انڈیا میں سوشل میڈیا پر گذشتہ 48 گھنٹے سے داؤد ابراہیم کا نام ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہے اور انھیں ’زہر دیے جانے‘ یا اُن کی ’کراچی میں موت‘ کی غیرمصدقہ خبریں گردش کر رہی ہیں۔
اس حوالے سے انڈین سوشل میڈیا اور روایتی مقامی میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو جتنے منھ اتنی باتیں کی مثال سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔
داؤد ابراہیم کے حوالے سے ان ٹرینڈز کی ابتدا دراصل دو روز قبل اس وقت ہوئی جب مقامی میڈیا پر انڈیا کو مختلف جرائم میں مطلوب انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کو زہر دینے جیسی خبروں نے گردش شروع کی۔ یہ غیرمصدقہ دعوے کیے گئے کہ زہر خورانی کے بعد داؤد کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ کراچی کے ہسپتال میں ان کی موجودگی کے کسی دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی اور انڈین میڈیا میں بھی یہ بات صرف دعوؤں تک محدود ہے۔
اتوار کی شام پاکستان میں انٹرنیٹ کی جزوی معطلی نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور انٹرنیٹ ڈاؤن ہونے کو بھی داؤد ابراہیم کے معاملے سے جوڑ دیا گیا۔
ایک معروف انڈین صحافی نے تو یہاں تک لکھا کہ انھیں ان کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ’ابھی اُن (داؤد) کی روح پرواز نہیں کی،‘ جس پر انھیں ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ انڈر ورلڈ ڈان اور ممبئی دھماکوں میں انڈیا کو انتہائی مطلوب داؤد ابراہیم لگ بھگ گذشتہ تین دہائیوں سے انڈین میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے ہیں اور اتنے ہی عرصے سے وہ مفرور بھی ہیں۔ ان کے بارے میں انڈیا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں مقیم ہیں تاہم پاکستان نے ہمیشہ اس نوعیت کے الزامات اور دعوؤں کی تردید کی ہے۔
انڈین میڈیا نے ’ذرائع‘ کے حوالے سے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھیں سخت حفاظتی انتظامات کے تحت ہسپتال کے ایک فلور پر رکھا گيا ہے جہاں اُن کے علاوہ کوئی دوسرا مریض نہیں ہے اور مخصوص اہلکار اور خاندان کے انتہائی قریبی لوگوں کو ہی ان تک رسائی حاصل ہے۔
تاہم انڈین اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے داؤد ابراہیم کے مبینہ معتمد خاص چھوٹا شکیل کے حوالے سے اس خبر کی تردید شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’داؤد بھائی کی موت کی افواہ بے بنیاد ہے۔ وہ سو فیصد فٹ ہیں۔‘
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق چھوٹا شکیل نے بتایا کہ اُن کے متعلق ’شرپسندانہ مقاصد کے تحت وقتاً فوقتاً افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔‘
مہاراشٹر اسمبلی میں تین ہفتے سے داؤد ابراہیم کا ذکر
گذشتہ تین ہفتے سے مہاراشٹر کی اسمبلی میں بھی داؤد ابراہیم کا نام گونج رہا ہے اور اس کی وجہ ریاستی وزیر گریش مہاجن کی سنہ 2017 کی ایک تصویر ہے جس میں وہ مبینہ طور پر داؤد ابراہیم کے خاندان کے ایک فرد کی شادی میں شریک نظر آ رہے ہیں۔
اس معاملے کو لے کر حزب اختلاف نے سوموار کو اسمبلی کے سرمائی شیشن کا بائیکاٹ کر دیا اور مطالبہ کیا کہ گریش مہاجن کو برخاست کیا جائے۔
اس سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان نتیش رانے نے بھی اسمبلی کے فلور پر اس حوالے سے دعوے کیے تھے جس کے بعد مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنوس نے اس معاملے کی چھان پھٹک کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔
دل کا دورہ، کورونا، دماغ میں رسولی اور اب زہر خورانی سے موت
داؤد ابراہیم کا کسی نہ کسی حوالے سے انڈین میڈیا میں موجود رہنا کوئی نئی بات نہیں اور اُن کی موت سے متعلق دعوے تو کافی پرانے ہیں۔
سنہ 2020 میں ایسی میڈیا رپورٹس سامنے آئیں جس میں کہا گیا کہ داؤد ابراہیم اور ان کی اہلیہ کووڈ 19 کا شکار ہوئیں اور کورونا ہی کے باعث داؤد ابراہیم کی موت ہو گئی ہے۔ تاہم اس خبر کی تردید داؤد کے بھائی انیس ابراہیم نے یہ کہتے ہوئے کی اُن کی فیملی میں کسی کو بھی کووڈ نہیں ہوا ہے۔
اس سے قبل سنہ 2017 میں داؤد کو دل کا دورہ پڑنے سے موت کا شکار ہونے کی بات سامنے آئی تھی اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انھیں کراچی کے ایک ہسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں ان کی موت ہو گئی۔ سنہ 2017 میں ہی دماغ میں موجود رسولی کے باعث بھی داؤد کی موت کی خبر بھی میڈیا کی زینت بنی۔
اسی طرح اس سے ایک سال قبل سنہ 2016 میں سوشل میڈیا پر خبر گردش کرنے لگی کہ داؤد ابراہیم کو گینگرین ہوا ہے اور ہائی بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر کے نتیجے میں ان کی ٹانگوں کو خون کی فراہمی نہیں ہو پا رہی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹروں کو شاید ان کی ٹانگیں کاٹنا پڑیں اور دعویٰ اس وقت بھی یہی تھا کہ داؤد کراچی میں زیر علاج ہیں۔
تاہم یہ سب دعوؤں تک ہی محدود رہا اور کبھی اس ضمن میں کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔
داؤد ابراہیم سے متعلق معاملے کو پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار میں آنے والی کمی نے بھی ہوا دی۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے اتوار کی شب ورچوئل جلسے کا انعقاد کیا تھا اور اسی دورانیے میں پاکستان میں انٹرنیٹ کی سپیڈ میں تعطل آیا تھا۔ تاہم انٹرنیٹ کے اسی مسئلے کو بہت سے انڈین صارفین نے ’داؤد ابراہیم کی موت کو راز‘ رکھنے سے تعبیر کیا۔
بہت سے صارفین نے ’نامعلوم افراد کی جانب سے زہر دیے جانے‘ کی بات کہتے ہوئے میمز شیئر کی اور نامعلوم شخص کے طور انڈیا کے وزیر اعظم مودی کی ویڈیو کلپس اور تصاویر شیئر کیں جبکہ بعضے نے انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں۔
آریا سنگھ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ہر انتخاب سے پہلے پاکستان میں مقیم ڈان کے مرنے کی خبر آ جاتی ہے۔۔۔ (ماضی میں) چار بار اعلان ہو چکا ہے کہ داؤد ابراہیم مارا گيا ہے۔ پچھلی بار 2019 کے انتخابات میں مار دیا گیا تھا اب پھر 2024 کے انتخابات سے قبل۔‘
خیال رہے کہ انڈیا میں سنہ 2024 میں عام انتخابات ہونے ہیں۔