سائنسدانوں کا خیال ہے کہ خون کے ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ انسان کے اندرونی اعضا کتنی تیزی سے بوڑھے ہو رہے ہیں اور یہ بھی پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ کون سے اعضا جلد کام کرنا بند کرجائیں گے۔
یہ تحقیق امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کی گئی۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ دل، دماغ اور پھیپھڑوں سمیت جسم کے 11 اعضا کی صحت کی نگرانی کر سکتے ہیں۔
نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ 50 سال سے زائد عمر کے ہر پانچ میں سے ایک صحت مند بالغ شخص کا کم از کم ایک عضو تیزی سے بوڑھا ہورہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اگلے 15 سال کے اندر ان کے ایک عضو میں بیماری پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔
اور ہر 100 میں سے ایک یا دو افراد کے کئی اعضا ان کی سالگرہ کی عمر سے زیادہ بوڑھے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس تحقیق کے نتائج کچھ لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہوسکتے ہیں لیکن یہ طبی لحاظ سے اہم ہے۔
انسان کی عمر دو طریقوں سے بڑھتی ہے، پہلی وہ عمر جس کے مطابق آپ اپنی سالگرہ مناتے ہیں اور دوسری عمر آپ کی صحت پر منحصر ہے جسے ’بائیولوجیکل عمر‘ کہتے ہیں، سائنسدان آپ کے جسم میں بائیولوجیکل علامات کا مطالعہ کرکے بتاسکتے ہیں کہ آپ کی بائیولوجیکل عمر کیا ہے۔
اسٹینفورڈ میڈیسن کے محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان افراد کی اصل عمر کے علاوہ ان کی بائیولوجیکل عمر کیا ہے، اس کے لیے محققین نے ان افراد کےخون میں موجود پروٹینز کا مطالعہ کیا۔
محققین نے خون کے ٹیسٹ کے نتائج اور مریض کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے مشین لرننگ الگورتھم کا بھی سہارا لیا۔
جس طرح دل کا دورہ ہونے سے انسان موت کے منہ میں جاسکتا ہے اسی طرح دماغ کے مسلز تیزی سے بوڑھے ہورہے ہوں تو ڈیمنشیا کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
محققین کی ٹیم نے 11 اہم اعضا کے خون کا ٹیسٹ کا تجربہ کیا جن میں دل، دماغ، چربی، پھیپھڑے، مدافعتی نظام، جگر، مسلز، لبلبہ، ویسکولیچر اور آنتیں شامل تھیں۔
تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ انسانی جسم کے ایک یا زیادہ اعضا میں اگلے 15 سالوں کے دوران سنگین بیماریوں کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
اسٹینفورڈ میں نیورولوجی کے پروفیسر اور مصنف ڈاکٹر ٹونی وِس کا کہنا ہے نتائج سے معلوم ہوا کہ 50 سال کی عمر یا اس سے زیادہ عمر کے 18.4 فیصد افراد میں کم از کم ایک عضو تیزی سے بوڑھا ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان افراد کو اگلے 15 سالوں میں ان مخصوص عضو میں بیماری کا زیادہ خطرہ ہے۔
ڈاکٹر ٹونی وِس کا کہنا ہے کہ اگر ہم یہ تحقیق بڑے پیمانے پر کریں تو لوگوں کے بیمار ہونے سے پہلے ان کا علاج کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔