’پیارے پنجابیو ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں‘
دنیا بھر میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کوئی نہ کوئی ٹرینڈ چلنے کی ریت غیر معمولی نہیں ہے۔ کسی دور میں ’آئس بکٹ‘ چیلنج کا ٹرینڈ چل نکلا تو کبھی ’ٹین ایئرز‘ چیلنج نے سوشل میڈیا صارفین کو اپنے حصار میں لیے رکھا۔ مگر کچھ ممالک میں سوشل میڈیا پر خطرناک سٹنٹس کرنے کے ٹرینڈز بھی دیکھنے آئے اور بعدازاں ان سٹنٹس کرنے والوں نے نہ صرف اس سے اپنے فالورز اور ویوز کی تعداد میں اضافہ کیا بلکہ اس کے ذریعے آمدن بھی کمائی۔ ایسا ہی ایک خطرناک ٹرینڈ آج کل انڈیا کے صوبے پنجاب میں چل رہا ہے جہاں پنجابی کسان اپنے ٹریکٹرز پر خطرناک سٹنٹس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس خطرناک رحجان نے مقامی سطح پر اس قدر مقبولیت حاصل کر لی ہے کہ اب یہ سوشل میڈیا سے نکل کر مقامی سطح پر منعقدہ میلوں ٹھیلوں کا بھی حصہ بن گئے ہیں۔ حال ہی میں انڈین پنجاب کے شہر گرداس پور کے علاقے فتح گڑھ میں ایک مقامی میلے میں ٹریکٹر سٹنٹ کرتے ہوئے ایک 29 سالہ سکھ مندیپ نامی نوجوان کی موت ہو گئی۔ وہ میلے میں ٹریکٹر کو بنا ڈرائیور کے صرف پچھلے پہیوں پر گھمانے کا کرتب دکھا رہے تھے اور جب وہ اس ٹریکٹر کو کنٹرول کرنے کے لیے اس پر سوار ہونے لگے تو گھومتے ٹریکٹر کی زد میں آ کر شدید زخمی ہوئے اور بعدازاں ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی 30 سیکنڈ کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ مندیپ سنگھ کو ٹریکٹر پر خطرناک کرتب کرنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ ان کے انسٹاگرام پر 14 ہزار کے قریب فالوورز تھے اور وہ گذشتہ چھ سالوں سے یوٹیوب پر اپنی کرتبوں کی ویڈیوز بھی اپ لوڈ کر رہے تھے۔ انھوں نے اس سے قبل مختلف پنجابی گانوں کی ویڈیوز کے لیے بھی سٹنٹ کیے ہیں۔ اس واقعے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے ٹریکٹرز کے خطرناک سٹنٹ یا کرتب کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اس بارے میں لکھا کہ ’پیارے پنجابیو، ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں، پنجاب میں ٹریکٹر اور متعلقہ آلات کے ساتھ کسی بھی قسم کے سٹنٹ یا خطرناک کرتب پر پابندی ہے۔‘ ٹریکٹرز سٹنٹ کا رجحان کیا ہے؟ اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر انڈین پنجاب میں ٹریکٹروں پر کرتبوں کے رجحان پر بحث شروع ہو گئی ہے۔ بہت سے لوگ اسے مکمل طور پر روکنے کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جیسے جیسے پنجاب میں ٹریکٹر سٹنٹس کا رجحان بڑھا ہے، اسی طرح یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا پر بہت سے سٹنٹ پرفارمرز اور ان کی ویڈیوز اور ان کے سامعین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔’ ’ریبل ولاگ‘ نامی یوٹیوب چینل چلانے والے ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ رجحان گذشتہ چھ سات سال سے شروع ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ صرف پنجاب میں ایسے سٹنٹس کرنے والے افراد کی تعداد 30 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔ ترم سنگھ بھی اپنے ٹریکٹر پر کرتب کرتے ہیں۔ ان کے یوٹیوب چینل پر تقریباً 75 ہزار سبسکرائبر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے موسیقار کے طور پر کام کرتے تھے اور دو سال پہلے سے بطور پروفیشنل اسٹنٹ مین کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انھیں سٹنٹس کرنے کے لیے فلم ’فاسٹ اینڈ فیوریس‘ سے تحریک ملی، یہ ایک مونسٹر ٹرک سٹنٹ ہے جسے غیر ملکیوں نے کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سٹنٹس کرنے سے پہلے مناسب حفاظتی معلومات کا ہونا اور مخصوص ہدایات پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔‘ ٹریکٹر سٹنٹس کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ ترم سنگھ نے کہا کہ یہ ٹرینڈ سب سے پہلے پنجاب کے ایک اسٹنٹ مین نے شروع کیا جس کا نام ’ہیپی مہالا‘ ہے۔ انھوں نے بڑے ایونٹس میں سٹنٹ بھی کیے، ان کی ویڈیوز بہت مشہور ہوئیں۔ ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ اس رجحان میں گذشتہ چار پانچ برسوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ مشہور ہونے یا اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے اس طرف آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ ٹریکٹر گاڑیوں کے مقابلے سستے ہیں اس لیے لوگوں کے لیے کرتب دکھانے کے لیے ٹریکٹر خریدنا آسان ہے۔ ترم سنگھ بتاتے ہیں کہ یہ سٹنٹ اکثر کبڈی کپ یا گاؤں کے میلوں کے دوران کروائیں جاتے ہیں، بعض اوقات صرف منتظمین ہی سٹنٹ کراتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہر سٹنٹ مین 15 منٹ کا سٹنٹ کرنے کے 15 ہزار سے 60 ہزار روپے تک وصول کرتا ہے۔ ٹریکٹر سٹنٹ کے دوران حادثات کی وجہ کیا؟ ترم سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک خطرناک کام ہے۔ کہ بہت سے لوگ بغیر تربیت کے کرتب کرتے ہیں یا مقبولیت حاصل کرنے کے بعد حفاظتی اقدامات کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے حادثات عام ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ ہم کرتب کرتے وقت ٹریکٹر سے نہ اتریں۔ جب ہمیں اترنا ہوتا ہے تو ہم اس کی رفتار کو کم کر کے اترتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ سٹنٹ کے لیے استعمال ہونے والے ٹریکٹر میں حفاظت کے لحاظ سے خصوصی تبدیلیاں کی جانی چاہییں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس امکان پر عمل کرتے ہیں جو زمین پر ہو سکتا ہے، کیونکہ زمین پر فیصلہ کرنے کے لیے بہت کم وقت ہوتا ہے۔ بیلوں کی جگہ ٹریکٹروں نے لے لی پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر راونکی رام کہتے ہیں کہ اوزار یا دیہی پیشوں سے متعلق کھیل شروع سے ہی دیہی معاشرے میں موجود ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے پنجاب کے دیہاتوں میں چنجھیاں ہوا کرتی تھیں، جن میں پہلوان اونچی چھلانگ لگاتے یا دیگر کرتب دکھاتے، اس کے ساتھ ساتھ بیلچہ اٹھانے یا اس طرح کے سٹنٹ کرنا ثقافت کا حصہ تھا۔ جدید دور میں بھی ٹریکٹر کو کھینچنے یا ٹریکٹر کو اپنے اوپر سے گزرنے جیسی حرکتیں ہوتی رہی ہیں۔ پہلے کسان اپنے بیلوں سے بہت پیار کرتے تھے،
’پیارے پنجابیو ٹریکٹر کو کھیتوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے، اسے موت کا فرشتہ نہ بنائیں‘ Read More »