Ali Sher

انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں

احمد آباد کے کرکٹ سٹیڈیم میں سنیچر کو میزبان انڈیا اور اس کے روایتی حریف پاکستان ورلڈ کپ کے ایک میچ میں آمنے سامنے ہوں گے۔ اس میچ کو ٹورنامنٹ کا ’بلاک بسٹر ایونٹ‘ قرار دیا گیا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کھیل کو دیکھیں گے اور امید ہے کہ 132,000 افراد کی گنجائش والا سٹیڈیم بھی کھچا کھچ بھرا ہوگا۔ دونوں ٹیموں نے اپنے پہلے دو میچ جیت کر ٹورنامنٹ میں پراعتماد آغاز کیا ہے۔ لیکن انڈیا بمقابلہ پاکستان ایک ایسا میچ ہوتا ہے جہاں ماضی کی کارکردگی جیت کی ضامن نہیں ہوتی۔ یہ مہارت، تیاری، حکمت عملی اور سب سے بڑھ کر اعصاب کی جنگ کا آخری امتحان ہوتا ہے۔ اگرچہ لاکھوں پرجوش شائقین میچ کو ایک جنگ کے طور پر بھی دیکھتے ہیں، مگر یہ کھلاڑیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کھیل ہی کے طور پر لیں۔ دونوں ٹیموں میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو موقعے کی مناسبت سے پرفارمنس دینے کے اہل ہیں۔ انڈیا اس مقابلے میں فیورٹ کی حیثیت سے اترے گا کیونکہ وہ ورلڈ کپ کے سات میچوں میں سے کبھی بھی کسی ایک میں بھی پاکستان سے نہیں ہارا۔ لیکن مہمانوں کے متعلق کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔  ستمبر میں ہونے والے ایشیا کپ میں دنیا کی ٹاپ ون ڈے ٹیم کے طور پر داخل ہوا تھے مگر سیمی فائنل تک پہنچنے کے بعد شکست کھا گیا۔ پر جب ان کا دن ہوتا ہے، تو پاکستان کسی بھی ٹیم کو ہرا سکتا ہے۔ ان کی بیٹنگ کی صلاحیت ان کے کرشماتی کپتان بابر اعظم کے گرد گھومتی ہے، جن کے متعلق اکثر اتنی بات نہیں ہوتی جتنا کہ وہ مستحق ہیں۔ ان کا شاندار سٹروک دیکھنا کرکٹ کے شائقین کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ لیکن جو چیز انھیں خاص بناتی ہے وہ ان کی آسانی سے بیٹنگ کے گیئرز کو سوئچ کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ اپنی اننگز کو خاموشی سے آگے بڑھاتے ہیں، تقریباً ایسے جیسے وہ دوسروں کی نظروں سے چھپ رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کے مخالفین کو اندازہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے، ان کا سکور 50 یا 60 تک پہنچ چکا ہوتا ہے اور پھر وہ اپنی مرضی سے چوکے، چھکے مارنے لگ جاتے ہیں۔ وہ میدان میں بھی نہایت پرسکون رہتے ہیں اور پریشان نہیں ہوتے، چاہے میچ کیسا ہی چل رہا ہو۔ انڈیا کو ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں ان کی اوسط کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے، جو سنہ 2019 میں ہونے والے ورلڈ کپ کے بعد سے 70 ہے۔ اگر ان کا بلا چل گیا تو انڈیا کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ لیکن وہ انڈیا کے لیے واحد مسئلہ نہیں ہیں۔ وکٹ کیپر محمد رضوان شاندار فارم میں ہیں، انھوں نے منگل کو 131 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر اپنی ٹیم کو سری لنکا کے 344 رنز کے ہدف کے ریکارڈ تعاقب کو یقینی بنایا۔ عبداللہ شفیق نے بھی میچ میں سنچری بنا کر بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی جگہ مضبوط کر لی ہے۔ فخر زمان اور امام الحق بھی انڈیا کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا بابر اور رضوان کے جلدی آؤٹ ہونے کی صورت میں وہ اننگز کو دوبارہ سنبھال سکتے ہیں۔ اگر انڈیا پاکستان کے ٹاپ آرڈ کو سنبھال لیتا ہے تو وہ پاکستانی مڈل آرڈر میں سمجھی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہے گا۔ لیکن اگر مہمانوں کی بیٹنگ میں کمی ہے تو ان کی بولنگ اس کو پورا کر سکتی ہے۔ پاکستان کے بولرز سری لنکا کے خلاف بہت اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے، اور ٹیم کی فیلڈنگ بھی بری رہی تھی۔ لیکن انڈیا کے خلاف میچ ایک ایسا تھیٹر ہے جہاں ہر کھلاڑی اپنی بہترین کارکردگی دینا چاہتا ہے۔ اور یہی وہ تحریک ہے جو ہر پاکستانی بولر چاہتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان فاسٹ بولرز بنانے کی ایک ’فیکٹری‘ ہے کیونکہ وہ مستقل طور پر ایسے فاسٹ بولرز تیار کرتا ہے جو یا تو بہت تیز ہوتے ہیں یا پھر ان میں سوئنگ کرانے کی ایسی صلاحیتیں ہیں جو تقریباً ایک آرٹ کی طرح ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کے پاس دونوں صلاحتیں ہیں۔ صحیح جگہوں پر مسلسل باؤلنگ کرنے اور بلے باز کو ریش شاٹ کھیلنے پر مجبور کرنے کی ان میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ انڈیا یا تو انھیں خاموشی سے کھیلے گا یا شروع میں ہی ان پر حاوی ہونے کے لیے ان پر حملہ کرے گا۔ پاکستان کو نسیم شاہ کی کمی محسوس ہوگی کیونکہ وہ انجری کی وجہ سے باہر ہیں لیکن آفریدی کو حارث رؤف اور حسن علی کی صورت زبردست پارٹنر ملیں گے۔ ان کا سپن کا شعبہ شاداب خان اور محمد نواز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے لیکن اس بارے میں سوالات ہیں کہ کیا وہ اپنے تیز رفتار ہم منصبوں کی طرح انڈین بلے بازوں کو بھی پریشان کر سکتے ہیں۔ انڈیا کی بیٹنگ لائن اپ پاکستانی اٹیک بالخصوص سپنرز کو خاموش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کپتان روہت شرما، جنھوں نے بدھ کو افغانستان کے خلاف 63 گیندوں پر سنچری بنا کر اپنی کلاس اور تباہ کن صلاحیت کا مظاہرہ کیا، غالباً بائیں ہاتھ کے کھلاڑی ایشان کشن کے ساتھ اننگز کا آغاز کریں گے۔ لیکن ان کے باقاعدہ اوپننگ پارٹنر شبمن گل بیمار رہے تو وہ ان کی کمی ضرور محسوس کریں گے۔ گِل ٹاپ فارم میں ہیں اور ان کی کمی محسوس کی جائے گی لیکن انڈیا کے پاس ان کی جگہ لینے کے لیے کافی کھلاڑی موجود ہیں۔ روہت کو رنز بناتے دیکھتے ہوئے انڈین شائقین کو بہت خوشی ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی خوبصورت کور ڈرائیوز، گرجدار چھکوں اور بے خوف پل شاٹس سے بتایا ہے کہ وہ اچھی فارم میں ہیں۔ انڈین کپتان اکیلے ہی میچ کو پاکستان سے چھیننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک اوپنر ہیں جو جم کر کھیلتے ہیں اور میچ کے آخر تک کھیل کر اسے ختم کرنا پسند کرتے ہیں۔ دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اس بلے باز نے سنہ 2019 میں پانچ سنچریاں بنائی تھیں، کسی بھی بلے باز

انڈیا بمقابلہ پاکستان: اعصاب کی جنگ، کرکٹ کے گراؤنڈ میں Read More »

Power outages in Palestine

غزہ میں بجلی کی بندش: ’ہمارے پاس جلانے کے لیے موم بتیاں بھی نہیں‘

اسرائیل کی جانب سے غزہ کی بجلی منقطع کرنے کے بعد جبالیہ کے شمالی علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے والی 36 سالہ فلسطینی خاتون فاطمہ علی کا کہنا ہے کہ بجلی کے بغیر ان کی پہلی رات ناقابل برداشت تھی۔ عمارتوں پر گرنے والے اسرائیلی گولوں کی دھماکوں نے اسے تقریباً ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’غزہ اب مکمل اندھیرے میں ہے۔‘ وہ خوف سے کانپ رہی ہیں۔ فاطمہ لرزتی ہوئی آواز میں کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس جلانے کے لیے موم بتیاں بھی نہیں ہیں۔ دکانیں بند ہیں اور ہمارے پاس صرف ایک چھوٹی سی ایل ای ڈی ٹارچ ہے جو عام طور پر صرف پانچ گھنٹے چلتی ہے۔‘ وہ بجلی کی فراہمی کے بغیر صورتحال کو ’غیر انسانی‘ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ بجلی کی کمی پینے اور نہانے کے لیے پانی کی فراہمی کو متاثر کرتی ہے۔ ’بجلی نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس پانی نہیں پہنچایا جائے گا۔‘ اسرائیل کی طرف سے نو اکتوبر کو غزہ کا مکمل محاصرہ کرنے کے حکم کے دو دن بعد تقریباً دوپہر دو بجے پوری پٹی کی بجلی منقطع کر دی گئی تھی۔ فاطمہ اور ان کے بوڑھے والدین اس وقت پانی کے دو چھوٹے ڈرموں پر انحصار کر رہے ہیں جو انھوں نے اسرائیلی حملے سے پہلے ذخیرہ کیے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بجلی نہ ہونے کا مطلب ریفریجریشن نہیں، اس لیے کھانے کی فراہمی بھی محدود ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’فریج میں کھانا بالکل خراب ہو گیا ہے اور ہم نے اسے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے خاندان کو دن میں پانچ بار نماز کے لیے وضو کرنا بھی بہت مشکل ہو رہا ہے۔ ’ہم صرف تھائم اور زیتون پر انحصار کر رہے ہیں‘ بجلی کے منقطع ہونے کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فاطمہ اور ان کی عمارت میں مقیم تقریباً ان کے تمام پڑوسی اپنی کم ہوتی خوراک اور پانی کے ذخیرے کو زیادہ سے زیادہ دیر تک برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ جو جنگ شروع ہونے سے پہلے ہمارے پاس بچا ہوا تھوڑا سا ذخیرہ تھا۔ ہم صرف تھائم اور زیتون پر انحصار کر رہے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ’میرے بھانجے اور بھانجی جو میرے بہن بھائیوں کے ساتھ اسی عمارت میں دوسری منزلوں پر رہتے ہیں، وہ سب سے زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘ فاطمہ روتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کس طرح ان بچوں کے لیے کھیلنے یا اپنے بچپن سے لطف اندوز ہونے کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ ’یہ تباہ کن جنگ ہے‘ جب میں شمال مشرقی غزہ میں جبالیہ کے گنجان پناہ گزین کیمپ میں پہنچا تو لوگ اپنے تباہ شدہ گھروں سے بھاگ رہے تھے۔ سب سے زیادہ خوش قسمت لوگ اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کمبل یا کپڑے پکڑ سکے تھے۔ میرے لیے اس کیمپ میں زندگی تقریباً ناممکن لگتی ہے، کیونکہ اسے بار بار اسرائیلی گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جبالیہ پناہ گزین کیمپ کے اندر بھی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ کیمپ کے وسط میں روتے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ ’ہمارے پاس نہ پانی ہے، نہ کھانا، اور نہ ہی ہوا ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں ’یہ کیسی زندگی ہے؟‘ ان کے ساتھ کھڑا ایک اور شخص چیختا ہے کہ ’یہ کوئی عام جنگ نہیں، یہ تباہی کی جنگ ہے۔‘ کیمپ میں موجود درجنوں فلسطینی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ صورت حال سنگین ہے۔ ستر کے پیٹے میں ایک فلسطینی ابو صقر ابو روکبہ اپنے تینوں بچے کھو چکے ہیں۔ انھوں نے روتے ہوئے مجھے اپنا حال بیان کیا کہ ’میں نے اپنا سارا خاندان کھو دیا ہے۔ جب میں اپنے بچوں کو دفنانے کے لیے قبرستان گیا اور واپس آیا تو دیکھا کہ میرا گھر مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کہاں جاؤں۔‘ کیمپ میں موجود افراد میں سے کچھ دوسرے علاقوں میں ہونے والے بم دھماکوں سے بچنے کے بعد چند دن پہلے یہاں پہنچے تھے۔ لیلیٰ (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ غزہ کی پٹی کے شمال مشرقی کنارے پر واقع بیت حنون سے آئی تھیں اور انھیں جبالیہ میں بھی ایک بدتر صورتحال کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کو کھو دیا ہے۔ میرے باقی بچے شدید زخمی ہیں۔‘ وہ اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہر روز ہمیں گولہ باری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر ایک دن۔‘ غزہ میں خوراک کا ذخیرہ ختم ہو رہا ہے خوراک اور پانی کی کمی پر بے گھر افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی خوراک کے محدود سٹاک اور خیراتی اداروں پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ امکان ہے اگلے ہفتے کے اوائل تک سپلائی ختم ہو جائے گی۔ کچھ کو پانی کی کم سے کم فراہمی کے لیے قریبی کنوؤں کا سہارا لینا ہو گا۔ دوسرے لوگ روایتی طریقے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جیسے موم بتیاں روشن کرنا تاکہ وہ رات کو دیکھنے کے قابل ہو سکیں کیونکہ غزہ میں بجلی منقطع ہے۔ ایندھن کی کمی کا سامنا پاور جنریٹرز چلانے کے لیے ایندھن تلاش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے، جو کبھی جبالیہ پناہ گزین کیمپ کو برسوں سے اپنا واحد گھر سمجھتے تھے۔ اوپر آسمان میں سیاہ دھوئیں کے بادل اڑتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی صبح بارود کی تیز بو سے شروع ہوتی ہے جو ان کے ناک کو بند کر دیتی اور انھیں کھانسی کرتی ہے۔ فضلہ پروسیسنگ کی سہولیات بجلی کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ میں نے تاریک اور بھیڑ والے کیمپ کے ارد گرد چہل قدمی کی اور دیکھا کہ کچرے کے ڈھیر بڑھنے لگے ہیں اور بہت دور تک پھیل رہے ہیں۔ جبالیہ کیمپ کے گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ وہ

غزہ میں بجلی کی بندش: ’ہمارے پاس جلانے کے لیے موم بتیاں بھی نہیں‘ Read More »

parachutes

حماس کے عسکریت پسند پیراشوٹس کی مدد سے اسرائیل میں کیسے داخل ہوئے

جب حماس نے سنیچر کو اسرائیل پر حملہ کیا تو حملہ آور جنگجوؤں میں پیرا شوٹ کے ذریعے سرحد پار کرنے والے جنگجو بھی شامل تھے۔ تحریک کے عسکری ونگ ’عز الدین القسام بریگیڈ‘ نے غزہ کی پٹی کے آس پاس کے اسرائیلی قصبوں اور تہوار منانے والوں پر حملے کیے۔ اس اچانک حملے کو ’آپریشن طوفان الاقصی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان رچرڈ ہیچٹ نے تصدیق کی ہے کہ فلسطینی جنگجوؤں نے ’پیراشوٹس‘، سمندر اور زمین کے راستے حملہ کیا۔ فضا سے سرحدی باڑ عبور کرنا فلسطینی عسکریت پسند غزہ کو اسرائیل سے الگ کرنے والی باڑ کو فضا سے عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہ ایسے پیراشوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ایک یا دو افراد کے لیے نشست تھی۔ ایک جنریٹر اور بلیڈز کی مدد سے انھیں غزہ کی پٹی کے آس پاس کے علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے چلایا گیا۔ ،تصویر کا ذریعہREUTERS دوسری عالمی جنگ کی حکمت عملی فوجی پیراشوٹ باقاعدگی سے فوجی یونٹوں کے فضا سے اترنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جس کا مقصد میدان ِجنگ کے عقب سے دشمن کی صفوں میں گھسنا ہے۔ پیراشوٹ ٹیموں کو پہلی بار دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے مقابلہ کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES 1987 کا گلائیڈر حملہ حماس کی جانب سے سنیچر کے روز کیا جانے والا حملہ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین جنرل کمانڈ کے دو فلسطینیوں، ایک شامی اور ایک تیونسی شہری کی جانب سے کیے جانے والے گلائیڈر آپریشن کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے نومبر 1987 میں اسرائیلی فوجی اڈے پر حملہ کرنے کے لیے لبنان سے اڑان بھری تھی۔ موٹر اور کنٹرول سے لیس پیراشوٹ کا استعمال کرتے ہوئے جنگجو زمین سے لانچ کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ پہاڑی پر چڑھنے یا ہوائی جہاز سے اتارے جانے کی ضرورت کے بغیر سفر کر سکتے تھے۔ انجن پیراشوٹ کو 56 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی پروپلشن فورس دینے میں مدد کرتا ہے۔ پیرا گلائیڈرز زمین سے اوسطا پانچ ہزار میٹر کی اونچائی پر تین گھنٹے تک پرواز کر سکتے ہیں۔ پیراگلائیڈنگ ویب سائٹس کے مطابق وہ 230 کلوگرام تک وزن اٹھا سکتے ہیں یا یہ 4 افراد کے برابر ہیں۔ چھتری جیسے ان کنٹرپٹیشنز میں ایک شخص کے لیے نشست یا تین پہیوں والی گاڑی ہوسکتی ہے جس میں دو افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ عز الدین القسام بریگیڈ کے ’ملٹری میڈیا‘ کی جانب سے ویڈیو کلپس پوسٹ کی گئی ہیں، جن میں پیراگلائیڈرز کو زمین سے لانچ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک کو ایک یا دو جنگجو چلا رہے ہیں۔ دیگر فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عسکریت پسند اترنے سے پہلے فضا سے فائرنگ کر رہے ہیں اور اسرائیلی ٹھکانوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ کچھ پیراشوٹ موٹر سائیکلوں پر جنگجوؤں کو لے جا رہے تھے۔ حماس نے ان پیراٹروپرز کے گروپ کو ’ساکر سکواڈرن‘ کا نام دیا۔ ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES اسرائیلی فوج کو پیراشوٹس کا کیوں پتا نہیں چلا؟ حماس کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے شائع کی جانے والی ویڈیو کلپس میں مسلح پیرا گلائیڈرز کو غزہ کی پٹی سے بڑے پیمانے پر راکٹ فائر کی آڑ میں پرواز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کم اونچائی پر پرواز کرتے دکھائی دے رہے تھے، جبکہ دیگر آسمان میں اونچے تھے۔ انھیں غزہ کے ارد گرد آسمان میں براہِ راست آنکھوں سے واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے سوال اٹھایا ہے کہ فوجی یونٹ ان کا سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہے؟ اسرائیلی افواج نے ابھی تک نہیں بتایا ان کے فضائی دفاع کو عسکریت پسندوں کے فضائی راستے سے گزرنے کا علم کیوں نہیں ہوا، خاص طور پر پیراشوٹس اتنے نمایاں تھے کہ لوگوں نے اپنے فونز پر ان کی ویڈیو بنائیں۔ ،تصویر کا ذریعہEPA ،تصویر کا کیپشناسرائیل کے شہر عسقلان کے آسمان کا منظر آئرن ڈوم تو کیا اسرائیلی گشت کے بجائے ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کر تے تھے؟ کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ، جیسے آئرن ڈوم اور ریڈار، اس طرح کی چھوٹی اڑنے والی اشیا سے نمٹنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیے گئے تھے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام نے راکٹ حملوں کو ناکام بنایا کثیر جہتی حملہ القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد الدیف کی جانب سے پہلے روز جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق حماس نے اپنے اچانک حملے کا آغاز پانچ ہزار راکٹ داغ کر کیا۔ ،تصویر کا کیپشنحماس کے راکٹ حملوں سے اسرائیل میں ہونے والا نقصان راکٹ لانچ کے ساتھ ہی حماس کے جنگجوؤں نے زمین اور سمندر سے حملہ کیا جس کے لیے انھوں نے گن بوٹس اور پیراشوٹ کا استعمال کیا۔ میڈیا اور عسکری رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ پیراشوٹ حملہ اور فضائی دفاع کو بائی پاس کرنے کی اس کی صلاحیت نے باڑ پار کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس حملے کے پہلے دن اسرائیل میں عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگجوؤں نے 100 سے زائد اسرائیلی شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو اغوا کیا، جنھیں حماس اب جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔

حماس کے عسکریت پسند پیراشوٹس کی مدد سے اسرائیل میں کیسے داخل ہوئے Read More »

Chief Justice of Pakistan

کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلے سے عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان ٹکراؤ ختم ہوگا؟

پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے اور اس کے سپریم کورٹ کی انتظامی صورتحال پر اثرات کے بارے میں مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے کثرت رائے سے اس ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے تاہم اس ایکٹ میں شامل ایک شق، جو کہ ماضی میں از خود نوٹسز پر دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلوں سے متعلق تھی، کو کثرت رائے سے کالعدم قرار دیا ہے۔ بعض آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے سے عدلیہ میں ایک شخص یعنی چیف جسٹس کی اجارہ داری ختم ہو گئی ہے جبکہ کچھ کے مطابق اس ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کر کے پارلیمان کو عدالتی امور میں ’مداخلت کرنے‘ کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ ،تصویر کا ذریعہPTV ’ماضی کے چیف جسٹس اپنے اختیارات کی طرف دیکھنے بھی نہیں دیتے تھے‘ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اس فیصلے کے بارے میں کہا کہ اس سے عدلیہ ’مضبوط اور خود مختار‘ ہو گی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس عدالتی فیصلے میں عدلیہ نے پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے اور بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ اور پارلیمان اس معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے لے کر حال ہی میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال تک کے ادوار میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز میں ایک واضح صف بندی نظر آتی تھی۔‘ انھوں نے کہا کہ انھی ججز کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں سے ملک سیاسی اور معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کی تاریخ کے واحد چیف جسٹس ہیں جنھوں نے مقدمات کی سماعت کے لیے بینچز کی تشکیل کے حوالے سے اپنے اختیارات کے استعمال میں سپریم کورٹ کے مزید دو ججز کو شامل کیا ہے۔ اس سے پہلے تو کوئی چیف جسٹس کسی دوسرے جج کو اپنے اختیارات کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتا تھا۔‘ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ سروسیجر ایکٹ کے فیصلے کے بعد موجودہ چیف جسٹس کی پوزیشن کمزور نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انھوں نے اس معاملے میں فل کورٹ تشکیل دے کر اور پھر ان درخواستوں کی سماعت کو ٹی وی پر براہِ راست دکھا کر فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ ان ججز کے چہروں کو پہچان لیں جو ملک اور پارلیمان کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور جو اپنے ذاتی ایجنڈے کو لے کر اپنی مرضی کے فیصلے عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ سابق چیف جسٹس صاحبان کے ’ہم خیال ججز اپنا ذہن اس بات پر تیار کر کے بیٹھے تھے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کے 13 ماہ گزرنے کے بعد وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو واپس لے آئیں گے لیکن ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔‘ کیا عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان ٹکراؤ ختم ہوگا؟ سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کے مطابق سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کو مجموعی طور پر مسترد کر کے پارلیمان کے لیے سپریم کورٹ کے امور میں مداخلت کے دروازے کھول دیے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مستقبل میں جب بھی کبھی سپریم کورٹ اور پارلیمان کا ٹکراؤ ہو گا تو وہ عدالتی معاملات میں مداخلت قانون سازی کرے گی اور اس ضمن میں سپریم کورٹ سے مشاورت کے امکانات بھی بہت کم نظر آ رہے ہیں۔‘ احمد اویس کا کہنا تھا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بھی عدلیہ اور پالیمان ٹکراؤ کے نتیجے میں ہی بنایا گیا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان صوبوں میں بروقت انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ نے جو از خود نوٹس لے کر اس کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا تھا اس پر ہی اس وقت کی حکومت اور سپریم کورٹ میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے جس کی بنا پر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو پارلیمان سے منظور کروایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو مسترد کیے جانے کا عدالتی فیصلہ مستقبل کے ججز پر بھی لاگو ہو گا جب تک پندرہ رکنی بینچ سے کوئی بڑا سپریم کورٹ کا بینچ اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں میں اس کے خلاف فیصلہ نہیں دے دیتا۔ واضح رہے کہ اس ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرنے کا فیصلہ پانچ کے مقابلے میں دس کے تناسب سے آیا تھا جبکہ اس ایکٹ کے تحت فیصلے کے خلاف اپیل دینے کے حق کا فیصلہ نو-چھ کے تناسب سے اور ماضی میں از خود نوٹس پر کیے گئے فیصلوں کے خلاف نظرثانی کی اپیل کو مسترد کرنے کا فیصلہ آٹھ-سات کے تناسب سے سامنے آیا تھا۔ احمد اویس کا کہنا تھا کہ وکلا برادری شروع دن سے ہی اس نقطے پر متفق تھی کہ مختلف مقدمات کی سماعت کے لیے بینچز کی تشکیل کے معاملے پر چیف جسٹس کو دیگر سینئیر ججز کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے۔ ،تصویر کا ذریعہPTV انھوں نے کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر تین معاملات میں ججز میں جو تقسیم نظر آئی ہے اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی پوزیشن ویسی مضبوط نہیں ہے جیسی ان کا عہدہ سنبھالنے کے بعد تصور کی جا رہی تھی۔‘ سابق ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ ’مستقبل میں عدلیہ اور پارلیمان کا جب بھی ٹکڑاؤ ہو گا تو اس ٹکڑاؤ کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان جس فریق کو ہو گا وہ سپریم کورٹ ہی ہو گی۔‘ سپریم کورٹ میں مقدمات کی کوریج کرنے والے صحافی ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں

کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلے سے عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان ٹکراؤ ختم ہوگا؟ Read More »

گندم کی پیداوار کا تخمینہ 32 ملین ٹن سے زیادہ ہے۔

اسلام آباد: وفاقی کمیٹی برائے زراعت (ایف سی اے) نے ربیع سیزن 2023-24 کے لیے گندم کی پیداوار کا ہدف 32.12 ملین ٹن مقرر کیا ہے، جو کہ گزشتہ سال کے 28.2 ملین ٹن کے مقابلے میں 12.20 فیصد زیادہ ہے، وزارت قومی کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق۔ بدھ کو فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ۔ پنجاب میں 25 ملین ٹن گندم کی پیداوار کا تخمینہ لگایا گیا ہے جب کہ سندھ کا ہدف 4 ملین ٹن ہے جس کے بعد خیبر پختونخواہ 1.6 ملین ٹن اور بلوچستان کا 1.5 ملین ٹن ہے۔ پیداوار کا ہدف 8.9 ملین ہیکٹر سے حاصل کیا جائے گا۔ ایف سی اے کا اجلاس وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک کی زیر صدارت ہوا اور اس میں پنجاب اور کے پی کے وزرائے زراعت کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے سینئر حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی ربیع کی فصلوں کے اہداف طے کرتی ہے۔ 2023-24 کے لیے ربیع کی فصلوں کے اہداف کا تعین کرتے ہوئے، FCA نے مونگ، ماش اور مرچوں کے لیے بھی ہدف مقرر کیا۔ مونگ کی پیداوار کا تخمینہ 198,000 ہیکٹر سے 1.43 ملین ٹن لگایا گیا ہے جو کہ رقبہ میں 9.2 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے تاہم گزشتہ سال کے مقابلے پیداوار میں 6.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ماش کا تخمینہ 73,600 ہیکٹر سے 5.28 ملین ٹن ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں بالترتیب رقبہ اور پیداوار میں 12.95pc اور 24.65pc کا اضافہ ہے۔ 2023-24 کے لیے مرچوں کی پیداوار کا تخمینہ 122.1 ہزار ہیکٹر کے رقبے سے 136,000 ٹن لگایا گیا ہے۔ چنے، آلو، پیاز اور ٹماٹر کے پیداواری اہداف بالترتیب 4,100,000 ٹن، 63,300,000 ٹن، 24,940,000 ٹن اور 666,000 ٹن مقرر کیے گئے تھے۔ کمیٹی نے ربیع کی فصلوں کے لیے بیج کی دستیابی پر بھی تبادلہ خیال کیا، اور یہ دیکھا گیا کہ تصدیق شدہ بیج کی دستیابی تسلی بخش رہے گی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ربیع میں یوریا اور ڈی اے پی کی سپلائی مستحکم رہنے کی امید ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کمیٹی نے ربیع کے سیزن کے دوران پنجاب اور سندھ کے لیے 15 فیصد پانی کی کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ربیع سیزن کے دوران صوبوں کو 31.66 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی مختص کیا جائے گا۔ FCA کو مطلع کیا گیا کہ موجودہ موسمی حالات معاون ہیں اور قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ حکومت پیداواری لاگت اور پیداواری قیمت کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے کسانوں کو مناسب قیمتوں پر ان پٹ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پیداوار کی بہتر قیمت کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ زرعی شعبے کے فروغ کے لیے حکومت کے ایجنڈے کی پیروی میں، اسٹیٹ بینک نے 2023-24 کے لیے 47 قرض دینے والے اداروں کو 2,250 ارب روپے کا سالانہ اشاراتی زرعی قرضہ جات کی تقسیم کا ہدف تفویض کیا ہے، جو گزشتہ سال کی تقسیم کے مقابلے 26.7 فیصد زیادہ ہے۔ 1776 ارب روپے جولائی تا اگست 2023 کے دوران زرعی قرضہ دینے والے اداروں نے 326 ارب روپے تقسیم کیے جو کہ مجموعی سالانہ ہدف کا 14.5 فیصد ہے اور گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران کیے گئے 226 ارب روپے کی تقسیم سے 44 فیصد زیادہ ہے۔ کمیٹی نے 2023 کے لیے خریف کی فصلوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور بتایا گیا کہ 2023 کے لیے کپاس کی پیداوار کا تخمینہ عارضی طور پر 2.4 ملین ہیکٹر کے رقبے سے 11.5 ملین گانٹھوں پر لگایا گیا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں پیداوار میں 126.6 فیصد کا بمپر اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ چاول کی پیداوار کا تخمینہ عارضی طور پر 3.35 ملین ہیکٹر سے 8.64 ملین ٹن ہے جو کہ رقبہ اور پیداوار میں 12.7 فیصد اور 18 فیصد کا اضافہ ہے۔

گندم کی پیداوار کا تخمینہ 32 ملین ٹن سے زیادہ ہے۔ Read More »

Military Coup 12th October 1999

’ریلیکس میجر، گولی مت چلانا‘: 12 اکتوبر کی یادیں

ویسے تو پاکستان کی بری فوج نے جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں بارہ اکتوبر کی شام وزیراعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا لیکن اس حکومت میں شامل بعض اہم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھیں کئی ہفتے پہلے ایسی اطلاعات مل چکی تھیں کہ فوجی سربراہ نے حکومت پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ 14 ستمبر 1999 کا ہے جس کی تفصیل اس وقت کی نواز شریف کابینہ کے اہم ترین رکن اور وزیر اطلاعات مشاہد حسین نے بی بی سی کو بتائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف بطور وزیرِ اعظم، متعدد وزرا (جن میں مشاہد حسین سید خود بھی شامل تھے) اور دیگر حکام کے ہمراہ سکردو گئے جہاں انھیں لینے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف اور فوج کی اعلیٰ کمانڈ کے افسران موجود تھے۔ مشاہد حسین کے مطابق وہیں طے ہوا کہ شام کو محفل منعقد ہو گی جس میں پرانے گانے گائے اور سنے جائیں گے۔ ’اُسی خوشگوار محفل کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھ موجود فوج کے دیگر افسران نے ’نواز شرف زندہ باد‘ کے نعرے بھی لگائے۔‘ سینیٹر مشاہد حسین بتاتے ہیں کہ اس دوران انھوں نے نوٹ کیا کہ راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود، جن کے ماتحت شمالی علاقہ جات بھی آتے تھے، وہاں موجود نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر انھوں نے جنرل پرویز مشرف سے پوچھا کہ جنرل محمود کہاں ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ راولپنڈی میں مصروفیات کی بنا پر نہیں آ سکے۔ مشاہد حسین کہتے ہیں کہ عموماً ایسا نہیں ہوتا، اس وقت یہ واضح ہو گیا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی تمام تر پلاننگ ہو چکی تھی اور اگر سکردو میں کسی وجہ سے بات بگڑ جاتی اور جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کر لیا جاتا تو متبادل پلان پنڈی سے بغاوت کرنے کا تھا۔ مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ستمبر 1999 کے دوران وزیرِ اعظم ہاؤس کا گارڈ بھی تبدیل کر دیا گیا اور 111 بریگیڈ، جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی فوجی بغاوت کے دوران یہ بریگیڈ سب سے پہلے حاضر ہوتی ہے، اس کا کمانڈر تبدیل کر دیا گیا تھا۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ اگست کے اواخر اور ستمبر کے اوائل میں چند سیاسی و سماجی کارکنان، جن میں انسانی حقوق کے کارکنان اور وکلا بھی شامل تھے، سے مبینہ طور پر پاکستان کی افواج سے منسلک اہلکاروں نے بات کی اور اس دوران انھیں بتایا گیا کہ حکومت جانے والی ہے اور کیا آپ نئی حکومت میں بطور وزیر شامل ہونا پسند کریں گے؟ مشاہد حسین کے مطابق دونوں طرف سے تیاری مکمل تھی۔ اور میاں نواز شریف کو بھی سمجھ آ چکا تھا کہ موجودہ حالات میں گزارا نہیں ہو سکتا۔ لیکن انتظار اس بات کا تھا، کہ پہل کون کرے گا؟ سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف اس تاثر کی تردید کرتے رہے ہیں کہ انھوں نے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کیا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ نواز شریف کے خلاف فوج نے ایک ادارے کے طور پر ایکشن لیا تھا اور اس کی وجہ اپنے سربراہ کی غیر منصفانہ اور غیر شفاف برطرفی کی کوشش تھی۔ فوجی بغاوت کیسے ہوئی؟ 12 اکتوبر 1999 کے روز بی بی سی کے اس وقت کے نامہ نگار ظفر عباس اسلام آباد سے چھٹیاں لے کر کراچی آئے ہوئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں ‘میں کراچی میں بیٹھا خبریں سن رہا تھا اور خبریں سنتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ نواز شریف نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جنرل مشرف کو ان کہ عہدے سے ہٹا دیا جائے اور ان کی جگہ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیا الدین کو فوج کا سربراہ بنا دیا جائے۔ اب یہ اپنے طور پر بھی خاصی بڑی خبر تھی۔ اور اس وقت مجھے افسوس بھی ہو رہا تھا کہ میں اس وقت کیوں چھٹی پر ہوں۔‘ ظفر عباس کے مطابق تھوڑی دیر بعد سرکاری نشریاتی چینل یعنی پاکستانی ٹیلی ویژن کی نشریات بند ہو گئی اور ایک اعلان چلنے لگا کہ تھوڑی دیر بعد سروس بحال ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں ‘صحافی ہونے کے ناطے مجھے اندازہ ہوا کہ گڑبڑ بہت زیادہ ہے۔ میں نے اپنے ساتھی اور صحافی ادریس بختیار سے رابطہ کیا اور ہم دونوں نے طے کیا کہ فوری طور پر کراچی سے معلومات اکٹھی کی جائیں۔ اسی وقت ہمیں پتا چلا کہ جنرل مشرف کولمبو سے کراچی واپس آ رہے ہیں لہذا ہم دونوں نے طے کیا کہ کراچی ایئرپورٹ جانا چاہیے۔‘ ظفر عباس کے مطابق کراچی ایئرپورٹ پہنچنے پر بھی صورتحال واضح نہیں ہوئی ’یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نواز شریف انچارج ہیں یا فوج؟‘ تاہم ‘اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف اور وزیرِ اعظم نواز شریف کے درمیان شدید قسم کا تناؤ ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ‘اسی دوران مختلف قسم کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔ اسی دوران حالات کو بہتر کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بھی بنا دیا گیا تھا۔‘ ‘جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید حالات بہتر ہوں۔ لیکن کشیدگی کی صورتحال ایسی تھی کہ کافی لوگوں کو لگ رہا تھا کہ شاید اس کا کوئی حل نہ نکل پائے۔‘ ظفر عباس کہتے ہیں کہ پھر جب 12 اکتوبر کا واقعہ ہوا تو تمام باتیں کھل کر سامنے آ گئیں کہ ایک طرف نواز شریف نے غالباً یہ طے کر لیا تھا کہ وہ فوج کے سربراہ کو ہٹا دیں گے اور اس کے ردعمل میں پاکستان کی فوج نے جنرل مشرف کے ملک میں نہ ہونے کے باوجود ٹیک اوور کا فیصلہ کر لیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اس سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ فوج نے بھی طے کر لیا تھا کہ اگر نواز شریف کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں چاہے جنرل

’ریلیکس میجر، گولی مت چلانا‘: 12 اکتوبر کی یادیں Read More »

Pakstan And India two Cricket Rivals

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘

سنہ 1983 کا کرکٹ ورلڈ کپ، انڈیا کے کچھ کھلاڑیوں کے لیے سیر و تفریح کے موقع سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کرکٹر سندیپ پاٹل لکھتے ہیں کہ ’انڈیا مقابلے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ پچھلے دو کرکٹ ورلڈ کپس میں اس نے شاید ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس لیے ہم انڈیا سے روانہ ہوئے تو عملی طور پر چھٹی کے موڈ میں تھے۔ کرکٹ ہماری پہلی ترجیح نہیں تھی۔‘ مگر ہوا یہ کہ انڈیا نہ صرف سیمی فائنل میں پہنچ گیا بلکہ اس نے اپنے مقابل اور مسلسل تیسرے ورلڈ کپ کے میزبان انگلینڈ کو شکست بھی دے دی۔ انڈیا کو اب 25 جون کو لارڈز کے میدان میں فائنل میں پچھلے دو مقابلوں کے فاتح ویسٹ انڈیز کا سامنا تھا جس نے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا۔ فائنل کھیلنے کے باوجود انڈیا کو لارڈز کے دو پاس نہ ملے کرکٹ مؤرخ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ انڈیا کے سابق وزیر تعلیم سدھارتھ شنکر رے اُن دنوں نجی دورے پر انگلینڈ میں ہی موجود تھے۔ انڈیا فائنل میں پہنچا تو انھوں نے انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر این کے پی سالوے سے یہ میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ ’سالوے نے انگلش کرکٹ بورڈ (ایم سی سی) سے دو ٹکٹوں کے حصول کی درخواست کی۔ گو انڈیا فائنل کھیل رہا تھا مگر اس درخواست کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ لارڈز پر پہلا حق ایم سی سی ارکان کا ہے اور انڈین کرکٹ بورڈ کو اضافی ٹکٹ نہیں دیے جا سکتے۔‘ ’سالوے کو اس پر بہت غصہ آیا اور اس معاملے میں انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے چیئرمین ایئر چیف مارشل نور خان کی حمایت بھی مل گئی۔‘ اس پر مستزاد یہ کہ فائنل مقابلے میں ایم سی سی اراکین کے لیے گراؤنڈ میں مخصوص نشستوں میں سے آدھی خالی رہیں کیونکہ انگلینڈ کے فائنل میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ مقابلہ دیکھنے ہی نہ آئے۔ ٹکٹیں تو نہیں مل سکیں مگر کپل دیو کی قیادت میں انڈیا نے 1983کے ورلڈ کپ کا فائنل جیت لیا۔ کیوں نہ اگلے ورلڈکپ کے میزبان انڈیا اور پاکستان ہوں؟ اگلے روز لنچ پر سالوے اور نور خان پھر اکٹھے تھے۔ پیٹراوبورن پاکستانی کرکٹ کی تاریخ پر اپنی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سالوے ٹکٹیں نہ ملنے پر شدید غصے میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ کاش فائنل انڈیا میں ہوتا۔‘ نور خان فوراً بولے: ’ہم اگلا ورلڈ کپ اپنے ملکوں میں کیوں نہیں کھیل سکتے؟‘ سالوے نے فوراً نور خان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ (سالوے نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعے کو یوں ہی بیان کیا ہے۔) اوبورن لکھتے ہیں کہ ’پہلے دونوں کو اپنی اپنی حکومتوں کو قائل کرنا تھا۔ نور خان کے جنرل ضیا کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور سالوے تھے ہی (انڈیا کے وزیرِاعظم) راجیو گاندھی کی کابینہ کے وزیر۔‘ اسی سال 1983 میں نور خان نے پہلی ایشیئن کرکٹ کانفرنس کے انعقاد میں مدد کی جہاں یہ تجویز پیش کی گئی اور انڈیا، پاکستان اور سری لنکا نے جنوبی ایشیا میں ورلڈ کپ کے انعقاد کی تجویز کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ سری لنکن بورڈ کے سربراہ گامنی ڈسانائیکے نے اس شرط پر ہاں میں ہاں ملائی کہ اُن کے ملک کا اس ایونٹ میں کوئی مالیاتی حصہ نہیں ہو گا، یوں ایک طرح سے یہ انڈیا اور پاکستان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کے مشترکہ خواب کو تعبیر کریں۔ اوبورن کے مطابق ’سالوے اور نور خان نے ایشین کرکٹ کونسل بنائی۔ اس کی تشکیل میں سری لنکا نے بھی ساتھ دیا، جسے تازہ تازہ ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ ملا تھا۔ بنگلا دیش، ملائشیا اور سنگا پور دیگر بانی ارکان تھے اور سالوے اس کے پہلے صدر بنے۔ یوں عالمی کرکٹ میں ایک نئے ووٹنگ بلاک کا اضافہ ہوا۔ رسمی تجویز کا مسودہ تیار کیا گیا۔ دوسری جانب آئی سی سی نے ورلڈ کپ کی میزبانی کسی اور ملک کو دینے کی تجویز کی مخالفت میں قانونی اعتراضات کااستعمال کیا۔‘ انڈیا اور پاکستان کو اس کی توقع تھی اُس دور میں کرکٹ کا ڈھانچا بہت مختلف تھا۔ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ ’انگلش کرکٹ بورڈ کا سربراہ خود بخود آئی سی سی کا سربراہ بن جاتا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے پاس ویٹو کا اختیار تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایشیئن بلاک کی تجاویز کو ایم سی سی بغیر وضاحت کے بھی مسترد کر سکتا تھا۔‘ نور خان نے انڈیا، پاکستان جوائنٹ مینجمنٹ کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی اور این کے پی سالوے کو اس کی سربراہی کے لیے کہا جبکہ بِندرا اس کے سیکریٹری بنے۔ ’ایک غیر رسمی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر جگموہن ڈالمیا نے آئی سی سی کے لیے اپنی تجویز میں لکھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کو پوری دنیا میں گھمایا جائے اور 1987 کے بعد آسٹریلیا کو 1992 میں کپ کی میزبانی کا حق دیا جائے۔‘ اور یوں پہلی دراڑ پیدا ہوئی۔ ’آسٹریلین کرکٹ بورڈ( اے سی بی) کے چیئرمین فریڈ بینیٹ نے پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ بورڈز کو ضمانت دی کہ آسٹریلیا خفیہ رائے شماری میں اُن کی تجویز کے حق میں ووٹ دے گا۔ بینیٹ نے یقین دلایا کہ وہ اس تجویز کو ویٹو نہیں کریں گے۔‘ ’آئی سی سی میں کل ووٹ 37 تھے۔ ٹیسٹ کھیلنے والے آٹھ ممالک کے دو، دو کے حساب سے 16 ووٹ تھے اور باقی ووٹ ایسوسی ایٹ ممالک کے تھے۔ انگلینڈ آئی سی سی کے وسائل کا صرف 40 فیصد ایسوسی ایٹ ممالک کو دیتا تھا۔‘ ’آئی پی جے ایم سی نے ایسوسی ایٹ ممالک کو اس سے چار گنا ریونیو کی پیشکش کی جو انگلینڈ انھیں دے رہا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کو پانچ گنا زیادہ آمدنی کی پیشکش کی جو انگلینڈ اس وقت تک دے رہا تھا۔‘ ’نسیم حسن شاہ میز پر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر ووٹ دیا‘ آئی پی جے ایم سی نے ووٹنگ میں 16-12 سے کامیابی حاصل کی لیکن انگلینڈ نے اعتراض اٹھا دیا۔ امرت ماتھر لکھتے

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘ Read More »

Great Imran Khan and KapilGreat Pakistan Cricket Team Captain Imran Khan and India Cricket Team Captain Kapil dev of 1987 Dev

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا

ہ 1955 کی بات ہے۔ ادیب اور مترجم سوم آنند انھی دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کا ایک ٹیسٹ میچ لاہورمیں تھا اور نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے اعلان ہوا کہ جو شخص بھی میچ دیکھنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا چار روز کا ویزا بغیر کسی تاخیرکے حاصل کر سکتا ہے۔ ’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘ سوم آنند کا اپنا بچپن لاہور میں گزرا تھا چنانچہ انھیں اس شہر سے اُنس تھا۔ ’پاکستان کو ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ انڈیا کی سفارش پر ملا‘ پاکستان سنہ 1948 میں امپیریل کرکٹ کانفرنس (موجودہ آئی سی سی) کا رُکن بنا تھا، مگر وہ ’فُل ممبر‘ نہیں تھا، بنتا تو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا اہل ہوتا۔ علی خان کی تحقیق کے مطابق غیرمنقسم ہندوستان 1926 میں آئی سی سی کا مکمل رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کو آئی سی سی میں مکمل داخلے کے لیے تقسیم کے بعد 5 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ علی خان لکھتے ہیں کہ آئی سی سی کی رکنیت حاصل کرنے کی پاکستان کی ابتدائی دو کوششیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اِس بنیاد پر رد کر دیں کہ اس ’قوم کو ابھی ناقابل تسخیر مشکلات پر قابو پانا ہے۔ تاہم تیسری کوشش پر اینتھونی ڈی میلو (اُس وقت کے انڈین کرکٹ بورڈ کے صدر) کی سفارش پر پاکستان کو 1952 میں مکمل رکنیت دے دی گئی۔‘ آئی سی سی رکنیت کے حصول کے بعد اُسی سال انڈیا دلی میں پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پہلی ٹیم تھی۔ علی خان لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ تقسیم کی ہولناکیوں کے بعد عوام سے عوام کے رابطے کا پہلا حقیقی موقع تھا۔ دونوں ٹیموں کے کپتان تقسیم سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دونوں لاہور کے مشہور کریسنٹ کلب کے لیے کھیل چکے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار (پاکستان) اور لالا امرناتھ (انڈیا) دونوں نے کرکٹ لاہور کےمنٹو پارک کے میدانوں میں سیکھی تھی۔ وہ ایک ہی زبان بولتے تھے۔ مہمان نوازی لالا امرناتھ تو پاکستانی کرکٹرز کا استقبال کرنے دلی ٹرین سٹیشن بھی گئے۔ امرناتھ کی سوانح عمری کے مطابق ’جہاں کسی کو دشمنی کی توقع تھی وہاں صرف دوستی تھی۔‘ ٹیم کے ایک رکن وقار حسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’ٹیم کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال ایسی تھی کہ دشمنی ہوا میں بکھر گئی۔‘ پانچ ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز انڈیا دو ایک سے جیت گیا جبکہ دو میچ برابر رہے۔ دلی ٹیسٹ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی کے علاوہ تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ ڈیبیو ٹیسٹ تھا۔ کاردار اور الٰہی اس سے قبل غیرمنقسم ہندوستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے تھے۔ لکھنئو میں دوسرا ٹیسٹ تھا۔ لکھاری اور کرکٹر نجم لطیف کے مطابق پاکستانی ٹیم ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں کشش رکھتی تھی۔ ’اس کی بڑی وجہ نوجوان بلے باز حنیف محمد تھے۔ پاکستانی ٹیم رائل ہوٹل میں ٹھہری تھی۔ قریب ہی سے اسلامیہ کالج کے طلبا نے حنیف کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لابی پر دھاوا بول دیا۔‘ ’فضل محمود نے بیگم کی بات مانی‘ لکھنئو پہنچنے سے پہلے پاکستان کے فاسٹ بولرفضل محمود کے لیے ان کی اہلیہ کا ٹیلی گرام آ چکا تھا کہ وہ کم ازکم سات وکٹ ضرور لیں۔ ’پٹ سن کی مَیٹنگ پر کھیلے گئے اس میچ میں فضل محمود نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یوں، ان کے میچ کے اعداد و شمار تھے: 92 رنز کے عوض 12 وکٹیں۔ نذر محمد نے ناقابل شکست 124 رنز بنائے۔ اس طرح پاکستان نے انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کر اپنی پہلی جیت سمیٹی۔‘ لکھنؤ کا ہجوم کھلاڑیوں کا مذاق بھی شستہ اُردو زبان میں اڑا رہا تھا۔ وقارحسن اپنی سوانح عمری میں ایک خاص تبصرہ کو واضح طور پر یاد کرتے ہیں کہ جب وہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کر رہے تھے تو طلبا کے ایک گروپ نے ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں کہا: ’اجی قبلہ، آپ اگر رخ ِزیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے۔‘ انڈین ٹیم کی ہار پر انڈیا میں حملہ تاہم نجم لطیف لکھتے ہیں کہ تقریباً 25000 کا یہ ہجوم انڈیا کی شکست کو ہضم نہ کر سکا۔ ’انھوں نے انڈین کھلاڑیوں کے کیمپوں پر حملہ کر کے انھیں آگ لگا دی۔ انھوں نے اس بس کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے جو انڈین کھلاڑیوں کو واپس ان کے ہوٹل لے جانے والی تھی۔ انڈین کھلاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور وہ بڑی مشکل سے خود کو بچا کر اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘ بیگم اختر کی دعائیں پاکستانی ٹیم کے لیے واپس رائل ہوٹل میں، فضل محمود نے دیکھا کہ نذرمحمد تیار ہو کر کہیں جانے کی جلدی میں ہیں۔ فضل کے پوچھنے پر نذر نے بتایا کہ وہ ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی کو آداب کہنے جا رہے ہیں۔ فضل بھی جانے کو تیار ہو گئے۔ نجم لطیف لکھتے ہیں کہ دونوں ان کے گھر پہنچے اور بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ کچھ وقت تک جب وہ نہ آئیں تو فضل نے ملازم سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ’جواب ملا کہ وہ اگلے کمرے میں نماز پڑھ رہی ہیں۔ فضل اور نذر دونوں اٹھ کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں بیگم اختر تھیں۔ جائے نماز پر اپنے ہی خیالوں میں مگن تھیں۔ فضل اور نذر نے مخاطب کیا۔ وہ ان کو دیکھ کر چونک گئیں اور کہنے لگی ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو میچ جیتنے کے لیے کھیلنا چاہیے۔ میں یہاں آپ کی جیت کے لیے دعا کر رہی ہوں۔‘ فضل نے آگے کی طرف جھک کر کہا: ’آپ کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں۔ ہم جیت گئے ہیں۔ پاکستان جیت گیا۔‘ ’یہ بڑی خبر سُن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے ان کی آنکھوں میں خوشی

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا Read More »

پاکستان سے بیرون ممالک جانے والے بھکاریوں کے گروہ: ’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک ملتی ہے‘

رواں ماہ 5 اکتوبر کو دو خواتین اور دو مردوں پر مشتمل ایک گروپ مبینہ طور پر بھیک مانگنے کی غرض سے عمرہ زائرین بن کر سعودی عرب جانے کے لیے لاہور کے علامہ اقبال ائیرپورٹ پر پہنچا۔ پنجاب کے ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے بھکاریوں کے اس ’منظم گروہ‘ میں نسرین بی بی، اُن کے چچا اسلم، چچی پروین اور بھائی عارف شامل تھے۔ یہ چاروں قریبی رشتہ دار سہانے خواب لیے ایئرپورٹ پر واقع ایف آئی اے امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے۔ نسرین بی بی اس سے پہلے 16 مرتبہ جبکہ پروین نو مرتبہ پاکستان سے باہر عمرہ کی ادائیگی یا زیارتوں پر جانے کے بہانے بھیک مانگنے کے لیے سعودی عرب، ایران اور عراق جا چکی تھیں۔ اسلم اور عارف اگرچہ سعودی عرب تو پہلی بار جا رہے تھے لیکن ماضی میں وہ متعدد مرتبہ ایران اور عراق زیارتوں کے بہانے بھیک مانگنے کے لیے سفر کر چکے تھے۔ ایف آئی اے امیگریشن پر تعینات اہلکاروں نے ان چاروں افراد سے پوچھ گچھ کے بعد انھیں جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا اور ’ٹریفکنگ اِن پرسن ایکٹ 2018‘ کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے انھیں گرفتار کر لیا۔ ایف آئی آر کے مطابق دوران تفتیش چاروں ملزمان نے اعتراف کیا کہ وہ سعودی عرب عمرہ زائرین کے بھیس میں جا رہے تھے حالانکہ ان کا اصل مقصد وہاں جا کر بھیک مانگنا تھا۔ بی بی سی کو دستیاب ایف آئی آر کے متن کے مطابق یہ تمام ملزمان پہلے بھی سعودی عرب، ایران اور عراق بھیک مانگنے کی غرض سے جا چکے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان اور ان کے ایجنٹ جہاں زیب کے درمیان موبائل پر بھیجے گئے پیغامات سے بھی اس گروہ کے باہر کے ممالک میں جا کر بھیک مانگنے کے شواہد ملے ہیں اور ان کے موبائلز فرانزک کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔ نسرین بی بی اور پروین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا جبکہ دیگر دونوں ملزمان محمد اسلم اور عارف مزید پوچھ گچھ کے لیے حوالات میں بند ہیں۔ نو اکتوبر کو مقامی عدالت میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر بی بی سی نے نسرین بی بی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’کیا ہمیں اس طرح پکڑنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، کیا اس ملک میں لوگ بھوک سے نہیں مر رہے، کیا روزی کمانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔‘ نسرین بی بی کے مطابق ’ایسی گرفتاریوں سے یہ کام رُکنے والا نہیں۔ ہم غریبوں کو تو آرام سے پکڑ لیا، کیا کبھی کسی طاقتور کو بھی پکڑا ہے یہاں۔‘ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا بیرون ملک جا کر بھیک مانگنے سے پاکستان کی بدنامی نہیں ہوتی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’پہلے کون سے جھنڈے لگے ہیں۔‘ واضح رہے کہ حال ہی میں وزارت اوورسیز پاکستانی کے سیکریٹری ذوالفقار حیدر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ بیرون ملک گرفتار ہونے والے 90 فیصد بھیک مانگنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یہ دعویٰ سامنے آنے کے بعد بی بی سی کی تحقیق سے علم ہوا کہ ایک منظم طریقے سے پاکستان میں موجود ایجنٹ بھکاریوں یا ضرورت مند افراد کو اس مقصد کے تحت مشرق وسطیٰ کے ممالک، خصوصاً سعودی عرب، ایران اور عراق بھجواتے ہیں جہاں بھیک سے حاصل ہونے والی رقم میں اِن ایجنٹس کو بھی حصہ ملتا ہے۔ تاہم حال ہی میں سعودی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر پاکستانی حکومت سے باضابطہ شکایت کے بعد وفاقی وزارت داخلہ کو اس مسئلے کا تدارک کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں جس کے نتیجے میں نسرین بی بی اور ان کا خاندان گرفتار ہوا۔ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے مطابقحالیہ دنوں میں ملتان اور سیالکوٹ سے چند گروہ گرفتار ہوئے ہیں جو لوگوں کو عمرے کے بہانے سعودی عرب لے کر جاتے ہیں اور اب تک آف لوڈ ہو کر گرفتار ہونے والوں کی تعداد 37 ہے۔ ’پہلی بار سعودی عرب جا رہے تھے‘ شخص بھی فیس بُک اور واٹس ایپ کے ذریعے اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور لوگوں کو واٹس ایپ پر تمام تر تفصیلات مہیا کر دیتے ہیں۔ ان کا طریقہ کار کچھ یوں ہوتا ہے کہ پاکستان سے کئی افراد مزدوری کرنے کی غرض سے ان ایجنٹس سے رابطہ کرتے ہیں اور جو لوگ کوئی کام نہیں جاتے، انھیں ایجنٹس بھیک مانگنے کی آفر کرتے ہیں۔ ایجنٹ نے بتایا کہ ’پاکستان سے ہر کوئی مزدوری کی غرض سے نہیں جاتا۔ اس لیے ان کو کچھ مختلف آفر کرنا پڑتا ہے۔‘ ’خواتین اور بچوں کو بھی اس گروہ کا حصہ بنانا پڑتا ہے تاکہ پہلے عمرے یا زیارت کے لیے ویزا حاصل کیا جا سکے اور پھر انھیں مکہ اور مسجدِ نبوی کے سامنے بٹھایا جا سکے۔‘ پاکستانی بھکاریوں کے بارے میں کیسے پتہ چلا؟   بی بی سی نے ان سرکاری دستاویزات تک رسائی حاصل کی ہے جو سعودی عرب کی حکومت نے اس اہم مسئلے پر پاکستان کی حکومت کے ساتھ شئیر کی تھیں۔ بی بی سی کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق 16 جون 2023 کو سعودی عرب کی حکومت نے وزیر اعظم آفس کو سعودی عرب میں بھیک مانگنے، جسم فروشی، منشیات کی سمگلنگ اور سفری دستاویزات میں جعل سازی جیسے بڑھتے ہوئے جرائم میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا۔ بی بی سی کی معلومات کے مطابق سعودی عرب کی باضابطہ شکایت کے بعد وزیر اعظم آفس نے وزارت داخلہ اور اس کے ذیلی اداروں، بشمول ایف آئی اے، کو ہدایات جاری کیں جس کے بعد ایف آئی اے نے سعودی عرب سمیت دیگر مشرق وسطی ممالک جانے والے پاکستانیوں کی تمام ہوائی اڈوں پر پروفائلنگ شروع کر دی۔ سیکریٹری وزارت اوورسیز پاکستانی ذوالفقار حیدر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انھیں سعودی عرب، ایران اور عراق کی جانب سے مطلع کیا گیا تھا جس کے بعد معلومات کو رپورٹ کی شکل میں پیش کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’پھر ایف آئی اے کو حرکت میں لانا پڑا۔ جیسا کہ آپ سب کو پتا ہے اس وقت ایف آئی اے

پاکستان سے بیرون ممالک جانے والے بھکاریوں کے گروہ: ’یہاں روپے ملتے ہیں، سعودی عرب میں ریال میں بھیک ملتی ہے‘ Read More »

Afghanistan Earthquake destruction

افغانستان کا زلزلہ: 6.3 شدت کے زلزلے کے بعد 1000 کی نظر ثانی شدہ تعداد کی اطلاع

افغان حکام نے بدھ کے روز ہفتے کے آخر میں مغربی ہرات میں آنے والے زلزلوں کے سلسلے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں طور پر کمی کر کے تقریباً 1,000 کر دیا ہے۔ طالبان حکومت نے اصل میں کہا تھا کہ سنیچر کے 6.3 شدت کے زلزلے میں 2,000 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے، جس کا مرکز ہرات شہر کے شمال مغرب میں دیہی برادریوں پر تھا۔ ابتدائی زلزلے کے بعد کئی طاقتور آفٹر شاکس آئے۔ صحت عامہ کے وزیر قلندر عباد نے بدھ کے روز متاثرہ افراد کی تعداد کو کم کر کے 1000 کے قریب کر دیا، اس الجھن کی وجہ علاقے کے دور دراز ہونے اور بچاؤ کی کوششوں میں شامل ایجنسیوں کی طرف سے دوہری رپورٹنگ ہے۔ عباد نے کابل میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ “ہمارے پاس پہلے واقعے سے 1,000 سے زیادہ لوگ شہید ہو چکے ہیں۔” آج کے 6.3 کی شدت کے زلزلے میں 1 ہلاک، 100 سے زائد زخمی بدھ کی صبح اسی علاقے میں 6.3 کی شدت کا ایک اور زلزلہ آیا، جہاں ہزاروں لوگ چوتھی رات کھلے میں گزار رہے تھے۔ ریاستہائے متحدہ کے جیولوجیکل سروے نے بتایا کہ زلزلہ مقامی وقت کے مطابق صبح 5:10 بجے (12:40 GMT) پر اتھلی گہرائی میں آیا، اس کا مرکز ہرات شہر سے تقریباً 29 کلومیٹر شمال میں تھا۔ زلزلے، لیکن ہفتے کے آخر میں آنے والی تباہی 25 سال سے زائد عرصے میں جنگ سے تباہ حال ملک پر حملہ کرنے کے لیے بدترین تھی۔ افغانستان کے دیہی علاقوں میں زیادہ تر گھر مٹی سے بنے ہیں اور لکڑی کے سہارے کے کھمبوں کے ارد گرد بنائے گئے ہیں، جس میں اسٹیل یا کنکریٹ کی کمک کا راستہ بہت کم ہے۔ کثیر نسل کے توسیع شدہ خاندان عام طور پر ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں، یعنی سنگین زلزلے کمیونٹیز کو تباہ کر سکتے ہیں۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد بڑے پیمانے پر غیر ملکی امداد کے انخلا کے ساتھ افغانستان پہلے ہی ایک سنگین انسانی بحران کا شکار ہے۔ ایران کے ساتھ سرحد پر واقع صوبہ ہرات میں تقریباً 1.9 ملین افراد آباد ہیں اور اس کی دیہی برادریاں برسوں سے خشک سالی کا شکار ہیں۔

افغانستان کا زلزلہ: 6.3 شدت کے زلزلے کے بعد 1000 کی نظر ثانی شدہ تعداد کی اطلاع Read More »