International

Tractors Stunts

’پیارے پنجابیو ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں‘

دنیا بھر میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کوئی نہ کوئی ٹرینڈ چلنے کی ریت غیر معمولی نہیں ہے۔ کسی دور میں ’آئس بکٹ‘ چیلنج کا ٹرینڈ چل نکلا تو کبھی ’ٹین ایئرز‘ چیلنج نے سوشل میڈیا صارفین کو اپنے حصار میں لیے رکھا۔ مگر کچھ ممالک میں سوشل میڈیا پر خطرناک سٹنٹس کرنے کے ٹرینڈز بھی دیکھنے آئے اور بعدازاں ان سٹنٹس کرنے والوں نے نہ صرف اس سے اپنے فالورز اور ویوز کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ اس کے ذریعے آمدن بھی کمائی۔ ایسا ہی ایک خطرناک ٹرینڈ آج کل انڈیا کے صوبے پنجاب میں چل رہا ہے جہاں پنجابی کسان اپنے ٹریکٹرز پر خطرناک سٹنٹس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس خطرناک رحجان نے مقامی سطح پر اس قدر مقبولیت حاصل کر لی ہے کہ اب یہ سوشل میڈیا سے نکل کر مقامی سطح پر منعقدہ میلوں ٹھیلوں کا بھی حصہ بن گئے ہیں۔ حال ہی میں انڈین پنجاب کے شہر گرداس پور کے علاقے فتح گڑھ میں ایک مقامی میلے میں ٹریکٹر سٹنٹ کرتے ہوئے ایک 29 سالہ سکھ مندیپ نامی نوجوان کی موت ہو گئی۔ وہ میلے میں ٹریکٹر کو بنا ڈرائیور کے صرف پچھلے پہیوں پر گھمانے کا کرتب دکھا رہے تھے اور جب وہ اس ٹریکٹر کو کنٹرول کرنے کے لیے اس پر سوار ہونے لگے تو گھومتے ٹریکٹر کی زد میں آ کر شدید زخمی ہوئے اور بعدازاں ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی 30 سیکنڈ کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ مندیپ سنگھ کو ٹریکٹر پر خطرناک کرتب کرنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ ان کے انسٹاگرام پر 14 ہزار کے قریب فالوورز تھے اور وہ گذشتہ چھ سالوں سے یوٹیوب پر اپنی کرتبوں کی ویڈیوز بھی اپ لوڈ کر رہے تھے۔ انھوں نے اس سے قبل مختلف پنجابی گانوں کی ویڈیوز کے لیے بھی سٹنٹ کیے ہیں۔ اس واقعے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے ٹریکٹرز کے خطرناک سٹنٹ یا کرتب کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اس بارے میں لکھا کہ ’پیارے پنجابیو، ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں، پنجاب میں ٹریکٹر اور متعلقہ آلات کے ساتھ کسی بھی قسم کے سٹنٹ یا خطرناک کرتب پر پابندی ہے۔‘ ٹریکٹرز سٹنٹ کا رجحان کیا ہے؟ اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر انڈین پنجاب میں ٹریکٹروں پر کرتبوں کے رجحان پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ بہت سے لوگ اسے مکمل طور پر روکنے کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جیسے جیسے پنجاب میں ٹریکٹر سٹنٹس کا رجحان بڑھا ہے، اسی طرح یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا پر بہت سے سٹنٹ پرفارمرز اور ان کی ویڈیوز اور ان کے سامعین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔’ ’ریبل ولاگ‘ نامی یوٹیوب چینل چلانے والے ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ رجحان گذشتہ چھ سات سال سے شروع ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ صرف پنجاب میں ایسے سٹنٹس کرنے والے افراد کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ترم سنگھ بھی اپنے ٹریکٹر پر کرتب کرتے ہیں۔ ان کے یوٹیوب چینل پر تقریباً 75 ہزار سبسکرائبر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے موسیقار کے طور پر کام کرتے تھے اور دو سال پہلے سے بطور پروفیشنل اسٹنٹ مین کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھیں سٹنٹس کرنے کے لیے فلم ’فاسٹ اینڈ فیوریس‘ سے تحریک ملی، یہ ایک مونسٹر ٹرک سٹنٹ ہے جسے غیر ملکیوں نے کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سٹنٹس کرنے سے پہلے مناسب حفاظتی معلومات کا ہونا اور مخصوص ہدایات پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔‘ ٹریکٹر سٹنٹس کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ ترم سنگھ نے کہا کہ یہ ٹرینڈ سب سے پہلے پنجاب کے ایک اسٹنٹ مین نے شروع کیا جس کا نام ’ہیپی مہالا‘ ہے۔ انھوں نے بڑے ایونٹس میں سٹنٹ بھی کیے، ان کی ویڈیوز بہت مشہور ہوئیں۔ ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ اس رجحان میں گذشتہ چار پانچ برسوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ مشہور ہونے یا اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے اس طرف آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ ٹریکٹر گاڑیوں کے مقابلے سستے ہیں اس لیے لوگوں کے لیے کرتب دکھانے کے لیے ٹریکٹر خریدنا آسان ہے۔ ترم سنگھ بتاتے ہیں کہ یہ سٹنٹ اکثر کبڈی کپ یا گاؤں کے میلوں کے دوران کروائیں جاتے ہیں، بعض اوقات صرف منتظمین ہی سٹنٹ کراتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہر سٹنٹ مین 15 منٹ کا سٹنٹ کرنے کے 15 ہزار سے 60 ہزار روپے تک وصول کرتا ہے۔ ٹریکٹر سٹنٹ کے دوران حادثات کی وجہ کیا؟ ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک خطرناک کام ہے۔ کہ بہت سے لوگ بغیر تربیت کے کرتب کرتے ہیں یا مقبولیت حاصل کرنے کے بعد حفاظتی اقدامات کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے حادثات عام ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ہم کرتب کرتے وقت ٹریکٹر سے نہ اتریں۔ جب ہمیں اترنا ہوتا ہے تو ہم اس کی رفتار کو کم کر کے اترتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ سٹنٹ کے لیے استعمال ہونے والے ٹریکٹر میں حفاظت کے لحاظ سے خصوصی تبدیلیاں کی جانی چاہییں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس امکان پر عمل کرتے ہیں جو زمین پر ہو سکتا ہے، کیونکہ زمین پر فیصلہ کرنے کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے۔ بیلوں کی جگہ ٹریکٹروں نے لے لی پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر راونکی رام کہتے ہیں کہ اوزار یا دیہی پیشوں سے متعلق کھیل شروع سے ہی دیہی معاشرے میں موجود ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے پنجاب کے دیہاتوں میں چنجھیاں ہوا کرتی تھیں، جن میں پہلوان اونچی چھلانگ لگاتے یا دیگر کرتب دکھاتے، اس کے ساتھ ساتھ بیلچہ اٹھانے یا اس طرح کے سٹنٹ کرنا ثقافت کا حصہ تھا۔ جدید دور میں بھی ٹریکٹر کو کھینچنے یا ٹریکٹر کو اپنے اوپر سے گزرنے جیسی حرکتیں ہوتی رہی ہیں۔ پہلے کسان اپنے بیلوں سے بہت پیار کرتے تھے،

’پیارے پنجابیو ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں‘ Read More »

Abid Boxer

عابد باکسر کی ڈرامائی گرفتاری کا ڈراپ سین

  ملزم عابد باکسر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض ان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ پنجاب پولیس کے سابق انسپیکٹر اور نوے کی دہائی سے خبروں میں رہنے والے عابد باکسر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جمعرات کو ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ مبینہ طور پر بھتہ خور اشتہاریوں کو پناہ دینے، پولیس سے سرکاری کلاشنکوف چھیننے اور پولیس حراست سے فرار کے کیس میں عابد باکسر کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج ارشد جاوید کی عدالت میں درخواست ضمانت بعد از گرفتاری دائر کی گئی تھی۔ اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے ایک لاکھ روپے مچلکوں کے عوض عابد باکسر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ ملزم کے وکیل مقصود کھوکھر نے عدالت میں موقف پیش کیا کہ ’سی آئی اے لاہور پولیس نے دھمکیاں دینے، اغوا اور بھتہ کیس میں تفتیش شروع کیے بغیر گھر کا گھیراؤ کر کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا اور گرفتار کر لیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’پھر کہا گیا کہ عابد باکسر پولیس سے رائفل چھین کر فرار ہوگئے اور انہیں قصور سے دوبارہ گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف پولیس پر حملے کا کیس درج کر لیا گیا۔‘ مقصود کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ ’پولیس ابھی تک نہ فرار ہونے کا کوئی ثبوت پیش کر سکی ہے اور نہ ہی ان کے قبضے سے پولیس کی رائفل برآمد ہوئی ہے۔ لہذا انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جائے، مقدمات کی تفتیش میں بھی وہ پیش ہونے کو تیار ہیں۔‘ پولیس پراسکیوٹر نے عابد باکسر کی ضمانت کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عابد باکسر کے خلاف دھمکیاں دینے، اغوا اور بھتہ وصولی سمیت پولیس پر حملہ کرنے کے تین مقدمات مختلف تھانوں میں درج ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ’سابق پولیس افسر ہونے کے باوجود انہوں نے گرفتاری کے لیے جانے والی پولیس ٹیم پر حملہ کیا اور ایک پولیس افسر پر تشدد بھی کیا۔ جب انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ پولیس حراست سے سرکاری رائفل چھین کر فرار ہوگئے۔‘ ’ملزم کو پولیس نے دوبارہ قصور سے گرفتار کیا۔ وہ پولیس کے ساتھ تفتیش میں تعاون بھی نہیں کر رہے لہذا درخواست ضمانت خارج کی جائے۔‘ عابد باکسر کے خلاف کارروائی عابد باکسر کے سسر جے آر ٹیپو سلطان نے ایگنایٹ پاکسٹان سے  بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس نے ایک ماہ پہلے عابد باکسر کے خلاف اغوا، دھمکیاں دینے اور بھتہ وصولی کے دو کیس درج کیے، لیکن تفتیش کیے بغیر اکتوبر کے پہلے ہفتے میں لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور گھر کا گھیراؤ کر لیا۔‘ جے آر ٹیپو سلطان کا کہنا ہے کہ ’پولیس افسران نے گھر میں گھس کر عابد باکسر کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور اہلیہ کو بھی زدوکوب کیا۔ انہیں گھسیٹ کر باہر لائے اور گیٹ پر تشدد کیا جس کی ویڈیو بھی وائرل کر دی گئی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’عابد باکسر 2018 میں بیرون ملک سے وطن واپس آئے تو یہ تاثر دیا گیا کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے آئے ہیں، لیکن انہوں نے کسی عدالت میں ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔‘ ’پانچ سال کے دوران ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ انہیں سی آئی اے پولیس کے چند افسران نے ذاتی رنجش کی بنیاد پر غیر قانونی کارروائی میں پھنسانے کی کوشش کی اور تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔‘ عابد باکسر کا سابق پولیس افسر سے ملزم تک کا سفر پولیس ریکارڈ کے مطابق عابد باکسر لاہور میں بطور انسپیکٹر نوے کی دہائی میں اس وقت خبروں میں آئے جب انہیں ان کاؤنٹر سپیشلسٹ سمجھا جانے لگا۔ اداکارہ نرگس نے عابد باکسر کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کیا تھا جس میں ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے اداکارہ پر تشدد کیا اور سر کے بال مونڈ دیے۔ تاہم بعد میں اداکارہ نرگس نے یہ مقدمہ واپس لے لیا تھا۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں عابد باکسر نے اس وقعے کی تصدیق کرتے ہوئے اداکارہ سے معافی بھی مانگی تھی۔ عابد باکسر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’شہباز شریف کے پہلے دور میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس ان کا ان کاؤنٹر کرنا چاہتی تھی۔ دوران حراست پولیس نے انہیں رات کے وقت وضو کرنے کا کہا تو انہیں اندازہ ہوگیا کہ انہیں مار دیا جائے گا۔ یہ اکتوبر 1999 کی وہ رات تھی جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا اور مارشل لا لگائی۔ اس دن ن لیگ کی حکومت کے ساتھ ان کو مارنے کا پلان بھی ٹل گیا۔ عابد حسین باکسر کیسے بنے؟ عابد باکسر جب 2020 میں ڈویژنل باکسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین منتخب ہوئے تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے کھیلوں کی بنیاد پر ہی لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے سیف گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا اور جونیئر ورلڈ کپ میں چاندی کا تمغہ اپنے نام کیا جبکہ پانچ مرتبہ نیشنل باکسنگ چیمپئن شپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ 1988 میں جب عابد باکسنگ کے کھیل میں کئی ٹورنامنٹ جیت کر اپنا نام بنا چکے تھے، پولیس میں بھرتیوں کا اعلان ہوا اور عابد باکسنگ کی بنیاد پر پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے۔ اگلے ہی سال یعنی 1989 کی نیشنل گیمز میں پولیس کی طرف سے کھیلتے ہوئے باکسنگ میں گولڈ میڈل جیتنے پر تربیت کے دوران ہی عابد کو سب انسپیکٹر بنا دیا گیا۔

عابد باکسر کی ڈرامائی گرفتاری کا ڈراپ سین Read More »

امریکہ: ہسپتال میں ایم آر آئی مشین نے نرس کو کچل دیا

امریکہ: ہسپتال میں ایم آر آئی مشین نے نرس کو کچل دیا کیلیفورنیا میں ریڈ ووڈ سٹی میڈیکل سینٹر میں فروری میں پیش آنے والے حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایم آر آئی کی مقناطیسی قوت نے بستر کو اپنی طرف کھینچا اور اس کی زد میں ایک نرس آ گئیں۔   امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر ریڈ ووڈ میں ہسپتال میں پیش آنے والے خوفناک حادثے میں ایک نرس کو ایم آر آئی (میگنیٹک ریزوننس امیجنگ) مشین نے اپنی طرف کھینچ لیا، جس سے انہیں شدید چوٹیں آئیں۔ کیلیفورنیا میں ریڈ ووڈ سٹی میڈیکل سینٹر میں فروری میں پیش آنے والے خوفناک واقعے کو او ایس ایچ اے (آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایڈمنسٹرین) کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ایم آر آئی کی مقناطیسی قوت نے ہسپتال کے بستر کو اتنی طاقت سے اپنی اندر کھینچا جسے ’کنٹرول کرنا مشکل تھا۔‘ نیوز چینل کے ٹی وی یو کے مطابق اینا سروینٹس نامی نرس ایم آر آئی مشین اور بستر کے درمیان پھنس کر شدید زخمی ہو گئیں۔ نیوز چینل کی طرف سے حاصل کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ نرس نے کہا کہ ’مجھے بیڈ نے (مشین کی جانب) دھکیلا۔ بنیادی طور پر میں پیچھے کی طرف زور لگا رہی تھی۔ اگر میں زور نہ لگاتی تو بیڈ مجھے نیچے پٹخ دیتا۔‘سروینٹس کے زخموں میں بہت گہرا زخم بھی شامل ہے جس کے کنارے دو پیچوں کی مدد سے آپس میں جوڑنے کے لیے آپریشن کرنا پڑا۔اس حادثے کے دوران ایک مریض ہسپتال کے بیڈ سے زمین پر گئے تاہم وہ محفوظ رہے۔کیلیفورنیا کے محکمہ پبلک ہیلتھ کی طرف سے واقعے کی چھان بین میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’ہسپتال محفوظ انداز میں ریڈویلوجک خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہا۔

امریکہ: ہسپتال میں ایم آر آئی مشین نے نرس کو کچل دیا Read More »

جعلی افسر جس نے سرکاری اجلاس میں بیٹھ کر کروڑوں روپے کے فنڈز ہتھیا لیے

انڈیا کی ریاست گجرات کے ایک چھوٹے سے شہر بوڈیلی میں تین منزلہ کمپلیکس موجود ہے جس میں زیادہ تر فلیٹ خالی ہیں لیکن دوسری منزل پر فلیٹ نمبر 211 کے باہر ایک نوٹس بورڈ پر مختلف کاغذات چسپاں ہیں۔ ایک کاغذ پر لکھا ہے ’آفس آف ایگزیکٹو انجینیئر، بوڈیلی‘ اور اس کے نیچے ایک نام درج ہے۔ اس نوٹس بورڈ کو دیکھ کر یہ سوچنا فطری ہے کہ یہ کوئی سرکاری دفتر ہے لیکن حال ہی میں انکشاف ہوا کہ حقیقت میں یہ ایک فراڈ تھا جس کے تحت نہ صرف ایک جعلی سرکاری دفتر بنایا گیا بلکہ اس دفتر کے ذریعے محکمہ آبپاشی کے مختلف پراجیکٹس کے لیے سوا چار کروڑ کی گرانٹس بھی حاصل کی گئیں۔ پولیس کے مطابق اس جعلی دفتر کی نمائندگی کرنے والا ایک افسر سرکاری اجلاسوں تک میں شرکت کرتا رہا اور تقریباً دو سال تک کسی کو شبہ تک نہیں ہوا کہ حقیقت میں یہ ایک فراڈ اور جعلی دفتر تھا جس کا اصل میں کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ معاملہ اس وقت کھلا جب 25 اکتوبر 2023 کو مقامی محکمہ آبپاشی کے انجینیئر سمیت دیگر افسران نے ایک اجلاس کے دوران ایک سرکاری دفتر سے آنے والی تجاویز پر غور کیا اور اسی دوران ایک افسر نے نکتہ اٹھایا کہ اس نام کا تو کوئی سرکاری دفتر بوڈیلی میں نہیں۔ چھان بین کی گئی تو پتا چلا کہ پچھلے ڈھائی سال سے بوڈیلی کے ایک سرکاری دفتر سے منصوبوں کی تجاویز آتی ہیں اور نہ صرف منظور ہو جاتی ہیں بلکہ مختلف کھاتوں میں گرانٹ کی تقسیم بھی کی جاتی رہی ہے اور اس دفتر کا ایک افسر سرکاری اجلاسوں میں بھی شرکت کرتا رہا ہے۔ مزید تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اس فراڈ کے پیچھے سندیپ راجپوت نامی شخص تھا جس نے بوڈیلی میں ایک پورا فرضی سرکاری دفتر قائم کر کے سرکاری فنڈز میں سے 4.15 کروڑ ہتھیا لیے اور وہ بھی حکام کی منظوری سے۔ اس پورے واقعہ کے بعد سندیپ راجپوت کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ پولیس نے کیس کی تفتیش کی تو ایک اور ملزم ابوبکر سید کا نام بھی سامنے آیا۔ پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ مقدمے کے مطابق، 25 اکتوبر 2023 کو صبح 11 بجے ایک میٹنگ ہوئی جس میں محکمہ آبپاشی کے افسران کے سامنے ایک سرکاری دفتر کی جانب سے موصول ہونے والا پروپوزل رکھا گیا تو ایگزیکٹیو انجینیئر محکمہ آبپاشی نے کہا کہ ان کے دفتر سے ایسی کوئی تجویز نہیں بھیجی گئی۔ جب اس دفتر اور متعلقہ افسر کے بارے میں مزید پوچھ گچھ ہوئی تو چونکا دینے والی تفصیلات سامنے آئیں جن کے مطابق پہلی بار 2021 میں 40 پراجیکٹس کے لیے 1.97 کروڑ روپے کی رقم بذریعہ چیک جاری ہوئی۔ پھر 2022-2023 مالی سال میں خواتین کے لیے پینے کے پانی سمیت مختلف پراجیکٹس کے لیے 2.18 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی اور پھر یہ رقم مقامی بینک میں ایگزیکٹیو انجینیئر آبپاشی کے کھاتے سے ہی چیک اور ای پیمنٹ کے ذریعے تقسیم کی گئی۔ تفتیش سے پتا چلا کہ سندیپ راجپوت نامی شخص نے 26 جولائی 2021 سے 25 اکتوبر 2023 کے دوران ایگزیکٹیو انجینیئر ایریگیشن پروجیکٹ ڈویژن بوڈیلی کا جعلی دفتر قائم رکھا اور اس نے ایگزیکٹیو انجینیئر کے نام پر ایک فرضی شناخت قائم کرنے کے بعد سرکاری پراجیکٹس کے ذریعے فنڈ حاصل کیے اور فرضی دستخط، جھوٹی تجاویز کا استعمال کرکے 4.15 کروڑ کی رقم کا غبن کیا۔ مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’سندیپ راجپوت نے کسی سابق یا موجودہ افسر یا ملازم کی مدد اور یا ملی بھگت کے تحت مجرمانہ سازش کی ہے۔‘ پولیس انسپیکٹر اے سی پرمار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سندیپ راجپوت نے خود کو ایگزیکٹو انجینیئر ظاہر کیا اور تجاویز بھیج کر گرانٹ حاصل کی اور وہ سرکاری اجلاسوں میں بھی شرکت کرتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ابوبکر سید نامی ملزم سے بھی پوچھ گچھ ہوئی اور معلوم ہوا کہ ان دونوں ملزمان نے مل کر ایگزیکٹو انجینیئر کی سازش کی۔ بی بی سی نے اس معاملے کے حوالے سے ڈسٹرکٹ سپانسر شپ آفیسر سچن کمار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔ ضلع کے پولیس چیف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جعلی دفتر سے ملنے والا سامان، دستاویزات اور کاغذات ضبط کر لیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ملزم ابوبکر کے گھر سے سامان بھی ضبط کر لیا گیا ہے۔

جعلی افسر جس نے سرکاری اجلاس میں بیٹھ کر کروڑوں روپے کے فنڈز ہتھیا لیے Read More »

جب پنڈت کشور لال کی چتا کو آگ نے نہ چھوا

پنڈت نول کشور کو کیوں دفن کیا گیا  اس کی چتا پر کئی ٹین گھی کے ڈالے گئے تھے لیکن چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی . وہ کوئی عام ہندو نہیں تھا انڈیا کا بہت بڑا نام تھا. اس لئے اس کی چتا کو آگ نہ لگنے والے واقعے کی خبر منٹوں میں پورے انڈیا میں پھیل گئی .  لوگ جوق در جوق شمشان گھاٹ پہنچنے لگے . اس کی جامع مسجد دلی کے امام بخاری سے بہت دوستی تھی امام صاحب بھی یہ واقعہ سن کر فورآ شمشان گھاٹ پہنچے . انہوں نے اس کے لواحقین کو سمجھایا کہ اس کی ارتھی کو آگ نہیں لگے گی چاہے پورے ھندوستان کا گھی اس پر ڈال دو . بہتر یہی ہے اسے دفنا دو.  لہذا پہلی بار ایک ہندو کو جلائے بغیر شمشان گھاٹ کے اندر ہی دفن کرنا پڑا . اس کی ارتھی کو آگ کیوں نہیں لگ رہی تھی ؟ اس کو آگ کیسے جلا سکتی ہے جس نے قرآن کا احترام مسلمانوں سے بھی بڑھ کر کیا ھو . کیسے؟ چلیے تاریخ کے صفحوں کو پلٹتے ہیں  تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے . پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے. دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوسکا. نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی. دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا. وقت گزرتا رھا طباعت و اشاعت کا کام جاری رھا۔ پھر برصغیر کی تقسیم ھوئی۔ مسلمان ھندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے۔ نول کشور جی بھی لاھور سے ترک سکونت کرکے نئی دلی انڈیا چلے گئے۔  ان کے ادارے نے دلی مین بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وھی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔نول کشور جی بوڑھے ھوگئے اور اب گھر پر آرام کرنے لگے جبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسہ اسی طرح قائم رکھا۔  آخرکار نول کشور جی کا وقت آخر آ گیا اور وہ انتقال کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ھاں پہنچے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ھونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے۔ ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا ۔ چتا پر گھی ڈال کر آگ لگائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ھوا۔ نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رھی تھی۔چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود۔ یہ ایک ناممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔ پہلے کبھی ایسا نہین ھوا تھا۔ لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہین لگ رھی۔  مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رھے تھے اور حیران و پریشان تھے۔ یہ خبر جب جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شماشان گھاٹ پہنچے۔ نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔  اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔ امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتے ھوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہین ھو پائے گی۔ اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ھے جیسے احترام کیا ھے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ھی نہیں سکے گی چاھے آپ پورے ھندوستان کا تیل گھی چتا پر ڈال دیں۔  اس لئے بہتر ھے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئیے۔ چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتے ھوئے نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ھندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا ۔ میں نہیں جانتا اس  ہندو   کا آخرت میں کیا انجام ھوگا لیکن اتنا جان گیا ہوں کہ دنیا میں اس کو آگ لگانا ناممکن ہو گیا تھا کیا آخرت میں آگ اس کے سامنے بے بس ھو جائے گی؟۔  میں یہ بھی سوچ رھا ھوں ایک ہندو احترام قران میں اس دنیا کی آگ سے محفوظ رہا ہم  اس کتاب پر ایمان لانے والے اگر اس کی صحیح قدر کریں گے تو یہ آگ ھمیں جہنم کی آگ سے کیوں نہیں بچائے گی؟۔  انشااللہ میرا ایمان ہے ضرور بچائے گی۔۔۔۔۔

جب پنڈت کشور لال کی چتا کو آگ نے نہ چھوا Read More »

Ghaza Poetess

غزہ کی معروف شاعرہ بھی اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئیں

غزہ (این این آئی)غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں معروف مصنفہ، شاعرہ اور ناول نگار حبا ابوندا بھی شہید ہوگئی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کی معروف مصنفہ حبا ابوندا نے اپنی شہادت سے ایک روز قبل سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا تھا جس میں اْنہوں کہا تھا کہ ” اگر ہم مرجائیں تو جان لیں کہ ہم ثابت قدم ہیں اور ہم سچے ہیں”۔32 سالہ مصنفہ حبا ابوندا کو اپنے ناول ”آکسیجن ازناٹ فاردی ڈیڈ”سے شہرت ملی تھی جبکہ سوشل میڈیا پر حبا ابوندا کا ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہورہا ہے۔ وائرل ویڈیو میں حبا ابوندا سوال کر رہی ہیں کہ ”ہم کس جہنم میں رہ رہے ہیں؟ ایسا کیسے کب تک چلے گا؟”اس سے قبل اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں وہ 12 سالہ فلسطینی یوٹیوبر عونی الدوس بھی شہید ہوگیا تھا جو یوٹیوب پر ایک لاکھ سبسکرائبرز مکمل ہونے کا خواب سجائے ہوا تھا۔عونی الدوس نے غزہ پر اسرائیلی حملوں سے کچھ عرصہ قبل ہی یوٹیوب پر اپنا چینل بنایا تھا، وہ اپنے چینل پر ”گیمنگ ویڈیوز” اپ لوڈ کرتے تھے اور اْن کا خواب تھا کہ وہ ایک مشہور اور کامیاب انسان بنیں۔

غزہ کی معروف شاعرہ بھی اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئیں Read More »

Dengue Fever

ڈینگی کو ختم کرنے والی پہلی دوا کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن

مچھر کے کاٹنے سے ہونے والے بخار یا بیماری ڈینگی کو ختم کرنے کے لیے بنائی گئی دنیا کی پہلی دوا کی آزمائش کے ابتدائی نتائج سے بخار ختم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈینگی بخار مچھروں کی ایک قسم Aedes کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو خود ڈینگی وائرس سے متثر ہوتا ہے اور کاٹنے کے بعد خون میں وائرس کو منتقل کردیتا ہے۔ مگر یہ بیماری ایک سے دوسرے فرد میں براہ راست نہیں پھیلتی لیکن اب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ڈینگی کا سبب بننے والے مچھر وائرس کو پھیلانے کے لیے طاقتور بن چکے ہیں۔ ڈینگی کے زیادہ تر کیسز ایشیائی اور افریقی ممالک میں رپورٹ ہوتے ہیں اور پاکستان کا شمار بھی اس سے متاثر ہونے والے جنوبی ایشیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ س وقت ڈینگی کے علاج کے لیے کوئی خصوصی گولی، کیپسول، سیرپ یا ویکسین دستیاب نہیں ہے، البتہ ڈاکٹرز مختلف ادویات سے اس کا علاج کرتے ہیں۔ لیکن اب ملٹی نیشنل کمپنی ’جانسن اینڈ جانسن‘ کی جانب سے تیار کردہ اینٹی وائرل دوا کی آزمائش کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن آئے ہیں۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق شکاگو میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جانسن اینڈ جانسن کے ماہرین نے تیار کردہ گولیوں کی آزمائش کے ابتدائی نتائج پیش کیے، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ گولیوں کے استعمال سے بخار ختم ہوگیا۔ ماہرین نے کانفرنس میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کمپنی نے ڈینگی کو ختم کرنے کے لیے اینٹی وائرل گولیاں تیار کی ہیں، جن کی 10 افراد پر آزمائش کی گئی۔ ماہرین کے مطابق آزمائشی پروگرام کے لیے 10 صحت مند رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں، جنہیں پہلے ڈینگی بخار میں مبتلا کیا گیا، جس کے بعد انہیں دو گروپوں میں تقسیم کرکے 21 دن تک ان کا علاج کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق 10 میں سے 6 رضاکاروں کو تیار کردہ نئی اینٹی وائرل گولیاں دی گئیں اور انہیں یومیہ 21 دن تک گولیاں کھانے کا کہا گیا جب کہ دوسرے افراد کو مصنوعی دوا دی گئی۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ 21 دن بعد گولیاں کھانے والے افراد میں ڈینگی ختم ہوچکا تھا جب کہ ان کے بلڈ پلازما اور مدافعتی نظام سے بھی ڈینگی وائرس نکل چکا تھا۔ ماہرین کے مطابق علاج کے بعد 85 دن بعد دوبارہ ان افراد کے ٹیسٹ کیے گئے تو بھی ان میں ڈینگی کی تشخیص نہیں ہوئی جب کہ دوسرے رضاکار جنہیں مصنوعی دوا دی گئی تھی، ان میں ڈینگی پایا گیا۔ ماہرین نے بتایا کہ ابتدائی نتائج حوصلہ بخش آنے کے بعد اب مذکورہ گولیاں کی دوسری آزمائش شروع کی جائے گی، جس کے لیے زیادہ رضاکار اور زیادہ وقت درکار ہوگا۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ اینٹی وائرل گولیوں کی دوسری آزمائش افریقہ، امریکا اور ایشیا کے متعدد ممالک میں 6 ماہ تک کی جائے گی اور ممکنہ طور پر آزمائش کو ایک سال کے اندر شروع کیا جائے گا۔ اگر مذکورہ گولیوں کی آزمائش کے دوسرے مرحلے کے نتائج بھی حوصلہ کن آئے تو ان گولیوں کو تیسری اور آخری بڑی آزمائش میں آمایا جائے گا، تاہم اس سارے عمل میں مزید دو سال کا وقت لگ سکتا ہے۔

ڈینگی کو ختم کرنے والی پہلی دوا کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن Read More »

Arshad Sharif

صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!

ارشد کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا گیا تھا جہاں لاکھوں لوگ اس کی بات سچ مانتے تھے اس کے فالوور تھے اور یہ کسی صحافی کی معراج ہوتی ہے۔ ’ڈرائیور بھیج دوں گاڑی لانے کے لیے؟‘ ’اچھا، میری گاڑی بالکل چلنے کے قابل نہیں۔‘ ’چلیں آپ دیکھیں کیا کرنا ہے۔‘ ’اچھا ٹریلر پر بھیج دیں‘، ارشد شریف کی سرگوشی نما آواز سنائی دی۔ میں اس وقت ارشد شریف کے ڈرائنگ روم میں تھا اور ساجد گوندل کے ساتھ ارشد کے والد کی میت کو ایک چارپائی سے دوسری چارپائی پر منتقل کررہا تھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو ارشد ڈرائنگ روم کے باہر سیڑھیوں کے پاس کھڑا کسی سے دھیمے لہجے میں فون پر بات کر رہا تھا۔ ارشد کے والد نیوی سے ریئر ایڈمرل ریٹائرڈ ہوئے تھے اور صبح وفات پاگئے تھے۔ میں اس وقت ڈان نیوز ٹی وی میں بطور رپورٹر کام کر رہا تھا اور ارشد ڈان کا بیورو چیف تھا لیکن اس کا سب کے ساتھ تعلق بھائیوں والا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی ارشد کے والد کے انتقال کی خبر نیوز روم پہنچی تو ایک، دو رپورٹرز کو چھوڑ کر ہم سب ارشد کے گھر پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد پتا چلا کہ ارشد کے چھوٹے بھائی جو فوج میں میجر تھے ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ دراصل جب انہیں والد کے انتقال کی خبر ملی تو وہ اپنی کورے گاڑی میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے اور تیز رفتاری کے سبب گاڑی بے قابو ہوگئی اور ارشد کے بھائی اس اندوہناک سانحے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اور اب گھر میں ان کی میت کا انتظار تھا۔ مجھے ہمت نہ ہوئی کہ ارشد کو دلاسہ دے سکوں۔ گھر میں باپ کی لاش پڑی ہو اور چھوٹے بھائی کی لاش کا انتطار ہو، تو بھلا اس قیامت خیز گھڑی میں کوئی کسی کو کیا دلاسہ دے سکتا ہے؟ آج بھی اس لمحے کا سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ ’ایسا تو فلموں میں ہوتا ہے‘، ارشد سپاٹ لہجے میں اسد کو کہہ رہا تھا۔ اسد ڈان کے ٹیکنیکل شعبے کے سربراہ تھے۔ میں قرآن پڑھتے کن انکھیوں سے ارشد کو تک رہا تھا کہ کس بلا کا حوصلہ ہے اس شخص کا۔ اگلے دن ارشد کے بھائی کو جب تمام فوجی اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا تب بھی ارشد نے بڑے ضبط کا مظاہرہ کیا۔ ارشد ایک نڈر شخص تھا۔ یہ اس کی ہی آشیر باد تھی کہ ہم وہ خبر بھی چلا دیتے تھے جسے چلانے کا دوسرے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ میں گمشدہ افراد پر ایک پروگرام کر رہا تھا جس کے لیے شہر سے باہر جانا پڑتا تھا۔ ارشد اس وقت تک بے چین رہتا تھا جب تک میں مع عملہ واپس نہ پہنچ جاؤں۔ ایک رات جب ہم فیصل آباد سے رات گئے لوٹے تو ارشد دفتر میں میرا انتظار کررہا تھا۔ کیمرا اور دیگر سامان دفتر میں جمع کرواتے صبح کے 4 بج گئے لہٰذا میں اور ارشد ڈان کے نیوز روم میں ہی قالین پر سو گئے۔ اگلے دن اس نے مجھے تو گھر بھیج دیا مگر خود کام میں جتا رہا۔ ارشد عجز و انکساری سے بھرپور انسان تھا۔ ایک رات میں دفتر میں تھا تو معلوم ہوا ایک چینی کا پُراسرار حالات میں قتل ہوگیا ہے۔ میں نے ارشد کو فون کیا کہ چینی کا قتل ہوگیا، میں نے خبر بریک کرنی ہے لیکن کیمرا مین نہیں ہے۔ ’اچھا میں آتا ہوں‘، اس نے کہا اور تھوڑی ہی دیر میں دفتر پہنچ گیا۔ امریکا سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیورو چیف ساری رات ایک رپورٹر کے ساتھ بطور کیمرا میں کام کرتا رہا۔ ارشد میں حس مزاح بھی بہت تھی۔ ایک دن کراچی (ہیڈ آفس) سے جھاڑ کھانے کے بعد وہ نیوز روم میں سب پر برسنے لگا کہ ایک اہم خبر اسلام آباد سے مس ہوگئی تھی۔ ’کیا کر رہے ہو تم سب‘، ارشد دھاڑا۔ ریلیکس کر رہا ہوں، میں نے جواب دیا۔ ’ریلیکس کر رہے ہو‘، اس نے غصے سے پوچھا۔ بنا کسی بات کے جھاڑ کھانے کے بعد کوئی اور کیا کرسکتا ہے؟ میں نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا اور ارشد قہقہے میں لوٹ پوٹ ہوگیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ صحافت کی باریکیاں میں نے ارشد سے سیکھیں ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ ارشد کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ اس نے مجھے کئی انتہائی نازک مواقعوں پر بچایا ہے۔ ایک دوپہر میں نیوز روم میں داخل ہوا تو ارشد نے ایک خط میرے سامنے کردیا۔ یہ اسلام آباد پولیس کا خط تھا جس میں کہا گیا تھا کہ میں یعنی ڈان نیوز کا رپورٹر عاطف خان ایک تھانے میں زبردستی داخل ہوا اور اس نے ایس ایچ او انسپکٹر فیاض تنولی کو ہراساں کیا اور عاطف خان پر فلاں فلاں قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔ اس خط میں اگر ایسا لکھا ہے تو اس میں ایسی کیا بات ہے۔ پولیس ایجنسیوں کی یہ ایک اسٹینڈرڈ کارروائی ہے، میں نے بے اعتنائی سے کہا۔ دراصل ان دنوں میں نے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی خبر بریک کی تھی اور پے درپے رپورٹس کر رہا تھا۔ ایجنسیاں اور پولیس مجھ سے سخت برہم تھے۔ ارشد نے مجھے کہا کہ میں حامد میر سے بات کرکے عاصمہ جہانگیر کے پاس چلا جاؤں اور ارشد کی ان سے بات ہوگئی ہے۔ یعنی اس نے میرے لیے سارا انتظام کر رکھا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں، مجھے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے حوالے سے بننے والے کمیشن میں شامل کرلیا گیا۔ میری رپورٹس کمیشن نے شامل کیں لیکن ہوا وہی جو اس طرح کے کیسوں میں ہوتا ہے۔ کیس تو داخل دفتر ہوگیا لیکن میری گلو خلاصی ہوگئی بلکہ عدالتِ عالیہ نے پولیس کو مجھے گارڈز فراہم کرنے کی ہدایت کی جسے میں نے مسترد کردیا کہ پولیس مجھے پولیس یا ایجنسیوں سے نہیں بچا سکتی۔ اگر میں یہ کہوں کہ ڈان ٹی وی کو ڈان بنانے والا ارشد تھا تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ انگریزی سے اردو میں کامیاب منتقلی کا سہرا ارشد اور اس کی پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ ارشد کام کرنے والوں کی

صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی! Read More »

ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی

یہ آٹھ اگست 1963 کی بات ہے جب ایک ٹرین گلاسگو سے اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ صبح تین بج کر تیس منٹ پر ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے اسے روکا اور وہ 26 لاکھ پاؤنڈ کی دولت لے اڑے۔ 60 برس قبل 26 لاکھ پاؤنڈ کی مالیت آج کے پچاس لاکھ پاؤنڈ کے برابر ہے۔ اس واقعے کو اب 60 برس گزر چکے ہیں لیکن اس ڈکیتی کی یاد اب بھی برطانوی افراد کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس ڈکیتی کو بعد میں ’دی گریٹ ٹرین رابری‘ یا عظیم ٹرین ڈکیتی کا نام دیا گیا۔ اس واقعے پر متعدد فلمیں اور ڈرامہ سیریل بنائے جا چکے ہیں۔ یہ بدنامِ زمانہ ڈکیتی آج بھی اکثر افراد کے لیے ایک افسانے کی طرح ہے۔ ڈکیتوں نے اس کی منصوبہ بندی کیسے کی؟ اس دن کیا ہوا اور اس کے بعد ڈکیتوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ وہ سوال ہیں جو سب کے ذہنوں میں گردش کرتے رہے۔ یہ 15 لوگوں کا گینگ تھا اور بروس رینلڈز اس کے سرغنہ تھے۔ انھیں ریلوے کے ایک ملازم کی جانب سے تمام معلومات بتائی جا رہی تھیں لیکن اس اہلکار کی شناخت آج تک نہیں کی جا سکی۔ اس اہلکار کی جانب سے دی گئی معلومات کی بنیاد پر بروس نے ڈکیتی کی منصوبہ بندی کی۔ انھوں نے ریلوے سگنلز کے نظام میں تبدیلی کی اور ٹرین کو بکنگھم شائر کے پاس روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈکیتوں نے اس دوران اسلحہ یا پستولوں کا استعمال نہیں کیا لیکن انھوں نے ٹرین ڈرائیور کے سر پر سلاخ سے ضرب لگائی۔ ڈرائیور بچ تو گیا لیکن کبھی بھی مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہو سکا یہ منصوبہ کیسے بنایا گیا؟ بروس رینلڈز اس ڈکیتی کے سرغنہ اور منصوبہ ساز تھے۔ انھوں نے گلاسگو سے آنے والی ٹرین کو روکنا تھا۔ ایک سکیورٹی افسر جو اس ٹرین میں موجود رقم کے بارے میں معلومات رکھتے تھے اور اس کو محفوظ رکھنے کے لیے کیے گئے انتظامات کے بارے میں بھی جانتے تھے گینگ کے لوگوں کو سب کچھ بتا رہے تھے۔ برائن فیلڈ نے اس سکیورٹی افسر کو گورڈن گوڈی اور رانلڈ ’بسٹر‘ ایڈورڈز سے ملوایا جو اس گینگ کا حصہ تھے۔ اس ڈکیتی کی منصوبہ بندی کرنے میں کئی ماہ لگ گئے۔ بروس رینلڈز، گورڈن گوڈی، بسٹر ایڈورڈز اور چارلی ولسن اس گینگ کے سب سے اہم اراکین تھے۔ وہ جرائم کی دنیا میں نئے نہیں تھے لیکن انھیں کسی ٹرین کو روک کر اس پر ڈکیتی کرنے کا تجربہ ہرگز نہیں تھا۔ اس لیے اس کے لیے دیگر گینگز کی مدد لی گئی۔ اس گینگ میں ٹامی وسبی، باب ویلش اور جم ہسی شامل تھے۔ اس گینگ کو ’ساؤتھ کوسٹ ریڈرز گینگ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور انھیں ٹرینوں پر ڈکیتی کرنے کا تجربہ تھا۔ اس کے بعد کچھ اور لوگوں کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنایا گیا اور یوں اس ٹیم میں 16 افراد تھے۔ اس ٹرین میں کیا تھا؟ اس ٹرین کا نام ’رولنگ پوسٹ آفس‘ رکھا گیا۔ اس کے ذریعے خط، پارسل، منی آرڈر اور کیش ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جاتا تھا۔ اس ٹرین میں عملے کے کل 72 افراد تھے اور اس میں 12 کوچز تھیں۔ وہ سٹیشن سے پارسل اور خطوط کے بیگ ٹرین پر لوڈ کرتے اور جب ٹرین چل رہی ہوتی اس دوران انھیں ترتیب دیتے۔ ٹرین کو کسی صورت نہ روکنے کے لیے اس میں بڑے بڑے ہُک لگائے جاتے اور ان پر بیگ لٹکا دیے جاتے اور بعد میں ان میں سے یہ خطوط اور پارسل اندر رکھ لیے جاتے۔ اس ٹرین میں انجن سے منسلک ایک بوگی میں رقم رکھی جاتی تھی۔ عام طور پر ٹرین میں تین لاکھ پاؤنڈ کی رقم منتقل کی جاتی تھی لیکن سات اگست 1963 کو کیونکہ بینک کی چھٹی تھی اس لیے اس پر 26 لاکھ پاؤنڈ کی رقم موجود تھی ٹرین کو کیسے روکا گیا؟ ڈکیتوں نے پٹڑی پر موجود سگنل کو گلوّز کے ذریعے ڈھانپ دیا اور بیٹری سے چلنے والی سرخ لائٹس کے ذریعے ٹرین کو روکنے کا اشارہ کیا۔ ٹرین ڈرائیور جیک ملر نے جب سرخ سگنل دیکھا تو انھوں نے آٹھ اگست کی صبح لگ بھگ تین بجے ٹرین روک دی۔ انھیں اس بات کی امید نہیں تھی کہ ٹرین کو ایسے راستے میں روکا جائے گا۔ اس لیے وہ اور ان کے اسسٹنٹ ڈیوڈ وھٹبی ٹرین سے اترے اور قریبی سٹیشن کال کرنے کے لیے ٹریک پر لگے فون کی جانب بڑھے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ کسی نے ٹیلی فون لائن ہی کاٹ دی ہے۔ جب تک ڈیوڈ واپس آئے تو ڈکیت انجن کیبن میں داخل ہو چکے تھے۔ جیک ملر نے جب ایک ڈکیت کو روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے ان کے سر پر سلاخ دے ماری۔ ڈکیتوں کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ اس کوچ کو باقی ٹرین سے علیحدہ کر کے اسے برڈگو پول لے جائیں جو وہاں سے صرف آٹھ سو میٹر دور تھا اور پھر رقم لوٹ کر نکل جائیں۔ اس کے لیے وہ ایک ریٹائرڈ ٹرین ڈرائیور بھی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے لیکن ڈکیتی کے وقت انھیں احساس ہوا کہ اس ڈرائیور کو یہ جدید قسم کی ٹرین چلانے کا تجربہ نہیں ہے۔ اس وقت تک ڈکیتوں نے پچھلی بوگیوں میں جا کر تمام اہلکاروں کو ایک طرف کونے میں بٹھا لیا تھا، دو سکیورٹی گارڈز کو باندھ دیا گیا۔ اب ان بوریوں کو خالی کرنے کی باری تھی جن میں دولت موجود تھی۔ اس ٹرین کی پہلی بوگی میں 128 بوریاں تھیں۔ انھوں نے پہلے اس میں سے 120 بوریاں نکالیں اور ایک ایک کر کے انھیں پل کے نیچے کھڑے ٹرک میں خالی کرنے لگے۔ صرف تیس منٹ میں انھوں نے یہ ڈکیتی مکمل کر لی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مزید دو ٹرکس مختلف سمتوں میں بھیجے تاکہ عینی شاہدین کو بیوقوف بنایا جا سکے۔ پیسوں سے بھرے بیگ خالی کرنے کے بعد ڈکیتوں نے ایک سنسان سڑک پکڑی۔ اس دوران پولیس ریڈیو کے ذریعے سننے کی کوشش کر رہی تھی کہ انھیں کوئی معلومات ملتی ہیں یا نہیں۔ ڈکیت ایسپس لیدرسلیڈ فارم صبح چار بج کر

ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی Read More »

Soup

کیا مرچ اور سبزیوں کی مدد سے تیار کردہ چکن سوپ واقعی نزلہ زکام سے لڑنے میں مدد دیتا ہے؟

  موسمِ سرما میں اگر سردی لگنے کے باعث گھر کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو دوا کے علاوہ صدیوں سے رائج ایک آزمودہ نسخہ اُن کے لیے چکن سوپ کا پیالہ تیار کرنا ہے۔ بیماری کے علاوہ بھی پاکستان میں سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ہر گلی محلے میں چکن سوپ کے سٹال لگ جاتے ہیں اور لوگ گرم گرم سوپ کے پیالے کو سردی کے توڑ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عملی طور پر ہر ثقافت اور ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ چکن ’سوپ‘ کے فوائد پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکہ میں یہ عام طور پر نوڈلز کے ساتھ بنایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں نوڈلز کے بغیر۔ لیکن جب سوپ کو بطور علاج یا دوا استعمال کیا جانا ہو تو اس کی ترکیب ہر علاقے اور وہاں کے ذائقے کے مطابق اور مختلف ہو جاتی ہے۔ چکن سوپ کا استعمال 60 ویں صدی عیسوی سے ہو رہا ہے۔ پیڈانیئس ڈیوسکورائڈز ایک معروف فوجی سرجن تھے جو رومن بادشاہ نیرو کے ماتحت بھی خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔ اُن کی پانچ جلدوں پر مشتمل طبی انسائیکلوپیڈیا سے دنیا بھر کے طبیب اور حکیم گذشتہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک مستفید ہوتے رہے ہیں۔ لیکن کیا اس بات پر یقین کرنے اور اس کی حمایت کرنے کے لیے کوئی سائنس شواہد موجود ہیں کہ سوپ ہماری صحت کے لیے فائدہ مند ہے؟ یا کیا چکن سوپ صرف ایک آرام دہ غذا کے طور پر کام کرتا ہے۔ بہتر بھوک، بہتر ہاضمہ ایک رجسٹرڈ ماہر غذائیت کی حیثیت سے میں چکن سوپ کے فوائد سے اچھی طرح واقف ہوں۔ جب میں سانس کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو دیکھتا ہوں تو اُن میں بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیں جن میں کھانے پینے کی رغبت بہت کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید بیماریاں انسانی جسم میں سوزش کے عمل کو متحرک کرتی ہیں جو بھوک کو کم کر سکتی ہیں۔ کھانے کی خواہش کا نہ ہونا یا کوئی بھی چیز کھانے کا دل نہ کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شخص کو وہ غذائی اجزا نہیں مل پا رہے جن کی انھیں ضرورت ہے، اور یہ امر مدافعتی نظام اور بیماری سے صحتیابی کے لیے بہتر نہیں ہے۔ لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ چکن سوپ کا ’امامی‘ ذائقہ بڑھتی ہوئی بھوک کو متحرک کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ ایک مطالعے کے شرکا کا کہنا تھا کہ محققین کی جانب سے شامل کیے گئے امامی ذائقے والے سوپ کو چکھنے کے بعد انھیں بھوک محسوس ہوئی۔ سوپ کو جو چیز منفرد ذائقہ دیتی ہے وہ ’امامی‘ ہے (امامی بنیادی طور پر پائے جانے والے چار ذائقوں میٹھا، نمکین، کھٹا اور کڑوا کے بعد ایک پانچواں ذائقہ ہے اور یہ ذائقہ عمومی طور پر جاپان میں بنائے جانے والے کھانوں میں پایا جاتا ہے، جیسا کے سوپ میں)۔ امینو ایسڈ پروٹین کے بلڈنگ بلاکس ہیں، اور امینو ایسڈ گلوٹامیٹ امامی ذائقے والے کھانوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم، تمام امامی غذائیں گوشت یا مرغی نہیں ہیں۔ پنیر، مشروم، میسو اور سویا کی چٹنی بھی اس میں موجود ہیں۔ جیسا کہ مطالعے پتہ چلتا ہے کہ یہی امامی ذائقہ چکن سوپ کی شفایابی کی خصوصیات کے لیے اہم ہے۔ دیگر تجزیوں میں کہا گیا ہے کہ امامی غذائی اجزا ہاضمے کو بھی بہتر بنا سکتی ہیں۔ ایک بار جب ہمارا دماغ ہماری زبان پر ذائقہ کو پرکھنے والے ریسیپٹرز کے ذریعے امامی کو محسوس کرتا ہے تو جسم ہاضمہ کی نالی کو پروٹین کو زیادہ آسانی سے جذب کرنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ سانس کے انفیکشن کو معدے کی علامات کے ساتھ منسلک نہیں کرتے، لیکن بچوں میں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فلو وائرس نے پیٹ میں درد، متلی، قے اور اسہال کی علامات میں اضافہ کیا ہے۔ سوزش اور ناک کی بندش کو کم کر سکتا ہے جسم میں سوزش ہونا کسی بھی چوٹ یا بیماری کا قدرتی ردعمل ہوتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب خون کے سفید خلیات شفا یابی میں مدد کے لیے متاثرہ ٹشوز میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ جب یہ سوزش کا عمل جسم میں سانس کی اوپری نالی میں ہوتا ہے، تو یہ عام زکام اور فلو کی علامات پیدا کرتا ہے، جیسے بھری ہوئی یا بہنے والی ناک، چھینک، کھانسی، اور بلغم۔ اس کے برعکس، ناک کے راستے میں سفید خون کے خلیات کی کم سرگرمی سوزش کو کم کر سکتی ہے۔ تحقیق سے دلچسپ بات یہ پتہ چلتی ہے کہ چکن سوپ سفید خون کے خلیات کی تعداد کو کم کر سکتا ہے جو سوزش والے ٹشوز میں سفر کرتے ہیں۔ یہ نیوٹروفلس کی صلاحیت کو براہ راست روکتا ہے، جو سفید خون کے خلیات کی ایک قسم ہے، سوجن والے ٹشو میں منتقل ہونے کے لیے۔ اہم اجزا چکن سوپ کے پرسکون اور شفا بخش اثرات کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے، اس کے اجزا پر غور کرنا ضروری ہے۔ تمام چکن سوپ غذائیت بخش شفا بخش خصوصیات سے بھرے ہوئے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر نوڈلز کے ساتھ اور اس کے بغیر الٹرا پروسیسڈ ڈبہ بند ورژن میں گھریلو ورژن میں پائے جانے والے بہت سے اینٹی آکسائیڈنٹس کی کمی ہوتی ہے۔ زیادہ تر ڈبہ بند ورژن عملی طور پر سبزیوں سے خالی ہیں۔ سوپ کے گھریلو ورژن میں اہم غذائی اجزا وہ ہیں جو ان اقسام کو ڈبہ بند اقسام سے الگ کرتے ہیں۔ چکن جسم کو انفیکشن سے لڑنے کے لیے پروٹین کا ایک مکمل ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ سبزیاں وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسائیڈنٹس کی ایک وسیع رینج فراہم کرتی ہیں۔ اگر سوپ امریکی طرز پر تیار کیا جائے تو نوڈلز آسانی سے ہضم ہونے والا کاربوہائیڈریٹ ذریعہ فراہم کرتی ہیں جو آپ کا جسم میں توانائی اور بحالی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ چکن سوپ کی گرمی بھی مدد کر سکتی ہے۔ مائع حالت میں کسی بھی خوراک کو پینے اور بخارات کو سونگھنے سے ناک اور سانس کی نالیوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، جس سے بلغم کی شکایت کم ہوتی ہے۔ صرف گرم

کیا مرچ اور سبزیوں کی مدد سے تیار کردہ چکن سوپ واقعی نزلہ زکام سے لڑنے میں مدد دیتا ہے؟ Read More »