا نے اس مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔

پاکستان نے اسرائیل فلسطین تنازع میں زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینےپر زور دیا ہے۔ Read More »

پاکستان میں گھی اور کھانا پکانے کے تیل کی قیمتوں میں واضع کمی

لاہور – عبوری حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز پر گھی کے تمام برانڈز کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے، مہنگائی سے تنگ لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے جو خوراک اور ایندھن کی ریکارڈ بلند قیمتیں ادا کر رہے ہیں۔ ایک اہم پیش رفت میں، مشہور گھی برانڈز کی قیمت 60 روپے کم کرکے 394 روپے فی کلو کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل گھی 455 روپے میں دستیاب تھا، غیر معروف برانڈز کی قیمتیں ریکارڈ بلندی پر منڈلا رہی تھیں۔ اسی طرح بحران زدہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہونے کے باوجود کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی کمی کی گئی ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) نے پیر کو رپورٹ کیا کہ گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے ستمبر 2023 کے دوران صارفین کی قیمتوں کے اشاریہ (CPI) پر مبنی افراط زر بڑھ کر 31.4 فیصد ہو گیا۔ پی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ (اگست) کے دوران مہنگائی بڑھ کر 27.4 فیصد ہو گئی تھی جبکہ ستمبر 2022 کے دوران یہ 23.2 ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر، افراط زر ستمبر 2023 میں بڑھ کر 2.0 فیصد ہو گیا جب کہ پچھلے مہینے میں 1.7 فیصد اضافہ ہوا اور ستمبر 2022 میں 1.2 فیصد کی کمی ہوئی۔فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

پاکستان میں گھی اور کھانا پکانے کے تیل کی قیمتوں میں واضع کمی Read More »

Petroleum prices slashed down

پیٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی متوقع

ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی کا امکان ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی توقع ہے، فی بیرل 7 ڈالر کی ممکنہ کمی کے ساتھ۔ یہ کمی خلیجی منڈی میں ظاہر ہوتی ہے جہاں خام تیل کی قیمتیں 92 ڈالر فی بیرل اور عالمی مارکیٹ میں گر کر 84 ڈالر فی بیرل پر آ گئی ہیں۔ بین الاقوامی نرخوں کے مطابق پاکستان میں 16 اکتوبر سے پیٹرول کی قیمتوں میں تقریباً 22 روپے فی لیٹر کی نمایاں کمی متوقع ہے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی کا امکان ہے۔ مزید برآں، جب ڈالر کی شرح سے تبدیل کیا جائے تو پاکستان میں ایک بیرل تیل کی موجودہ قیمت 26,220 روپے کے لگ بھگ ہے۔ یہ 15 ستمبر کو 29,898 روپے فی بیرل کی قیمت سے نمایاں کمی ہے۔ واضح رہے کہ 30 ستمبر کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے کمی کی تھی جس کے بعد نئی قیمت 323 روپے 38 پیسے فی لیٹر ہوگئی تھی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل بھی 11 روپے سستا کر دیا گیا، نئی قیمت 318.18 روپے مقرر کی گئی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی شرح تبادلہ میں بھی حال ہی میں 20 روپے سے زیادہ کی کمی دیکھی گئی ہے۔ مزید برآں، تقریباً 23 دن پہلے، مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی خاطر خواہ آمد تھی۔ اگر حکومت اضافی ٹیکس لگانے سے گریز کرتی ہے تو پیٹرولیم کی قیمتوں میں یہ کمی ممکنہ طور پر عوام کو نمایاں ریلیف دے سکتی ہے۔

پیٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی متوقع Read More »