Latest News

Latest News

ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والا دنیا کا سب سے بڑا خاندان

میزورام: (ویب ڈیسک) بھارت میں ایک ایسا گھر ہے جس کی چھت کے نیچے ایک ہی خاندان کے 199 افراد بسیرا کرتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاست میزورام کے گاؤں بکتونگ میں دنیا کے سب سے بڑے خاندان کا گھر ہے جس کے 199 افراد ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں۔ زیونا اس فیملی کے سرپرست تھے جن کی 38 بیویاں، 89 بچے اور 36 پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں رہتے ہیں۔ زیونا کا انتقال 2021 میں 76 سال کی عمر میں ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی وجہ سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوا۔ تاہم ان کا خاندان بکتونگ کی پہاڑیوں میں تعمیر کئے گئے کمپلیکس زیونا میں ایک ہی چھت کے نیچے رہ رہا ہے، زیونا کے کچھ بچے شادی شدہ ہیں اور کچھ کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں ہیں، خاندان کے ارکان کی تعداد اب 199 ہے۔ یہ تمام افراد دن میں دو بار کھانے کے موقع پر اپنے گھر کے گریٹ ہال میں جمع ہوتے ہیں اور اس وقت یہ گھر کے ڈائننگ روم سے زیادہ ایک مصروف کینٹین کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے، اراکین روزانہ کام کاج سے لے کر خوراک اور مالیات تک سب کچھ آپس میں بانٹتے ہیں۔ زیونا کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وہ زیونا کی میراث کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں

ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والا دنیا کا سب سے بڑا خاندان Read More »

سموگ، 18 نومبر کو لاہور، ننکانہ، شیخوپورہ گوجرانوالہ سمیت 10 اضلاع میں تعلیمی ادارے بند رہیں گے، نوٹیفکیشن جاری

  لاہور (ایگنایٹ پاکستان) پنجاب حکومت نے سموگ کے باعث ہفتہ 18 نومبر کو تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق 18 نومبر کو لاہور‘ ننکانہ صاحب‘ شیخوپورہ‘ قصور‘ گوجرانوالہ‘ گجرات سمیت دس اضلاع میں تمام سکولز‘ کالجز اور یونیورسٹیاں بند رہیں گی۔ مارکیٹیں‘ دکانیں‘ جم‘ سینما دوپہر 3 بجے کھلیںگے۔

سموگ، 18 نومبر کو لاہور، ننکانہ، شیخوپورہ گوجرانوالہ سمیت 10 اضلاع میں تعلیمی ادارے بند رہیں گے، نوٹیفکیشن جاری Read More »

گیلانی خاندان قومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے الیکشن لڑے گی، یوسف رضا گیلانی

پیپلزپارٹی رہنما یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیان میں کہا گیلانی خاندان قومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے الیکشن لڑے گی،کوئی سروکار نہیں میرے مقابلےمیں کون امیدوار آئے گا۔ ملتان میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئےکہا لیول پلئنگ فیلڈ فراہم نہ کی گئی توجمہوریت کونقصان ہوگا،میں اپنےپرانےحلقےاین اے148سےالیکشن لڑوں گا،کوئی نجومی نہیں کہ بتاسکوں پنجاب میں کتنی سیٹیں جیتیں گے۔ پیپلزپارٹی جلد اپنے منشورکا اعلان کرےگی، الیکشن میں تمام لوگوں کو یکساں مواقع ملیں گے،ہماری تمام تیاریاں مکمل ہیں،الیکشن کے بعد معاشی استحکام آئے گا۔اس وقت ملک بحرانوں کا شکار ہے،پیپلز پارٹی ہی ملک کو تمام بحرانوں کو نکال سکتی ہے۔ 9مئی میں ملوث افراد کے مستقبل کافیصلہ عدالت نےکرنا ہے۔

گیلانی خاندان قومی اسمبلی کے 3 حلقوں سے الیکشن لڑے گی، یوسف رضا گیلانی Read More »

کیا جو کی فصل گندم کا متبادل ہو سکتی ہے؟

  پاکستان کو وقتاً فوقتاً گندم کی قلت کا سامنا رہا ہے، جو کہ ملک کے پاس موجود زرعی وسائل کے پیش نظر افسوس کی بات ہے۔ یہ خاص طور پر حیران کن ہے کیونکہ پاکستان میں عام طور پر گندم کو نقد آور فصل سمجھا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کسان کسی دوسری فصل کے بجائے اس کا انتخاب کرنا پسند کریں گے۔ اور پھر بھی، ملک کو قلت کا سامنا ہے۔ جیسا کہ حالات کھڑے ہیں، پنجاب سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا ملک ہے، اس کے بعد سندھ اور خیبر پختونخواہ کا نمبر آتا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں تقریباً 72 فیصد بنیادی خوراک کی طلب گندم کی پیداوار سے پوری ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کو کئی قدرتی اور انسان ساختہ آب و ہوا سے متعلق آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جیسے کہ شدید بارشیں اور سیلاب، جنہوں نے فصل کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ عملی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان نے ابھی تک ان نقصانات کا ازالہ نہیں کیا ہے، اور یہ ملک میں گندم کی موجودہ قلت کی وضاحت کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان مستقبل کی پیداوار کے لیے متبادل فصلوں، جیسے جو، کی تلاش کرے۔ جو، ضروری امینو ایسڈز پر مشتمل پروٹین کا ایک بھرپور ذریعہ ہے، قدیم زمانے کی فصل ہے، اور اس خطے میں ہزاروں سالوں سے کاشت کی جاتی رہی ہے۔ بھارت کے مقابلے میں جو ہر سال 1.5 ملین ٹن سے زیادہ جو پیدا کرتا ہے، پاکستان تقریباً 40,000 ٹن جو پیدا کرتا ہے۔ کسانوں کے لیے جو کو متبادل فصل میں تبدیل کرنے کی طرف قدم اٹھانا سمجھ میں آتا ہے۔ اس کی کٹائی کا موسم اکتوبر سے مارچ تک موسمی حالات پر منحصر ہے۔ چونکہ پاکستان پہلے ہی مسائل کا شکار ہے، جیسے کھارا پن، خشک سالی اور کاشت کے لیے میٹھے پانی کی کمی، بڑے پیمانے پر جو کی کاشت بڑھتی ہوئی آبادی کو کھانا کھلانے کے لیے ایک مناسب آپشن ہوگی۔ 18ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد زراعت ایک ایسا موضوع ہے جو صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ اس لیے صوبائی زراعت کے تحقیقی محکموں کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو گندم کے متبادل فصل کے طور پر جو کی اقسام اگانے کی ترغیب دیں۔ پاکستان یقیناً اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی جو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اگر کوشش مخلصانہ اور پیشہ ورانہ طریقے سے ہو تو اسے برآمد بھی کر سکتا ہے۔

کیا جو کی فصل گندم کا متبادل ہو سکتی ہے؟ Read More »

Artificial Rain in Lahore is planned

مصنوعی بارش کیا ہے اور سموگ کیخلاف کس حد تک فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے؟

لاہور: (ایگنایٹ پاکستان) سموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بعد لاہور کا مجموعی ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے بھی تجاوز کر گیا ہے اور محکمہ موسمیات کے مطابق دسمبر کے وسط تک قدرتی طور پر بارش کے امکانات بھی بہت کم ہیں، اس صورتحال کے پیش نظر نگران پنجاب حکومت کی جانب سے مصنوعی بارش برسانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے 28 اور 29 نومبر کو مصنوعی بارش کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی ہے، ٹیکنیکل کمیٹی کے ممبر اور پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف جیوگرافی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منور صابر نے کہا کہ مصنوعی بارش پہلے سے موجود بادلوں پر نمک چھڑک کر برسائی جا سکتی ہے، ایک بار بارش برسانے کیلئے 4 کروڑ روپے خرچ آئے گا۔ ڈاکٹر منور صابر نے مزید بتایا کہ مصنوعی بارش سے موسمیاتی سسٹم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، چونکہ سموگ ہر سال شہر پر چھاتی ہے جس کی وجہ سے “مین میڈ” بارش کی ہر سال ضرورت ہوگی۔واضح رہے کہ پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف جیوگرافی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منور صابر نے تین سال پہلے مصنوعی بارش کرنے کا تصور پیش کیا تھا اور خانپور میں اس کا تجربہ بھی کیا گیا۔ مصنوعی بارش کیسے برستی ہے؟ مصنوعی بارش برسانے کا عمل بھی کافی دلچسپ ہے جس میں پہلے بادلوں کو کیمیکل کے ذریعے بھاری کیا جاتا ہے، مصنوعی بارش کلاؤڈ سیڈنگ تکنیک کے ذریعے ہوتی ہے، خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعے دو سے چار ہزار فٹ کی بلندی سے بادلوں کے اوپر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں، ان کیمیکلز کی وجہ سے بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بنتے ہیں اور بادل بھاری ہو جاتے ہیں اور برسات ہونے لگتی ہے۔ Cloud seeding یا مصنوعی بارش کے لیے جہاز کے ذریعے بادلوں پر کیمیکل چھڑکنے کے علاوہ زمین سے بھی راکٹ فائر کر کے ان پر کیمیکل چھڑکا جا سکتا ہے، یہ طریقہ کار زیادہ تر چین میں استعمال کیا جاتا ہے یعنی مطلوبہ کیمیائی مادوں کے راکٹ تیار کر کے انہیں بادلوں پر فائر کیا جاتا ہے اور اس طریقے سے مصنوعی بارش برسائی جاتی ہے۔ ہر بادل مصنوعی بارش کے لیے موزوں نہیں، نہ ہر موسم میں یہ برسات ہو سکتی ہے، اس کے لیے خاص ماحول درکار ہوتا ہے، ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دس میں سے تین قسم کے بادلوں میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا جاسکتا ہے، ایسے بادلوں کو مصنوعی بارش کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جن کی تہہ 7 سے 10 ہزار فٹ موٹی ہو۔ مصنوعی بارش کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہوا میں رطوبت یعنی نمی 70 سے 75 فیصد ہو اور ہوا کی رفتار 30 سے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو، ان سارے عوامل کی موجودگی میں ہی مصنوعی بارش کا تجربہ مکمل طور پر کامیاب ہو سکتا۔ دو امریکی سائنس دانوں ونسنٹ شیفر اور برنارڈ وونیگو نے 1946ء میں پہلی مرتبہ مصنوعی بارش کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی، انہوں نے ڈرائی آئس کا استعمال کرکے کامیاب کلاؤڈ سیڈنگ کی تھی۔ آج دنیا کے 50 سے زائد ملکوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں، امریکا، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ نقصانات مصنوعی بارش جہاں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں، پہلی بات تو یہ کہ بادلوں کو برسایا تو جا سکتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے ہی رکیں گے، دوسری بات اس سے ماحول پر غیر فطری دباؤ بڑھ جاتا ہے، شدید حبس اور گرمی بڑھ سکتی ہے، چونکہ اس بارش کے پانی میں کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں اس لیے یہ پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ مصنوعی بارش برسانے کے اس عمل میں بہت سے کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں، جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کیلشیم کلورائیڈ، پوٹاشیم کلورائیڈ، سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ، ایلومینیم آکسائیڈ اور زنک شامل ہیں، تاہم ان میں سب سے زیادہ مہلک سلور آیوڈائیڈ ہے، تنزانیہ میں پانی اور انسانی مسائل پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر وکٹوریہ نگومو کا کہنا ہے کہ مصنوعی بارش سے بہت سے بیماریاں جنم لیتی ہیں، جن میں ایڈز، ملیریا، کینسر جیسے مہلک امراض شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی تحقیق کے مطابق پانی میں حل نہ ہونے والا سلور آیوڈائیڈ ایک زہریلا مادہ ہے جو پانی کو آلودہ کردیتا ہے، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ کیمیکل انسانوں، مچھلیوں اور دیگر جانداروں کے لیے زہر کا درجہ رکھتا ہے، یہ کیمیکل جلد، سانس اور منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی کم مقدار بھی نظام انہضام کی خرابی، گردوں اور پھیپھڑوں میں زخم کا سبب بنتی ہے۔ کیا پاکستان میں مصنوعی بارش کرنا ممکن ہے؟ محکمہ موسمیات کے ریجنل ڈائریکٹر شاہد عباس کے مطابق مصنوعی بارش برسانا کوئی مشکل عمل نہیں لیکن اس تجربے کے کامیاب ہونے کے لیے کافی صورتیں ہیں جن کے بغیر مصنوعی بارش برسانا ناممکن ہے، انہوں نے بتایا کہ مؤثر کلاؤڈ سیڈنگ کے لیے کم از کم 40 فیصد بادلوں کا ہونا اور ہوا میں کم سے کم 70 فیصد نمی ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہوا کی رفتار بھی بہت معنی رکھتی ہے اور جب تک یہ صورتیں مکمل نہ ہوں تو مصنوعی بارش کا تجربہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ریجنل ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ مصنوعی بارش کا تجربہ اگر کامیاب بھی ہو جائے تو اس کو آلودگی ختم کرنے کے لیے مستقل حل تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ بارش کے بعد آلودگی کم تو ضرور ہو گی مگر اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس میں دوبارہ اضافہ نہیں ہوگا۔ دنیا بھر میں مصنوعی بارش کا استعمال آج دنیا کے 50 سے زائد ملکوں میں کلاؤڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں، امریکہ، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ 2008ء میں بیجنگ اولمپکس کے دوران اس کا استعمال کرکے اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ بارش افتتاحی اور اختتامی تقریب کا مزہ خراب نہ کر دے، اس کے لیے کلاؤڈ سیڈنگ تکنیک کی

مصنوعی بارش کیا ہے اور سموگ کیخلاف کس حد تک فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے؟ Read More »

خدیجہ شاہ کی نظر بندی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

لاہور: (دنیا نیوز) معروف فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کی نظر بندی کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ خدیجہ شاہ کے شوہر جہانزیب امین نے نظر بندی کو چیلنج کیا، درخواست میں وفاقی حکومت اور ڈپٹی کمشنر لاہور سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار نے موقف اپنایا ہے کہ خدیجہ شاہ کی نظر بندی بدنیتی پر مبنی ہے، خدیجہ شاہ کو قانون کے منافی نظر بند کیا گیا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت خدیجہ شاہ کو لاہور کی حدود سے باہر لیکر جانے سے روکنے کا حکم دے اور نظر بندی کے نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دے۔ 

خدیجہ شاہ کی نظر بندی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج Read More »

عام انتخابات کی تیاریاں، الیکشن کمیشن کا ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ

اسلام آباد: (ایگنایٹ پاکستان) الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں جس کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے چاروں صوبوں میں ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ کر لیا۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے مختلف اضلاع میں ریجنل الیکشن کمشنرز، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنرز کے دفاتر سے ای ایم ایس کا تجربہ کیا، ای ایم ایس سسٹم جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ ای ایم ایس کے ذریعے نتائج انٹرنیٹ اور بغیر انٹرنیٹ کے بھی بھیجیں جاسکیں گے، پریذائیڈنگ افسران اپنے پولنگ سٹیشن کے نتائج ریٹرننگ افسران کو بھجوائیں گے، ریٹرننگ افسران رزلٹ تیار کر کے ڈیجیٹل اور مینوئل طریقے سے الیکشن کمیشن کو بھجوائے گا، ہر ریٹرننگ افسر کو چار چار ڈیٹا انٹری آپریٹرز دئیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن نے ڈیٹا انٹری آپریٹرز کو ٹریننگ بھی دے دی ہے، الیکشن کمیشن اور نادرا کے درمیان سرور ہوسٹنگ کا معاہدہ بھی طے پا گیا۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس ڈیٹا محفوظ کرنے کے لیے اپنا سرور ہی موجود نہیں، الیکشن کمیشن عام انتخابات کے لیے نادرا کے سرور کا سہارا لے گا، الیکشن کمیشن نادرا کے سرور ہوسٹنگ کی مد میں کرایہ ادا کرے گا۔ 

عام انتخابات کی تیاریاں، الیکشن کمیشن کا ای ایم ایس کا کامیاب تجربہ Read More »

پنجاب حکومت نے کھانسی کے پانچ سیرپس پر پابندی لگا دی

لاہور: پنجاب حکومت نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے الرٹ کے جواب میں پانچ “زہریلے” کھانسی کے شربت کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے، یہ پیش رفت صرف دو ماہ کے اندر صوبے میں منشیات سے متعلق دوسرا بڑا سکینڈل ہے۔ لاہور کی ایک دوا ساز کمپنی کے تیار کردہ کھانسی کے سیرپ میں الکحل کی مقدار زیادہ پائی گئی۔ یہ شربت Mucorid، Ulcofin، Alergo، Emidone Suspension اور Zincell ہیں۔ یہ تشویشناک دریافت مالدیپ کی شکایات کے بعد ڈبلیو ایچ او کی تحقیقات کے بعد ہوئی، کیونکہ یہ شربت خطے کے دیگر ممالک کو بھی برآمد کیے گئے تھے۔ صوبائی حکومت نے محکمہ صحت کے حکام کو فوری طور پر ٹیمیں روانہ کرنے، مارکیٹوں سے زیر بحث ادویات کا پورا ذخیرہ ضبط کرنے اور مینوفیکچرر کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ واقعہ ستمبر میں ایک سابقہ ​​کیس کو ذہن میں لاتا ہے، جہاں ایک ملاوٹ شدہ انجیکشن والی دوائی نے پنجاب میں آنکھوں کے 80 سے زائد مریضوں کی بینائی سے سمجھوتہ کیا تھا۔ اس نے صحت کے حکام کی ادویات کی تیاری اور تقسیم کے عمل کی نگرانی میں نمایاں خامیوں کو بے نقاب کیا، خاص طور پر ان ادویات کی فراہمی کے لیے استعمال ہونے والی غیر رسمی نقل و حمل۔ یہ فرم لاہور شہر کے اندر موٹر سائیکلوں پر اور صوبے کے باقی حصوں میں مسافر بسوں پر ادویات فراہم کر رہی تھی۔ پنجاب کے نگراں وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا کہ حکومت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کی سفارشات پر فوری طور پر کھانسی کے شربت کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ انہوں نے کہا، “ڈریپ کی سفارش پر، پنجاب حکومت نے نہ صرف صوبے میں ان پانچ شربتوں کی فروخت روک دی ہے بلکہ مینوفیکچرنگ فیکٹری کو سیل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔” ڈان کی طرف سے دیکھی جانے والی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈریپ نے ان کھانسی کے شربتوں کے مخصوص بیچوں کو ڈائیتھیلین گلائکول (ڈی ای جی) اور ایتھیلین گلائکول (ای جی) جیسے نقصان دہ مادوں سے مشتبہ آلودگی کی وجہ سے واپس منگوایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے ایلرگو سیرپ کے بیچ نمبر B220 میں ڈی ای جی اور ای جی کی نجاست کی مشتبہ موجودگی کی بھی نشاندہی کی ہے، جس کی شناخت مالدیپ میں کی گئی ہے اور لاہور کی فارمکس لیبارٹریز (پرائیویٹ) لمیٹڈ نے تیار کی ہے۔ ڈریپ کے لاہور یونٹ کی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ہے کہ یہ نجاست دیگر بیچوں اور مصنوعات میں بھی موجود ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ “یہ یاد دہانی ایک احتیاطی اقدام ہے جو صحت عامہ کو ان نجاستوں کے ممکنہ نقصان دہ اثرات سے بچانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔” مینوفیکچرنگ کمپنی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر مذکورہ مصنوعات کے ناقص بیچز کو مارکیٹ سے واپس منگوائے۔ رپورٹ میں ڈسٹری بیوشنز اور فارمیسیوں میں کام کرنے والے تمام فارماسسٹوں اور کیمسٹوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے اسٹاک کو چیک کریں اور مشتبہ مصنوعات کے ان بیچوں کی سپلائی بند کریں۔ بقیہ اسٹاک کو قرنطین کیا جائے اور سپلائر یا کمپنی کو واپس کیا جائے، اس نے مزید کہا کہ ڈریپ اور صوبائی محکمہ صحت کی ریگولیٹری ٹیموں کو اس معاملے پر بریفنگ دی گئی ہے اور مارکیٹ میں نگرانی بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ خراب مصنوعات کی مؤثر واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ڈریپ نے ان اداروں، فارمیسیوں اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کی سپلائی چینز کے اندر چوکسی بڑھانے کی تجویز بھی دی ہے جو زیر بحث ان مصنوعات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “اس پروڈکٹ کے استعمال کے ساتھ پیش آنے والے منفی رد عمل یا کوالٹی کے مسائل کی اطلاع Drap کے نیشنل فارماکوویجیلنس سینٹر کو دی جا سکتی ہے، Adverse Event رپورٹنگ فارم کا استعمال کرتے ہوئے یا دیے گئے لنکس کے ذریعے آن لائن”۔ اس نے صارفین کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ متاثرہ بیچ نمبر والی پروڈکٹ کا استعمال بند کر دیں اور اپنے معالجین یا صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں سے رابطہ کریں اگر انہیں کوئی ایسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو زیر بحث دوائیوں کو لینے یا استعمال کرنے سے متعلق ہو سکتا ہے۔

پنجاب حکومت نے کھانسی کے پانچ سیرپس پر پابندی لگا دی Read More »

کیا الشفا ہسپتال سے کوئی ثبوت نہ ملنے پر اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے؟

اسرائیلی فوج کو غزہ شہر کے الشفا ہسپتال میں داخل ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ابھی بھی اس ہسپتال کو حماس کے کمانڈ مرکز کے طور پر ثابت کرنے کے لیے ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہسپتال کے اندر کوئی خود مختار سکروٹنی نہیں، صحافی غزہ میں آزادانہ طور پر گھوم پھر نہیں سکتے اور چند ایک صحافی جو وہاں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں وہ اسرائیلی فوج کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔ اب تک اسرائیل نے جو ثبوت پیش کیے ہیں، ان کے حوالے سے میں قائل نہیں ہوں کیونکہ اسرائیلی اس ہسپتال کے بارے میں جس قسم کے بیان دے رہے تھے، اس سے تو یہ تاثر ملتا تھا کہ الشفا ہسپتال حماس کے آپریشن کا اہم مرکز تھا۔ لیکن اگر واقعی الشفا ہسپتال میں حماس کا کوئی مرکز موجود تھا، جس کے بارے میں سنہ 2014 سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں تو اسرائیل پھر ابھی تک دنیا کے سامنے اس کے وجود کے ثبوت کیوں نہیں لا سکا۔ الشفا ہسپتال سے ابھی تک چند کلاشنکوف ملی ہیں جو کہ مشرق وسطیٰ میں عام ہیں، ایک سرنگ کا داخلی راستہ ملا ہے اور ایسی کئی سرنگیں غزہ میں موجود ہیں، کچھ فوجی یونیفارم اور دھماکہ خیز مواد سے لیس ایک گاڑی بھی ملی ہے۔ لیکن ہسپتال میں حماس کے ایک بڑے ہیڈکوارٹر کی دریافت اور اس متعلق شواہد سامنے لانا یقیناً اب بھی ممکن ہے۔ اس پسپتال کو 1970 کی دہائی میں اسرائیلیوں نے اس وقت تک تعمیر کیا تھا جب ان کے پاس اس علاقے کا مکمل کنٹرول تھا۔ یہ بہت بڑی جگہ ہے جس کی مکمل تلاشی میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ الشفا ہسپتال کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اسے ڈیزائن کرنے والے اسرائیلی معماروں نے یہاں وسیع تہہ خانے بھی بنائے تھے۔ الشفا سے ملنے والے شواہد پر منحصر اسرائیل کا بیانیہ یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل کو یہاں سے کچھ مل بھی گیا ہو لیکن اپنی فوجی یا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انھوں نے ابھی اسے سامنے نہ لانے کا فیصلہ کیا ہو۔ اسی کی وجوہات ابھی تک غیر واضح ہیں تاہم اسرائیل کے بیانیے کا بہت زیادہ انحصار الشفا سے ملنے والے ثبوتوں پر ہے۔ سات اکتوبر کو اس جنگ کے آغاز سے جب حماس کی جانب سے ایک اچانک حملے میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے، اسرائیل کہہ چکا ہے کہ اس ہسپتال تک پہنچنا اس کے اہم ٹارگٹوں میں سے ایک ہے۔ اسرائیل کا ایک اہم مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ حماس غزہ کی طبی سہولیات کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے تاہم حماس بار بار اس الزام کی تردید کر چکا ہے۔ غزہ میں ایک ماہ کے دوران تقریباً 11 ہزار 500 افراد کومارنے کے پیچھے اسرائیل یہ جواز پیش کرتا ہے کہ حماس ان لوگوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے جمعرات کے روز ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ اس ہسپتال میں حماس کا ملٹری کمانڈ موجود ہے۔ وہ اس بات کی جانب بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ ہسپتال میں یرغمالیوں کو بھی رکھا گیا کیونکہ اسرائیل کی ڈیفینس فورسز کے مطابق 65 برس کی یہودت ویس، جنھیں ان کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا، کی لاش الشفا ہسپتال کے قریب ایک گھر سے ملی۔ غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 200 سے زائد اسرائیلی افراد کی بازیابی کے لیے قطر کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ لیکن اگر الشفا ہسپتال کے حماس کے ہیڈکوارٹر ہونے سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتے تو پھر اسرائیل پر بین الاقوامی کمیونٹی کی جانب سے سیز فائر کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ 42 دن میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں اسرائیل کے طریقوں پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ امریکہ وہ واحد بین الاقوامی طاقت ہے جس کے بارے میں اسرائیلیوں کو واقعی تشویش لاحق ہے۔ امریکہ کے صدر بائیڈن اس جنگ کے آغاز سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن اسے یہ صحیح طریقے سے کرنا چاہیے یعنی جنگ کے قوانین پر عمل کرتے ہوئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کے روز ایک قرارداد منظور کی، جس میں انسانی بنیادوں پر سیز فائر کے لیے کہا گیا تاہم امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔ ’یہ کارروائیاں خطے اور اس سے باہر بھی دہشتگردی کو ہوا دیں گی‘ اس حوالے سے ایک اور دلچسپ پیشرفت وہ اشاعت ہے جس میں دنیا بھر کے ریٹائر وزرائے اعظم، صدور، بزرگ سیاستدانوں اور خواتین کے ایک گروپ نے حماس کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’غزہ میں تباہی اور شہریوں کا قتل عام اسرائیل کو محفوظ نہیں بنا رہا۔ یہ کارروائیاں پورے خطے اور اس سے باہر دہشت گردی کو مزید ہوا دیں گی اور اس تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔‘ تو اسرائیل کو معلوم ہے کہ جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اسرائیل کی حمکت عملی پر اٹھنے والوں سوالوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب آسانی سے ختم ہونے والا نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو کہ اسرائیل یہ کہے کہ اس نے اپنا کام کر لیا اور اب وہ غزہ سے نکل رہا ہے۔ حکومت کے پاس بھی آنے والے دنوں کے لیے کوئی منصوبہ نظر نہیں آ رہا۔ نتن یاہو نے صرف یہ کہا ہے کہ وہ وہاں ’دہشتگردی کے دوبارہ ابھرنے‘ کو روکنے کے لیے سکیورٹی کی ذمہ داری رکھتے ہیں۔ اسرائیل غزہ میں جو کچھ بھی کرتا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور تباہی ہوئی، اسے ان 20 لاکھ سے زائد لوگوں سے نمٹنا ہو گا جو اس سے نفرت کریں گے۔ اسرائیل کو ممکنہ طور پر بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل کے لیے یہ ثابت کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کے پاس یہ طریقے استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا

کیا الشفا ہسپتال سے کوئی ثبوت نہ ملنے پر اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے؟ Read More »

Is Nawaz Shareef Statment against women the narrative of PML(N)

خواتین کے ’ناچ گانے‘ سے متعلق بیان: کیا ’90 کی دہائی میں پھنسے‘ نواز شریف کا یہی سیاسی بیانیہ ہے؟

’ہمارے جلسے بھی ہوتے ہیں اور وہاں خواتین بھی ہوتی ہیں۔ وہ آتی ہیں جلسہ سنتی ہیں اور پُرامن بیٹھتی ہیں۔ وہاں کوئی دھمال یا ناچ گانا نہیں ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کا کلچر نہیں ہے۔‘ سابق وزير اعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شريف نے کوئٹہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ انھوں نے خواتین سے متعلق اس نوعیت کا کوئی بیان دیتے ہوئے اپنے حریف عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو نام لیے بغیر نشانہ بنایا ہو۔ گذشتہ ماہ جب وہ چار سال کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد پاکستان پہنچنے تو انھوں نے مینارِ پاکستان جلسے کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’دیکھیں ہماری بہنیں کتنی آرام سے جلسہ سن رہی ہیں، کوئی ڈھول کی تھاپ پر ناچ گانا نہیں ہو رہا، میری بات سمجھ گئے یا نہیں سمجھے؟‘ اب کوئٹہ میں دوبارہ ایسے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر نواز شریف کے خلاف ردعمل آیا ہے اور کئی لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آیا خواتین کے حوالے سے یہ موقف آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے نئے بیانیے کا حصہ ہے۔ریف کے بیان کی مذمت کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ناصر چغتائی نے تبصرہ کیا کہ ’یہ ان کی اندرونی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ ہر مرتبہ یہ بات کیوں کر رہے ہیں؟‘ شمع جونیجو نے لکھا ’میاں نواز شریف کا جلسوں میں اپنے لیڈران (جن میں وہ خود بھی شامل ہیں) کے لیے دھمال ڈالنے والی خواتین کو دوسری بار ٹارگٹ بنانا انتہائی مایوس کُن ہے۔ ہمیں وہ دن نہیں بھولے جب نیند میں سونے والے سین میں بھی پی ٹی وی کے ڈراموں میں ہمیں سر پر دوپٹہ پہنا کے ریکارڈنگ کروائی جاتی تھی۔۔۔ یہ انیس سو نوے نہیں، دو ہزار تیئس ہے میاں صاحب!‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’خُوشی اور عقیدت کی دھمال پاکستان کا کلچر ہے۔ قلندر کی درگاہ ہو یا داتا دربار، دھمال صرف مردوں کے لیے نہیں!‘ صحافی مطیع اللہ جان نے پاکستان کے قومی لیڈران کے ایسے بیانات پر تبصرہ کیا کہ ’پس ثابت ہوا کہ انسان کے سیکھنے کے لیے لندن یا آکسفورڈ میں رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔‘ انھوں نے نواز شریف اور عمران خان دونوں کے بیانات پر طنز کیا کہ ’کچھ خواتین ناچ گانا نہیں کرتی، اور کچھ مرد روبوٹ نہیں ہوتے۔ واہ رے ووٹروں کی قسمت جائیں تو کہاں؟‘ تاہم سماجی کارکن ایمان مزاری کے مطابق نواز شریف کی طرف سے اس قسم کے ’بدتمیزی پر مبنی تبصرے مسلم لیگ ن کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘ وہ اس بارے میں شمع سے اتفاق کرتی ہیں کہ ’نواز شریف 90 کی دہائی میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہی تقریریں کر رہے ہیں۔‘ دریں اثنا خواتین کے حقوق کی تنظیم عورت مارچ نے مینارِ پاکستان جلسے کے دوران نواز شریف کے خواتین مخالف بیان کی مذمت میں لکھا تھا کہ ’خواتین کو ’اچھی‘ اور ’بُری‘ عورت میں تقسیم کرنا پتھروں کے زمانے کا طریقہ کار ہے۔‘ ’ناچ گانے کا شوق رکھنے سے عورت یا کسی بھی انسان کے ذاتی کردار پر سوال اٹھانا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔‘ کیا پاکستانی سیاست میں خواتین کو ’پُرامن طریقے سے بٹھانا‘ ہی مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے؟ عمران خان ہوں یا نواز شریف، جب بھی پاکستان میں کوئی بڑا سیاسی لیڈر اس قسم کا بیان دیتا ہے تو عموماً جماعت کے دیگر رہنما اس پر وضاحت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بی بی سی نے مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری سے نواز شریف کے بیان کا مطلب پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ میاں صاحب نے اس سیاق و سباق میں بات کرنے کی کوشش کی ہے کہ ورکرز کنونشن میں خواتین بھی موجود تھیں، اس کے باوجود مسلم لیگ ن کا طرز تحریک انصاف سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے جلسے پاکستانی کلچر سے مطابقت رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں میاں صاحب نے کہا ہے کہ ’وہاں عورتیں دھمال ڈالتی ہیں مگر ہماری عورتیں چپ کر کے بیٹھتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔‘ عظمیٰ بخاری کے مطابق ’میاں صاحب نے کلچر اور (مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان) فرق کی بات کی تھی۔ انھوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ غلط ہے یا صحیح ہے۔‘ انھوں نے سوال کیا کہ آپ خود دیکھیں تحریک انصاف کے جلسوں میں ’کیا کچھ نہیں ہوتا رہا؟ خواتین پر جس نوعیت کے تبصرے ہوتے ہیں، ان سے جیسا سلوک ہوتا تھا، وہ بھی سب کو معلوم ہے۔۔۔ ہم اس لیے اس کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کی ایک مخصوص کلاس ہے جو اکثریت کی عکاسی نہیں کرتی۔‘ جب بی بی سی نے عظمیٰ بخاری سے پوچھا کہ کیا خواتین سے متعلق یہ موقف مسلم لیگ ن کے بیانیے کا حصہ ہے تو انھوں نے اس سے انکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماڈرن ہونا صرف یہی نہیں کہ آپ ناچ گانا کریں کیونکہ مخصوص حالات میں ہمارے معاشرے میں اس پر ردعمل بھی آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نظریاتی طور پر ان کی جماعت ترقی پسند خواتین اور نوجوانوں کے ساتھ کنیکٹ کرتی ہے۔ ’ہمارا بیانیہ یہی ہے کہ آپ نظریاتی طور پر جدت اور ترقی کا سفر طے کریں۔‘ سابق رکن قومی اسمبلی سائرہ افضل تارڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں حلقے کی سیاست کے دوران ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات نہیں بھولتی کہ میں ایک خاتون ہوں۔‘ انھوں نے گذشتہ الیکشنز میں بطور امیدوار حصہ لینے کے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ ’لوگوں کی اکثریت مجھے بغیر چادر کے قبول نہیں کرے گی۔ اگر میں اپنے کلچر کے ساتھ منسلک نہیں رہوں گی تو میں پاکستان میں سیاست نہیں کر سکوں گی۔‘ سائرہ افضل کے مطابق ان کی کامیابی کی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خود کو اپنی تہذیب سے جوڑے رکھا ہے۔ ’میاں صاحب نے جو بات کی وہ کلچر سے منسلک ہونے سے متعلق ہے۔ پی ٹی آئی کے ہر جلسے میں بدمزگی ہوتی ہے اور خواتین خود کو

خواتین کے ’ناچ گانے‘ سے متعلق بیان: کیا ’90 کی دہائی میں پھنسے‘ نواز شریف کا یہی سیاسی بیانیہ ہے؟ Read More »