International

افغانستان میں زلزلے سے 320 افراد کی ہلاکت کا خدشہ

  اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق، ہفتہ کو ملک کے مغرب میں 6.3 شدت کے دو زلزلے آئے۔ اقوام متحدہ نے ابتدائی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 320 بتائی تھی لیکن بعد میں کہا کہ اس تعداد کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ مقامی حکام کا اندازہ ہے کہ 100 افراد ہلاک اور 500 زخمی ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کی اسی تازہ کاری کے مطابق۔ یو ایس جی ایس نے رپورٹ کیا کہ زلزلے کا مرکز ہرات شہر سے تقریباً 25 میل شمال مغرب میں تھا اور اس کے بعد 5.5 شدت کا آفٹر شاک آیا۔ اس کی ویب سائٹ پر نقشے میں بتایا گیا ہے کہ اس علاقے میں سات زلزلے آئے ہیں۔ افغانستان کی ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی وزارت کے ملا جان صائق نے کہا کہ یہ اعداد و شمار صوبہ ہرات کے ضلع زندہ جان سے ملنے والی رپورٹوں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زلزلے نے فراہ اور بادغیس کے صوبوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے جہاں سے بڑے پیمانے پر مکانات کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں تاہم ابھی تک جانی نقصان کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔ افغان ہلال احمر کے ترجمان عرفان اللہ شرافزوئی نے کہا کہ ہنگامی ٹیمیں اور رضاکار متاثرین کی مدد کے لیے ہرات جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں شہر میں سینکڑوں لوگوں کو اپنے گھروں اور دفاتر کے باہر گلیوں میں دکھایا گیا ہے۔ رہائشی عبدالشکور صمادی نے کہا کہ وہ اور اس کا خاندان اپنے گھر کے اندر تھے اور زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے – انہوں نے مزید کہا کہ اس کے رشتہ دار چیخنے لگے اور باہر بھاگے اور اب واپس آنے سے ڈر رہے ہیں۔ “تمام لوگ گھروں سے باہر ہیں، گھر، دفاتر اور دکانیں سب خالی ہیں اور مزید زلزلوں کا خدشہ ہے۔” ایک اور رہائشی، نسیمہ نے کہا کہ زلزلے کے متعدد جھٹکوں نے ہرات میں خوف و ہراس پھیلا دیا، انہوں نے مزید کہا: “لوگ اپنے گھر چھوڑ کر چلے گئے، ہم سب سڑکوں پر ہیں۔” اقتصادی امور کے لیے طالبان کی جانب سے مقرر کیے گئے نائب وزیر اعظم عبدالغنی برادر نے ہرات اور بادغیس میں متاثرین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ سال جون میں افغانستان میں دو دہائیوں کے سب سے مہلک زلزلے میں کم از کم 1,000 افراد ہلاک اور 1,500 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

افغانستان میں زلزلے سے 320 افراد کی ہلاکت کا خدشہ Read More »

حماس کے راکٹ حملوں میں 40 اسرائیلی ہلاک، 700 سے ز ائد زخمی، اسرائیل کے جوابی حملوں میں 161 فلسطینی ہلاک 1000 زخمی

  اسرائیل کی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغے جانے اور زمینی حملوں کے بعد کم از کم 40 اسرائیلی ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں 161 افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ اسے پہلے اسرائیل نے کہا تھا کہ اس نے غزہ کی پٹی میں راکٹوں کے حملوں کے جواب میں اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عسکریت پسند گروپ حماس سے تعلق رکھنے والے درجنوں مسلح افراد غزہ کی پٹی سے اچانک حملے میں جنوبی اسرائیل میں گھس آئے۔ جس کے بعد اسرائیلی میڈیا پر یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس نے کچھ اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے۔ خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘ یورپی ڈیپلومیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کی خبروں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ بین القوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یرغمال بنائے جانے والوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔‘ اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں حماس کے اہداف پر جوابی فضائی حملے کیے ہیں۔ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے غزہ سے اسرائیل پر راکٹ داغے۔ حماس کے رہنما محمد دیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے۔ ‘ اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ ’متعدد دہشت گرد‘ غزہ سے اسرائیلی علاقے میں گھس آئے ہیں۔ اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ کا اجلاس مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے ہوگا اور آئی ڈی ایف نے حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی‘۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق جنوبی اسرائیل کے مختلف مقامات پر اسرائیلی اور فلسطینی افواج کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ ان کے عوام کو ’آبادکاروں اور قابض فوجیوں کی دہشت‘ کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت‘ ہے۔ انھوں نے فلسطینی عوام کے اس حق پر زور دیا کہ وہ آبادکاروں کی ’دہشت گردی اور قابض افواج‘ کے خلاف اپنا دفاع کریں۔ فلسیطینی صدر رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق اسرائیل کے ایک حکومتی اہلکار نے بتایا ہے کہ ’فلسطین کے عسکریت پسند گروہ حماس کی جانب سے منظم انداز میں کیے جانے والے اس حالیہ حملے کے بعد اسرائیل میں اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا آغاز کیا جا رہا ہے کہ جس میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ کیسے اسرائیلی خفیہ ایجنسی اس کے بارے میں پتہ لگانے میں ناکام ہوئی۔‘ مصنف اور صحافی گیڈون لیوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کے خیال میں فلسطینیوں کے ساتھ کوئی تصفیہ اب پہنچ سے باہر ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں گھر سے باہر نکلا، سڑکیں ویران تھیں۔‘ ریستوراں، کیفے سب کچھ بند پڑے ہیں اور فضا خوف سے بھری ہوئی ہے۔‘ صحافی گیڈون لیوی نے مزید کہا کہ ’جب پہلا راکٹ گرا تو میں پارک میں جاگنگ کر رہا تھا، ااس وقت شور شرابہ دہلا دینے والا تھا۔‘ عالمی ردِ عمل فلسطین کے عسکریت پسند گروہ کی جانب سے اسرئیل پر ہونے والے حملے پر عالمی دُنیا کی جانب سے بھی رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ فرانس کے صدر ایمنول میکرون نے اسرائیل پر ان حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اُنھوں نے ’ان حملوں میں نشانہ بننے والے لوگوں اُن کے اہل خانہ اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔‘ جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’عام شہریوں کے خلاف راکٹ اور مزائل داغنے کے اس سلسلے کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔‘ یورپی کمشن کی چیئرمین نے اسرائیل پر ہونے والے اس حملے کو ’دہشت گردی کی ایک انتہائی گھناؤنی شکل قرار دیا۔‘ امریکہ کی جانب سے بھی فریقین پر حالات کو معمول پر لانے کے لیے زور دیا گیا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ کے مطابق ’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘ پورے جنوبی اسرائیل میں سائرن بج رہے ہیں جسےہ کی صبح تل ابیب کے بڑے علاقے میں سنا جا سکتا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی فائر فائٹرز اشکیلون شہر میں آگ بجھانے میں لگے ہیں جبکہ جلی ہوئی گاڑیوں سے دھویں کے گہرے مرغولے اٹھ رہے ہیں۔ اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کی جانب سے ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے ’دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد‘ اسرائیلی علاقے میں گھس آئی ہے اور آس پاس کے علاقوں کے رہائشیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں۔ اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ’انھوں نے اب تک حماس کے 17 کمپاؤنڈز اور چار مراکز پر حملے کیے ہیں۔‘ بی بی سی نے اسرائیلی دفاعی افواج کے دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔ ہمارے نامہ نگار رشید ابوالعوف نے غزہ پٹی سے بتایا ہے کہ ’چھت پر اپنی پوزیشن سے میں مشرق، جنوب، شمال، ہر جگہ سے راکٹ داغے جاتے دیکھ سکتا ہوں۔‘ حماس ٹی وی کا کہنا ہے کہ

حماس کے راکٹ حملوں میں 40 اسرائیلی ہلاک، 700 سے ز ائد زخمی، اسرائیل کے جوابی حملوں میں 161 فلسطینی ہلاک 1000 زخمی Read More »

پنجابی ہپ ہاپ سنگرز جن کا کریئر انڈیا کینیڈا تنازعے میں پِس رہا ہے

کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے ممکنہ طور پر انڈین اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد گذشتہ ماہ جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تو اس تناظرمیں انڈیا کے پنجابی ریپرشوبھنیت سنگھ کا انڈیا کا دورہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اس دورے کو ملتوی کرنے کی وجہ ایک تنازع تھا جو ایک پرانی سوشل میڈیا پوسٹ پر شروع ہوا جس میں انھوں نے انڈیا کا غلط نقشہ شیئر کیا ہوا تھا۔ کینیڈا میں شوبھ کے نام سے پہچانے والے سنگر پر خالصتان (سکھوں کاعلیحدہ وطن کے مطالبے) کی حمایت کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ خالصتان انڈیا میں ایک حسّاس موضوع ہے اور 1980 کی دہائی میں اس تحریک میں شدت آنے سے پرتشدد مظاہرے بھی سامنے آئے تھے۔ کینیڈا میں انڈیا کی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں اور اسی لیے اسے پنجابی موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ فنکار نہ صرف اپنا وقت اور فن دونوں ممالک میں بانٹتے کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے کینیڈا سے انڈیا کا سفر ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے جہاں ان فنکاروں کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ چنانچہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے جب یہ کہا گیا کہ ان کا ملک ان ’قابل اعتماد الزامات‘ کی تحقیقات کررہا ہے جو سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے انڈیا کا تعلق جوڑ رہے ہیں تو اس سفارتی محاذ نے دونوں ممالک کو اپنا گھر کہنے والے موسیقاروں کو پریشان کردیا ہے۔ واضح رہے کہ انڈیا نے کینیڈا کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم اس بیان کے بعد سے انڈیا نے کینیڈا کے شہریوں کو ویزا جاری کرنا بند کر دیا ہے۔ پنجابی ریپرشوبھنیت سنگھ عرف شوبھ نے لوگوں سے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ ہر پنجابی کو علیحدگی پسند یا ملک دشمن قرار دینے سے گریز کریں تاہم اس کے بعد سے اب انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور بات صرف تنقید پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ شوبھ کو اپنا پسندیدہ فنکار کہنے والے انڈین کرکٹر ویرات کوہلی سمیت بعض انڈین کرکٹرز نے سوشل میڈیا پر ان کو فالو کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح لاکھوں ’فین فالوورز‘ رکھنے والے ایک اور انڈین نژاد کینیڈین ریپراے پی ڈھلون کو بھی اس وقت سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے شبھ کے کنسرٹ کے منسوخ ہونے کے بعد اپنی پوسٹ میں سنگرز پر ہر بارشک و شبہہ کرنے کے بارے میں پوسٹ کیا۔ شوبھ اور ڈھلون دونوں کینیڈا کے نوجوان ہپ ہاپ موسیقاروں میں شامل ہیں جنھوں نے پچھلی ایک دہائی کے دوران پنجابی میوزک انڈسٹری کو عروج پر پہنچایا ہے۔ ان کے فنک، ہپ ہاپ اور ہارڈ راک میں پیش کیے گئے میوزک میں پنجابی دھنوں اور منظر کشی کے ساتھ ساتھ سکھوں کی ثقافت کا رنگ موجود ہے جو نہ صرف سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے بلکہ یہی افرادیت انھیں اکثر بین الاقوامی میوزک چارٹس میں شامل رکھتی ہے۔ اس سال کے آغاز میں اداکار اور گلوکاردلجیت دوسانجھ نے کیلیفورنیا کے مشہور میوزک فیسٹیول کوچیلا میں پرفارم کرنے والے پہلے پنجابی سنگر کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ ’جو ہو رہا ہے وہ خالصتاً سیاسی اور ثقافت کو دبانے کی زندہ مثال ہے‘ موسیقی کی صنعت سے منسلک افراد اور ماہرین دہلی اور اوٹاوا کے درمیان تنازع کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کشیدہ صورت حال نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہت متاثر کیا ہے۔ رولنگ سٹون انڈیا کی سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر نرمیکا سنگھ کا اس ساری صورت حال پر کہنا ہے کہ ’جب بھی دو ممالک کے درمیان کوئی تنازع سامنے آتا ہے چاہے وہ کم سطح کا ہو یا سخت نوعیت کا، اس صورت حال میں سب سے ذیادہ متاثر ہونے والی چیز ثقافتی تجارت (کلچرل ٹریڈ) ہے، جس کی مثال ہم نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ دیکھی ہے۔‘ واضح رہے کہ انڈین اور پاکستانی موسیقاروں اور فلم سازوں کے درمیان ثقافتی تعاون گذشتہ چند سالوں سے منقطع ہے۔ تاہم لوگوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اس کے مقابلے میں انڈیا اور کینیڈا کے درمیان پنجابی میوزک انڈسٹری کئی ذیادہ گنا متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ پنجابی نغمہ نگار پالی گدرباہا اس معاملے کو خالص سیاسی قرار دیتے ہیں۔ ’جو کچھ بھی یہ ہو رہا ہے وہ خالصتاً سیاسی ہے اور ثقافت کو دبانے کی زندہ مثال ہے۔‘ پالی گدرباہا کے مطابق ’ سننے والے اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ سفارتی سطح پر کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں اور پنجابی موسیقی ہمیشہ پیش کرتی ہے۔‘ اس بیان کی نشاندہی 2022 کے وہ اعداد و شمار کرتے ہیں جو میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارم سپاٹی فائی نے سب سے ذیادہ سنے جانے والے گانوں کے حوالے سے جاری کیے تھے۔ ’شائقین ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں جو پنجابی موسیقی کا خاصہ ہے‘ میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارم سپاٹی فائی کے مطابق 2022 میں انڈیا میں سب سے زیادہ سٹریم کیے جانے والے ہر 10 میں سے چار گانے پنجابی تھے اور ان میں ڈھلون اور گرندرگل سمیت انڈین نژاد کینیڈین سنگرز کے ٹریک شامل تھے۔ ان کے مطابق یہ ڈیٹا بہت متاثر کن ہونے کے ساتھ ساتھ انڈیا میں ہونے والی ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے جہاں بالی وڈ گانے روایتی طور پر میوزک چارٹس پر حاوی رہتے تھے۔ ’میوزک کے شائقین کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ سفارتی سطح پر کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں جو پنجابی موسیقی کا خاصہ ہے۔‘ مقبول پنجابی موسیقی کی نوعیت خود بھی ان دوہری ثقافتوں سے متاثر ہوئی ہے جہاں سے یہ موجود ہے۔ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں امر سنگھ چمکیلا جیسے پنجابی لوک گلوکار کینیڈا میں سکھوں میں بہت مقبول تھے۔ دلیر مہندی جیسے موسیقار کا وہاں کا دورہ ایک معمول کا حصہ تھا۔ جیسے جیسے کمیونٹی میں

پنجابی ہپ ہاپ سنگرز جن کا کریئر انڈیا کینیڈا تنازعے میں پِس رہا ہے Read More »

دبئی کا میگا پروجیکٹ، بھارت کے لیے 1,200 میل کی زیر آب ٹرین

یہ ٹرین کا اب تک کا سب سے شاندار سفر ہوگا۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) دبئی کو بھارت کے شہر ممبئی سے ملانے کے لیے زیر آب ٹرین پر کام کر رہا ہے۔ یہ ایک پرجوش منصوبہ ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک اب اسے انجام دینے کے ایک قدم قریب ہے۔ 1,200 میل (2,000 کلومیٹر) کا سفر دبئی کو ممبئی سے اس طرح جوڑ دے گا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اور ریلوے کو نہ صرف لوگوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جائے گا بلکہ پانی اور تیل سمیت اشیا اور اجناس کی ترسیل کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اور نہیں، پانی کی نقل و حمل کے لیے پانی کے اندر ٹرین بنانے کی ستم ظریفی ہم پر ختم نہیں ہوئی۔ الیکٹرک لیمبوروگھینی SUV – ایک سرف بورڈ کے ساتھ آتا ہے! 1,200 میل (2,000 کلومیٹر) کا سفر دبئی کو ممبئی سے اس طرح جوڑ دے گا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اور ریلوے کو نہ صرف لوگوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جائے گا بلکہ پانی اور تیل سمیت اشیا اور اجناس کی ترسیل کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اور نہیں، پانی کی نقل و حمل کے لیے پانی کے اندر ٹرین بنانے کی ستم ظریفی ہم پر ختم نہیں ہوئی۔ بات یہ ہے کہ یہ بخارات سے زیادہ ہے۔ دبئی تا ممبئی زیر آب ٹرین پروجیکٹ کا ذکر پہلی بار 2018 میں کیا گیا تھا لیکن اس وقت یہ بار ٹاک سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ اب، متحدہ عرب امارات کا نیشنل ایڈوائزر بیورو ریلوے اور اس قسم کی ٹرین کے لیے جس کی ضرورت ہو گی کے لیے ایک قابل عمل بلیو پرنٹ پر کام کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور ہندوستان کے درمیان اچھے اور قریبی تعلقات ہیں، لیکن اگر ہمیں اندازہ لگانا ہو تو ہم کہیں گے کہ دبئی پانی کے اندر ٹرین بنانے کی ایک اور وجہ ہے۔ اتنے سالوں سے، متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں ٹیکنالوجی، تعمیرات اور بنیادی ڈھانچے کے لیے واحد جگہ تھی۔ اب سعودی عرب متحدہ عرب امارات کے غلبے کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہا ہے جن کی سرمایہ کاری لامحدود نقد رقم سے کی جا رہی ہے۔ سب سے بڑا اور قابل اعتراض طور پر سب سے زیادہ زیر بحث پروجیکٹ نام نہاد لائن ہے، ایک بڑا شہر جو افقی طور پر پھیلا ہوا ہے اور صحرا کو سمندر سے ملاتا ہے۔ یہ ایک مہتواکانکشی منصوبہ ہے، اور اس میں ایک مہنگا منصوبہ ہے، کیونکہ پورے NEOM پروجیکٹ پر $1 ٹریلین لاگت کا تخمینہ ہے۔ صرف لائن پر 500 بلین ڈالر لاگت آئے گی۔ تعمیراتی کام جاری ہے، اور سعودی عرب دہائی کے آخر تک اس لائن کا افتتاح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سے کم از کم جزوی طور پر اس بات کی وضاحت ہو سکتی ہے کہ متحدہ عرب امارات پانی کے اندر ٹرین کے ساتھ شروع کرنے کا خواہاں کیوں ہے۔ پانی کے اندر ٹرینوں کے بارے میں سنا نہیں ہے، اور چینل ٹنل جو برطانیہ کو فرانس سے ملاتی ہے، دنیا کی سب سے مشہور زیر آب ریلوے سرنگ ہے۔ آپ کو ذہن میں رکھنا، دبئی-ممبئی ایک مختلف ہوگا۔ اگر یہ حقیقت نہیں تھی کہ آپ پانی کے قریب ٹرین میں سوار ہوتے ہیں، تو آپ چینل ٹنل میں ہونے کے بعد پانی کے اندر بھی نہیں ہوتے۔ دریں اثنا، دبئی-ممبئی ایک بہت زیادہ خوبصورت ہوگا، جس میں شاندار نظارے والی کھڑکیاں آپ کو یاد دلانے کے لیے ہوں گی کہ آپ پانی کے اندر ہیں۔

دبئی کا میگا پروجیکٹ، بھارت کے لیے 1,200 میل کی زیر آب ٹرین Read More »

mother is sitting around the side of Diagnosed Pneumonia Child

بھارت کے مہاراشٹر کے ہسپتال میں ایک دن میں 24 بچوں سمیت بارہ شیر خوار جان بحق

بچوں کی ہلاکتوں نے طوفان پیدا کر دیا ہے۔، اپوزیشن ریاستی حکومت اور اسپتال کی  انتطامیہ پر لاپرواہی کا الزام لگا رہی ہے۔ بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ایک ہسپتال میں ایک ہی دن میں بارہ شیر خوار بچوں کی موت ہو گئی ہے، جس سے سیاسی طوفان برپا ہو گیا ہے، اپوزیشن کے سیاستدانوں نے علاقائی حکومت اور ہسپتال کے حکام پر لاپرواہی کا الزام لگایا ہے۔ منگل کو ہسپتال کے حکام اور مقامی میڈیا نے بتایا کہ اتوار کو شیر خوار بچوں کی موت ہو گئی اور وہ 24 اموات میں شامل تھے جو اس دن ضلع ناندیڑ کے شنکر راؤ چوان سرکاری ہسپتال میں ریکارڈ کیے گئے، جو بھارت کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی سے تقریباً 600 کلومیٹر (373 میل) دور ہے۔ “میرے بھائی کا ایک دن کا بچہ اتوار کو ہسپتال میں مر گیا، اور وہ مرنے والا پانچواں بچہ تھا۔ ہم نے اپنے سامنے مزید چار بچوں کو مرتے دیکھا،” یوگیش سولنکی نے کہا، جن کے اہل خانہ بچے کو اسپتال لائے تھے۔ سولنکی نے کہا کہ ہسپتال کا نوزائیدہ یونٹ، جہاں شیر خوار بچوں کا علاج کیا جا رہا تھا، اتوار کو بہت ہجوم تھا، ایک انکیوبیٹر میں چار سے پانچ بچے تھے، جو کہ صرف ایک کو رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ شنکر راؤ چوان ہسپتال کے ڈین شیام راؤ وکوڑے نے خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے اس الزام یا اپوزیشن کے لاپرواہی کے الزامات پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا، ایک مختصر فون کال میں کہا کہ ان کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ ایک سرکاری وزیر احاطے کا دورہ کر رہا ہے۔ قبل ازیں منگل کو وکوڈے نے کہا کہ 12 بالغ مریضوں کی موت مختلف بیماریوں بشمول ذیابیطس، جگر کی خرابی اور گردے کی خرابی سے ہوئی۔ “دواؤں یا ڈاکٹروں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ مریضوں کو مناسب دیکھ بھال فراہم کی گئی تھی، لیکن ان کے جسموں نے علاج کا جواب نہیں دیا، جس کی وجہ سے موت واقع ہوئی، “بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق وکوڈے نے کہا۔ مہاراشٹر حکومت نے منگل کو کہا کہ اس نے اتوار کو شیر خوار بچوں اور دیگر مریضوں کی موت کی تحقیقات شروع کی ہیں۔ “چوبیس ایک بڑی تعداد ہے۔ ایک دن میں اتنی اموات کیوں ہوئیں؟ ریاستی وزیر گریش مہاجن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم تحقیقات کریں گے کہ آیا یہ دوائیوں کی کمی، عملے کی کمی یا کوئی اور وجہ ہے۔ حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے مہاراشٹر حکومت پر الزام لگایا، جو وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی اور ایک اتحادی کے زیر انتظام چلتی ہے، نوزائیدہ بچوں کی موت پر شدید لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ بی جے پی حکومت اپنی تشہیر پر ہزاروں روپے خرچ کرتی ہے لیکن بچوں کی دوائیوں کے لیے پیسے نہیں ہیں؟ اہم اپوزیشن کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا۔ منگل کے روز شنکر راؤ چوہان ہسپتال میں، مریضوں کا ہجوم راہداریوں پر تھا اور سور باہر کے میدانوں میں گھوم رہے تھے، جس سے دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں زیادہ تر سرکاری ہسپتالوں میں خرابی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ہندوستان کا صحت عامہ کا نظام بری طرح سے لیس ہے، عملے اور آلات کی کمی سے دوچار ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ڈاکٹر سے مریض کا تناسب 0.7 فی 1,000 ہے، جو کہ 1 فی 1000 کی سطح کی سفارش کرتا ہے۔ اتوار کی موت مہاراشٹر میں اتنے مہینوں میں اس طرح کا دوسرا واقعہ تھا۔ مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اگست میں، تھانے کے علاقے کے ایک سرکاری ہسپتال میں داخل 18 افراد 24 گھنٹے کے عرصے کے دوران انتقال کر گئے۔ ریاستی حکومت نے اس وقت واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

بھارت کے مہاراشٹر کے ہسپتال میں ایک دن میں 24 بچوں سمیت بارہ شیر خوار جان بحق Read More »

Dev Ratudi

غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے

غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے   دیو رتوڑی کی ایک فلم کا چینی زبان میں پوسٹر بی واٹر مائی فرینڈ۔۔۔’ یعنی آپ پانی کی طرح ہو جاؤ۔ خود کو اتنا لچکدار اور آسان بناؤ کہ آپ ہر صورتحال اور ماحول کے مطابق ڈھل سکو۔ اس ڈائیلاگ سے اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہوئے دیو رتوڑی کہتے ہیں: ’میری زندگی میں بروس لی (مارشل آرٹ کے مشہورِ زمانہ اداکار) کے اس مکالمے کی وجہ سے یو ٹرن آیا۔ دوسری تبدیلی بروس لی کی زندگی پر مبنی فلم ڈریگن دیکھنے کے بعد آئی۔‘ ’میں نے بروس لی کو دیکھ کر مارشل آرٹ سیکھا، وہ فن آج میرے لیے مفید ثابت ہو رہا ہے۔ میری فلموں میں ایکشن بہت ہے، اس لیے میں اس فن کا بھرپور استعمال کرتا ہوں کہانی انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے گاؤں کیمریا سور کے 46 سالہ دوارکا پرساد رتوڑی کی ہے جنھیں آج دنیا ’دیو رتوڑی‘ کے نام سے جانتی ہے۔ بہرحال جب پہلی بار سنہ 1998 میں انھیں ممبئی میں ایک بار کیمرے کا سامنا کرنے کا موقع ملا تھا تو وہ بہت زیادہ نروس ہو گئے تھے۔ اس وقت انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن وہ بھی آنے والا ہے جب چینی فلم انڈسٹری میں نہ صرف وہ بہت شہرت کے حامل ہوں گے بلکہ اتنے کامیاب ہو جائیں گے کہ چین کے سکولوں کی نصابی کتابوں میں ان کی کامیابیوں کا تذکرہ ہو گا۔ دیو رتوڑی کی جدوجہد کی کہانی انھی کی زبانی سنیے۔ یہ آٹھویں کلاس کی بات ہے۔ اس وقت میرے گھر کی مالی حالت اتنی خراب تھی کہ میں ننگے پاؤں سکول جاتا تھا۔ اس وقت میری فیملی کے پاس گاؤں کے سرکاری سکول کی ایک روپیہ فیس بھی ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا تھا کہ جب میں سکول سے گھر لوٹتا تھا تو گھر میں کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ہم پانچ بھائی بہن تھے، ہمارے والد جو کماتے تھے اس میں ہمارے خاندان کا گزارا انتہائی مشکل سے ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے میں خواہش کے باوجود دسویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ خراب حالات کی وجہ سے 1991 میں دسویں جماعت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں روزگار کی غرض سے دہلی پہنچا۔ وہاں ایک ڈیری فارم میں 350 روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے لگا۔ مجھے یہ نوکری اپنے چچا کی سفارش پر ملی تھی۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ میں کاپ سہیرا اور آس پاس کے گاؤں میں ڈیری فارم سے ملنے والا دودھ سائیکل پر بیچتا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ نوکری ملنے کے ساتھ ساتھ میں نے سائیکل چلانا بھی سیکھ لیا تھا۔ میں تقریباً ایک سال تک ڈیری میں کام کرتا رہا اور پھر وہیں ایک بلڈر (تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے شخص) کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ یہاں میں کبھی اُن کی گاڑی صاف کرتا اور کبھی اسے چلاتا۔ اب میری تنخواہ 500 روپے تھی۔ میں نے 1993 سے 2004 تک ان کے ساتھ 11 سال کام کیا۔ کبھی کبھی ان کے سخت رویے کی وجہ سے پریشانی ہو جاتی تھی۔ اپنی زندگی کے اہم موڑ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں ایک بار 1998 میں ان سے ناراض ہو گیا تو میں نے ان کا کام یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میں ہیرو بننے جا رہا ہوں۔‘ دیو نے کہا: ‘اس وقت مجھے بروس لی کی فلمیں دیکھنے کا جنون تھا۔ بروس لی کی شاید ہی کوئی ایسی فلم ہو گی جو میں نے نہ دیکھی ہو گی۔‘ پہلی فلم جو میں نے دیکھی وہ بروس لی کی ’انٹر دی ڈریگن‘ تھی۔ بروس لی کی فلمیں دیکھنے کے بعد مجھے مارشل آرٹس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان فلموں کو ڈب کیا گیا تھا، اور اسی وجہ سے ان میں بولی جانے والی انگریزی صاف اور آسان تھی، جو میرے لیے انگریزی سیکھنے کا ایک اچھا موقع تھا۔ میں نیچے لکھے گئے سب ٹائٹلز پڑھ کر انگریزی سیکھتا تھا۔ میں بروس لی کی زندگی پر مبنی فلم ڈریگن کو دیکھ کر سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس میں بروس لی کی ہانگ کانگ سے امریکہ منتقل ہونے کے وقت سے لے کر تمام جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔ جسے دیکھ کر مجھے لگا کہ اگر یہ آدمی کر سکتا ہے تو میں بھی کر سکتا ہوں۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد مجھ پر ایک بھوت سوار ہو گیا اور میں ہیرو بننے کے لیے ممبئی چلا گیا۔ میں نے وہاں ایک سال تک مارشل آرٹ سیکھا۔ 1998 میں پنیت اِسّر (کیریکٹر ایکٹر جن کے ساتھ لڑتے ہوئے فلم قلی میں امیتابھ بچن زخمی ہو گئے تھے) ہندوستانی نامی ٹی وی سیریل کی ہدایتکاری کر رہے تھے اور انھوں نے مجھ سے کیمرے کے سامنے ایک مختصر ڈائیلاگ بولنے کے لیے کہا۔ میں نے ڈائیلاگ یاد کر لیا تھا، لیکن جیسے ہی لائٹ اور کیمرہ میرے چہرے پر پڑا، میں سب کچھ بھول گیا اور کچھ نہ کہہ سکا۔ میں اس دن بہت اداس تھا۔ کچھ دنوں بعد میں واپس دہلی آ گیا۔ میں اپنے فلمی عزائم میں ناکام ہو گیا تھا، لیکن ممبئی میں رہتے ہوئے میں نے مارشل آرٹس میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ دہلی میں ویٹر کی نوکری سے چین کا سفر انھوں نے آگے کی کہانی بتاتے ہوئے کہا: ’دہلی واپس آنے کے بعد 2004 میں مجھے ہریانوی فلم ‘چھنو دی گریٹ’ میں کام کرنے کا موقع ملا، جس میں میرا تقریباً چھ منٹ کا ایکشن رول تھا۔‘ لیکن میں بروس لی کو اپنے دماغ سے نہیں نکال سکا۔ ہر وقت میرے ذہن میں یہی فکر رہتی تھی کہ میں بروس لی کی سرزمین تک کیسے پہنچوں گا۔ مجھے وہاں مارشل آرٹ سیکھنا تھا۔ میں وہاں جانا چاہتا تھا۔ اس وقت میرے ذہن میں ایک غلط فہمی تھی کہ تمام چینی لوگ مارشل آرٹ جانتے ہیں۔ چین جانے میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے دیو کہتے ہیں: ’لیکن اب میرے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ چین جانے کے لیے

غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے Read More »

عراق: شادی کی تقریب میں آتشزدگی، دلہا دلہن سمیت 100 افراد ہلاک

  عراق: شادی کی تقریب میں آتشزدگی، دلہا دلہن سمیت 100 افراد ہلاک   عراق کے سرکاری میڈیا کے مطابق شمالی عراق میں شادی کی ایک تقریب میں آتشزدگی کے واقعے میں کم از کم 100 افراد ہلاک جبکہ 150 زخمی ہو گئے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں دلہا اور دلہن بھی شامل ہیں۔ شادی کی تقریب میں آتشزدگی کا یہ واقعہ منگل کی شام کو شمالی صوبے نینویٰ کے ضلع الحمدانیہ میں پیش آیا۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ شادی کی تقریب میں آگ لگنے کی وجوہات کیا ہیں لیکن ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ آگ آتش بازی کے بعد بھڑک اٹھی تھی۔ عراقی نیوز ایجنسی نینا نے ایک تصویر جاری کی ہے جس میں درجنوں فائر فائٹرز کو آگ بجھانے کی کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ مقامی صحافیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تصاویر میں خاکستر شادی ہال دیکھا جا سکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ شادی ہال کی عمارت میں لگے پینلز نے آگ کو مزید بھڑکنے میں مدد دی جس کے بعد چھت کے کچھ حصے نیچے گر گئے۔ نینا نیوز ایجنسی کے مطابق عراقی سول ڈیفنس کے ڈائریکٹوریٹ کا کہنا ہے کہ ’آگ لگنے سے ہال کے کچھ حصے گر گئے جس کی وجہ انتہائی آتش گیر، کم قیمت اور غیر معیاری تعمیراتی مواد کا استعمال تھا جو آگ لگنے کے چند منٹوں میں ہی گر جاتا ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے نمائندے کی جانب سے جائے حادثہ پر بنائی گئی ایک ویڈیو میں فائر فائٹرز کو بدھ کی صبح زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں عمارت کے ملبے پر چڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق تقریباً 10:45 پر جب عمارت میں آگ لگی تو اس وقت سینکڑوں لوگ جشن منا رہے تھے۔ اس حادثے میں زندہ بچ جانے والی 34 سالہ عماد یوحنا نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم نے ہال سے نکلتے ہوئے آگ کو پھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔ کچھ لوگ اس مں باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور کچھ وہاں پھنس گئے۔ حتیٰ کہ جو باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے ان کی بھی حالت غیر تھی۔ سرکاری بیانات کے مطابق، عراقی حکام کی جانب سے ایمبولینسز اور طبی عملے کو جائے وقوعہ پر بھیجا گیا تھا۔ عراق کے وزیر اعظم کے دفتر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیرا اعظم نے حکام کو ’اس بدقسمت واقعے کے متاثرہ افراد کو امداد فراہم کرنے کے لیے تمام کوششوں کو بروئے کار لانے‘ کی ہدایت کی ہے۔ علاقے کے گورنر نے آئی این اے کو بتایا کہ زخمیوں کو نینویٰ کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد حتمی نہیں ہے اور اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ علاقے کے دارالحکومت موصل کے مشرق میں واقع قصبے ہمدانیہ کے مرکزی ہسپتال میں درجنوں افراد زخمیوں کی مدد کے لیے خون کا عطیہ دینے پہنچے تھے۔

عراق: شادی کی تقریب میں آتشزدگی، دلہا دلہن سمیت 100 افراد ہلاک Read More »