Miscellaneous

Pakistan Taxes on Middle and lower middle class

پاکستان میں متوسط طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ امیروں سے زیادہ کیوں ہے؟

ین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلنا جارجیوا نے گذشتہ دنوں پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ امیر طبقات پر ٹیکس عائد کرے جبکہ غریبوں کی حفاظت کرے۔ آئی ایم ایف کی اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے یہ بیان پاکستان کے نگراں وزیرا عظم انوارالحق کاکڑ سے چند روز قبل امریکہ میں ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ پاکستان اِس وقت آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام سے منسلک ہے جس کے تحت رواں برس جولائی میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط ملی تھی جبکہ دوسری قسط نومبر 2023 میں ملنے کی توقع ہے۔ نومبر میں اِس قرض کی اگلی قسط کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کا ایک وفد رواں ماہ (اکتوبر) کے آخر میں اس بات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گا کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد کر رہا ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ دوسری شرائط کے علاوہ ملک میں ٹیکس وصولی بڑھانے کی بھی ایک شرط ہے تاکہ اس کے ذریعے پاکستان کے بجٹ کے خسارے کو کم کیا جا سکے۔ اس شرط کے تحت زیادہ ٹیکس وصولی کے مختلف شعبوں اور طبقات پر ٹیکس لگانے کی بات کی گئی ہے تاہم ابھی تک پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کچھ ایسا ہے جس میں غریب طبقات پر ٹیکس کے بوجھ کی زیادہ شکایات ہیں جب کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں امیر طبقات پر ٹیکس کی وصولی کا بوجھ ان کی آمدن کے لحاظ سے نہیں ہے۔ پاکستان میں معیشت اور ٹیکس کے ماہرین کے مطابق ملک میں ٹیکس وصولی کے نظام میں غریبوں سے زیادہ ٹیکس وصولی کی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو تمام صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں تاہم غریبوں کی کم آمدن کی وجہ سے ان پر اس ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کا بہت زیادہ اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟ پاکستان میں وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پورے ملک میں ٹیکس وصولی کا کام کرتا ہے۔ اگرچہ صوبائی سطح پر ٹیکس وصولی کے ادارے کام کر رہے ہیں تاہم قومی سطح پر ایف بی آر ہی ٹیکس اکٹھا کرنے کا واحد ادارہ ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو دیکھا جائے تو اس میں انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کے ذریعے ٹیکس رقم یا محصولات کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان نے 7169 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا۔ یہ ٹیکس انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوئی اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اکٹھا کیا گیا۔ ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے ایگنایٹ پاکستان  کو بتایا کہ پاکستان میں اس وقت ٹیکس وصولی میں ستر فیصد حصہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکس سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس صرف 30 فیصد ہے۔ پاکستان میں کون زیادہ ٹیکس دیتا ہے؟ ماہر ٹیکس امور ذیشان مرچنٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ملک کی آبادی لگ بھگ 24 کروڑ ہے جبکہ ٹیکس فائلرز کی تعداد محض 45 لاکھ ہے جس کے بعد عام افراد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہ 45 لاکھ لوگ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ مگر ایسا نہیں ہے۔ ٹیکس اُمور کے ماہرین کے مطابق اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر شہری اِس وقت ٹیکس دے رہا ہے جس کی بڑی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کا زیادہ ہونا ہے۔ ذیشان مرچنٹ کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ہر وہ شخص جو موبائل استعمال کر رہا ہے یا دکان پر جا کر کچھ خرید رہا ہے وہ سیلز ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادائیگی کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا جہاں تک بات ہے آمدن پر ٹیکس دینے کی تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ٹیکس نظام کے بارے میں عوام میں اعتماد کا فقدان ہے اور اس کے علاوہ ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں اور زیادہ شرح ٹیکس کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس دینے کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ انھوں نے کہا اگر پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف دو فیصد لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں جسے کم از کم چار سے پانچ فیصد ہونا چاہیے تاکہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب متناسب ہو سکے۔ پاکستان میں کیا غریب امیروں سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں؟ پاکستان میں ٹیکس اور معیشت کے امورکے ماہرین کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیر طبقات پر ٹیکسوں کا بوجھ اس کے مقابلے میں کم ہے۔ ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا پاکستان میں اس وقت 30 فیصد ٹیکس آمدنی ڈائریکٹ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے جب کہ 70 فیصد تک ٹیکس ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے اکٹھا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا ان ڈائریکٹ ٹیکس یقینی طور پر صارفین سے لیا جاتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں تاہم غریبوں کی محدود آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیروں کی زیادہ آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں پر اس طرح بوجھ نہیں پڑتا ہے جس طرح ایک غریب صارف جھیلتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو پاکستان میں آمدن میں اضافے کے باوجود لوگ زیادہ ٹیکس نہیں دیتے اور ٹیکس وصولی کا جو طریقہ کار نافذ ہے وہ کم آمدنی والے طبقات کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ انھوں نے کہا اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ایک کنٹریکٹر یا ایک برآمد کنندہ یا درآمد کنندہ پر بھی جب ایڈوانس ٹیکس لگتا ہے تو وہ اسے اپنے منافع سے نکالنے کے بجائے آگے عام صارف کو منتقل کر دیتا ہے۔ ماہر معیشت حزیمہ بخاری نے اس سلسلے میں کہا امیروں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ

پاکستان میں متوسط طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ امیروں سے زیادہ کیوں ہے؟ Read More »

دبئی کا میگا پروجیکٹ، بھارت کے لیے 1,200 میل کی زیر آب ٹرین

یہ ٹرین کا اب تک کا سب سے شاندار سفر ہوگا۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) دبئی کو بھارت کے شہر ممبئی سے ملانے کے لیے زیر آب ٹرین پر کام کر رہا ہے۔ یہ ایک پرجوش منصوبہ ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک اب اسے انجام دینے کے ایک قدم قریب ہے۔ 1,200 میل (2,000 کلومیٹر) کا سفر دبئی کو ممبئی سے اس طرح جوڑ دے گا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اور ریلوے کو نہ صرف لوگوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جائے گا بلکہ پانی اور تیل سمیت اشیا اور اجناس کی ترسیل کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اور نہیں، پانی کی نقل و حمل کے لیے پانی کے اندر ٹرین بنانے کی ستم ظریفی ہم پر ختم نہیں ہوئی۔ الیکٹرک لیمبوروگھینی SUV – ایک سرف بورڈ کے ساتھ آتا ہے! 1,200 میل (2,000 کلومیٹر) کا سفر دبئی کو ممبئی سے اس طرح جوڑ دے گا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اور ریلوے کو نہ صرف لوگوں کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جائے گا بلکہ پانی اور تیل سمیت اشیا اور اجناس کی ترسیل کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ اور نہیں، پانی کی نقل و حمل کے لیے پانی کے اندر ٹرین بنانے کی ستم ظریفی ہم پر ختم نہیں ہوئی۔ بات یہ ہے کہ یہ بخارات سے زیادہ ہے۔ دبئی تا ممبئی زیر آب ٹرین پروجیکٹ کا ذکر پہلی بار 2018 میں کیا گیا تھا لیکن اس وقت یہ بار ٹاک سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ اب، متحدہ عرب امارات کا نیشنل ایڈوائزر بیورو ریلوے اور اس قسم کی ٹرین کے لیے جس کی ضرورت ہو گی کے لیے ایک قابل عمل بلیو پرنٹ پر کام کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور ہندوستان کے درمیان اچھے اور قریبی تعلقات ہیں، لیکن اگر ہمیں اندازہ لگانا ہو تو ہم کہیں گے کہ دبئی پانی کے اندر ٹرین بنانے کی ایک اور وجہ ہے۔ اتنے سالوں سے، متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں ٹیکنالوجی، تعمیرات اور بنیادی ڈھانچے کے لیے واحد جگہ تھی۔ اب سعودی عرب متحدہ عرب امارات کے غلبے کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہا ہے جن کی سرمایہ کاری لامحدود نقد رقم سے کی جا رہی ہے۔ سب سے بڑا اور قابل اعتراض طور پر سب سے زیادہ زیر بحث پروجیکٹ نام نہاد لائن ہے، ایک بڑا شہر جو افقی طور پر پھیلا ہوا ہے اور صحرا کو سمندر سے ملاتا ہے۔ یہ ایک مہتواکانکشی منصوبہ ہے، اور اس میں ایک مہنگا منصوبہ ہے، کیونکہ پورے NEOM پروجیکٹ پر $1 ٹریلین لاگت کا تخمینہ ہے۔ صرف لائن پر 500 بلین ڈالر لاگت آئے گی۔ تعمیراتی کام جاری ہے، اور سعودی عرب دہائی کے آخر تک اس لائن کا افتتاح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سے کم از کم جزوی طور پر اس بات کی وضاحت ہو سکتی ہے کہ متحدہ عرب امارات پانی کے اندر ٹرین کے ساتھ شروع کرنے کا خواہاں کیوں ہے۔ پانی کے اندر ٹرینوں کے بارے میں سنا نہیں ہے، اور چینل ٹنل جو برطانیہ کو فرانس سے ملاتی ہے، دنیا کی سب سے مشہور زیر آب ریلوے سرنگ ہے۔ آپ کو ذہن میں رکھنا، دبئی-ممبئی ایک مختلف ہوگا۔ اگر یہ حقیقت نہیں تھی کہ آپ پانی کے قریب ٹرین میں سوار ہوتے ہیں، تو آپ چینل ٹنل میں ہونے کے بعد پانی کے اندر بھی نہیں ہوتے۔ دریں اثنا، دبئی-ممبئی ایک بہت زیادہ خوبصورت ہوگا، جس میں شاندار نظارے والی کھڑکیاں آپ کو یاد دلانے کے لیے ہوں گی کہ آپ پانی کے اندر ہیں۔

دبئی کا میگا پروجیکٹ، بھارت کے لیے 1,200 میل کی زیر آب ٹرین Read More »

Ottoman Empire Ertugural

سلطنت عثمانیہ: ارطغرل کون تھے؟

    رطغرل غازی کے نام سے ایک ترک ڈرامہ پاکستان ٹیلی ویژن پر اردو زبان میں نشر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اردو زبان میں ڈبنگ سے قبل یہ ڈرامہ پاکستان میں اس حد تک مقبول ہے کہ اس کے مداحوں میں وزیراعظم عمران خان کو بھی گنا جاتا ہے جو اس میں دکھائی گئی ’اسلامی تہذیب‘ کی تعریف کر چکے ہیں۔ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔ اس کے علاوہ ان کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کئی صدیوں تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والے اس خاندان اور سلطنت کا آغاز تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں عثمانی روایات کے علاوہ اس دور کی دو ٹھوس نشانیاں (ایک سکہ اور بازنطینی سلطنت کے مؤرخ کی ایک تحریر) اور عثمان کے ایک خواب کا ذکر ملتا ہے جس کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔ جو بات طے ہے وہ یہ کہ عثمان کا تعلق آج کے ترکی میں اناطولیہ کے علاقے میں آباد ترک خانہ بدوش قبیلے سے تھا اور اس کی حکومت اناطولیہ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں سے ایک تھی جن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عثمان یا پھر ان کے والد نے ایسا کیا کیا کہ صرف اسی خاندان کا راج قبیلے سے چھوٹی ریاست اور پھر اناطولیہ کی بڑی سلطنت بننے سے تین بر اعظموں میں پھیلا اور پھر خلافت میں تبدیل ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد 14 ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی اور یہ 20 ویں صدی میں ختم ہوئی۔ اس دوران ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 37 سلطان اس کی مسند پر بیٹھے۔ ایک مؤرخ کے مطابق کسی خاندان کا مسلسل اتنی دیر حکومت کرنا معجزے سے کم نہیں ہے۔ مؤرخ کیرولائن فنکل اپنی کتاب ’عثمان کا خواب: سلطنت عثمانیہ کی کہانی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’عثمانیوں کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان کی اناطولیہ (وہ علاقہ جو کسی حد تک آج کے ترکی کی حدود سے مطابقت رکھتا ہے) میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ دو صدیوں پر پھیلی ہوئی لڑائی انتہائی سخت تھی۔‘ ارطغرل کے بارے میں عثمانی روایت مؤرخ سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب ’سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی‘ میں اسی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’سلطنت عثمانیہ کی شروعات تاریخ کے طالب علموں کے لیے ہمیشہ سے اہم سوال رہا ہے لیکن اس دور کے ذرائع کی کمی اور بعد کے ادوار میں لکھی گئی روایات میں تضاد کی وجہ سے پورے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔‘ انھوں نے اسی مشہور روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ عثمانیوں کا جد امجد سلمان شاہ تھے جو قائی قبیلے کے سردار تھے اور 12 ویں صدی کے آخر میں شمالی ایران کے ایک علاقے میں آباد رہے۔ روایت کے مطابق منگول حملوں کے پیش نظر دیگر بہت سے ترک قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی غلامی اور تباہی سے بچنے کے لیے نئے علاقوں کی طرف روانہ ہوا اور جے شا کے مطابق خیال ہے کہ سلمان شاہ شام میں داخل ہوتے ہوئے دریائے فرات میں ڈوب گئے اور اس کے بعد ان کے دو بیٹے واپس چلے گئے۔ جبکہ ارطغرل نے مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور اناطولیہ کے علاقے میں داخل ہوگئے جہاں سلجوق حکمرانوں نے ان کی مدد کے بدلے انھیں اناطولیہ کے مغربی علاقے میں زمین دے دی۔ جے شاہ کی کتاب میں درج اس روایت کے مطابق ارطغرل 1280 میں چل بسے اور قبیلے کی قیادت ان کے بیٹے عثمان کو مل گئی۔ فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل نامی ایک قبائلی سردار شمال مغربی اناطولیہ میں آ کر سلجوق اور بازنطینی سلطنتوں کے بیچ کے علاقے میں آباد ہوا اور اس روایت کے مطابق سلجوق سلطان نے ارطغرل کو سوگت میں کچھ علاقہ عطا کیا تھا۔ لیکن ارطغرل کا عثمان سے کیا تعلق تھا؟ نامعلوم تاریخ والا سکہ فنکل لکھتی ہیں کہ عثمان کے دور سے ملنے والا واحد سکہ اگر اصلی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ارطغرل یقیناً تاریخی شخصیت تھے۔ اس سکے پر درج ہے ’جاری کردہ برائے عثمان ولد ارطغرل‘ درج ہے۔ فنکل مزید لکھتی ہیں کہ عثمان کا اپنے نام پر سکہ جاری کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ اس وقت صرف ایک قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ اناطولیہ میں اپنے آپ کو سلجوق منگول سلطنت کے سائے سے باہر ایک خود مختار امیر سمجھنا شروع ہو چکے تھے۔ تاریخ میں عثمانیوں کا پہلا ذکر فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانیوں کا پہلی بار ذکر سنہ 1300 کے قریب ملتا ہے۔ اس وقت کے ایک بازنطینی مؤرخ نے لکھا کہ سنہ 1301 میں بازنطینی فوج کا سامنا عثمان نامی ایک شخص کی فوج سے ہوا۔ ’جنگ بافیوس‘ کہلانے والی یہ لڑائی قسطنطنیہ (استنبول) کے قریب لڑی گئی تھی اور اس میں بازنطینی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔ لیکن عثمانیوں کا بازنطینی سلطنت کی برابری کرنے میں ابھی بہت وقت تھا۔ اور جب ایسا ہوا تو اس کے ساتھ ہی ایک خاندان کا اچانک گمنامی سے نکل کر اتنا آگے آنے کے بارے میں کئی کہانیوں نے بھی جنم لیا۔ مؤرخ کہتے ہیں کہ عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کا علاقہ قسطنطنیہ کے قریب تھا جس سے کبھی بھی کامیابی کی صورت میں بڑا انعام یقینی تھا۔ عثمان کا خواب مؤرخُ لیسلی پی پیرس نے اپنی کتاب ’دی امپیریل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی اِن دی اوٹومن ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے آغاز کے بارے میں سب سے زیادہ سنی جانے والی روایت کے مطابق عثمان نے اپنی ابتدائی کامیابیوں کے بعد ایک خواب دیکھا تھا۔ اس خواب میں انھوں نے دیکھا کہ ایک درویش شیخ ادیبالی کے سینے سے چاند نمودار ہوتا ہے اور اس کے اپنے سینے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پیٹ سے ایک بہت بڑا درخت نکلتا ہے جس کا سایہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے۔ اس درخت کی شاخوں کے نیچے چشمے بہتے ہیں جن سے لوگ پانی پیتے

سلطنت عثمانیہ: ارطغرل کون تھے؟ Read More »

Usman Rafiq

ہر روز ایک نیا بزنس: پاکستانی یوٹیوبر جو نوجوانوں کو محنت طلب کاروبار کے گُر سکھاتے ہیں

ٹین ڈبہ بیچ، ردی اخبار بیچ، روٹی چھان بورا بیچ۔۔۔ گلی محلوں میں پھیری والوں کی جانب سے بلند ہونے والی یہ صدا یقیناً تمام پاکستانیوں سے سُن رکھی ہو گی۔ کباڑ اکٹھا کرنے والے ریڑھی بان عموماً اسی آواز اور انداز میں اپنا بزنس چلاتے ہیں لیکن کیا کبھی یہ خیال آپ کے ذہن میں آیا کہ آپ یہ کام کرتے ہوئے بھی اچھے پیسے کما سکتے ہیں؟ اگرچہ کباڑ خریدنے والوں کی یہ مخصوص آوازیں لگ بھگ روزانہ میرے کانوں میں پڑتی ہیں مگر کبھی بھی میرے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ بزنس آخر ہے کیا، لیکن لاہور میں رہنے والے 17 سالہ عثمان رفیق یہی نہیں بلکہ ایسے ہی کئی دیگر کاموں کو بغیر کسی عذر کے انجام بھی دے رہے ہیں اور اُن کے مطابق اس سے پیسے بھی کماتے ہیں۔ ناصرف یہ بلکہ وہ اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کو نئے کاروبار کرنے کے طریقے انتہائی پریکٹیکل انداز میں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب اخراجات زندگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں شدید مہنگائی کے باعث اکثر افراد کا جینا دو بھر ہے وہیں عثمان محنت مزدوری کے ذریعے پیسے کمانے کو عام کرنے اور اس کام میں شرم محسوس نہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مشکل مالی صورتحال سے نکلنے کی ترکیب شاید ہر کسی کے پاس ’کاروبار‘ ہوتی ہے لیکن پیسا کہاں لگایا جائے، اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے اکثر افراد ہمت ہی ہار دیتے ہیں۔ عثمان اس بارے میں صارفین کے سامنے کسی بھی کاروبار کی اصلی تصویر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عثمان رفیق اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینل پر ایسے ہی لوگوں کو ’ہر روز نیا کاروبار‘ کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کس کس کاروبار میں پیسے لگا کر اپنا روزگار چلا سکتے ہیں۔ مگر عثمان یہ سب کیسے کر رہیں ہیں اور اُن کو یہ خیال کیسے آیا اُس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ اُنھوں نے وی لاگنگ کب شروع کی تھی؟ ہر روز نیا بزنس کرنے کا خیال کیسے آیا؟ عثمان اس وقت سترہ سال کے ہیں لیکن آج سے چار سال قبل اُنھوں نے یوٹیوب کے ذریعے وی لاگنگ یعنی ویڈیوز بنانے کا کام شروع کیا تھا۔ ان کے کام کو عوام کی جانب سے خوب پسند کیا گیا اور اس کی بنیادی وجہ ان کے مطابق اُن کے چینل کا نام اور زندگی گزارنے کا انداز تھا۔ عثمان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور اس لیے اُنھوں نے یوٹیوب پر اپنے چینل کا نام بھی ’مڈل کلاس عثمان‘ رکھا ہے جو دیکھنے والوں کے لیے اپنائیت کا احساس پیدا کرنے کے لیے اہم تھا۔ چار سال پہلے شروع ہونے والا یہ سفر اب عثمان کو انسٹاگرام پر ایک انفلوئینسر بنا چکا ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے جب وی لاگنگ شروع کی تھی تو میرے پاس ایک مائیک خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔‘ ’مگر اب تو میرے پاس تمام ضروری آلات، لائٹس اور اچھے کیمروں والے فون موجود ہیں۔ میں نے اپنے پیسوں سے چھوٹی گاڑی خریدی ہے اور اپنے سارے خرچے بھی خود ہی پورے کرتا ہوں۔‘ عثمان کے والد گذشتہ 12 سال سے چپس اور سموسے پیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ عثمان بھی اپنے دن کا آغاز اپنے والد کی دکان پر چیزیں فراہم کرنے سے کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں منڈی جا کر اُلو، پیاز اور دیگر چیزیں خرید کر لاتا ہوں، اور پھر چیزیں تیار کروا کے پڑھنے چلا جاتا ہوں اس کے بعد میں کچھ گھنٹے پڑھ کر ویڈیوز بنانا شروع کر دیتا ہوں۔‘ پاکستان میں ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں جو ایک کامیاب وی لاگر بننا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ ایک عرصے سے محنت کر رہے ہیں مگر عثمان نے صرف چار سال میں ہی ایسی کامیابی حاصل کر لی ہے کہ پاکستان کے کئی مشہور وی لاگرز اُن کے ساتھ مل کر ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ ان کی کامیانی کی وجہ ان کا مواد ہے، جسے دیکھ کر لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو وہ خود بھی کر سکتے ہیں۔ اگر عثمان کی جانب سے بنائے گئے مواد کی بات کریں تو انھوں نے کچھ عرصے پہلے انسٹاگرام ریلز کے ذریعے ویڈیوز بنانی شروع کیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں روزانہ دیکھتا تھا کہ لوگ نوکری تلاش کر رہے ہیں، کبھی کوئی نیا بزنس شروع کرنے کا سوچ رہا ہے، مگر کسی بڑے بزنس میں پیسے لگانے سے ہر کوئی ڈر رہا تھا، پھر میں نے سوچا کیوں نہ ایسے لوگوں کو میں خود روزانہ ایک نیا بزنس کر کے آئیڈیا دوں۔‘ عثمان نے جب یہ کام شروع کیا تو انھیں احساس ہوا کہ ’اکثر افراد ٹھیلوں پر چیزیں بیچنے میں ہچکچاٹ محسوس کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے پاکستان جیسے معاشرے میں احساس شرمندگی جڑا ہو۔‘ عثمان کہتے ہیں کہ ’میں روز مرہ کی جو بھی اشیا بیچ رہا ہوتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ لوگ اس طرح محنت کرنے میں کتراتے ہیں، مگر میں لوگوں کو یہی بتانا چاپتا ہوں کہ محنت کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے، اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ کام بڑا ہے یا چھوٹا۔‘ عثمان کے مطابق وہ ایک مہینے میں اپنے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا سے مجموعی طور پر ایک سے دو لاکھ روپے کما لیتے ہیں۔ اچھا بزنس مین بننے کا خواب کیلے لے لو، ٹماٹر لے لو، جوتے پالش کروا لو۔۔۔ اس طرح کے بے شمار آوازیں آپ کو عثمان کے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز پر سننے کو ملیں گی۔ گھر میں استعمال ہونے والی کوئی عام سی چیز بیچنے سے لے کر کباڑ اکٹھا کرنے کے کام تک عثمان نے ہر قسم کا کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں ہر روز نئے نئے کاروبار کرتا ہوں، اُس کے لیے میں ایک دو دن پہلے سے ہی پلان بنا لیتا ہوں کہ میں نہ کیا کاروبار کرنا ہے اور اس میں ایک دن میں کتنا پیسا لگانا ہے۔‘ ’پھر میں صبح کام شروع کرتا ہوں اور

ہر روز ایک نیا بزنس: پاکستانی یوٹیوبر جو نوجوانوں کو محنت طلب کاروبار کے گُر سکھاتے ہیں Read More »

ختلون: منگول شہزادی جس نے رشتے کے طلبگاروں کو کشتی میں ہرانے کا چیلنج دیکر ہزاروں گھوڑے جیتے

’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بادشاہ کیدو کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ’ایگیارنے‘ تھا، جس کا تاتاری زبان میں مطلب ’روشن چاند‘ ہے۔ یہ لڑکی بہت خوبصورت تھی، اور سونے پر سہاگا یہ کہ اتنی مضبوط اور بہادر بھی تھی کہ اس کے والد کی پوری سلطنت میں کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جو طاقت کے کارناموں میں اس سے آگے نکل سکے۔‘ یہ وہ الفاظ ہیں جن میں اطالوی تاجر، مہم جو اور مصنف مارکو پولو نے اپنی کتاب ’بک آف ونڈرز‘ میں ایک ایسی شہزادی کی کہانی سنانی شروع کی جو دنیا کے سب سے طاقتور خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے ’ختلون‘ کہا جاتا تھا، حالانکہ وہ کئی دوسرے ناموں سے بھی جانی جاتی تھی، جن میں سے ایک ایگیارنے بھی تھا جو مارکو پولو نے استعمال کیا۔ 13 ویں صدی میں منگول سلطنت یورپ میں ہنگری کی سرحدوں سے لے کر مشرقی بحیرہ چین تک پھیلی ہوئی تھی اور اس پر چنگیز خان کے جانشینوں کی حکومت تھی۔ ختلون چنگیز خان کی چوتھی نسل سے تھیں اور اوگودے کی پڑپوتی تھی، جنھیں چنگیز نے خود اپنا جانشین مقرر کیا تھا، اس لیے ان کے والد سب سے طاقتور منگول خانوں (اعلیٰ حکمران) میں سے ایک تھے۔ لیکن ان کے نسب سے بڑھ کر، یہ ان کی غیر معمولی شخصیت تھی جس نے مارکو پولو کو موہ لیا، نہ صرف اس وجہ سے کہ وہ چند بہترین جنگجوؤں میں سے ایک تھیں بلکہ اس لیے کہ انھوں نے اس وقت تک شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا ’جب تک کہ انھیں کوئی ایسا مہربان آدمی نہ ملے جو انھیں شکست دے دے۔‘ یہ کوئی آسان بات نہیں تھی کیونکہ، تمام منگول مردوں اور عورتوں کی طرح، وہ ایک ماہر تیر انداز اور بہترین گھڑسوار ہونے کے علاوہ منگولیا کی فری سٹائل کشتی، بوک کی ایک عظیم جنگجو تھیں جس میں زمین کو چھونے والا پہلا شخص ہار جاتا ہے۔ یہ کسی بھی دعویدار کے لیے کھلا چیلنج تھا کہ اگر وہ انھیں ہرا دیتا ہے تو وہ اس سے شادی کر لیں گی لیکن اگر وہ ہار گیا تو اسے 100 گھوڑے دینے پڑیں گے۔ یہ بات تمام مملکتوں میں پھیل گئی اور اتنے نوجوانوں نے چیلنج قبول کیا کہ ناقابل شکست ختلون کے پاس 10,000 گھوڑے جمع ہو گئے۔ مارکو پولو کے مطابق، ایک شہزادے نے 100 کے بجائے ایک ہزار گھوڑوں کی شرط لگائی، کیونکہ ’وہ جانتا تھا کہ وہ کیا جیتنا چاہتا ہے۔‘ ن کا کہنا ہے کہ ’کیدو بہت خوش تھے ’کیونکہ وہ ایک خوبصورت نوجوان اور ایک عظیم بادشاہ کا بیٹا تھا‘ اس لیے انھوں نے اپنی بیٹی سے منت کی کہ اسے جیتنے دیں۔‘ ختلون نے یقیناً انکار کر دیا اور ایسے شائقین کے گھیرے میں لڑنے گئیں جو سب چاہتے تھے کہ وہ ہار جائیں ’تاکہ اتنا خوبصورت جوڑا ایک ساتھ ہو سکے۔‘ ’ختلون اور نوجوان لڑنے کے لیے آئے اور انھوں نے ایک دوسرے کو اپنی بانہوں میں لے کر بہت خوبصورت آغاز کیا، لیکن اس نوجوان کو مقابلہ ہارنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔‘ جلد ہی ختلون کو 1000 گھوڑے مل گئے اور نوجوان شہزادہ شرمندہ ہو کر اپنے ملک چلا گیا۔ اگرچہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے، یہ کوئی دیو مالائی کہانی نہیں ہے نہ ہی یہ کسی افسانے کا پلاٹ ہے، حالانکہ تاریخی اعتبار سے مارکو پولو کو بہت زیادہ قابل اعتماد ذریعہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مقبول کتاب بہت سے لوگوں کے لیے، شروع میں، ایک افسانہ تھی، جزوی طور پر اس لیے کہ اس میں منگولوں کو اس طرح بیان نہیں کیا گیا جیسا کہ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے یعنی بے رحم، خونخوار عفریت جو پوری دنیا کو کھا جانا چاہتے تھے بلکہ اس کتاب میں یہ قابل تعریف اور مہذب انسان تھے۔ لیکن اگرچہ مارکو پولو کی یادداشتیں کبھی کبھی جھوٹ لگتیں ہیں، وہ جھوٹے نہیں تھے۔ تاہم ان کی تحریریں ان کے تجربے کا ایک رومانوی ورژن ہیں۔ اور ختلون کی پروفائل اگرچہ افسانوں سے بھری ہوئی ہے، لیکن اس کی بنیاد تاریخی تحریروں پر ہے، خاص طور پر راشد الدین ہمدانی کی تحریروں پر، جنھوں نے انھیں اپنی کتاب ’جامع التواریج‘ میں جگہ دی، جو 14 ویں صدی میں منگول سلطنت کے بارے میں ایک منفرد ماخذ تھا۔ تاہم ان میں ایسی تفصیلات موجود ہیں جو میل نہیں کھاتی ہیں۔ بنیادی ذرائع کی کمی کی وجہ سے، باہر کے لوگ منگولوں کے بارے میں لکھتے تھے جن میں سے اکثر ان کے دشمن ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا ختلون کی کہانی آدھی افسانوں اور آدھی امکانات پرمبنی ہے، لیکن اس کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ م جانتے ہیں کہ وہ کیدو کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ایک سیاسی مشیر، عدالت میں، اور حکمت عملی کے طور پر، جنگ میں وہ ان کی پسندیدہ تھیں حالانکہ ان کے 14 بڑے بھائی تھے۔ بادشاہ انھیں بہت سی لڑائیوں میں لے گئے جو انھوں نے لڑیں، خاص طور پر اپنے رشتہ دار قبلائی خان کے خلاف، جو یوآن خاندان کے پہلے شہنشاہ تھے۔ مارکو پولو کہتے ہیں ’کبھی کبھی وہ دشمن کی فوج کی طرف بڑھتیں، وہاں ایک آدمی کو پکڑتیں، اور اسے اپنے باپ کے پاس لے جاتیں، جیسے عقاب کسی پرندے پر جھپٹتا ہے۔ ‘ ان کے جسم کے بارے میں مارکو پولو نے یہ لکھا کہ وہ ’اتنی لمبی اور مضبوط تھی کہ اسے تقریباً ایک دیو ہی سمجھا جا سکتا تھا۔‘ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آخر کار وہ شادی کرنے پر راضی ہو گئیں، ہارے بغیر ہی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد کے دشمنوں نے یہ افواہیں پھیلائی تھیں کہ ان کے اور ان کے والد کے درمیان ناجائز تعلق ہے اور انھوں نے ان کی تردید کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان کا شوہر کون تھا۔ راشد بتاتے ہیں کہ ختلون کو غازان سے محبت تھی، جو 1295 میں فارس کے خان بن گئے، لیکن ان دونوں نے شادی نہیں کی۔ کچھ تاریخی حوالوں میں کہا گیا ہے کہ ’یہ خوش قسمت آدمی ایک خوبصورت قاتل تھا جسے قبلائی نے اپنے

ختلون: منگول شہزادی جس نے رشتے کے طلبگاروں کو کشتی میں ہرانے کا چیلنج دیکر ہزاروں گھوڑے جیتے Read More »

ELENA ZAKHARENKA

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسکا اعتراف جرم

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسے اعتراف جرم کے باوجود بری کر دیا گیا یوری گاروسکی نے بیلاروس میں ایک ’ہٹ سکواڈ‘ کا حصہ ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ یہ وہ سکواڈ تھا جس نے ملک کی اپوزیشن کے اہم رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا تھا لیکن اس اعتراف کے باوجود انھیں سزا نہیں ہوئی اور عدالت نے انھیں بری کر دیا۔ گذشتہ ہفتے سوئٹزرلینڈ میں مقدمے کی سماعت کے دوران سپیشل فورسز کے اس سابق فوجی نے سنہ 1999 میں تین افراد کے اغوا اور قتل کے بارے میں تفصیلی بیان دیا۔ تاہم انھوں نے ان افراد کے قتل کا حکم دینے کے الزام کی تردید کی ہے۔ جب وہ اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو عدالت میں ان سے کچھ فاصلے پر پیچھے قتل ہونے والے سیاستدانوں کی بیٹیاں بیٹھ کر یہ کارروائی خود سن اور دیکھ رہی تھیں۔ ان سیاستدانوں کی بیٹیوں نے اپنے سر سے شفقت کا سایہ چھیننے والوں کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے 24 برس جدوجہد کی۔ تاہم جمعرات کو عدالت نے تمام کارروائی کے بعد یوری گاروسکی کو بری کر دیا۔ حیرت انگیز فیصلے میں جج نے کہا کہ اعترافی بیان دینے والے بیلاروسی ملزم کے مختلف بیانات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ان جبری گمشدگیوں اور قتل کے پیچھے بیلا روسی حکام کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔ تاہم جج کے مطابق عدالت کو شک سے بالاتر ثبوتوں کے ساتھ اس بات پر مطمئن نہیں کیا جا سکا کہ یوری گاروسکی اس مقدمے میں مجرم ہیں۔ والیریا کراسوسکایا، جن کے والد اناتولی لاپتہ افراد میں سے ایک ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ فیصلہ ’انتہائی مضیحکہ خیز‘ اور عقل کے منافی ہے۔ اعتراف جرم اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب سنہ 2019 میں اس سابق فوجی نے خود صحافیوں سے رابطہ کر کے انکشاف کیا کہ وہ ملک کے سابق وزیرداخلہ یوری زیخارینکو، حـزب اختلاف کے رہنما وکٹر گونچر اور معروف بزنس مین ایناتولے کراسووسکی کے اغوا میں ملوث ہے۔ اس وقت یوری گاروسکی سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ لینے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ حکام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ سچ بتا رہے ہیں۔ انھیں شاید یہ امید تھی کہ تشہیر سے انھیں کچھ تحفظ بھی مل سکے گا کیونکہ ایک برس قبل وہ بیلاروس میں ایک کار حادثے کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد وہ دو ہفتے تک کوما میں رہے تھے۔ ابھی بھی وہ ایک چھڑی کے سہارے چلتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ حادثہ انھیں جان سے مارنے کی کوشش تھی۔ اس مقدمے سے جڑے ہوئے کرداروں کے لیے یوری گاروسکی کی کہانی سچ کے قریب تھی۔ دو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بیلا روسی اشخاص کی بیٹیوں نے سوئس وکلا کے کے ذریعے اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت ٹرائل شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ یوری کو قید کرنے کے بعد ان سے تحقیقات کی گئیں اور پھر ان پر فرد جرم عائد کیا گیا۔ لاپتہ باپ والیریا کراسوسکایا کو آج بھی یاد ہے کہ وہ 24 سال پہلے آدھی رات کو جاگ رہی تھیں کہ ان کی ماں نے پولیس، ہسپتالوں اور شہر کے مردہ خانے کو فون کیا کیونکہ ان کے شوہر واپس گھر نہیں آئے تھے۔ اناتولی، الیگزینڈر لوکاشینکو کے ناقد وکٹر گونچار کے ساتھ ’منسک‘ شہر کے ایک حمام میں گئے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب الیگزینڈر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے۔ اگلی صبح والیریا کی ماں کو جائے وقوعہ پر خون کے دھبے اور ٹوٹا ہوا شیشہ ملا۔ ان کے شوہر اپنے دوست سمیت غائب ہو چکے تھے۔ گھر والوں کو اناتولی کراسوسکی کی لاش کبھی نہ مل سکی۔ ’آپ نہیں جانتے، کیا وہ زندہ ہیں یا نہیں؟ اور اگر وہ مر گئے ہیں تو پھر کیسے اور اب ان کی لاش کہاں ہے‘؟ والیریا کے ان سوالات سے متاثرہ خاندانوں کے کرب کا اندازہ ہوتا ہے۔ والیریا کے مطابق ’آپ یہ باب بند نہیں کر سکتے، اس لیے آپ اس کے ساتھ جینا سیکھ لیں۔ لیکن یہ بہت مشکل ہے۔‘ والیریا سوئٹزرلینڈ کی عدالت میں یوری گاروسکی کو سننے گئی تھیں کہ کس طرح ان کی سپیشل فورسز یونٹ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ وکٹر گونچار کے ساتھ ان کے والد کو حراست میں لے کر انھیں شہر سے باہر لے جائیں۔ اپنے پہلے بیان کے برعکس سابق فوجی یوری گاروسکی نے عدالتی کارروائی کے دوران متعدد بار اپنی صفائی میں یہ کہا کہ انھوں نے گولی نہیں چلائی اور نہ ہی گاڑی سے بندوق نکالی تھی۔ قید کی صعوبت دیکھ کر اب وہ اس سارے مقدمے میں اپنے کردار کو کم سے کم کر رہے تھے۔ لیکن انھوں نے اغوا اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ ان کے مطابق انھوں نے وکٹر گونچار کا منھ زمین پر پٹخ دیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ’منسک‘ کی سرحد پر دو افراد کو پیٹھ میں گولی ماری گئی تھی۔ یوری گاروسکی نے کہا کہ انھوں نے لاشوں کو ایک گڑھے میں دفن کرنے میں مدد کی، جو پہلے سے کھودا گیا تھا۔ اس کے بعد ان کے کپڑے جلا دیے گئے تھے۔ اس کا انداز سفاکانہ تھا۔ والیریا نے یہ سب غور سے سنا، ہر نکتے کو وہ لکھ رہی تھیں۔ ایک دوست انھیں تسلی بھی دے رہے تھے۔ انھوں نے اس عدالتی سماعت سے قبل مجھے بتایا کہ ’اگرچہ میں بالکل نارمل اور خوشگوار زندگی گزار رہی ہوں، پھر بھی مجھے اپنے والد کی گمشدگی کا خیال جھنجھوڑتا ہے۔ ’جب بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ عام بات ہے۔ لیکن میں ہلکا محسوس کرنا چاہتی ہوں‘۔ ’انھوں نے کہا کھانا لگا دیں، بس میں گھر پہنچ ہی گیا ہوں‘ ایلینا زخارینکا کے لیے یہ پہلا موقع نہیں تھا جب انھوں نے چونکا دینے والا بیان سنا ہو۔ جن صحافیوں سے یوری گاروسکی نے پہلی بار خود اپنی کہانی سنانے کے لیے رابطہ

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسکا اعتراف جرم Read More »

نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی برطانیہ مقیم پاکستانی

نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی۔۔۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد شہریوں میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ کیا؟ برطانیہ کی ہاؤس آف کومنز ریسرچ لائبریری کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں رہنے والی تمام نسلی اکائیوں میں پاکستانی نژاد افراد کی بے روزگاری کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ برطانیہ میں اکتوبر سے دسمبر سنہ 2022 میں بے روزگاری کی شرح 3.8 فیصد تھی جس میں سفید فام آبادی کی شرح 3.1 فیصد جبکہ باقی سب نسلی اقلیتوں کی شرح 7.5 فیصد تھی لیکن جو بات سب سے زیادہ حیرت کی تھی وہ پاکستانی نژاد آبادی کی شرح تھی جو کہ 8.7 ہے۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سب سے زیادہ بے روزگاروں کی تعداد نو جوانوں اور خواتین کی تھی۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد لوگ ملک کی دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ ان کی پہلی آمد دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوئی جب تباہ شدہ برطانیہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا اور لیبر کی بے پناہ ضرورت تھی۔ اس کے بعد مسلسل پاکستانیوں کی بڑی تعداد برطانیہ کو اپنا گھر بناتی رہی ہے۔ برطانیہ کی حکومت ملک کی ترقی اور تعمیر میں پاکستانی کمیونٹی کی خدمات کا اعتراف بھی کرتی ہے لیکن بیشتر پاکستانی ثقافتی اور روایتی وجوہات کی بنا پر اپنے مخصوص علاقوں میں، اپنے ہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم پاکستانی تو ایک دوسرے کو ہی سپورٹ نہیں کرتے‘   رپورٹ میں چھپنے والے اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ میں سولہ سے چوبیس برس کے تقریباً چودہ لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں، یعنی بیس فیصد پاکستانی نژاد نوجوان بے روزگار ہیں جو سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈین اور چینی نژاد نوجوان، ملازمتوں میں دوسری اقلیتوں سے بہت آگے ہیں۔ خواتین میں بے روزگاری کا تناسب پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد خواتین میں سب سے زیادہ ہے اور ان میں یہ شرح تقریباً گیارہ فیصد ہے۔ بی بی سی اردو نے مشرقی لندن کے مصروف علاقے الفورڈ میں پاکلستانی نژاد شہریوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ کیوں پاکستانی نژاد برطانوی شہری بے روزگاری کی شرح میں دوسری برادریوں سے اتنے پیچھے ہیں۔ ایک شہری نے کہا کہ شاید اس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ ’جب وہ اس ملک میں آتے ہیں تو شاید اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور یہاں رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔‘ ایک اور شہری نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ پاکستانی اپنی خواتین کو نوکری کرنے کے لیے اتنا سپورٹ نہیں کرتے جتنی دوسری برادریاں کرتی ہیں۔ ایک پاکستانی نژاد شہری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’ہم تو ایک دوسرے کو ہی سپورٹ نہیں کرتے۔‘ ایک خاتون نے کہا کہ جب پاکستانی کسی ملازمت کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو انھیں اگر انٹرویو کی کال آ بھی جائے تو وہ انٹرویو میں اچھی طرح انگریزی نہیں بول سکتے۔ دردانہ انصاری نے بھی اس بات پھر زور دیا کہ جہاں حکومت اس پر بات کر رہی ہے کہ بے روزگاری ہے تو اسے یہ بھی چاہیے کہ وہ مسئلے کو صحیح طرح سمجھے اور اسے حل کرے لیکن اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔‘ وجہ نسلی امتیاز یا کم قابلیت؟ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے کام کرنے والی کارکن اور برطانوی رائل نیوی میں پہلی مسلمان اور پاکستانی اعزازی کیپٹن دردانہ انصاری نے اپنے تجربے کی روشنی میں پاکستانی برطانویوں کی بے روزگاری کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم مین سٹریم میں شامل ہونے سے جھجکتے ہیں۔ ’ہم اپنے دائروں میں رہتے ہیں۔ دوسرا ماں باپ بھی بچے کو نئی راہیں ڈھونڈنے سے روکتے ہیں۔‘ انھوں نے مثال دی کہ جب بھی میں کہوں کہ بچے مسلح افواج جانے کی کوشش کریں تو ماں باپ اکثر کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ’اس طرح بچہ مین سٹریم سے دور ہی رہتا ہے اور جہاں دنیا میں انتہائی مقابلہ ہے تو وہاں ہم مقابلے سے ہی دور ہو جاتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ آپ کو زیادہ تر پاکستانی بچے ٹیکسی چلاتے ہوئے ملیں گے، خصوصاً ملک کے شمالی شہروں میں۔ ’اگرچہ ٹیکسی چلانا کوئی برا کام نہیں لیکن بہت سوں کی سوچ ’کوئک منی‘ یا تیزی سے آنے والے پیسے کی طرف ہوتی ہے۔ اس لیے وہ تعلیم حاصل کر کے بھی اسی طرف دوڑتے ہیں۔‘ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانوی حکومت کی اپنی ہی دیگر رپورٹس کے مطابق نسلی اقلیتوں کو روزگار کے حصول میں نسلی امتیاز کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ ایک سفید فام کو جس درخواست اور سی وی پر نوکری مل سکتی ہے، ضروری نہیں کہ ایک پاکستانی نژاد شخص کو بھی ملے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سب کے لیے برابر مواقعوں کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی برطانیہ مقیم پاکستانی Read More »

Operation Wrath of God

آپریشن فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘

آپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیا رواں سال 18 جون کو خالصتان کے حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ملک کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں اس قتل کے پیچھے انڈین ایجنسیوں کے ہاتھ ہونے کا امکان ظاہر کیا تاہم انڈیا نے نہ صرف ایسے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا بلکہ اس قتل میں کسی بھی کردار سے انکار کیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی ملک نے دوسرے کسی ملک پر انٹیلیجنس آپریشنز کا الزام لگایا گیا ہو۔ ماضی میں انڈیا اور پاکستان کئی بار ایک دوسرے پر انٹیلیجنس مشن کے تحت مختلف سرگرمیاں کرنے کا الزام بھی لگا چکے ہیں تو آئیے خفیہ ایجنسی  کے دو  خطرناک مشنز کے بارے میں بات کرتے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں کیے گئے۔ 1960: ’آپریشن فائنل‘ سنہ 1957 میں مغربی جرمنی کی ریاست ہیسے کے چیف پراسیکیوٹر فرٹز باؤر نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے رابطہ کر کے اطلاع دی کہ ایڈولف ایکمان زندہ ہیں اور ارجنٹائن میں واقع ایک خفیہ اڈے میں مقیم ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل ایڈولف ایکمان ایک طویل عرصے تک ہٹلر کی بدنامِ زمانہ ریاستی خفیہ پولیس ’گسٹاپو‘ میں ’جیوئش ڈیپارٹمنٹ‘ کے سربراہ رہے۔ ان کے دور میں ’فائنل سلوشن‘ (یعنی آخری حل) کے نام سے یہودیوں پر ظلم پر مبنی ایک انتہائی خطرناک پروگرام شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت جرمنی اور دیگر ہمسایہ ممالک میں مقیم ہزاروں یہودی شہریوں کو ان کے گھروں سے حراستی کیمپوں میں لے جا کر قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سنہ 1933 اور سنہ 1945 کے درمیان نازی جرمن حکومت اور ان کے حامیوں کی طرف سے ہولوکاسٹ کے تحت تقریبا 40 لاکھ سے زائد یورپی یہودیوں پر ریاستی سرپرستی میں منظم طور پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوا اور انھیں قتل کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست کے بعد ایڈولف ایکمان کو تین بار پکڑنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ ہر بار گرفتاری سے بال بال بچ نکلتے۔ فریٹز بوور کو ارجنٹینا میں ایڈولف ایکمان مین کے قیام کی خبر وہاں رہنے والے ایک مقامی یہودی سے ملی جن کی بیٹی اور ایڈولف کے بیٹے کے درمیان افیئر چل رہا تھا۔ ابتدا میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ان معلومات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا لیکن بعد میں جب انھوں نے اس کی اپنے طریقے سے چھان بین کی تو انھیں اس کی حقیقت پر یقین آ گیا۔ چارلس ریورس اپنی کتاب ’دی کیپچر اینڈ ٹرائل آف ایڈولف ایکمن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایڈولف ایکمان بھلے ہی لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے کے افسر رہے ہوں تاہم نازی دور میں ان کا رتبہ کسی جنرل سے کم نہ تھا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے وہ ہٹلر کی سب سے قریبی ساتھیوں کو براہ راست رپورٹ کیا کرتے تھے۔‘ ارجنٹائن میں ایکمان کے روپوش ہونے کی خبر کی تصدیق ہونے کے بعد اسرائیل کے موساد کے سربراہ نے رفیع ایتان کو اس مشن کا کمانڈر مقرر کیا اور انھیں احکامات جاری کیے گئے کہ ایجنٹ انھیں زندہ پکڑ کر اسرائیل واپس لانے کی کوشش کریں گے۔ موساد کی ٹیم نے بیونس آئرس میں ایک گھر کرائے پر لیا، جسے خفیہ رکھنے کے لیے ’کیسل‘ کا نام دیا گیا۔ اسی دوران یہ بات سامنے آئی کہ ارجنٹائن 20 مئی کو اپنی آزادی کی 150 ویں سالگرہ منائے گا۔ اس خبر کے سامنے آنے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسرائیل بھی وزیر تعلیم عبا ابن کی قیادت میں ایک وفد ارجنٹینا بھیجے گا۔ انھیں وہاں لے جانے کے لیے اسرائیل کی ایئرلائن نے اپنے خصوصی طیارے ’وسپرنگ جائنٹ‘ کا انتظام کیا۔ اس حوالے سے ایک منصوبہ تیار کیا گیا جس میں طے پایا کہ اسرائیلی وزیر تعلیم کے علم میں لائے بغیر ایکمان کو اغوا کر کے اس طیارے میں واپس اسرائیل لایا جائے۔ ایکمان ہر شام تقریباً سات بج کر 40 منٹ پر بس نمبر 203 کے ذریعے گھر واپس آتے اور پھر اپنے گھر پہنچنے کے لیے تھوڑا فاصلہ پیدل طے کیا کرتے تھے۔ اس معمول کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بنایا گیا کہ اس آپریشن میں دو کاریں حصہ لیں گی اور انھیں ایک کار میں اغوا کر لیا جائے گا۔ ایکمان کو بس سے اترتے ہی اغوا کر لیا گیا۔ 20 مئی کی رات ایکمان کو اسرائیلی ایئرلائن کے کارکن کا لباس پہنایا گیا تھا۔ زیف ذکرونی کے نام سے ایک جعلی شناختی کارڈ ان کی جیب میں رکھا گیا اور اگلے دن ان کا طیارہ تل ابیب میں اُترا۔ یہ خبر ان کے اسرائیل پہنچنے کے دو دن بعد دنیا کے سامنے رکھی گئی۔ کئی ماہ تک چلنے والے مقدمے میں 15 کیسز میں قصوروار پائے جانے کے بعد انھیں بلآخر موت کی سزا سنائی گئی۔ آپریشن ’رتھ آف گاڈ‘ سال 1972 کا تھا اور جرمنی میں میونخ اولمپکس کھیلوں کے مقابلے جاری تھے۔ پانچ ستمبر کی رات کو میونخ اولمپک ویلیج میں اسرائیلی کھلاڑی اپنے فلیٹ میں سو رہے تھے کہ اچانک پوری عمارت مشین گنوں کی آوازوں سے گونج اٹھی۔ ’بلیک ستمبر لبریشن آرگنائزیشن‘ کے آٹھ فلسطینی جنگجو کھلاڑیوں کے لباس پہن کر اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 11 اسرائیلی کھلاڑی اور ایک جرمن پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے کے صرف دو دن بعد اسرائیل نے شام اور لبنان میں پی ایل او کے 10 ٹھکانوں پر بمباری کر کے انھیں تباہ کر دیا۔ کئی سال بعد جاری ہونے والی اسرائیلی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہے کہ اسرائیل نے اس وقت دراصل کیا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت کی اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا میر نے جوابی کارروائی کے لیے ’کمیٹی‘ تشکیل دی تھی جس کے انچارج موساد کے اس وقت کے سربراہ تھے۔ سائمن ریو کی کتاب ’ون ڈے ان ستمبر‘ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے اس آپریشن کی تیاری میں ایک طویل وقت صرف کیا تھا تاکہ دنیا کے

آپریشن فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ Read More »

Australian war Memorial

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں     آپریشن جے وک ایک دلیرانہ منصوبہ تھا جو دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادیوں کے سب سے کامیاب سبوتاژ آپریشنز میں سے ایک تھا۔ اس آپریشن کی کہانی کسی ایکشن فلم جیسی لگتی ہے: 14 برطانوی اور آسٹریلوی کمانڈوز آسٹریلیا سے ہزاروں کلومیٹر دور ایک کشتی کے ذریعے سنگاپور پہنچتے ہیں جو اس وقت جاپان کے قبضے میں تھا۔ ان کمانڈوز کو لنگیاں پہنا کر چہرے پر بھورا رنگ ملنے کو کہا گیا تاکہ وہ مقامی مچھیرے لگیں۔ پھر انھوں نے اپنی کشتی سنگاپور سے کچھ دور چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں ایک بندرگاہ میں گھسنا تھا۔ اس مشن کا آخری لمحہ وہ تھا جس میں ان کمانڈوز نے جاپانی بحری جہازوں پر ٹائم بم لگا کر وہاں سے غائب ہونا تھا۔ یہ کام 26 ستمبر 1943 کی رات کو ہوا جس کے اگلے دن سات بحری جہاز 30 ہزار ٹن سامان سمیت تباہ ہوئے یا ڈوب گئے۔ یہ 14 افراد کامیابی سے آسٹریلیا واپس پہنچے جہاں انھوں نے اپنے 48 دن کے سفر کی کہانی سنائی جس کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب ایک جاپانی جنگی جہاز انڈونیشیا کے پانیوں میں ان کے بہت قریب سے گزرا تو کمانڈوز دھماکہ خیز مواد سے لدی ہوئی اپنی کشتی کو تباہ کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے۔ 80 سالہ برائن ینگ اسی عملے میں شامل ریڈیو آپریٹر ہوری ینگ کے بیٹے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے والد نے ایک صحافی کو بتایا کہ اگر ہم ایسا کرتے تو ہمای کشتی کے ساتھ جاپانی جہاز بھی تباہ ہو جاتا لیکن وہ جہاز چلا گیا اور ان سب نے اپنی قسمت پر شکر ادا کیا۔‘ اس پرخطر مشن کو 80 سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک یہ ایک مشہور موضوع ہے جس پر لاتعداد کتابیں، ڈاکومنٹریز، ٹی وی اور فلمیں بن چکی ہیں۔ کریٹ، وہ کشتی جس پر ان کمانڈوز نے سفر کیا تھا، 1988 سے آسٹریلیا کے نیشنل میری ٹائم میوزیئم میں موجود ہے۔ بحری امور کے ماہر سٹرلنگ سمتھ کہتے ہیں کہ ’دشمن کی دفاعی لائن کے دو ہزار میل پیچھے ایسے جرات مندانہ مشن کی منصوبہ بندی اور تکمیل کی مثال نہیں ملتی۔‘ اس مشن کو ٹاسک فورس زیڈ سپیشل یونٹ کی مدد سے مکمل کیا گیا تھا جو اتحادیوں کی جانب سے سبوتاژ کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ یونٹ تھی۔ اس کے سربراہ کیپٹن ایوان لیون تھے جنھوں نے مشن میں حصہ لینے والے کمانڈوز کو چنا اور پھر ان کی تربیت کی۔ سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ملٹری سٹڈیز کے این لی کا خیال ہے کہ آپریشن جے وک ایسی جنگی حکمت عملی کی مثال ہے جس میں غیر روایتی طریقوں سے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ روس کیخلاف یوکرین کی سپیشل فورسز کے چھوٹے دستوں کے حملوں کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جے وک کی طرح ان حملوں کی علامتی اہمیت ہوتی ہے جس سے دشمن کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ آپریشن جے وک سے بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جا سکا کیوںکہ زیادہ تر جاپانی جنگی جہاز ہفتوں میں مرمت ہونے کے بعد قابل استعمال ہو چکے تھے۔ تاہم اس حملے کا نفسیاتی اثر بہت زیادہ ہوا کیوںکہ یہ بندرگاہ ایک محفوظ مقام مانا جاتا تھا جہاں تک اتحادی فوج کی رسائی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ بحری امور کے ماہر سٹرلنگ سمتھ کہتے ہیں کہ ’جاپانی کبھی یہ دریافت ہی نہیں کر پائے کہ یہ حملہ کیسے ہوا جس کا مطلب تھا کہ جنگ کی باقی ماندہ مدت کے دوران کافی وقت اور افرادی قوت اس بندرگاہ کو محفوظ بنانے پر استعمال ہوئی جو کہیں اور نہیں لڑ سکتی تھی۔‘ تاہم اس حملے کے نتائج سنگاپور میں بسنے والے عام شہریوں کو بھگتنا پڑے کیوں کہ اتحادیوں نے اس آپریشن کی خبر عام کرنے کا فیصلہ تبدیل کر دیا تاکہ وہ مستقبل میں ایسے ہی حملے کر سکیں۔ جاپانی حکام کو یقین تھا کہ مقامی جیل کے قیدی ہی اس حملے کے ذمہ دار ہیں اور 10 اکتوبر کو 57 قیدیوں سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ان میں سے 15 تشدد سے ہلاک ہو گئے جسے ڈبل ٹینتھ واقعہ کہا جاتا ہے۔ جب برائن ینگ پیدا ہوئے تو ان کے والد اسی مشن پر گئے ہوئے تھے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد اپنے جنگی تجربات پر شازونادر ہی بات کیا کرتے تھے۔ ’ایک بات وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ انھیں اس بات کا بہت افسوس ہے کہ مقامی لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔‘ 1944 میں لیون کی سربراہی میں، جو اس وقت تک لیفٹینینٹ کرنل بن چکے تھے، اس بندرگاہ پر ایک اور حملے کی کوشش کی گئی لیکن اس بار جاپانیوں نے بروقت انھیں دیکھ لیا۔ 23 افراد پر مشتمل اس ٹیم کے تمام اراکین مارے گئے یا انھیں گرفتار کرنے کے بعد مار دیا گیا۔ کریٹ کشتی کا عملہ تو اب نہیں رہا لیکن یہ ایسی کہانی ہے جس کی بازگشت ان کے بچوں میں اب بھی سنائی دیتی ہے۔   برائن ینگ کہتے ہیں کہ ’میرے والد اور ان کے ساتھی ایک جیسے تھے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد کے ساتھ اس مشن پر جانے والے آرتھر جونز اکثر ان سے ملنے آتے اور ’وہ دونوں اس وقت کو یاد کرتے جب انھیں اپنے جسم پر رنگ ملنا پڑا تھا۔‘ ’وہ کہتے تھے کہ اگر کوئی جاپانی ہم سے 100 میٹر قریب تک آ جاتا تو وہ جان لیتا کہ ہم مقامی نہیں۔‘ رون مورس کے بیٹے ایوان مورس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کی وفات کے بعد ہی میں نے اس مشن کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ یہ بہادری کی کہانی ہے۔‘ ان کی تحقیق اب ایک کتاب کی صورت میں چھپی ہے جس کا نام ’دی ٹائیگرز ریونج‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ کتاب انھوں نے اپنے خاندان اور پوتوں کے لیے لکھی ہے۔ رون مورس نے بھی جنگ کے

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں Read More »