’اللہ خیر کرے، ایئرفورس بیس محفوظ رہے۔‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر میانوالی ایئربیس سے ملحقہ علاقے میں رہنے والے محمد خالد کی آنکھ سنیچر کو رات گئے دھماکوں اور فائرنگ کی آواز سے کھلی تو ان کے ذہن میں پہلا خیال ایئربیس کا آیا اور انھوں نے دل ہی دل میں اس کی حفاظت کی دعا کی۔
صبح ہوتے ہی یہ خبر پھیل چکی تھی کہ میانوالی شہر میں پاکستان ایئرفورس کی مشہور بیس پر حملہ ہو گیا ہے۔ خالد سمیت میانوالی کے جن رہائشیوں سے بی بی سی نے بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا سلسلہ صبح سے شروع ہوا وقفے وقفے دن تک جاری رہا۔ جس کے بعد پاکستانی فوج اور پاکستانی ایئرفورس نے اس دہشتگرد حملے کے خلاف جوابی کارروائی میں نو عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا اور کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے۔
اعلامیوں کے مطابق حملے کے نتیجے میں ’پاکستان ایئرفورس فنکشنل اور آپریشنل اثاثوں میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا البتہ حملے کے دوران صرف تین غیر آپریشنل طیاروں کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔‘
اس سے قبل ایک اعلامیے میں آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ’اس دوران پہلے سے گراؤنڈ کیے گئے تین طیاروں اور ایک فیول باؤزر کو بھی کچھ نقصان پہنچا۔‘
میانوالی ایئربیس میانوالی شہر میں ہی موجود ہے اور اس کے اردگرد وقت کے ساتھ نئی ہاؤسنگ سکیمیں بھی بنائی گئی ہیں جس کے باعث اب اس کے اردگرد رہائشی علاقے وسیع ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ آس پاس کے علاقوں میں کومبنگ آپریشن بھی کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ یہ گذشتہ دو ماہ کے دوران میانوالی میں ہونے والا دوسرا حملہ ہے۔ اس سے قبل یکم اکتوبر کو ضلع میانوالی میں عیسیٰ خیل کنڈل میں ایک پولیس چوکی پر 12 سے 15 شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے حملے میں ایک پولیس کانسٹیبل ہلاک ہوا تھا جبکہ پنجاب پولیس کے مطابق جوابی کارروائی میں دو شدت پسند ہلاک اور ایک زخمی ہوا تھا۔
اس سے پہلے رواں سال فروری میں پنجاب پولیس کے مطابق میانوالی کے تھانہ مکڑ وال پر عسکریت پسندوں کی جانب سے کیا گیا حملہ پسپا کیا گیا تھا جس کے بعد عسکریت پسند بھاگنے پر مجور ہو گئے تھے۔
واضح رہے کہ اس حملے کی زمہ داری تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے جو نسبتاً ایک غیر معروف جماعت ہے۔
اس تنظیم نے اس حملے سمیت اب تک چھ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
تحریکِ جہاد پاکستان کیا ہے اور یہ تنظیم کب اور کیسے سامنے آئی؟
اکستان میں شدت پسندی سے جڑے حالیہ چند حملے ایسے ہوئے ہیں جن کی ذمہ داری ایک ایسی غیر معروف تنظیم نے قبول کی ہے جس کے بارے میں حکام اوریہاں تک کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے عہدیدار بھی کچھ نہیں جانتے یا شاید بتانے سے گریزاں ہیں۔
اکثر تجزیہ کار اسے ایک پراسرار تنظیم قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس تنظیم کے ترجمان ان حملوں کی ذمہ داریاں تو قبول کرتے ہیں لیکن وہ اپنی تنظیم کے خدوخال کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔
اس تنظیم کا نام ’تحریک جہاد پاکستان‘ بتایا جا رہا ہے اور اس سے پہلے مئ میں بھی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مسلم باغ میں ایف سی کیمپ پر حملے کی ذمہ داری اسی تنظیم نے قبول کی تھی۔
اس تنظیم کا نام چند ماہ پہلے ہی سامنے آیا جب اس تنظیم نے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمہ داری پہلی بار قبول کی تھی۔
سینیئر صحافی اور خراسان ڈائری کے ڈائریکٹر نیوز احسان اللہ ٹیپو نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سال فروری میں انھیں ٹیلی فون پر پیغام موصول ہوا تھا جو بظاہر کسی یورپی ملک کے نمبر سے تھا۔
’کال کرنے والے شخص نے اپنا نام ملا محمد قاسم بتایا اور کہا کہ انھوں نے ’تحریک جہاد پاکستان‘ کے نام سے تنظیم کی بنیاد رکھی ہے لیکن اس تنظیم کے بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے دو دن بعد موبائل فون پر ایک میسج آیا جس میں کہا گیا کہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملے کی ذمہ داری وہ اپنی تنظیم کی جانب سے قبول کرتے ہیں۔
اس حملے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا میں شدت پسندی اور اس سے جڑے مسائل پر گہری تحقیق کرنے والے تجزیہ کار عبدالسید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تحریک جہاد پاکستان‘ اب تک ایک پراسرار تنظیم ہے جس کی قیادت، ارکان اور وجود کے کوئی شواہد نہیں۔
بعض صحافیوں کو بھیجے گئے مختصر تحریری پیغامات کے ذریعے اس تنظیم کے قیام کا اعلان کیا گیا اور ایک سوشل میڈیا اکاونٹ یا کچھ صحافیوں کو تحریری پیغامات بھیج کر شدت پسند حملوں کی ذمہ داریاں قبول کی گئی ہیں۔
اب تک اس تنظیم کے سربراہ و ترجمان کے نام متعارف کیے گئے ہیں لیکن ان کے ماضی یا حقیقی کردار ہونے سے متعلق کوئی شواہد نہیں۔
اس تنظیم کے ترجمان اپنا نام ملا محمد قاسم لکھتے ہیں، جنھوں نے صحافیوں کی درخواست اور کوشش کے باوجود اب تک کسی سے بات نہیں کی اور فقط تحریری پیغامات بجھوائے ہیں۔