Latest News

Latest News

Earthquake

نیپال اور بھارت میں زلزلہ، ریکٹر اسکیل پر شدت 6.4 ریکارڈ

نیپال اور شمالی بھارت میں 6.4 شدت کے زلزلے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نیپال اور شمالی بھارت کے کئی علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے،  زلزلے کے جھٹکے نئی دہلی تک محسوس ہوئے، جس کے باعث لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق زلزلے کی شدت 6.4 تھی، 11.32 منٹ پر آنیوالے زلزلے کی گہرائی 10 کلو میٹر تھی۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق بھارت میں آنیوالے زلزلے کی ریکٹر اسکیل پر شدت 5.6 ریکارڈ کی گئی، زلزلے کا مرکز نیپال کا سرحدی علاقہ جملا تھا، زلزلے کی گہرائی 17.9 کلو میٹر تھی۔ واضح رہے کہ 2015ء میں نیپال میں خوفناک زلزلے میں 8 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے جبکہ دارالحکومت کٹھمنڈو سمیت کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر املاک تباہ ہوئی تھیں۔

نیپال اور بھارت میں زلزلہ، ریکٹر اسکیل پر شدت 6.4 ریکارڈ Read More »

Ghazi ilm Ud din Shaheed

غازی علم الدین شہیدؒ

لاہور: (صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی) اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آنے والی اس دنیائے فانی میں اگر کوئی سب سے قیمتی سرمایہ ہے تو وہ فقط ’’محبت ِرسول ﷺ‘‘ہی ہے، یہ ایسا خوبصورت اور انمول سرمایہ ہے کہ جسے ’’فنا‘‘ نہیں بلکہ ’’بقا‘‘ہی بقا ہے۔ بطور مسلمان ہونا، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اپنے دامن میں محبت رسول عربیﷺ کے گوہر نایاب کو سمیٹا جائے، کیونکہ اللہ کے حبیب ﷺ سے محبت ایمان کی شرط ِ اوّل ہے، رسولِ کریم ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا کہ جب تک وہ اپنے مال، اولاد، والدین اور دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرتا ہو‘‘۔ رحمت عالمﷺ کی اِس پیاری امت میں آپ ﷺ سے محبت کرنے والے اور ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے قربان ہونے والے روشن ستاروں کی طرح چمکتے دمکتے عاشقان رسولﷺ ہر دور میں ہی دنیا کے ماتھے کا جھومر رہے ہیں، اُمت مسلمہ کے یہ وہ عظیم مرد مجاہد ہوتے ہیں کہ جو ہمیشہ کیلئے امر ہوتے ہوئے حقیقی معنوں میں رب ِقدوس کی عطا کردہ زندگی با مقصد بنا جاتے ہیں۔ غازی علم دین شہیدؒ بھی انہی ستاروں میں سے ایک روشن ستارہ ہیں جنہوں نے گستاخ رسول ہندو راجپال کو جہنم واصل کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ یہ مرد ِمجاہد اور عاشق رسول 4 دسمبر 1908ء بروز جمعرات اندرون شہر لاہور میں پیدا ہوئے، آپؒ کے والد طالح محمد بڑھئی کا کام کرتے تھے، علم دینؒ ابھی ماں کی گود میں ہی تھے کہ ایک روز اُن کے دروازہ پر ایک فقیر نے دستک دی اور صدا لگائی، آپؒ کی والدہ نے آپؒ کو اٹھائے ہوئے، اس سوال کرنے والے کو حسبِ استطاعت کچھ دینے کیلئے گئیں، جب اللہ کے اُس بندے کی نظر آپؒ پر پڑی تو اللہ والے نے آپؒ کی والدہ سے کہا کہ ’’تیرا یہ بیٹا بڑے نصیب والا ہے، اللہ نے تم پر بہت بڑا احسان کیا ہے تم اس بچے کو سبز کپڑے پہنایا کرو‘‘۔ علم دین قدرے بڑے ہوئے تو آپؒ کے والد نے آپؒ کو محلہ کی ایک مسجد میں داخل کروا دیا، غازی علم دین تعلیمی سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکے اور آپ کے والد اپنے ساتھ کام پر لے جانے لگے ،زندگی کے شب و روز ہنسی خوشی بسر ہوتے رہے، جب آپؒ جوان ہوئے تو ماموں کی بیٹی سے منگنی کر دی گئی، انہی دنوں ایک ہندو پبلشر راجپال نے حضور اقدسﷺ کی شانِ مقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ناقابلِ برداشت خیالات پر مبنی کتاب شائع کی، جس کی اشاعت پر ہندوستان بھر کے مسلمان آگ بگولہ ہوتے ہوئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھے۔ اس سلسلہ میں عبدالعزیز اور اللہ بخش نے بدبخت راجپال کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو کی مگر ناکام رہے، عدالت نے حملہ کرنے کے جرم میں دونوں کو سخت سزائیں دیں، انگریزوں کی حکومت تھی، انگریز اور ہندو مسلم دشمنی کی بنا پر ایک ہی ڈگر کے مسافر تھے اور راجپال اور اس کی مکروہ کتاب کی اشاعت کے تحفظ کرنے میں پیش پیش تھے، اس کے علاوہ مولوی نور الحق مرحوم (جو اخبار ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ کے مالک تھے) نے اخبار میں راجپال کے خلاف لکھا تو اُنہیں بھی دو ماہ کی سزا کے ساتھ ایک ہزار روپیہ جرمانہ کیا گیا۔ مسلمان جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے کر رہے تھے، جلسے جلوس اور اخبارات خبروں سے بھرپور تھے،غالباً 31 مارچ یا یکم اپریل تھا کہ غازی علم دین شہیدؒ نے اپنے بڑے بھائی شیخ محمد دین کے ساتھ ایک جلسہ میں نوجوان مقرر کو سُنا، جو راجپال اور اُس کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کے دکھ کا اظہار کر رہا تھا اور مسلمانوں کو بیدار کر رہا تھا کہ جاگو مسلمانو جاگو! بد بخت راجپال واجب القتل ہے، ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں قربان کر دو‘‘۔ تقریر کے ان سنہری الفاظ نے علم دین شہیدؒ کے قلب و روح میں ایک ہلچل سی مچا دی، ان الفاظ کی گونج لئے ہوئے گھر پہنچے اور گستاخِ رسول کو قتل کرنے کا عہد کیا۔ 6 اپریل 1929ء کو انار کلی سے ایک چھری خریدی اور اُسے خوب تیز کروا کر عشرت پبلشنگ ہاؤس کے سامنے واقع دفتر پہنچے کہ راجپال بھی اپنی کار میں وہاں آ گیا، بدبخت راجپال کو دیکھتے ہی علم دینؒ کی آنکھوں میں خون اُتر آیا، راجپال کی حفاظت کے لئے حکومت نے پولیس تعینات کر رکھی تھی لیکن اس وقت راجپال کی ہر دوار یاترا سے واپسی کی اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے پولیس اہلکار حفاظت کیلئے ابھی نہیں پہنچے تھے۔ راجپال اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنی آمد کی اطلاع دینے کیلئے فون کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ عظیم مردِ مجاہد غازی علم دینؒ دفتر کے اندر داخل ہوگئے، اُس وقت راجپال کے دو ملازم کیدار ناتھ اور بھگت رام موجود تھے لیکن اُن دونوں کی موجودگی علم دین کے جذبے کے آگے بے دم ہو کر رہ گئی اور اُنؒ کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی، علم دینؒ نے چھری کے پے در پے وار کرتے ہوئے بدبخت راجپال کو جہنم واصل کر دیا، بعد میں علم دین کو گرفتار کر لیا گیا اور دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ 10 اپریل ساڑھے دس بجے مسٹر لوائسٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی، استغاثہ کی طرف سے ایشر داس کورٹ ڈی ایس پی پیش ہوا، جبکہ علم دینؒ کی طرف سے مسٹر فرخ حسین بیرسٹر اور خواجہ فیروز الدین بیرسٹر رضا کارانہ طور پر پیش ہوئے اور اُن کی معاونت کیلئے ڈاکٹر اے آر خالد نے اپنی خدمات سر انجام دیں۔ 22 مئی 1929ء کو سیشن جج لاہور نے علم دینؒ کو سزائے موت کا حکم سنایا، 15 جولائی کو غازی علم دینؒ کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی، جس کی سماعت جسٹس براڈ وے وجسٹس جانسن نے کی اور 17 جولائی کو یہ اپیل خارج کر دی گئی جس کے خلاف پریوی کونسل میں کوشش کی گئی، جو

غازی علم الدین شہیدؒ Read More »

Shahid Khan Afridi

شاہد آفریدی کو پی سی بی میں اہم ذمہ داری ملنے کا امکان

لاہور: (دنیا نیوز) سابق کپتان شاہد خان آفریدی کی چئیرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکاء اشرف چوہدری سے اہم ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ ہیڈ کوارٹر میں چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف اور سابق کپتان شاہد آفریدی کے درمیان ہونیوالی ملاقات میں کرکٹ امور میں بہتری کے لئے بات چیت ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق کپتان شاہد آفریدی نے وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی ہدایت پر ذکاء اشرف سے ملاقات کی، شاہد آفریدی کی چند روز قبل وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات بھی ہوئی تھی ۔ ذرائع کے مطابق شاہد آفریدی کو پی سی بی میں انتہائی اہم زمداری ملنے کا امکان ہے، وزیر اعظم سے ملاقات میں شاہد آفریدی کو کرکٹ میں بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا گیا تھا۔

شاہد آفریدی کو پی سی بی میں اہم ذمہ داری ملنے کا امکان Read More »

Pakistan Army

ضلع گوادر میں سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں پر حملہ، 14 فوجی اہلکار ہلاک

آئی ایس پی آر کے مطابق بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں پر والے حملے میں 14 فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی دو گاڑیاں پسنی سے اورماڑہ جا رہی تھیں جب عسکریت پسندوں کی جانب سے ان پر حملہ کیا گیا۔ اس سے قبل کمشنر مکران ڈویژن سعید عمرانی نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ حملہ پسنی کے علاقے میں کوسٹل ہائی وے پر پیش آیا ہے۔ وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات ’بلوچستان کا امن تباہ کرنے کی سازش ہیں۔‘

ضلع گوادر میں سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں پر حملہ، 14 فوجی اہلکار ہلاک Read More »

Chaman Protest

قلعہ عبداللہ ،زمینداروں کی جانب سے کوئٹہ چمن شاہرہ پر احتجاج ، راستہ بند

زمیندار ایکشن کمیٹی بلوچستان کی جانب سے قلعہ عبداللہ سید حمید کراس کے مقام پر احتجاج میں بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں جبکہ چمن کو کوئٹہ شہر سے ملانے والی مین شاہراہ کومکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ راستہ بند ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں ٹرانسپورٹ معطل، گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں۔ مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے مسافروں میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد موجود ہے جو واپس افغانستان جانے کے لئے نکلے تھے ۔ زمینداروں کا کہنا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات نا مانے گئے تو احتجاج کو وسیع پیمانے پر لے جائیں گے،  بار بار حکومت سے مطالبہ کرتے رہے لیکن کبھی ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے نہیں سنا گیا ، ایسے میں راستا بند کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سماء کے نمائندے منصور اچکزئی سے زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنما کاظم خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کے آتے ہی حکومت نے 24 گھنٹوں میں قلعہ عبداللہ کی بجلی دو گھنٹے کر دی ، بجلی کے نا ہونے سے علاقے کے باغات خشک سالی کا سامنا کر رہے ہیں اور زمینداروں کی سالوں کی محنت ضائع ہو رہی ہیں، حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان زمینداروں پر رحم کریں، یہاں کے لوگوں کا روزگار زمینداری سے جڑاہے۔ جبار کاکڑ زمیندار ایکشن کمیٹی کے رہنما نے کہا کہ کیسکو اور ماضی کے حکومتی انتظامیہ سے ہمارے پہلے کے معاہدے موجود ہے جن پر عمل درآمد کیا جائے ، ان معاہدوں میں 12 ہزار بل مقرر کیا گیا تھا جو اب بھی ہم دے رہے ہیں اور اسی طرح 8 گھنٹے کی بجلی معاہدے کے مطابق ہمیں ملنی چاہیے تھی جو اب تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اس نگران حکومت کے دور میں یہ بجلی 2 گھنٹے ہوگئی ہے جس سے ہمارے باغات نے ریگستان کی صورت اختیار کر لی ہے۔ زمینداروں کی جانب سے احتجاج میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بجلی دو گھنٹوں سے بڑھا کر 8 گھنٹے تک کر دے۔ احتجاج کے  شرکا نے نگران وزیراعظم انور الحق کاکڑ ، نگران وزیر داخلہ سرافراز بگٹی اور بلوچستان گورنر عبد الولی کاکڑ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان مطالبات پر عمل درآمد کر وائے اور قلعہ عبداللہ کی باغات کو ختم ہونے سے بچائے۔

قلعہ عبداللہ ،زمینداروں کی جانب سے کوئٹہ چمن شاہرہ پر احتجاج ، راستہ بند Read More »

DI Khan Explosion

ڈی آئی خان: پولیس وین کے قریب دھماکے میں پانچ اموات

ریسکیو اہلکاروں نے بتایا کہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ٹانک اڈے میں دھماکے میں ایک ٹریفک پولیس اہلکار اور خاتون سمیت 21 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ پولیس اور ریسکیو اہلکاروں کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان جمعے کو پولیس کی وین کے قریب دھماکہ ہوا ہے، جس میں پانچ اموات ہوئی ہیں۔ ریسکیو اہلکاروں نے بتایا کہ ٹانک اڈے کے قریب ہونے والے دھماکے میں ایک ٹریفک پولیس اہلکار اور خاتون سمیت 21 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ ڈی آئی خان کے کینٹ  پولیس سٹیشن کے اہلکار ضمیر عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مین روڈ پر پولیس کی نفری جا رہی تھی کہ ان کو نشانہ بنایا گیا۔‘  پولیس اہلکار ضمیر عباس نے بتایا کہ اس جگہ پر ہر وقت لوگوں کا رش رہتا ہے، زخمیوں کو قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے پولیس عہدیدار محمد عدنان کے حوالے سے کہا ہے کہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ یہ خودکش دھماکا تھا یا پہلے سے وہاں کوئی بم نصب کیا گیا تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سابق قبائلی علاقوں، جنہیں فاٹا کے نام سے جانا جاتا ہے، کے سنگم  پر واقع ہے۔

ڈی آئی خان: پولیس وین کے قریب دھماکے میں پانچ اموات Read More »

Kidnapped and Murdered

اغوا اور قتل کی سازش جس میں پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے’اللہ اکبر‘ کے نعروں کا استعمال کیا گیا

انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر کانپور میں ایک بڑے ٹیکسٹائل تاجر کے نابالغ بیٹے کے اغوا اور قتل کے معاملے میں پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزمان نے پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے مذہبی نعروں کا استعمال کیا۔ پولیس نے واقعے میں ملوث تینوں ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تاجر کے بیٹے کے اغوا اور قتل میں اس کی ٹیوشن ٹیچر جو پہلے اسے گھر میں پڑھانے آتی تھی اور اس کے دوست ملوث تھے۔ ٹیوشن ٹیچر رچیتا وتس، اس کے دوست پربھات شکلا اور پربھات کے دوست شیوا کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا تھا کہ قتل کے بعد ملزمان نے 30 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا اور اس واقعے سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پولیس کے ہاتھ لگی ہے۔ مذہبی نعروں کا استعمال طالب علم کے قتل کے بعد گرفتار ملزمان نے تاجر کے گھر خط بھیج کر 30 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق اس خط میں ’اللہ‘ اور ’اللہ اکبر‘ جیسے الفاظ اور نعرے لکھے گئے تھے۔ خط میں مذہبی نعروں کے بارے میں پولیس نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ ملزم پربھات شکلا، شیوا اور ٹیوشن ٹیچر رچیتا نے پولس کی توجہ ہٹانے کے لیے خط میں ایک خاص مذہب سے متعلق نعرے لکھے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پربھات شکلا نے اپنے دوستوں شیوا اور رچیتا کے ساتھ مل کر قتل کی سازش رچی تھی اور قتل کے بعد کسی کو ان پر شک نہ ہو انھوں نے تاجر کے گھر اغوا اور تاوان کی رقم کا مطالبہ کرتے ہوئے خط بھیجا تھا۔ یہ معمہ کیسے حل ہوا؟ پولیس نے بتایا ہے کہ پیر کی شام 4.30 بجے نابالغ طالب علم اپنی کوچنگ کے لیے گھر سے نکلا تھا اور معمول کے مطابق جب وہ گھر واپس نہیں آیا تو گھر والوں نے پہلے طالب علم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد رات 9.45 بجے طالب علم کے اہل خانہ نے کانپور کے رائے پوروا پولیس سٹیشن میں لاپتہ بچے کی اطلاع دی اور پولیس نے طالب علم کے والد کی شکایت پر مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دیں۔ پولیس کے مطابق ملزم پربھات شکلا کو معلوم تھا کہ تاجر کا بیٹا روزانہ شام چار بجے کوچنگ کے لیے سواروپ نگر جاتا تھا۔ اس لیے اس نے واردات کو انجام دینے کے لیے پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔ ’پیر کے روز، اس نے ایک پولیس چوکی کے قریب تاجر کے بیٹے سے اپنے گھر کے لیے لفٹ مانگی اور بعد میں اسے کولڈ ڈرنک پلائی جس میں نشہ آور چیز تھی‘ پولیس کے مطابق ’بعد میں، وہ تاجر کے بیٹے کو اپنے گھر کے قریب ایک کمرے میں لے گیا اور گلا دبا کر اس کا قتل کر دیا۔ قتل کے بعد ملزم نے تاجر کو تاوان کے لیے خط لکھا۔‘ قتل کا محرک؟ تحقیقات کی بنیاد پر پولیس کا کہنا ہے کہ اس پورے واقعے کی منصوبہ بندی پربھات اور اس کی گرل فرینڈ رچیتا نے کی تھی۔ لیکن قتل کی وجہ کیا تھی؟ کیونکہ ملزم نے طالب علم کے قتل کے بعد تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے جواب میں پولیس کا کہنا ہے کہ ’ملزم پربھات کو طالب علم اور اس کی ٹیوشن ٹیچر رچیتا کے درمیان دوستی پسند نہیں تھی۔ اس کی وجہ سے اس نے یہ سازش رچی اور پھر اس میں رچیتا اور اس کے دوست شیوا کو شامل کیا۔‘ پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے مقتول طالب علم کا موبائل فون بھی برآمد کر لیا ہے اور اس سے مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔ سکیورٹی گارڈ کی ذہانت سے ملزمان پکڑے گئے مقتول طالب علم کے ماموں نے بتایا کہ ان کی بہن نے اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے انھیں گھر بلایا تھا۔ علاقے کے سکیورٹی گارڈ نے مقتول طالب علم کے ماموں کو بتایا کہ ایک شخص سکوٹر پر آیا تھا اور متوفی کے گھر خط پہنچانے کی درخواست کی تھی۔ گارڈ نے اس آدمی کی بات سننے سے انکار کر دیا اور اس سے کہا کہ وہ خود جا کر خط گھر پر دے آئے۔ گارڈ نے اس سکوٹر کا نمبر نوٹ کر لیا تھا۔ اس کے بیان کی بنیاد پر پولیس نے سکوٹر کے مالک پربھات شکلا کو پکڑ لیا۔ ولیس نے بتایا کہ جس شخص نے یہ خط متوفی کے گھر پہنچایا وہ پربھات کا دوست شیوا تھا۔ کانپور کے ٹیکسٹائل تاجر کے بیٹے کے قتل سے ناراض کانپور ٹیکسٹائل کمیٹی کے اہلکاروں نے کینڈل مارچ نکالا۔ تاجروں نے پولیس انتظامیہ سے ملزمان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کانپور ٹیکسٹائل کمیٹی کے سینیئر نائب صدر رومیت سنگھ ساگاری نے کہا کہ ’ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ انھیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ انھیں موت کی سزا دی جائے۔‘ طالب علم کے ماموں نے یہ بھی کہا کہ ’میں یوگی آدتیہ ناتھ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ انھیں سخت ترین سزا دی جائے، انھیں موت کی سزا دی جائے۔‘

اغوا اور قتل کی سازش جس میں پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے’اللہ اکبر‘ کے نعروں کا استعمال کیا گیا Read More »

Tractors Stunts

’پیارے پنجابیو ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں‘

دنیا بھر میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کوئی نہ کوئی ٹرینڈ چلنے کی ریت غیر معمولی نہیں ہے۔ کسی دور میں ’آئس بکٹ‘ چیلنج کا ٹرینڈ چل نکلا تو کبھی ’ٹین ایئرز‘ چیلنج نے سوشل میڈیا صارفین کو اپنے حصار میں لیے رکھا۔ مگر کچھ ممالک میں سوشل میڈیا پر خطرناک سٹنٹس کرنے کے ٹرینڈز بھی دیکھنے آئے اور بعدازاں ان سٹنٹس کرنے والوں نے نہ صرف اس سے اپنے فالورز اور ویوز کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ اس کے ذریعے آمدن بھی کمائی۔ ایسا ہی ایک خطرناک ٹرینڈ آج کل انڈیا کے صوبے پنجاب میں چل رہا ہے جہاں پنجابی کسان اپنے ٹریکٹرز پر خطرناک سٹنٹس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس خطرناک رحجان نے مقامی سطح پر اس قدر مقبولیت حاصل کر لی ہے کہ اب یہ سوشل میڈیا سے نکل کر مقامی سطح پر منعقدہ میلوں ٹھیلوں کا بھی حصہ بن گئے ہیں۔ حال ہی میں انڈین پنجاب کے شہر گرداس پور کے علاقے فتح گڑھ میں ایک مقامی میلے میں ٹریکٹر سٹنٹ کرتے ہوئے ایک 29 سالہ سکھ مندیپ نامی نوجوان کی موت ہو گئی۔ وہ میلے میں ٹریکٹر کو بنا ڈرائیور کے صرف پچھلے پہیوں پر گھمانے کا کرتب دکھا رہے تھے اور جب وہ اس ٹریکٹر کو کنٹرول کرنے کے لیے اس پر سوار ہونے لگے تو گھومتے ٹریکٹر کی زد میں آ کر شدید زخمی ہوئے اور بعدازاں ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی 30 سیکنڈ کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ مندیپ سنگھ کو ٹریکٹر پر خطرناک کرتب کرنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ ان کے انسٹاگرام پر 14 ہزار کے قریب فالوورز تھے اور وہ گذشتہ چھ سالوں سے یوٹیوب پر اپنی کرتبوں کی ویڈیوز بھی اپ لوڈ کر رہے تھے۔ انھوں نے اس سے قبل مختلف پنجابی گانوں کی ویڈیوز کے لیے بھی سٹنٹ کیے ہیں۔ اس واقعے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے ٹریکٹرز کے خطرناک سٹنٹ یا کرتب کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اس بارے میں لکھا کہ ’پیارے پنجابیو، ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں، پنجاب میں ٹریکٹر اور متعلقہ آلات کے ساتھ کسی بھی قسم کے سٹنٹ یا خطرناک کرتب پر پابندی ہے۔‘ ٹریکٹرز سٹنٹ کا رجحان کیا ہے؟ اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر انڈین پنجاب میں ٹریکٹروں پر کرتبوں کے رجحان پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ بہت سے لوگ اسے مکمل طور پر روکنے کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جیسے جیسے پنجاب میں ٹریکٹر سٹنٹس کا رجحان بڑھا ہے، اسی طرح یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا پر بہت سے سٹنٹ پرفارمرز اور ان کی ویڈیوز اور ان کے سامعین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔’ ’ریبل ولاگ‘ نامی یوٹیوب چینل چلانے والے ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ رجحان گذشتہ چھ سات سال سے شروع ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ صرف پنجاب میں ایسے سٹنٹس کرنے والے افراد کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ترم سنگھ بھی اپنے ٹریکٹر پر کرتب کرتے ہیں۔ ان کے یوٹیوب چینل پر تقریباً 75 ہزار سبسکرائبر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے موسیقار کے طور پر کام کرتے تھے اور دو سال پہلے سے بطور پروفیشنل اسٹنٹ مین کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھیں سٹنٹس کرنے کے لیے فلم ’فاسٹ اینڈ فیوریس‘ سے تحریک ملی، یہ ایک مونسٹر ٹرک سٹنٹ ہے جسے غیر ملکیوں نے کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سٹنٹس کرنے سے پہلے مناسب حفاظتی معلومات کا ہونا اور مخصوص ہدایات پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔‘ ٹریکٹر سٹنٹس کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ ترم سنگھ نے کہا کہ یہ ٹرینڈ سب سے پہلے پنجاب کے ایک اسٹنٹ مین نے شروع کیا جس کا نام ’ہیپی مہالا‘ ہے۔ انھوں نے بڑے ایونٹس میں سٹنٹ بھی کیے، ان کی ویڈیوز بہت مشہور ہوئیں۔ ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ اس رجحان میں گذشتہ چار پانچ برسوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ مشہور ہونے یا اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے اس طرف آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ ٹریکٹر گاڑیوں کے مقابلے سستے ہیں اس لیے لوگوں کے لیے کرتب دکھانے کے لیے ٹریکٹر خریدنا آسان ہے۔ ترم سنگھ بتاتے ہیں کہ یہ سٹنٹ اکثر کبڈی کپ یا گاؤں کے میلوں کے دوران کروائیں جاتے ہیں، بعض اوقات صرف منتظمین ہی سٹنٹ کراتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہر سٹنٹ مین 15 منٹ کا سٹنٹ کرنے کے 15 ہزار سے 60 ہزار روپے تک وصول کرتا ہے۔ ٹریکٹر سٹنٹ کے دوران حادثات کی وجہ کیا؟ ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک خطرناک کام ہے۔ کہ بہت سے لوگ بغیر تربیت کے کرتب کرتے ہیں یا مقبولیت حاصل کرنے کے بعد حفاظتی اقدامات کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے حادثات عام ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ہم کرتب کرتے وقت ٹریکٹر سے نہ اتریں۔ جب ہمیں اترنا ہوتا ہے تو ہم اس کی رفتار کو کم کر کے اترتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ سٹنٹ کے لیے استعمال ہونے والے ٹریکٹر میں حفاظت کے لحاظ سے خصوصی تبدیلیاں کی جانی چاہییں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس امکان پر عمل کرتے ہیں جو زمین پر ہو سکتا ہے، کیونکہ زمین پر فیصلہ کرنے کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے۔ بیلوں کی جگہ ٹریکٹروں نے لے لی پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر راونکی رام کہتے ہیں کہ اوزار یا دیہی پیشوں سے متعلق کھیل شروع سے ہی دیہی معاشرے میں موجود ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے پنجاب کے دیہاتوں میں چنجھیاں ہوا کرتی تھیں، جن میں پہلوان اونچی چھلانگ لگاتے یا دیگر کرتب دکھاتے، اس کے ساتھ ساتھ بیلچہ اٹھانے یا اس طرح کے سٹنٹ کرنا ثقافت کا حصہ تھا۔ جدید دور میں بھی ٹریکٹر کو کھینچنے یا ٹریکٹر کو اپنے اوپر سے گزرنے جیسی حرکتیں ہوتی رہی ہیں۔ پہلے کسان اپنے بیلوں سے بہت پیار کرتے تھے،

’پیارے پنجابیو ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں‘ Read More »

Abid Boxer

عابد باکسر کی ڈرامائی گرفتاری کا ڈراپ سین

  ملزم عابد باکسر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض ان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ پنجاب پولیس کے سابق انسپیکٹر اور نوے کی دہائی سے خبروں میں رہنے والے عابد باکسر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جمعرات کو ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ مبینہ طور پر بھتہ خور اشتہاریوں کو پناہ دینے، پولیس سے سرکاری کلاشنکوف چھیننے اور پولیس حراست سے فرار کے کیس میں عابد باکسر کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج ارشد جاوید کی عدالت میں درخواست ضمانت بعد از گرفتاری دائر کی گئی تھی۔ اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض عابد باکسر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ ملزم کے وکیل مقصود کھوکھر نے عدالت میں موقف پیش کیا کہ ’سی آئی اے لاہور پولیس نے دھمکیاں دینے، اغوا اور بھتہ کیس میں تفتیش شروع کیے بغیر گھر کا گھیراؤ کر کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا اور گرفتار کر لیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پھر کہا گیا کہ عابد باکسر پولیس سے رائفل چھین کر فرار ہوگئے اور انہیں قصور سے دوبارہ گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف پولیس پر حملے کا کیس درج کر لیا گیا۔‘ مقصود کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ ’پولیس ابھی تک نہ فرار ہونے کا کوئی ثبوت پیش کر سکی ہے اور نہ ہی ان کے قبضے سے پولیس کی رائفل برآمد ہوئی ہے۔ لہذا انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جائے، مقدمات کی تفتیش میں بھی وہ پیش ہونے کو تیار ہیں۔‘ پولیس پراسکیوٹر نے عابد باکسر کی ضمانت کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عابد باکسر کے خلاف دھمکیاں دینے، اغوا اور بھتہ وصولی سمیت پولیس پر حملہ کرنے کے تین مقدمات مختلف تھانوں میں درج ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’سابق پولیس افسر ہونے کے باوجود انہوں نے گرفتاری کے لیے جانے والی پولیس ٹیم پر حملہ کیا اور ایک پولیس افسر پر تشدد بھی کیا۔ جب انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ پولیس حراست سے سرکاری رائفل چھین کر فرار ہوگئے۔‘ ’ملزم کو پولیس نے دوبارہ قصور سے گرفتار کیا۔ وہ پولیس کے ساتھ تفتیش میں تعاون بھی نہیں کر رہے لہذا درخواست ضمانت خارج کی جائے۔‘ عابد باکسر کے خلاف کارروائی عابد باکسر کے سسر جے آر ٹیپو سلطان نے ایگنایٹ پاکسٹان سے  بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس نے ایک ماہ پہلے عابد باکسر کے خلاف اغوا، دھمکیاں دینے اور بھتہ وصولی کے دو کیس درج کیے، لیکن تفتیش کیے بغیر اکتوبر کے پہلے ہفتے میں لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور گھر کا گھیراؤ کر لیا۔‘ جے آر ٹیپو سلطان کا کہنا ہے کہ ’پولیس افسران نے گھر میں گھس کر عابد باکسر کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور اہلیہ کو بھی زدوکوب کیا۔ انہیں گھسیٹ کر باہر لائے اور گیٹ پر تشدد کیا جس کی ویڈیو بھی وائرل کر دی گئی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’عابد باکسر 2018 میں بیرون ملک سے وطن واپس آئے تو یہ تاثر دیا گیا کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے آئے ہیں، لیکن انہوں نے کسی عدالت میں ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔‘ ’پانچ سال کے دوران ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ انہیں سی آئی اے پولیس کے چند افسران نے ذاتی رنجش کی بنیاد پر غیر قانونی کارروائی میں پھنسانے کی کوشش کی اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔‘ عابد باکسر کا سابق پولیس افسر سے ملزم تک کا سفر پولیس ریکارڈ کے مطابق عابد باکسر لاہور میں بطور انسپیکٹر نوے کی دہائی میں اس وقت خبروں میں آئے جب انہیں ان کاؤنٹر سپیشلسٹ سمجھا جانے لگا۔ اداکارہ نرگس نے عابد باکسر کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کیا تھا جس میں ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اداکارہ پر تشدد کیا اور سر کے بال مونڈ دیے۔ تاہم بعد میں اداکارہ نرگس نے یہ مقدمہ واپس لے لیا تھا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں عابد باکسر نے اس وقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اداکارہ سے معافی بھی مانگی تھی۔ عابد باکسر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’شہباز شریف کے پہلے دور میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس ان کا ان کاؤنٹر کرنا چاہتی تھی۔ دوران حراست پولیس نے انہیں رات کے وقت وضو کرنے کا کہا تو انہیں اندازہ ہوگیا کہ انہیں مار دیا جائے گا۔ یہ اکتوبر 1999 کی وہ رات تھی جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا اور مارشل لا لگائی۔ اس دن ن لیگ کی حکومت کے ساتھ ان کو مارنے کا پلان بھی ٹل گیا۔ عابد حسین باکسر کیسے بنے؟ عابد باکسر جب 2020 میں ڈویژنل باکسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین منتخب ہوئے تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے کھیلوں کی بنیاد پر ہی لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے سیف گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا اور جونیئر ورلڈ کپ میں چاندی کا تمغہ اپنے نام کیا جبکہ پانچ مرتبہ نیشنل باکسنگ چیمپئن شپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ 1988 میں جب عابد باکسنگ کے کھیل میں کئی ٹورنامنٹ جیت کر اپنا نام بنا چکے تھے، پولیس میں بھرتیوں کا اعلان ہوا اور عابد باکسنگ کی بنیاد پر پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے۔ اگلے ہی سال یعنی 1989 کی نیشنل گیمز میں پولیس کی طرف سے کھیلتے ہوئے باکسنگ میں گولڈ میڈل جیتنے پر تربیت کے دوران ہی عابد کو سب انسپیکٹر بنا دیا گیا۔

عابد باکسر کی ڈرامائی گرفتاری کا ڈراپ سین Read More »

’ڈسلیکسیا‘ کیا ہے؟ جس میں مولانا طارق جمیل کے بیٹے مبتلا تھے

  معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کے صاحبزادے عاصم جمیل نے 29 اور 30 اکتوبر کی درمیانی شب خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی تھی، جس کی تصدیق ان کے اہل خانہ نے بھی کی تھی۔ ابتدائی طور پر یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ نامعلوم افراد نے مولانا طارق جمیل کے صاحبزادے کو قتل کردیا لیکن اہل خانہ نے ایسی خبروں کی تردید کردی تھی۔ عاصم جمیل کے بھائی نے ویڈیو بیان میں بتایا تھا کہ ان کے بھائی ذہنی بیماری میں مبتلا تھے اور ان کا علاج جاری تھا جب کہ آخری 6 مہینے میں ان کی بیماری کی شدت بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے بھائی کی بیماری کی وضاحت نہیں کی تھی، تاہم ساتھ ہی بتایا تھا کہ ان کے بھائی بچپن سے شدید ڈپریشن کا شکار رہے تھے۔ لیکن بعد ازاں بیٹے کی نماز جنازہ اور تدفین کے وقت مولانا طارق جمیل نے ان کی بیماری اور موت پر مختصر تقریر کی اور تھی اور کہا تھا کہ وہ ان کے سب سے صالح بیٹے تھے۔ مولانا طارق جمیل نے تصدیق کی کہ ان کے بیٹے ’ڈسلیکسیا‘  کے مرض  میں مبتلا تھے اور وہ لکھ پڑھ نہیں پائے تھے، کیوں کہ انہیں حروف کی پہچان نہیں تھی۔ ان کے مطابق ان کے بیٹے نے نہ تو مذہبی تعلیم حاصل کی اور نہ ہی دنیاوی تعلیم حاصل کی لیکن وہ گھنٹوں تک ان سے باتیں کرتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ انہیں اپنا خدا کے پاس جانا ہے۔ مولانا طارق جمیل کی جانب سے بیٹے کی بیماری ’ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) بتائے جانے کے بعد بعض افراد پریشان بھی دکھائی دیے اور یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ مذکورہ بیماری کیا ہے؟ ہم یہاں ’ڈسلیکسیا‘ سے متعلق مختصر وضاحت پیش کر رہے ہیں۔ ’ڈسلیکسیا‘ کیا ہے؟ اس بیماری کو زیادہ تر لوگ مسئلہ سمجھتے ہیں، اسے بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا جب کہ بہت سارے لوگ اس کی علامات ہی نہیں سمجھ پاتے۔ اس بیماری کا براہ راست تعلق حروف کو پہچاننے، پڑھنے اور لکھنے میں مشکلات سے ہے اور اسے کئی سال قبل ’ورڈ بلائنڈنیس‘ یا ’ریڈنگ ڈس ایبلٹی‘ بھی کہا جاتا تھا لیکن پھر 1968 میں اس کے لیے پہلی بار ’ڈسلیکسیا‘  کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ عام طور پر اس بیماری کی علامات اس وقت سامنے آتی ہے جب بولنے کی عمر کو پہنچتا ہے اور ان کی جانب سے بول نہ پانے کو ’ڈسلیکسیا‘ کی ابتدائی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم بچوں کی جانب سے بول نہ پانے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہوسکتی ہیں اور اس وقت کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ’ڈسلیکسیا    کی زیادہ تر کھل کر علامات اس وقت سامنے آتی ہیں جب بچے اسکول جانا شروع کرتے ہیں اور وہیں انہیں حروف کو پہچاننے، لکھنے اور پڑھنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات سب سے پہلے بچوں کے اساتذہ نوٹ کرتے ہیں لیکن زیادہ تر استادوں کو یہ علم نہیں کہ بچوں کی جانب سے درست انداز میں پڑھائی نہ کرپانے کی ایک وجہ ’ڈسلیکسیا‘ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں بھی لازمی نہیں کہ بچوں کو پڑھائی میں مشکلات کو ’ڈسلیکسیا‘ سے جوڑا جائے، تاہم ایسی صورت حال میں ماہر ڈاکٹرز سے رجوع کیا جانا چاہئیے۔ ’ڈسلیکسیا‘ کے درست تشخیص کے لیے ماہر امراض اطفال سمیت اعصابی اور دماغی بیماریوں کے ماہرین کے پاس جایا جاسکتا ہے۔ ’ڈسلیکسیا‘ ہونے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں بعض جینیاتی بھی ہوتی ہیں اور بعض نیورو کے مسائل بھی ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ بعض بچوں میں اس بیماری کی شدت سنگین ہو اور اس کی علامات بھی انتہائی خطرناک ہوں۔ عام طور پر ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات اتنی شدید اور خطرناک نہیں ہوتیں اور آغاز میں ہی بچوں میں ایسے مسائل سامنے آنے کے بعد ڈاکٹرز سے رجوع کرنے پر علامات ختم ہوجاتی ہیں لیکن بعض مرتبہ والدین کی جانب سے ’ڈسلیکسیا‘ کی علامات کو نظر انداز کرنے سے بیماری میں شدت بھی آ سکتی ہے۔ ’ڈسلیکسیا‘  کا کوئی علاج موجود نہیں، البتہ ماہرین صحت اس کی علامات اور شدت کو دیکھتے ہوئے دیگر ادویات سے اس کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’ڈسلیکسیا‘ کے شکار بچوں کے ساتھ ایک اور ناانصافی یہ ہوتی ہے کہ والدین اور دیگر افراد انہیں کم عقل اور نالائق سمجھ کر پڑھ نہ پانے پر انہیں ڈانٹتے دکھائی دیتے ہیں اور ان پر غصے کا اظہار کیا جاتا ہے، جس وجہ سے ایسے بچوں میں مایوسی بڑھ سکتی ہے۔

’ڈسلیکسیا‘ کیا ہے؟ جس میں مولانا طارق جمیل کے بیٹے مبتلا تھے Read More »