Health

مائیگرین کے درد پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟

سر درد۔۔۔ شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جسے زندگی میں ایک بار اس سے واسطہ نہ پڑا ہو۔ سر درد یوں تو نسبتاً ایک عام قسم کی بیماری سمجھی جاتی ہے مگر اس کا دائرہ کافی وسیع ہے، جس میں عام سر درد سے لے کر جان لیوا سر درد تک شامل ہیں۔ ان ہی میں سے ایک قسم آدھے سر کا درد ہے جسے دردِ شقیقہ اور مائیگرین بھی کہتے ہیں۔ مائیگرین کیا ہے؟ مائیگرین جس کو عام الفاظ میں آدھے سر کا درد بھی کہا جاتا ہے (ضروری نہیں کہ یہ درد فقط آدھے سر میں ہی ہو) عام طور پر وقفے وقفے سے ہونے والے سر درد کو بھی مائیگرین کہتے ہیں۔ مائیگرین میں سر کے درد کے ساتھ ساتھ دوسری علامات مثلاً متلی، قے اور وقتی طور پر بینائی کا متاثر ہونا یا تیز دھوپ، تیز روشنی، تیز آواز، کسی خاص خوشبو یا بدبو وغیرہ سے الجھن شامل ہے جوکہ آپ کی معمول کی زندگی کو متاثر بلکہ بےکار کرسکتی ہیں۔ دردِ شقیقہ عام طور پر خاندانی (جینیاتی) ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہی خاندان کے مختلف افراد اس مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ اس بنا پر یہ موروثی بیماری بھی ہے۔ اگر والدین میں سے کسی ایک کو بھی مائیگرین ہے تو بچے میں بھی مائیگرین ہونے کا امکان 50 فیصد ہوتا ہے اور والدین میں دونوں کو مائیگرین ہو تو بچے کے مائیگرین کا شکار ہونے کا امکان کم و بیش 75 فیصد ہوتا ہے۔ مائیگرین کے درد کے جینیاتی عوامل کے ساتھ کچھ دیگر وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً کچھ مخصوص غذاؤں (پنیر، چاکلیٹ، کیفین و چند دیگر مشروبات) سے بھی یہ درد ہوسکتا ہے۔ ہر مریض مختلف ہوتا ہے اور اُس کو ہونے والے مائیگرین کی وجوہات بھی مختلف ہوتی ہے۔ خواتین میں یہ درد زیادہ ہوا کرتا ہے۔ غذائی عوامل کے علاوہ تھکاوٹ، ذہنی تناؤ، موسمی اثرات بھی مائیگرین کی وجہ بن سکتے ہیں۔ اکثر نیند کا پورا نہ ہونا، تھکاوٹ اور اپنے آرام کا خیال نہ رکھنا مائیگرین کے آغاز کا باعث بن جاتا ہے۔ اس قسم کے سر درد کو ذہنی بیماری سے بھی منسلک کیا جاسکتا ہے لیکن یہ قطعی ضروری نہیں کہ مائیگرین کا تعلق مندرجہ بالا عوامل میں سے ہی کسی ایک سے ہو۔ مائیگرین کتنا عام ہے؟ مغربی تحقیقات کے مطابق مائیگرین کا درد تقریباً 12 فیصد افراد کو ہوتا ہے۔ اس شرح میں مزید اضافے کا امکان موجود ہے۔ جیسے کہ تحریر کرچکا ہوں کہ یہ درد خواتین میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ (2 سے 3 گنا) ہوتا ہے اور کم و بیش ہر 5 میں سے ایک خاتون مائیگرین کا شکار ہوتی ہے۔ عام طور پر 24، 25 سال عمر کے لوگ اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مائیگرین بہت سے اہم سماجی و معاشی مسائل کا باعث ہے۔ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 4 کروڑ سے زائد افراد مائیگرین میں مبتلا ہیں مائیگرین کی علامات کیا ہیں؟ مائیگرین میں شدید سر درد سے پہلے یا اس کے ساتھ ساتھ دوسری علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ ابتدائی علامات میں ہلکی پھلکی حساسیت (بعض اوقات زیادہ حساسیت)، تھکاوٹ، گردن میں درد، زیادہ بھوک لگنا اور مزاج میں تبدیلی بھی شامل ہیں۔ ہر متاثرہ فرد مائیگرین کے دوران مختلف کیفیات سے گزرتا ہے۔ عام طور پر مائیگرین کے حملے سے قبل ایک تنبیہی/اشارتی وقفہ ضرور آتا ہے جس میں مریض غیر معمولی تھکاوٹ یا بے چینی محسوس کرتا ہے، اس کے بعد متلی یا قے کی شکایت ہوسکتی ہے۔ اس دوران تیز روشنی کے قطعی طور پر ناقابلِ برداشت ہونے یا آنکھوں میں دھندلاہٹ محسوس ہونے کی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ علامات چند منٹ سے چند گھنٹے تک برقرار رہ سکتی ہیں۔ ان پیشگی علامات کے بعد مائیگرین کا مخصوص قسم کا سر درد شروع ہو جاتا ہے جس میں سر میں ایک یا دونوں جانب درد اور اس کا بڑھتے چلے جانا شامل ہے۔ مائیگرین کے حملے کا دورانیہ مختلف افراد میں مختلف ہوتا ہے جوکہ 4 سے 72 گھنٹے تک ہوسکتا ہے۔ عمومی طور پر اس کا دورانیہ 6 گھنٹے تک ہوتا ہے۔ مائیگرین میں کیا کرنا چاہیے؟ اگر مائیگرین کے حملے تواتر کے ساتھ شدید سر کے درد کے ساتھ بار بار ہوں اور وہ درد دُور کرنے والی عام ادویات مثلاً پیراسٹامول/ بروفین وغیرہ سے قابو نہ ہوں تو آپ اپنے فیملی/نیورو فزیشن سے رجوع کریں۔ بعض حالات میں ڈاکٹر یہ جاننے کے لیے کہ سردرد کسی اور بیماری کی علامت تو نہیں آپ کے کچھ ٹیسٹ کروانے کا مشورہ بھی دے سکتے ہیں۔ مائیگرین سے کس طرح نمٹا جائے؟ آپ خود اپنے سب سے بہتر معالج ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس اپنے مرض کو سمجھنے کے لیے وقت بھی ہے اور فائدے کی امید بھی۔ اپنے پاس ایک ڈائری رکھیں جس میں درد شروع ہونے کے اوقات کار، دورانیہ اور ہر اہم بات جو اس سر درد کے ساتھ منسلک ہو، درج کریں۔ اپنے معمولات اور درد کے ساتھ جُڑی چیزیں نوٹ کریں (مثلاً کچھ لوگ معمول سے زیادہ سونے کی وجہ سے مائیگرین میں مبتلا ہوجاتے ہیں)، ان تفصیلات کو کچھ عرصہ نوٹ کرتے رہنے سے آپ کو درد کی کیفیت اور مزاج سے آگاہی ہوجائے گی جس سے اس کے اسباب جاننے میں مدد ملے گی۔ مثال کے طور پر ہوسکتا ہے کہ آپ کے کام کی رفتار/تھکاوٹ درد کا باعث بنتی ہو لہٰذا اس بنا پر روز مرہ کاموں کو منظم کریں تاکہ اس درد کی بنیادی وجہ کو ٹھیک کرنے سے مائیگرین پر قابو پاسکیں۔ اپنے معمولات اور درد کے ساتھ جُڑی چیزیں نوٹ کریں کچھ خواتین میں مانع حمل گولیاں مائیگرین کا باعث بنتی ہیں لہٰذا ایسی خواتین کو اپنے معالج سے مشورہ کرنا ہوگا۔کچھ افراد میں تیز دھوپ یا سورج کی تیز روشنی سے درد کا آغاز ہوجاتا ہے لہٰذا اس کے لیے احتیاطی تدابیر سے مائیگرین کے حملے سے بچا جاسکتا ہے۔ مائیگرین کا ریکارڈ جہاں مریض کے لیے کارآمد ہے وہیں مریض کے معالج کو بھی علاج میں مدد دیتا ہے۔ مائیگرین بھڑکانے والی اشیا و عوامل سے مکمل پرہیز کریں نیز سادہ غذا، پانی و پانی والی اشیا کا زیادہ

مائیگرین کے درد پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟ Read More »

JDC free Diagnositc Center

جے ۔ڈی۔سی پہلی مفت تشخیصی لیب کے ساتھ پاکستانیوں کی صحت کی دیکھ بھال میں تبدیلی لارہا ہے۔

کراچی – جے ڈی سی فاؤنڈیشن پاکستان نے کراچی میں ملک کا پہلا مفت تشخیصی مرکز کھول کر ایک قابل ستائش قدم اٹھایا ہے، جو محروم طبقوں کے مریضوں کو مفت تشخیصی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ پورٹ سٹی میں سید ظفر عباس جعفری اور کچھ ہم خیال نوجوانوں کی قیادت میں یہ اقدام ضرورت مندوں کے لیے کسی لائف لائن سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ مفت تشخیصی طریقہ کار پیش کرتا ہے، جس سے مریضوں کو درپیش مالی بوجھ کو مؤثر طریقے سے کم کیا جاتا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مفت نجی ملکیت والی لیب 250 خون کے ٹیسٹ اور دیگر خدمات انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو غریب مریضوں کی مدد کر رہی ہے جو کہ نجی لیبز میں قیمتیں ناقابل برداشت ہونے کی وجہ سے انتہائی پریشانی میں ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد جدید ترین مشینیں درآمد کرکے آپریشنز کو مزید وسعت دینا تھا جن کی لاگت دسیوں ملین ہے اور اس طرح جے ڈی سی کے بانی اور جنرل سیکرٹری ظفر عباس نے خوشحال ممبران پر زور دیا کہ وہ آگے آئیں اور ان کے نیک مقصد کی حمایت کریں، جو ضرورت مندوں کی زندگی گزارنے والوں کی تعریف کرتے ہیں۔ . اس نیک مقصد کو سراہنے کے لیے، فیصل زاہد ملک ایڈیٹر انچیف پاکستان آبزرور نے اس سہولت کا دورہ کیا اور ضرورت مندوں کو فراہم کی جانے والی مفت خدمات کو سراہا۔ مسٹر ملک نے امید ظاہر کی کہ جے ۔ڈی۔سی  کمیونٹیز میں مثبت اثرات مرتب کرنا جاری رکھے گا کیونکہ وہ دوسروں کو بھی اپنی برادریوں کو واپس دینے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جے ۔ڈی۔سی  ویلفیئر آرگنائزیشن کی بنیاد 2009 میں رکھی گئی تھی، اور این جی او سندھ میں فعال طور پر کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم نے کووڈ وبائی امراض، سیلاب کے دوران فرنٹ لائن پر کام کیا اور یہاں تک کہ مفت ڈائیلاسز سنٹر بھی فراہم کر رہی ہے۔ جے ۔ڈی۔سی  ایمبولینسز بھی ضرورت مند مریضوں کو مقامی طبی سہولیات تک بغیر کسی معاوضے کے لے جانے کے لیے دستیاب ہیں کیونکہ وہ گروپ زندگی کو عظیم مشنوں کے لیے وقف کرتے ہیں۔

جے ۔ڈی۔سی پہلی مفت تشخیصی لیب کے ساتھ پاکستانیوں کی صحت کی دیکھ بھال میں تبدیلی لارہا ہے۔ Read More »

Gene Variant responsible for weight Control

وزن کو قابو میں رکھنے والا جین ویریئنٹ

ناٹنگھم: سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک تبدیل شدہ جین جو جسم کا وزن قابو رکھنے میں مدد دیتا ہے مٹاپے سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ ZFHX3 جین متغیر (جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ صرف چار فی صد افراد میں پیا جاتا ہے) تحقیق میں دماغ کے ایسے حصوں کو قابو کرتا پایا گیا ہے جو بھوک کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی اور ایم آر سی ہیرویل سے تعلق رکھنے سائنس دانوں نے چوہوں میں ایسا نظام دریافت کیا ہے جس کے تحت تغیر شدہ جین بھوک، وزن اور انسولین ہارمون (جو خون میں موجود شوگر کی سطح کو قابو میں رکھتا ہے اور ذیا بیطس کی پیچیدگیوں سے بچاتا ہے) پر قابو رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تحقیق میں ٹیم کو معلوم ہوا کہ یہ جین ہائپوتھیلیمس نامی دماغ کے حصے کو (وہ حصہ جو بھوک، پیاس اور کھانے کی کھپت کو قابوکرتا ہے) اس حصے میں موجود دیگر جینز کے عمل کو آن یا آف کر کے متاثر کرتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ اس طریقے کو سمجھ کر وزن کم کرنے کی نئی تھراپیوں کے لیے راہیں ہموار کی جاسکتی ہیں۔ ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی محقق ڈاکٹر ریبیکا ڈمبیل کا کہنا تھا کہ پہلی بار سائنس دانوں نے اس جین کے پروٹین کے ساتھ نمو اور توانائی کے توازن میں تبدیلی کا مظاہرہ کیا، یہ اس متغیر سے مشابہ ہے جو انتہائی کم افراد میں پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا بڑا جینیاتی جزو ہے جو ہماری بھوک اور نمو سے تعلق رکھتا ہے لیکن مکمل طوت پر سمجھا نہیں گیا ہے۔

وزن کو قابو میں رکھنے والا جین ویریئنٹ Read More »

Diseae is Spreading in China

چین میں پھیلنے والی بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے نہ یہ نئی وبا ہے، عالمی ادارہ صحت

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے چین میں پھیلنے والی نمونیا طرز کی نئی بیماری سے متعلق ایک بار پھر وضاحت کی ہے کہ اس کا پھیلاؤ اتنا زیادہ نہیں ہے، جتنا کورونا سے قبل ایسی بیماریوں کا پھیلاؤ چین میں ہوتا تھا۔ ساتھ ہی عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اب تک کی سامنے آنے والی معلومات کے مطابق اس بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے نہ یہ کسی نئی وبا کی طرح ہے۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق وبائی امراض سے متعلق عالمی ادارے کی ڈائریکٹر ماریا وین کا کہنا تھا کہ نئی بیماری سے زیادہ تر ایسے بچے متاثر ہو رہے ہیں، جنہوں نے کورونا کی پابندیوں کے دوران خود کو انتہائی محدود کردیا تھا۔ ادارے کے مطابق چین میں ایسی ہی بیماریاں کورونا سے قبل زیادہ پیمانے پر پھیلتی دکھائی دیتی تھیں جب کہ ایسی ہی بیماریاں دیگر ممالک میں بھی ہر دو یا تین سال بعد پھیلتی دکھائی دیتی ہیں لیکن مذکورہ بیماری نئی وبا کی طرح نہیں ہے۔ عالمی ادارے صحت کا کہنا تھا کہ کورونا سے قبل بھی چین میں ایسی بیماریاں پھیلی تھیں اور ان کا پھیلاؤ حالیہ بیماری سے زیادہ تھا۔ رپورٹ میں چینی اور عالمی ادارہ صحت کے حکام کے گزشتہ چند دن میں سامنے آنے والے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ چین میں پھیلنے والی نئی بیماری کا پھیلاؤ اتنا زیادہ متعدی نہیں۔ خیال رہے کہ چین میں اکتوبر کے اختتام سے نمونیا سے ملتی جلتی پراسرار بیماری کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور ابتدائی طور پر اس سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ تاہم چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے رواں ماہ 13 نومبر کو مذکورہ پراسرار بیماری کو سانس کی بیماری قرار دیتے ہوئے اس میں اضافے کی اطلاع دی تھی۔ بعد ازاں 19 نومبر کو آن لائن میڈیکل کمیونٹی پروگرام فار مانیٹرنگ ایمرجنگ ڈیزیزز (PRoMED) کی جانب سے شمالی چین کے علاقوں میں کئی بچوں میں نمونیا کی ایک قسم کی اطلاع دی گئی، جس متعلق بتایا گیا کہ ڈاکٹرز بیماری کی تشخیص نہیں کرسکے۔ لیکن دو روز قبل بھی عالمی ادارہ صحت نے چین میں پھیلنے والی نئی بیماری کو غیر معمولی قرار نہیں دیا تھا اور اب ادارے نے ایک بار پھر کہا ہے کہ یہ نئی وبا نہیں

چین میں پھیلنے والی بیماری کا پھیلاؤ زیادہ ہے نہ یہ نئی وبا ہے، عالمی ادارہ صحت Read More »

وٹامن بی 12 کی خوراکیں بے جان ٹشوز اور اعصاب کی مرمت کرنے میں مددگار

ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دودھ، سبزیوں اور پھلوں میں پائی جانے والی وٹامن بی 12 نہ صرف السر اور آنتوں کی مختلف بیماریوں کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے بلکہ اس سے بے جان ٹشوز اور اعصاب کی مرمت بھی ہوسکتی ہے اور اس سے اعضا دوبارہ متحرک بھی ہوسکتے ہیں۔ طبی زبان میں ٹشوز ان ابتدائی چیزوں کو کہا جاتا ہے جو کسی بھی عضو کی ابتدائی شکل ہوتی ہیں۔ عام طور پر آنتوں سمیت دیگر نظام ہاضمہ کےاعضا کے ٹشوز خراب یا بے جان ہونے کی وجہ سے السر اور آنتوں کی دوسری بیماریاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح فالج سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے بھی اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں، جنہیں دوبارہ متحرک کرنے میں بھی وٹامن بی 12 کی خوراکیں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ ماضی میں بھی ہونے والی متعدد تحقیقات سے معلوم ہو چکا ہے کہ وٹامن بی 12 کی خوراکیں نظام ہاضمہ کے اعضا کے بے جان ٹشوز کی مرمت کرنے سمیت اعصاب کو متحرک کرنے میں مددگارثابت ہو سکتی ہیں۔ تاہم اب یورپی ملک اسپین میں ہونے والی ایک تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ وٹامن بی 12 کی خوراکیں دماغی چوٹ لگنے سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے بے جان ہونے والے اعصاب کو بھی متحرک کرنے میں مددگار ہوسکتی ہیں۔ طبی جریدے ’نیچر میٹابولزم‘ میں شائع تحقیق کے مطابق اسپین کے ماہرین نے وٹامن بی 12 کی خوراکوں کا اثر تشوز کی دوبارہ مرمت اور اعصاب کو متحرک کرنے کے حوالے سے جائزہ لیا۔ ماہرین نے چوہوں پر تحقیق کرنے سمیت اسی معاملے پر ہونے والی دیگر تحقیقات کا بھی جائزہ لیا۔ ماہرین نے تحقیق کے دوران چوہوں کو وٹامن بی 12 کی خوراکیں دیں، جن سے چوہوں کے آنتوں سمیت دیگر اعضا کے ٹشوز کی دوبارہ مرمت کا آغاز ہوا۔ اسی طرح ماہرین نے پایا کہ وٹامن بی 12 کی خوراکیں لینے سے اعصابی کمزور بھی دور ہوئی اور اعصاب متحرک ہونے لگے۔ ماہرین کے مطابق وٹامن بی 12 کی تمام شکلیں انسانی صحت کو فائدہ دیتی ہیں، تاہم نوٹ کیا گیا کہ وٹامن بی 12 کی سپیلیمینٹس جلد فائدہ دیتی ہیں۔ ماہرین نے تجویز دی کہ اعصابی کمزوری، آنتوں اور السر کی بیماریوں میں مبتلا زائد العمر افراد کو ابتدائی طور پر وٹامن بی 12 کی سپیلیمنٹس خوراکیں یا انجکشن لگوانے چاہئیے، اس کے بعد وہ اسی وٹامن سے بھرپور پھل اور سبزیوں کا استعمال کریں تو انہیں جلد اور بہتر فوائد حاصل ہوں گے۔ خیال رہے کہ دودھ، انڈوںِ مچھلی، متعدد سبزیوں اور پھلوں میں وٹامن بی 12 کی مقدار پائی جاتی ہے اور ہر انسان کو یومیہ بنیادوں پر مذکورہ وٹامن کی جتنی ضرورت ہوتی ہے، وہ سبزیوں، پھلوں اور دودھ سے بنی اشیا سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

وٹامن بی 12 کی خوراکیں بے جان ٹشوز اور اعصاب کی مرمت کرنے میں مددگار Read More »

وزن میں کمی کے انجیکشن کے صحت کے خطرات: آپ کو کیا جاننے کی ضرورت ہے۔

32 سال کی میڈی اس وقت شدید بیمار پڑ گئیں جب انھوں نے انسٹاگرام سے خریدے گئے جعلی سیمگلوٹائیڈ انجیکشن کو استعمال کیا۔ اس انجیکشن میں اوزیمپک نامی دوا ہوتی ہے اور بی بی سی کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے کچھ گروہ سیمگلوٹائیڈ کو بغیر کسی نسخے کے وزن کم کرنے والی دوا کے طور پر فروخت کر رہے تھے۔ بی بی سی کی تحقیقات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ انجیکشن برطانیہ کے کئی شہروں جیسے مانچسٹر اور لیورپول کے بیوٹی سیلون میں بھی فروخت کی جاتی ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج کے لیے تجویز کردہ دوا وزیمپک کی مانگ پچھلے کچھ برسوں میں آسمان کو چھونے لگی ہے۔ بہت سے اخبارات نے اس دوا کو وزن کم کرنے کے لیے ہالی ووڈ کے ’خفیہ علاج‘ کے طور پر پیش کیا۔ یہ دوا خون میں شوگر لیول کو کم کرتی ہے اور ہاضمے کے عمل کو بھی سست کرتی ہے۔ اس دوا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں نے وزن کم کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کی سپلائی میں مسائل ہوئے جبکہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اس دوا کی قلت ہوئی۔ برطانیہ کی فارمیسیوں میں جب اس دوا کے حصول کے لیے جدوجہد جاری تھی تو دوسری ہی جانب سیمگلوٹائیڈ پر مشتمل ’ڈائیٹ کٹس‘ فروخت کرنے والی ایک آن لائن مارکیٹ پنپنے لگی۔ ان کٹس کو ڈاک کے ذریعے ڈیلیور کیا جاتا تھا۔ ان کٹس میں عام طور پر سوئیاں اور دو شیشیاں ہوتی تھیں۔ ایک شیشی میں سفید پاؤڈر اور دوسرے میں ایک محلول ہوتا تھا۔ یہ کٹ میڈی کو بذریعہ ڈاک اس وقت پہنچائی گئی، جب انھوں نے کسی تقریب میں جانے سے پہلے بہت کم وقت میں اپنا وزن کم کرنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈنے کے لیے انسٹاگرام پر تلاش شروع کی۔ میڈی نے ہمیں بتایا کہ ’مجھے وزن کم کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنے جسم کو آسانی سے بدل سکتے ہیں۔‘ میڈی کا رابطہ ’لپ کنگ‘ نامی ایک کمپنی سے ہوا۔ ’لپ کنگ‘ کی انسٹاگرام پروفائل دبلی پتلی جسامت والی خواتین کی تصاویر اور صارفین کے ایسے ٹیکسٹ پیغامات کے سکرین شاٹس سے بھری ہوئی ہے، جس میں کمپنی کی پروڈکٹس کو سراہا گیا ہے۔ میڈی نے انھیں آزمانے کا فیصلہ کیا۔ کمپنی مالک جارڈن پارکے کے ساتھ کچھ پیغامات کے تبادلے اور 200 پاؤنڈ ٹرانسفر کرنے کے بعد میڈی کو 10 ملی گرام سیمگلوٹائیڈ بھیجا گیا میڈی کو واٹس ایپ پر ایک ویڈیو بھی موصول ہوئی، جس میں دوائیوں کو مکس کرنے اور انجیکشن لگانے کے طریقے کے بارے میں ہدایات کے ساتھ ساتھ انھیں صحت کے حکام کی تجویز کردہ مقدار سے زیادہ خوراک لینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ پہلے انجیکشن کے فوراً بعد ہی میڈی ’انتہائی بیمار ہو گئیں اور قے کرنے لگیں۔‘ جارڈن پارکے نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے میڈی کو بتایا کہ قے آنا معمول کی بات ہے۔ چند ہفتے بعد جب میڈی کو متلی آنا کم ہوئی تو میڈی نے دوبارہ اس دوا کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس بار انھوں نے اسے رات کو سونے سے پہلے لیا۔ میڈی کہتی ہیں کہ ’میں قے کی وجہ سے بیدار ہو گئی۔ یہ انتہائی خوفناک تھا۔ میں ساری رات قے کرتی رہی، یہاں تک کہ قے میں خون اور سفید جھاگ بھی آنے لگا۔ وہ اگلی صبح ایمرجنسی گئیں، جہاں ان کے جسم میں پانی کی کمی کا علاج کیا گیا۔ ’میں نے سوچا میں مر جاؤں گی۔ میں اپنی ماں کے سامنے بھی رو پڑی۔ میں بہت غصے میں بھی تھی کیونکہ کسی نے بھی مجھے اس کے مضر اثرات کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے طور پر بھی تحقیق کی لیکن میں نے دیکھا کہ کسی کو بھی اتنی تکلیف نہیں ہو رہی، جتنی مجھے ہو رہی تھی۔‘ ذرائع    نے اس معاملے میں جارڈن پارکے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جارڈن پارکے ان بہت سے غیر قانونی فروخت کنندگان میں سے ایک ہیں، جو سوشل میڈیا کے ذریعے سیمگلوٹائیڈ بیچتے ہیں۔ ان ادویات میں اصل میں کیا ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے بغیر لائسنس کے مختلف فروخت کنندگان سے سیمگلوٹائیڈ کو خریدا اور ان مصنوعات کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا۔ لیبارٹری نتائج میں ہر نمونے کی ساخت میں تضادات ظاہر ہوئے۔ اگرچہ زیادہ تر مصنوعات میں سیمگلوٹائیڈ ہوتا ہے، لیکن متعدد فروخت کنندگان کی جانب سے فراہم کی جانے والی بوتلوں میں کوئی فعال اجزا نہیں ہوتے اور تقریباً سبھی، بشمول ’لپ کنگ‘ پروفائل سے خریدی گئی بوتلوں میں بھی، اُن پر لکھی مکمل خوراک موجود نہیں۔ برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے تحت اوزیمپک صرف ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے دستیاب ہے۔ ایک اور دوا ’ویگووی‘ جسے خاص طور پر موٹاپے کے علاج کے لیے تجویز کیا جاتا ہے لیکن این ایچ ایس کی تجاویز کے مطابق اسے بھی صرف ایسے لوگوں کو تجویز کیا جا سکتا ہے جن کا باڈی ماس انڈیکس (BMI) کم از کم 35 ہو۔ دوا ساز کمپنی نووو نورڈسک وہ واحد کمپنی ہے، جو سیماگلوٹائیڈ فروخت کرنے کی مجاز ہے لیکن فی الحال یہ جعلی ورژن کی آن لائن فروخت کے خلاف لڑ رہی ہے۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ’جعلی سیمگلوٹائیڈ فروخت کرنے والی ویب سائٹس، اشتہارات یا سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو شناخت کرنے اور انھیں ہٹانے کے لیے کام کر رہی ہے‘ اور یہ بھی کہ وہ ’کاپی رائٹس کی خلاف ورزی، مجرمانہ نیٹ ورکس اور غیر قانونی طور پر اس کی مصنوعات کی فروخت پر تحقیق کر رہی ہے۔‘ لیکن بی بی سی کو یہ بھی پتا چلا ہے کہ کچھ ایسے فروخت کنندگان، جن کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پروفائلز کو بلاک کر دیا گیا، اکثر نئے ناموں سے نئے پلیٹ فارم بنا کر اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ ماہر قانون گیرارڈ ہینراٹے بتاتے ہیں کہ ’آپ ایک لیبل پر بہت سی چیزیں فروخت کر سکتے ہیں۔

وزن میں کمی کے انجیکشن کے صحت کے خطرات: آپ کو کیا جاننے کی ضرورت ہے۔ Read More »

Strawberries plays vital in mental and emotional well being

اسٹرابریز ذہنی و جذباتی فعالیت بڑھانے میں مددگار

ایک مختصر مگر منفرد اور دلچسپ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اسٹرابریز کھانے سے نہ صرف ڈپریشن پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ انہیں کھانے سے انسان کی جذباتی اور ذہنی فعالیت بھی بڑھ جاتی ہے، یعنی یہ دماغی تنزلی سے بھی بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس سے قبل ہونے والی متعدد تحقیقات میں اسٹرابریز کے کئی فوائد سامنے آ چکے ہیں، یہ ڈپریشن کو کم کرنے کے علاوہ یہ امراض قلب سمیت دیگر طبی پیچیدگیوں کو بھی کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ حالیہ تحقیق کے دوران امریکی ماہرین نے اسٹرابریز کے ذہنی فعالیت اور جذباتی صحت پر پڑنے والے اثرات کی جانچ کی اور ماہرین نے دیکھا کہ کس طرح اسٹرابریز اعصابی مسائل کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ طبی جریدے ’نیوٹریشن‘ میں شائع تحقیق کے مطابق کیلیفورنیا کے ماہرین نے مختصر تحقیق کے لیے 5 مرد اور 25 خواتین کی خدمات حاصل کیں، جن پر 12 ہفتوں تک تحقیق کی گئی۔ تمام رضاکاروں کو دو مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا، جس میں سے ایک گروپ کو مصنوعی چیزیں کھانے کو کہا گیا جب کہ دوسرے گروپ کو اسٹرابریز اور بلیو بیریز میں پائی جانے والی دو خصوصی پروٹینز سے تیار شدہ چیزیں کھانے کو کہا گیا۔ تحقیق سے قبل ماہرین نے تمام رضاکاروں کو ذہنی فعالیت بھی جانچی اور یہ دیکھا کہ کس میں ڈیمینشیا کی علامات ہیں، کس کی یادداشت کتنی تیز ہے اور کس میں ڈپریشن کی سطح کتنی ہے؟ تحقیق کے اختتام پر ماہرین نے تمام رضاکاروں کے دوبارہ ٹیسٹ کیے اور ان سے کئی طرح کے سوالات کرنے سمیت ان کی ذہنی فعالیت جانچنے کے لیے ان کی آزمائش بھی کی گئی۔ تحقیق کے اختتام پر اسٹرابریز سے تیار شدہ چیزیں کھانے والے افراد نے اپنا ڈپریشن کم ہونے کا دعویٰ کیا جب کہ ان ہی افراد کی جب لفظوں کو پہچاننے کی آزمائش کی گئی تو اس میں بھی بہتری آ چکی تھی۔ ان کے مقابلے میں جن افراد کو مصنوعی چیزیں کھانے کا کہا گیا تھا، ان میں کوئی تبدیلی نوٹ نہیں کی گئی۔ ماہرین نے نتائج اخذ کیے کہ اسٹرابریز اور بلیو بیریز میں پائی جانے والی خصوصی پروٹین ’ابتھوسائننس‘ (anthocyanins) میں موجود خصوصی مرکبات نہ صرف دماغ کو فعال رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں بلکہ یہ اعصاب (نیورو) میں ہونے والی سوزش کو بھی کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق مذکورہ پروٹین انسان کے اموشن یا جذبات کو قابو کرنے والے دماغی حصے کو زیادہ متحرک کرنے میں مدد بھی فراہم کرتی ہے، جس وجہ سے ڈپریشن کی سطح کم ہونے سمیت دماغ کی فعالیت بڑھ جاتی ہے۔ ماہرین نے مذکورہ معاملے پر مزید تحقیق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مستقل بنیادوں پر اسٹرابریز اور بلیو بیریز کھانے سے دماغی اور اعصابی فوائد مل سکتے ہیں اور اس سے ڈیمینشیا جیسی بیماری کی علامات کو بھی دور کیا جا سکتا ہے۔

اسٹرابریز ذہنی و جذباتی فعالیت بڑھانے میں مددگار Read More »

Increase Your Lifespan: Monthly Visits to Family, Friends Have Benefits

طویل عرصے تک زندہ رہنا چاہتے ہیں؟ ہر مہینے کم ازکم ایک بار دوستوں یا رشتے داروں سے ملنا قبل از وقت موت سے بچاے۔ے

برطانیہ کی گلاسگو یونیورسٹی کے محققین کی طرف سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق، جو لوگ زیادہ سماجی میل جول رکھتے تھے، وہ ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ زندہ رہتے تھے جو نہیں کرتے تھے۔ اس تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خاندان کے بزرگ افراد اور دوستوں سے مہینے میں ایک بار ملنے سے ان کی موت کے خطرے کو 39 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ سماجی تنہائی کو صحت کے مختلف مسائل سے جوڑا گیا ہے، بشمول ڈپریشن، اضطراب اور قلبی بیماری۔ تاہم، سماجی تعامل کی تمام شکلیں ہماری فلاح و بہبود کے لیے یکساں طور پر فائدہ مند نہیں ہیں۔ بی ایم سی میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں عمر بھر پر مختلف قسم کے سماجی تعامل کے اثرات کی تحقیقات کے لیے برطانیہ میں نصف ملین افراد کے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا۔ شرکاء، جن کی عمریں 37 سے 73 سال کے درمیان تھیں، سے پانچ قسم کے سماجی تعامل کے بارے میں پوچھا گیا: وہ کتنی بار اپنے کسی قریبی شخص پر اعتماد کرتے ہیں، کتنی بار وہ تنہا محسوس کرتے ہیں، کتنی بار دوست اور اہل خانہ سے ملنے جاتے ہیں، کتنی بار انہوں نے ایک میں شرکت کی۔ ہفتہ وار گروپ سرگرمی، اور آیا وہ اکیلے رہتے تھے۔ پھر انہوں نے اوسطاً 12.6 سال کے بعد ان کا سراغ لگایا اور دریافت کیا کہ ان میں سے 33,135 کی موت ہو چکی ہے۔ تحقیق نے دریافت کیا کہ تمام قسم کے سماجی رابطے موت کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں، لیکن کچھ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہم تھے. سب سے اہم عنصر دوستوں اور خاندان سے ملاقات کرنا تھا، جو موت کے 39 فیصد کم خطرے سے منسلک تھا۔ یہاں تک کہ ہر ماہ ایک دورہ خطرے کو کم کرنے کے لیے کافی تھا، اور زیادہ کثرت سے آنے جانے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ اکیلے رہنا اور دوسرے طریقوں سے الگ تھلگ رہنا، جیسے کہ ہفتہ وار گروپ سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا یا خاندان اور دوستوں سے باقاعدگی سے ملنے جانا، موت کا خطرہ 77 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ دیگر عوامل جو نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں، جیسے کہ عمر، جنس، سماجی اقتصادی حیثیت، اور تمباکو نوشی، کو محققین نے کنٹرول کیا تھا۔ محققین نے نوٹ کیا کہ یہ مطالعہ انسانی سماجی تعاملات کی پیچیدگی اور معیار کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ کہ نتائج کے بنیادی میکانزم کو سمجھنے کے لیے اضافی تحقیق کی ضرورت ہے۔ تاہم، انھوں نے یہ تجویز کیا کہ سماجی روابط کے جسمانی اور ذہنی صحت پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں، جیسے کہ تناؤ میں کمی، مدافعتی افعال میں اضافہ، اور جذباتی مدد۔ تحقیق کے مطابق، لمبی عمر کے لیے سماجی روابط اہم ہیں، اور مہینے میں ایک بار بوڑھے خاندان اور دوستوں سے ملنے سے انھیں لمبی زندگی گزارنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس مطالعہ نے مزید سماجی مداخلتوں اور معاونت کی اہمیت پر بھی زور دیا جو سماجی روابط کو آسان بناتے ہیں، خاص طور پر بوڑھے اور کمزور لوگوں کے لیے جنہیں سماجی تعلقات میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، کسی رشتہ دار یا دوست کو فون کرنے یا ملنے جانے جیسی سادہ حرکتیں ان کی صحت اور خوشی پر نمایاں اثر ڈال سکتی ہیں۔

طویل عرصے تک زندہ رہنا چاہتے ہیں؟ ہر مہینے کم ازکم ایک بار دوستوں یا رشتے داروں سے ملنا قبل از وقت موت سے بچاے۔ے Read More »

پنجاب میں ایک ہفتے کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار

لاہور : (ایگنایٹ پاکستان) سموگ کی خطرناک صورتحال کے پیش نظر نگران حکومت کا اہم فیصلہ، پنجاب بھر میں ایک ہفتے کے لیے فیس ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے ، ہر شہری کو ایک ہفتے کے لیے ماسک پہننا ہوگا، صوبائی حکومت نے پنجاب کے سموگ سے متاثرہ اضلاع میں تمام شہریوں کے لیے چہرے کے ماسک پہننے کے لیے ایک ہفتے کے مینڈیٹ کا اعلان کیا۔ ماسک کی پابندی لاہور ڈویژن اور گوجرانوالہ ڈویژن کے اضلاع میں نافذ العمل ہوگی۔ نگراں وزیرِ اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ صحت کو ترجیح دینا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے، براہ کرم ایک محفوظ کمیونٹی کے لیے رہنما خطوط پر عمل کریں ۔ واضح رہے کہ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں آج بھی اور کئی دنوں سے فضائی آلودگی کی صورتحال خطرناک ہے، کئی شہروں میں سموگ کے باعث نزلہ زکام، بخار اور گلے میں انفیکشن کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

پنجاب میں ایک ہفتے کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار Read More »

مرد میں ڈپریشن کی کیا علامات ہیں؟

اکثر اوقات مردوں سے توقعات اور سماج میں ان کا روایتی کردار ایسا ہے جس کے باعث مرد اپنی ذہنی کیفیت کے بارے میں کسی سے بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ پاکستان میں روایتی طور پر مردوں کو عام طور پر کمانے کے لیے گھر سے باہر بھیجا جاتا ہے اور مضبوط، بااثر ہونے کی نظر ہی سے دیکھا جاتا ہے اور ساتھ ہی بچپن سے انہیں سکھایا جاتا ہے کہ کسی کے سامنے رونا نہیں ہے اور جذبات کا اظہار نہیں کرنا، جس کے نتیجے میں مستقبل میں اکثر اوقات مرد ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔ دوسری جانب سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سینٹرز کے اعدادوشمار کے مطابق مردوں کے مقابلے خواتین ڈپریشن کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ تاہم امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ نے ہیلتھ میگزین میں شائع ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر والد کو ڈپریشن جیسے مسائل کا سامنا ہے تو بچے میں جذباتی یا طرز عمل کے مسائل پیدا ہونے میں 70 فیصد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگلی نسل کو اس مرض سے بچانے کے لیے اس کا علاج اور مرض کی علامات کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے، اگرچہ مردوں کی شرح کم ہے لیکن اس مرض کو نظرانداز نہیں کرسکتے اس لیے آج یہاں ہم مردوں میں ڈپریشن کی علامات جاننے کی کوشش کریں گے۔ مردوں میں ڈپریشن کی جسمانی علامات ڈپریشن میں مبتلا مرد میں سب سے پہلے جسمانی علامات ظاہر ہوتی ہیں، اگرچہ ڈپریشن کو دماغی صحت سے جوڑا جاتا ہے لیکن اس کی علامات جسمانی طور پر بھی واضح ہوتی ہیں۔ مردوں میں ڈپریشن کی کچھ عام جسمانی علامات میں سینے کی جکڑن، ہاضمے کے مسائل جیسے گیس، اسہال اور قبض، سر درد، ہارمونل مسائل، دل کی دھڑکن تیز ہونا، تیزی سے وزن میں کمی (اور بعض اوقات وزن میں اضافہ) شامل ہیں۔ مردوں میں ڈپریشن کی ذہنی علامات ڈپریشن کی ذہنی علامات مردوں میں دوسری جنس کے لوگوں کے مقابلے میں مختلف طریقے سے ظاہر ہو سکتی ہیں، جس سے ڈپریشن کا پتا لگانا مشکل ہو سکتا ہے۔ مردوں میں ڈپریشن کی کچھ عام ذہنی علامات میں کام پر توجہ مرکوز کرنے میں مشکل کا سامنا، یادداشت کے مسائل، نیند کے مسائل، خودکشی کے خیالات شامل ہیں۔ مردوں میں ڈپریشن کی جذباتی علامات جب زیادہ تر لوگ ’ڈپریشن‘ کا لفظ سنتے ہیں تو وہ اداس یا تنہائی پسند شخص تصور کرتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، کچھ لوگ میں اس کے علاوہ بھی علامات ہوسکتی ہیں۔ ان میں اضطراب، ہمیشہ غصہ آنا، دوستوں، خاندانوں سے دور رہنا، ناامیدی، کام میں دلچسپی کی کمی اور بے چینی جیسی علامات شامل ہیں۔ کچھ مرد ڈپریشن کی علامات کو اس لیے بھی نظرانداز کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں اس کے بارے میں معلوم ہی نہیں، دوسری طرف جو افراد ان علامات کو پہنچان لیتے ہیں وہ معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے علاج کرانے سے کتراتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جب مردوں کو ڈپریشن کی علامات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ طویل وقت تک دفتر یا دیگر کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ڈپریشن کی تشخیص اور علاج آپ کی زندگی بچانے میں مدد کرسکتا ہے، ڈپریشن کے علاج میں اکثر مریض سے بات چیت بھی شامل ہے جسے ٹاک تھراپی کہتے ہیں، اس کے علاوہ ڈاکٹرز کلینکل تھراپی بھی تجویز کرتے ہیں، اس کے لیے جلد از جلد ماہر نفسیات سے رجوع کرنا بے حد ضروری ہے۔

مرد میں ڈپریشن کی کیا علامات ہیں؟ Read More »