Vehicle

Punjab is introducing smart card for Vehicle Registration

گاڑی مالکان کیلئے سب سے بڑی خوشخبری آ گئی

محکمہ ایکسائز نے گاڑیوں کے رجسٹریشن کارڈ کی فراہمی میں تاخیر سے نمٹنے کیلئے ورچوئل سمارٹ کارڈ متعارف کروانے کا فیصلہ کر لیاہے جس سے مالکان کو فوری طور پرآن لائن سمارٹ کارڈ فراہم کر دیا جائے گی ۔ محکمہ نے فزیکل کارڈز کی پروسیسنگ میں ایک ماہ تک کی ممکنہ تاخیر کو تسلیم کیا، اس کی وجہ ٹینڈرنگ کے عمل میں مسائل ہیں۔محکمہ کی جانب سے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس عمل کو تیز کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور بشمول ورچوئل سمارٹ کارڈ کے متبادل حل تلاش کر رہا ہے۔اس سلسلے میں محکمے نے ورچوئل سمارٹ کارڈ اسکیم کے نفاذ کے لیے منظوری کے لیے صوبائی حکومت کو باضابطہ درخواست جمع کرادی ہے۔ منظوری کے بعد، گاڑیوں کے مالکان رجسٹریشن کے مطلوبہ طریقہ کار کو مکمل کرکے اپنے ورچوئل سمارٹ کارڈ آن لائن حاصل کر سکیں گے۔ ان کارڈز کو محکمہ ایکسائز کی آفیشل ویب سائٹ سے باآسانی ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ورچوئل سمارٹ کارڈز میں فزیکل کارڈز جیسی تمام معلومات شامل ہوں گی۔

گاڑی مالکان کیلئے سب سے بڑی خوشخبری آ گئی Read More »

Lahore Collision of Vehicle in DHA

لاہور میں گاڑی کی ٹکر سے چھ افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟

پاکستان کے شہر لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں حال ہی میں ایک گاڑی کی ٹکر سے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کے ہلاک ہونے کے واقعے کے مقدمے میں پولیس نے ملزم کے خلاف قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف یہ دونوں دفعات مرنے والوں کے لواحقین کی درخواست پر مقدمے میں شامل کی گئی ہیں۔ تاہم ملزم کے وکیل نے پولیس کے اس اقدام کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے فیز 7 میں گذشتہ سنیچر کو ایک تیز رفتار گاڑی نے دوسری گاڑی کو ٹکر ماری، جس میں سوار ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ابتدا میں پولیس کا کہنا تھا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کو چلانے والا کم عمر ڈرائیور تھا جو گاڑی چلانے یا لائسنس رکھنے کا اہل نہیں تھا۔ اس وقت پولیس نے اس واقعے کو ٹریفک حادثہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر درج کی تھی، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 279 اور 322 لگائی گئی تھیں۔ یہ دفعات ٹریفک حادثے کی صورت میں دیت کے حوالے سے ہیں۔ اس میں ملزم کے باآسانی رہا ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ خیال رہے کہ اس مقدمے میں اس وقت پولیس نے پی پی سی کی دفعہ 320 نہیں شامل کی تھی۔ دفعہ 320 کے تحت ’لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہوئے نقصان کرنے کی صورت میں ملزم کو دیت کے ساتھ ساتھ دس سال تک سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘ اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟ اس واقعے کا مقدمہ تھانہ ڈیفنس سی سے کاہنہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق مقدمے میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات مدعی مقدمہ کی درخواست پر شامل کی گئی ہیں جنھوں نے پولیس کو نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ ہلاک ہونے والے چھ افراد میں سے ایک کے والد رفاقت علی مدعی مقدمہ ہیں۔ لاہور پولیس کے مطابق انھوں نے نئی معلومات میں پولیس کو بتایا ہے کہ واقعے سے قبل ملزم کی ان کے بیٹے سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔ مدعی نے پولیس کو بتایا ہے کہ ’میرے بیٹے نے اور میں نے گاڑیاں روک کر ملزم کو منع کیا تھا کہ وہ ہماری گاڑیوں کا پیچھا نہ کرے کیونکہ وہ کافی فاصلہ سے اس گاڑی کا تعاقب کر رہا تھا جس میں خواتین بھی سوار تھیں۔’ مدعی نے پولیس کو بتایا کہ منع کرنے پر ملزم نے ان کو دھمکایا اور ان کا تعاقب جاری رکھا۔ مدعی کے مطابق اس کے بعد ہی ملزم نے تیز رفتاری سے اپنی گاڑی کی ٹکر اس گاڑی کو ماری جس میں ان کا بیٹا اور خاندان کے پانچ دیگر افراد سوار تھے۔ مدعی مقدمہ نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ ملزم اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ دو افراد گاڑی میں اور بھی سوار تھے؟ کیا ملزم کو کم عمر ملزم تصور کیا جا رہا ہے؟ پولیس کی طرف سے نئی دفعات مقدمے میں شامل کرنے کے خلاف ملزم نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ان کے وکیل کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کی عمر 17 سال کے لگ بھگ ہے اور اس لیے وہ قانونی طور پر جووینائل یا کم عمر ملزم تصور ہونے چاہئیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست میں ملزم کے وکیل نے موقف اپنایا ہے کہ ‘یہ واقعہ ایک ٹریفک حادثہ تھا جو پولیس اپنی پہلی ایف آئی آر میں کہہ چکی ہے اور ٹریفک حادثے کے نتیجے میں چھ لوگوں کی اموات ہوئی۔’ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلی محسن نقوی کے حکم پر پولیس نے ایف آئی آر میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کی ہیں۔ ‘پولیس کے اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے اور ملزم کو اس کے تمام آئینی حقوق فراہم کیے جائیں۔’ انھوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان حقوق میں منصفانہ ٹرائل کا بنیادی حق بھی شامل ہے۔ ‘جووینائل ہونے کے ناطے ملزم کو جووینائل عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور اسی جیل میں رکھا جانا چاہیے تاہم ایسا نہیں کیا گیا جو ملزم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘ عدالت نے ان کی درخواست پر پولیس سے جواب طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ ملزم 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں قید ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق ملزم کی حقیقی عمر کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں، جس وجہ سے پولیس ان کی عمر کا تعین کرنے کے لیے ٹیسٹ کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کم عمر بچے ڈرائیونگ کیوں کرتے ہیں؟ پاکستان یا لاہور میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں کوئی کم عمر ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے حادثے کا سبب بنا ہوا۔ لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز نے ایگنایٹ پاکستان  سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کم عمر ڈرائیورز لاہور پولیس کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک پولیس 20 ہزار سے زیادہ کم عمر ڈرائیورز کے چالان کر چکی ہے۔ ’ان میں زیادہ تر کاریں اور موٹر سائیکلیں وغیرہ شامل ہیں اور اس نوعیت کے جرائم زیادہ تر شہر کے پوش علاقوں سے سامنے آتے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر واقعات میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم عمر ڈرائیورز وہ ہوتے ہیں جو شوقیہ گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں۔ ’یہ ممکن نہیں کہ سکول آنے جانے والے بچوں کے لیے پرائیویٹ یا پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی نہ ہو۔ یہ زیادہ تر وہ بچے ہوتے ہیں جو شوق سے ڈرائیونگ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے تو اس میں کوئی مجبوری کا عنصر بظاہر نہیں ہوتا۔‘ سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز نے بتایا کہ ٹریفک پولیس اس حوالے کم عمر ڈرائیورز کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی مہمات چلاتی رہتی ہے جو اس نوعیت کے جرائم کو روکنے کا ایک طریقہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ لاہور میں 70 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں ہیں جبکہ دوسری

لاہور میں گاڑی کی ٹکر سے چھ افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟ Read More »

Motorway M-Tag

موٹروے پر گاڑیوں کو ایم ٹیگ لگوانے کی آخری تاریخ 31 دسمبر: این ایچ اے

  نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے سوموار کو اعلان کیا ہے کہ بغیر ایم ٹیگ کے سفر کرنے والی گاڑیاں 31 دسمبر تک ایم ٹیگ لگوا لیں ورنہ ان کا موٹروے پر نہ صرف داخلہ ممنوع ہو گا بلکہ انہیں جرمانہ بھی ہو گا۔ پاکستان میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے سوموار کو اعلان کیا ہے کہ موٹروے پر بغیر ایم ٹیگ کے سفر کرنے والی گاڑیاں 31 دسمبر تک ایم ٹیگ لگوا لیں ورنہ ان کا موٹر وے پر نہ صرف داخلہ ممنوع ہو گا بلکہ انہیں جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ فرنٹیر ورکس آرکنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کی ذیلی کمپنی ون نیٹ ورک کے چیف پراجیکٹ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) فیصل نواز نے ایگنایٹ پاکستان  سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت 25 لاکھ گاڑیوں کو ایم ٹیگ لگا ہے جبکہ ہمارا ہدف مزید 50 لاکھ گاڑیوں کو ایم ٹیگ کے نیٹ ورک میں لانا ہے۔‘ ان کے مطابق ’اسلام آباد سے لاہور ایم ٹو موٹر وے پر روزانہ تقریباً سوا لاکھ گاڑیاں سفر کرتی ہے۔ ٹول پلازہ پر جن گاڑیوں کو ایم ٹیگ لگا ہوتا ہے وہ با آسانی چند لمحوں میں نکل جاتی ہیں جس کی وجہ سے رش سے بچا جا سکتا ہے اور وقت کی بچت ہوتی ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کا فائدہ یہ ہے کہ ٹول پلازہ پر نقد رقم اکٹھی نہیں ہوگی بلکہ وہ بینک ٹو بینک ٹرانسفر ہو جائے گی۔‘ ان کے مطابق ’ون نیٹ ورک ایپ کی مدد سے آپ اپنا ایم ٹیگ چارج بھی کر سکیں گے۔‘ ایم ٹو پر واقع اسلام آباد ٹول پلازہ پر ایم ٹیک لگانے کی زمہ داری ادا کرنے والے ایک اہلکار اشتیاق احمد نےایگنایٹ پاکستان  کو بتایا کہ ’اوسط 40 سے 50 گاڑیوں پر یومیہ ایم ٹیگ لگانے کا سلسلہ جاری ہے تاہم ابھی انتظامیہ کی جانب سے انتظامیہ کی جانب سے ڈیڈ لائن کے اعلان کے باوجود اس تعداد میں اضافی نہیں ہوا۔‘ اشتیاق نے ایم ٹیگ لگوانے کا طریقہ کار بتاتے ہوئے کہا کہ ’پہلے ایم ٹیگ لگوانے کے لیے شناختی کارڈ کافی تھا مگر اب اس کے ساتھ گاڑی کا رجسٹریشن سمارٹ کارڈ ہونا بھی لازمی ہے ورنہ ٹیگ نہیں لگے گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’نیا ایم ٹیگ لگوانے کی فیس تو 200 روپے ہیں لیکن اس میں بیلنس گاڑی کا مالک اپنی ضرورت کے مطابق جمع کرواتے ہیں۔‘ اشتیاق احمد نے مزید بتایا کہ ’ایم ٹو پر ایم ٹیگ لگوانے اور اس کا بیلنس چارج کرنے کے لیے چند مقامات پر کاونٹرز بنائے گئے ہیں۔‘ ان کے مطابق ’اگر ایم ٹیگ میں جمع کروایا بیلنس ختم ہو جائے تو ان کاؤنٹرز سے ری چارج کروایا جا سکتا ہے جبکہ اس حوالے سے ایک ایپ ایم ٹیگ ون نیٹ ورک بھی بنا دی گئی ہے جس سے ضرورت کے مطابق بیلنس کسی بھی وقت ری چارج ہو سکتا ہے۔‘ ایگنایٹ پاکستان نے اس حوالے سے موٹر وے پر سفر کرنے والے گاڑی مالکان سے پوچھا جنہوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔ بیشتر کا کہنا تھا کہ ’ایم ٹیگ ایک اچھی سہولت ہے جس سے ٹول پلازہ پر رکنا نہیں پڑتا۔ اگر جیب میں پیسے نہ بھی ہوں میں تب بھی با آسانی ایپ کے ذریعے اپنا ایم ٹیگ ری چارج کر سکتے ہیں۔‘ کچھ افراد کا کہنا تھا کہ ’ایک تو ایڈوانس میں پیسے جمع کروانے پڑتے ہیں، کبھی یہ نہیں معلوم ہوتا کہ بیلنس کتنا ہے اور وہیں سے ری چارج کروانا پڑتا ہے جس میں وقت اتنا ہی لگ جاتا ہے جتنا بغیر ایم ٹیگ کے ٹول پلازہ سے گزرنے میں لگتا ہے اس لیے نیٹ وصولی اور ایم ٹیگ دونوں آپشنز موجود ہونے چاہییں ایم ٹیگ کیا ہے؟ موٹروے پولیس کے ترجمان یاسر محمود نے ایگنایٹ پاکستان  کے نمائندہ اظہار اللہ کو بتایا کہ ایم ٹیگ ایک قسم کی چپ ہے جو گاڑی کی فرنٹ ونڈ سکرین کی دائیں طرف لگائی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ایم ٹیگ کو اصل میں ایک ریڈیو فریکونسی آئی ڈنٹیفیکیشن (آر ایف آئی ڈی)  ٹیکنالوجی پر چلایا جاتا ہے جس کو موٹروے انٹرچینج پر لگے بوتھ میں سکینر کے ذریعے سکین کیا جاتا ہے۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس کی مثال اس طرح ہے جس طرح آپ کے شناختی کارڈ کو کسی سکیورٹی چیک پوانٹ پر سکین کیا جاتا ہے اور وہاں پر آپ کا تمام ریکارڈ سامنے آجاتا ہے۔‘

موٹروے پر گاڑیوں کو ایم ٹیگ لگوانے کی آخری تاریخ 31 دسمبر: این ایچ اے Read More »