’بچے سکول جاتے ہیں مگر پڑھائی ہی نہیں ہوتی۔ استاد کہتے ہیں کہ ہماری پینشن میں کمی کرنے کے علاوہ سکولوں کو پرائیوٹ کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے ہڑتال جاری ہے۔‘
یہ کہنا ہے کہ شاہد خان کا جو پنجاب کے ضلع راولپنڈی کے علاقے ٹینچ بھاٹہ کے رہائشی ہیں اور ان کے دو بچے مقامی سرکاری سکول کے طالب علم ہیں۔
شاہد خان کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ تو صبح اپنی مزدوری پر چلے جاتے ہیں۔ بچے سارا دن گلیوں میں کھیلتے رہتے ہیں۔ پڑھائی تو بالکل ہی ختم ہو گئی ہے۔‘
ایسی صورتحال کا سامنا صرف شاہد خان کو ہی نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کے تقریباً 47700 سرکاری سکولوں میں جانے والے تمام بچوں کے والدین کو بھی ہے۔ پنجاب کے سرکاری سکولوں کے تین لاکھ سے زائد اساتذہ کی ہڑتال اور احتجاج ہے۔
سرکاری سکول کے اساتذہ کا دعویٰ ہے کہ نگران حکومت صوبے بھر کے تقریباً دس ہزار سکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنے جا رہی ہے جس سے ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ تاہم صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے اس دعوے کو ’پراپیگنڈا‘ قرار دیا ہے۔
اساتذہ کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟
پنجاب ٹیچر یونین کے جنرل سیکریٹری رانا لیاقت علی نے بی سی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کا سلسلہ جون، جولائی سے شروع کیا اور ہم پُرامن احتجاج کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ نگران حکومت ہمارے مطالبات پر ہمدردی سے غور کرے گی۔ مگر انھوں نے ایم پی او قانون کے تحت اساتذہ کو جیلوں میں ڈال دیا۔ ہمارے احتجاج پر تشدد کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سکولوں میں پڑھانا چاہتے ہیں مگر حکومت پتا نہیں کیا کر رہی ہے اور کیا چاہتی ہے۔ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوں گے ہمارے لیے سکولوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہے۔‘
رانا لیاقت علی کے مطابق سرکاری سکول ٹیچرز کے تین بنیادی مطالبات ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ ریٹائرمنٹ کے وقت ملنے والی پینشن اور دیگر مراعات میں کمی نہ کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے ہماری پینشن اور دیگر مراعات ریٹائرمنٹ کے وقت کے بنیادی سکیل کی تنخواہ کی بنیاد پر دی جاتی تھی۔ اب حکومت اس میں کمی لاتے ہوئے ملازمت کے وقت ملنے والی پہلی بنیادی سکیل کی تنخواہ کے حساب سے مقرر کرنے جا رہی ہے۔‘
رانا لیاقت علی کہتے ہیں کہ اس سے پینشن اور دیگر مراعات کے علاوہ ریٹائرمنٹ پر دی جانے والی 12 ماہ کی تنخواہ میں ساٹھ سے ستر فیصد کی کمی پیدا ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سالانہ ترقی ہر سال یکم دسمبر کو ملتی تھی اس کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔‘ انھوں نے نگران حکومت کے اس منصوبے پر ناراضی ظاہر کی۔
رانا لیاقت علی کا دعویٰ تھا کہ نگران حکومت نے کچھ عرصہ قبل صوبہ بھر کے تقریباً دس ہزار سکولوں کو متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا تھا کہ اس میں بہتری لائے جائے۔ مگر یہ پہلا قدم تھا اب اس کے بعد ان سکولوں کو ’این جی اوز اور نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے۔‘
’یہ صرف پراپیگنڈا ہے‘
پنجاب حکومت کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت کسی بھی سکول کو پرائیوٹ نہیں کر رہی ہے اور نہ ہی کسی سرکاری عمارت یا ادارے کو پرائیوٹ کیا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ تو صرف اور صرف پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت اور نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سرکاری سکولوں کی حالت زار اور معیار کو بہتر کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
تاہم ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق نگراں وزیرا علیٰ پنجاب محسن نقوی نے صوبے کے ایک ہزار سرکاری سکول غیر سرکاری ادارے مسلم ہینڈز کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم رانا لیاقت علی کہتے ہیں کہ گورنمنٹ سکولوں کو این جی اوز اور نجی شعبے کے حوالے کرنے سے ’ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی جنم لے گی۔ حکومت کے اس اقدام سے غریب لوگوں کے بچوں سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھن جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ این جی اوز اور نجی شعبہ بچوں سے بے تحاشا فیس وصول کرے گا۔ ’حکومت کے سکولوں کی عمارتوں کی مالیت اربوں، کھربوں روپے سے زیادہ ہے۔ نجی شعبہ اور این جی اوز ان عمارتوں اور انتہائی قیمتی انفراسٹریکچر پر قابض ہو جائے گا۔‘
رانا لیاقت علی کا کہنا تھا کہ اس وقت صوبے میں ’ہمارے اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں دس ہزار سکولوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جس کے بعد مرحلہ وار یہ کام کیا جائے گا۔
’اس میں کوئی شفافیت نہیں ہے۔ کچھ پتا نہیں ہے کہ حکومت کن شرائط پر یہ کام کر رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تحریری طور پر بھی ان تحفظات سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد جون، جولائی میں احتجاج شروع ہوا۔ ’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ہمارے ساتھ بات کرتی مگر اس نے ہمارے رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت پنجاب میں ستر ہزار سے زائد طالب علم سکولوں سے باہر ہیں۔ ’حکومت جو چاہے کر لے، ہم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حکومت کو پنجاب کے اساتذہ اور عوام کے ساتھ زیادتی نہیں کرنے دیں گے۔ اس کے لیے ہمارا پرامن احتجاج جاری رہے گا۔‘
کیا واقعی پنجاب کے سرکاری سکول این جی اوز کے حوالے کیے جا رہے ہیں؟
غیر سرکاری تنظیم مسلم ہینڈز کے ترجمان ریحان طاہر کے مطابق پنجاب حکومت نے مسلم ہینڈ کو سکول 2015 میں تعلیمی اداروں کے درمیان پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت دیے ہیں جس کے تحت وہ کسی بھی سرکاری انفراسٹریکچر کے مالک نہیں بنے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے سکولوں کا انتظام سنبھالا ہے، ہم عمارتوں کے مالک نہیں ہیں۔‘
ریحان طاہر کا کہنا تھا کہ سکولوں کو این جی اوز کے حوالے کرنے کی پالیسی پرانی اور سابقہ حکومتوں کے دور سے چل رہی ہے۔ ’سرکاری سکول، اس کی عمارتیں، سٹاف سب کچھ موجود ہے مگر سکولوں کے معیار میں بہتری نہیں آ رہی ہے جس پر حکومت پنجاب نے مختلف ادوار میں مختلف سکیمیں شروع کی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی کے تحت صرف مسلم ہینڈ ہی نہیں بلکہ 29 مزید غیر سرکاری اداروں کو بھی سکولوں کا انتظام دیا گیا ہے۔ 2017 میں مسلم ہینڈ کو آغاز میں 30 سکول دیے گئے تھے۔ ’ان سکولوں کی کارگردگی کو شاندار پایا گیا تو حکومت ہی کی خواہش پر اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں دو سو سکولوں کا انتظام مسلم ہینڈز کے پاس ہے۔‘
ریحان طاہر کا کہنا تھا کہ ’پہلے حکومت ہمیں ہر طالب علم کی سبسڈی میں سات سو روپے دیتی تھی۔ اب اس وقت یہ پندرہ سو روپے فی طالب علم ہے۔ اس کے علاوہ ہم اپنے مختلف ڈونرز سے سکولوں کے لیے عطیات وصول کرتے ہیں اور ان کو سکولوں پر خرچ کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق بچوں اور ماں باپ سے کوئی بھی فیس وصول نہیں کی جاتی ہے بلکہ جس علاقے میں سکول مسلم ہینڈز کے پاس ہوتا ہے، وہاں پر فلاح کے کام بھی کیے جاتے ہیں۔
مسلم ہینڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید جاوید گیلانی کہتے ہیں کہ یہ تاثر دینا کہ مسلم ہینڈ کے پاس انتظامی طور پر موجود سکولوں کا مقصد کوئی کاروبار ہے تو یہ انتہائی غلط ہے۔
’ہم فلاحی تنظیم ہیں فلاح کے لیے کام کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ہمیں جو فی طالب علم کے حساب سے سبسڈی ملتی ہے وہ کبھی بھی سکولوں کا انتظام بہتر کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے انتظام سے پہلے جو حکومت کے اساتذہ موجود تھے، حکومت نے ان کو دیگر سکولوں میں تعنیات کیا۔ کسی کو بھی ملازمت سے فارغ نہیں کیا گیا تھا۔‘
سید جاوید گیلانی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنے وسائل سے سکولوں کے انفراسٹریکچر کو بہتر کیا۔ وہاں پر طالب علموں کے لیے ہر ایک سہولت مہیا کی۔ اگر کسی سکول کی عمارت میں کلاس روم کم تھے تو کلاس روم بنائے۔ پانی، ٹوائلٹ ہر سہولت فراہم کی ہیں اور جو بھی انفرسٹریکچر کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں وہ حکومت ہی کی ملکیت ہے مسلم ہینڈز کی نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے والدین کو بچوں کو سکول بھیجنے پر قائل کیا اور ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا سکولوں میں طلبہ کی تعداد بڑھ گئی۔ ’صرف حاضری ہی بہتر نہیں ہوئی بلکہ معیار تعلیم کو بھی بہتر کیا جس کا حکومت اور اس کے علاوہ ہمارے ڈونرز مکمل طور پر معائنہ کرتے ہیں۔‘
سید جاوید گیلانی کا کہنا تھا کہ ان دو سو سکولوں کی کارگردگی کی بنیاد پر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبے کے مزید ایک ہزار ایسے سکول، جہاں پر انتظامی معاملات درپیش ہیں، مسلم ہینڈز کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
’ابھی یہ سکول ہمیں ملے نہیں ہیں اور نہ ہی ابھی کوئی معاہدہ ہوا ہے۔ ابھی معاہدہ ہونا باقی ہے۔‘