ین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلنا جارجیوا نے گذشتہ دنوں پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ امیر طبقات پر ٹیکس عائد کرے جبکہ غریبوں کی حفاظت کرے۔ آئی ایم ایف کی اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے یہ بیان پاکستان کے نگراں وزیرا عظم انوارالحق کاکڑ سے چند روز قبل امریکہ میں ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
پاکستان اِس وقت آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام سے منسلک ہے جس کے تحت رواں برس جولائی میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط ملی تھی جبکہ دوسری قسط نومبر 2023 میں ملنے کی توقع ہے۔
نومبر میں اِس قرض کی اگلی قسط کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کا ایک وفد رواں ماہ (اکتوبر) کے آخر میں اس بات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گا کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد کر رہا ہے یا نہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ دوسری شرائط کے علاوہ ملک میں ٹیکس وصولی بڑھانے کی بھی ایک شرط ہے تاکہ اس کے ذریعے پاکستان کے بجٹ کے خسارے کو کم کیا جا سکے۔
اس شرط کے تحت زیادہ ٹیکس وصولی کے مختلف شعبوں اور طبقات پر ٹیکس لگانے کی بات کی گئی ہے تاہم ابھی تک پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کچھ ایسا ہے جس میں غریب طبقات پر ٹیکس کے بوجھ کی زیادہ شکایات ہیں جب کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں امیر طبقات پر ٹیکس کی وصولی کا بوجھ ان کی آمدن کے لحاظ سے نہیں ہے۔
پاکستان میں معیشت اور ٹیکس کے ماہرین کے مطابق ملک میں ٹیکس وصولی کے نظام میں غریبوں سے زیادہ ٹیکس وصولی کی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو تمام صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں تاہم غریبوں کی کم آمدن کی وجہ سے ان پر اس ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کا بہت زیادہ اضافی بوجھ پڑتا ہے۔
پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟
پاکستان میں وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پورے ملک میں ٹیکس وصولی کا کام کرتا ہے۔ اگرچہ صوبائی سطح پر ٹیکس وصولی کے ادارے کام کر رہے ہیں تاہم قومی سطح پر ایف بی آر ہی ٹیکس اکٹھا کرنے کا واحد ادارہ ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو دیکھا جائے تو اس میں انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کے ذریعے ٹیکس رقم یا محصولات کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان نے 7169 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا۔ یہ ٹیکس انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوئی اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اکٹھا کیا گیا۔
ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے ایگنایٹ پاکستان کو بتایا کہ پاکستان میں اس وقت ٹیکس وصولی میں ستر فیصد حصہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکس سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس صرف 30 فیصد ہے۔
پاکستان میں کون زیادہ ٹیکس دیتا ہے؟
ماہر ٹیکس امور ذیشان مرچنٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ملک کی آبادی لگ بھگ 24 کروڑ ہے جبکہ ٹیکس فائلرز کی تعداد محض 45 لاکھ ہے جس کے بعد عام افراد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہ 45 لاکھ لوگ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ مگر ایسا نہیں ہے۔
ٹیکس اُمور کے ماہرین کے مطابق اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر شہری اِس وقت ٹیکس دے رہا ہے جس کی بڑی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کا زیادہ ہونا ہے۔
ذیشان مرچنٹ کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ہر وہ شخص جو موبائل استعمال کر رہا ہے یا دکان پر جا کر کچھ خرید رہا ہے وہ سیلز ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادائیگی کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا جہاں تک بات ہے آمدن پر ٹیکس دینے کی تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ٹیکس نظام کے بارے میں عوام میں اعتماد کا فقدان ہے اور اس کے علاوہ ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں اور زیادہ شرح ٹیکس کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس دینے کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔
انھوں نے کہا اگر پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف دو فیصد لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں جسے کم از کم چار سے پانچ فیصد ہونا چاہیے تاکہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب متناسب ہو سکے۔
پاکستان میں کیا غریب امیروں سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں؟
پاکستان میں ٹیکس اور معیشت کے امورکے ماہرین کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیر طبقات پر ٹیکسوں کا بوجھ اس کے مقابلے میں کم ہے۔
ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا پاکستان میں اس وقت 30 فیصد ٹیکس آمدنی ڈائریکٹ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے جب کہ 70 فیصد تک ٹیکس ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے اکٹھا ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا ان ڈائریکٹ ٹیکس یقینی طور پر صارفین سے لیا جاتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں تاہم غریبوں کی محدود آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیروں کی زیادہ آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں پر اس طرح بوجھ نہیں پڑتا ہے جس طرح ایک غریب صارف جھیلتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو پاکستان میں آمدن میں اضافے کے باوجود لوگ زیادہ ٹیکس نہیں دیتے اور ٹیکس وصولی کا جو طریقہ کار نافذ ہے وہ کم آمدنی والے طبقات کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔
انھوں نے کہا اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ایک کنٹریکٹر یا ایک برآمد کنندہ یا درآمد کنندہ پر بھی جب ایڈوانس ٹیکس لگتا ہے تو وہ اسے اپنے منافع سے نکالنے کے بجائے آگے عام صارف کو منتقل کر دیتا ہے۔
ماہر معیشت حزیمہ بخاری نے اس سلسلے میں کہا امیروں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ اس وقت ہو سکتا ہے جب ڈائریکٹ ٹیکسوں کا نفاذ زیادہ ہو اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کم ہو۔ انھوں نے کہا جو ٹیکس قوانین اس وقت موجود ہیں ان میں بھی ان ڈائریکٹ ٹیکسوں پر زیادہ زور ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکس اس شرح سے اکٹھے نہیں ہو رہے جتنا ان کا ملک میں پوٹیشنل ہے۔
پاکستان میں شعبہ جاتی ٹیکس کی کیا صورتحال ہے؟
پاکستان میں مختلف شعبوں کی جانب سے ٹیکس جمع کرانے کی صورتحال کو لیا جائے تو ملک میں معیشت کے مختلف شعبوں کی جانب سے ٹیکس جمع کرانے کی شرح مختلف ہے۔ پاکستان میں صنعتی شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ 20 فیصد ہے تاہم اس کی ٹیکس میں حصہ 28 فیصد ہے۔
زراعت کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 28 فیصد ہے تاہم اس کی جانب سے جمع کروائے جانے والے ٹیکس کی شرح بمشکل ایک فیصد ہے۔ اسی طرح ملک میں ہول سیل اور ریٹیل شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 19 فیصد ہے تاہم اس شعبے سے اکھٹا ہونے والے ٹیکس شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
ڈاکٹر اکرام نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان میں زرعی شعبے کی جانب سے ٹیکس میں حصہ بمشکل محض تین ارب روپے تک ہے۔ انھوں نے کہا اگرچہ صنعتی شعبے کی جانب سے بھی بعض اوقات کم ٹیکس ادا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاہم پھر بھی اس کی جانب سے زرعی شعبے کے مقابلے میں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ایک مقامی ٹیکس فرم کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایک زرعی شعبے کا فرد جس کی سالانہ آمدن ڈھائی کروڑ تک ہے وہ تو فقط چند ہزار روپے ٹیکس ادا کر رہا ہے تاہم دوسری جانب ایک صنعتی ادارے کا فرد جس کی سالانہ آمدن کم و بیش یہی ہے اسے چالیس لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔