Latest News

Latest News

پنجابی ہپ ہاپ سنگرز جن کا کریئر انڈیا کینیڈا تنازعے میں پِس رہا ہے

کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے ممکنہ طور پر انڈین اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد گذشتہ ماہ جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تو اس تناظرمیں انڈیا کے پنجابی ریپرشوبھنیت سنگھ کا انڈیا کا دورہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اس دورے کو ملتوی کرنے کی وجہ ایک تنازع تھا جو ایک پرانی سوشل میڈیا پوسٹ پر شروع ہوا جس میں انھوں نے انڈیا کا غلط نقشہ شیئر کیا ہوا تھا۔ کینیڈا میں شوبھ کے نام سے پہچانے والے سنگر پر خالصتان (سکھوں کاعلیحدہ وطن کے مطالبے) کی حمایت کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ خالصتان انڈیا میں ایک حسّاس موضوع ہے اور 1980 کی دہائی میں اس تحریک میں شدت آنے سے پرتشدد مظاہرے بھی سامنے آئے تھے۔ کینیڈا میں انڈیا کی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں اور اسی لیے اسے پنجابی موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ فنکار نہ صرف اپنا وقت اور فن دونوں ممالک میں بانٹتے کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے کینیڈا سے انڈیا کا سفر ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے جہاں ان فنکاروں کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ چنانچہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے جب یہ کہا گیا کہ ان کا ملک ان ’قابل اعتماد الزامات‘ کی تحقیقات کررہا ہے جو سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے انڈیا کا تعلق جوڑ رہے ہیں تو اس سفارتی محاذ نے دونوں ممالک کو اپنا گھر کہنے والے موسیقاروں کو پریشان کردیا ہے۔ واضح رہے کہ انڈیا نے کینیڈا کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم اس بیان کے بعد سے انڈیا نے کینیڈا کے شہریوں کو ویزا جاری کرنا بند کر دیا ہے۔ پنجابی ریپرشوبھنیت سنگھ عرف شوبھ نے لوگوں سے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ ہر پنجابی کو علیحدگی پسند یا ملک دشمن قرار دینے سے گریز کریں تاہم اس کے بعد سے اب انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور بات صرف تنقید پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ شوبھ کو اپنا پسندیدہ فنکار کہنے والے انڈین کرکٹر ویرات کوہلی سمیت بعض انڈین کرکٹرز نے سوشل میڈیا پر ان کو فالو کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح لاکھوں ’فین فالوورز‘ رکھنے والے ایک اور انڈین نژاد کینیڈین ریپراے پی ڈھلون کو بھی اس وقت سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے شبھ کے کنسرٹ کے منسوخ ہونے کے بعد اپنی پوسٹ میں سنگرز پر ہر بارشک و شبہہ کرنے کے بارے میں پوسٹ کیا۔ شوبھ اور ڈھلون دونوں کینیڈا کے نوجوان ہپ ہاپ موسیقاروں میں شامل ہیں جنھوں نے پچھلی ایک دہائی کے دوران پنجابی میوزک انڈسٹری کو عروج پر پہنچایا ہے۔ ان کے فنک، ہپ ہاپ اور ہارڈ راک میں پیش کیے گئے میوزک میں پنجابی دھنوں اور منظر کشی کے ساتھ ساتھ سکھوں کی ثقافت کا رنگ موجود ہے جو نہ صرف سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے بلکہ یہی افرادیت انھیں اکثر بین الاقوامی میوزک چارٹس میں شامل رکھتی ہے۔ اس سال کے آغاز میں اداکار اور گلوکاردلجیت دوسانجھ نے کیلیفورنیا کے مشہور میوزک فیسٹیول کوچیلا میں پرفارم کرنے والے پہلے پنجابی سنگر کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ ’جو ہو رہا ہے وہ خالصتاً سیاسی اور ثقافت کو دبانے کی زندہ مثال ہے‘ موسیقی کی صنعت سے منسلک افراد اور ماہرین دہلی اور اوٹاوا کے درمیان تنازع کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کشیدہ صورت حال نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہت متاثر کیا ہے۔ رولنگ سٹون انڈیا کی سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر نرمیکا سنگھ کا اس ساری صورت حال پر کہنا ہے کہ ’جب بھی دو ممالک کے درمیان کوئی تنازع سامنے آتا ہے چاہے وہ کم سطح کا ہو یا سخت نوعیت کا، اس صورت حال میں سب سے ذیادہ متاثر ہونے والی چیز ثقافتی تجارت (کلچرل ٹریڈ) ہے، جس کی مثال ہم نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ دیکھی ہے۔‘ واضح رہے کہ انڈین اور پاکستانی موسیقاروں اور فلم سازوں کے درمیان ثقافتی تعاون گذشتہ چند سالوں سے منقطع ہے۔ تاہم لوگوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اس کے مقابلے میں انڈیا اور کینیڈا کے درمیان پنجابی میوزک انڈسٹری کئی ذیادہ گنا متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ پنجابی نغمہ نگار پالی گدرباہا اس معاملے کو خالص سیاسی قرار دیتے ہیں۔ ’جو کچھ بھی یہ ہو رہا ہے وہ خالصتاً سیاسی ہے اور ثقافت کو دبانے کی زندہ مثال ہے۔‘ پالی گدرباہا کے مطابق ’ سننے والے اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ سفارتی سطح پر کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں اور پنجابی موسیقی ہمیشہ پیش کرتی ہے۔‘ اس بیان کی نشاندہی 2022 کے وہ اعداد و شمار کرتے ہیں جو میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارم سپاٹی فائی نے سب سے ذیادہ سنے جانے والے گانوں کے حوالے سے جاری کیے تھے۔ ’شائقین ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں جو پنجابی موسیقی کا خاصہ ہے‘ میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارم سپاٹی فائی کے مطابق 2022 میں انڈیا میں سب سے زیادہ سٹریم کیے جانے والے ہر 10 میں سے چار گانے پنجابی تھے اور ان میں ڈھلون اور گرندرگل سمیت انڈین نژاد کینیڈین سنگرز کے ٹریک شامل تھے۔ ان کے مطابق یہ ڈیٹا بہت متاثر کن ہونے کے ساتھ ساتھ انڈیا میں ہونے والی ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے جہاں بالی وڈ گانے روایتی طور پر میوزک چارٹس پر حاوی رہتے تھے۔ ’میوزک کے شائقین کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ سفارتی سطح پر کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں جو پنجابی موسیقی کا خاصہ ہے۔‘ مقبول پنجابی موسیقی کی نوعیت خود بھی ان دوہری ثقافتوں سے متاثر ہوئی ہے جہاں سے یہ موجود ہے۔ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں امر سنگھ چمکیلا جیسے پنجابی لوک گلوکار کینیڈا میں سکھوں میں بہت مقبول تھے۔ دلیر مہندی جیسے موسیقار کا وہاں کا دورہ ایک معمول کا حصہ تھا۔ جیسے جیسے کمیونٹی میں

پنجابی ہپ ہاپ سنگرز جن کا کریئر انڈیا کینیڈا تنازعے میں پِس رہا ہے Read More »

ICC Mens Cricekt World Cup 2023 India

سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث

ایک روزہ کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو گیا ہے اور لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ میچ دیکھنے والوں کی بھیڑ کہاں ہے؟ پہلا میچ گذشتہ ورلڈ کپ کی فاتح انگلینڈ اور رنر اپ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان انڈیا کے سب سے بڑے سٹیڈیم میں جمعرات کو کھیلا گیا لیکن اکثریت میں لوگوں کے بجائے خالی سیٹیں ہی نظر آئیں۔ یہی حال جمعے کی شام پاکستان اور نیدر لینڈز کے درمیان حیدرآباد میں کھیلے جانے والے دوسرے میچ کا تھا جہاں زیادہ تر نشستیں خالی تھیں۔ بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا میں اس سے زیادہ بھیڑ تو آئی پی ایل کے میچز دیکھنے کے لیے اکٹھا ہو جاتی ہے۔ تو کیا بی سی سی آئی لوگوں کو سٹیڈیم لانے میں ناکام رہی ہے؟ گجرات کے ایم ایل اے جگنیش میوانی نے ٹوئٹر پر احمد آباد میں جمعرات کو ہونے والے ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں خالی سٹیڈیم کو ‘فیاسکو’ یا رسوائی قرار دیا اور بی سی سی آئی کی ٹکٹنگ کے عمل میں مبینہ شفافیت کی کمی پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ‘جب ‘بُک مائی شو’ (پلیٹ فارم) پر ٹکٹ کی فراہمی شروع ہوئی تو چند منٹوں میں ہی سارے ٹکٹ فروخت ہو گئے۔ تو پھر ایسا کیونکر ہوا کہ اتنے کم لوگ میچ دیکھنے کے لیے پہنچے؟’ ان رپورٹوں کی بنیاد پر جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ‘خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کا جشن منانے کے لیے’ بی جے پی کی جانب سے خواتین کو 40,000 ٹکٹ مفت پیش کیے گئے، مسٹر میوانی نے کہا کہ ٹکٹوں کی فروخت ستمبر کے پہلے ہفتے تک ختم ہو چکی تھی جبکہ بل آخری ہفتے میں منظور ہوا ‘تو پھر عورتوں کے لیے یہ اضافی ٹکٹ کہاں سے آئے؟’ کانگریس کے ایم ایل اے نے مزید سوال کیا کہ ‘کیا بی سی سی آئی اس طرح سے کسی ایک سیاسی پارٹی کو ٹکٹ دے سکتی ہے؟’ مسٹر میوانی نے خالی سٹیڈیم کی ایک ویڈیو اور دو تصویریں ڈال کر لکھا: ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسا گٹھ جوڑ چل رہا ہے جس نے کرکٹ کے شائقین کو طویل عرصے سے اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ ٹکٹنگ کے عمل میں کوئی شفافیت نہیں ہے جس کی وجہ سے لاتعداد شائقین مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔’ بہر حال بہت سے کرکٹرز اور صارفین نے سٹیڈیم کے خالی ہونے کی توجیہ بھی پیش کی ہے۔ سابق انڈین کرکٹر اور کمنٹیٹر عرفان پٹھان نے ٹویٹ کیا کہ ’جو لوگ خالی سٹیڈیم کا رونا رو رہے ہیں وہ محروم ہو گئے ہیں، اس لیے بیکار کی ٹویٹس کر رہے ہیں۔ ورلڈ کپ انڈیا میں ہو رہا ہے اور دنیا کے بہترین سٹیڈیموں میں سے ایک میں۔ اس گھڑی کا مزا لیں اور انھیں رونے دیں۔’ جبکہ سابق انڈین اوپنر ویریندر سہواگ نے کہا ہے کہ جن میچز میں انڈیا نہ کھیل رہا ہو سکول کے طلبہ کو مفت ٹکٹ فراہم کیا جائے۔ انھوں نے لکھا کہ ’50 اوورز کے گیم میں لوگوں کی کم ہوتی دلچسپی کے مد نظر نوجوانوں کو ورلڈ کپ دیکھنے کا تجربہ فراہم کیا جانا چاہیے تاکہ کھلاڑی بھی بھرے ہوئے سٹیڈیم میں کھیلنے کا احساس کر سکیں۔’ پہلا میچ احمدآباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ اس سٹیڈیم میں ایک لاکھ 32 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے لیکن سوشل میڈیا پر جو حتمی تعداد پیش کی گئی ہے اس اعتبار سے بھی سٹیڈیم خالی ہی تھا۔ ریڈف کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال آئی پی ایل کے فائنل میں وہاں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی موجود تھے جبکہ ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں 50 ہزار سے بھی کم تماشائی وہاں پہنچے اور اس طرح سٹیڈیم ہر وقت خالی خالی سا نظر آیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے 5 اکتوبر ہفتے کا وسط (ویک ڈے) تھا، اس لیے بھیڑ نہ پہنچ سکی تو کچھ لوگوں کے خیال میں میزبان ملک انڈیا کے نہ کھیلنے کی وجہ سے پہلے میچ میں تماشائی کم تھے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے مطابق اگر یہ میچ احمد آباد کے بجائے ممبئی کے وانکھیڑے میں کھیلا جاتا تو ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ کو بھی ناقص انتظام کے لیے نشانہ بنا رہے ہیں۔ میچ کے درمیان سینیئر صحافی پنیہ پرسون واجپئی نے لکھا: ‘کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو چکا ہے، سٹیڈیم خالی ہے۔۔۔ یہ کسی چھوٹے شہر میں ہوتا تو بہتر ہوتا۔۔۔’ انگلینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ڈینیئل ویٹ نے بھی ٹویٹ کیا کہ ‘بھیڑ کہاں ہے؟’ اس پر انڈین خاتون کرکٹر جمائمہ روڈریگس نے لکھا کہ ’انڈیا بمقابلہ پاکستان میچ کا انتظار کر رہی ہوں‘۔ انڈیا میں ورلڈ کپ اور واحد پاکستانی مداح انڈین صحافی سوہاسنی حیدر نے لکھا کہ ‘پاکستان میڈیا اور مداح ابھی تک ورلڈ کپ کے لیے ویزے کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ 60 صحافیوں نے ویزے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ اس کے جواب میں کولسا نامی ایک صارف لکھتے ہیں کہ ‘اور ہم اولمپکس کا انعقاد کرنا چاہتے؟ کم از کم گجرات میں تو نہیں۔’ وقاص علی نامی ایک صارف نے لکھا: ‘ورلڈ کا بدترین آغاز۔ پہلے تو انڈیا نے پاکستانی فینز کا ویزا مسترد کر دیا، جس کا نتیہ خالی سٹیڈیمز ہیں اور اس پر بھی ڈیجیٹل سکور بورڈ بھی ٹوٹ گيا۔’ بابر اعظم نام کے ایک صارف نے لکھا کہ حیدرآباد کا سٹیڈیم اس لیے خالی رہا کہ پاکستانی مداحوں کو ویزا نہیں دیا گيا۔ یہ سب سے خراب ورلڈ کپ رہا ہے اب تک۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ سے ورلڈ کپ دیکھنے آنے والے پاکستانی مداح ’چچا کرکٹ‘ محمد بشیر کا کہنا ہے کہ وہ پورے سٹیڈیم میں اکیلے پاکستانی مداح ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے باوجود ‘میرا جوش خروش اور آواز سو ڈیڑھ سو لوگوں کے برابر ہے۔’ شکاگو میں مقیم 67 سالہ محمد بشیر نے پاکستان کا قومی پرچم اٹھا رکھا تھا اور پاکستانی ٹیم کی جرسی بھی پہن رکھی تھی۔ سٹیڈیم میں یا اس کے باہر لوگ ان کے ساتھ اگر سیلفی لیتے نظر آ رہے ہیں

سٹیڈیم میں شائقین کم کیوں؟‘ انڈیا میں ورلڈ کپ کے مدھم آغاز اور خالی نشستوں پر بحث Read More »

پاکستان میں گھی اور کھانا پکانے کے تیل کی قیمتوں میں واضع کمی

لاہور – عبوری حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز پر گھی کے تمام برانڈز کی قیمتوں میں کمی کر دی ہے، مہنگائی سے تنگ لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے جو خوراک اور ایندھن کی ریکارڈ بلند قیمتیں ادا کر رہے ہیں۔ ایک اہم پیش رفت میں، مشہور گھی برانڈز کی قیمت 60 روپے کم کرکے 394 روپے فی کلو کر دی گئی ہے۔ اس سے قبل گھی 455 روپے میں دستیاب تھا، غیر معروف برانڈز کی قیمتیں ریکارڈ بلندی پر منڈلا رہی تھیں۔ اسی طرح بحران زدہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہونے کے باوجود کوکنگ آئل کی قیمتوں میں بھی کمی کی گئی ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) نے پیر کو رپورٹ کیا کہ گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے ستمبر 2023 کے دوران صارفین کی قیمتوں کے اشاریہ (CPI) پر مبنی افراط زر بڑھ کر 31.4 فیصد ہو گیا۔ پی بی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ (اگست) کے دوران مہنگائی بڑھ کر 27.4 فیصد ہو گئی تھی جبکہ ستمبر 2022 کے دوران یہ 23.2 ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر، افراط زر ستمبر 2023 میں بڑھ کر 2.0 فیصد ہو گیا جب کہ پچھلے مہینے میں 1.7 فیصد اضافہ ہوا اور ستمبر 2022 میں 1.2 فیصد کی کمی ہوئی۔فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

پاکستان میں گھی اور کھانا پکانے کے تیل کی قیمتوں میں واضع کمی Read More »

Petroleum prices slashed down

پیٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی متوقع

ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی کا امکان ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی توقع ہے، فی بیرل 7 ڈالر کی ممکنہ کمی کے ساتھ۔ یہ کمی خلیجی منڈی میں ظاہر ہوتی ہے جہاں خام تیل کی قیمتیں 92 ڈالر فی بیرل اور عالمی مارکیٹ میں گر کر 84 ڈالر فی بیرل پر آ گئی ہیں۔ بین الاقوامی نرخوں کے مطابق پاکستان میں 16 اکتوبر سے پیٹرول کی قیمتوں میں تقریباً 22 روپے فی لیٹر کی نمایاں کمی متوقع ہے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی کا امکان ہے۔ مزید برآں، جب ڈالر کی شرح سے تبدیل کیا جائے تو پاکستان میں ایک بیرل تیل کی موجودہ قیمت 26,220 روپے کے لگ بھگ ہے۔ یہ 15 ستمبر کو 29,898 روپے فی بیرل کی قیمت سے نمایاں کمی ہے۔ واضح رہے کہ 30 ستمبر کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے کمی کی تھی جس کے بعد نئی قیمت 323 روپے 38 پیسے فی لیٹر ہوگئی تھی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل بھی 11 روپے سستا کر دیا گیا، نئی قیمت 318.18 روپے مقرر کی گئی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی شرح تبادلہ میں بھی حال ہی میں 20 روپے سے زیادہ کی کمی دیکھی گئی ہے۔ مزید برآں، تقریباً 23 دن پہلے، مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی خاطر خواہ آمد تھی۔ اگر حکومت اضافی ٹیکس لگانے سے گریز کرتی ہے تو پیٹرولیم کی قیمتوں میں یہ کمی ممکنہ طور پر عوام کو نمایاں ریلیف دے سکتی ہے۔

پیٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی متوقع Read More »

پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے کا رجحان جاری، انٹربینک میں امریکی ڈالر کی گراوٹ کا شکار

پاکستانی روپے نے اپنی متاثر کن بحالی کا سلسلہ جاری رکھا کیونکہ ڈالر کی قدر میں مزید 1.07 روپے کی ریکارڈ کمی ہوئی، جو انٹر بینک ایکسچینج میں 282.55 روپے پر ٹریڈ کر رہا تھا، جو مسلسل 23ویں روز گراوٹ کا نشان ہے۔ پاکستانی روپیہ سعودی ریال کے مقابلے مضبوط ہو گیا۔ یہ گزشتہ مہینوں کے مقابلے میں شرح مبادلہ میں نمایاں بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔ انٹربینک ٹریڈنگ میں پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنے اضافے کا رجحان جاری رکھتا ہے، جمعرات کو 283.70 روپے تک پہنچ گیا۔ اوپن مارکیٹ ریٹ میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ایک روپے کی کمی کے ساتھ امریکی کرنسی کی قیمت 284 روپے تک پہنچ گئی۔ دوسری طرف، پاکستان کے کل عوامی قرضوں کا تناسب مالی سال 22 میں 36.9 فیصد سے بڑھ کر مالی سال 23 میں 38.3 فیصد ہو گیا۔ مالی سال 2023 کے لیے وزارت خزانہ کے سالانہ قرضوں کا جائزہ اور پبلک ڈیبٹ بلیٹن، جون 2023 کے آخر تک کل عوامی قرض 49.2 ٹریلین روپے کے مقابلے میں 62.88 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال 2022 کے دوران 13.64 ٹریلین روپے کا اضافہ ہے۔ -23 پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) کی مخلوط حکومت کے تحت۔ مالی سال 23 میں، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کو فراہم کی جانے والی کل بقایا ضمانتیں بھی بڑھ کر 3.5 ٹریلین روپے تک پہنچ گئیں، جو مالی سال 22 میں 2.9 ٹریلین روپے سے زیادہ تھیں۔ پورے FY23 کے دوران، حکومت نے PKR 584 بلین کی نئی اور رول اوور گارنٹی جاری کیں، جو کہ GDP کا 0.7% بنتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تیل اور گیس کے شعبے کو دی گئی ضمانتوں میں نمایاں اضافہ ہوا، جو مالی سال 22 میں 52 ارب روپے سے بڑھ کر مالی سال 23 میں 166 ارب روپے تک پہنچ گئی۔

پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے کا رجحان جاری، انٹربینک میں امریکی ڈالر کی گراوٹ کا شکار Read More »

State of Pakistan Agriculture

ریاست پاکستان کی زراعت 2023

پاکستان بزنس کونسل کی رپورٹ ‘دی اسٹیٹ آف پاکستانز ایگریکلچر 2023’ پاکستان کے زرعی شعبے کو درپیش مسائل  اور ملک میں زرعی ترقی کو متاثر کرنے والے اہم عوامل پر بحث کی ہے۔ ان میں شامل ہیں: ٹیکنالوجی، پانی، بیج، جانوروں کی بیماریوں کی مالی امداد اور خوراک۔ رپورٹ ان موضوعاتی شعبوں پر پانچ پالیسی پیپرز تشکیل دیتی ہے اور زرعی ترقی کے لیے درج ذیل پالیسی ترجیحات تجویز کرتی ہے: اعلی عالمی زرعی اجناس کی قیمتوں کا شکار ہونے سے فائدہ اٹھانے والے کی طرف منتقل کریں۔ پاکستان کو زراعت میں 4 فیصد حقیقی جی ڈی پی کی نمو حاصل کرنے کے لیے، اسے فصلوں کی پیداوار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خوراک کے درآمد کنندہ سے خوراک کے برآمد  کنندہ کی طرف منتقل ہو۔ نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے سیڈ ایکٹ میں ترمیم کریں۔ پاکستان کی زراعت میں طویل مدتی ترقی کے امکانات کا مرکز بہتر بیج ہے۔ بیج کی نشوونما میں بنیادی رکاوٹ قانونی اور ریگولیٹری نظام ہے جو نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ لہٰذا، سیڈ ایکٹ میں ترمیم کی جانی چاہیے تاکہ معروف نجی بیج کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا سکے اور بیج کے ضابطے کے لیے نقطہ نظر کو بیج سیکٹر کو کنٹرول کرنے سے لے کر کسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی طرف منتقل ہونا چاہیے۔ مزید برآں، پیمانے کے حصول کے لیے ہائبرڈ بیج کی مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ پانی کی بچت اور زراعت میں مزید ترقی حاصل کرنے کے لیے پھلوں اور سبزیوں کی کاشت شدہ زمین کو 5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد تک بڑھایا جائے۔ اگر اس تجارت میں عالمی کھلاڑیوں کو پھلوں اور سبزیوں کی برآمد کے لیے پاکستان کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے تو کولڈ چین کے بنیادی ڈھانچے میں سنجیدہ سرمایہ کاری کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ کسان اس یقین دہانی کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں کہ ان کے پھل اور سبزیوں کو اتارے جانے کی ضمانت دی جائے گی اور اس یقین کے ساتھ کہ یہ پیداوار آخری صارفین کے راستے میں نہیں مرے گی۔ یہ تبدیلی صرف پیداوار میں اضافے کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ عالمی خریداروں کی ٹریس ایبلٹی اور پائیداری کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے پروسیسرز اور کاشتکاروں کے درمیان مضبوط روابط استوار کریں۔ زراعت میں پاکستان کی اپنی مثالیں ملتی ہیں جہاں پروسیسرز نے کسانوں کے ساتھ پسماندہ انضمام کیا ہے۔ زرعی اجناس کی اعلیٰ قیمت والی مصنوعات میں پروسیسنگ ہی زراعت کو اگلی سطح پر لے جاتی ہے۔ پاکستان کی زرعی جی ڈی پی کو بڑھانے کے لیے پیداواری علاقوں میں زرعی پروسیسنگ میں سرمایہ کاری ایک ترجیح ہے۔ زراعت میں ترقی حاصل کرنے کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی میں ایکویٹی سرمایہ لگائیں۔ زرعی ٹیکنالوجی میں اپ گریڈ جیسے جدید فارم مشینری، سائلو سٹوریج، پھلوں اور سبزیوں کے لیے کول چینز، پولٹری کے لیے کنٹرولڈ شیڈ، اعلی کارکردگی والے آبپاشی کے نظام وغیرہ، صرف قرض کے ذریعے حاصل کرنا مشکل ہے، اس لیے ایکویٹی پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے۔ زرعی برآمدات بڑھانے کے لیے پاکستان کے آبپاشی کے نظام کو اپ گریڈ کریں۔ صحت سے متعلق زراعت پانی کی درست ترسیل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مزید برآں، پاکستان کے آبپاشی کے نظام سے پانی کی غیرمتوقعیت نہ صرف میکانائزیشن کی طرف منتقلی کو نقصان پہنچاتی ہے، بلکہ یہ سیلابی آبپاشی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس کی وجہ سے کھیتی میں پانی کا بہت زیادہ ضیاع ہوتا ہے۔ پاکستان کے آبپاشی کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آبپاشی کے نظام میں پانی کے بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان اور پانی کی ترسیل سے جڑی غیر یقینی صورتحال کو کم کیا جا سکے۔ انڈس ایکویفر کا دوبارہ چارج کرنے کا ایک سست ذریعہ ہے اور یہ اب پاکستان کے کسانوں کو دستیاب پانی کا نصف حصہ بناتا ہے۔ اس لیے اسے محفوظ رکھنا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے آبپاشی کے نظام کو پانی کے بہتر اکاؤنٹنگ اور بہتر واٹر گورننس کو اپنا کر درست کیا جائے- دونوں سیاسی طور پر چارج شدہ سرگرمیاں ہیں لیکن اعتماد پیدا کرنے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ مزید برآں، زرعی برآمدات میں اضافے کے لیے پانی کا معیار بھی ضروری ہے۔ کسانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں اور حیاتیاتی خطرات کے اثرات سے بچانے کے لیے دستیاب رسک ٹرانسفر میکانزم کا استعمال کریں۔ 2022 کے تباہ کن ہیٹ ویو اور بائبل کے سیلاب نے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مضبوط، عالمی سطح پر قبول شدہ ادارہ جاتی میکانزم کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ اس بوجھ کو بیمہ کنندگان پر منتقل کرنے کے لیے متوقع قیمت پر دستیاب رسک ٹرانسفر میکانزم کو استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لائیو سٹاک نے پاکستان کے زرعی شعبے میں ترقی کی ہے لیکن اس میں ترقی کے مزید امکانات موجود ہیں۔ جیسا کہ پولٹری سیکٹر کی ترقی کی رفتار نے ظاہر کیا ہے، جدید جینیات والے جانوروں کے لیے جدید خوراک ضروری ہے۔ بیماریوں کے پھیلنے کی بہتر نگرانی اور انتظام جانوروں کی صحت اور معاشی قدر کی حفاظت کر سکتا ہے۔ مکمل ویکسینیشن نظام کے ساتھ بیماریوں سے پاک زون مویشیوں پر مبنی برآمدات کے ستون ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ فصل کی پیداوار اور جانوروں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، ہر ایک کاشتکار کی قیمت بھی گر جاتی ہے۔ یہ کم افراط زر، کاشتکاروں کے لیے زیادہ منافع، اور برآمد کنندگان کے لیے بہتر مسابقت کے حوالے سے زرعی ترقی کے عظیم وعدے کا حامل ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے کاروباری برادری، مالیاتی شعبے، حکومتوں، عطیہ دہندگان اور کاشتکاروں کی جانب سے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔ ویڈیو: پاکستان میں زراعت کی اصلاح | خوراک کی مہنگائی کیوں ہے؟ زراعت میں ترقی سے دولت کا حصول دیہی پاکستان میں خوشحالی کا بنیادی راستہ ہے جہاں پاکستان کی زیادہ تر غربت رہتی ہے۔ ٹکنالوجی کا تعارف دیہی منظر نامے میں بہتر تنخواہ والی ملازمتیں پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن جن کی ملازمتیں بے گھر ہو جاتی ہیں

ریاست پاکستان کی زراعت 2023 Read More »

Ishtehkam-i-Pakistan Party (IPP) Registered Political Party

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے استحکم پاکستان پارٹی کو رجسٹر کر لیا۔

اسلام آباد / مظفرآباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کے مطابق، استخام پاکستان پارٹی (IPP) کو باضابطہ طور پر ایک سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر کر لیا گیا ہے، جس سے اس کے لیے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ جمعرات کو ای سی پی کے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ آئی پی پی کو الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 208 اور 209 (3) کے تحت رجسٹر کیا گیا ہے، جسے الیکشن رولز 2017 کے رول 158 (2) کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ اس اقدام سے ای سی پی میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی کل تعداد 172 ہو گئی ہے۔     آئی پی پی کے علاوہ، کمیشن نے حال ہی میں مزید تین جماعتوں کو رجسٹر کیا ہے: قدمین سندھ، پاکستان کیسان لیبر پارٹی اور تحریک احساس پاکستان۔ استخام پاکستان پارٹی کو پی ٹی آئی کے ناراض رہنما اور شوگر بیرن جہانگیر ترین نے جون میں قائم کیا تھا، جو کبھی پی ٹی آئی سربراہ کے قریبی ساتھی رہ چکے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی عدالت نے پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے علاقائی چیپٹر کو غیر قانونی قرار دے دیا ڈان سے بات کرتے ہوئے، آئی پی پی کے انفارمیشن سیکرٹری ڈاکٹر اعوان نے اپنی پارٹی کو “موجودہ گھٹن والے سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کا سانس” قرار دیا۔ علیحدہ طور پر، ای سی پی نے سندھ اور بلوچستان کے چیف سیکریٹریز کو خطوط لکھے ہیں جس میں انہیں سابق صوبائی کابینہ کے اراکین اور سیاسی رہنماؤں سے پروٹوکول اور سیکیورٹی مراعات واپس لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سندھ کے اعلیٰ بیوروکریٹ ڈاکٹر محمد فخر عالم کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صوبے کے سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، ایم این ایز اور ایم پی اے کو سرکاری گھر خالی کرنے اور سرکاری گاڑیوں کا استعمال بند کرنے کو یقینی بنائیں۔ تین دن میں تعمیل رپورٹ بھی طلب کر لی گئی ہے۔ سی ایس بلوچستان شکیل قادر خان کو تین دن میں اہم بیوروکریٹس کے تبادلوں کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ان میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ترقیات)، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری اور ہوم اینڈ فنانس کے سیکرٹریز شامل ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی سپریم کورٹ نے پارٹیوں کی رجسٹریشن کالعدم قرار دے دی۔ ایک اور پیشرفت میں، آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے علاقائی الیکشن کمیشن کی جانب سے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے علاقائی چیپٹرز کی رجسٹریشن کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ چیف جسٹس صداقت حسین راجہ، جسٹس میاں عارف حسین، جسٹس سردار محمد اعجاز اور جسٹس خالد رشید چوہدری پر مشتمل لارجر بینچ نے ان جماعتوں کی جانب سے حال ہی میں منتخب ہونے والے کونسلرز کو انتخابات کے دوران پارٹی ڈسپلن کی مبینہ خلاف ورزی پر جاری کیے گئے ‘شوکاز’ نوٹس بھی منسوخ کر دیے۔ مقامی حکومتوں کے اداروں کی مخصوص نشستیں اور سربراہان۔ 20 صفحات پر مشتمل فیصلہ – جنوری اور مارچ کے درمیان مظفر آباد اور راولاکوٹ کے کچھ کونسلرز کی طرف سے دائر کی گئی چار درخواستوں پر – جمعرات کو کھلی عدالت میں سنایا گیا۔ بنچ نے نشاندہی کی کہ موجودہ AJK الیکشنز ایکٹ 2020 نے سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کا طریقہ کار وضع کیا ہے اور AJK آئین کے آرٹیکل 4 (4) (7) کے مطابق ہر ریاستی رعایا کو پارٹی بنانے کا حق دیا گیا ہے۔ مروجہ قانون کے مطابق پارٹی کا ممبر بننا۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ایکٹ کی دفعہ 128 میں واضح طور پر سیاسی جماعت بنانے اور رجسٹر کرنے کے عمل کا تعین کیا گیا ہے۔ بینچ نے مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور پی پی پی کے ریکارڈ کا جائزہ لیا اور نوٹ کیا کہ اگرچہ وہ دیگر شرائط کے علاوہ لازمی انٹرا پارٹی انتخابات سمیت طے شدہ معیار کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے، لیکن انہیں پارٹی میں “عارضی” رجسٹریشن دی گئی۔ پہلی جگہ اور اس کے بعد باقاعدہ رجسٹریشن۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے استحکم پاکستان پارٹی کو رجسٹر کر لیا۔ Read More »

ICC Mens Cricekt World Cup 2023 India

پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘

  آج (6 اکتوبر) دن ڈیڑھ بجے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم بابر اعظم کی کپتانی میں انڈیا کے شہر حیدر آباد کے راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کرکٹ ورلڈ کا پہلا میچ کھیلنے کے لیے اُترے گی تو شاید وہاں زیادہ تعداد میں پاکستانی شائقین موجود نہ ہوں کیونکہ انڈین حکومت نے اب تک پاکستانی شائقین کرکٹ کو ویزوں کا اجرا نہیں کیا ہے۔ شاید خود بابر اعظم کو بھی اس کا احساس ہے اور انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ پر بات کرتے ہوئے پاکستانی شائقین کو انڈیا کا ویزا نہ ملنے کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بہتر ہوتا کہ پاکستانی شائقین کو بھی انڈیا کا ویزا ملتا۔ شائقین نے ورلڈ کپ کے لیے بہت سی تیاریاں کر رکھی ہیں۔‘ انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ’آنے والے میچوں کے لیے پاکستانی شا‏ئقین کو ویزا دیا جائے گا اور پاکستانی ٹیم کو حیدرآباد میں سپورٹ ملے گی۔‘ بابر اعظم کی پہلی خواہش کے بارے میں تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن حیدرآباد میں کرکٹ شائقین سے بات کرنے کے بعد اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کی دوسری خواہش پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم حیدرآباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیدیم میں نیدر لینڈز کے خلاف آئی سی سی کے عالمی کپ کا پہلا میچ آج کھیلے گی جس کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں جہاں پاکستانی شائقین پر انڈیا کا ویزا نہ ملنے کی وجہ سے کسی حد تک مایوسی کا غلبہ ہے، وہیں دوسری جانب اس وقت حیدرآباد میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح ان کا استقبال کیا گیا، سٹیڈیم میں اسی طرح کی سپورٹ انھیں ملے گی۔‘ اس بات کا ایک ثبوت تو بنگلور سے خصوصی طور پر پاکستان اور نیدرلینڈز کا میچ دیکھنے کے لیے حیدرآباد تک کا سفر کرنے والے انڈین شہری نوید خان ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نوید خان کا کہنا تھا کہ ’یہ عالمی کپ دونوں ملکوں کے لیے محبت کا پیغام بنے گا، جس انداز میں پاکستان کی ٹیم کا استقبال کیا گیا وہ بہت خوش آئند ہے۔ یہ ٹورنامنٹ بہت اچھے ماحول میں ہو گا۔‘ ایک خاتون مہوا دتا نے کہا کہ ’پاکستان کی ٹیم سات برس بعد انڈیا آئی ہے اور ان کا بہت شاندار خیرمقدم ہوا ہے۔ میں دونوں ٹیموں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔ جو جیتا وہی سکندر۔‘ واضح رہے کہ پاکستان کی ٹیم حیدرآباد میں ایک ہفتے سے مقیم ہے اور اس دوران اُن کی میزبانی اور کھانے کے چرچے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ایک اور نوجوان وجاہت علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں پاکستانی ٹیم بہت مضبوط بن کر آئی ہے۔ شاہین آفریدی، حارث رؤف بہترین بولرز ہیں۔ بابر اعظم، رضوان، افتخار یہ سبھی ورلڈ کلاس کے بلے باز ہیں۔ نیدر لینڈز بھی اچھی ٹیم ہے۔ یہ میچ دلچسپ ہو گا۔‘ ’انڈیا کی پچز اچھی دکھائی دے رہی ہیں‘ پاکستان کی ٹیم اس میچ سے قبل دو وارم اپ میچ کھیل چکی ہے اور اب تک متعدد ٹریننگ سیشن بھی کر چکی ہے۔ دوسری جانب نیدر لینڈز کی ٹیم نے بھی خود کو انڈیا کے موسم اور حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خوب ٹریننگ کی ہے۔ بابر اعظم نے میچ سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیم کی سب سے بڑی طاقت بیٹنگ لائن ہے جو ٹاپ سے نیچے تک مضبوط ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بولنگ میں فاسٹ بالرز پاکستان کی حکمت عملی کی بنیاد ہیں، لیکن یہاں کی پچ پر سپنرز کو بھی فائدہ ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’حیدرآباد کی پچ سے ٹیم مانوس ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک میرا تجربہ ہے اور انڈیا میں ہونے والے میچز جو میں نے ٹی وی پر دیکھے ہیں ان کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کی پچز واقعی اچھی دکھائی دے رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ میچز بڑے سکور والے ہوں گے۔‘ جمعے کے میچ میں کتنا سکور ہو گا؟ یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ہے تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک دلچسپ میچ بن سکتا ہے اگرچہ پاکستان کے لیے نیدرلینڈز اتنا بڑا چیلنج نہیں سمجھی جا رہی۔ پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان یہ ایک روزہ میچز کا ساتواں مقابلہ ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان کی ٹیم نیدرلینڈز سے چھ بار کھیل چکی ہے اور ان سبھی میچوں میں پاکستان نے نیدر لینڈز کو شکست دی تھی۔ پاکستان نے گذشتہ برس نیدرلینڈز کے اپنے پہلے دورے کے دوران سیریز بھی اپنے نام کی تھی۔ آئی سی سی کے مطابق جب یہ دونوں ٹیمں جمعہ کو مد مقابل ہوں گی تو یہ تقریباً گذشتہ 11 برس میں پہلا موقع ہو گا جب یہ انڈیا کی سرزمین پر 50 اوورز کا ون ڈے میچ کھیل رہی ہوں گی۔ دونوں ہی ٹیموں نے 1987 سے حیدرآباد میں 50 اوورز کا ون ڈے انٹرنیشنل گیم نہیں کھیلا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حیدرآباد کی اسی پچ پر پاکستان کا آئندہ میچ 10 اکتوبر کو سری لنکا سے ہو گا اور اسی تناظر میں حیدرآباد میں بتایا ہوا وقت پاکستان کی ٹیم کے لیے کافی اہم ہے۔ سپورٹس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم مثبت اور پُراعتماد دکھائی دے رہی ہے اور اگر ابتدائی دو میچوں میں اسے مسسلسل کامیابی حاصل ہوتی ہے تو یہ اعتماد مزید مضبوط ہو گا۔ حیدرآباد میں پایا جانے والا جوش و خروش اور کرکٹ ورلڈ کپ کے آغاز سے جڑا شائقین کا ذوق و شوق اپنی جگہ تاہم انڈیا میں شائقین کی بڑی تعداد کو اس میچ کا شدت سے انتظار ہے جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان 14 اکتوبر کو احمدآباد میں ہو گا۔ لیکن احمدآباد میں انڈیا سے ہونے والے ٹاکرے سے قبل پاکستان کے لیے دونوں میچز جیتنا بہت اہم ہو گا۔

پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘ Read More »

پنجاب نے گندم کی سبسڈی اور مراعات کو دوگنا کردیا۔

اس سال فصل کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔   اٹک: پنجاب حکومت نے رواں سال گندم کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی کی سہولت اور مراعات کو تقریباً دوگنا کر دیا ہے۔ یہ بات ڈائریکٹر جنرل زراعت (توسیع) پنجاب ڈاکٹر اشتیاق حسن نے منگل کو حضرو میں کسانوں کے لیے ایک روزہ گندم سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ محکمہ زراعت کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار کا مقصد کاشتکاروں کو گندم کی بھرپور پیداوار کے حصول کے لیے آگاہی فراہم کرنا تھا۔ اس موقع پر کاشتکاروں کی آگاہی کے لیے کئی سٹالز بھی لگائے گئے جبکہ اسٹیٹ بینک کی ہدایات پر کئی بینکوں کے نمائندے بھی موجود تھے جہاں کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے گئے۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر اٹک راؤ عاطف رضا، حضرو اے سی کامران اشرف، ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت (توسیع) اٹک شکیل احمد، راولپنڈی کی ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت (توسیع) سعدیہ بانو، حضرو اسسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت (توسیع) ڈاکٹر جاوید احمد، حضرو اے ڈی اے ثمینہ فاطمہ، چیف کوآرڈینیٹر اٹک اور دیگر بھی موجود تھے۔ اٹک پریس کلب کے صدر نثار علی خان اور زرعی سائنسدانوں اور کسانوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے کہا کہ کم از کم 1.2 ملین تصدیق شدہ گندم کے بیج کے تھیلے، جن میں سے ہر ایک کا وزن 50 کلوگرام ہے، کسانوں کو 1500 روپے فی بیگ کی رعایتی شرح پر فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پنجاب نے گندم کی اوسط فی ایکڑ پیداوار 33.1 من حاصل کی تھی اور زراعت کے حکام کو امید ہے کہ اگلی فصل کے لیے یہ اوسط 40 من فی ایکڑ ہو جائے گی۔ تقریب سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے ڈی سی اٹک راؤ عاطف رضا نے کہا کہ گندم پاکستان کی بنیادی خوراک ہے اور اس کی پیداوار ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت قابل کاشت زمین کو ڈیجیٹائز کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زرعی پیداوار بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر زراعت (توسیع) شاہد افتخار بخاری نے کہا کہ راولپنڈی ڈویژن میں گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو کسان دنوں اور میٹنگوں کے ذریعے آگاہ کیا جا رہا ہے۔

پنجاب نے گندم کی سبسڈی اور مراعات کو دوگنا کردیا۔ Read More »

Pakistan Taxes on Middle and lower middle class

پاکستان میں متوسط طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ امیروں سے زیادہ کیوں ہے؟

ین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلنا جارجیوا نے گذشتہ دنوں پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ امیر طبقات پر ٹیکس عائد کرے جبکہ غریبوں کی حفاظت کرے۔ آئی ایم ایف کی اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے یہ بیان پاکستان کے نگراں وزیرا عظم انوارالحق کاکڑ سے چند روز قبل امریکہ میں ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ پاکستان اِس وقت آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام سے منسلک ہے جس کے تحت رواں برس جولائی میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط ملی تھی جبکہ دوسری قسط نومبر 2023 میں ملنے کی توقع ہے۔ نومبر میں اِس قرض کی اگلی قسط کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کا ایک وفد رواں ماہ (اکتوبر) کے آخر میں اس بات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گا کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد کر رہا ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ دوسری شرائط کے علاوہ ملک میں ٹیکس وصولی بڑھانے کی بھی ایک شرط ہے تاکہ اس کے ذریعے پاکستان کے بجٹ کے خسارے کو کم کیا جا سکے۔ اس شرط کے تحت زیادہ ٹیکس وصولی کے مختلف شعبوں اور طبقات پر ٹیکس لگانے کی بات کی گئی ہے تاہم ابھی تک پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کچھ ایسا ہے جس میں غریب طبقات پر ٹیکس کے بوجھ کی زیادہ شکایات ہیں جب کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں امیر طبقات پر ٹیکس کی وصولی کا بوجھ ان کی آمدن کے لحاظ سے نہیں ہے۔ پاکستان میں معیشت اور ٹیکس کے ماہرین کے مطابق ملک میں ٹیکس وصولی کے نظام میں غریبوں سے زیادہ ٹیکس وصولی کی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو تمام صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں تاہم غریبوں کی کم آمدن کی وجہ سے ان پر اس ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کا بہت زیادہ اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟ پاکستان میں وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پورے ملک میں ٹیکس وصولی کا کام کرتا ہے۔ اگرچہ صوبائی سطح پر ٹیکس وصولی کے ادارے کام کر رہے ہیں تاہم قومی سطح پر ایف بی آر ہی ٹیکس اکٹھا کرنے کا واحد ادارہ ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو دیکھا جائے تو اس میں انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کے ذریعے ٹیکس رقم یا محصولات کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان نے 7169 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا۔ یہ ٹیکس انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوئی اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اکٹھا کیا گیا۔ ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے ایگنایٹ پاکستان  کو بتایا کہ پاکستان میں اس وقت ٹیکس وصولی میں ستر فیصد حصہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکس سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس صرف 30 فیصد ہے۔ پاکستان میں کون زیادہ ٹیکس دیتا ہے؟ ماہر ٹیکس امور ذیشان مرچنٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ملک کی آبادی لگ بھگ 24 کروڑ ہے جبکہ ٹیکس فائلرز کی تعداد محض 45 لاکھ ہے جس کے بعد عام افراد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہ 45 لاکھ لوگ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ مگر ایسا نہیں ہے۔ ٹیکس اُمور کے ماہرین کے مطابق اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر شہری اِس وقت ٹیکس دے رہا ہے جس کی بڑی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کا زیادہ ہونا ہے۔ ذیشان مرچنٹ کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ہر وہ شخص جو موبائل استعمال کر رہا ہے یا دکان پر جا کر کچھ خرید رہا ہے وہ سیلز ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادائیگی کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا جہاں تک بات ہے آمدن پر ٹیکس دینے کی تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ٹیکس نظام کے بارے میں عوام میں اعتماد کا فقدان ہے اور اس کے علاوہ ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں اور زیادہ شرح ٹیکس کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس دینے کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ انھوں نے کہا اگر پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف دو فیصد لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں جسے کم از کم چار سے پانچ فیصد ہونا چاہیے تاکہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب متناسب ہو سکے۔ پاکستان میں کیا غریب امیروں سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں؟ پاکستان میں ٹیکس اور معیشت کے امورکے ماہرین کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیر طبقات پر ٹیکسوں کا بوجھ اس کے مقابلے میں کم ہے۔ ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا پاکستان میں اس وقت 30 فیصد ٹیکس آمدنی ڈائریکٹ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے جب کہ 70 فیصد تک ٹیکس ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے اکٹھا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا ان ڈائریکٹ ٹیکس یقینی طور پر صارفین سے لیا جاتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں تاہم غریبوں کی محدود آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیروں کی زیادہ آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں پر اس طرح بوجھ نہیں پڑتا ہے جس طرح ایک غریب صارف جھیلتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو پاکستان میں آمدن میں اضافے کے باوجود لوگ زیادہ ٹیکس نہیں دیتے اور ٹیکس وصولی کا جو طریقہ کار نافذ ہے وہ کم آمدنی والے طبقات کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ انھوں نے کہا اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ایک کنٹریکٹر یا ایک برآمد کنندہ یا درآمد کنندہ پر بھی جب ایڈوانس ٹیکس لگتا ہے تو وہ اسے اپنے منافع سے نکالنے کے بجائے آگے عام صارف کو منتقل کر دیتا ہے۔ ماہر معیشت حزیمہ بخاری نے اس سلسلے میں کہا امیروں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ

پاکستان میں متوسط طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ امیروں سے زیادہ کیوں ہے؟ Read More »