Pakistan

Artificial Rain in Lahore is planned

مصنوعی بارش کیا ہے اور سموگ کیخلاف کس حد تک فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے؟

لاہور: (ایگنایٹ پاکستان) سموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بعد لاہور کا مجموعی ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور محکمہ موسمیات کے مطابق دسمبر کے وسط تک قدرتی طور پر بارش کے امکانات بھی بہت کم ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر نگران پنجاب حکومت کی جانب سے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے 28 اور 29 نومبر کو مصنوعی بارش کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی ہے، ٹیکنیکل کمیٹی کے ممبر اور پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف جیوگرافی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منور صابر نے کہا کہ مصنوعی بارش پہلے سے موجود بادلوں پر نمک چھڑک کر برسائی جا سکتی ہے، ایک بار بارش برسانے کیلئے 4 کروڑ روپے خرچ آئے گا۔ ڈاکٹر منور صابر نے مزید بتایا کہ مصنوعی بارش سے موسمیاتی سسٹم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، چونکہ سموگ ہر سال شہر پر چھاتی ہے جس کی وجہ سے “مین میڈ” بارش کی ہر سال ضرورت ہوگی۔واضح رہے کہ پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف جیوگرافی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منور صابر نے تین سال پہلے مصنوعی بارش کرنے کا تصور پیش کیا تھا اور خانپور میں اس کا تجربہ بھی کیا گیا۔ مصنوعی بارش کیسے برستی ہے؟ مصنوعی بارش برسانے کا عمل بھی کافی دلچسپ ہے جس میں پہلے بادلوں کو کیمیکل کے ذریعے بھاری کیا جاتا ہے، مصنوعی بارش کلاؤڈ سیڈنگ تکنیک کے ذریعے ہوتی ہے، خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعے دو سے چار ہزار فٹ کی بلندی سے بادلوں کے اوپر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں، ان کیمیکلز کی وجہ سے بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بنتے ہیں اور بادل بھاری ہو جاتے ہیں اور برسات ہونے لگتی ہے۔ Cloud seeding یا مصنوعی بارش کے لیے جہاز کے ذریعے بادلوں پر کیمیکل چھڑکنے کے علاوہ زمین سے بھی راکٹ فائر کر کے ان پر کیمیکل چھڑکا جا سکتا ہے، یہ طریقہ کار زیادہ تر چین میں استعمال کیا جاتا ہے یعنی مطلوبہ کیمیائی مادوں کے راکٹ تیار کر کے انہیں بادلوں پر فائر کیا جاتا ہے اور اس طریقے سے مصنوعی بارش برسائی جاتی ہے۔ ہر بادل مصنوعی بارش کے لیے موزوں نہیں، نہ ہر موسم میں یہ برسات ہو سکتی ہے، اس کے لیے خاص ماحول درکار ہوتا ہے، ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دس میں سے تین قسم کے بادلوں میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا جاسکتا ہے، ایسے بادلوں کو مصنوعی بارش کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جن کی تہہ 7 سے 10 ہزار فٹ موٹی ہو۔ مصنوعی بارش کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہوا میں رطوبت یعنی نمی 70 سے 75 فیصد ہو اور ہوا کی رفتار 30 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو، ان سارے عوامل کی موجودگی میں ہی مصنوعی بارش کا تجربہ مکمل طور پر کامیاب ہو سکتا۔ دو امریکی سائنس دانوں ونسنٹ شیفر اور برنارڈ وونیگو نے 1946ء میں پہلی مرتبہ مصنوعی بارش کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی، انہوں نے ڈرائی آئس کا استعمال کرکے کامیاب کلاؤڈ سیڈنگ کی تھی۔ آج دنیا کے 50 سے زائد ملکوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں، امریکا، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ نقصانات مصنوعی بارش جہاں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں، پہلی بات تو یہ کہ بادلوں کو برسایا تو جا سکتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے ہی رکیں گے، دوسری بات اس سے ماحول پر غیر فطری دباؤ بڑھ جاتا ہے، شدید حبس اور گرمی بڑھ سکتی ہے، چونکہ اس بارش کے پانی میں کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں اس لیے یہ پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ مصنوعی بارش برسانے کے اس عمل میں بہت سے کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں، جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کیلشیم کلورائیڈ، پوٹاشیم کلورائیڈ، سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ، ایلومینیم آکسائیڈ اور زنک شامل ہیں، تاہم ان میں سب سے زیادہ مہلک سلور آیوڈائیڈ ہے، تنزانیہ میں پانی اور انسانی مسائل پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر وکٹوریہ نگومو کا کہنا ہے کہ مصنوعی بارش سے بہت سے بیماریاں جنم لیتی ہیں، جن میں ایڈز، ملیریا، کینسر جیسے مہلک امراض شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی تحقیق کے مطابق پانی میں حل نہ ہونے والا سلور آیوڈائیڈ ایک زہریلا مادہ ہے جو پانی کو آلودہ کردیتا ہے، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ کیمیکل انسانوں، مچھلیوں اور دیگر جانداروں کے لیے زہر کا درجہ رکھتا ہے، یہ کیمیکل جلد، سانس اور منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی کم مقدار بھی نظام انہضام کی خرابی، گردوں اور پھیپھڑوں میں زخم کا سبب بنتی ہے۔ کیا پاکستان میں مصنوعی بارش کرنا ممکن ہے؟ محکمہ موسمیات کے ریجنل ڈائریکٹر شاہد عباس کے مطابق مصنوعی بارش برسانا کوئی مشکل عمل نہیں لیکن اس تجربے کے کامیاب ہونے کے لیے کافی صورتیں ہیں جن کے بغیر مصنوعی بارش برسانا ناممکن ہے، انہوں نے بتایا کہ مؤثر کلاؤڈ سیڈنگ کے لیے کم از کم 40 فیصد بادلوں کا ہونا اور ہوا میں کم سے کم 70 فیصد نمی ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہوا کی رفتار بھی بہت معنی رکھتی ہے اور جب تک یہ صورتیں مکمل نہ ہوں تو مصنوعی بارش کا تجربہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ریجنل ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ مصنوعی بارش کا تجربہ اگر کامیاب بھی ہو جائے تو اس کو آلودگی ختم کرنے کے لیے مستقل حل تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بارش کے بعد آلودگی کم تو ضرور ہو گی مگر اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس میں دوبارہ اضافہ نہیں ہوگا۔ دنیا بھر میں مصنوعی بارش کا استعمال آج دنیا کے 50 سے زائد ملکوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں، امریکہ، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ 2008ء میں بیجنگ اولمپکس کے دوران اس کا استعمال کرکے اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ بارش افتتاحی اور اختتامی تقریب کا مزہ خراب نہ کر دے، اس کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ تکنیک کی

مصنوعی بارش کیا ہے اور سموگ کیخلاف کس حد تک فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے؟ Read More »

خدیجہ شاہ کی نظر بندی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

لاہور: (دنیا نیوز) معروف فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کی نظر بندی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ خدیجہ شاہ کے شوہر جہانزیب امین نے نظر بندی کو چیلنج کیا، درخواست میں وفاقی حکومت اور ڈپٹی کمشنر لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا ہے کہ خدیجہ شاہ کی نظر بندی بدنیتی پر مبنی ہے، خدیجہ شاہ کو قانون کے منافی نظر بند کیا گیا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت خدیجہ شاہ کو لاہور کی حدود سے باہر لیکر جانے سے روکنے کا حکم دے اور نظر بندی کے نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دے۔ 

خدیجہ شاہ کی نظر بندی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج Read More »

عام انتخابات کی تیاریاں، الیکشن کمیشن کا ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ

اسلام آباد: (ایگنایٹ پاکستان) الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں جس کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے چاروں صوبوں میں ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ کر لیا۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے مختلف اضلاع میں ریجنل الیکشن کمشنرز، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کے دفاتر سے ای ایم ایس کا تجربہ کیا، ای ایم ایس سسٹم جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ ای ایم ایس کے ذریعے نتائج انٹرنیٹ اور بغیر انٹرنیٹ کے بھی بھیجیں جاسکیں گے، پریذائیڈنگ افسران اپنے پولنگ سٹیشن کے نتائج ریٹرننگ افسران کو بھجوائیں گے، ریٹرننگ افسران رزلٹ تیار کر کے ڈیجیٹل اور مینوئل طریقے سے الیکشن کمیشن کو بھجوائے گا، ہر ریٹرننگ افسر کو چار چار ڈیٹا انٹری آپریٹرز دئیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن نے ڈیٹا انٹری آپریٹرز کو ٹریننگ بھی دے دی ہے، الیکشن کمیشن اور نادرا کے درمیان سرور ہوسٹنگ کا معاہدہ بھی طے پا گیا۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس ڈیٹا محفوظ کرنے کے لیے اپنا سرور ہی موجود نہیں، الیکشن کمیشن عام انتخابات کے لیے نادرا کے سرور کا سہارا لے گا، الیکشن کمیشن نادرا کے سرور ہوسٹنگ کی مد میں کرایہ ادا کرے گا۔ 

عام انتخابات کی تیاریاں، الیکشن کمیشن کا ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ Read More »

پنجاب حکومت نے کھانسی کے پانچ سیرپس پر پابندی لگا دی

لاہور: پنجاب حکومت نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے الرٹ کے جواب میں پانچ “زہریلے” کھانسی کے شربت کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے، یہ پیش رفت صرف دو ماہ کے اندر صوبے میں منشیات سے متعلق دوسرا بڑا سکینڈل ہے۔ لاہور کی ایک دوا ساز کمپنی کے تیار کردہ کھانسی کے سیرپ میں الکحل کی مقدار زیادہ پائی گئی۔ یہ شربت Mucorid، Ulcofin، Alergo، Emidone Suspension اور Zincell ہیں۔ یہ تشویشناک دریافت مالدیپ کی شکایات کے بعد ڈبلیو ایچ او کی تحقیقات کے بعد ہوئی، کیونکہ یہ شربت خطے کے دیگر ممالک کو بھی برآمد کیے گئے تھے۔ صوبائی حکومت نے محکمہ صحت کے حکام کو فوری طور پر ٹیمیں روانہ کرنے، مارکیٹوں سے زیر بحث ادویات کا پورا ذخیرہ ضبط کرنے اور مینوفیکچرر کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ واقعہ ستمبر میں ایک سابقہ ​​کیس کو ذہن میں لاتا ہے، جہاں ایک ملاوٹ شدہ انجیکشن والی دوائی نے پنجاب میں آنکھوں کے 80 سے زائد مریضوں کی بینائی سے سمجھوتہ کیا تھا۔ اس نے صحت کے حکام کی ادویات کی تیاری اور تقسیم کے عمل کی نگرانی میں نمایاں خامیوں کو بے نقاب کیا، خاص طور پر ان ادویات کی فراہمی کے لیے استعمال ہونے والی غیر رسمی نقل و حمل۔ یہ فرم لاہور شہر کے اندر موٹر سائیکلوں پر اور صوبے کے باقی حصوں میں مسافر بسوں پر ادویات فراہم کر رہی تھی۔ پنجاب کے نگراں وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا کہ حکومت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کی سفارشات پر فوری طور پر کھانسی کے شربت کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ انہوں نے کہا، “ڈریپ کی سفارش پر، پنجاب حکومت نے نہ صرف صوبے میں ان پانچ شربتوں کی فروخت روک دی ہے بلکہ مینوفیکچرنگ فیکٹری کو سیل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔” ڈان کی طرف سے دیکھی جانے والی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈریپ نے ان کھانسی کے شربتوں کے مخصوص بیچوں کو ڈائیتھیلین گلائکول (ڈی ای جی) اور ایتھیلین گلائکول (ای جی) جیسے نقصان دہ مادوں سے مشتبہ آلودگی کی وجہ سے واپس منگوایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے ایلرگو سیرپ کے بیچ نمبر B220 میں ڈی ای جی اور ای جی کی نجاست کی مشتبہ موجودگی کی بھی نشاندہی کی ہے، جس کی شناخت مالدیپ میں کی گئی ہے اور لاہور کی فارمکس لیبارٹریز (پرائیویٹ) لمیٹڈ نے تیار کی ہے۔ ڈریپ کے لاہور یونٹ کی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ہے کہ یہ نجاست دیگر بیچوں اور مصنوعات میں بھی موجود ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ “یہ یاد دہانی ایک احتیاطی اقدام ہے جو صحت عامہ کو ان نجاستوں کے ممکنہ نقصان دہ اثرات سے بچانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔” مینوفیکچرنگ کمپنی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر مذکورہ مصنوعات کے ناقص بیچز کو مارکیٹ سے واپس منگوائے۔ رپورٹ میں ڈسٹری بیوشنز اور فارمیسیوں میں کام کرنے والے تمام فارماسسٹوں اور کیمسٹوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے اسٹاک کو چیک کریں اور مشتبہ مصنوعات کے ان بیچوں کی سپلائی بند کریں۔ بقیہ اسٹاک کو قرنطین کیا جائے اور سپلائر یا کمپنی کو واپس کیا جائے، اس نے مزید کہا کہ ڈریپ اور صوبائی محکمہ صحت کی ریگولیٹری ٹیموں کو اس معاملے پر بریفنگ دی گئی ہے اور مارکیٹ میں نگرانی بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ خراب مصنوعات کی مؤثر واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ڈریپ نے ان اداروں، فارمیسیوں اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کی سپلائی چینز کے اندر چوکسی بڑھانے کی تجویز بھی دی ہے جو زیر بحث ان مصنوعات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “اس پروڈکٹ کے استعمال کے ساتھ پیش آنے والے منفی رد عمل یا کوالٹی کے مسائل کی اطلاع Drap کے نیشنل فارماکوویجیلنس سینٹر کو دی جا سکتی ہے، Adverse Event رپورٹنگ فارم کا استعمال کرتے ہوئے یا دیے گئے لنکس کے ذریعے آن لائن”۔ اس نے صارفین کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ متاثرہ بیچ نمبر والی پروڈکٹ کا استعمال بند کر دیں اور اپنے معالجین یا صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں سے رابطہ کریں اگر انہیں کوئی ایسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو زیر بحث دوائیوں کو لینے یا استعمال کرنے سے متعلق ہو سکتا ہے۔

پنجاب حکومت نے کھانسی کے پانچ سیرپس پر پابندی لگا دی Read More »

Is Nawaz Shareef Statment against women the narrative of PML(N)

خواتین کے ’ناچ گانے‘ سے متعلق بیان: کیا ’90 کی دہائی میں پھنسے‘ نواز شریف کا یہی سیاسی بیانیہ ہے؟

’ہمارے جلسے بھی ہوتے ہیں اور وہاں خواتین بھی ہوتی ہیں۔ وہ آتی ہیں جلسہ سنتی ہیں اور پُرامن بیٹھتی ہیں۔ وہاں کوئی دھمال یا ناچ گانا نہیں ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کا کلچر نہیں ہے۔‘ سابق وزير اعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شريف نے کوئٹہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ انھوں نے خواتین سے متعلق اس نوعیت کا کوئی بیان دیتے ہوئے اپنے حریف عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو نام لیے بغیر نشانہ بنایا ہو۔ گذشتہ ماہ جب وہ چار سال کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد پاکستان پہنچنے تو انھوں نے مینارِ پاکستان جلسے کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’دیکھیں ہماری بہنیں کتنی آرام سے جلسہ سن رہی ہیں، کوئی ڈھول کی تھاپ پر ناچ گانا نہیں ہو رہا، میری بات سمجھ گئے یا نہیں سمجھے؟‘ اب کوئٹہ میں دوبارہ ایسے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر نواز شریف کے خلاف ردعمل آیا ہے اور کئی لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آیا خواتین کے حوالے سے یہ موقف آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے نئے بیانیے کا حصہ ہے۔ریف کے بیان کی مذمت کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ناصر چغتائی نے تبصرہ کیا کہ ’یہ ان کی اندرونی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ ہر مرتبہ یہ بات کیوں کر رہے ہیں؟‘ شمع جونیجو نے لکھا ’میاں نواز شریف کا جلسوں میں اپنے لیڈران (جن میں وہ خود بھی شامل ہیں) کے لیے دھمال ڈالنے والی خواتین کو دوسری بار ٹارگٹ بنانا انتہائی مایوس کُن ہے۔ ہمیں وہ دن نہیں بھولے جب نیند میں سونے والے سین میں بھی پی ٹی وی کے ڈراموں میں ہمیں سر پر دوپٹہ پہنا کے ریکارڈنگ کروائی جاتی تھی۔۔۔ یہ انیس سو نوے نہیں، دو ہزار تیئس ہے میاں صاحب!‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’خُوشی اور عقیدت کی دھمال پاکستان کا کلچر ہے۔ قلندر کی درگاہ ہو یا داتا دربار، دھمال صرف مردوں کے لیے نہیں!‘ صحافی مطیع اللہ جان نے پاکستان کے قومی لیڈران کے ایسے بیانات پر تبصرہ کیا کہ ’پس ثابت ہوا کہ انسان کے سیکھنے کے لیے لندن یا آکسفورڈ میں رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔‘ انھوں نے نواز شریف اور عمران خان دونوں کے بیانات پر طنز کیا کہ ’کچھ خواتین ناچ گانا نہیں کرتی، اور کچھ مرد روبوٹ نہیں ہوتے۔ واہ رے ووٹروں کی قسمت جائیں تو کہاں؟‘ تاہم سماجی کارکن ایمان مزاری کے مطابق نواز شریف کی طرف سے اس قسم کے ’بدتمیزی پر مبنی تبصرے مسلم لیگ ن کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘ وہ اس بارے میں شمع سے اتفاق کرتی ہیں کہ ’نواز شریف 90 کی دہائی میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہی تقریریں کر رہے ہیں۔‘ دریں اثنا خواتین کے حقوق کی تنظیم عورت مارچ نے مینارِ پاکستان جلسے کے دوران نواز شریف کے خواتین مخالف بیان کی مذمت میں لکھا تھا کہ ’خواتین کو ’اچھی‘ اور ’بُری‘ عورت میں تقسیم کرنا پتھروں کے زمانے کا طریقہ کار ہے۔‘ ’ناچ گانے کا شوق رکھنے سے عورت یا کسی بھی انسان کے ذاتی کردار پر سوال اٹھانا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔‘ کیا پاکستانی سیاست میں خواتین کو ’پُرامن طریقے سے بٹھانا‘ ہی مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے؟ عمران خان ہوں یا نواز شریف، جب بھی پاکستان میں کوئی بڑا سیاسی لیڈر اس قسم کا بیان دیتا ہے تو عموماً جماعت کے دیگر رہنما اس پر وضاحت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بی بی سی نے مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری سے نواز شریف کے بیان کا مطلب پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ میاں صاحب نے اس سیاق و سباق میں بات کرنے کی کوشش کی ہے کہ ورکرز کنونشن میں خواتین بھی موجود تھیں، اس کے باوجود مسلم لیگ ن کا طرز تحریک انصاف سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے جلسے پاکستانی کلچر سے مطابقت رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں میاں صاحب نے کہا ہے کہ ’وہاں عورتیں دھمال ڈالتی ہیں مگر ہماری عورتیں چپ کر کے بیٹھتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔‘ عظمیٰ بخاری کے مطابق ’میاں صاحب نے کلچر اور (مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان) فرق کی بات کی تھی۔ انھوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ غلط ہے یا صحیح ہے۔‘ انھوں نے سوال کیا کہ آپ خود دیکھیں تحریک انصاف کے جلسوں میں ’کیا کچھ نہیں ہوتا رہا؟ خواتین پر جس نوعیت کے تبصرے ہوتے ہیں، ان سے جیسا سلوک ہوتا تھا، وہ بھی سب کو معلوم ہے۔۔۔ ہم اس لیے اس کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کی ایک مخصوص کلاس ہے جو اکثریت کی عکاسی نہیں کرتی۔‘ جب بی بی سی نے عظمیٰ بخاری سے پوچھا کہ کیا خواتین سے متعلق یہ موقف مسلم لیگ ن کے بیانیے کا حصہ ہے تو انھوں نے اس سے انکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماڈرن ہونا صرف یہی نہیں کہ آپ ناچ گانا کریں کیونکہ مخصوص حالات میں ہمارے معاشرے میں اس پر ردعمل بھی آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نظریاتی طور پر ان کی جماعت ترقی پسند خواتین اور نوجوانوں کے ساتھ کنیکٹ کرتی ہے۔ ’ہمارا بیانیہ یہی ہے کہ آپ نظریاتی طور پر جدت اور ترقی کا سفر طے کریں۔‘ سابق رکن قومی اسمبلی سائرہ افضل تارڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں حلقے کی سیاست کے دوران ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات نہیں بھولتی کہ میں ایک خاتون ہوں۔‘ انھوں نے گذشتہ الیکشنز میں بطور امیدوار حصہ لینے کے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ ’لوگوں کی اکثریت مجھے بغیر چادر کے قبول نہیں کرے گی۔ اگر میں اپنے کلچر کے ساتھ منسلک نہیں رہوں گی تو میں پاکستان میں سیاست نہیں کر سکوں گی۔‘ سائرہ افضل کے مطابق ان کی کامیابی کی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خود کو اپنی تہذیب سے جوڑے رکھا ہے۔ ’میاں صاحب نے جو بات کی وہ کلچر سے منسلک ہونے سے متعلق ہے۔ پی ٹی آئی کے ہر جلسے میں بدمزگی ہوتی ہے اور خواتین خود کو

خواتین کے ’ناچ گانے‘ سے متعلق بیان: کیا ’90 کی دہائی میں پھنسے‘ نواز شریف کا یہی سیاسی بیانیہ ہے؟ Read More »

Lahore Collision of Vehicle in DHA

لاہور میں گاڑی کی ٹکر سے چھ افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟

پاکستان کے شہر لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں حال ہی میں ایک گاڑی کی ٹکر سے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کے ہلاک ہونے کے واقعے کے مقدمے میں پولیس نے ملزم کے خلاف قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف یہ دونوں دفعات مرنے والوں کے لواحقین کی درخواست پر مقدمے میں شامل کی گئی ہیں۔ تاہم ملزم کے وکیل نے پولیس کے اس اقدام کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے فیز 7 میں گذشتہ سنیچر کو ایک تیز رفتار گاڑی نے دوسری گاڑی کو ٹکر ماری، جس میں سوار ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ابتدا میں پولیس کا کہنا تھا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کو چلانے والا کم عمر ڈرائیور تھا جو گاڑی چلانے یا لائسنس رکھنے کا اہل نہیں تھا۔ اس وقت پولیس نے اس واقعے کو ٹریفک حادثہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر درج کی تھی، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 279 اور 322 لگائی گئی تھیں۔ یہ دفعات ٹریفک حادثے کی صورت میں دیت کے حوالے سے ہیں۔ اس میں ملزم کے باآسانی رہا ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ خیال رہے کہ اس مقدمے میں اس وقت پولیس نے پی پی سی کی دفعہ 320 نہیں شامل کی تھی۔ دفعہ 320 کے تحت ’لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہوئے نقصان کرنے کی صورت میں ملزم کو دیت کے ساتھ ساتھ دس سال تک سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘ اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟ اس واقعے کا مقدمہ تھانہ ڈیفنس سی سے کاہنہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق مقدمے میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات مدعی مقدمہ کی درخواست پر شامل کی گئی ہیں جنھوں نے پولیس کو نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ ہلاک ہونے والے چھ افراد میں سے ایک کے والد رفاقت علی مدعی مقدمہ ہیں۔ لاہور پولیس کے مطابق انھوں نے نئی معلومات میں پولیس کو بتایا ہے کہ واقعے سے قبل ملزم کی ان کے بیٹے سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔ مدعی نے پولیس کو بتایا ہے کہ ’میرے بیٹے نے اور میں نے گاڑیاں روک کر ملزم کو منع کیا تھا کہ وہ ہماری گاڑیوں کا پیچھا نہ کرے کیونکہ وہ کافی فاصلہ سے اس گاڑی کا تعاقب کر رہا تھا جس میں خواتین بھی سوار تھیں۔’ مدعی نے پولیس کو بتایا کہ منع کرنے پر ملزم نے ان کو دھمکایا اور ان کا تعاقب جاری رکھا۔ مدعی کے مطابق اس کے بعد ہی ملزم نے تیز رفتاری سے اپنی گاڑی کی ٹکر اس گاڑی کو ماری جس میں ان کا بیٹا اور خاندان کے پانچ دیگر افراد سوار تھے۔ مدعی مقدمہ نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ ملزم اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ دو افراد گاڑی میں اور بھی سوار تھے؟ کیا ملزم کو کم عمر ملزم تصور کیا جا رہا ہے؟ پولیس کی طرف سے نئی دفعات مقدمے میں شامل کرنے کے خلاف ملزم نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ان کے وکیل کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کی عمر 17 سال کے لگ بھگ ہے اور اس لیے وہ قانونی طور پر جووینائل یا کم عمر ملزم تصور ہونے چاہئیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست میں ملزم کے وکیل نے موقف اپنایا ہے کہ ‘یہ واقعہ ایک ٹریفک حادثہ تھا جو پولیس اپنی پہلی ایف آئی آر میں کہہ چکی ہے اور ٹریفک حادثے کے نتیجے میں چھ لوگوں کی اموات ہوئی۔’ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلی محسن نقوی کے حکم پر پولیس نے ایف آئی آر میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کی ہیں۔ ‘پولیس کے اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے اور ملزم کو اس کے تمام آئینی حقوق فراہم کیے جائیں۔’ انھوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان حقوق میں منصفانہ ٹرائل کا بنیادی حق بھی شامل ہے۔ ‘جووینائل ہونے کے ناطے ملزم کو جووینائل عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور اسی جیل میں رکھا جانا چاہیے تاہم ایسا نہیں کیا گیا جو ملزم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘ عدالت نے ان کی درخواست پر پولیس سے جواب طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ ملزم 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں قید ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق ملزم کی حقیقی عمر کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں، جس وجہ سے پولیس ان کی عمر کا تعین کرنے کے لیے ٹیسٹ کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کم عمر بچے ڈرائیونگ کیوں کرتے ہیں؟ پاکستان یا لاہور میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں کوئی کم عمر ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے حادثے کا سبب بنا ہوا۔ لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز نے ایگنایٹ پاکستان  سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کم عمر ڈرائیورز لاہور پولیس کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک پولیس 20 ہزار سے زیادہ کم عمر ڈرائیورز کے چالان کر چکی ہے۔ ’ان میں زیادہ تر کاریں اور موٹر سائیکلیں وغیرہ شامل ہیں اور اس نوعیت کے جرائم زیادہ تر شہر کے پوش علاقوں سے سامنے آتے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر واقعات میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم عمر ڈرائیورز وہ ہوتے ہیں جو شوقیہ گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں۔ ’یہ ممکن نہیں کہ سکول آنے جانے والے بچوں کے لیے پرائیویٹ یا پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی نہ ہو۔ یہ زیادہ تر وہ بچے ہوتے ہیں جو شوق سے ڈرائیونگ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے تو اس میں کوئی مجبوری کا عنصر بظاہر نہیں ہوتا۔‘ سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز نے بتایا کہ ٹریفک پولیس اس حوالے کم عمر ڈرائیورز کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی مہمات چلاتی رہتی ہے جو اس نوعیت کے جرائم کو روکنے کا ایک طریقہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ لاہور میں 70 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں ہیں جبکہ دوسری

لاہور میں گاڑی کی ٹکر سے چھ افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟ Read More »

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ تو دے دی ہے لیکن ابھی شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ تاہم اکثر سیاسی جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے ٹکٹ کے حصول میں دلچسپی رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرنی شروع کر دی ہیں۔ سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے تین نومبر کو جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے پانچ دسمبر تک درخواستیں طلب کیں ہیں۔ یہ درخواستیں عام انتخابات میں حصہ لینے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی امیدوار اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور سیاسی جماعت اس کی مقبولیت اور دیگر پہلووں کا جائزہ لے کر اسے ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلے کرتی ہے۔ لیکن جہاں قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں جیسے کہ پیپلز پارٹی اس درخواست کے ساتھ قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے 40 ہزار اور صوبائی اسمبلی کے لیے 30 ہزار روپے کا بینک ڈرافٹ بھیجنے کی ہدایت دے رہی ہیں، ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے قومی اور صوبائی حلقوں کے درخواست گزاروں کے لیے بلترتیب ڈیڑھ اور ایک لاکھ کی فیس مقرر کی ہے۔ سابق حکمراں جماعت اور اس بار کی مبینہ طور پر فیورٹ سمجھی جانے والی مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی کی نشست کے ٹکٹ کے لیے دو لاکھ اور صوبائی کے لیے ایک لاکھ روپے کی ٹکٹ فیس مقرر کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی غریب آدمی اپنے جیسے عوام کے مسائل کے حل کے لیے اگر انتخابات میں حصہ لینے کا سوچتا ہے تو اسے پہلے تو یہ بڑی رقم جمع کرانا ہوگی بعد میں انتخابی مہم کے اخراجات تو الگ ہیں۔ کیا بلوچستان کا کویی غریب آدھی الیکشن میں حصہ لے سکے گا؟ باپ پارٹی نے اقومی اخبارات میں مہنگے اشتہارات کے ذریعے درخوستیں طلب کی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے درخواستیں اس سال مارچ کو طلب کی تھیں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا امکان موجود تھا۔ پارٹی نے یہ درخواستیں سابق صدر آصف علی زرداری کے نام بھیجنے کا کہا اور ساتھ میں شناختی کارڈ کی کاپی اور رابطہ نمبر کا تقاضہ بھی کیا۔ اس حوالے سے سینیئر صحافی نے ایگنایٹ پاکستان  کو بتایا کہ ‘غریب کو الیکشن لڑنا ہے تو چندا اور ادھار لینا ہوگا کیونکہ صوبائی ہو یا قومی اسمبلی کی ہر نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے لاکھوں کی فیس بطور رجسٹریشن کے دینا ہو گی۔ جس کا مطلب ہے کہ مسائل۔ بدحالی کا شکار غریب خود سیاست میں آکر اپنے جیسوں کی قسمت بدلنے کا خوب تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکے گا۔‘

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟ Read More »

Health Minister Fails to produce reslults because of disputes in caretake setup

سندھ کی نگران کابینہ اختلافات، وزیرصحت ہسپتال بہتر کرنے میں ناکام رہے، نگراں وزیراعلیٰ

سندھ کے نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر نے صوبائی نگران وزیر صحت کی جانب سے مداخلت کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر سعد خالد نیاز ہسپتالوں کی صورت حال بہتر کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جسٹس (ر) مقبول باقر اور ڈاکٹر سعد خالد نیاز کے درمیان اختلافات اربوں روپے کے ٹینڈر کی منسوخی پر پیدا ہوئے جو گہرے ہوگئے ہیں۔ ڈان کو ذرائع نے بتایا کہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر(جے پی ایم سی)، گمبٹ ہسپتال اور لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز ہسپتال کے لیے 4 روبوٹک سسٹمز کی خریداری سے متعلق ٹینڈر گزشتہ ماہ نگران وزیر صحت نے اس لیے منسوخ کر دیا تھا کہ روبوٹک نظام انتہائی مہنگا ہوتا ہے اور معمول کی سرجریز کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بااثر جماعت ٹینڈر کے عمل میں ملوث تھیں اور مخصوص حلقے مبینہ طور پر نگران وزیرصحت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ بظاہر نگران وزیراعلیٰ بھی وزیرصحت کے اعتراض پر مطمئن نہیں تھے اور منگل کو انہوں نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کا دورہ کیا اور وہاں پر روبوٹک سرجری کے بارے میں بریفنگ بھی لی۔ اس حوالے سے مزید بتایا کہ سینئر حکومتی عہدیداروں نے وزیرصحت کو بتایا کہ وہ اپنا فیصلہ تبدیل کریں کیونکہ ٹینڈر کا عمل پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں شروع ہوگیا تھا اور نگران حکومت اس طرح کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ بعد ازاں بدھ کو نگران وزیرصحت نے ایک بیان جاری کیا کہ روبوٹک سسٹم کی خریداری روکنے کا فیصلہ ماہر سرجنز کی آرا کی روشنی میں کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا کہ روبوٹک سسٹم کی خریداری میں خامیاں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ میں نے نگران وزیراعلیٰ کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا یہاں تک کہ پھر انہوں نے معاملے میں مداخلت کی اور وزیراعلیٰ نے یک طرفہ فیصلہ کیا اور ایس آئی یوٹی چلے گئے اور صورت حال سے ہمیں لاعلم رکھا۔ دوسری جانب نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر کی جانب سے جمعرات کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ’محکموں کے اچانک دوروں سے ثابت ہو اکہ ڈاکٹر سعد نیاز ہسپتالوں کو بہتر کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں‘۔ بیان میں کہا گیا کہ نگران وزیرصحت ہسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے کے بجائے ایس آئی یو ٹی جیسے عظیم ادارے پر تنقید کی اور بدنیتی کی بنیاد پر جائزہ اجلاس تین مرتبہ ملتوی کروایا تاکہ اُن کی ناقص کارکردگی کا جائزہ نہ لیا جاسکے۔ نگران وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ ’وزیرصحت اپنے بیان میں جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ کوئی مہذب یا پیشہ ور ڈاکٹر یا وزیر استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، جس طرح کی غلط بیانی کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جھوٹ کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی‘۔ انہوں نے کہا کہ جب نگران وزیر صحت سے جواب طلب کیا گیا تو وہ بے بنیاد اور جھوٹے بیانات پر اُتر آئے اور آئین و قانون کی پامالی پر بضد ہیں اور اپنی ناکامی پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔ ترجمان وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئین و قانون کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ تمام صوبائی محکموں کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے اُن کو وقتاً فوقتاً ہدایات دینے کے پابند ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا کہ ’وزیرصحت محکمہ صحت میں اپنی مرضی کا سیکریٹری لگا کر اپنا ذاتی ایجنڈا چلانا چاہتے ہیں‘۔ مزید بتایا گیا کہ نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے عوام کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی، آئین، قانون اور قواعد و ضوابط کی پابندی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

سندھ کی نگران کابینہ اختلافات، وزیرصحت ہسپتال بہتر کرنے میں ناکام رہے، نگراں وزیراعلیٰ Read More »

Pakistan and IMF

آئی ایم ایف نے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل سیکٹرز پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی۔

اسلام آباد – بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے پر پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات کے دوران ریٹیل، ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی قرض دینے والے ادارے نے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں رواں مالی سال کے دوران ریٹیلرز پر فکسڈ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ آئی ایم ایف نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس لگانے پر اصرار کیا۔ آئی ایم ایف کے وفد کو بتایا گیا کہ زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کے لیے صوبوں سے مشاورت ضروری ہے۔ قرض دینے والے نے زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے صوبوں سے ٹائم فریم مانگنے کی تجویز دی۔ آئی ایم ایف کو ٹیکس ریگولیٹر کے دائرہ کار میں ٹیکس پالیسی اور مینجمنٹ ٹاسک فورس کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ اگر آئی ایم ایف جائزہ کے دوران پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہے تو دسمبر تک 700 ملین ڈالر کی دوسری قسط جاری کر دی جائے گی۔ نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے اس ہفتے کے دوران فریقین کے وفود کی قیادت کی اور ون آن ون ملاقاتیں کیں۔

آئی ایم ایف نے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل سیکٹرز پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی۔ Read More »

Polluttion in Lahore Smog In Punjab

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔ سموگ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک؟ نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔ ماحولیات کے اُمور پر کام کرنے والے کارکن، وکیل اور ماہر رافع عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں انڈیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 48 فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔ ’اب آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ فضائی آلودگی کی یہ قسم کس حد تک انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔‘ ’یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے‘ لاہور میں حالیہ سموگ اور فضائی آلودگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے شہریوں کی زندگی اور صحت کو کیسے متاثر کیا اس بارے میں چند رہائشیوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی تکلیف بیان کی۔ ڈیڑھ برس کی بیٹی کی والدہ سارہ ذیشان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی بُری طرح سموگ سے متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس کا گلا خراب، کھانسی، بخار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے منھ میں چھالے بھی نکل آئے ہیں اور اسے کھانے پینے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سارہ اور ان کے خاندان کی طرح لاہور شہر میں بسنے والے لاکھوں افراد سموگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امیر حمزہ جو ایک سیلز مین ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا روزگار منسلک ہی ایسے کام سے ہے جس کے لیے سارا دن گھر سے باہر رہ کر موٹر سائیکل چلانا ہوتی ہے۔ ’میں مختلف پوانٹس پر جا کر پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اور جب دن بھر کام کر کے گھر جاتا ہوں تو فضائی آلودگی اور سموگ کے باعث آنکھیں سرخ اور جلن کا شکار ہوتی ہیں۔ ابھی بھی مجھے زکام، گلا خراب اور کھانسی ہے۔ آئے روز بیمار رہنے کے باعث کام بھی متاثر ہوتا ہے۔‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے آنکھوں میں جلن اور پانی آنے کے باعث جگہ جگہ بائیک روک کر پانی سے آنکھیں دھونی پڑتی ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے۔‘ سموگ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کا مطلب کیا ہے؟ رافع عالم کے مطابق سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسیوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔ ’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘ یہ چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم یں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی شہر یا علاقے کی فضا میں موجود پی ایم 2.5 ذرات کی تعداد 25 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزا، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے وہ ان کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین فضا میں موجود مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کر کیا جاتا ہے۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ گیسیں فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘ Read More »