taxes

Petroleum prices slashed down

پیٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی متوقع

ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی کا امکان ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی توقع ہے، فی بیرل 7 ڈالر کی ممکنہ کمی کے ساتھ۔ یہ کمی خلیجی منڈی میں ظاہر ہوتی ہے جہاں خام تیل کی قیمتیں 92 ڈالر فی بیرل اور عالمی مارکیٹ میں گر کر 84 ڈالر فی بیرل پر آ گئی ہیں۔ بین الاقوامی نرخوں کے مطابق پاکستان میں 16 اکتوبر سے پیٹرول کی قیمتوں میں تقریباً 22 روپے فی لیٹر کی نمایاں کمی متوقع ہے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 20 روپے فی لیٹر سے زیادہ کمی کا امکان ہے۔ مزید برآں، جب ڈالر کی شرح سے تبدیل کیا جائے تو پاکستان میں ایک بیرل تیل کی موجودہ قیمت 26,220 روپے کے لگ بھگ ہے۔ یہ 15 ستمبر کو 29,898 روپے فی بیرل کی قیمت سے نمایاں کمی ہے۔ واضح رہے کہ 30 ستمبر کو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے کمی کی تھی جس کے بعد نئی قیمت 323 روپے 38 پیسے فی لیٹر ہوگئی تھی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل بھی 11 روپے سستا کر دیا گیا، نئی قیمت 318.18 روپے مقرر کی گئی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی شرح تبادلہ میں بھی حال ہی میں 20 روپے سے زیادہ کی کمی دیکھی گئی ہے۔ مزید برآں، تقریباً 23 دن پہلے، مارکیٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی خاطر خواہ آمد تھی۔ اگر حکومت اضافی ٹیکس لگانے سے گریز کرتی ہے تو پیٹرولیم کی قیمتوں میں یہ کمی ممکنہ طور پر عوام کو نمایاں ریلیف دے سکتی ہے۔

پیٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی متوقع Read More »

Pakistan Taxes on Middle and lower middle class

پاکستان میں متوسط طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ امیروں سے زیادہ کیوں ہے؟

ین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلنا جارجیوا نے گذشتہ دنوں پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ امیر طبقات پر ٹیکس عائد کرے جبکہ غریبوں کی حفاظت کرے۔ آئی ایم ایف کی اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے یہ بیان پاکستان کے نگراں وزیرا عظم انوارالحق کاکڑ سے چند روز قبل امریکہ میں ہونے والی ملاقات کے بعد سامنے آیا ہے۔ پاکستان اِس وقت آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام سے منسلک ہے جس کے تحت رواں برس جولائی میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط ملی تھی جبکہ دوسری قسط نومبر 2023 میں ملنے کی توقع ہے۔ نومبر میں اِس قرض کی اگلی قسط کے اجرا سے قبل آئی ایم ایف کا ایک وفد رواں ماہ (اکتوبر) کے آخر میں اس بات کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گا کہ آیا پاکستان آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد کر رہا ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ دوسری شرائط کے علاوہ ملک میں ٹیکس وصولی بڑھانے کی بھی ایک شرط ہے تاکہ اس کے ذریعے پاکستان کے بجٹ کے خسارے کو کم کیا جا سکے۔ اس شرط کے تحت زیادہ ٹیکس وصولی کے مختلف شعبوں اور طبقات پر ٹیکس لگانے کی بات کی گئی ہے تاہم ابھی تک پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کچھ ایسا ہے جس میں غریب طبقات پر ٹیکس کے بوجھ کی زیادہ شکایات ہیں جب کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے مقابلے میں امیر طبقات پر ٹیکس کی وصولی کا بوجھ ان کی آمدن کے لحاظ سے نہیں ہے۔ پاکستان میں معیشت اور ٹیکس کے ماہرین کے مطابق ملک میں ٹیکس وصولی کے نظام میں غریبوں سے زیادہ ٹیکس وصولی کی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے جو تمام صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں تاہم غریبوں کی کم آمدن کی وجہ سے ان پر اس ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کا بہت زیادہ اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟ پاکستان میں وفاقی حکومت کا ماتحت ادارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پورے ملک میں ٹیکس وصولی کا کام کرتا ہے۔ اگرچہ صوبائی سطح پر ٹیکس وصولی کے ادارے کام کر رہے ہیں تاہم قومی سطح پر ایف بی آر ہی ٹیکس اکٹھا کرنے کا واحد ادارہ ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کے نظام کو دیکھا جائے تو اس میں انکم ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کے ذریعے ٹیکس رقم یا محصولات کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 30 جون 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان نے 7169 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا۔ یہ ٹیکس انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوئی اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں اکٹھا کیا گیا۔ ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے ایگنایٹ پاکستان  کو بتایا کہ پاکستان میں اس وقت ٹیکس وصولی میں ستر فیصد حصہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے جب کہ ڈائریکٹ ٹیکس سے اکٹھا ہونے والا ٹیکس صرف 30 فیصد ہے۔ پاکستان میں کون زیادہ ٹیکس دیتا ہے؟ ماہر ٹیکس امور ذیشان مرچنٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ملک کی آبادی لگ بھگ 24 کروڑ ہے جبکہ ٹیکس فائلرز کی تعداد محض 45 لاکھ ہے جس کے بعد عام افراد کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہ 45 لاکھ لوگ ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ مگر ایسا نہیں ہے۔ ٹیکس اُمور کے ماہرین کے مطابق اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر شہری اِس وقت ٹیکس دے رہا ہے جس کی بڑی وجہ ملک میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کا زیادہ ہونا ہے۔ ذیشان مرچنٹ کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ہر وہ شخص جو موبائل استعمال کر رہا ہے یا دکان پر جا کر کچھ خرید رہا ہے وہ سیلز ٹیکس کی مد میں حکومت کو ادائیگی کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا جہاں تک بات ہے آمدن پر ٹیکس دینے کی تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ٹیکس نظام کے بارے میں عوام میں اعتماد کا فقدان ہے اور اس کے علاوہ ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں اور زیادہ شرح ٹیکس کی وجہ سے پاکستان میں ٹیکس دینے کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ انھوں نے کہا اگر پاکستان کی آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف دو فیصد لوگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں جسے کم از کم چار سے پانچ فیصد ہونا چاہیے تاکہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب متناسب ہو سکے۔ پاکستان میں کیا غریب امیروں سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں؟ پاکستان میں ٹیکس اور معیشت کے امورکے ماہرین کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیر طبقات پر ٹیکسوں کا بوجھ اس کے مقابلے میں کم ہے۔ ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا پاکستان میں اس وقت 30 فیصد ٹیکس آمدنی ڈائریکٹ ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہے جب کہ 70 فیصد تک ٹیکس ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے اکٹھا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا ان ڈائریکٹ ٹیکس یقینی طور پر صارفین سے لیا جاتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں تاہم غریبوں کی محدود آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں کا بوجھ زیادہ ہے جب کہ امیروں کی زیادہ آمدنی کی وجہ سے ان پر ان ٹیکسوں پر اس طرح بوجھ نہیں پڑتا ہے جس طرح ایک غریب صارف جھیلتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دیکھا جائے تو پاکستان میں آمدن میں اضافے کے باوجود لوگ زیادہ ٹیکس نہیں دیتے اور ٹیکس وصولی کا جو طریقہ کار نافذ ہے وہ کم آمدنی والے طبقات کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ انھوں نے کہا اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ایک کنٹریکٹر یا ایک برآمد کنندہ یا درآمد کنندہ پر بھی جب ایڈوانس ٹیکس لگتا ہے تو وہ اسے اپنے منافع سے نکالنے کے بجائے آگے عام صارف کو منتقل کر دیتا ہے۔ ماہر معیشت حزیمہ بخاری نے اس سلسلے میں کہا امیروں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ

پاکستان میں متوسط طبقے اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ امیروں سے زیادہ کیوں ہے؟ Read More »