Health

Health Minister Fails to produce reslults because of disputes in caretake setup

سندھ کی نگران کابینہ اختلافات، وزیرصحت ہسپتال بہتر کرنے میں ناکام رہے، نگراں وزیراعلیٰ

سندھ کے نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر نے صوبائی نگران وزیر صحت کی جانب سے مداخلت کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈاکٹر سعد خالد نیاز ہسپتالوں کی صورت حال بہتر کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جسٹس (ر) مقبول باقر اور ڈاکٹر سعد خالد نیاز کے درمیان اختلافات اربوں روپے کے ٹینڈر کی منسوخی پر پیدا ہوئے جو گہرے ہوگئے ہیں۔ ڈان کو ذرائع نے بتایا کہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر(جے پی ایم سی)، گمبٹ ہسپتال اور لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز ہسپتال کے لیے 4 روبوٹک سسٹمز کی خریداری سے متعلق ٹینڈر گزشتہ ماہ نگران وزیر صحت نے اس لیے منسوخ کر دیا تھا کہ روبوٹک نظام انتہائی مہنگا ہوتا ہے اور معمول کی سرجریز کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بااثر جماعت ٹینڈر کے عمل میں ملوث تھیں اور مخصوص حلقے مبینہ طور پر نگران وزیرصحت کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ بظاہر نگران وزیراعلیٰ بھی وزیرصحت کے اعتراض پر مطمئن نہیں تھے اور منگل کو انہوں نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کا دورہ کیا اور وہاں پر روبوٹک سرجری کے بارے میں بریفنگ بھی لی۔ اس حوالے سے مزید بتایا کہ سینئر حکومتی عہدیداروں نے وزیرصحت کو بتایا کہ وہ اپنا فیصلہ تبدیل کریں کیونکہ ٹینڈر کا عمل پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں شروع ہوگیا تھا اور نگران حکومت اس طرح کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ بعد ازاں بدھ کو نگران وزیرصحت نے ایک بیان جاری کیا کہ روبوٹک سسٹم کی خریداری روکنے کا فیصلہ ماہر سرجنز کی آرا کی روشنی میں کیا گیا تھا اور دعویٰ کیا کہ روبوٹک سسٹم کی خریداری میں خامیاں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ میں نے نگران وزیراعلیٰ کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا یہاں تک کہ پھر انہوں نے معاملے میں مداخلت کی اور وزیراعلیٰ نے یک طرفہ فیصلہ کیا اور ایس آئی یوٹی چلے گئے اور صورت حال سے ہمیں لاعلم رکھا۔ دوسری جانب نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر کی جانب سے جمعرات کو جاری بیان میں کہا گیا کہ ’محکموں کے اچانک دوروں سے ثابت ہو اکہ ڈاکٹر سعد نیاز ہسپتالوں کو بہتر کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں‘۔ بیان میں کہا گیا کہ نگران وزیرصحت ہسپتالوں کی حالت زار بہتر بنانے کے بجائے ایس آئی یو ٹی جیسے عظیم ادارے پر تنقید کی اور بدنیتی کی بنیاد پر جائزہ اجلاس تین مرتبہ ملتوی کروایا تاکہ اُن کی ناقص کارکردگی کا جائزہ نہ لیا جاسکے۔ نگران وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ ’وزیرصحت اپنے بیان میں جو زبان استعمال کررہے ہیں وہ کوئی مہذب یا پیشہ ور ڈاکٹر یا وزیر استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، جس طرح کی غلط بیانی کی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جھوٹ کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی‘۔ انہوں نے کہا کہ جب نگران وزیر صحت سے جواب طلب کیا گیا تو وہ بے بنیاد اور جھوٹے بیانات پر اُتر آئے اور آئین و قانون کی پامالی پر بضد ہیں اور اپنی ناکامی پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔ ترجمان وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئین و قانون کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ تمام صوبائی محکموں کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے اُن کو وقتاً فوقتاً ہدایات دینے کے پابند ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ کے دفتر سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا کہ ’وزیرصحت محکمہ صحت میں اپنی مرضی کا سیکریٹری لگا کر اپنا ذاتی ایجنڈا چلانا چاہتے ہیں‘۔ مزید بتایا گیا کہ نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے عوام کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی، آئین، قانون اور قواعد و ضوابط کی پابندی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

سندھ کی نگران کابینہ اختلافات، وزیرصحت ہسپتال بہتر کرنے میں ناکام رہے، نگراں وزیراعلیٰ Read More »

Polluttion in Lahore Smog In Punjab

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔ سموگ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک؟ نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔ ماحولیات کے اُمور پر کام کرنے والے کارکن، وکیل اور ماہر رافع عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں انڈیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 48 فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔ ’اب آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ فضائی آلودگی کی یہ قسم کس حد تک انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔‘ ’یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے‘ لاہور میں حالیہ سموگ اور فضائی آلودگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے شہریوں کی زندگی اور صحت کو کیسے متاثر کیا اس بارے میں چند رہائشیوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی تکلیف بیان کی۔ ڈیڑھ برس کی بیٹی کی والدہ سارہ ذیشان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی بُری طرح سموگ سے متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس کا گلا خراب، کھانسی، بخار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے منھ میں چھالے بھی نکل آئے ہیں اور اسے کھانے پینے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سارہ اور ان کے خاندان کی طرح لاہور شہر میں بسنے والے لاکھوں افراد سموگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امیر حمزہ جو ایک سیلز مین ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا روزگار منسلک ہی ایسے کام سے ہے جس کے لیے سارا دن گھر سے باہر رہ کر موٹر سائیکل چلانا ہوتی ہے۔ ’میں مختلف پوانٹس پر جا کر پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اور جب دن بھر کام کر کے گھر جاتا ہوں تو فضائی آلودگی اور سموگ کے باعث آنکھیں سرخ اور جلن کا شکار ہوتی ہیں۔ ابھی بھی مجھے زکام، گلا خراب اور کھانسی ہے۔ آئے روز بیمار رہنے کے باعث کام بھی متاثر ہوتا ہے۔‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے آنکھوں میں جلن اور پانی آنے کے باعث جگہ جگہ بائیک روک کر پانی سے آنکھیں دھونی پڑتی ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے۔‘ سموگ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کا مطلب کیا ہے؟ رافع عالم کے مطابق سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسیوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔ ’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘ یہ چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم یں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی شہر یا علاقے کی فضا میں موجود پی ایم 2.5 ذرات کی تعداد 25 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزا، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے وہ ان کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین فضا میں موجود مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کر کیا جاتا ہے۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ گیسیں فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘ Read More »