Inspirational

Flames of Tradition in Jodhpur Rajistan India

ایسی دودھ کی دکان جہاں ہانڈی کا چولہا مسلسل 74 سال سے جل رہا ہے

راجستھان: جودھ پور کے مرکز میں ایک مخصوص دودھ کی دکان نسلوں تک ہانڈی کی آگ مسلسل جلتے رہنے کے دعوے کی وجہ سے کافی وائرل ہورہی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جودھ پور میں سوجتی گیٹ کے قریب واقع یہ غیر معمولی دودھ کی دکان بڑے فخر کے ساتھ دعویٰ کرتی ہے کہ جس آگ پر دودھ کی ہانڈی رکھی جاتی ہے، وہ 1949 سے جل رہی ہے۔ دکان کے مالک وپل نیکوب کا کہنا تھا کہ میرے دادا نے 1949 میں یہ کام شروع کیا تھا۔ 1949 سے یہ آگ جل رہی ہے۔ دکان روزانہ کی بنیاد پر 22 سے 24 گھنٹے کھُلی رہتی ہے جس میں دودھ کو روایتی طور پر کوئلے اور لکڑی کی آگ سے گرم کیا جاتا ہے۔ وپل نیکوب نے مزید کہا کہ اس دکان کو کھُلے ہوئے تقریباً 75 سال ہو گئے ہیں اور ہم نسل در نسل کام کر رہے ہیں۔ میں تیسری نسل سے ہوں اور یہ دکان یہاں کی روایت بن گئی ہے۔ ہماری دودھ کی دکان مشہور ہے۔ لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور ہمارا خالص بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کامیابی سے کاروبار چلا رہے ہیں۔

ایسی دودھ کی دکان جہاں ہانڈی کا چولہا مسلسل 74 سال سے جل رہا ہے Read More »

ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والا دنیا کا سب سے بڑا خاندان

میزورام: (ویب ڈیسک) بھارت میں ایک ایسا گھر ہے جس کی چھت کے نیچے ایک ہی خاندان کے 199 افراد بسیرا کرتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاست میزورام کے گاؤں بکتونگ میں دنیا کے سب سے بڑے خاندان کا گھر ہے جس کے 199 افراد ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں۔ زیونا اس فیملی کے سرپرست تھے جن کی 38 بیویاں، 89 بچے اور 36 پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں رہتے ہیں۔ زیونا کا انتقال 2021 میں 76 سال کی عمر میں ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی وجہ سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوا۔ تاہم ان کا خاندان بکتونگ کی پہاڑیوں میں تعمیر کئے گئے کمپلیکس زیونا میں ایک ہی چھت کے نیچے رہ رہا ہے، زیونا کے کچھ بچے شادی شدہ ہیں اور کچھ کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں ہیں، خاندان کے ارکان کی تعداد اب 199 ہے۔ یہ تمام افراد دن میں دو بار کھانے کے موقع پر اپنے گھر کے گریٹ ہال میں جمع ہوتے ہیں اور اس وقت یہ گھر کے ڈائننگ روم سے زیادہ ایک مصروف کینٹین کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے، اراکین روزانہ کام کاج سے لے کر خوراک اور مالیات تک سب کچھ آپس میں بانٹتے ہیں۔ زیونا کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وہ زیونا کی میراث کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں

ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والا دنیا کا سب سے بڑا خاندان Read More »

Ghazi ilm Ud din Shaheed

غازی علم الدین شہیدؒ

لاہور: (صاحبزادہ پیر مختار احمد جمال تونسوی) اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آنے والی اس دنیائے فانی میں اگر کوئی سب سے قیمتی سرمایہ ہے تو وہ فقط ’’محبت ِرسول ﷺ‘‘ہی ہے، یہ ایسا خوبصورت اور انمول سرمایہ ہے کہ جسے ’’فنا‘‘ نہیں بلکہ ’’بقا‘‘ہی بقا ہے۔ بطور مسلمان ہونا، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اپنے دامن میں محبت رسول عربیﷺ کے گوہر نایاب کو سمیٹا جائے، کیونکہ اللہ کے حبیب ﷺ سے محبت ایمان کی شرط ِ اوّل ہے، رسولِ کریم ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ ’’کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا کہ جب تک وہ اپنے مال، اولاد، والدین اور دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرتا ہو‘‘۔ رحمت عالمﷺ کی اِس پیاری امت میں آپ ﷺ سے محبت کرنے والے اور ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے قربان ہونے والے روشن ستاروں کی طرح چمکتے دمکتے عاشقان رسولﷺ ہر دور میں ہی دنیا کے ماتھے کا جھومر رہے ہیں، اُمت مسلمہ کے یہ وہ عظیم مرد مجاہد ہوتے ہیں کہ جو ہمیشہ کیلئے امر ہوتے ہوئے حقیقی معنوں میں رب ِقدوس کی عطا کردہ زندگی با مقصد بنا جاتے ہیں۔ غازی علم دین شہیدؒ بھی انہی ستاروں میں سے ایک روشن ستارہ ہیں جنہوں نے گستاخ رسول ہندو راجپال کو جہنم واصل کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ یہ مرد ِمجاہد اور عاشق رسول 4 دسمبر 1908ء بروز جمعرات اندرون شہر لاہور میں پیدا ہوئے، آپؒ کے والد طالح محمد بڑھئی کا کام کرتے تھے، علم دینؒ ابھی ماں کی گود میں ہی تھے کہ ایک روز اُن کے دروازہ پر ایک فقیر نے دستک دی اور صدا لگائی، آپؒ کی والدہ نے آپؒ کو اٹھائے ہوئے، اس سوال کرنے والے کو حسبِ استطاعت کچھ دینے کیلئے گئیں، جب اللہ کے اُس بندے کی نظر آپؒ پر پڑی تو اللہ والے نے آپؒ کی والدہ سے کہا کہ ’’تیرا یہ بیٹا بڑے نصیب والا ہے، اللہ نے تم پر بہت بڑا احسان کیا ہے تم اس بچے کو سبز کپڑے پہنایا کرو‘‘۔ علم دین قدرے بڑے ہوئے تو آپؒ کے والد نے آپؒ کو محلہ کی ایک مسجد میں داخل کروا دیا، غازی علم دین تعلیمی سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکے اور آپ کے والد اپنے ساتھ کام پر لے جانے لگے ،زندگی کے شب و روز ہنسی خوشی بسر ہوتے رہے، جب آپؒ جوان ہوئے تو ماموں کی بیٹی سے منگنی کر دی گئی، انہی دنوں ایک ہندو پبلشر راجپال نے حضور اقدسﷺ کی شانِ مقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ناقابلِ برداشت خیالات پر مبنی کتاب شائع کی، جس کی اشاعت پر ہندوستان بھر کے مسلمان آگ بگولہ ہوتے ہوئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھے۔ اس سلسلہ میں عبدالعزیز اور اللہ بخش نے بدبخت راجپال کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو کی مگر ناکام رہے، عدالت نے حملہ کرنے کے جرم میں دونوں کو سخت سزائیں دیں، انگریزوں کی حکومت تھی، انگریز اور ہندو مسلم دشمنی کی بنا پر ایک ہی ڈگر کے مسافر تھے اور راجپال اور اس کی مکروہ کتاب کی اشاعت کے تحفظ کرنے میں پیش پیش تھے، اس کے علاوہ مولوی نور الحق مرحوم (جو اخبار ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ کے مالک تھے) نے اخبار میں راجپال کے خلاف لکھا تو اُنہیں بھی دو ماہ کی سزا کے ساتھ ایک ہزار روپیہ جرمانہ کیا گیا۔ مسلمان جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے کر رہے تھے، جلسے جلوس اور اخبارات خبروں سے بھرپور تھے،غالباً 31 مارچ یا یکم اپریل تھا کہ غازی علم دین شہیدؒ نے اپنے بڑے بھائی شیخ محمد دین کے ساتھ ایک جلسہ میں نوجوان مقرر کو سُنا، جو راجپال اور اُس کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کے دکھ کا اظہار کر رہا تھا اور مسلمانوں کو بیدار کر رہا تھا کہ جاگو مسلمانو جاگو! بد بخت راجپال واجب القتل ہے، ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں قربان کر دو‘‘۔ تقریر کے ان سنہری الفاظ نے علم دین شہیدؒ کے قلب و روح میں ایک ہلچل سی مچا دی، ان الفاظ کی گونج لئے ہوئے گھر پہنچے اور گستاخِ رسول کو قتل کرنے کا عہد کیا۔ 6 اپریل 1929ء کو انار کلی سے ایک چھری خریدی اور اُسے خوب تیز کروا کر عشرت پبلشنگ ہاؤس کے سامنے واقع دفتر پہنچے کہ راجپال بھی اپنی کار میں وہاں آ گیا، بدبخت راجپال کو دیکھتے ہی علم دینؒ کی آنکھوں میں خون اُتر آیا، راجپال کی حفاظت کے لئے حکومت نے پولیس تعینات کر رکھی تھی لیکن اس وقت راجپال کی ہر دوار یاترا سے واپسی کی اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے پولیس اہلکار حفاظت کیلئے ابھی نہیں پہنچے تھے۔ راجپال اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اپنی آمد کی اطلاع دینے کیلئے فون کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ عظیم مردِ مجاہد غازی علم دینؒ دفتر کے اندر داخل ہوگئے، اُس وقت راجپال کے دو ملازم کیدار ناتھ اور بھگت رام موجود تھے لیکن اُن دونوں کی موجودگی علم دین کے جذبے کے آگے بے دم ہو کر رہ گئی اور اُنؒ کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکی، علم دینؒ نے چھری کے پے در پے وار کرتے ہوئے بدبخت راجپال کو جہنم واصل کر دیا، بعد میں علم دین کو گرفتار کر لیا گیا اور دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ 10 اپریل ساڑھے دس بجے مسٹر لوائسٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی، استغاثہ کی طرف سے ایشر داس کورٹ ڈی ایس پی پیش ہوا، جبکہ علم دینؒ کی طرف سے مسٹر فرخ حسین بیرسٹر اور خواجہ فیروز الدین بیرسٹر رضا کارانہ طور پر پیش ہوئے اور اُن کی معاونت کیلئے ڈاکٹر اے آر خالد نے اپنی خدمات سر انجام دیں۔ 22 مئی 1929ء کو سیشن جج لاہور نے علم دینؒ کو سزائے موت کا حکم سنایا، 15 جولائی کو غازی علم دینؒ کو سنائی جانے والی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی، جس کی سماعت جسٹس براڈ وے وجسٹس جانسن نے کی اور 17 جولائی کو یہ اپیل خارج کر دی گئی جس کے خلاف پریوی کونسل میں کوشش کی گئی، جو

غازی علم الدین شہیدؒ Read More »

جب پنڈت کشور لال کی چتا کو آگ نے نہ چھوا

پنڈت نول کشور کو کیوں دفن کیا گیا  اس کی چتا پر کئی ٹین گھی کے ڈالے گئے تھے لیکن چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی . وہ کوئی عام ہندو نہیں تھا انڈیا کا بہت بڑا نام تھا. اس لئے اس کی چتا کو آگ نہ لگنے والے واقعے کی خبر منٹوں میں پورے انڈیا میں پھیل گئی .  لوگ جوق در جوق شمشان گھاٹ پہنچنے لگے . اس کی جامع مسجد دلی کے امام بخاری سے بہت دوستی تھی امام صاحب بھی یہ واقعہ سن کر فورآ شمشان گھاٹ پہنچے . انہوں نے اس کے لواحقین کو سمجھایا کہ اس کی ارتھی کو آگ نہیں لگے گی چاہے پورے ھندوستان کا گھی اس پر ڈال دو . بہتر یہی ہے اسے دفنا دو.  لہذا پہلی بار ایک ہندو کو جلائے بغیر شمشان گھاٹ کے اندر ہی دفن کرنا پڑا . اس کی ارتھی کو آگ کیوں نہیں لگ رہی تھی ؟ اس کو آگ کیسے جلا سکتی ہے جس نے قرآن کا احترام مسلمانوں سے بھی بڑھ کر کیا ھو . کیسے؟ چلیے تاریخ کے صفحوں کو پلٹتے ہیں  تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے . پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے. دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوسکا. نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی. دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا. وقت گزرتا رھا طباعت و اشاعت کا کام جاری رھا۔ پھر برصغیر کی تقسیم ھوئی۔ مسلمان ھندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے۔ نول کشور جی بھی لاھور سے ترک سکونت کرکے نئی دلی انڈیا چلے گئے۔  ان کے ادارے نے دلی مین بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وھی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔نول کشور جی بوڑھے ھوگئے اور اب گھر پر آرام کرنے لگے جبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسہ اسی طرح قائم رکھا۔  آخرکار نول کشور جی کا وقت آخر آ گیا اور وہ انتقال کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ھاں پہنچے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ھونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے۔ ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا ۔ چتا پر گھی ڈال کر آگ لگائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ھوا۔ نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رھی تھی۔چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود۔ یہ ایک ناممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔ پہلے کبھی ایسا نہین ھوا تھا۔ لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہین لگ رھی۔  مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رھے تھے اور حیران و پریشان تھے۔ یہ خبر جب جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شماشان گھاٹ پہنچے۔ نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔  اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔ امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتے ھوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہین ھو پائے گی۔ اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ھے جیسے احترام کیا ھے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ھی نہیں سکے گی چاھے آپ پورے ھندوستان کا تیل گھی چتا پر ڈال دیں۔  اس لئے بہتر ھے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئیے۔ چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتے ھوئے نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ھندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا ۔ میں نہیں جانتا اس  ہندو   کا آخرت میں کیا انجام ھوگا لیکن اتنا جان گیا ہوں کہ دنیا میں اس کو آگ لگانا ناممکن ہو گیا تھا کیا آخرت میں آگ اس کے سامنے بے بس ھو جائے گی؟۔  میں یہ بھی سوچ رھا ھوں ایک ہندو احترام قران میں اس دنیا کی آگ سے محفوظ رہا ہم  اس کتاب پر ایمان لانے والے اگر اس کی صحیح قدر کریں گے تو یہ آگ ھمیں جہنم کی آگ سے کیوں نہیں بچائے گی؟۔  انشااللہ میرا ایمان ہے ضرور بچائے گی۔۔۔۔۔

جب پنڈت کشور لال کی چتا کو آگ نے نہ چھوا Read More »

Ottoman Empire Ertugural

سلطنت عثمانیہ: ارطغرل کون تھے؟

    رطغرل غازی کے نام سے ایک ترک ڈرامہ پاکستان ٹیلی ویژن پر اردو زبان میں نشر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اردو زبان میں ڈبنگ سے قبل یہ ڈرامہ پاکستان میں اس حد تک مقبول ہے کہ اس کے مداحوں میں وزیراعظم عمران خان کو بھی گنا جاتا ہے جو اس میں دکھائی گئی ’اسلامی تہذیب‘ کی تعریف کر چکے ہیں۔ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔ اس کے علاوہ ان کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کئی صدیوں تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والے اس خاندان اور سلطنت کا آغاز تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں عثمانی روایات کے علاوہ اس دور کی دو ٹھوس نشانیاں (ایک سکہ اور بازنطینی سلطنت کے مؤرخ کی ایک تحریر) اور عثمان کے ایک خواب کا ذکر ملتا ہے جس کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔ جو بات طے ہے وہ یہ کہ عثمان کا تعلق آج کے ترکی میں اناطولیہ کے علاقے میں آباد ترک خانہ بدوش قبیلے سے تھا اور اس کی حکومت اناطولیہ کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں سے ایک تھی جن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عثمان یا پھر ان کے والد نے ایسا کیا کیا کہ صرف اسی خاندان کا راج قبیلے سے چھوٹی ریاست اور پھر اناطولیہ کی بڑی سلطنت بننے سے تین بر اعظموں میں پھیلا اور پھر خلافت میں تبدیل ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد 14 ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی اور یہ 20 ویں صدی میں ختم ہوئی۔ اس دوران ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 37 سلطان اس کی مسند پر بیٹھے۔ ایک مؤرخ کے مطابق کسی خاندان کا مسلسل اتنی دیر حکومت کرنا معجزے سے کم نہیں ہے۔ مؤرخ کیرولائن فنکل اپنی کتاب ’عثمان کا خواب: سلطنت عثمانیہ کی کہانی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’عثمانیوں کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان کی اناطولیہ (وہ علاقہ جو کسی حد تک آج کے ترکی کی حدود سے مطابقت رکھتا ہے) میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ دو صدیوں پر پھیلی ہوئی لڑائی انتہائی سخت تھی۔‘ ارطغرل کے بارے میں عثمانی روایت مؤرخ سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب ’سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی‘ میں اسی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’سلطنت عثمانیہ کی شروعات تاریخ کے طالب علموں کے لیے ہمیشہ سے اہم سوال رہا ہے لیکن اس دور کے ذرائع کی کمی اور بعد کے ادوار میں لکھی گئی روایات میں تضاد کی وجہ سے پورے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔‘ انھوں نے اسی مشہور روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ عثمانیوں کا جد امجد سلمان شاہ تھے جو قائی قبیلے کے سردار تھے اور 12 ویں صدی کے آخر میں شمالی ایران کے ایک علاقے میں آباد رہے۔ روایت کے مطابق منگول حملوں کے پیش نظر دیگر بہت سے ترک قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی غلامی اور تباہی سے بچنے کے لیے نئے علاقوں کی طرف روانہ ہوا اور جے شا کے مطابق خیال ہے کہ سلمان شاہ شام میں داخل ہوتے ہوئے دریائے فرات میں ڈوب گئے اور اس کے بعد ان کے دو بیٹے واپس چلے گئے۔ جبکہ ارطغرل نے مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور اناطولیہ کے علاقے میں داخل ہوگئے جہاں سلجوق حکمرانوں نے ان کی مدد کے بدلے انھیں اناطولیہ کے مغربی علاقے میں زمین دے دی۔ جے شاہ کی کتاب میں درج اس روایت کے مطابق ارطغرل 1280 میں چل بسے اور قبیلے کی قیادت ان کے بیٹے عثمان کو مل گئی۔ فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل نامی ایک قبائلی سردار شمال مغربی اناطولیہ میں آ کر سلجوق اور بازنطینی سلطنتوں کے بیچ کے علاقے میں آباد ہوا اور اس روایت کے مطابق سلجوق سلطان نے ارطغرل کو سوگت میں کچھ علاقہ عطا کیا تھا۔ لیکن ارطغرل کا عثمان سے کیا تعلق تھا؟ نامعلوم تاریخ والا سکہ فنکل لکھتی ہیں کہ عثمان کے دور سے ملنے والا واحد سکہ اگر اصلی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ارطغرل یقیناً تاریخی شخصیت تھے۔ اس سکے پر درج ہے ’جاری کردہ برائے عثمان ولد ارطغرل‘ درج ہے۔ فنکل مزید لکھتی ہیں کہ عثمان کا اپنے نام پر سکہ جاری کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ اس وقت صرف ایک قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ اناطولیہ میں اپنے آپ کو سلجوق منگول سلطنت کے سائے سے باہر ایک خود مختار امیر سمجھنا شروع ہو چکے تھے۔ تاریخ میں عثمانیوں کا پہلا ذکر فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانیوں کا پہلی بار ذکر سنہ 1300 کے قریب ملتا ہے۔ اس وقت کے ایک بازنطینی مؤرخ نے لکھا کہ سنہ 1301 میں بازنطینی فوج کا سامنا عثمان نامی ایک شخص کی فوج سے ہوا۔ ’جنگ بافیوس‘ کہلانے والی یہ لڑائی قسطنطنیہ (استنبول) کے قریب لڑی گئی تھی اور اس میں بازنطینی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔ لیکن عثمانیوں کا بازنطینی سلطنت کی برابری کرنے میں ابھی بہت وقت تھا۔ اور جب ایسا ہوا تو اس کے ساتھ ہی ایک خاندان کا اچانک گمنامی سے نکل کر اتنا آگے آنے کے بارے میں کئی کہانیوں نے بھی جنم لیا۔ مؤرخ کہتے ہیں کہ عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کا علاقہ قسطنطنیہ کے قریب تھا جس سے کبھی بھی کامیابی کی صورت میں بڑا انعام یقینی تھا۔ عثمان کا خواب مؤرخُ لیسلی پی پیرس نے اپنی کتاب ’دی امپیریل حرم: ویمن اینڈ سوورینٹی اِن دی اوٹومن ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے آغاز کے بارے میں سب سے زیادہ سنی جانے والی روایت کے مطابق عثمان نے اپنی ابتدائی کامیابیوں کے بعد ایک خواب دیکھا تھا۔ اس خواب میں انھوں نے دیکھا کہ ایک درویش شیخ ادیبالی کے سینے سے چاند نمودار ہوتا ہے اور اس کے اپنے سینے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پیٹ سے ایک بہت بڑا درخت نکلتا ہے جس کا سایہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے۔ اس درخت کی شاخوں کے نیچے چشمے بہتے ہیں جن سے لوگ پانی پیتے

سلطنت عثمانیہ: ارطغرل کون تھے؟ Read More »

Usman Rafiq

ہر روز ایک نیا بزنس: پاکستانی یوٹیوبر جو نوجوانوں کو محنت طلب کاروبار کے گُر سکھاتے ہیں

ٹین ڈبہ بیچ، ردی اخبار بیچ، روٹی چھان بورا بیچ۔۔۔ گلی محلوں میں پھیری والوں کی جانب سے بلند ہونے والی یہ صدا یقیناً تمام پاکستانیوں سے سُن رکھی ہو گی۔ کباڑ اکٹھا کرنے والے ریڑھی بان عموماً اسی آواز اور انداز میں اپنا بزنس چلاتے ہیں لیکن کیا کبھی یہ خیال آپ کے ذہن میں آیا کہ آپ یہ کام کرتے ہوئے بھی اچھے پیسے کما سکتے ہیں؟ اگرچہ کباڑ خریدنے والوں کی یہ مخصوص آوازیں لگ بھگ روزانہ میرے کانوں میں پڑتی ہیں مگر کبھی بھی میرے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ بزنس آخر ہے کیا، لیکن لاہور میں رہنے والے 17 سالہ عثمان رفیق یہی نہیں بلکہ ایسے ہی کئی دیگر کاموں کو بغیر کسی عذر کے انجام بھی دے رہے ہیں اور اُن کے مطابق اس سے پیسے بھی کماتے ہیں۔ ناصرف یہ بلکہ وہ اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کو نئے کاروبار کرنے کے طریقے انتہائی پریکٹیکل انداز میں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب اخراجات زندگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں شدید مہنگائی کے باعث اکثر افراد کا جینا دو بھر ہے وہیں عثمان محنت مزدوری کے ذریعے پیسے کمانے کو عام کرنے اور اس کام میں شرم محسوس نہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مشکل مالی صورتحال سے نکلنے کی ترکیب شاید ہر کسی کے پاس ’کاروبار‘ ہوتی ہے لیکن پیسا کہاں لگایا جائے، اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے اکثر افراد ہمت ہی ہار دیتے ہیں۔ عثمان اس بارے میں صارفین کے سامنے کسی بھی کاروبار کی اصلی تصویر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عثمان رفیق اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینل پر ایسے ہی لوگوں کو ’ہر روز نیا کاروبار‘ کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کس کس کاروبار میں پیسے لگا کر اپنا روزگار چلا سکتے ہیں۔ مگر عثمان یہ سب کیسے کر رہیں ہیں اور اُن کو یہ خیال کیسے آیا اُس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ اُنھوں نے وی لاگنگ کب شروع کی تھی؟ ہر روز نیا بزنس کرنے کا خیال کیسے آیا؟ عثمان اس وقت سترہ سال کے ہیں لیکن آج سے چار سال قبل اُنھوں نے یوٹیوب کے ذریعے وی لاگنگ یعنی ویڈیوز بنانے کا کام شروع کیا تھا۔ ان کے کام کو عوام کی جانب سے خوب پسند کیا گیا اور اس کی بنیادی وجہ ان کے مطابق اُن کے چینل کا نام اور زندگی گزارنے کا انداز تھا۔ عثمان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور اس لیے اُنھوں نے یوٹیوب پر اپنے چینل کا نام بھی ’مڈل کلاس عثمان‘ رکھا ہے جو دیکھنے والوں کے لیے اپنائیت کا احساس پیدا کرنے کے لیے اہم تھا۔ چار سال پہلے شروع ہونے والا یہ سفر اب عثمان کو انسٹاگرام پر ایک انفلوئینسر بنا چکا ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے جب وی لاگنگ شروع کی تھی تو میرے پاس ایک مائیک خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔‘ ’مگر اب تو میرے پاس تمام ضروری آلات، لائٹس اور اچھے کیمروں والے فون موجود ہیں۔ میں نے اپنے پیسوں سے چھوٹی گاڑی خریدی ہے اور اپنے سارے خرچے بھی خود ہی پورے کرتا ہوں۔‘ عثمان کے والد گذشتہ 12 سال سے چپس اور سموسے پیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ عثمان بھی اپنے دن کا آغاز اپنے والد کی دکان پر چیزیں فراہم کرنے سے کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں منڈی جا کر اُلو، پیاز اور دیگر چیزیں خرید کر لاتا ہوں، اور پھر چیزیں تیار کروا کے پڑھنے چلا جاتا ہوں اس کے بعد میں کچھ گھنٹے پڑھ کر ویڈیوز بنانا شروع کر دیتا ہوں۔‘ پاکستان میں ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں جو ایک کامیاب وی لاگر بننا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ ایک عرصے سے محنت کر رہے ہیں مگر عثمان نے صرف چار سال میں ہی ایسی کامیابی حاصل کر لی ہے کہ پاکستان کے کئی مشہور وی لاگرز اُن کے ساتھ مل کر ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ ان کی کامیانی کی وجہ ان کا مواد ہے، جسے دیکھ کر لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو وہ خود بھی کر سکتے ہیں۔ اگر عثمان کی جانب سے بنائے گئے مواد کی بات کریں تو انھوں نے کچھ عرصے پہلے انسٹاگرام ریلز کے ذریعے ویڈیوز بنانی شروع کیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں روزانہ دیکھتا تھا کہ لوگ نوکری تلاش کر رہے ہیں، کبھی کوئی نیا بزنس شروع کرنے کا سوچ رہا ہے، مگر کسی بڑے بزنس میں پیسے لگانے سے ہر کوئی ڈر رہا تھا، پھر میں نے سوچا کیوں نہ ایسے لوگوں کو میں خود روزانہ ایک نیا بزنس کر کے آئیڈیا دوں۔‘ عثمان نے جب یہ کام شروع کیا تو انھیں احساس ہوا کہ ’اکثر افراد ٹھیلوں پر چیزیں بیچنے میں ہچکچاٹ محسوس کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے پاکستان جیسے معاشرے میں احساس شرمندگی جڑا ہو۔‘ عثمان کہتے ہیں کہ ’میں روز مرہ کی جو بھی اشیا بیچ رہا ہوتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ لوگ اس طرح محنت کرنے میں کتراتے ہیں، مگر میں لوگوں کو یہی بتانا چاپتا ہوں کہ محنت کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے، اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ کام بڑا ہے یا چھوٹا۔‘ عثمان کے مطابق وہ ایک مہینے میں اپنے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا سے مجموعی طور پر ایک سے دو لاکھ روپے کما لیتے ہیں۔ اچھا بزنس مین بننے کا خواب کیلے لے لو، ٹماٹر لے لو، جوتے پالش کروا لو۔۔۔ اس طرح کے بے شمار آوازیں آپ کو عثمان کے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز پر سننے کو ملیں گی۔ گھر میں استعمال ہونے والی کوئی عام سی چیز بیچنے سے لے کر کباڑ اکٹھا کرنے کے کام تک عثمان نے ہر قسم کا کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں ہر روز نئے نئے کاروبار کرتا ہوں، اُس کے لیے میں ایک دو دن پہلے سے ہی پلان بنا لیتا ہوں کہ میں نہ کیا کاروبار کرنا ہے اور اس میں ایک دن میں کتنا پیسا لگانا ہے۔‘ ’پھر میں صبح کام شروع کرتا ہوں اور

ہر روز ایک نیا بزنس: پاکستانی یوٹیوبر جو نوجوانوں کو محنت طلب کاروبار کے گُر سکھاتے ہیں Read More »

Satyajit with a farmer

دبئی: بینکر سے ملیں جس نے کھیتی باڑی کرنے کے لیے 7 فیگر کی تنخواہ چھوڑ دی۔

  وہ فی الحال ہندوستان میں 2,000 کسانوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں  تاکہ انہیں نامیاتی پیداوار کے ذریعے پہلے کی نسبت 180% زیادہ آمدنی حاصل کرنے میں مدد ملے۔ جب ستیہ جیت ہانگےکو  بچپن میں بورڈنگ اسکول بھیج دیا گیا تو  کو اس کے والدین نے صرف ایک بات کی نصیحت کی تھی – کبھی کسان نہ بنیں۔ لیکن ایک کامیاب بینکر کے طور پر جس نے 7 فیگر کی تنخواہ حاصل کی، لیکن  وہ پھر بھی ناخوش تھا۔ اسی وقت اپنی نوکری چھوڑنے اور کھیتی باڑی پر واپس  اپنے بھائی اجنکیا کے ساتھ  جانے کا فیصلہ کیا۔ آج، برادران ہندوستان میں 2,000 سے زیادہ کسانوں کو ذمہ دارانہ اور پائیدار کاشتکاری کی مشق کرنے کے لیے رہنمائی کرتے ہیں، اور انھیں ملک کی چند سرکردہ شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔ اب، بینکر سے کسان بننے والا، ہندوستان کے چھوٹے فارموں سے مصنوعات اس ملک میں لانے کے لیے دبئی میں ہے۔ “ہماری مصنوعات ہندوستان کی 16 ریاستوں میں 2,000 سے زیادہ کسانوں کے ذریعہ بنائی جاتی ہیں اور نامیاتی گھی سے لے کر آٹے اور قدرتی میٹھے تک مختلف ہوتی ہیں،” ستیہ جیت نے ایگنایٹ پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا۔ “ہمارا متحدہ عرب امارات اور امریکہ میں ایک بہت بڑا کسٹمر بیس ہے۔ دبئی میں ہمارے ایک گاہک، جو برسوں سے ہماری مصنوعات استعمال کر رہی ہے اور اپنی صحت میں فرق محسوس کر رہی ہے، اس برانڈ کو یہاں لانے کے لیے ہم سے رابطہ کیا۔” کٹھن سفر اپنی تمام تر ترقی کے باوجود، ستیہ جیت تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا سفر آسان نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے والدین کسان تھے لیکن وہ ہمارے لیے صرف ایک چیز چاہتے تھے کہ کبھی بھی ان کے نقش قدم پر نہ چلیں۔ “انہوں نے محسوس کیا کہ کسانوں کو معاشرے میں عزت نہیں دی جاتی اور وہ مالی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا، انہوں نے وائٹ کالر نوکریاں کرنے کے لیے ہماری حوصلہ افزائی کی۔ تاہم، بھائیوں نے محسوس کیا کہ ان کی کارپوریٹ ملازمتوں میں کچھ گڑبڑ ہے اور انہوں نے چند سالوں میں اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ “پہلے، اجنکیا نے اپنی نوکری چھوڑ دی اور پھر میں نے ایک سال بعد اس کی پیروی کی،” ستیہ جیت نے کہا۔ “ہماری بیویاں یہ سمجھنےسے قاصر رہی تھیں کہ ہم اپنی اچھی تنخواہ والی نوکریاں کیوں چھوڑ دیں گے اور کھیتوں میں واپس جائیں گے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ ہمارے والدین اس کے سخت خلاف تھے کیونکہ انہوں نے کھیتی باڑی میں اتنی اچھی زندگی کا تجربہ نہیں کیا تھا، لیکن ہم اس کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ کرتے وقت ان کے دماغ میں صرف جذبہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ “ہم کھیتی باڑی میں گئے کیونکہ اسی چیز سے ہمیں مزہ آیا اور ہمارے ذہن میں آخری چیز ایک برانڈ بنانا تھی۔” “یہ ایسی چیز تھی جس نے ہمیں خوشی بخشی اور ہمیں خوش کرتی رہتی ہے۔” ستیہ جیت نے کہا کہ کیریئر میں تبدیلی کے بعد انہیں ایسا لگا جیسے وہ ایک نیا شخص ہوں۔ “جسمانی طور پر، میں پہلے سے بہتر ہوں،” انہوں نے کہا۔ “ذہنی طور پر، میں خوش ہوں. فکری طور پر، میں بہت سی نئی چیزیں سیکھ رہا ہوں۔ روحانی طور پر، میں محسوس کرتا ہوں کہ میں بہتر جذباتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میں دوسری زندگی گزار رہا ہوں۔ فرق کرنا ایک بار جب انہوں نے سوئچ کیا، تو یہ بھائیوں کے لیے سیکھنے کا ایک بڑا موڑ تھا۔ “ابتدائی طور پر اتار چڑھاؤ تھے،” انہوں نے کہا۔ “ہمیں اسے معاشی کامیابی اور سماجی پہچان حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔” بھائیوں کے لیے، دوسرے کسانوں کو پڑھانا کبھی بھی منصوبے کا حصہ نہیں تھا۔ “جب خشک سالی اور سیلاب کے بعد، ہمارے فارم اور نامیاتی طریقے اچھی پیداوار دیتے رہے، کسانوں نے تجاویز کے لیے ہم سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔” بہت ہی نامیاتی انداز میں، زبانی مدد سے، بھائیوں نے 2,000 سے زیادہ کسانوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ ستیہ جیت نے ایک کسان کی مثال دی جس نے اپنے 6 ایکڑ کے کھیت میں کھجور کا بیج لگایا تھا۔ “وہ اس سے بنا ہوا مشروب بیچنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا،” اس نے کہا۔ “لہذا، وہ پوری چیز کو ہٹانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا. اس وقت میرے ایک گاہک نے نولن گڑ کے لیے کہا – ایک گڑ جو کھجور کے رس سے بنا ہے۔” ستیہ جیت کھجور سے بنے گڑ سے ناواقف تھے لیکن انہوں نے اسے کسان کے متبادل کے طور پر تجویز کیا۔ اس نے مزید بنگال سے مزدوروں کو بھرتی کرکے کسان کی حمایت کی۔ “اس سال، اس نے 9,000 کلو کھجور کا گڑ بنایا،” انہوں نے کہا۔ “آج، کسان، جو اس کھیت سے صرف 250,000 روپے (تقریباً 12,500 درہم) کما رہا تھا، اسی کھیت سے 4.5 ملین روپے (تقریباً 225,000 درہم) کما رہا ہے۔”

دبئی: بینکر سے ملیں جس نے کھیتی باڑی کرنے کے لیے 7 فیگر کی تنخواہ چھوڑ دی۔ Read More »

Dev Ratudi

غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے

غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے   دیو رتوڑی کی ایک فلم کا چینی زبان میں پوسٹر بی واٹر مائی فرینڈ۔۔۔’ یعنی آپ پانی کی طرح ہو جاؤ۔ خود کو اتنا لچکدار اور آسان بناؤ کہ آپ ہر صورتحال اور ماحول کے مطابق ڈھل سکو۔ اس ڈائیلاگ سے اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہوئے دیو رتوڑی کہتے ہیں: ’میری زندگی میں بروس لی (مارشل آرٹ کے مشہورِ زمانہ اداکار) کے اس مکالمے کی وجہ سے یو ٹرن آیا۔ دوسری تبدیلی بروس لی کی زندگی پر مبنی فلم ڈریگن دیکھنے کے بعد آئی۔‘ ’میں نے بروس لی کو دیکھ کر مارشل آرٹ سیکھا، وہ فن آج میرے لیے مفید ثابت ہو رہا ہے۔ میری فلموں میں ایکشن بہت ہے، اس لیے میں اس فن کا بھرپور استعمال کرتا ہوں کہانی انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے گاؤں کیمریا سور کے 46 سالہ دوارکا پرساد رتوڑی کی ہے جنھیں آج دنیا ’دیو رتوڑی‘ کے نام سے جانتی ہے۔ بہرحال جب پہلی بار سنہ 1998 میں انھیں ممبئی میں ایک بار کیمرے کا سامنا کرنے کا موقع ملا تھا تو وہ بہت زیادہ نروس ہو گئے تھے۔ اس وقت انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن وہ بھی آنے والا ہے جب چینی فلم انڈسٹری میں نہ صرف وہ بہت شہرت کے حامل ہوں گے بلکہ اتنے کامیاب ہو جائیں گے کہ چین کے سکولوں کی نصابی کتابوں میں ان کی کامیابیوں کا تذکرہ ہو گا۔ دیو رتوڑی کی جدوجہد کی کہانی انھی کی زبانی سنیے۔ یہ آٹھویں کلاس کی بات ہے۔ اس وقت میرے گھر کی مالی حالت اتنی خراب تھی کہ میں ننگے پاؤں سکول جاتا تھا۔ اس وقت میری فیملی کے پاس گاؤں کے سرکاری سکول کی ایک روپیہ فیس بھی ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا تھا کہ جب میں سکول سے گھر لوٹتا تھا تو گھر میں کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ہم پانچ بھائی بہن تھے، ہمارے والد جو کماتے تھے اس میں ہمارے خاندان کا گزارا انتہائی مشکل سے ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے میں خواہش کے باوجود دسویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ خراب حالات کی وجہ سے 1991 میں دسویں جماعت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں روزگار کی غرض سے دہلی پہنچا۔ وہاں ایک ڈیری فارم میں 350 روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے لگا۔ مجھے یہ نوکری اپنے چچا کی سفارش پر ملی تھی۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ میں کاپ سہیرا اور آس پاس کے گاؤں میں ڈیری فارم سے ملنے والا دودھ سائیکل پر بیچتا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ نوکری ملنے کے ساتھ ساتھ میں نے سائیکل چلانا بھی سیکھ لیا تھا۔ میں تقریباً ایک سال تک ڈیری میں کام کرتا رہا اور پھر وہیں ایک بلڈر (تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے شخص) کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ یہاں میں کبھی اُن کی گاڑی صاف کرتا اور کبھی اسے چلاتا۔ اب میری تنخواہ 500 روپے تھی۔ میں نے 1993 سے 2004 تک ان کے ساتھ 11 سال کام کیا۔ کبھی کبھی ان کے سخت رویے کی وجہ سے پریشانی ہو جاتی تھی۔ اپنی زندگی کے اہم موڑ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں ایک بار 1998 میں ان سے ناراض ہو گیا تو میں نے ان کا کام یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میں ہیرو بننے جا رہا ہوں۔‘ دیو نے کہا: ‘اس وقت مجھے بروس لی کی فلمیں دیکھنے کا جنون تھا۔ بروس لی کی شاید ہی کوئی ایسی فلم ہو گی جو میں نے نہ دیکھی ہو گی۔‘ پہلی فلم جو میں نے دیکھی وہ بروس لی کی ’انٹر دی ڈریگن‘ تھی۔ بروس لی کی فلمیں دیکھنے کے بعد مجھے مارشل آرٹس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان فلموں کو ڈب کیا گیا تھا، اور اسی وجہ سے ان میں بولی جانے والی انگریزی صاف اور آسان تھی، جو میرے لیے انگریزی سیکھنے کا ایک اچھا موقع تھا۔ میں نیچے لکھے گئے سب ٹائٹلز پڑھ کر انگریزی سیکھتا تھا۔ میں بروس لی کی زندگی پر مبنی فلم ڈریگن کو دیکھ کر سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس میں بروس لی کی ہانگ کانگ سے امریکہ منتقل ہونے کے وقت سے لے کر تمام جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔ جسے دیکھ کر مجھے لگا کہ اگر یہ آدمی کر سکتا ہے تو میں بھی کر سکتا ہوں۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد مجھ پر ایک بھوت سوار ہو گیا اور میں ہیرو بننے کے لیے ممبئی چلا گیا۔ میں نے وہاں ایک سال تک مارشل آرٹ سیکھا۔ 1998 میں پنیت اِسّر (کیریکٹر ایکٹر جن کے ساتھ لڑتے ہوئے فلم قلی میں امیتابھ بچن زخمی ہو گئے تھے) ہندوستانی نامی ٹی وی سیریل کی ہدایتکاری کر رہے تھے اور انھوں نے مجھ سے کیمرے کے سامنے ایک مختصر ڈائیلاگ بولنے کے لیے کہا۔ میں نے ڈائیلاگ یاد کر لیا تھا، لیکن جیسے ہی لائٹ اور کیمرہ میرے چہرے پر پڑا، میں سب کچھ بھول گیا اور کچھ نہ کہہ سکا۔ میں اس دن بہت اداس تھا۔ کچھ دنوں بعد میں واپس دہلی آ گیا۔ میں اپنے فلمی عزائم میں ناکام ہو گیا تھا، لیکن ممبئی میں رہتے ہوئے میں نے مارشل آرٹس میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ دہلی میں ویٹر کی نوکری سے چین کا سفر انھوں نے آگے کی کہانی بتاتے ہوئے کہا: ’دہلی واپس آنے کے بعد 2004 میں مجھے ہریانوی فلم ‘چھنو دی گریٹ’ میں کام کرنے کا موقع ملا، جس میں میرا تقریباً چھ منٹ کا ایکشن رول تھا۔‘ لیکن میں بروس لی کو اپنے دماغ سے نہیں نکال سکا۔ ہر وقت میرے ذہن میں یہی فکر رہتی تھی کہ میں بروس لی کی سرزمین تک کیسے پہنچوں گا۔ مجھے وہاں مارشل آرٹ سیکھنا تھا۔ میں وہاں جانا چاہتا تھا۔ اس وقت میرے ذہن میں ایک غلط فہمی تھی کہ تمام چینی لوگ مارشل آرٹ جانتے ہیں۔ چین جانے میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے دیو کہتے ہیں: ’لیکن اب میرے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ چین جانے کے لیے

غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے Read More »