Health

Premature Whitening of Hairs

وقت سے پہلے بال سفید ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

وقت سے پہلے بالوں کے سفید ہوجانے کی وجوہات جاننے کیلیے کیے گئے تحقیقی مطالعات میں بتایا گیا ہے کہ طرز زندگی بالخصوص سگریٹ نوشی بھی قبل از وقت بالوں کے سفید ہوجانے کی اہم وجہ ہے۔ انسان کے بال قدرتی طور پر ادھیڑ عمری میں سفید ہونے لگتے ہیں، تاہم بہت سے نوجوانوں میں بھی سفید بالوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اردن یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کی گئی تحقیق میں تمباکو نوشی اور 30 سال کی عمر سے پہلے بالوں میں سفیدی در آنے کے مابین  تعلق پایا گیا ہے۔ محققین کے مطابق تمباکو میں شامل مضر صحت کیمیکلز کی وجہ سے خلیوں اور بافتوں میں آکسیجن کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے جو بالوں کی رنگت کو برقرار رکھنے والے خلیوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں وقت سے پہلے ہی انسان کے بالوں میں سفیدی نمودار ہونے لگتی ہے۔ تمباکو نوشی کے علاوہ  کھانے پینے کی عادات بھی بالوں کے سفید ہونے میں اہم  کردار ادا کرتی ہیں۔ کچھ غذائی اجزا بالخصوص وٹامن بی 12، ڈی تھری، کیلشیئم اور معدنیات جیسے تانبا، فولاد اور زنک کی کمی کا تعلق بھی جوان العمری میں بالوں کے سفید ہوجانے کے ساتھ  پایا گیا ہے۔ مذکورہ بالا غذائی اجزا میلانن نامی مادے کی پیدائش کے عمل  کیلیے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں جو بالوں کی رنگت کا ذمے دار ہے۔ تحقیقی مطالعات میں یہ پتاچلا کہ جن افراد میں ان غذائی عناصر کی سطح کم تھی ان کے بال وقت سے پہلے سفید ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بالوں کی صحت کے لیے خوراک بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ بالوں کو صحت مند رکھنے کے لیے روزہ مرہ خوراک میں مذکورہ بالا غذائی اجزا کو شامل رکھنا بہت ضروری ہے۔ محققین کے مطابق ذہنی دباؤ بھی وقت سے پہلے بالوں کے سفید ہونے کا ایک سبب ہے۔ اس کے علاوہ نیند اور جسم میں پانی کی کمی سے بھی بال کم عمری میں اپنی سیاہ رنگت سے محروم ہوسکتے ہیں، کیونکہ نیند کا پورا نہ ہونا اور جسم میں پانی کی کمی مجموعی طور پر انسانی صحت کو متاثر کرتی ہے جس کا اثر بالوں کی صحت پر بھی پڑتا ہے۔

وقت سے پہلے بال سفید ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ Read More »

Vitamin B 12 Deficiency and symptoms

وٹامن بی 12 کی کمی اور اس کی علامات

وٹامن بی 12   انسان کے جسمانی افعال کیلئے اہم ترین وٹامنز میں سے ایک ہے۔ یہ جسم میں آکسیجن تقسیم کرنے کا ذمہ دار بھی ہے۔ اگر وٹامن بی 12 کم ہو تو اعضاء اور بافتوں (ٹشوز) کو مناسب طریقے سے کام کرنے کے لیے ضروری آکسیجن نہیں ملتی اور جس سے خون کی کمی یعنی اینیمیا  ہوجاتا ہے۔  وٹامن بی 12 جسے ’کوبالامین ‘ بھی کہا جاتا ہے، جانوروں کی مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے جیسے گوشت، مچھلی یا ڈیری پروڈکٹس۔ یہ وٹامن نئے ڈی این اے اور سرخ خلیات بنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔ وٹامن B12 کی کمی اور اس کی علامات انسانی جسم متعدد افعال کو انجام دینے اور اعصابی نظام کی صحت کے لیے وٹامن بی 12 اور فولیٹ پر انحصار کرتا ہے۔ اس وٹامن کی مقدار اگر ناکافی ہوجائے تو کچھ جسمانی افعال شدید متاثر ہوسکتے ہیں جن کی کچھ علامات درج ذیل ہیں: 1) شدید تھکاوٹ محسوس کرنا 2) پٹھوں کی کمزوری 3) منہ میں چھالے 4) بینائی کے مسائل 5) بھوک میں کمی یا وزن میں کمی 6) اسہال 7) زبان میں درد یا سرخی 8) سوئیاں چبھنے کا احساس (paresthesia) B12 کی کمی کچھ ذہنی علامات کا سبب بھی بن سکتا ہے جیسے کہ: 1) دوہری شخصیت کا تجربہ ہونا 2) الجھن یا بھولپن 3) ذہنی دباؤ 4) یادداشت یا فیصلہ سازی کے مسائل

وٹامن بی 12 کی کمی اور اس کی علامات Read More »

Opium Factory in Lahore

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ چینی حکومتی اکابرین کو لگا کہ ’اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو نہ تو چین کی فوج میں لڑنے کے لیے کوئی سپاہی بچے گا نہ فوج کو ہتھیار مہیا کرنے کے لیے پیسے۔‘ برطانیہ نے افیون تیار کرنے کے لیے ہندوستان میں بنگال اور بہار میں دو وسیع و عریض فیکٹریاں قائم کی تھیں جہاں سے افیون کی تجارت کے لیے سپلائی لی جاتی۔ چین کے ساتھ یہ تجارت بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہی۔ جب یہ تجارت بند ہوئی اور دنیا افیون اور اس کے انسانی صحت اور معاشرے پر مضر اثرات سے واقف ہونا شروع ہوئی، تو بھی ہندوستان مین بنی فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ پوست کے پودے سے ملنے والے سیاہی مائل مادے افیون کی وہ خصوصیات ہیں جن سے انیسویں صدی میں تیزی سے جدت حاصل کرتی میڈیکل سائنس آشنا ہو چکی تھی۔ برطانیہ اب ہندوستان میں قائم فیکٹریوں میں وہ افیون تیار کرنے لگا جو ادویات میں استعمال ہو رہی تھی یا جس پر مزید تحقیق کی جا رہی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں درد کو کم کرنے والی دوا ’مارفین‘ ہے۔ شاید یہ مارفین ہی ہے جس کی وجہ سے افیون کو ’دنیا کے لیے انڈیا کا تحفہ‘ بھی کہا گیا۔ مختلف بیماریوں کے خلاف اور ان کے علاج کے دوران مارفین اور افیون سے ملنے والے دیگر مرکبات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کینسر کے علاج میں اس کا خاص عمل دخل ہے۔ افیون کی اسی میڈیکل خصوصیت کے پیش نظر سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد انڈیا نے اس کے حصے میں آنے والی دونوں افیون فیکٹریوں کو بند نہیں کیا۔ پاکستان کے حصے میں ایسی کوئی فیکٹری نہیں آئی تھی۔ نہ ہی ان علاقوں میں سے کوئی پاکستان کے حصے میں آیا جہاں حکومتی سرپرستی میں افیون کے لیے پوست کاشت کی جاتی تھی۔ کیا پاکستان کو افیون کی ضرورت تھی؟ یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمی جنگِ کو ختم ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کو افیون کے مرکبات اور خاص طور پر مارفین کی ضرورت تھی۔ ’ہندوستانی افیون‘ کو دنیا میں اچھی کوالٹی کی اقسام میں شمار کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں یہ زیادہ پرانی بات نہیں تھی کہ پوست ہندوستان کی چند منافع بخش فصلوں میں شمار رہی تھی۔ اس کو تجارت کے اعتبار سے بھی ایک پیسہ کمانے والی جنس کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اگر وراثت میں پاکستان کو بھی یہ ’قیمتی افیون‘ بنانے کی فیکٹریاں ملتیں تو وہ اسے برآمد کر کے منافع کما سکتا تھا اور مقامی مانگ کو بھی پورا کر سکتا تھا۔ انڈیا نے پاکستان کو ضرورت کی افیون فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ اس لیے جلد ہی پاکستان نے اپنی ایک ایسی فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا جہاں خام افیون سے ایسے ایلکلائیڈز یا مرکبات کو الگ کیا جا سکے جو ادویات کے طور پر یا ان کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ مارفین اور کوڈین وغیرہ۔ افیون بنانے کے لیے حکومتی فیکٹری کی ضرورت کیوں؟ پاکستان کی پہلی اور واحد اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری پاکستان بننے کے آس پاس ہی لاہور میں قائم کی گئی۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ ہی کے دفتر میں اس کی عمارت تعمیر کی گئی۔ قانونی طور پر وہی اس کا نظم و نسق چلانے کا ادارہ تھا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب رضوان اکرم شیروانی نے ایگنایٹ پاکستان   سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کی اس سرکاری ’اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری‘ میں اسی طرح خام افیون سے مرکبات الگ کیے جاتے تھے جیسے تقیسم سے پہلے ہندوستان کی دیگر فیکٹریوں میں ہوتا تھا۔ تاہم سوال یہ تھا کہ اگر یہ افیون ادویات میں استعمال ہوتی ہے تو اس

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ Read More »

Health Insurance

ہیلتھ انشورنس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کا فیصلہ

اسلام آباد (این این آئی)ہیلتھ انشورنس پروگرام کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کا فیصلہ کرلیا گیا۔تفصیلات کے مطابق ہیلتھ انشورنس پروگرام کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے یکم جنوری سے ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے سالانہ 4 ہزار 350 روپے کٹوتی ہوگی۔سیکرٹری خزانہ مجاہد شیردل کے مطابق ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کی منظوری ہوچکی ہے، ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے پریمیئم کی کٹوتی ہوگی، میاں بیوی کے سرکاری ملازم ہونے پر ایک کی تنخواہ کی کٹوتی ہوگی۔

ہیلتھ انشورنس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کا فیصلہ Read More »

SHORT Nap in a day

درمیانی عمر میں جوان نظر آنا آپ کے اپنے ہاتھ میں

دنیا بھر میں لوگ درمیانی عمر یا بڑھاپے میں جوان نظر آنے کے لیے ہزاروں، لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر اس بات کا احساس نہیں کرپاتے کہ جھریوں سے نجات، بالوں کا گرنا اور ایج اسپاٹس پر کریمیں اور لوشن کچھ خاص اثرات مرتب نہیں کرتے۔ بلکہ اپنی اصل عمر سے کم نظر آنا درحقیقت لوگوں کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ لائیبنز ریسرچ انسٹیٹوٹ فار انوائرمنٹل میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ انسانی جلد میں آنے والی تیس فیصد تبدیلیاں جینز جبکہ 70 فیصد ماحولیاتی عناصر جیسے سورج کی شعاعوں اور فضائی آلودگی کے باعث آتی ہیں۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر میں اضافہ صرف کسی ایک عضو پر اثرات مرتب نہیں کرتا، بلکہ یہ پورے جسم پر اثرانداز ہوتا ہے، باہری تبدیلیوں کو بڑھاپے کے عمل سے جوڑا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق زیادہ چربی والی غذائیں، الکحل اور تمباکو نوشی کا استعمال، سورج کی روشنی میں بہت زیادہ گھومنا جسم پر حیاتیاتی تناﺅ بڑھانے کا باعث بنتا ہے، جس سے ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے۔ نوجوان جسم اس نقصان کی جلد مرمت کرلیتا ہے مگر درمیانی عمر میں ایسا ہونا لگ بھگ ناممکن ہوجاتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر بڑھنا جسم کے لیے تناﺅ سے نمٹنے کی صلاحیت کم سے کم تر کرتا چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ڈی این اے میں آنے والی تبدیلیاں جسمانی خلیات کو تباہ کرنے لگتی ہیں اور ہر عضو پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ ایسا ہونے پر جلد پر دو نمایاں اثرات نظر آتے ہیں، ایک تو رنگت میں تبدیلی آتی ہے یا ایج اسپاٹس نمودار ہوتے ہیں، دوسرے جلد کی لچک میں کمی آنے سے جھریاں نمودار ہوجاتی ہیں۔ اگر ماحولیاتی عناصر کا اثر بڑھنے لگے تو یہ جھریاں زیادہ گہری ہونے لگتی ہیں جبکہ ٹشوز کے لیے ضروری جز کولیگن کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ تمباکو نوشی اور الکحل بڑھاپے کی جانب سفر کو بہت زیادہ تیز کرنے والے عناصر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر شخص جینیاتی طور پر الگ ہوتا ہے اور مختلف اشیاءکے اثرات مختلف ہوسکتے ہیں، جیسے تمباکو نوشی کے کسی عادی فرد کی عمر سو سال سے زائد ہوسکتی ہے مگر یہ واضح ہے کہ یہ عادت حیاتیاتی گھڑی کے لیے تباہ کن ہوتی ہے جو جوانی میں ہی بڑھاپے کے اثرات طاری کردیتا ہے۔

درمیانی عمر میں جوان نظر آنا آپ کے اپنے ہاتھ میں Read More »

Human Eye

انسانی جسم کا کون سا عضو تیزی سے بوڑھا ہوتا ہے، سائنسدانوں نے جان لیا

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ خون کے ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ انسان کے اندرونی اعضا کتنی تیزی سے بوڑھے ہو رہے ہیں اور یہ بھی پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ کون سے اعضا جلد کام کرنا بند کرجائیں گے۔ یہ تحقیق امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کی گئی۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ دل، دماغ اور پھیپھڑوں سمیت جسم کے 11 اعضا کی صحت کی نگرانی کر سکتے ہیں۔ نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ 50 سال سے زائد عمر کے ہر پانچ میں سے ایک صحت مند بالغ شخص کا کم از کم ایک عضو تیزی سے بوڑھا ہورہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اگلے 15 سال کے اندر ان کے ایک عضو میں بیماری پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ اور ہر 100 میں سے ایک یا دو افراد کے کئی اعضا ان کی سالگرہ کی عمر سے زیادہ بوڑھے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس تحقیق کے نتائج کچھ لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتے ہیں لیکن یہ طبی لحاظ سے اہم ہے۔ انسان کی عمر دو طریقوں سے بڑھتی ہے، پہلی وہ عمر جس کے مطابق آپ اپنی سالگرہ مناتے ہیں اور دوسری عمر آپ کی صحت پر منحصر ہے جسے ’بائیولوجیکل عمر‘ کہتے ہیں، سائنسدان آپ کے جسم میں بائیولوجیکل علامات کا مطالعہ کرکے بتاسکتے ہیں کہ آپ کی بائیولوجیکل عمر کیا ہے۔ اسٹینفورڈ میڈیسن کے محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان افراد کی اصل عمر کے علاوہ ان کی بائیولوجیکل عمر کیا ہے، اس کے لیے محققین نے ان افراد کےخون میں موجود پروٹینز کا مطالعہ کیا۔ محققین نے خون کے ٹیسٹ کے نتائج اور مریض کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے مشین لرننگ الگورتھم کا بھی سہارا لیا۔ جس طرح دل کا دورہ ہونے سے انسان موت کے منہ میں جاسکتا ہے اسی طرح دماغ کے مسلز تیزی سے بوڑھے ہورہے ہوں تو ڈیمنشیا کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ محققین کی ٹیم نے 11 اہم اعضا کے خون کا ٹیسٹ کا تجربہ کیا جن میں دل، دماغ، چربی، پھیپھڑے، مدافعتی نظام، جگر، مسلز، لبلبہ، ویسکولیچر اور آنتیں شامل تھیں۔ تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ انسانی جسم کے ایک یا زیادہ اعضا میں اگلے 15 سالوں کے دوران سنگین بیماریوں کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اسٹینفورڈ میں نیورولوجی کے پروفیسر اور مصنف ڈاکٹر ٹونی وِس کا کہنا ہے نتائج سے معلوم ہوا کہ 50 سال کی عمر یا اس سے زیادہ عمر کے 18.4 فیصد افراد میں کم از کم ایک عضو تیزی سے بوڑھا ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان افراد کو اگلے 15 سالوں میں ان مخصوص عضو میں بیماری کا زیادہ خطرہ ہے۔ ڈاکٹر ٹونی وِس کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ تحقیق بڑے پیمانے پر کریں تو لوگوں کے بیمار ہونے سے پہلے ان کا علاج کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

انسانی جسم کا کون سا عضو تیزی سے بوڑھا ہوتا ہے، سائنسدانوں نے جان لیا Read More »

SHORT Nap in a day

دن میں مختصر نیند لینا ضروری کیوں؟

  مختصر نیند جسے اکثر power naps کہا جاتا ہے، درحقیقت دماغ کے لیے کئی فوائد پیش کرتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں: حاضر دماغی: تقریباً 10 سے 30 منٹ کی ایک مختصر جھپکی دن کے وقت غنودگی کا مقابلہ کرنے اور چوکنا رہنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ فوری ذہنی ریچارج کے طور پر کام کرتی ہے اور پیداوری صلاحیت اور ارتکاز کو بڑھاتی ہے۔ بہتر یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت: مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ مختصر نیند یادداشت کے استحکام کو بہتر بنا سکتی ہے اور معلومات کو بہتر طریقے سے برقرار رکھنے اور سیکھنے کے عمل کو آسان بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ موڈ میں میں بہتری: مختصر نیند  ذہنی دباؤ کو کم کرنے اور آرام کو بڑھا کر موڈ پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔ مزید برآں یہ جذبات کو منظم کرنے میں بھی مدد کرتی ہے اور زیادہ مثبت نقطہ نظر اپنانے کو فروغ دیتی ہے۔ تھکاوٹ میں کمی: مختصر نیند لینے سے تھکاوٹ کے احساسات کو دور کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر دوپہر کے مصروف اوقات کے دوران ۔ یہ توانائی کی سطح میں اضافہ اور دن بھر مجموعی طور پر بہتر کارکردگی کا باعث بن سکتی ہے۔ علمی صلاحیت:قلیل مدتی نیند بھی علمی صلاحیتوں میں بہتری لاسکتی ہے، بشمول مسائل حل کرنے کی مہارتیں، تخلیقی صلاحیتیں اور فیصلہ سازی۔ تاہم یہ خیال رہے کہ نیند کا دورانیہ اور وقت بہت اہم ہے۔ بہت زیادہ دیر تک سونا یعنی 30 منٹ سے یا ایک گھنٹے سے زیادہ سوکر جاگنے پر کراہت پیدا ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر رات کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔

دن میں مختصر نیند لینا ضروری کیوں؟ Read More »

Sweet Potato benefits

شکرقندی کے حیرت انگیز فوائد

شکرقندی غذائیت سے بھرپور ہوتی ہے، اس میں وٹامن اے، وٹامن سی اور مینگنیز وغیرہ کی اچھی مقدار موجود ہوتی ہے۔ ان میں کینسر مخالف خصوصیات بھی ہیں اور وہ مدافعتی فنکشن اور دیگر صحت کے فوائد کو فروغ دیتی ہیں۔ شکرقندیاں نشاستہ دار جڑ والی سبزیاں ہوتی ہیں جو دنیا بھر میں ذوق و شوق سے اگائی جاتی ہیں۔ یہ مختلف سائز اور رنگوں میں ہوتی ہیں جیسے کہ نارنجی، سفید اور جامنی۔ مزید برآں یہ وٹامنز، معدنیات، اینٹی آکسیڈینٹ اور فائبر سے بھی بھرپور ہوتی ہیں۔ یہاں شکرقندیوں کے 6 حیرت انگیز صحت کے فوائد تحریر کیے جارہے ہیں۔ 1) شکرقندی وٹامنز اور معدنیات کا ذخیرہ: ایک کپ یا 200 گرام بیک کی ہوئی شکرقندی چھلکے سمیت درج ذیل غذائی اجزا فراہم کرتی ہے: کیلوریز: 180 کاربوہائیڈریٹ: 41 گرام پروٹین: 4 گرام چربی: 0.3 گرام فائبر: 6.6 گرام وٹامن اے: 213 فیصد وٹامن سی: 44 فیصد مینگنیز: 43 فیصد کاپر: 36 فیصد پینٹوتھینک ایسڈ: 35 فیصد وٹامن بی 6: 34 فیصد پوٹاشیم: 20 فیصد نیاسین: 19 فیصد 2) آنتوں کی صحت: شکرقندی میں موجود فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس آنتوں کی صحت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ 3) کینسر سے لڑنے والی ممکنہ خصوصیات: شکرقندی مختلف اینٹی آکسیڈنٹس پیش کرتی ہیں جو بعض قسم کے کینسر سے بچانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ 4) صحت مند بینائی: شکرقندی میں بیٹا کیروٹین کا ناقابل یقین حد تک ذخیرہ ہوتا ہے۔ بیٹا کیروٹین جسم میں وٹامن اے میں تبدیل ہوتا ہے اور آنکھوں کے اندر روشنی کا پتہ لگانے والے رسیپٹرز بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 5) دماغی افعال کیلئے مفید: جامنی شکرقندی کا استعمال دماغی افعال کو بہتر بنا سکتا ہے۔ 6) آپ کے مدافعتی نظام کیلئے فائدہ مند: نارنجی رنگ کی شکرقندی بیٹا کیروٹین کے کثیر قدرتی ذرائع میں سے ایک ہے جو کہ پودوں پر مبنی ایک مرکب ہے اور جسم میں وٹامن اے میں تبدیل ہوتا ہے۔ یہ صحت مند مدافعتی نظام کے لیے بھی اہم ہے۔

شکرقندی کے حیرت انگیز فوائد Read More »

Preeclampsia nightmare for women

’پری اکلیمپسیا‘ حاملہ خواتین کے لیے ڈراؤنا خواب

پری اکلیمپسیا  ایک ایسی بیماری ہے جس میں حاملہ عورت کا ہر ایک دن تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر اس کی تشخیص کی دو علامات ہیں، ایک ہائی بلڈ پریشر اور دوسرا گردوں سے خارج ہونے والی پروٹین البیومن۔ لیکن بات اتنی بھی آسان نہیں۔ پری اکلیمپسیا میں کچھ ایسے مادے جسم میں خارج ہوتے ہیں جو حاملہ عورت کے تمام اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر دماغ کو برین ہیمرج کا خطرہ ہوتا ہے تو آنکھ کی بینائی بھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پھیپھڑوں میں پانی بھر جانا، ہارٹ فیل ہوجانا، جگر میں انزائمز بہت زیادہ بڑھ جانا گردوں کا فیل ہوجانا، خون میں پلیٹلیٹس کم ہوجانا، بچے کی نشوونما کم ہونا اور پیٹ میں ہی مر جانا یا آنول کا بچے کی پیدائش سے پہلے ہی پھٹ جانا اور خون خارج ہونے جیسے خطرات بھی لاحق رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید پیچیدگیوں میں ہیلپ سنڈروم اور مرگی جیسے دورے (Eclampsia) بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ یقین کیجیے کہ پری اکلیمپسیا ایک ڈراؤنا خواب ہے اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات اس کی تشخیص میں پیش آنے والی مشکلات ہیں۔ ضروری نہیں کہ پری اکلیمپسیا کی علامات اتنی ہی واضح ہوں جیسی ہم نے لکھیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گائناکالوجسٹ اس طرح سے دو اور دو چار نہ کرسکیں۔ بیماری کی تشخیص اور ہر مریض کی صورتحال ایک جیسی نہیں ہوتی۔ بلکہ ہم اسے جگسا پزل سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے گمشدہ ٹکڑے ہمیں ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ پری اکلیمپسیا کی دو اسٹیجز ہوتی ہیں، مائلڈ اور سویئر (mild and severe)۔ جب تک پری اکلیمپسیا مائلڈ رہے، بچہ پیدا نہیں کروایا جاتا۔ حاملہ عورت کا باقاعدگی سے چیک اپ کیا جاتا ہے اور اس چیک اپ تک سب اچھا کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سب اچھا اس چیک اپ تک ہی ہے۔ اگلے چیک اپ میں کیا سامنے آنے والا ہے، یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ یہاں سے آغاز ہوتا ہے لوگوں کی ان شکایات کا کہ جی ہم نے باقاعدگی سے چیک کروایا، ڈاکٹر کہتی رہیں سب ٹھیک ہے اور پھر ایک دم سے ایسا ہوگیا۔ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ حمل میں ایک دم سے ہی صورتحال بدلتی ہے۔ اسی لیے ہم اسے بازی گر کا کھیل کہتے ہیں، نہ جانے کب پانسا پلٹ جائے۔ مائلڈ پری اکلیمپسیا میں بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کے لیے ادویات دی جاتی ہیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ ہر ہفتے کروائے جاتے ہیں اور الٹراساؤنڈ ہر دو ہفتوں کے بعد۔ ڈیلیوری 37 سے 38 ہفتوں بعد کروالی جاتی ہے۔ چاہے مصنوعی درد لگانا پڑے یا پھر سیزیرین کرنا پڑے۔ سویئر پری اکلیمپسیا میں بلڈ پریشر قابو میں نہیں آتا چاہے دو تین قسم کی دوائیں ہی کیوں نہ استعمال کروائی جائیں۔ پیشاب میں پروٹین بڑھتا جاتا ہے، خون میں پلیٹلیٹس گرنا شروع ہوجاتے ہیں، بچے کی نشوونما رک جاتی ہے۔ حاملہ عورت کو سر درد، چکر اور متلی کی شکایت رہتی ہے۔ سویئر پری اکلیمپسیا کو اگر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو عورت کو مرگی جیسے دورے پڑنے لگتے ہیں اور بچے کی پیٹ میں موت واقع ہوسکتی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کا ایک ہی حل ہے کہ بچہ پیدا کروا لیا جائے چاہے ساتواں مہینہ ہو یا آٹھواں۔ بچہ بچے گا یا نہیں؟ یہ نہیں سوچا جاتا اس لیے کہ میڈیکل سائنس کے مطابق ماں کی زندگی اہم ہے اور اسی کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ ہیلپ سنڈروم کے بارے میں ایک اور بات سمجھ لیں۔ ہیلپ سنڈروم (HELLP syndrome) کا نام کچھ الفاظ کے ابتدائی حروف جوڑ کر رکھا گیا ہے۔ H یعنی Hemolysis ‎(خون کے جرثوموں کی ٹوٹ پھوٹ) EL یعنی elevated liver enzymes (جگر کے مادے کا ضرورت سے زیادہ اخراج) LP یعنی Low platelets (خون جمنے میں مدد دینے والے سیلز کی مقدار میں کمی) یہ معلومات یاد کر لیجیے اور لیبارٹری رپورٹس ان کے مطابق پڑھنا سیکھیے تاکہ اپنی ہم سفر کی ہر مشکل میں آپ کو علم ہوکہ کب کیا کرنا ہے۔ سویئر پری اکلیمپسیا کے نتیجے میں اگر خون پتلا ہوجائے تو ڈیلیوری کے وقت خون کا بہاؤ روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ سویئر پری اکلیمپسیا میں نارمل ڈیلیوری کی جائے یا سیزیرین، خیال یہ رکھنا چاہیے کہ ایسے اسپتال میں ہو جہاں ہر قسم کی سہولت موجود ہوں۔ ان سہولیات میں بلڈ بینک، لیبارٹری، آپریشن تھیٹر اور سینیئر گائنا کالوجسٹ شامل ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر کے نتیجے میں حاملہ عورتوں کے مرنے کی شرح بہت زیادہ ہے اور ان ممالک میں بھی سرفہرست ہمارا ملک ہے جہاں دیہات اور چھوٹے شہروں میں اس طرح کا سیٹ اپ موجود نہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ ان کے سامنے موجود عورت کے اردگرد موت منڈلا رہی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حاملہ عورت کے لیے گھر میں بلڈ پریشر ماپنے کا آلہ موجود ہونا چاہیے۔ الیکٹرانک میں تو کوئی مشکل ہی نہیں، مینویل بھی سیکھ لیں جو بہت آسان ہے۔ ہم نے اپنے بچوں، شوہر اور بہن بھائیوں کو سکھا دیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ سب فرسٹ ایڈ دے سکتے ہیں۔ آپ بھی سیکھیے!

’پری اکلیمپسیا‘ حاملہ خواتین کے لیے ڈراؤنا خواب Read More »

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بار بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے بچوں کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بار خون کے کینسر میں مبتلا بچے کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا۔ پاکستان میں اگرچہ متعدد نجی ہسپتالوں میں بچوں سمیت بالغ افراد کے بھی بون میرو ٹرانسپلانٹ کیے جا چکے ہیں،تاہم پہلی بار کسی بھی سرکاری ہسپتال میں اب یہ کارنامہ سر انجام دے دیا گیا۔ لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں ماہرین نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 10 سالہ بچے کا بون میرو ٹرانسپلانٹ گزشتہ ماہ نومبر میں کیا تھا اور اب مریض کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ’ایگنایٹ پاکستان  ‘ کے مطابق لاہور چلڈرن ہسپتال کے ماہرین نے خون کینسر میں مبتلا بچے کا پہلے تین سال تک علاج کرکے اسے صحت یاب کردیا تھا لیکن بچے میں دوبارہ کینسر آیا تو انہوں نے ان کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا۔ دس سالہ ابراہیم میں چند سال قبل بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی لیکن اب ان کے ٹرانسپلانٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، اس لیے ڈاکٹرز نے ان کا ٹرانسپلانٹ کیا۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ مریض کے بون میرو کے لیے ان کی بڑی بہن کا عطیہ کردہ کچھ بون میورو لیا گیا، جسے ابراہیم کے جسم میں داخل کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق نئے بون میرو ڈالنے سے پہلے مریض کا اپنا پورا بون میورو نکالا گیا، پھر اس میں عطیہ کردہ بون میورو ڈال کر اس کے کام کرنے تک مریض کو مانیٹر کیا گیا۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ جیسے ہی مریض میں نئے بون میرو نے کام شروع کردیا، مریض کو سخت حفاظتی انتظامات کے تحت گھر جانے کی اجازت دے دی گئی اور کم از کم اگلے 6 ماہ مریض کے لیے انتہائی اہم ہیں، اگر انہیں کوئی خطرناک انفیکشن نہ ہوا تو وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹرز کے مطابق بون میرو نہ ہونے کی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے، جسم میں سفید اور سرخ خون سمیت پلیٹی لیٹس نہیں بنتے جب کہ دیگر کمزوریاں بھی ہوجاتی ہیں، اس لیے ایسے مریضوں کو انفیکشن سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ 10 سالہ ابراہیم کے بون میرو ٹرانسپلانٹ کا کیس پاکستان کے کسی بھی سرکاری ہسپتال کا پہلا ٹرانسپلانٹ ہیں جب کہ چلڈرن ہسپتال 2018 سے مختلف بیماریوں کے ٹرانسپلانٹ کر چکا ہے لیکن پہلی بار بون میرو کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ ڈاکٹرز سمیت ابراہیم کے والدین کو بھی امید ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بار بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا Read More »