Miscellaneous

جب پنڈت کشور لال کی چتا کو آگ نے نہ چھوا

پنڈت نول کشور کو کیوں دفن کیا گیا  اس کی چتا پر کئی ٹین گھی کے ڈالے گئے تھے لیکن چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی . وہ کوئی عام ہندو نہیں تھا انڈیا کا بہت بڑا نام تھا. اس لئے اس کی چتا کو آگ نہ لگنے والے واقعے کی خبر منٹوں میں پورے انڈیا میں پھیل گئی .  لوگ جوق در جوق شمشان گھاٹ پہنچنے لگے . اس کی جامع مسجد دلی کے امام بخاری سے بہت دوستی تھی امام صاحب بھی یہ واقعہ سن کر فورآ شمشان گھاٹ پہنچے . انہوں نے اس کے لواحقین کو سمجھایا کہ اس کی ارتھی کو آگ نہیں لگے گی چاہے پورے ھندوستان کا گھی اس پر ڈال دو . بہتر یہی ہے اسے دفنا دو.  لہذا پہلی بار ایک ہندو کو جلائے بغیر شمشان گھاٹ کے اندر ہی دفن کرنا پڑا . اس کی ارتھی کو آگ کیوں نہیں لگ رہی تھی ؟ اس کو آگ کیسے جلا سکتی ہے جس نے قرآن کا احترام مسلمانوں سے بھی بڑھ کر کیا ھو . کیسے؟ چلیے تاریخ کے صفحوں کو پلٹتے ہیں  تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے . پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے. دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوسکا. نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی. دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا. وقت گزرتا رھا طباعت و اشاعت کا کام جاری رھا۔ پھر برصغیر کی تقسیم ھوئی۔ مسلمان ھندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے۔ نول کشور جی بھی لاھور سے ترک سکونت کرکے نئی دلی انڈیا چلے گئے۔  ان کے ادارے نے دلی مین بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وھی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔نول کشور جی بوڑھے ھوگئے اور اب گھر پر آرام کرنے لگے جبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسہ اسی طرح قائم رکھا۔  آخرکار نول کشور جی کا وقت آخر آ گیا اور وہ انتقال کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ھاں پہنچے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ھونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے۔ ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا ۔ چتا پر گھی ڈال کر آگ لگائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ھوا۔ نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رھی تھی۔چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود۔ یہ ایک ناممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔ پہلے کبھی ایسا نہین ھوا تھا۔ لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہین لگ رھی۔  مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رھے تھے اور حیران و پریشان تھے۔ یہ خبر جب جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شماشان گھاٹ پہنچے۔ نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔  اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔ امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتے ھوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہین ھو پائے گی۔ اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ھے جیسے احترام کیا ھے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ھی نہیں سکے گی چاھے آپ پورے ھندوستان کا تیل گھی چتا پر ڈال دیں۔  اس لئے بہتر ھے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئیے۔ چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتے ھوئے نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ھندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا ۔ میں نہیں جانتا اس  ہندو   کا آخرت میں کیا انجام ھوگا لیکن اتنا جان گیا ہوں کہ دنیا میں اس کو آگ لگانا ناممکن ہو گیا تھا کیا آخرت میں آگ اس کے سامنے بے بس ھو جائے گی؟۔  میں یہ بھی سوچ رھا ھوں ایک ہندو احترام قران میں اس دنیا کی آگ سے محفوظ رہا ہم  اس کتاب پر ایمان لانے والے اگر اس کی صحیح قدر کریں گے تو یہ آگ ھمیں جہنم کی آگ سے کیوں نہیں بچائے گی؟۔  انشااللہ میرا ایمان ہے ضرور بچائے گی۔۔۔۔۔

جب پنڈت کشور لال کی چتا کو آگ نے نہ چھوا Read More »

Dengue Fever

ڈینگی کو ختم کرنے والی پہلی دوا کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن

مچھر کے کاٹنے سے ہونے والے بخار یا بیماری ڈینگی کو ختم کرنے کے لیے بنائی گئی دنیا کی پہلی دوا کی آزمائش کے ابتدائی نتائج سے بخار ختم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ڈینگی بخار مچھروں کی ایک قسم Aedes کے کاٹنے سے ہوتا ہے جو خود ڈینگی وائرس سے متثر ہوتا ہے اور کاٹنے کے بعد خون میں وائرس کو منتقل کردیتا ہے۔ مگر یہ بیماری ایک سے دوسرے فرد میں براہ راست نہیں پھیلتی لیکن اب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ڈینگی کا سبب بننے والے مچھر وائرس کو پھیلانے کے لیے طاقتور بن چکے ہیں۔ ڈینگی کے زیادہ تر کیسز ایشیائی اور افریقی ممالک میں رپورٹ ہوتے ہیں اور پاکستان کا شمار بھی اس سے متاثر ہونے والے جنوبی ایشیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ س وقت ڈینگی کے علاج کے لیے کوئی خصوصی گولی، کیپسول، سیرپ یا ویکسین دستیاب نہیں ہے، البتہ ڈاکٹرز مختلف ادویات سے اس کا علاج کرتے ہیں۔ لیکن اب ملٹی نیشنل کمپنی ’جانسن اینڈ جانسن‘ کی جانب سے تیار کردہ اینٹی وائرل دوا کی آزمائش کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن آئے ہیں۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق شکاگو میں ہونے والی ایک کانفرنس میں جانسن اینڈ جانسن کے ماہرین نے تیار کردہ گولیوں کی آزمائش کے ابتدائی نتائج پیش کیے، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ گولیوں کے استعمال سے بخار ختم ہوگیا۔ ماہرین نے کانفرنس میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کمپنی نے ڈینگی کو ختم کرنے کے لیے اینٹی وائرل گولیاں تیار کی ہیں، جن کی 10 افراد پر آزمائش کی گئی۔ ماہرین کے مطابق آزمائشی پروگرام کے لیے 10 صحت مند رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں، جنہیں پہلے ڈینگی بخار میں مبتلا کیا گیا، جس کے بعد انہیں دو گروپوں میں تقسیم کرکے 21 دن تک ان کا علاج کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق 10 میں سے 6 رضاکاروں کو تیار کردہ نئی اینٹی وائرل گولیاں دی گئیں اور انہیں یومیہ 21 دن تک گولیاں کھانے کا کہا گیا جب کہ دوسرے افراد کو مصنوعی دوا دی گئی۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ 21 دن بعد گولیاں کھانے والے افراد میں ڈینگی ختم ہوچکا تھا جب کہ ان کے بلڈ پلازما اور مدافعتی نظام سے بھی ڈینگی وائرس نکل چکا تھا۔ ماہرین کے مطابق علاج کے بعد 85 دن بعد دوبارہ ان افراد کے ٹیسٹ کیے گئے تو بھی ان میں ڈینگی کی تشخیص نہیں ہوئی جب کہ دوسرے رضاکار جنہیں مصنوعی دوا دی گئی تھی، ان میں ڈینگی پایا گیا۔ ماہرین نے بتایا کہ ابتدائی نتائج حوصلہ بخش آنے کے بعد اب مذکورہ گولیاں کی دوسری آزمائش شروع کی جائے گی، جس کے لیے زیادہ رضاکار اور زیادہ وقت درکار ہوگا۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ اینٹی وائرل گولیوں کی دوسری آزمائش افریقہ، امریکا اور ایشیا کے متعدد ممالک میں 6 ماہ تک کی جائے گی اور ممکنہ طور پر آزمائش کو ایک سال کے اندر شروع کیا جائے گا۔ اگر مذکورہ گولیوں کی آزمائش کے دوسرے مرحلے کے نتائج بھی حوصلہ کن آئے تو ان گولیوں کو تیسری اور آخری بڑی آزمائش میں آمایا جائے گا، تاہم اس سارے عمل میں مزید دو سال کا وقت لگ سکتا ہے۔

ڈینگی کو ختم کرنے والی پہلی دوا کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن Read More »

Arshad Sharif

صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی!

ارشد کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا گیا تھا جہاں لاکھوں لوگ اس کی بات سچ مانتے تھے اس کے فالوور تھے اور یہ کسی صحافی کی معراج ہوتی ہے۔ ’ڈرائیور بھیج دوں گاڑی لانے کے لیے؟‘ ’اچھا، میری گاڑی بالکل چلنے کے قابل نہیں۔‘ ’چلیں آپ دیکھیں کیا کرنا ہے۔‘ ’اچھا ٹریلر پر بھیج دیں‘، ارشد شریف کی سرگوشی نما آواز سنائی دی۔ میں اس وقت ارشد شریف کے ڈرائنگ روم میں تھا اور ساجد گوندل کے ساتھ ارشد کے والد کی میت کو ایک چارپائی سے دوسری چارپائی پر منتقل کررہا تھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو ارشد ڈرائنگ روم کے باہر سیڑھیوں کے پاس کھڑا کسی سے دھیمے لہجے میں فون پر بات کر رہا تھا۔ ارشد کے والد نیوی سے ریئر ایڈمرل ریٹائرڈ ہوئے تھے اور صبح وفات پاگئے تھے۔ میں اس وقت ڈان نیوز ٹی وی میں بطور رپورٹر کام کر رہا تھا اور ارشد ڈان کا بیورو چیف تھا لیکن اس کا سب کے ساتھ تعلق بھائیوں والا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی ارشد کے والد کے انتقال کی خبر نیوز روم پہنچی تو ایک، دو رپورٹرز کو چھوڑ کر ہم سب ارشد کے گھر پہنچ گئے۔ کچھ ہی دیر بعد پتا چلا کہ ارشد کے چھوٹے بھائی جو فوج میں میجر تھے ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ دراصل جب انہیں والد کے انتقال کی خبر ملی تو وہ اپنی کورے گاڑی میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے اور تیز رفتاری کے سبب گاڑی بے قابو ہوگئی اور ارشد کے بھائی اس اندوہناک سانحے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اور اب گھر میں ان کی میت کا انتظار تھا۔ مجھے ہمت نہ ہوئی کہ ارشد کو دلاسہ دے سکوں۔ گھر میں باپ کی لاش پڑی ہو اور چھوٹے بھائی کی لاش کا انتطار ہو، تو بھلا اس قیامت خیز گھڑی میں کوئی کسی کو کیا دلاسہ دے سکتا ہے؟ آج بھی اس لمحے کا سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ ’ایسا تو فلموں میں ہوتا ہے‘، ارشد سپاٹ لہجے میں اسد کو کہہ رہا تھا۔ اسد ڈان کے ٹیکنیکل شعبے کے سربراہ تھے۔ میں قرآن پڑھتے کن انکھیوں سے ارشد کو تک رہا تھا کہ کس بلا کا حوصلہ ہے اس شخص کا۔ اگلے دن ارشد کے بھائی کو جب تمام فوجی اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا تب بھی ارشد نے بڑے ضبط کا مظاہرہ کیا۔ ارشد ایک نڈر شخص تھا۔ یہ اس کی ہی آشیر باد تھی کہ ہم وہ خبر بھی چلا دیتے تھے جسے چلانے کا دوسرے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ میں گمشدہ افراد پر ایک پروگرام کر رہا تھا جس کے لیے شہر سے باہر جانا پڑتا تھا۔ ارشد اس وقت تک بے چین رہتا تھا جب تک میں مع عملہ واپس نہ پہنچ جاؤں۔ ایک رات جب ہم فیصل آباد سے رات گئے لوٹے تو ارشد دفتر میں میرا انتظار کررہا تھا۔ کیمرا اور دیگر سامان دفتر میں جمع کرواتے صبح کے 4 بج گئے لہٰذا میں اور ارشد ڈان کے نیوز روم میں ہی قالین پر سو گئے۔ اگلے دن اس نے مجھے تو گھر بھیج دیا مگر خود کام میں جتا رہا۔ ارشد عجز و انکساری سے بھرپور انسان تھا۔ ایک رات میں دفتر میں تھا تو معلوم ہوا ایک چینی کا پُراسرار حالات میں قتل ہوگیا ہے۔ میں نے ارشد کو فون کیا کہ چینی کا قتل ہوگیا، میں نے خبر بریک کرنی ہے لیکن کیمرا مین نہیں ہے۔ ’اچھا میں آتا ہوں‘، اس نے کہا اور تھوڑی ہی دیر میں دفتر پہنچ گیا۔ امریکا سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیورو چیف ساری رات ایک رپورٹر کے ساتھ بطور کیمرا میں کام کرتا رہا۔ ارشد میں حس مزاح بھی بہت تھی۔ ایک دن کراچی (ہیڈ آفس) سے جھاڑ کھانے کے بعد وہ نیوز روم میں سب پر برسنے لگا کہ ایک اہم خبر اسلام آباد سے مس ہوگئی تھی۔ ’کیا کر رہے ہو تم سب‘، ارشد دھاڑا۔ ریلیکس کر رہا ہوں، میں نے جواب دیا۔ ’ریلیکس کر رہے ہو‘، اس نے غصے سے پوچھا۔ بنا کسی بات کے جھاڑ کھانے کے بعد کوئی اور کیا کرسکتا ہے؟ میں نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا اور ارشد قہقہے میں لوٹ پوٹ ہوگیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ صحافت کی باریکیاں میں نے ارشد سے سیکھیں ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ ارشد کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ اس نے مجھے کئی انتہائی نازک مواقعوں پر بچایا ہے۔ ایک دوپہر میں نیوز روم میں داخل ہوا تو ارشد نے ایک خط میرے سامنے کردیا۔ یہ اسلام آباد پولیس کا خط تھا جس میں کہا گیا تھا کہ میں یعنی ڈان نیوز کا رپورٹر عاطف خان ایک تھانے میں زبردستی داخل ہوا اور اس نے ایس ایچ او انسپکٹر فیاض تنولی کو ہراساں کیا اور عاطف خان پر فلاں فلاں قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔ اس خط میں اگر ایسا لکھا ہے تو اس میں ایسی کیا بات ہے۔ پولیس ایجنسیوں کی یہ ایک اسٹینڈرڈ کارروائی ہے، میں نے بے اعتنائی سے کہا۔ دراصل ان دنوں میں نے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی خبر بریک کی تھی اور پے درپے رپورٹس کر رہا تھا۔ ایجنسیاں اور پولیس مجھ سے سخت برہم تھے۔ ارشد نے مجھے کہا کہ میں حامد میر سے بات کرکے عاصمہ جہانگیر کے پاس چلا جاؤں اور ارشد کی ان سے بات ہوگئی ہے۔ یعنی اس نے میرے لیے سارا انتظام کر رکھا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں، مجھے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے حوالے سے بننے والے کمیشن میں شامل کرلیا گیا۔ میری رپورٹس کمیشن نے شامل کیں لیکن ہوا وہی جو اس طرح کے کیسوں میں ہوتا ہے۔ کیس تو داخل دفتر ہوگیا لیکن میری گلو خلاصی ہوگئی بلکہ عدالتِ عالیہ نے پولیس کو مجھے گارڈز فراہم کرنے کی ہدایت کی جسے میں نے مسترد کردیا کہ پولیس مجھے پولیس یا ایجنسیوں سے نہیں بچا سکتی۔ اگر میں یہ کہوں کہ ڈان ٹی وی کو ڈان بنانے والا ارشد تھا تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ انگریزی سے اردو میں کامیاب منتقلی کا سہرا ارشد اور اس کی پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ ارشد کام کرنے والوں کی

صحافت کا حق ادا کرنے والے ارشد شریف سے بس ’ریڈ لائن‘ کراس ہوگئی! Read More »

ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی

یہ آٹھ اگست 1963 کی بات ہے جب ایک ٹرین گلاسگو سے اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ صبح تین بج کر تیس منٹ پر ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے اسے روکا اور وہ 26 لاکھ پاؤنڈ کی دولت لے اڑے۔ 60 برس قبل 26 لاکھ پاؤنڈ کی مالیت آج کے پچاس لاکھ پاؤنڈ کے برابر ہے۔ اس واقعے کو اب 60 برس گزر چکے ہیں لیکن اس ڈکیتی کی یاد اب بھی برطانوی افراد کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس ڈکیتی کو بعد میں ’دی گریٹ ٹرین رابری‘ یا عظیم ٹرین ڈکیتی کا نام دیا گیا۔ اس واقعے پر متعدد فلمیں اور ڈرامہ سیریل بنائے جا چکے ہیں۔ یہ بدنامِ زمانہ ڈکیتی آج بھی اکثر افراد کے لیے ایک افسانے کی طرح ہے۔ ڈکیتوں نے اس کی منصوبہ بندی کیسے کی؟ اس دن کیا ہوا اور اس کے بعد ڈکیتوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ وہ سوال ہیں جو سب کے ذہنوں میں گردش کرتے رہے۔ یہ 15 لوگوں کا گینگ تھا اور بروس رینلڈز اس کے سرغنہ تھے۔ انھیں ریلوے کے ایک ملازم کی جانب سے تمام معلومات بتائی جا رہی تھیں لیکن اس اہلکار کی شناخت آج تک نہیں کی جا سکی۔ اس اہلکار کی جانب سے دی گئی معلومات کی بنیاد پر بروس نے ڈکیتی کی منصوبہ بندی کی۔ انھوں نے ریلوے سگنلز کے نظام میں تبدیلی کی اور ٹرین کو بکنگھم شائر کے پاس روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈکیتوں نے اس دوران اسلحہ یا پستولوں کا استعمال نہیں کیا لیکن انھوں نے ٹرین ڈرائیور کے سر پر سلاخ سے ضرب لگائی۔ ڈرائیور بچ تو گیا لیکن کبھی بھی مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہو سکا یہ منصوبہ کیسے بنایا گیا؟ بروس رینلڈز اس ڈکیتی کے سرغنہ اور منصوبہ ساز تھے۔ انھوں نے گلاسگو سے آنے والی ٹرین کو روکنا تھا۔ ایک سکیورٹی افسر جو اس ٹرین میں موجود رقم کے بارے میں معلومات رکھتے تھے اور اس کو محفوظ رکھنے کے لیے کیے گئے انتظامات کے بارے میں بھی جانتے تھے گینگ کے لوگوں کو سب کچھ بتا رہے تھے۔ برائن فیلڈ نے اس سکیورٹی افسر کو گورڈن گوڈی اور رانلڈ ’بسٹر‘ ایڈورڈز سے ملوایا جو اس گینگ کا حصہ تھے۔ اس ڈکیتی کی منصوبہ بندی کرنے میں کئی ماہ لگ گئے۔ بروس رینلڈز، گورڈن گوڈی، بسٹر ایڈورڈز اور چارلی ولسن اس گینگ کے سب سے اہم اراکین تھے۔ وہ جرائم کی دنیا میں نئے نہیں تھے لیکن انھیں کسی ٹرین کو روک کر اس پر ڈکیتی کرنے کا تجربہ ہرگز نہیں تھا۔ اس لیے اس کے لیے دیگر گینگز کی مدد لی گئی۔ اس گینگ میں ٹامی وسبی، باب ویلش اور جم ہسی شامل تھے۔ اس گینگ کو ’ساؤتھ کوسٹ ریڈرز گینگ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور انھیں ٹرینوں پر ڈکیتی کرنے کا تجربہ تھا۔ اس کے بعد کچھ اور لوگوں کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنایا گیا اور یوں اس ٹیم میں 16 افراد تھے۔ اس ٹرین میں کیا تھا؟ اس ٹرین کا نام ’رولنگ پوسٹ آفس‘ رکھا گیا۔ اس کے ذریعے خط، پارسل، منی آرڈر اور کیش ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جاتا تھا۔ اس ٹرین میں عملے کے کل 72 افراد تھے اور اس میں 12 کوچز تھیں۔ وہ سٹیشن سے پارسل اور خطوط کے بیگ ٹرین پر لوڈ کرتے اور جب ٹرین چل رہی ہوتی اس دوران انھیں ترتیب دیتے۔ ٹرین کو کسی صورت نہ روکنے کے لیے اس میں بڑے بڑے ہُک لگائے جاتے اور ان پر بیگ لٹکا دیے جاتے اور بعد میں ان میں سے یہ خطوط اور پارسل اندر رکھ لیے جاتے۔ اس ٹرین میں انجن سے منسلک ایک بوگی میں رقم رکھی جاتی تھی۔ عام طور پر ٹرین میں تین لاکھ پاؤنڈ کی رقم منتقل کی جاتی تھی لیکن سات اگست 1963 کو کیونکہ بینک کی چھٹی تھی اس لیے اس پر 26 لاکھ پاؤنڈ کی رقم موجود تھی ٹرین کو کیسے روکا گیا؟ ڈکیتوں نے پٹڑی پر موجود سگنل کو گلوّز کے ذریعے ڈھانپ دیا اور بیٹری سے چلنے والی سرخ لائٹس کے ذریعے ٹرین کو روکنے کا اشارہ کیا۔ ٹرین ڈرائیور جیک ملر نے جب سرخ سگنل دیکھا تو انھوں نے آٹھ اگست کی صبح لگ بھگ تین بجے ٹرین روک دی۔ انھیں اس بات کی امید نہیں تھی کہ ٹرین کو ایسے راستے میں روکا جائے گا۔ اس لیے وہ اور ان کے اسسٹنٹ ڈیوڈ وھٹبی ٹرین سے اترے اور قریبی سٹیشن کال کرنے کے لیے ٹریک پر لگے فون کی جانب بڑھے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ کسی نے ٹیلی فون لائن ہی کاٹ دی ہے۔ جب تک ڈیوڈ واپس آئے تو ڈکیت انجن کیبن میں داخل ہو چکے تھے۔ جیک ملر نے جب ایک ڈکیت کو روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے ان کے سر پر سلاخ دے ماری۔ ڈکیتوں کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ اس کوچ کو باقی ٹرین سے علیحدہ کر کے اسے برڈگو پول لے جائیں جو وہاں سے صرف آٹھ سو میٹر دور تھا اور پھر رقم لوٹ کر نکل جائیں۔ اس کے لیے وہ ایک ریٹائرڈ ٹرین ڈرائیور بھی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے لیکن ڈکیتی کے وقت انھیں احساس ہوا کہ اس ڈرائیور کو یہ جدید قسم کی ٹرین چلانے کا تجربہ نہیں ہے۔ اس وقت تک ڈکیتوں نے پچھلی بوگیوں میں جا کر تمام اہلکاروں کو ایک طرف کونے میں بٹھا لیا تھا، دو سکیورٹی گارڈز کو باندھ دیا گیا۔ اب ان بوریوں کو خالی کرنے کی باری تھی جن میں دولت موجود تھی۔ اس ٹرین کی پہلی بوگی میں 128 بوریاں تھیں۔ انھوں نے پہلے اس میں سے 120 بوریاں نکالیں اور ایک ایک کر کے انھیں پل کے نیچے کھڑے ٹرک میں خالی کرنے لگے۔ صرف تیس منٹ میں انھوں نے یہ ڈکیتی مکمل کر لی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مزید دو ٹرکس مختلف سمتوں میں بھیجے تاکہ عینی شاہدین کو بیوقوف بنایا جا سکے۔ پیسوں سے بھرے بیگ خالی کرنے کے بعد ڈکیتوں نے ایک سنسان سڑک پکڑی۔ اس دوران پولیس ریڈیو کے ذریعے سننے کی کوشش کر رہی تھی کہ انھیں کوئی معلومات ملتی ہیں یا نہیں۔ ڈکیت ایسپس لیدرسلیڈ فارم صبح چار بج کر

ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی Read More »

Soup

کیا مرچ اور سبزیوں کی مدد سے تیار کردہ چکن سوپ واقعی نزلہ زکام سے لڑنے میں مدد دیتا ہے؟

  موسمِ سرما میں اگر سردی لگنے کے باعث گھر کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو دوا کے علاوہ صدیوں سے رائج ایک آزمودہ نسخہ اُن کے لیے چکن سوپ کا پیالہ تیار کرنا ہے۔ بیماری کے علاوہ بھی پاکستان میں سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی ہر گلی محلے میں چکن سوپ کے سٹال لگ جاتے ہیں اور لوگ گرم گرم سوپ کے پیالے کو سردی کے توڑ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عملی طور پر ہر ثقافت اور ہر علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ چکن ’سوپ‘ کے فوائد پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکہ میں یہ عام طور پر نوڈلز کے ساتھ بنایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں نوڈلز کے بغیر۔ لیکن جب سوپ کو بطور علاج یا دوا استعمال کیا جانا ہو تو اس کی ترکیب ہر علاقے اور وہاں کے ذائقے کے مطابق اور مختلف ہو جاتی ہے۔ چکن سوپ کا استعمال 60 ویں صدی عیسوی سے ہو رہا ہے۔ پیڈانیئس ڈیوسکورائڈز ایک معروف فوجی سرجن تھے جو رومن بادشاہ نیرو کے ماتحت بھی خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔ اُن کی پانچ جلدوں پر مشتمل طبی انسائیکلوپیڈیا سے دنیا بھر کے طبیب اور حکیم گذشتہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے تک مستفید ہوتے رہے ہیں۔ لیکن کیا اس بات پر یقین کرنے اور اس کی حمایت کرنے کے لیے کوئی سائنس شواہد موجود ہیں کہ سوپ ہماری صحت کے لیے فائدہ مند ہے؟ یا کیا چکن سوپ صرف ایک آرام دہ غذا کے طور پر کام کرتا ہے۔ بہتر بھوک، بہتر ہاضمہ ایک رجسٹرڈ ماہر غذائیت کی حیثیت سے میں چکن سوپ کے فوائد سے اچھی طرح واقف ہوں۔ جب میں سانس کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو دیکھتا ہوں تو اُن میں بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیں جن میں کھانے پینے کی رغبت بہت کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید بیماریاں انسانی جسم میں سوزش کے عمل کو متحرک کرتی ہیں جو بھوک کو کم کر سکتی ہیں۔ کھانے کی خواہش کا نہ ہونا یا کوئی بھی چیز کھانے کا دل نہ کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شخص کو وہ غذائی اجزا نہیں مل پا رہے جن کی انھیں ضرورت ہے، اور یہ امر مدافعتی نظام اور بیماری سے صحتیابی کے لیے بہتر نہیں ہے۔ لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ چکن سوپ کا ’امامی‘ ذائقہ بڑھتی ہوئی بھوک کو متحرک کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ ایک مطالعے کے شرکا کا کہنا تھا کہ محققین کی جانب سے شامل کیے گئے امامی ذائقے والے سوپ کو چکھنے کے بعد انھیں بھوک محسوس ہوئی۔ سوپ کو جو چیز منفرد ذائقہ دیتی ہے وہ ’امامی‘ ہے (امامی بنیادی طور پر پائے جانے والے چار ذائقوں میٹھا، نمکین، کھٹا اور کڑوا کے بعد ایک پانچواں ذائقہ ہے اور یہ ذائقہ عمومی طور پر جاپان میں بنائے جانے والے کھانوں میں پایا جاتا ہے، جیسا کے سوپ میں)۔ امینو ایسڈ پروٹین کے بلڈنگ بلاکس ہیں، اور امینو ایسڈ گلوٹامیٹ امامی ذائقے والے کھانوں میں پایا جاتا ہے۔ تاہم، تمام امامی غذائیں گوشت یا مرغی نہیں ہیں۔ پنیر، مشروم، میسو اور سویا کی چٹنی بھی اس میں موجود ہیں۔ جیسا کہ مطالعے پتہ چلتا ہے کہ یہی امامی ذائقہ چکن سوپ کی شفایابی کی خصوصیات کے لیے اہم ہے۔ دیگر تجزیوں میں کہا گیا ہے کہ امامی غذائی اجزا ہاضمے کو بھی بہتر بنا سکتی ہیں۔ ایک بار جب ہمارا دماغ ہماری زبان پر ذائقہ کو پرکھنے والے ریسیپٹرز کے ذریعے امامی کو محسوس کرتا ہے تو جسم ہاضمہ کی نالی کو پروٹین کو زیادہ آسانی سے جذب کرنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ سانس کے انفیکشن کو معدے کی علامات کے ساتھ منسلک نہیں کرتے، لیکن بچوں میں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ فلو وائرس نے پیٹ میں درد، متلی، قے اور اسہال کی علامات میں اضافہ کیا ہے۔ سوزش اور ناک کی بندش کو کم کر سکتا ہے جسم میں سوزش ہونا کسی بھی چوٹ یا بیماری کا قدرتی ردعمل ہوتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب خون کے سفید خلیات شفا یابی میں مدد کے لیے متاثرہ ٹشوز میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ جب یہ سوزش کا عمل جسم میں سانس کی اوپری نالی میں ہوتا ہے، تو یہ عام زکام اور فلو کی علامات پیدا کرتا ہے، جیسے بھری ہوئی یا بہنے والی ناک، چھینک، کھانسی، اور بلغم۔ اس کے برعکس، ناک کے راستے میں سفید خون کے خلیات کی کم سرگرمی سوزش کو کم کر سکتی ہے۔ تحقیق سے دلچسپ بات یہ پتہ چلتی ہے کہ چکن سوپ سفید خون کے خلیات کی تعداد کو کم کر سکتا ہے جو سوزش والے ٹشوز میں سفر کرتے ہیں۔ یہ نیوٹروفلس کی صلاحیت کو براہ راست روکتا ہے، جو سفید خون کے خلیات کی ایک قسم ہے، سوجن والے ٹشو میں منتقل ہونے کے لیے۔ اہم اجزا چکن سوپ کے پرسکون اور شفا بخش اثرات کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے، اس کے اجزا پر غور کرنا ضروری ہے۔ تمام چکن سوپ غذائیت بخش شفا بخش خصوصیات سے بھرے ہوئے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر نوڈلز کے ساتھ اور اس کے بغیر الٹرا پروسیسڈ ڈبہ بند ورژن میں گھریلو ورژن میں پائے جانے والے بہت سے اینٹی آکسائیڈنٹس کی کمی ہوتی ہے۔ زیادہ تر ڈبہ بند ورژن عملی طور پر سبزیوں سے خالی ہیں۔ سوپ کے گھریلو ورژن میں اہم غذائی اجزا وہ ہیں جو ان اقسام کو ڈبہ بند اقسام سے الگ کرتے ہیں۔ چکن جسم کو انفیکشن سے لڑنے کے لیے پروٹین کا ایک مکمل ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ سبزیاں وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسائیڈنٹس کی ایک وسیع رینج فراہم کرتی ہیں۔ اگر سوپ امریکی طرز پر تیار کیا جائے تو نوڈلز آسانی سے ہضم ہونے والا کاربوہائیڈریٹ ذریعہ فراہم کرتی ہیں جو آپ کا جسم میں توانائی اور بحالی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ چکن سوپ کی گرمی بھی مدد کر سکتی ہے۔ مائع حالت میں کسی بھی خوراک کو پینے اور بخارات کو سونگھنے سے ناک اور سانس کی نالیوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، جس سے بلغم کی شکایت کم ہوتی ہے۔ صرف گرم

کیا مرچ اور سبزیوں کی مدد سے تیار کردہ چکن سوپ واقعی نزلہ زکام سے لڑنے میں مدد دیتا ہے؟ Read More »

آج پاکستان میں کرنسی کی شرح تبادلہ – 20 اکتوبر 2023

کراچی – 20 اکتوبر 2023 جمعہ کو مقامی اور اوپن مارکیٹ میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ایک امریکی ڈالر کی شرحِ فروخت 279.25 روپے ریکارڈ کی گئی، جس کی شرح فروخت 282 روپے تھی۔ نوٹ: تبادلے کی شرحیں مقام اور لین دین میں شامل ایکسچینج کمپنی یا بینک کی بنیاد پر مختلف ہو سکتی ہیں۔ ذیل میں پاکستان کی کھلی منڈی میں امریکی ڈالر، یو کے پاؤنڈ سٹرلنگ، یورپی یورو، متحدہ عرب امارات درہم، سعودی ریال، اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے لیے غیر ملکی اور مقامی کرنسی کی شرح تبادلہ ہیں۔ طلب اور رسد کی بنیاد پر زر مبادلہ کی شرحیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ تاہم، فاریکس ریٹس کو پاکستان کے معیاری وقت (PST) پر صبح 9:00 بجے اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے اور یہ مارکیٹ کی قوتوں اور غیر ملکی کرنسی کے تقاضوں کی بنیاد پر تبدیلی کے تابع ہیں۔

آج پاکستان میں کرنسی کی شرح تبادلہ – 20 اکتوبر 2023 Read More »

مغربی کنارے کے احتجاجی مظاہروں کے دوران غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔

غزہ: غزہ کے ایک اسپتال میں منگل کے روز ہونے والے دھماکے میں تقریباً 500 فلسطینی ہلاک ہو گئے جس کے بارے میں فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک اسرائیلی فضائی حملے کی وجہ سے ہوا تھا لیکن اسرائیلی فوج نے “فلسطینی جنگجو گروپ کی جانب سے ناکام راکٹ لانچ” کا الزام لگایا۔7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیلی کمیونٹیز پر سرحد پار حماس کے ایک مہلک حملے کے بدلے میں اسرائیل کی جانب سے گنجان آباد علاقے کے خلاف بے لگام بمباری کی مہم شروع کرنے کے بعد سے یہ دھماکہ غزہ میں سب سے خونریز ترین واقعہ تھا یہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اسرائیل کے دورے کے موقع پر ہوا ہے تاکہ غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والے حماس کے ساتھ جنگ ​​میں ملک کی حمایت کا اظہار کیا جا سکے اور یہ سننے کے لیے کہ اسرائیل کس طرح شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ رائٹرز آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ دھماکے کا ذمہ دار کون تھا۔ غزہ میں حماس کے زیرانتظام حکومت کی وزیر صحت مائی الکائیلہ نے اسرائیل پر قتل عام کا الزام لگایا۔ غزہ کے ایک شہری دفاع کے سربراہ نے کہا کہ 300 افراد ہلاک ہوئے اور وزارت صحت کے ایک اہلکار نے کہا کہ 500 افراد ہلاک ہوئے۔منگل کے واقعے سے پہلے، غزہ میں صحت کے حکام نے کہا تھا کہ اسرائیل کی 11 روزہ بمباری میں کم از کم 3,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جو 7 اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیلی قصبوں اور کبوتز میں گھسنے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1,300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔تاہم، اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے العہلی العربی اسپتال میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا، اور تجویز کیا کہ اس اسپتال کو انکلیو کے فلسطینی اسلامی جہاد ملٹری گروپ کے ناکام راکٹ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ایک ترجمان نے کہا، “آئی ڈی ایف کے آپریشنل سسٹمز کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ راکٹوں کا ایک بیراج غزہ سے فائر کیا گیا تھا، جو غزہ میں الاہلی ہسپتال کے قریب سے گزرا تھا، جس وقت اسے نشانہ بنایا گیا تھا۔” ترجمان نے مزید کہا کہ “ہمارے ہاتھ میں متعدد ذرائع سے حاصل ہونے والی انٹیلی جنس اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ کے ہسپتال کو نشانہ بنانے والے ناکام راکٹ کے لیے اسلامی جہاد ذمہ دار ہے۔” اسلامی جہاد کے ترجمان، داؤد شہاب نے رائٹرز کو بتایا: “یہ جھوٹ اور من گھڑت ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ قابض اس خوفناک جرم اور قتل عام پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جو انہوں نے شہریوں کے خلاف کیے تھے۔ 2021 میں اسرائیل اور حماس کے آخری تنازع کے دوران، اسرائیل نے کہا کہ حماس، اسلامی جہاد اور دیگر جنگجو گروپوں نے غزہ سے تقریباً 4,360 راکٹ فائر کیے جن میں سے تقریباً 680 اسرائیل اور غزہ کی پٹی میں گرے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں فلسطینی سیکیورٹی فورسز نے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے اور صدر محمود عباس کے خلاف نعرے بازی کی کیونکہ دھماکے کے بعد عوام کا غصہ ابل پڑا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ فلسطینی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں مغربی کنارے کے کئی دوسرے شہروں میں شروع ہوئیں، جن پر عباس کی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہسپتال میں ہونے والے دھماکے کا ذمہ دار کون تھا، جس کے بارے میں حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے مریض، خواتین اور بچے مارے گئے اور دیگر بے گھر ہو گئے، یہ ممکنہ طور پر بحران پر قابو پانے کے لیے اور بھی پیچیدہ سفارتی کوششیں کرے گا۔ ایک سینئر فلسطینی اہلکار نے بتایا کہ عباس نے دھماکے کے بعد بائیڈن کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ یہ ملاقات اردن میں ہونے والی تھی، جہاں عباس کی رہائش ہے، لیکن فلسطینی عہدیدار نے کہا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ان کی حکومت کی نشست رام اللہ واپس جا رہے ہیں۔ حماس کے حکام کی جانب سے ابتدائی طور پر منگل کے اسپتال میں ہونے والے دھماکے کا الزام اسرائیلی فضائی حملے پر عائد کرنے کے بعد، عرب ممالک، ایران اور ترکی نے اس کی شدید مذمت کی۔ فلسطینی وزیر اعظم نے اسے “ایک ہولناک جرم، نسل کشی” قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک بھی اس کی ذمہ داری لیتے ہیں۔

مغربی کنارے کے احتجاجی مظاہروں کے دوران غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔ Read More »

رحیم یار خان میں ‘غیر قانونی طور پربارڈر عبور’ کرنے پر بھارتی نوجوان گرفتار

بپن کے خلاف فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت ایف آئی آر درج، اس کے قبضے سے 110 ہندوستانی روپے ملے مقامی حکام نے رحیم یار خان میں سرحد عبور کرنے کے الزام میں ایک بھارتی نوجوان کو گرفتار کر لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، 17 سالہ بپن مبینہ طور پر 13 اکتوبر کو دیر گئے ہندوستان کے راجستھان سے سرحد کے پاکستانی حصے میں داخل ہوا۔ بپن کو چولستان رینجرز نے گرفتار کیا تھا اور اس کے خلاف ہفتہ کو ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اسے مزید کارروائی کے لیے تھانہ اسلام گڑھ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے خلاف فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی اور تلاشی لینے پر اس کے قبضے سے 110 ہندوستانی روپے کے نوٹ برآمد ہوئے۔ ابتدائی تفتیش کے دوران بپن پاکستان میں اپنی موجودگی کی کوئی معقول جگہ اور وجہ نہیں بتا سکے۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ نوجوان بغیر کسی معقول وجہ کے سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوا۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ بیپن کا تعلق ہندوستان کی ریاست راجستھان سے ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق فرد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

رحیم یار خان میں ‘غیر قانونی طور پربارڈر عبور’ کرنے پر بھارتی نوجوان گرفتار Read More »

Pakstan And India two Cricket Rivals

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘

سنہ 1983 کا کرکٹ ورلڈ کپ، انڈیا کے کچھ کھلاڑیوں کے لیے سیر و تفریح کے موقع سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کرکٹر سندیپ پاٹل لکھتے ہیں کہ ’انڈیا مقابلے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ پچھلے دو کرکٹ ورلڈ کپس میں اس نے شاید ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس لیے ہم انڈیا سے روانہ ہوئے تو عملی طور پر چھٹی کے موڈ میں تھے۔ کرکٹ ہماری پہلی ترجیح نہیں تھی۔‘ مگر ہوا یہ کہ انڈیا نہ صرف سیمی فائنل میں پہنچ گیا بلکہ اس نے اپنے مقابل اور مسلسل تیسرے ورلڈ کپ کے میزبان انگلینڈ کو شکست بھی دے دی۔ انڈیا کو اب 25 جون کو لارڈز کے میدان میں فائنل میں پچھلے دو مقابلوں کے فاتح ویسٹ انڈیز کا سامنا تھا جس نے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا۔ فائنل کھیلنے کے باوجود انڈیا کو لارڈز کے دو پاس نہ ملے کرکٹ مؤرخ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ انڈیا کے سابق وزیر تعلیم سدھارتھ شنکر رے اُن دنوں نجی دورے پر انگلینڈ میں ہی موجود تھے۔ انڈیا فائنل میں پہنچا تو انھوں نے انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر این کے پی سالوے سے یہ میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ ’سالوے نے انگلش کرکٹ بورڈ (ایم سی سی) سے دو ٹکٹوں کے حصول کی درخواست کی۔ گو انڈیا فائنل کھیل رہا تھا مگر اس درخواست کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ لارڈز پر پہلا حق ایم سی سی ارکان کا ہے اور انڈین کرکٹ بورڈ کو اضافی ٹکٹ نہیں دیے جا سکتے۔‘ ’سالوے کو اس پر بہت غصہ آیا اور اس معاملے میں انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے چیئرمین ایئر چیف مارشل نور خان کی حمایت بھی مل گئی۔‘ اس پر مستزاد یہ کہ فائنل مقابلے میں ایم سی سی اراکین کے لیے گراؤنڈ میں مخصوص نشستوں میں سے آدھی خالی رہیں کیونکہ انگلینڈ کے فائنل میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ مقابلہ دیکھنے ہی نہ آئے۔ ٹکٹیں تو نہیں مل سکیں مگر کپل دیو کی قیادت میں انڈیا نے 1983کے ورلڈ کپ کا فائنل جیت لیا۔ کیوں نہ اگلے ورلڈکپ کے میزبان انڈیا اور پاکستان ہوں؟ اگلے روز لنچ پر سالوے اور نور خان پھر اکٹھے تھے۔ پیٹراوبورن پاکستانی کرکٹ کی تاریخ پر اپنی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سالوے ٹکٹیں نہ ملنے پر شدید غصے میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ کاش فائنل انڈیا میں ہوتا۔‘ نور خان فوراً بولے: ’ہم اگلا ورلڈ کپ اپنے ملکوں میں کیوں نہیں کھیل سکتے؟‘ سالوے نے فوراً نور خان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ (سالوے نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعے کو یوں ہی بیان کیا ہے۔) اوبورن لکھتے ہیں کہ ’پہلے دونوں کو اپنی اپنی حکومتوں کو قائل کرنا تھا۔ نور خان کے جنرل ضیا کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور سالوے تھے ہی (انڈیا کے وزیرِاعظم) راجیو گاندھی کی کابینہ کے وزیر۔‘ اسی سال 1983 میں نور خان نے پہلی ایشیئن کرکٹ کانفرنس کے انعقاد میں مدد کی جہاں یہ تجویز پیش کی گئی اور انڈیا، پاکستان اور سری لنکا نے جنوبی ایشیا میں ورلڈ کپ کے انعقاد کی تجویز کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ سری لنکن بورڈ کے سربراہ گامنی ڈسانائیکے نے اس شرط پر ہاں میں ہاں ملائی کہ اُن کے ملک کا اس ایونٹ میں کوئی مالیاتی حصہ نہیں ہو گا، یوں ایک طرح سے یہ انڈیا اور پاکستان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کے مشترکہ خواب کو تعبیر کریں۔ اوبورن کے مطابق ’سالوے اور نور خان نے ایشین کرکٹ کونسل بنائی۔ اس کی تشکیل میں سری لنکا نے بھی ساتھ دیا، جسے تازہ تازہ ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ ملا تھا۔ بنگلا دیش، ملائشیا اور سنگا پور دیگر بانی ارکان تھے اور سالوے اس کے پہلے صدر بنے۔ یوں عالمی کرکٹ میں ایک نئے ووٹنگ بلاک کا اضافہ ہوا۔ رسمی تجویز کا مسودہ تیار کیا گیا۔ دوسری جانب آئی سی سی نے ورلڈ کپ کی میزبانی کسی اور ملک کو دینے کی تجویز کی مخالفت میں قانونی اعتراضات کااستعمال کیا۔‘ انڈیا اور پاکستان کو اس کی توقع تھی اُس دور میں کرکٹ کا ڈھانچا بہت مختلف تھا۔ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ ’انگلش کرکٹ بورڈ کا سربراہ خود بخود آئی سی سی کا سربراہ بن جاتا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے پاس ویٹو کا اختیار تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایشیئن بلاک کی تجاویز کو ایم سی سی بغیر وضاحت کے بھی مسترد کر سکتا تھا۔‘ نور خان نے انڈیا، پاکستان جوائنٹ مینجمنٹ کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی اور این کے پی سالوے کو اس کی سربراہی کے لیے کہا جبکہ بِندرا اس کے سیکریٹری بنے۔ ’ایک غیر رسمی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر جگموہن ڈالمیا نے آئی سی سی کے لیے اپنی تجویز میں لکھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کو پوری دنیا میں گھمایا جائے اور 1987 کے بعد آسٹریلیا کو 1992 میں کپ کی میزبانی کا حق دیا جائے۔‘ اور یوں پہلی دراڑ پیدا ہوئی۔ ’آسٹریلین کرکٹ بورڈ( اے سی بی) کے چیئرمین فریڈ بینیٹ نے پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ بورڈز کو ضمانت دی کہ آسٹریلیا خفیہ رائے شماری میں اُن کی تجویز کے حق میں ووٹ دے گا۔ بینیٹ نے یقین دلایا کہ وہ اس تجویز کو ویٹو نہیں کریں گے۔‘ ’آئی سی سی میں کل ووٹ 37 تھے۔ ٹیسٹ کھیلنے والے آٹھ ممالک کے دو، دو کے حساب سے 16 ووٹ تھے اور باقی ووٹ ایسوسی ایٹ ممالک کے تھے۔ انگلینڈ آئی سی سی کے وسائل کا صرف 40 فیصد ایسوسی ایٹ ممالک کو دیتا تھا۔‘ ’آئی پی جے ایم سی نے ایسوسی ایٹ ممالک کو اس سے چار گنا ریونیو کی پیشکش کی جو انگلینڈ انھیں دے رہا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کو پانچ گنا زیادہ آمدنی کی پیشکش کی جو انگلینڈ اس وقت تک دے رہا تھا۔‘ ’نسیم حسن شاہ میز پر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر ووٹ دیا‘ آئی پی جے ایم سی نے ووٹنگ میں 16-12 سے کامیابی حاصل کی لیکن انگلینڈ نے اعتراض اٹھا دیا۔ امرت ماتھر لکھتے

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘ Read More »

فری لانسنگ کے ذریعے تعلیمی اخراجات اٹھانے والے پاکستانی طلبہ کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟

حال ہی میں سکھر کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے اپنے طلبہ کو بذریعہ ای میل وارننگ دی کہ ’اگر کوئی فری لانس کام کرتا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ دینا پڑے گا۔‘ طلبہ نے فوراً اس تنبیہ کی شدید مخالفت کی، جیسے کرن خان نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ یونیورسٹی میں ’فوٹو کاپی ہی اتنی مہنگی ہے۔ فیس کے علاوہ اتنی اسائنمنٹس اور نوٹس کے پیسے انھی کاموں سے پورے ہوتے ہیں۔ کوئی کسی بالغ کو روزمرہ کے خرچوں کے لیے پیسے کمانے سے نہیں روک سکتا۔‘ ادارے کی وارننگ کے بعد کرن کی طرح کئی لوگوں نے ناراضی ظاہر کی۔ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ ’اگر ان کو طلبہ کی اتنی فکر ہے تو انھیں اپنی فیس کم کر دینی چاہیے۔‘ مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثرہ کئی پاکستانیوں کے لیے پیسے کمانا فری لانسنگ کے ذریعے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ پاکستانی طلبہ پڑھائی کے دوران فری لانسنگ کرنے پر کیوں مجبور؟ آئی بی اے کی تنبیہ پر اکثر طلبہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ایک تعلیمی ادارہ طلبہ کو آمدن کمانے اور خود کفیل ہونے سے کیسے روک سکتا ہے۔ ہم نے سکھر میں آئی بی اے کی انتظامیہ سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ’یہ ای میل طلبہ کو ایک وارننگ کے طور پر بھیجی گئی تھی کیونکہ پوری کلاس لیب میں فری لانسنگ کرنے میں مصروف تھی جبکہ ٹیچر کلاس میں انتظار کر رہے تھے۔‘ واضح رہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی ہے کہ طلبہ کے لیے 75 فیصد حاضری لازمی ہے۔ ادارے نے اس ای میل کو جلد ہی واپس لے لیا اور اب سٹوڈنٹس کو بتایا گیا ہے کہ وہ ’ایک مخصوص وقت میں فری لانسنگ کر سکتے ہیں۔‘ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر طلبہ اپنی پڑھائی کے دوران کام کیوں کرتے ہیں۔ پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے طالبعلم داؤد قیوم کہتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران ہونے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ ’میں پشاور میں عینک اور بچوں کے کھلونے وغیرہ روڈ کنارے یا فُٹ پاتھ پہ بیچتا ہوں اور اس سے اپنے ہاسٹل کا خرچہ نکالتا ہوں۔ دن میں تقریباً تین سو سے پانچ سو تک کماتا ہوں۔‘ لیکن اُن کا خیال ہے کہ تعلیم کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ داؤد کے بقول ’یہ تعلیم پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ اُن کے دماغ میں یہ چل رہا ہوتا ہے کہ شام کو روٹی کیسے ملے گی۔ وہ خرچہ اور فیس وغیرہ کہاں سے پورا کریں گے۔ تو اس کی وجہ سے آدھا دماغ کام کی طرف جاتا ہے۔‘ دنیا بھر میں بیشتر طلبہ اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مختلف کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ رجحان عام ہے۔ ماضی میں اکثر سٹوڈنٹس کی پہلی ترجیح اپنے اور دوسروں کے گھروں یا سینٹرز میں جا کے ٹیوشن دینا ہوتی تھی۔ البتہ اب دور بدل گیا ہے اور انٹرنیٹ نے بہت سے مواقع پیدا کر دیے ہیں۔ طلبہ فری لانسنگ کے مختلف کاموں کے ذریعے پیسے بنا رہے ہیں۔ کچھ طلبہ سیلز پرسن ہیں تو کچھ بطور فوڈ ڈیلیوری رائیڈر کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو رائیڈ ہیلنگ ایپس کے ساتھ ڈرائیونگ کر کے آمدن حاصل کرتے ہیں۔ کیا پارٹ ٹائم کام کرنے سے پڑھائی متاثر ہوتی ہے؟ بیشتر طلبہ کا خیال ہے کہ وہ اپنی تعلیم کے دوران ہی خود کفیل ہو کر اپنے والدین پر پڑنے والے معاشی بوجھ کو بانٹنا چاہتے ہیں۔ لیکن ملازمت کی وجہ سے اُن کی پڑھائی کا کتنا حرج ہوتا ہے؟ کراچی کی ایک مقامی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے سٹوڈنٹ انس الرحمان بطور ٹیچر ایک ادارے میں پڑھاتے بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی اُن کی اپنی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔ ’جیسے ایک ایسا وقت بھی آیا کہ میرے سٹوڈنٹس کا پرچہ تھا اور میرے اپنے بھی امتحانات چل رہے تھے۔‘ گھر میں ہی ٹیوشنز دینے والی کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے نام ظاہر کیے بنا کہا کہ ’اگر کام نہیں کر رہی ہوتی تو ظاہر سی بات ہے ٹائم زیادہ بچتا اور ہم اپنی سٹڈیز پہ زیادہ توجہ دے سکتے۔‘ کراچی کی محمد علی جناح یونیورسٹی میں گریجویشن کی ایک طالبہ بولیں کہ ’بیکنگ کا بہت زیادہ شوق ہے جو میں کر نہیں پاتی کیونکہ ٹائم مینیج نہیں ہو پاتا۔‘ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ آیا جاب کرنے والے طلبہ کو اپنے تعلیمی ادارے کی کتنی سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ تاریخ کی سٹوڈنٹ کائنات بلوچ کراچی یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سینٹر فار یورپ کی طالبہ ہیں۔ خوش قسمتی سے اُنھیں بطور ریسرچ اسسٹنٹ ایک سرکاری ادارے میں کام مل گیا اور اُن کے تعلیمی ادارے نے اُنھیں مکمل سپورٹ کیا۔ اُن کے ٹیچرز نے دیگر طلبہ کو اپنے کلاس نوٹس کائنات سے شیئر کرنے کی تلقین کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں ریسرچر ہوں، مجھے سائٹ پہ جانا پڑتا ہے۔ کانفرنسز ہوتی ہیں، اُن کی تیاری کرنی پڑتی ہے تو ایسے میں میرے تعلیمی ادارے کی طرف سے سپورٹ ملی۔‘ لیکن تھکا دینے والے سفر، پراجیکٹس اور اسائنمنٹس کی وجہ سے روزانہ ایک رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ یہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ اسی طرح محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کے ایک طالبِ علم آفاق احمد نے بتایا کہ ’یونیورسٹی کی بہت بڑی سپورٹ ہوتی ہے جیسے جب ہماری رجسٹریشن ہوتی ہے تو ہم ایڈوائزر کو بتا دیتے ہیں کہ ہم ساتھ ساتھ جاب بھی کر رہے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ کافی تعاون کرتے ہیں۔‘ پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ لڑکیوں کو ایک مخصوص وقت کے بعد ہاسٹل سے باہر رہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کے بقول ’ہاسٹل میں رہتے ہوئے ہم فری لانس کام کرتی ہیں لیکن ہاسٹل سے باہر ہم جاب نہیں کرسکتیں۔‘ ’اگر یہی سٹوڈنٹس کسی ایک کے بجائے کسی گروپ کو یا ٹیوشن سینٹر میں پڑھانے لگیں تو اُن کی پریزینٹیشن کی صلاحیت بھی بہتر ہوسکتی ہے۔ اُن میں سٹیج کا سامنا کرنے کی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے۔‘ دنیا تیزی سے بدل رہی

فری لانسنگ کے ذریعے تعلیمی اخراجات اٹھانے والے پاکستانی طلبہ کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟ Read More »